واقعۂ کربلا
 

امام حسین علیہ السلام مدینہ میں

* معاویہ کی وصیت
* معاویہ کی ہلاکت
* یزید کا خط ولید کے نام
* مروان سے مشورت
* قاصد بیعت
* امام حسین علیہ السلام مدینہ میں
* ا بن زبیر کا موقف
* امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر

امام حسین علیہ السلام مد ینہ میں
معاویہ کی وصیت(١)
طبری نے اپنی تاریخ میں جلد ٥،ص ٣٢٢پراس طرح ذکر کیا ہے : پھر ٦٠ ھ کا زمانہ آگیا ...اور اس سال معاویہ نے ان تمام لوگوں کو بلایا جو عبید اللہ کی ہمراہی میں وفد کی شکل میں یزید کی بیعت کے لئے لوگوں کودعوت دے رہے تھے ...ان تمام لوگوں کو بلا کر اس نے عہدو پیمان باندھے جسے ہشام بن محمد نے ابو مخنف کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ ہم سے عبد الملک بن نوفل بن مساحق بن عبداللہ بن مخرمہ نے بیا ن کیا ہے کہ معاویہ جس مرض الموت میں ہلاک ہوا اسی مرض کی حالت میں اس نے اپنے
..............
١۔معاویہ بن صخربن حرب بن امیہ بن عبدالشمس،ہجرت سے ٢٥سال پہلے متولد ہوا۔(طبری، ج٥، ص ٣٢٥)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف جنگوں میں اس کے باپ ابو سفیان سے جنگ کی ہے۔ آخر کار ٨ھ میں فتح مکہ کے موقع پراپنے باپ ابو سفیان کے ساتھ دامن اسلام میں پناہ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاویہ اور اس کے باپ کو مولفة القلوب میں شمار کیا۔ (طبری ،ج٣ ، ص ٩٠ ) عمر نے اپنے دور حکومت میں اس کو شا م کا گورنر بنادیا ۔(طبری ،ج٣، ص ٦٠٤)عثمان کے قتل تک اسی طرح یہ گورنری پر باقی رہا ۔ عثمان کے قتل کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے پر آمادہ ہوا اور جنگ صفین میں حضرت کے خلاف میدان جنگ میں آگیا۔ اس جنگ و جدال اور مخالفت کا سلسلہ جاری رہایہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام شھید ہوگئے تو اس نے امام حسن علیہ السلام سے جنگ شروع کردی ؛بالآخر جمادی الاولیٰ٤١ ھ میں صلح ہوگئی اور اس سال کانام''عام الجماعة''رکھا گیا۔اس کے بعد ١٩سال ٣مہینہ یا٣مہینہ سے کچھ کم امیر شام نے حکو مت کی یہاں تک کہ ٦٠ھ ماہ رجب میںاس کی موت ہوگئی۔ اس وقت معاویہ کا سن ٨٥ سال تھا ۔ اس واقعہ کوطبری نے کلبی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کلبی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے (تاریخ طبری،ج٥، ص ٣٢٥)
بیٹے یزید (١)کو بلایا اور کہا :اے میرے بیٹے!میں نے رنج سفر سے تجھے آسودہ ، تمام چیزوں کو تیرے لئے مہیا ، تیرے لئے دشمنوں کو سرنگوں، ذلیل و رسوا ، سارے عرب کی گردن کو تیرے آگے جھکادیااور تمام چیزوں کو تیرے لئے جمع کردیا ہے۔(٢)
..............
١۔ ٢٨ھ میں یزید نے دنیا میں جنم لیا۔ اس کی ماں کا نام میسون بنت بجدل کلبی ہے۔معاویہ نے لوگوں کو اپنے بعدیزید کی ولی عہدی کی بیعت کے سلسلہ میں بلایا ۔بیعت یزید کی دعوت کا سلسلہ ٥٦ھ میں شروع ہوا ۔اور ٥٩ھ میں معاویہ نے وفد بھیج کر بیعت لینا شروع کیا ۔ یزید کی ولی عہدی کا سلسلہ ماہ رجب ٦٠ھ سے شروع ہوا ۔اس وقت وہ ٣٢سال کچھ مہینہ کا تھا اور ربیع الاول کی ١٤تاریخ کو ٦٤ھمیں مقام حوارین میں فی النار ہوا ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٩٩ ) اس طرح اس کی مدت حکومت ٣سال ٨ مہینہ ١٤ دن ہوئی اور کل حیات ٣٦سال ہوئی ۔
آئندہ گفتگو میں یہ بات آ ئے گی کہ باپ کی موت کے وقت یزید وہاں موجود تھا۔ اس کے وجود کی موافقت سبط بن جوزی نے'' تذکرة خواص الامة ''،ص٢٣٥پر کی ہے لیکن شیخ صدوق نے اپنی'' امالی'' میں امام زین العابدین علیہ السلام کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اسی کو خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص١٧٧پر ''اعثم کوفی'' متوفیٰ٣١٤ھکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ موجود تھا لیکن پھر شکار کے لئے چلا گیا اورتین دنوں کے بعد واپس آیا تو محل میں داخل ہوگیا اور پھر ٣دن کے بعد باہرنکلا ۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ معاویہ نے دووصیتیں کی ہو ں ، پہلی یزید کی موجودگی میں اوردوسری یزید کی غیر موجودگی میںاور یہ وصیتیں دو لوگوں کے واسطے سے ہیں جن کا ذکر بعد میں آئے گا ،یہی وجہ ہے کہ دونوں وصیتوں میں اختلاف ہے ۔
٢۔ یہ کام معاویہ نے ١٠ سال میں کیا ہے، جس کی ابتدائ٥٠ ھسے ہوئی اور اس کے مرگ پر تمام ہوئی ہے ۔طبری نے اس کے سبب کو ج٥، ص ٣٠١ پر ذکر کیا ہے :مغیرہ بن شعبہ ٤٩ ھ میں طاعون کے خوف سے بھاگ کر کوفہ سے معاویہ کے پاس پہنچا (٤١ہجری یعنی عام الجماعةہی کے زمانے سے مغیرہ کوفہ کا گورنر تھا )اور معاویہ سے اپنی ناتوانی کا تذکرہ کرتے ہوئے چاہا کہ اسے دوبارہ کوفہ جانے سے معاف رکھا جائے معاویہ نے اسکے عذر کو قبول کرلیااور سعیدبن عاص کو اس کی جگہ پر کوفہ کاگورنر بنا کر بھیجنے کا ارادہ کرلیا ۔ اس واقعہ نے مغیرہ کی حسد کی چنگاری کو آتش فشاں میں تبدیل کردیا لہٰذا وہ فوراً یزید کے پاس آیا اور ولی عہدی کے عنوان سے یزید کی بیعت کا سلسلہ چھیڑا ۔اس بات کو یزید نے اپنے باپ تک پہنچایا تو اس پر معاویہ نے مغیرہ کو کوفہ لوٹا دیااور حکم دیا کہ لوگوں سے یزید کے لئے بیعت لے۔ اس طرح مغیرہ کوفہ لوٹا اور یزید کی بیعت کے سلسلہ میں کام کرنے لگا اور وفد کی شکل میں گروہ گروہ بنا کرلوگوں کو معاویہ کے پاس بھیجنے لگا ۔
اس کے بعد معاویہ نے ایک خط زیاد بن سمیہ کو اس عنوان سے لکھا ( اس زمانے میں زیاد معاویہ کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا جس کی ابتدا ء ٤٥ھ سے ہوئی ) کہ وہ اس امر میں مشورہ چاہتاہے۔ زیاد نے عبید بن کعب نمیری ازدی کو معاویہ کے پاس
روانہ کیا اور اس تک یہ پیغام پہنچایا کہ زیاد یہ سمجھتا ہے کہ یزید کچھ دنوں کے لئے اپنی ایسی رنگینیوں سے دست بردارہوجائے جو لوگوں کو انتقام لینے پر مجبور کردیتی ہیں تاکہ گورنروں کو یزید کی ولی عہدی کی بیعت لینے میں آسانی ہو ...پھر ٣ ٥ھماہ مبارک رمضان میں زیاد بن سمیہ فی النار ہوا۔اس وقت وہ کوفہ اور بصرہ دونوں کا گورنر تھا۔٥٦ھ ماہ رجب میں معاویہ نے عمرہ کا پروگرام بنایا اوروہاں پہنچ کر اس نے یزید کی ولی عہدی کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں کو اس کی بیعت کی دعوت دینے لگا ۔ اس پرسعید بن عثمان سامنے آیا اور اس نے اس کی بڑی مخالفت کی تو یزید کی سفارش پرمعاویہ نے اسے خراسان کا گورنر بنادیا۔ اس کے بعد ٥٤ھ سے معاویہ کا نمک خوار مروان جو اس وقت سے لیکر آج تک مدینہ کا گورنرتھا معاویہ کے سامنے آیا اوربہت مخالفت کی تو معاویہ نے اسے خوب پھٹکارااور ٥٧ھ میں اسے گورنری سے معزول کردیا۔ طبری نے اس واقعہ کو اسی طرح لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو ج٥، ص٣٠٩ ۔ مسعودی نے اپنی کتاب کی تیسری جلد کے٣٨ویں صفحہ پر مروان کی مخالفت کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔عبیداللہ بن زیادجو ٥٥ھسے بصرہ کا گورنر تھا اس نے ٦٠ ھ میں ایک وفد شام کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ معاویہ کے سامنے یزید کی بیعت کرے۔ (طبری ،ج ٥، ص ٣٢٢)
مجھکو اس حکومت کے سلسلے میں جو میں نے تیرے لئے استوار کی ہے قریش کے چار افرادسے خوف ہے :
١۔حسین بن علی (١)٢۔ عبد اللہ بن عمر(٢)
..............
