واقعۂ کربلا
 

چھٹی فہرست
اس فہرست میں ائمہ علیہم السلام ، ان کے اصحا ب اور مورخین موجود ہیں جو ١٤ افراد پر مشتمل ہیں ۔
١۔ امام زین العابدین علیہ السلام: اپنے دونوں فرزند عون اور محمد کے ہمراہ عبداللہ بن جعفر کا امام حسین علیہ السلام کے نام خط اورمکہ سے نکلتے وقت امام علیہ السلام کے پاس سعید بن عاص اشدق کا اپنے بھائی یحٰ بن سعید بن عا ص کے ہمراہ خط لانا اور امام علیہ السلام کا اس خط کا جواب دیناحارث بن کعب والبی ازدی کے واسطے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے ۔ (١)
اسی طرح حارث بن کعب والبی عبداللہ بن شریک عامری نہدی کے حوالے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے٩ محرم کو ایک شب کی مہلت لی اور اپنے اصحاب کے درمیا ن خطبہ دیا۔ (٢) اسی طرح حارث بن کعب والبی ازدی اور ابو ضحاک
..............
١۔طبری ،ج٥ ،ص ٣٨٧ ۔ ٣٨٨
٢۔طبری، ٥ ،ص٤١٨
کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے شب عاشور کے اشعار ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی امام علیہ السلام سے گفتگو، اس پر امام حسین علیہ السلام کا جواب آپ سے منقول ہے۔ (١)
٢۔ اما م محمد باقر علیہ السلام : عقبہ بن بشیر اسدی کے حوالے سے شیر خوار کی شہادت کا واقعہ امام علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ (٢)
٣۔ امام جعفر صادق علیہ السلام : ایک مرسل روایت میں امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک پر شمشیر و تیر و تبر کے زخموں کی تعداد آپ ہی سے مروی ہے ۔
٤۔ زید بن علی بن حسین علیہماالسلام : زید بن علی اور داود بن عبید اللہ بن عباس کے حوالے سے فرزندان عقیل کی حماسہ آفرین تقریر منقول ہے۔ ان دونوں حضرات سے روایت کرنے والے شخص کا نام عمر و بن خالد واسطی ہے جو بنی ہاشم کے چاہنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ پہلے کوفہ میں رہتاتھا پھر ''واسط '' منتقل ہوگیا وہ زید اورامام جعفر صادق سے روایتیں نقل کرتا ہے ۔
نجاشی نے ان کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے : ''ان کی ایک بہت بڑی کتاب ہے جس سے نصر بن مزاحم منقری وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں۔ (٣)
شیخ طوسی نے ان کو امام با قرعلیہ السلا م کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ (٤) اس کے علاوہ مامقانی نے تنقیح المقال میں ان کا ذکر کیا۔ (٥ ) اسی طرح عسقلانی نے بھی'' تہذیب التہذیب'' میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ (٦)
٥۔ فاطمہ بنت علی : آپ کا تذکرہ طبری نے کیا ہے۔ حارث بن کعب والبی ازدی کے واسطے سے دربار یزید کا واقعہ انہی مخدرہ سے منقول ہے۔ (٧) واضح رہے کہ ان بی بی اور امام سجاد علیہ السلام سے روایت کرنے والا راوی ایک ہی ہے ۔
..............
١۔طبری ،ج٥ ، ص ٤٢٠ ۔ ٤٢١
٢۔ طبری، ج ٥ ،ص ٤٤٨
٣۔ رجال نجاشی، ص ٢٠٥ ،ط ھند
٤۔ رجال شیخ ،ص ١٢٨ ،ط نجف
٥ ۔تنقیح المقال ،ج ٢، ص ٣٣٠
٦۔ تہذیب التہذیب، ج ٨ ، ص ٣٦
٧۔طبری ،ج ٥ ، ص ٤٦١ ۔ ٤٦٢
٦۔ ابو سعید عقیصا: مسجد الحرام میں امام حسین علیہ السلام سے ابن زبیر کے رو برو ہونے کی روایت اپنے بعض اصحاب کے واسطے سے انھوں نے نقل کی ہے۔ (١) علاّمہ حلی نے اپنی کتاب'' الخلاصہ'' کی قسم اول میں آپ کو امیر المومنین کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(٢)
'' میزان الاعتدال ''میں ذہبی نے بھی ان کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : یہ علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیںاور پھر کہتے ہیں : شعبہ نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ ان کا نام دینار ہے اور اہل بیت کے پیرو ہیں۔ ان کی وفات ١٢٥ ھ میں ہوئی ۔(٣) ان کے حالات پہلے گزر چکے ہیں۔
٧۔محمد بن قیس :قیس بن مصھرصیداوی کو خط دے کر امام حسین علیہ السلام کا ان کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کرنا ، جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کی خبر ، عبد اللہ بن مطیع کی امام حسین علیہ السلام سے گفتگو، نیزحضرت (ع)کا جواب (٤)اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت کی روایت انھوں نے نقل کی ہے۔ (٥) واضح رہے کہ عبداللہ بن مطیع والی روایت اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت کی خبر ان سے بطور مرسل نقل ہوئی ہے یعنی درمیان سے راوی حذف ہے۔
کشی نے ذکر کیا ہے : ''یہ امام باقر علیہ السلام سے بڑی شدید محبت رکھتے تھے لہذاآپ نے ان کو فلاں اور فلاں کی باتیں سننے سے منع کیاتھا۔ (٦)اس کے بعد کشی نے ذکر کیا ہے کہ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کے مدافع تھے۔ (٧) نجاشی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے : یہ ثقہ ، سر شناس اور کوفی ہیں۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔ (٨)
شیخ طوسی نے اپنی فہرست کے رقم ٥٩١و٦٤٤(٩)اور رجال میں آپ کو امام جعفر صادق کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔اور آپ کو اس نا م سے چار بار یاد کیا ہے۔ (١٠) اسی طرح علامہ حلی نے الخلاصہ میں آپ کا تذکرہ کیا ہے۔ (١١)
..............
١۔طبری ،ج ٥، ص ٣٨٥
٢۔ الخلاصہ ،ص ١٩٣، ط نجف
٣۔ میزان الاعتدال، ج ٢، ص ١٣٩
٤۔طبری، ج٥، ص ٣٩٤ ۔ ٣٩٦
٥۔ طبری، ج٥ ، ص ٤٤٠
٦۔ص ٣٤٠ حدیث، رقم ٦٣٠
٧۔ص٢٣٧ حد یث ٤٣٠
٨۔رجال نجاشی، ص ٢٢٦،ط ھند ٩۔فہرست، ص ١٥٧و١٧٦
١٠۔ رجال شیخ ،ص ٢٩٨رقم ٢٩٤ ،طبع نجف
١١۔ الخلاصہ، ص ١٥٠رقم ٦٠اور اس کے بعد ،ط نجف
٨۔ عبداللہ بن شریک عامری نہدی : امام حسین علیہ السلام کا شب عاشور مہلت مانگنا، شب عاشورآپ کے خطبے اور اشعار، حضرت زینب سلام اللہ علیہاکی گفتگو اور امام حسین علیہ السلام کے جواب کو یہ راوی امام زین العابدین علیہ السلام کے حوالے سے نقل کرتا ہے۔اسی طرح ایک مرسل روایت میں یہ راوی شمر کا حضرت عباس کے لئے شب عاشور امان نامہ لانا اور ٩ محرم کو غروب کے نزدیک پسر سعد ملعون کا امام علیہ السلام کے لشکر پر حملہ آور ہونے کا واقعہ نقل کرتا ہے۔ (١)
کشی نے ذکر کیا ہے : ''یہ امام باقر اور صادق علیہما السلام کے خاص اصحاب میں شمار ہوتے ہیں''۔ (٢)
ایک روایت میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن شریک امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی سپاہ میں بڑھ بڑھ کے حملہ کرنے والوں میں ہوں گے۔ (٣) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اس زمانہ میں یہ علمدار لشکر ہوں گے۔(٤)
تاریخ طبری سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جناب مختار کے خاص ساتھیوں میںسے تھے۔ (٥) اس کے بعد مصعب بن زبیر کے اصحاب میں شمار ہونے لگے۔ (٦)پھر ٧٢ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے امان نامہ کی وجہ سے مصعب سے جدا ہوگئے۔ اس کے بعدشاید انھوں نے توبہ کرلی اور پھر ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں شمار ہونے لگے ۔
٩۔ ابو خالد کابلی : انھوں نے ایک مرسل روایت میں صبح عاشورامام حسین علیہ السلا م کی دعا کو نقل کیا ہے۔ طبری نے ان کا نام ابو خالد کاہلی لکھا ہے لیکن کتب رجالی میں اس نا م کا کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ مشہور وہی ہے جوہم نے ذکر کیا ہے اور یہی صحیح ہے ۔
کشی نے ذکر کیا کہ وہ حجاج کے خوف سے مکہ بھاگ نکلے اور وہاں خود کو چھپائے رکھا؛ اس طرح خود کو حجا ج کے شر سے نجات دلائی اور جناب محمد بن حنفیہ کے خدمت گذار ہوگئے یہاں تک کہ ان کی
..............