١۔ امام حسین علیہ السلام نے ماہ شعبان ٤ھ میں اس دار فانی میں آنکھیں کھولیں۔(طبری، ج٣ ، ص٥٥٥) اس طرح آپ نے ٦سال اپنے جد رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اس کے بعد ٣٠ سال اپنے والد امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ زندگی گزاری ۔ ٣٠ سال کے سن میں عثمان کی خلافت کے زمانے میں اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام، حذیفہ بن یمانی ، عبداللہ بن عباس اور اصحاب کے ایک گروہ کے ہمراہ سعید بن عاص کی سربراہی میں خراسان کی جنگ میں شرکت فرمائی۔ ( طبری ،جلد٤ ،ص ٢٦٩ )امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ١٠ سال اپنے بھائی امام حسن کے ہمراہ ان کی خوشی و غم میں شریک رہے ۔یہی ١٠سال امام حسن علیہ السلا م کی امامت کی مدت ہے جو معاویہ کا بھی زمانہ ہے، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا اور آپ١٠ محرم ٦١ھبروزجمعہ شہید کردئے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر ٥٦سال ٦مہینے تھی۔
٢۔عثمان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت نہ کرنے والوں میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ بیعت نہ کرنے پرحضرت علی علیہ السلام نے ابن عمر سے کہا :''انک لَسَیی ء الخلق صغیراً و کبیراً''(طبری ،ج ٤ ،ص ٤٢٨ ) تمہاری خلقت ہی خراب ہے چھوٹے رہو یا بڑے ہوجائو ۔دوسری جگہ ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا :'' لولامااعرف من سوء خلقک صغیراً و کبیراً لأنکرتنی'' ( طبری ،ج ٤، ص٤٣٦ ) اگر مجھے تمہار ی بری خلقت کی معرفت نہ ہوتی تو بھی تم میری مخالفت کرتے ؛لیکن حفصہ نے اپنے بھائی عبداللہ کوعائشہ کی ہمراہی سے روک دیا ۔( طبری، ج ٤، ص ٤٥١) اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے خلاف طلحہ و زبیر کے قیام کی درخواست کا جواب دینے سے بھی حفصہ نے عبداللہ بن عمر کو روک دیا۔ ( طبری، ج ٤ ،ص ٤٦٠ )عبد اللہ بن عمر
ابو موسی اشعری کا داماد تھا ، جب جنگ صفین میں ابو موسی کو حَکَم کے لئے منتخب کیا گیا تو ابو موسی نے اس کو (عبد اللہ بن عمر) بلایا اور اس کے ساتھ ایک جماعت کو دعوت دی ۔ عمروعاص نے اسے خلافت کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہیں کیا۔جب مرحلہ معاویہ تک پہنچ گیاتو یہ معاویہ کے پاس چلا گیا ( طبری ،ج٥، ص ٥٨ ) اس نے اگر چہ یزید کی بیعت نہیں کی تھی لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعدا س نے اپنے داماد مختارکی آزادی کے لئے یزید کو ایک خط لکھا اور یزید نے بھی اس کی درخواست کو رد نہیں کیا۔ شاید اس کے بعد اس نے یزید کی بیعت کی ہے۔ ( طبری، ج٥،ص ٥٧١) مسعودی کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس نے ولید کے ہاتھوں پر یزید کے لئے اور حجاج کے ہاتھوں پر مروان کے لئے بیعت کی ہے۔ (مروج الذہب، ج ٢،ص٣١٦)
٣۔ عبداللہ بن زبیر(١)٤۔عبد الرحمن بن ابی بکر (٢)
ان میں سے عبد اللہ بن عمر وہ ہے جسے عبادت نے تھکا دیا ہے؛ اگر وہ تنہا رہ جا ئے گا تو بیعت کر لے گا ،لیکن حسین بن علی وہ ہیں کہ اگر اہل عراق ان کو دعوت دیں گے تو وہ قیام کر یں گے؛ (٣)اگر وہ
..............
١۔عبد اللہ بن زبیرپہلی یا دوسری ہجری میںمتولد ہوا۔جب عثمان کا گھر اؤ ہوا تھا تو اسی نے عثمان کی مدد کی یہاں تک کہ خود مجروح ہوگیا ۔ ( طبری، ج ٤،ص ٣٨٢) یہ کا م اس نے اپنے باپ زبیر کے حکم پر انجام دیا تھا ۔(طبری ،ج٤،ص٣٨٥) اور عثمان نے زبیر سے اس کے سلسلہ میں ایک وصیت کی تھی۔ (طبری ،ج٤،ص٤٥١) یہ اپنے باپ کے ساتھ جنگ جمل میں شریک تھا۔اور اس کو حق کی طرف پلٹنے اور تو بہ کر نے سے روکا تھا۔ (طبری ،ج٤،ص ٥٠٢ ) عائشہ نے اسے بصرہ کے بیت المال کا امیر بنا یا تھاکیو نکہ یہ عائشہ کا مادری بھا ئی تھا جس کا نام''ام رومان'' تھا (ج٤،ص ٣٧٥)پھر یہ زخمی ہوا اور وہا ں سے بھاگ نکلا پھرٹھیک ہوگیا ۔(ج٤،ص٥٠٩) حضرت علی علیہ السلام نے اسے'' برائیوں کے فرزند'' کے نام سے یاد کیا ہے۔ (ج٤،ص٥٠٩) یہ معاویہ کے ساتھ تھا تو معاویہ نے عمر وعاص کے ہمراہ اسے محمدبن ابی بکر سے جنگ کے لئے بھیجا ۔جب عمروعاص نے محمد کو قتل کر نے کا ارادہ کیا تو اس نے محمد کے سلسلے میں سفارش کی لیکن معاویہ نے اس کی سفارش قبول نہیں کی (طبری، ج ٥،ص ١٠٤) امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ مکہ نکل گیا (طبری ،ج٥،ص ٤٧٤) اور ١٢ سال تک وہاں ان لو گوں سے لڑتا رہا یہاں تک کہ عبد الملک بن مروان کے زمانے میں جمادی الاولی ٧٣ ھمیں حجاج نے اس کو قتل کر دیا۔(ج٦ ،ص ١٨٧ ) اس کے ایک سال قبل اس کا بھا ئی مصعب'' انبار'' نامی جگہ پر قتل ہوا جس کی طرف خود عبدالملک نے اقدام کیا تھا۔
٢۔ اسد ا لغابہ میں ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکر یزید کی بیعت کے مطالبہ سے پہلے ہی مدینہ سے نکل گئے تھے اور حبشی نامی جگہ پر وفات ہو چکی تھی جو مکہ سے ١٠ میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہ واقعہ ٥٥ ھ کا ہے لہٰذا یہ بات معاویہ کی وصیت سے یہ موا فقت نہیں رکھتی ہے، واللہ اعلم ۔
٣۔ اس کا اندازہ اس سے ہو تا ہے جیسا کہ یعقوبی نے روایت کی ہے کہ اہل عراق نے امام علیہ السلام کو اس وقت خط لکھا جب آپ مدینہ میں تھے اور امام حسن علیہ السلام شہید ہو چکے تھے۔ اس خط میںتحریر تھا کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کے حق کے لئے قیام کے منتظر ہیں۔ جب معاویہ نے یہ سنا تو اس پر اس نے امام علیہ السلام کی مذمت کرنے کی کو شش کی ۔ امام علیہ السلام نے اس کی تکذیب کی اور اس کو خاموش کردیا ۔
خروج کریں تو ان سے جنگ کر کے ان پر فتح حاصل کر نا لیکن ان کے قتل سے درگذر کرنا اور گزشتہ سیاست پر عمل کرنا ( ١) کیونکہ ان سے رشتہ داری بھی ہے اور ان کا حق بھی بزرگ ہے ۔اور جہاں تک ابوبکر کے بیٹے کی بات ہے تو اس کی رائے وہی ہو گی جو اس کے حاشیہ نشینوں کا مطمح نظر ہو گا۔ اس کا ہم وغم فقط عورتیں اور لہوو لعب ہے؛ لیکن جوشیر کی طرح تمہاری گھات میں لگا ہے اور لو مڑی کی طرح تجھ کو موقع ملتے ہی فریب دینا چاہتاہے اور اگر فر صت مل جائے تو تجھ پر حملہ کردے وہ ابن زبیر ہے ؛ اگر اس نے تیرے ساتھ ایسا کیا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا ۔(٢)

معاویہ کی ہلا کت
٦٠ ھ میں معاویہ واصل جہنم ہوا (٣) معاویہ کی موت کے بعد ضحاک بن قیس فہری (٤)اپنے ہاتھوں میں معاویہ کا کفن لپیٹے باہر نکلا اور منبر پر گیا۔ خدا کی حمد و ثنا کی اور اس طرح کہنے لگا : بیشک معاویہ قوم عرب کی تکیہ گا ہ تھے۔ ان کی شمشیر براں کے ذریعہ خدا نے فتنوں کو ٹالا،بندوں پر حکومت عطا کی اور ملکوں پر فتح و ظفر عنایت فرمائی۔ اب وہ مر چکے ہیں اور یہ ان کا کفن ہے ہم اس میں ان کو لپیٹ کر قبر میں لٹادیں
..............
١۔یہ بات پو شیدہ نہیں رہنی چا ہئے کہ امیر شام نے یہ کہا تھا کہ'' فان خرج علیک فظفرت ''، یعنی اگر وہ خروج کریں تو ان کے ساتھ فتح وظفر تک لڑتے رہنا لیکن قتل نہ کر نا۔ اس طرح وہ دو خوبیوں کو جمع کر نا چاہتا تھا؛ ایک فتح وظفر دوسرے انتقام نہ لینا ۔اس مطلب پر معاویہ کا وہ خط دلالت کر تا ہے جو اس نے امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے سلسلے میں لکھا تھا اور اپنے غلام سر جون رومی کے پاس امانت کے طور پر رکھو ایا تھا؛ جس میں اس نے یہ لکھا تھا کہ اگر عراق میں حالات خراب ہونے لگیں تو فوراًابن زیاد کو وہاں بھیج دینا؛ جیسا کہ آئندہ اس کی روداد بیان ہو گی ۔
٢۔اس کی روایت خوارزمی نے اپنی کتاب کے ص١٧٥ پر کچھ اضافے کے ساتھ کی ہے ۔
٣۔ طبری ،ج ٥،ص ٣٢٤پر ہشام بن محمد کا بیان ہے اور ص ٣٣٨۔ پر ہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ ماہ رجب ٦٠ ھ میں یزید نے حکو مت کی باگ ڈور سنبھالی ۔
٤۔ ضحاک بن قیس فہری جنگ صفین میں معاویہ کے ہمرا ہ تھا۔ وہاں معاویہ نے اسے پیادہ یا قلب لشکر کا سر برا ہ بنا یا تھا۔ اس کے بعد اپنی حکومت میں جزیرہ'' حران'' کا والی بنایا ۔وہاں پر عثمان کے چاہنے والے کوفہ وبصرہ سے اس کے ارد گرد جمع ہونے لگے۔ اس پر علی علیہ السلام نے اس کی طرف مالک اشتر نخعی کو روانہ کیا اور ٣٦ھ میں جناب مالک اشتر نے اس سے جنگ کی ،پھر
معاویہ نے دمشق میں اسے اپنی پولس کی سربراہی پر مقرر کردیایہاں تک کہ ٥٥ھمیں جب یزید کی ولی عہدی کی بیعت لینے کا ارادہ کیا تو اسے کوفہ بھیج دیا ۔پھر ٥٨ھ میں اسے کوفہ سے واپس بلا کر دوبارہ پولس کا سربراہ بنا دیا٦٠ ھتک وہ اس عہدے پرمقرر رہا یہاں تک کہ بصرہ سے عبیداللہ بن زیاد کا ایک گروہ وفد کی شکل میں وہاں پہنچا اور معاویہ نے ان لوگوں سے اپنے بیٹے یزید کی بیعت لی ۔( مسعودی ،ج٢،ص٣٢٨)
ان واقعات کی طبیعی مسیر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملعون اس وقت تک اپنے منصب پر باقی تھا جب آل محمد کا قافلہ شام پہنچا ہے۔ ٦٤ھ میں معاویہ بن یزید مر گیا توپہلے ضحاک نے لوگوں کو اپنی طرف بلایا پھر لوگوں کو ابن زبیر کی طرف دعوت دی یہاں تک کہ جب مروان مدینے سے اور عبید اللہ بن زیاد عراق سے شام پہونچے تو ابن زیاد نے مروان کو خلافت کی لالچ دلائی لہٰذا مروان نے لوگوں کو اپنی طرف بلایا اور لوگوں نے مروان کی بیعت کر لی ،اس پر ضحاک دمشق میں متحصن ہوگیا پھر وہا ں سے نکل کر مقام ''مرج راھط''( دمشق سے چند میل کے فاصلہ )پر مروان سے جنگ پر آمادہ ہوگیا۔ ٢٠ دنوں تک یہ جنگ چلتی رہی۔ آخر کار ضحاک کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوے اوروہ خود ماراگیا۔ اس کا سرماہ محرم ٦٤ھیا ٦٥ھمیں مروان کے پاس لایا گیا۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٣٥،٥٤٤)یہ شخص اتنا ملعون تھا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام ہر نماز کے قنوت میں اس پر لعنت بھیجا کرتے تھے۔(طبری ،ج ٥،ص ٧١ووقعةصفےّن، ص ٦٢)
گے اوران کو ان کے عمل کے ساتھ وہاں چھوڑ دیں گے۔ تم میں سے جو ان کی تشییع جنازہ میںشرکت کرناچاہتا ہے وہ ظہر کے وقت آجائے ، اس کے بعداس نے نامہ برکے ذریعہ یزید کے پاس معاویہ کی بیماری کی خبر بھجوائی۔(١)
..............
١۔طبری نے وصیت کو اسی طرح نامہ بر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نامہ بر یزید تک پہنچا لیکن یزید نے کب سفر کیا اور کہاں غائب تھا اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ طبری نے ہشام سے اور اس نے عوانہ بن حکم (متوفیٰ١٥٧ ھ)سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ یزید غائب تھا تو معاویہ نے ضحاک بن قیس جو اس وقت اس کی پولس کا سربراہ تھا اور مسلم بن عقبہ مری جس نے مدینہ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یزید کے لشکر کی سربراہی کی تھی ، کو بلایا اور ان دونوں سے وصیت کی اور کہا : تم دونوں یزید تک میری یہ وصیت پہنچادینا۔
وصیت کی یہ روایت ابومخنف کی روایت سے کچھ مختلف ہے۔ بطور نمونہ ( الف ) ابو مخنف کی روایت میں چار افراد کا تذکرہ ہے جن سے معاویہ کو خوف تھا کہ وہ یزید کی مخالفت کریں گے جن میں سے ایک عبدالرحمن بن ابی بکر ہے لیکن اس روایت میں مذکورہ شخص کا کو ئی تذکرہ نہیں ہے۔ (ب)ابومخنف کی روایت میں ہے کہ معاویہ نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام سے عفو وگذشت سے کام لینا لیکن اس روایت میں ہے کہ امید ہے کہ خدا ان کو کوفیوںکے لشکر سے بچائے جنہوں نے ان کے باپ کو قتل کیا اور بھائی کوتنہا چھوڑ دیا۔ (ج) ابومخنف کی روایت میں ہے کہ ابن زبیر کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا لیکن اس روایت میں صلح کی وصیت ہے اور قریش کے خون سے آ غشتہ نہ ہونے کا تذکرہ ہے۔یزید کا ولید کو خط لکھ کر لوگوں کا نام پیش کرنا اور اس میں ابن ابی بکر کا تذ کرہ نہ کرنا اس روایت کی تائید کرتاہے۔ اسی طرح سر جون رومی کے پاس محفوظ خط میں معاویہ کا ابن زیاد کو عراق کے حاکم بنانے کی وصیت کرنا بھی اس روایت کی تائید کرتی ہے ۔
اب رہا سوال کہ یزید کہاںغائب تھا تو طبری نے علی بن محمد سے (ج٥،ص١٠ )پر روایت کی ہے کہ یزید مقام ''حوارین''پر تھا ۔ خوارزمی نے( ص١٧٧)پر ابن اعثم کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ یزید اس دن وصیت کے بعد شکار کے لئے نکل گیا تھا۔ اس طرح وصیت کے وقت حاضر ہونے اور موت کے وقت غائب رہنے کا فلسفہ سمجھ میں آتاہے ۔
خط کو پڑھ کر یزید نے یہ کہا :
جاء البرید بقرطاس یخب بہ
فاوجس القلب من قرطاسہ فزعا
قلنا لک الویل ما ذافی کتابکم؟
کأنّ اغبرمن ا ر کانھا ا نقطعا
من لا تزل نفسہ توفی علی شرف
توشک مقالید تلک النفس ان تقعا
لماانتھیناوباب الدارمنصفق
وصوت رملہ ریع القلب فانصدعا (١)
نامہ بر شتاباں خط لے کر آیا، جس کی وجہ سے دل بیتاب اور ہراساں ہوگیا ،میں نے اس سے کہا وائے ہو تجھ پر تیرے اس خط میں کیا پیغام ہے، گویا زمین اپنے ارکان سے جدا ہو گئی ہے ،اس نے کہا حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ بستر علالت پر ہیں، یہ سن کر میں نے کہا:جس کی حیات شرافت و درستی سے عجین ہے قریب ہے کہ اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے، جب پہنچاتو گھر کا دروازہ بند تھا اور دل رملہ کے نالہ و شیوان سے پھٹنے لگا ۔

یزید کا خط ولید کے نام
یزید نے ماہ رجب میںحکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس وقت مدینہ کا حاکم ولید بن عتبہ بن ابو سفیان، (٢)مکہ کا حاکم عمر بن سعید بن عاص ،(٣)کوفہ(٤) کا حاکم نعمان بن بشیر انصاری ،(٥)اور بصرہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد (٦)تھا۔
..............
١۔طبری ،ج٥،ص٣٢٧ ۔یہ روایت ہشام بن محمد سے ابی مخنف کے حوالے سے نقل ہوئی ہے کہ ابو مخنف نے کہا کہ مجھ سے عبد الملک بن نوفل بن مساحق بن عبداللہ بن مخرمہ نے روایت کی ہے کہ اسی نے کہا :'' لما مات معاویہ خرج ...''جب معاویہ کو موت آئی تو وہ نکلا ...