١۔طبری، ج٥ ، ص ٤١٥ ۔ ٤١٦
٢۔رجال کشی ،ص١٠ ، حدیث ٢٠
٣۔ص ٣١٧، حدیث ٣٩٠
٤۔ص ٢١٧ ، ٣٩١
٥۔طبری ،ج ٦ ص ٤٩، ٥١و١٠٤
٦۔ج٦، ص ١٦١
امامت کے قائل ہوگئے لیکن بعد میں اس باطل عقیدہ سے منھ موڑ کرامام سجاد علیہ السلام کی امامت کے معتقد ہوگئے۔اس کے بعد ان کاعقیدہ اتنا راسخ ہوا کہ آپ کے خاص اصحاب میں شمار ہونے لگے اور ایک عمر تک امام علیہ السلام کی خدمت گذاری کے شرف سے شرفیاب ہوتے رہے، پھر اپنے شہر کی طرف چلے گئے ۔(١) شیخ طوسی نے رجال میں ان کو امام سجاد علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے ۔
ظاہراً یہ ان لوگوں سے محبت کرتے تھے جو جناب مختار کے ساتھ تھے، اسی لئے جناب محمدبن حنفیہ کی امامت کے قائل ہوگئے اور اسی وجہ سے وہ حجاج کے چنگل سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگ نکلے، ورنہ مکہ کی طرف بھاگنے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا سبب نہیں ہوسکتا۔
١٠۔ عقبہ بن بشیر اسدی : شیر خوار کی شہادت کا واقعہ انھوں نے امام صادق علیہ السلام کے حوالے سے نقل کیا ہے۔کشّی نے ان کا اس طرح ذکر کیا ہے:''عقبہ نے امام با قرعلیہ السلا م سے اجازت طلب کی کہ وہ حکومت وقت کی طرف سے اپنی قوم میں اپنے قبیلہ کے کارگزار بن جائیں۔امام علیہ السلام نے انھیں اجازت نہیں دی۔ انھوں نے شیر خوار کی شہادت کو نقل کیا ہے۔ (٢)
شیخ طوسی نے رجال میں ان کو امام زین العابدین (٣) اور امام محمد باقرعلیہ ا لسلام (٤)کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔ تاریخ طبری میں جناب مختار کے ساتھیوںکی مصیبت اور غم میں ان کے مر ثیے موجو د ہیں جسے پڑھاکرتے تھے۔ (٥)
١١۔ قدامہ بن سعید : قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی اپنے دادا سے روایتیں نقل کرتے ہیں جناب مسلم بن عقیل کے مقابلہ کیلئے محمد بن اشعث بن قیس کندی کے میدان نبرد میں آنے کی خبر، جناب مسلم کا قید کیاجانا ،(٦)آپ کاقصر دار الامارہ کے دروازہ پر پانی مانگنا اور آپ کو پانی پلائے جانے کی خبر (٧)قدامہ نے اپنے دادا زائد سے نقل کی ہے ۔شیخ طوسی نے ان کو امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ (٨)
..............
١۔رجال کشی ،ص ١٢١ ،حدیث ١٩٣ ؛ رجال شیخ، ص١٠٠ رقم ٢
٢۔ رجال کشی، ص ٢٠٣ ،حدیث ٣٥٨
٣۔ رجال شیخ ،ص ٣٢
٤۔ص١٢٩ ،رقم ٢٩ ،ط نجف
٥۔طبری ،ج٦ ،ص ١١٦
٦۔ج٥ ، ص ٣٧٣
٧۔ج ٥ ، ص ٣٧٥
٨۔رجال شیخ، ص ٢٧٥،ط نجف
١٢۔ حارث بن کعب والبی ازدی : حارث بن کعب نے عقبہ بن سمعان ، امام زین العابدین علیہ السلام اور فاطمہ بنت علی علیہما السلام کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔
یہ جناب مختار کے ساتھیوں میں تھے، پھرکوفہ سے مدینہ منتقل ہوگئے اور وہاں پر امام علیہ السلام سے حدیثیں سنیں۔شیخ طوسی نے ان کو اپنے رجال میں امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ (١)
١٣۔ حارث بن حصیرہ ازدی :یہ عبداللہ بن شریک عامری نہدی اور وہ امام علی بن الحسین علیہما السلام کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں تفصیلات گذرچکی ہے۔ شیخ طوسی نے ان کو امام زین العابدین اور امام محمد باقر علیھما السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔ (٢)
١٤۔ ابو حمزہ ثمالی : ابوحمزہ ثابت بن دینار ثمالی ازدی عبداللہ ثمالی ازدی اور قاسم بن بخیت کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔ ان کی روایت شام میں اہل حرم کی اسیری کے سلسلے میں ہے۔ کشی نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ''ابوحمزة الثمالی فی زمانہ ،کلقمان فی زمانہ ، و ذالک انہ خدم ار بعةمنّا علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و بر ھة من عصر موسی بن جعفر ''(٣)
ابو حمزہ، لقمان زمانہ تھے اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے ہم میں سے چار(اماموں) کو درک کیا ہے ؛ علی بن الحسین،محمد بن علی، جعفر بن محمد اور موسی بن جعفر کے تھوڑے سے زمانے کو درک کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ۔
عامر بن عبداللہ بن جذاعہ ازدی نے امام جعفر صادق علیہ ا لسلام سے نشہ آور چیزوں کے بارے میں سوال کیاآپ نے فرمایا : ''کل مسکر حرام'' ہر مست کرنے والی چیز حرام ہے۔ عامر بن عبداللہ نے کہا: لیکن ابو حمزہ تو بعض مسکرات کو استعمال کرتے ہیں! جب یہ خبر ابو حمزہ کو ملی تو انھوں نے تہہ دل سے
..............