٢۔ ٥٨ھ میں یہ معاویہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم مقرر ہوا ۔(طبری، ج ٥ ،ص ٣٠٩ ) جب اس نے امام حسین علیہ السلام کے سلسلے میں سستی کا مظاہرہ کیا تو یزید نے اس سال اسے معزول کر کے عمر وبن سعید اشدق کو مدینہ کا حاکم بنا دیا۔(طبری، ج ٥،ص ٣٤٣) اس کا باپ عتبہ صفین میں معاویہ کے لشکر کے ساتھ تھا اور اس کے دادا کو حضر ت علی علیہ السلام نے فی النار کیا تھا ۔(وقعہ صفین، ص ١٧ ) آخری موضوع جو تاریخ طبری میںاس شخص کے سلسلے میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ہلا کت کے بعد ضحاک نے لوگوں کو ابن زبیر کی بیعت کے لئے بلا یا تو ولید نے اسے گا لیاں دیں جس پر ضحاک نے اس کو قید کردیا۔ (طبری ،ج٥،ص٥٣٣) تتمتہ المنتھی کے ص٤٩ پر محدث قمی فرماتے ہیں کہ معاویہ بن یزید بن معاویہ کے جنازہ پر نماز پڑھتے وقت ولید پر حملہ کیا گیا اور اسی حملہ میں وہ مرگیا ۔
٣۔ماہ رمضان ٦٠ھ میں یزید نے اسے مدینہ کا گورنر بنا یا پھر مو سم حج کی سر براہی بھی اسی کے سپرد کی۔ اس نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا ۔یہ مطلب اس روایت کی تا یید کرتا ہے جس میں اس طرح بیان ہو اہے : '' ان یزید اوصاہ بالفتک بالحسین اینما وجد ولو کان متعلقا با ستا ر الکعبہ'' یزید نے اپنے اس پلید عنصر کو حکم دیا کہ حسین کو جہاں پاؤ قتل کر دو چاہے وہ خانہ کعبہ کے پر دہ سے کیوں نہ لپٹے ہوں۔
خالد بن معاویہ بن یزید (جو مروان بن حکم کے بعد حاکم بناتھا) کے بعد عمروبن سعید اموی۔ حکمرانی کے لئے نا مزد ہوا ۔. بیعت کے مراسم مقام ''جو لان''میں اداکئے گئے جو دمشق اوراردن کے درمیان ہے۔بیعت کا یہ جشن ٤یا ٥ ذی قعدہ ٦٤ ھ چہار شنبہ یا پنجشنبہ کے دن منایا گیا۔ یہ واقعہ معاویہ بن یزید کی ہلا کت کے بعد ہوا اور اسی دن سے دمشق کی حکو مت عمروبن سعید کے ہا تھو ں میں آگئی ۔
پھر جب ضحاک بن قیس فہری دمشق سے ان لوگوں کی طرف نکلا تا کہ لوگوں کو اپنی طرف یا ابن زبیر کی طرف دعوت دے اور مروان نے ارادہ کیا کہ اس سے نبرد آزمائی کرے تو عمروبن سعید میمنہ پر تھا (طبری، ج٥،ص ٢٢٧) پھر اس نے مروان کے لئے مصر کو فتح کیا اور مصعب بن زبیر سے فلسطین میں جنگ کی یہاں تک کہ اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔(طبری ،ج٥،ص٥٤٠ ) وہاں سے لوٹ کر جب یہ مروان کے پاس آیا تو مروان کو معلوم ہوا کہ حسان بن بجدل کلبی جو یزید بن معاویہ کا ماموںاور قبیلۂ بنی کلاب کا بزرگ تھا(یہ وہی شخص ہے جس نے لوگوں کو مروان کی بیعت کے لئے برا نگیختہ کیا تو لوگوں نے اس کی بیعت کی ) اس نے خود جا کر لوگوں سے عمروبن سعید کے لئے بیعت لی ۔یہ خبر سنتے ہی مروان نے حسان کو بلا یا اور جو بایتں اس تک پہنچی تھیں اس سے با خبر کرایا تو حسان نے انکار کر تے ہوئے کہا :'' انا اکفیک عمرواً ''میں عمرو کے لئے تنہا ہی کا فی ہوں . پھر جب رات کے وقت لوگ جمع ہوئے تو وہ تقریر کے لئے اٹھا اور لوگوں کو مروان کے بعد عبد الملک کی بیعت کے لئے دعوت دی۔ اس پر لوگوں نے اس کی بیعت کی۔ ٦٩ھ یا ٧٠ ھیا ٧١ھ میں عبدالملک بن مروان زفر بن حارث کلابی سے جنگ کے ارادہ سے باہر نکلا یا دیرجا ثلیق کی طرف گیا تاکہ مصعب بن زبیر سے جنگ کرے اور دمشق میں اپنا جانشین عبد الرحمن ثقفی کو بنا یا تو اشدق نے عبدالملک سے کہا :'' انک خارج الی العراق فاجعل لی ہذا الا مرمن بعدک '' آپ عراق جا رہے ہیں لہٰذا اپنی جگہ پر مجھے جا نشین بنادیجئے ۔اس کے بعد اشدق دمشق پہنچا تو ثقفی وہا ں سے بھاگ گیا ،پھر جب عبدالملک دمشق پہنچا تو اس نے صلح کرائی اس کے بعد وہ دمشق میں داخل ہوا پھر اسی نے راتوں رات اپنے ہی محل میں اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا ۔ (طبری ،ج٥،ص ١٤٠۔ ١٤٨) اس کا باپ سعید بن عاص وہی ہے جو عثمان کے دور حکومت میں کوفہ کا گورنر تھا اور شراب پیتا تا ، اہل کوفہ نے اس کی عثمان سے شکایت کی لیکن اسکے باوجودبھی وہ شراب نوشی کی عادت سے باز نہیں آیا لہٰذا امیر المومنین علی علیہ السلام نے اس پر حد جاری کی ۔
مجمع الزواید، ج ٥، ص ٦٤٠ پر ابن حجر ہیثمی نے اور تطہیر الجنان میں لکھا ہے کہ ابو ہر یرہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو کہتے سنا ہے :'' لیر فعن علی منبری جبارمن جبا برة بنی امیہ فیسیل رعافة'' بنی امیہ کے ظالم وجابر حکمرانوں
میں سے ایک جبار کی نکسیر میرے منبر پر پھو ٹے گی اور اس کا خون جاری ہوگا ۔. پیغمبر اسلام کی یہ پیشین گوئی عمروبن سعید کے سلسلے میں سچی ثابت ہوئی کیو نکہ اس کی نکسیر اس وقت پھو ٹی جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کے منبر پر بیٹھا تھا یہاں تک کہ اس کا خون جاری ہونے لگا ۔
٤۔ ''جلو لا ئ'' میں مسلمانوں کو کا میابی ملنے کے بعد سپہ سالا ر لشکر سعد بن ابی وقاص نے عمر کو خط لکھا جس کا. عمر نے اس طرح جواب دیا : '' ابھی وہیں رہو اور لوگوں کی بات نہ سنو اوراسے مسلمانوں کے لئے دار ہجرت اور منزل جہاد قرار دو! '' توسعد نے مقام ''انبار'' پر پڑائو ڈالا لیکن وہاں فوج شدید بخار میں گر فتارہو گئی تو سعد نے خط لکھ کر عمر کو با خبر کیا؛عمر نے سعد کو یہ جواب دیا : عرب کے لئے وہی زمین مناسب ہے جہاں اونٹ اور بکریاں آرام سے رہ سکیںلہٰذا ایسی جگہ دیکھو جو دریا کے کنا رے ہو اور وہیں پڑائوڈال دو ۔سعد وہاں سے چل کر کوفہ پہنچے، (طبری ،ج٣،ص ٥٧٩ ) کوفہ کے معنی ریتیلی اور پتھر یلی زمین ہے ( طبری ،ج٣،ص ٦١٩) جہاں فقط سرخ ریت ہوتی ہے اسے ''سہلہ '' کہتے ہیں اور جہاں یہ دونوں چیز یں ملی ہوں اسے ''کوفہ '' کہتے ہیں۔ (طبری، ج ٤،ص ٤١ ) کوفہ میں ٣ دیر تھے : دیر حرقہ ، دیر ام عمرو اور دیر سلسلہ۔(طبری ،ج٤،ص ٤١)ان مسلمانوں نے محرم ١٧ ھ میں نرکل اور بانس سے مکان تیار کیا لیکن کچھ دنوں کے بعد شوال کے مہینہ میں ایک بھیانک آگ نے سارے کوفہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جسکی وجہ سے ٨٠ سائبان نذر آتش ہو گئے اور تمام نرکل اور بانس کے بنے ہوئے مکان جل گئے۔ اس حالت کو دیکھ کر سعد نے ایک آدمی کو عمر کے پاس بھیجا تا کہ وہ اس بات کی اجازت لے کر آئے کہ یہاں اینٹ کے مکانات تعمیر ہو سکیں ۔ عمر نے کہا : اسے انجام دو لیکن خیال رہے کہ ہر گھر میں ٣ کمروں سے زیادہ نہ ہوں اور اس سلسلے میں کو ئی زیادہ روی نہ ہو ۔اس وقت گھروں کی تعمیر کا ذمہ دار ابوالھیاج تھا، لہٰذا سعد نے عمر کے بتائے ہوئے نقشہ کو اس کے سامنے پیش کیا اور درخواست کی کہ اس روش کے مکا نات تعمیر کرائے۔ اس طرح اس شہر کی تعمیر نو کا آغاز ہوا جس کا نام کو فہ ہے ۔ عمر نے اپنے نقشہ میں لکھا تھا کہ اصلی شاہراہ ٤٠ ذراع ہو اور اس کے اطراف کی سڑ کیں اہمیت کے اعتبار سے ٢٠ اور ٣٠ ذراع ہوں۔ اسی طرح گلیاں ٧ میٹر ہوں ، لہٰذ ا انجینیر وں کی ایک کمیٹی نے بیٹھ کر مشورہ کر نے کے بعد کام شروع کیا ۔ ابو الہیاج نے سب کے ذمہ کا م تقسم کر دیا سب سے پہلے جو چیز کو فہ میں بنائی گئی وہ مسجد ہے۔مسجد کے اطراف میں بازار بنایا گیا جس میں کھجور اور صابون بیچنے والے رہنے لگے اس کے بعد ایک بہترین تیر انداز درمیان سے اٹھا اور اس نے داہنی طرف ، آگے اور پیچھے تیر پھینکا اور حکم دیا کہ جو چاہے تیر کے گرنے کی جگہ کے آگے سے اپنے اپنے گھر بنالے اور مسجد کے آگے ایک سائبان بنایا گیا جو سنگ مرمر کا تھا اور کسریٰ سے لایا گیا تھا۔ اس کی چھت رومیوں کے کنیسہ جیسی تھی۔ بیچ میں ایک خندق کھودی گئی تا کہ مکان بنانے میں آگے پیچھے نہ کر سکیں ۔ سعد کے لئے ایک ایسا گھر بنایا گیا جس کا ایک راستہ دوسوذراع کا بنایا گیا جو نقیبوں کے لئے تھا جس میں بیت المال بنائے گئے۔ یہی قصر کوفہ کہا جا تا ہے جسے ''روز بہ ''نے مقام ''حیرة'' سے اینٹیں لا کر کسری جیسی عمارت بنائی تھی۔ (طبری، ج٤ ،ص ٤٤۔٤٥ ) سعد نے اس محل میں سکونت اختیار کی؛ جو محراب مسجد سے متصل تھا اور اسی میں بیت المال رکھا اور اس پر ایک نقیب (نگراں) کو معین کیا جو لوگوں سے اموال لیتا تھا۔ ان تمام مطالب کی روداد سعد نے عمر تک پہنچائی ۔اس کے بعد مسجد کو منتقل کیا گیا اور
اس کی عمارت کو قصر کی اینٹوں کو توڑ کر بنایا گیا جو مقام ''حیرة ''میں کسری کی طرح تھا اور قصر کے آخر میں قبلہ کی طرف بیت المال قرار دیا گیا۔ اس طرح مسجد کا قبلہ قصر کے داہنی طرف تھا اور اسکی عمارت مرمری تھی جس کے پتھر کسری سے لائے گئے تھے۔( طبری ،ج٤ ، ص٦٤)مسجد کے قبلہ کی طرف ٤راستے بنائے گئے اور اس کے پچھم ، پورب٣٣سڑکیں بنائی گئیں۔مسجد اور بازار سے ملی ہوئی جگہ پر ٥سڑکیں بنائی گئیں۔ قبلہ کی سڑک کی طرف بنی اسد نے مکان بنانے کے لئے انتخاب کیا۔ اسد اور نخع کے درمیا ن ایک راستہ تھا ، نخع اور کندہ کے درمیان ایک راستہ تھا ۔کندہ اور ازد کے درمیان ایک راستہ تھا۔صحن کے شرقی حصہ میں انصار اور مزینہ ر ہنے لگے، اس طرح تمیم اور محارب کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ اسد اور عامر کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ صحن کے غر بی حصہ میں بجلہ اور بجیلہ نے منزل کے لئے انتخاب کیا۔ اسی طرح جد یلہ اور اخلا ط کے درمیان ایک راستہ اور سلیمان و ثقیف کے درمیان دو راستے تھے جو مسجد سے ملے ہوئے تھے۔ہمدان ایک راستہ پر اور بجیلہ ایک راستہ پر تھے ، اسی طرح تمیم اور تغلب کا ایک راستہ تھا۔یہ وہ سڑکیں تھیں جو بڑی سڑکیں کہی جاتی تھیں۔ ان سڑ کوںکے برابر کچھ اور سڑکیں بنائی گئیں پھر ان کو ان شاہراہوںسے ملا دیا گیا۔ یہ دوسری سڑکیں ایک ذراع سے کم کے فا صلہ پر تھیں۔اسی طرح اس کے اطراف میں مسافرین کے ٹھہرنے کے لئے مکانات بنائے گئے تھے ۔وہاں کے بازارمسجدوں کی روش پر تھے جو پہلے آ کر بیٹھ جاتاتھا وہ جگہ اسی کی ہوجاتی تھی یہاں تک کہ وہاں سے اٹھ جائے یا چیزوں کے بیچنے سے فارغ ہوجائے( طبری ،ج٤، ص ٤٥ ۔ ٤٦ ) اور تمام دفاعی نظام بھی بر قرار کئے گئے، منجملہ ٤ ہزار تیز رفتار گھوڑے بھی رکھے گئے۔ اس طرح شہر کو فہ مسلمانوں کے ہا تھو ں تعمیر ہو ا۔
٥۔ نعمان مدینہ میں قبیلہ ء خزرج کی ایک فرد تھا ۔شیخ طوسی نے'' رجال'' میں ص٣٠ پر اسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور طبری نے ج ٤،ص ٤٣٠ پر اسے ان لوگوں میں شمار کیا ہے جنہوں نے عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے سر پیچی کی ہے۔اس کے بعد یہ معاویہ سے ملحق ہو گیا اور جنگ صفین میں اسی کے ہمراہ تھا۔ اس کے بعد معاویہ نے ایک فوج کے ساتھ اسے'' عین التمر''شب خون کے لئے بھیجا۔ اس مطلب کو طبری نے ٣٩ ھکے واقعات ج ٥، ص ١٣٣ پر لکھا ہے پھر ٥٨ھ میں معاویہ نے اسے کوفہ کا والی بنادیا ۔ یہ اس عہدہ پر باقی رہا یہاں تک کہ معاویہ کیفر کر دار تک پہنچ گیا اور یزید نے مسند سنبھالی ۔ آخر کا ر اس کی جگہ پر یزید کی جانب سے ٦٠ ھمیں عبید اللہ بن زیاد نے گورنر ی کی با گ ڈور سنبھا لی۔اب نعما ن نے یزید کی راہ لی اور امام حسین علیہ السلام کے قتل ہو نے تک اسی کے پاس رہا ۔ پھر یزیدکے حکم پر اہل حرم کے ہمراہ مدینہ گیا ( طبری ،ج٥،ص٤١٢) وہا ںسے شام لو ٹ کر یزید کے پاس رہنے لگا یہاں تک کہ یزید نے اسے پھر مدینہ بھیجاتاکہ وہ انصار کو عبداللہ بن حنظلہ سے دور رہنے کا مشورہ دے اور یزیدکی مخالفت سے ا نہیں ڈرائے دھمکائے لیکن انصار نے ایک نہ سنی۔ (طبری ،ج٥،ص٤٨١ا)
٦۔ ٢٠ھ میں عبیداللہ بن زیاد پیدا ہوا ۔(طبری، ج٥، ص ٢٩٧ ) ٤١ھ میں بسربن ارطاة نے بصرہ میں اسے اس کے دو بھائیوں عباد اور عبدالرحمن کے ہمراہ قید کرلیا اور زیاد کے نام ایک خط لکھاکہ یا تم فورا ً تم معاویہ کے پاس جائویا میں تمہارے
بیٹوں کو قتل کردوں گا۔(طبری ،ج٥ ،ص ١٦٨)٥٣ھ میں زیاد مر گیا ۔( طبری، ج٥،ص٢٨) اس کے بعد اس کا بیٹا عبید اللہ معاویہ کے پاس گیا ۔ معاویہ نے ٥٤ھ میں اسے خراسان کا گورنر بنادیا۔ (طبری ،ج ٥،ص٢٩٧) اس کے بعد ٥٥ھ میں بصرہ کا والی مقررکردیا ۔ خراسان سے نکل کر بصرہ جاتے وقت اس نے اسلم بن زرعہ کلابی کواپنا جا نشین بنا یا۔( طبری ،ج٥ ،ص٣٠٦ ) جس زمانے میں خراسان میں اس نے کوہ نجاری پر حملہ کیا اور اس کے دو شہر رامیشتہ اوربیر جند کو فتح کرلیا اسی وقت اپنے سپاہیو ں میں سے دوہزارتیر اندازوں کو اس نے لیا اور ان کی تربیت کے بعد انہیں اپنے ساتھ لیکر بصرہ روانہ ہوگیا۔ (طبری، ج ٥،ص ٢٩٨) اس کا ایک بھائی عباد بن زیاد، سجستان کا گورنر تھا اوردوسرابھائی عبدالرحمن بن زیاد اپنے بھائی عبیداللہ ہی کے ہمراہ خراسان کی حکمرانی میںتھا ،وہ اس عہدہ پر دو سال تک رہا (طبری ،ج٥ ،ص٢٩٨) پھر کرمان کی حکومت کو بھی عبیداللہ بن زیاد نے ہی سنبھال لیا اور وہاں اس نے شریک بن اعورحارثی ہمدانی کو بھیج دیا۔ (طبری، ج٥ ،ص٣٢١) یزید نے عباد کو سجستان سے اور عبدالرحمن کو خراسان سے معزول کرکے ان کے بھائی سلم بن زیاد کو گورنربنادیااورسجستان اس کے بھائی یزید بن زیاد کو بھیج دیا (طبری، ج٥ ،ص٤٧١)پھر اسے کو فہ کی گورنری بھی ٦٠ھ میں دیدی او بصرہ میں اس کے بھائی عثمان بن زیاد کو حاکم بنادیا۔ (طبری ،ج٥،ص٣٥٨ ) جب امام حسین کی شہادت ہوئی تو یہ ملعون ٤٠سال کا تھا اور اس عظیم واقعہ کے بعد یہ ١ ٦ھمیں پھر کوفہ سے بصرہ لوٹ گیا۔ جب یزید اوراس کا بیٹا معاویہ ہلاک ہوگیا تو بصرہ والوں نے اس کی بیعت کرلی اور اسکو خلیفہ کہنے لگے لیکن پھر اس کی مخالفت کرنے لگے تویہ شام چلاگیا ( طبری ،ج ٥،ص٥٠٣) اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا بھائی عبداللہ بھی تھا۔ یہ ٦٤ھکا واقعہ ہے۔ ( طبری ،ج ٥،ص ٥١٣ ) وہاں اس نے مروان کی بیعت کی ور اس کو اہل عراق کے خلاف جنگ کے لئے اکسایا تو مروان نے اسے ایک فوج کے ساتھ عراقیوں کے خلاف جنگ کے لئے بھیجا۔ ( طبری ،ج٥،ص٥٣) وہاں اس نے تو ابین سے جنگ کی اور ان کو ہرادیا یہ واقعہ ٦٥ھ کا ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٥٩٨)پھر ٦٦ھ میں جناب مختار سے نبرد آزما ہوا ( طبری ،ج٦، ص٨١ ) اور اسی میں اپنے شامی ہمراہیوں کے ساتھ ٦٧ ھمیں قتل کردیا گیا۔ ( طبری، ج ٦، ص ٨٧)
لیکن یزید نے جب زمام حکومت سنبھالی تو اس کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ ان لوگوں سے بیعت حاصل کرے جنہوں نے اس کے باپ معاویہ کی درخواست کو یزید کی بیعت کے سلسلے میں ٹھکرادیا تھا اور کسی طرح بھی یزید کی بیعت کے سلسلہ میں اپناہاتھ دینا نہیں چاہتے تھے ،لہٰذاآسودہ خاطرہونے کے لئے اس نے مدینہ کے گورنر ولید کو ایک خط اس طرح لکھا :'' بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، من یزید امیر المؤمنین الی الولید بن عتبہ ...اما بعد: فان معاوےة کان عبدامن عباداللّہ ، اکرمہ اللّہ و استخلفہ، و خولہ و مکن لہ فعاش بقدر ومات باجل،فرحمہ اللّہ !فقد عاش محموداً! ومات برّاً تقیا! والسلام ''