١۔رجال طوسی، ص ٨٧، ط نجف
٢۔ ص٣٩ ۔ ١١٨ ،ط نجف
٣۔ طبری ،ج٥، ص ٤٦٥
توبہ کی اور کہا : ''استغفر اللّہ منہ الان و اتوب الیہ '' میں ابھی خدا سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔
ابو بصیر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو امام علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے عرض کیا :میں جب ان کو چھوڑ کے آیا تو وہ مریض تھے۔ امام علیہ السلام نے فرما یا : جب پلٹنا تو ان کو میرا سلام کہنا اور ان کو بتا دینا کہ وہ فلاں مہینے او رفلاں روزوفات پائیں گے ۔
علی بن حسن بن فضال کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے تقریباً ایک سال بعدابو حمزہ ، زرارہ اور محمد بن مسلم کی وفات ایک ہی سال میں واقع ہوئی ہے۔
نجاشی نے آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے: یہ کوفہ کے رہنے والے اور ثقہ تھے۔ محمد بن عمر جعابی تمیمی کا بیان ہے کہ آپ مہلب بن ابو صفرہ کے آزاد کردہ تھے۔آپ کے بیٹے منصور اور نوح سب کے سب زید بن علی بن حسین علیھما السلام کے ہمراہ شہیدکئے گئے ۔
آپ نے امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق اور امام موسی کاظم علیہ السلام کا زمانہ دیکھا ہے اور ان تما م ائمہ علیہم السلام سے روایتیں نقل کیںہیں آپ کا شمار ہمارے نیکو کار بزرگوں اور روایت و حدیث میں معتمد و ثقہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ (١)
شیخ طوسی نے فہرست (٢)اور رجال میں آپ کو امام سجاد (٣) امام محمد باقر (٤) امام جعفر صادق (٥) اور امام موسی کاظم علیہم السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' (٦)اور عسقلانی نے ''تہذیب ''(٧) میں آپ کا تذکرہ کیا ہے۔
..............
١۔رجال نجاشی، ص ٨٣، ط ہند
٢۔فہرست شیخ، ص٦٦، ط نجف
٣۔رجال شیخ، ص ٨٤، ط نجف
٤۔ص ٠ ١١
٥۔ ١٦٠،ط نجف
٦۔میزان الاعتدال، ج١، ص ٣٦٣
٧۔تہذیب التہذیب ،ج ٢،ص ٧
یہ ہیں وہ چودہ ١٤ افراد جو ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے اصحاب پر مشتمل ہیںاور اس کتاب کی سند میں واقع ہوئے ہیں ۔ ان کے علاوہ ابو مخنف نے عون بن ابی جحیفہ سوائی کوفی متوفیٰ ١١٦ھ سے یعنی اس کتاب میں تاریخ کے حوالے سے روایتیں نقل کی ہیں لیکن ان سے عینی شاہدین کے عنوان سے نہیں بلکہ بعنوان مورخ روایت نقل کی ہے ۔جیسا کہ'' تقریب التہذیب'' میں یہی مذکورہے۔ اس مورخ نے صقعب بن زھیر کے حوالے سے مدینہ سے مکہ کی طرف امام علیہ السلام کی روانگی ، مکہ میں آپ کی مدت اقامت اور پھر وہاں سے کوچ ...کا تذکرہ کیا ہے ۔
اب ہم اسی مقام پر اپنے مقدمہ کو اس امید کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ خداوند متعال ہمیں توفیق عطافر مائے کہ ہم سید الشہداء امام حسین بن علی علیہما السلام کی صحیح خدمت نیزان کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرسکیں ۔