یزید امیر المومنین کی طرف سے ولید بن عتبہ کے نام، امابعد ...حقیقت یہ ہے کہ معاویہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کو خدا نے مورد احترام و اکرام قرار دیا اور خلافت و اقتدار عطا فرمایا اور بہت سارے امکانات دئیے ۔ان کی زندگی کی جتنی مد ت تھی انھوں نے اچھی زندگی بسر کی اور جب وقت آگیاتو دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ خدا ان کو اپنی رحمت سے قریب کرے ۔انھوں نے بڑی اچھی زندگی بسر کی اورنیکی اور شائستگی کے ساتھ دنیا سے گزر گئے۔ والسلام
پھر ایک دوسر ے کا غذ پر جو چوہے کے کان کی طرح تھا یہ جملے لکھے :
'' اما بعد فخذ حسینا و عبد اللّہ بن عمر و عبداللّہ بن زبیر با لبیعة اخذا شدیدًالیست فیہ رخصة حتی یبا یعوا، والسلام'' ( ١)
اما بعد ، حسین بن علی ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے سختی کے ساتھ مہلت دیئے بغیر فوراً بیعت حاصل کرو ۔ والسلام
معاویہ کی خبر مرگ پاتے ہی(٢)ولید نے فوراً مروان بن حکم(٣) کو بلوا یا تا کہ اس سلسلے میں اس سے مشورہ کر سکے ۔(٤)
..............
١۔ طبری، ج٥،ص ٣٣٨ ، اس خبر کو طبری نے ہشام کے حوالے سے اور ہشام نے ابو مخنف کی زبانی نقل کیا ہے۔یہ ان متعدد روایتوں میں سے پہلی روایت ہے جنہیں طبری نے آپس میں ملادیا ہے اور ہر روایت کے شروع میں ''قال '' کہا ہے۔ یہ تمام روایتیںابو مخنف کی طرف مستند ہیں ۔
طبری کی روایت میں ہشام کے حوالے سے ابو مخنف سے یہی جملہ نقل ہوا ہے جس میں فقط شدت اور سختی کا تذکر ہ ہے ، قتل کا ذکر نہیں ہے۔ہشام کے حوالے سے سبط بن جوزی کی روایت میں بھی یہی الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ (ص ٢٣٥) ارشاد کے ص ٢٠٠ پر شیخ مفید نے بھی اسی جملہ کا تذکرہ کیا ہے جس میں ہشام اور مداینی کا حوالہ موجود ہے لیکن یعقوبی نے اپنی تا ریخ میں ج ٢،ص ٢٢٩پر خط کا مضمون اس طرح نقل کیا ہے:
''اذ اتاک کتابی ہذا فأ حضر الحسین بن علی ، وعبداللہ بن زبیر فخذہما با لبیعة ، فان امتنعا فا ضرب أعنا قہماوابعث الیّ برؤوسہما،وخذ الناس بالبیعة ، فمن امتنع فأ نفذ فیہ الحکم، وفی الحسین بن علی و عبداللہ بن زبیر، والسلام''
جیسے ہی تم کو میرا خط ملے ویسے ہی حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کو حاضر کرو اور ان دونوں سے بیعت حاصل کر! اگر انکار کریں تو ان کی گر دن اڑادواور ان کے سر ہمارے پاس بھیج دو! لوگوں سے بھی بیعت لو اور انکا ر کرنے پر ان کے ساتھ بتائے ہوئے حکم پر عمل کرو! وہی جو حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کے بارے میں بتایا ہے ۔ والسلام
خوا رزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٠ پر ابن اعثم کے حوالے سے خط کو نقل کیا ہے ۔ یہ خط بعینہ طبری کی ہشام کے حوالے سے منقول روایت کی طرح ہے فقط اس جملہ کا اضافہ کیاہے : ...ومن ابی علیک منہم فاضرب عنقہ و ابعث الیّ براسہ ، ان میں سے جو انکا ر کرے اس کا سر کاٹ کر فوراً میرے پاس روانہ کرو !یزید کا یہ خط ولید کو ٢٦ جب شب جمعہ کو موصول ہوا تھا جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے مدینہ کو الوادع کہنے کی تا ریخ سے یہی اندازہ ہوتا ہے ۔
٢۔ مورخین نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی ہے کہ یزید نے یہ خط کب لکھا اور کب قاصد کو مدینہ کے لئے روانہ کیا تا کہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ شام سے مدینہ کی مسافت میں کتنا وقت لگا۔ ہاں طبری نے (ج٥، ص، ٤٨٢)پر ہشا م کے حوالے سے ابو مخنف سے جو روایت نقل کی اس سے ہم کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں، کیو نکہ عبد الملک بن مروان نے یزید کو جو خط لکھا تھا کہ ہم لوگ مدینہ میں محصورہیںلہٰذ ا فوج بھیجو جس کے نتیجے میں واقعہ حرہ سامنے آیا اس میں یہ ملتا ہے کہ قاصد کو آمدورفت میں ٢٤ دن لگے؛ بارہ دن جانے میں اور ١٢ دن واپس لوٹنے میں۔ اس وقت یہ قاصد کہتا ہے کہ اتنے دنوں کے بعد میں فلاں وقت عبد الملک بن مروان کے پاس پہنچا، اس کے علاوہ طبری کے دوسرے بیان سے بھی کچھ اندازہ لگتا ہے کیو نکہ طبری نے ج ٥،ص ٤٩٨ پر واقدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یزید ١٤ ربیع الاول ٦٤ ھ کوواصل جہنم ہوا اور مدینہ میں اس کی خبر مرگ ربیع الآ خر کے شروع میں موصول ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا کہ یزید کی ہلاکت کی خبر ١٦ دنوں بعد ملی ۔
٣۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے باپ حکم بن عاص کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکال دیاتھا ،کیو نکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایاکرتا تھا ، لیکن عثمان نے اسے اپنی حکومت میں جگہ دی اور اپنی بیٹی نائلہ کی اس سے شادی کردی اور افریقا سے مصالحت کے بعد جو ایک خطیر رقم آئی تھی جس کا ایک حصہ ٣٠٠ قنطار سو نا تھاوہ اسے دیدیا ( طبری، ج٤،ص ٢٥٦) اور اسنے ان اموال کی مددسے نہر مروان کی خریداری کی جو تمام عراق میں پھیلی ہوئی تھی (طبری ،ج٤،ص٢٨٠) اس کے علا وہ مروان کو ١٥ ہزار دینار کی ایک رقم اور دی (طبری، ج٤، ص ٣٤٥ ) سب سے بری بات جو ہوئی وہ یہ کہ عثمان ، مروان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گئے۔ وہ جو چاہتا تھا یہ وہی کرتے تھے۔ اسی مسئلہ میں امیر المو منین علی علیہ السلام نے عثمان کوخیر خواہی میں سمجھا یا تھا ۔جب عثمان کا محا صرہ ہوا تو عثمان کی طرف سے اس نے لڑنا شروع کیا جس کے نتیجے میں خود اس پر حملہ ہوا پھر لوگوں نے اس کے قتل کا ارادہ کیالیکن ایک بوڑھی دایہ جس نے اسے دودھ پلا یا تھا مانع ہو گئی اور بولی : اگر تم اس آدمی کو مارنا چاہتے ہو تو یہ مر چکا ہے اور اگر تم اس کے گوشت سے کھیلنا چاہتے ہو تو بری بات ہے (طبری ،ج٤ ،ص ٣٦٤) وہاں سے اس کا غلام ابو حفصہ یمانی اسے اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔ (طبری، ج٤،ص ٣٨٠) اسی واقعہ کے بعد مروان کی گردن ٹیڑھی ہو گئی تھی اور آخر وقت تک ایسی ہی رہی۔ (طبری، ج٤،ص٣٩٤)
یہ شخص جنگ جمل میں شریک تھا اور دونوں نمازوں کے وقت اذان دیا کر تاتھا۔ اسی نے طلحہ پر ایسا تیر چلا یا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گئے ۔خود بھی یہ جنگ میں زخمی ہوگیا تھا لہٰذا وہاںسے بھاگ کر مالک بن مسمع غزاری کے یہاں پہنچااور اس سے پناہ کی درخواست کی اور اس نے درخواست کوقبول کر لیا ۔(طبری ،ج ٤، ص ٥٣٦) جب وہاں سے پلٹا تو معاویہ سے جاملا۔ (طبری ،ج ٤، ص ٥٤١) معاویہ نے بھی عام الجماعةکے بعد اسے مدینہ کا گورنر بنادیا ۔ ٤٤ھ میں اس نے مسجد میں پیش نماز کی خاص جگہ بنانے کی بدعت رائج کی۔ ( طبری ،ج٥،ص٢١٥) اس کے بعد معاویہ نے فدک اس کے سپرد کر دیالیکن پھر واپس لے لیا (ج ٥،ص ٥٣١) ٤٩ھمیں معاویہ نے اسے معزول کر دیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٢٣٢) ٥٤ھ میں ایک بار پھر مدینہ کی گو رنری اس کے سپرد کردی۔ ٥٦ھ میں معاویہ نے حج انجام دیا تو وہاں اس نے چاہا کہ مروان یزید کی بیعت کی تو ثیق کردے (طبری، ج٥،ص٣٠٤) لیکن پھر معاویہ ٥٨ ھ تک اپنے اس ارادے سے منصرف ہو گیا ۔ ٥٦ھ میں ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کو مدینہ کا گو رنر بنادیا۔یہی وجہ ہے کہ مروان اس سے ہمیشہ منہ پھلا ئے رکھتا تھا۔( طبری، ج ٥، ص ٣٠٩ ) جب اہل حرم شام وارد ہو رہے تھے تو یہ ملعون دمشق میں موجود تھا ۔(طبری، ج٥ ،ص ٤٦٥) ٦٢ھ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یہ مدینہ ہی میں تھا۔ یہی وہ ملعون ہے جس نے حکو مت سے مدد مانگی تھی تو مدد کے طور پر یزید نے مسلم بن عقبہ المری کو روانہ کیا۔ (طبری، ج٥،ص ٤٨٢) جب اہل مدینہ مسلم بن عقبہ کے سامنے پہنچے تو بنی امیہ نے انہیں مروان کے گھر میں قید کر دیا جبکہ وہ ہزار آدمی تھے پھر ان کو مدینہ سے باہرنکال دیا اور اس نے اپنے اہل وعیال کو چو تھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کے پاس مقام ینبع میں چھوڑ دیا امام علیہ السلام نے ان کی پر ورش و حمایت کی ذمہ داری لے لی ۔ امام علیہ السلام نے اس زمانے میں مدینہ کو چھو ڑدیا تھا تا کہ ان کے کسی جرم کے گواہ نہ بن سکیں (طبری ،ج٥،ص ٤٨٥) پھر جب ٦٤ھمیں عبید اللہ بن زبیر اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کی حکو مت میں مدینہ کا گورنر بن گیا تو بنی امیہ مدینہ سے نکل بھاگے اور شام پہنچ کر مروان کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٣٠) ٦٥ھ میں اس کو موت آگئی۔
٤۔ جب ولید گورنر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مدینہ پہنچا تو مروان ناراضگی کے اظہار کے ساتھ اس سے ملنے آیا۔جب ولید نے اسے اس حالت میں دیکھا تو اس نے اپنے افراد کے درمیان مروان کی بڑی ملامت کی؛ جب یہ خبر مروان تک پہنچی تو ان دونوں کے آپسی رشتے اور رابطے تیرو تار ہو گئے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ معاویہ کی موت کی خبر لے کر نامہ بر آیا۔ چونکہ یہ موت ولید کے لئے بڑی صبرآزماتھی اور دوسری اہم مشکل جو اس کے سر پر تھی وہ یہ کہ اس خط میں حکم دیا گیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر لوگوں سے بیعت لی جائے لہذاایسی صورت میں اس نے مروان جیسے گھا گ آدمی کا سہارا لیا اور اسے بلوا بھیجا ۔(. طبری، ج٥،ص ٣٢٥)

مروان سے مشورہ
مروان نے جب یزید کا خط پڑھا تو ''انّا للّہ وانّا الیہ راجعون ''کہا اور اس کے لئے دعا ئے رحمت کی۔ ولید نے اس سے اس سلسلے میںمشورہ لیتے ہو ئے پو چھا : ''کیف تری ان نصنع'' تم کیا کہتے ہو ہمیں کیا کر نا چاہیے؟ اس پر مروان نے کہا : میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اسی وقت تم ایک آدمی کو ان لوگوں کے پاس بھیجو اور ان لوگوں سے بیعت طلب کرو اور کہو کہ فوراً مطیع ہو جائیں؛ اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو ان سے اسے قبول کرلو اور ان سے دست بر دارہو جاؤ لیکن اگر وہ انکار کریں تو قبل اس کے کہ انہیں معاویہ کی موت کی خبر ملے ان کے سرقلم کردو؛کیو نکہ اگر ان لوگوں کو معاویہ کی موت کی خبر ہو گئی تو ان میں سے ہر ایک ملک کے گو شہ و کنار میں شورش بر پا کر کے قیام کردے گا اور مخالفت کا بازار گرم ہو جا ے گا اور یہ لوگ عوام کو اپنی طرف بلا نے لگیں گے ۔ (١)

قاصد بیعت
یہ سنتے ہی ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو جو ایک نو جوان تھا (٢) امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے تلاش کرنے کے بعد دونوں لوگوں کو مسجد میں بیٹھا ہواپایا۔ وہ ان دونوں کے پاس گیا اور ان کو ایسے وقت میں ولید کے دربار میں بلایا کہ نہ تو وہ و قت ولید کے عام جلسے کا تھا اورنہ ہی ولید کے پاس اس وقت جایاجاتاتھا۔ (٣)
..............
١۔طبری، ج ٥،ص ٣٩٩ ، اسی روایت کو ہشام نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے بھی ص١٨١ پر اس کی روایت کی ہے۔
٢۔ یہ شخص٩١ھ تک زندہ رہا ، کیونکہ ولید بن عبد الملک نے جب مدینہ میں بعض قریشیوں کا استقبال کیا تو یہ موجود تھا (طبری ،ج٦ ، ص٥٦٥) ''القمقام ''کے بیان کے مطابق اس کی وفات ٩٦ھ میں ہوئی اور اس کالقب مطرف تھا ۔( القمقام، ص ٢٧٠)عبدا للہ کا باپ عمرو جوخلیفہ سوم عثمان کا بیٹا ہے یعنی یہ قاصد عثمان کا پوتا تھا ۔اس کی ماں کا نام ام عمرو بنت جندب ازدی تھا۔ ( طبری ،ج٤،ص٤٢٠) طبری نے جلد ٥، ص ٤٩٤ پر لکھا ہے کہ اس کی ماںقبیلۂ''دو س'' سے تھی ۔مسلم بن عقبہ نے واقعہ حرہ میں اسے بنی امیہ سے بے وفائی میں متہم کیا۔ جب اسے مسلم بن عقبہ کے پاس لایاگیاتو اس نے عبداللہ بن عمرو کی بڑی مذمت کی اور حکم دیا کہ اس کی داڑھی کو نوچ ڈالا جائے ۔
٣۔وقت کے سلسلے میں ابو مخنف کی خبر اس حد تک ہے کہ ''لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' ایسے وقت میں
بلایا کہ جب کوئی عمومی جلسے کا وقت نہ تھا ، لیکن یہ رات کا وقت تھا یا دن کا اس کی کوئی تصریح نہیں ہے؛ لیکن اس روایت میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیںجس سے وقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ٢٦ رجب جمعہ کے دن صبح کا واقعہ ہے۔
(الف)۔ روایت کا جملہ یہ ہے'' فارسل ..الیھما یدعو ھما فآتاھما فوجد ھما فی المسجد فقال : اجیبا ا لأ میر یدعوکما فقالا لہ : انصرف ، الأن ناتیہ'' ۔ ولید نے اسے ان دونوں کی طرف بلانے کے لئے بھیجا۔ قاصد نے تلاش کرتے ہوئے ان دونوں کو مسجدمیں پایا تو کہنے لگا:امیر نے تم دونوں کو بلا یا ہے۔ اس پر ان دونوں نے کہاکہ تم چلوہم ابھی آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوںکو ایک ہی وقت میں بلایا گیا تھا ۔ ابن زبیر سے ایک دوسری خبر میں یہ ہے کہ اس نے کہا : ہم ابھی آتے ہیں لیکن وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر آیا اور چھپ گیا۔ ولید نے پھر دوبارہ قاصد کو بھیجا تو اسے اپنے ساتھیوں کے درمیان پایا۔ اس نے مسلسل تین یا چار با قاصدوں کو بھیج کر بے حد اصرار کیا تو اس پر ابن زبیر نے کہا : ''لاتعجلونی ، امھلونی فانی آتیکم'' ا تنی جلدی نہ کرو تھوڑی سی مہلت دو ،میں بس آہی رہا ہوں ۔ اس پر ولید نے پانچویں مرتبہ اپنے گرگوں کو بھیج کر اسے بلوایا ۔وہ سب آکر ابن زبیر کو برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے :'' یا بن الکاھلیہ! واللّہ لتاتینّ الامیر او لیقتلنّک''اے کاہلہ کے بیٹے تو فورا امیر کے پاس آجا ورنہ وہ تیرا سر کاٹ دے گا۔ اس کے بعد ابن زبیر نے وہ پورا دن اور رات کے پہلے حصے تک وہاں جانے سے گریز کیا اور وہ ہر وقت یہی کہے جاتا تھا کہ ابھی آتا ہو ں؛ لیکن جب لوگوں نے اسے برانگیختہ کیا تو وہ بولا : خدا کی قسم میں اتنے قاصدوں کی آمد سے پریشان ہوگیا ہوں اور اس طرح پے در پے لوگوں نے میرا جینا حرام کردیا ہے لہٰذاتم لوگ اتنی جلدی نہ کرو تاکہ میں امیر کے پاس ایک ایسے شخص کوبھیجوں جو ان کا منشاء اور حکم معلوم کر آئے۔ اس کا م کے لئے اس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا۔ جعفر بن زبیر نے وہاں جا کر کہا : رحمک اللہ : اللہ آپ پر رحم کرے آپ عبداللہ سے دست بردار ہوجائیے ۔ آپ نے قاصدوں کو بھیج بھیج کر ان کا کھانا پانی حرام کر دیا ہے،ان کا کلیجہ منہ کو آرہاہے، انشاء اللہ وہ کل خود آجائیں گے۔ آپ اپنے قاصد کو لوٹالیجئے اور اس سے کہیے کہ ہم سے منصرف ہوجائے۔ اس پر حاکم نے شام کے وقت وہاں سے لوگوں کو ہٹالیا اور ابن زبیر راتوں رات مدینے سے نکل گیا۔ گذشتہ سطروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ولید کا قاصد صبح میں آیا تھا ، بلکہ واضح طور پر ذکر ہے کہ یہ سارے امور صبح میں انجام پائے کیونکہ عبارت کا جملہ یہ ہے : ''فلبث بذالک نھارہ و اول لیلہ '' اس کے بعد ابن زبیر دن بھر اور رات کے پہلے حصے تک تھما رہا چونکہ امام علیہ السلام اور ابن زبیر کو ایک ہی ساتھ بلایا گیا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو بلائے جانے کا وقت بھی وقت صبح ہی ہوگا ۔
(ب)روایت میں یہ جملہ موجود ہے ''فالحوا علیھما عشیتھما تلک و اول لیلھما '' ان لوگو ں کو شام کے وقت اور شب کے پہلے حصے میں پھر بلوایا گیا۔اس جملہ سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ امام علیہ السلام کو عصر کے وقت بلایا گیا تھا؛ لیکن یہ ایک وہم ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس جملہ میں جو ایک کلمہ موجود ہے وہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ ، فألحواعلیھما''میںالحاح اصرار کے معنی میں استعمال ہواہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے صبح کے وقت بلا یا گیا پھر اصرار اور تکرار دعوت میں شام سے رات
ہوگئی۔ خود یہ عبارت اس بات کوبیا ن کرتی ہے کہ یہ دعوت دن میں تھی، رات میں نہیں۔
(ج) ابومخنف نے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے اور انھوں نے ابو سعید مقبری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد النبی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ابھی دو دن بھی نہ گذرے تھے کہ معلوم ہوا کہ آپ مکہ روانہ ہوگئے(طبری ،ج٥،ص ٣٤٢) اس مطلب کی تائید ایک دوسری روایت بھی کرتی ہے کیونکہ اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ابن زبیر اپنے گھر میں چھپ کر اپنے چاہنے والوں کے درمیان پناہ گزیں ہوگیا تھا۔اس کے بعد پورے دن اور رات کے پہلے حصہ تک ٹھہرا رہا لیکن پچھلے پہر وہ مدینہ سے باہرنکل گیا ۔جب صبح ہوئی اور ولید نے پھر آدمی کو بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ نکل چکا ہے۔اس پر ولید نے ٨٠گھوڑ سواروں کو ابن زبیر کے پیچھے دوڑایا لیکن کوئی بھی اس کی گرد پا نہ پا سکا۔ سب کے سب لوٹ آئے اور ایک دوسرے کو سست کہنے لگے یہاں تک کہ شام ہو گئی (یہ دوسرا دن تھا ) پھر ان لوگوں نے شام کے وقت قاصد کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا توامام علیہ ا لسلام نے فرمایا :''اصبحواثم ترو ن و نری'' ذرا صبح تو ہولینے دو پھر تم بھی دیکھ لینا ہم بھی دیکھ لیں گے۔ اس پر ان لوگوں نے اس شب امام علیہ السلام سے کچھ نہ کہا اور اپنی بات پر اصرار نہ کیا پھر امام علیہ السلام اسی شب تڑکے نکل گئے ۔یہ یکشنبہ کی شب تھی اور رجب کے دو دن باقی تھے۔ (طبری، ج٥،ص ٣٤١)
نتیجہ ۔ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن زبیر حاکم وقت کی طرف سے بلائے جانے کے بعددن بھر ہی مدینہ میں رہے اور راتوں رات نکل بھاگے اور امام علیہ السلام دو دن رہے اور تیسرے دن تڑکے نکل گئے ۔ چونکہ امام علیہ السلام نے شب یکشنبہ مدینہ سے کوچ کیا،اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روز جمعہ اور شب شنبہ اور روز شنبہ آپ مدینہ میں رہے اور یہ بلاوا جمعہ کے دن بالکل سویرے سویرے تھا۔ اس بنیاد پر روایت یہ کا جملہ کہ'' ساعة لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' ( ایسے وقت میں بلا یا تھا جس وقت وہ عوام سے نہیں ملاکرتا تھا ) قابل تفہیم ہوگا۔ ابن زبیر اور امام علیہ السلام جمعہ کے دن صبح صبح مسجد میں موجود تھے؛ شاید یہ نماز صبح کے بعد کاوقت تھا ۔مقبری کے حوالے سے ابو مخنف کی روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام ولید کے دربار سے لوٹنے کے بعد اپنے ان دو بھروسہ مند ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے جن کے ہمراہ آپ ولید کے دربار میں گئے تھے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح ہی میں ولید کا قاصد آیا تھا اور وہ رجب کی ٢٦ویں تاریخ تھی، اسی لئے ولید اس دن عوام کے لئے نہیں بیٹھتاتھا کیونکہ وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن دربار نہیں لگتا تھا ۔
پس قاصد نے کہا : '' آپ دونوں کو امیر نے بلا یا ہے '' اس پر ان دونوں نے جواب دیا تم جاؤ ہم ابھی آتے ہیں۔ (١) ولید کے قاصد کے جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھااور ابن زبیر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : اس بے وقت بلائے جانے کے سلسلے میں آپ کیا گمان کرتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' قد ظننت ان طاغیتھم قد ھلک فبعث الینا لیا خذنا با لبیعة قبل ان یفشوا فی الناس الخبر ''میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا سرکش حاکم ہلاک ہوچکا ہے لہٰذا ولید نے قاصد کو بھیجاتاکہ لوگوں کے درمیان خبر پھیلنے سے پہلے ہی ہم سے بیعت لے لی جا ئے ۔
..............
١۔طبری ج ، ٤ص ٣٣٩ ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ سبط ابن جوزی نے بھی ص ٢٠٣ پر اور خوارزمی نے ص ١٨١ پراس مطلب کو ذکر کیا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہاں دو ہی افراد کا ذکر ہے جب کہ خط میں تین لوگوں کا تذکرہ تھا۔
روایت کے آخری ٹکڑے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فقط امام علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کا ذکرکرنا اور عبد الر حمن بن ابو بکراور عبداللہ بن عمر کا ذکر نہ آنا شاید اس لئے ہے کہ پہلا یعنی پسر ابو بکر تو واقعہ سے پہلے ہی مر چکا تھااور دوسرا یعنی عبداللہ بن عمر مدینہ ہی میںنہیں تھا، جیسا کہ طبری نے واقدی سے روایت کی ہے۔( طبری ،ج٥، ص٣٤٣)
مقتل خوارزمی میں اعثم کوفی کے حوالے سے ص ١٨١ پراوراسی طرح سبط بن جوزی نے ص ٢٣٥ پر اس قاصد کا نام جو اُن دونوں کے پاس آیا تھا عمرو بن عثمان ذکر کیا ہے اور تاریخ ا بن عساکر،ج٤، ص٣٢پر اس کا نام عبدالرحمن بن عمروبن عثمان بن عفان ہے۔
اس پر ابن زبیر نے کہا:وما اظن غیرہ فما ترید ان تصنع ؟ میرا گمان بھی یہی ہے تو آپ اب کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' اجمع فتیا نی الساعة ثم امشی الیہ فاذا ابلغت الباب احتبستھم علیہ ثم دخلت علیہ '' ، میں ابھی ابھی اپنے جوانوں کو جمع کرکے ان کے ہمراہ دربار کی طرف روانہ ہوجاؤںگا اور وہاں پہنچ کر ان کو دروازہ پر روک دوں گا اور تنہا دربار میں چلاجاؤں گا۔ابن زبیر : ''انی اخافہ علیک اذا دخلت'' جب آپ تنہا دربار میں جائیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے ۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' لاآتیہ الا وانا علی الا متناع قادر'' تم فکر مت کرو میں ان کے ہر حربہ سے بے خوف ہوکر ان سے مقاومت کی قدرت رکھتا ہوں۔ اس گفتگو کے بعد امام علیہ السلام اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے چاہنے والوں اور گھر والوں کو اکھٹا کر کے روانہ ہوگئے۔ دربار ولید کے دروازہ تک پہنچ کر اپنے اصحاب سے اس طرح گویا ہوئے :'' انی داخل ، فان دعوتکم او سمعتم صوتہ قد علا فاقتحموا علیّ باجمعکم والا فلاتبرحوا حتی أخرج الیکم ''میں اندر جا رہا ہوں اگرمیں بلاؤں یا اس کی آواز بلند ہو تو تم سب کے سب ٹوٹ پڑنا ور نہ یہیں پر ٹھہرے رہنا یہاں تک کہ میں خود آجاؤں۔(١)
..............
١۔شیخ مفید نے اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے، ص ٢٠٠؛سبط بن جوزی ،ص ٢٣٦، خوارزمی ، ص ١٨٣۔