واقعۂ کربلا
 

تیسری فہرست
تیسری فہرست میں وہ لوگ ہیں جو ان واقعات کے شاہد ہیں اور وہاں حاضر تھے۔ ان لوگوں نے بغیر کسی واسطے کے خود ابو مخنف سے واقعات بیان کئے ہیں اور یہ چارافراد ہیں:
١۔ ابو جناب یحٰ بن ابی حیہّ الوداعی کلبی : اس شخص نے ا بن زیاد سے جناب مسلم بن عقیل کے ساتھیوں کے مقابلہ کو نقل کیا ہے (ج٥ ص ٣٦٩ و ٣٧٠) نیز جناب مسلم اور ہانی بن عروہ کے سر کو یزید کی طرف بھیجے جانے اور خط لکھ کر اس خبر سے آگاہ کرنے کی روایت بھی اسی شخص سے ملتی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابو جناب ان خبروں کو اپنے بھائی ہانی بن ابی حیہ وداعی کلبی کے حوالے سے نقل کرتا ہے ، کیونکہ ہانی بن ابی حیہ کے ہاتھوں ابن زیاد نے یزید کو خط روانہ کیا تھا۔
تاریخ طبری میں اس شخص سے ٢٣ روایتیں منقول ہیں ، جن میں سے ٩روایتیں جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان سے متعلق ہیں جو بالواسطہ ہیں اور ٩روایتیں کربلا سے متعلق ہیں جن میں سے پانچ بالواسطہ ہیں اور چار مرسل ہیں (یعنی درمیان سے راوی حذف ہے )۔آخری روایت جو میرے ذہن میں ہے اورمرسل ہے وہ مصعب بن زبیر کا ابراہیم بن مالک اشتر کو خط لکھنے کا واقعہ ہے جس میں مصعب نے ابراہیم کو مختار کے بعد ٦٧ ہجری میں اپنی طرف بلایا تھا۔ (ج٦ص١١١) تہذیب التہذیب (ج١١،ص٢٠١)پر اس کی پوری بایو گرافی موجود ہے۔ اس میں راوی کے سلسلے میں یہ جملہ ملتا ہے : ''کوفی صدق مات ٤٧ھ ''یہ شخص کوفی تھا ،سچا تھا اور ١٤٧ ہجری میں اس کی وفات ہوئی۔
٢۔ جعفر بن حذیفہ طائی: جناب مسلم نے اپنی شہادت سے پہلے امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ کی بیعت کے سلسلے میں جو خط لکھا ہے اس کی روایت اسی شخص سے نقل ہوئی ہے، نیز محمد بن اشعث بن قیس کندی اور ایاس بن عثل طائی کے خط کاراوی بھی یہی شخص ہے جس میں ان لو گو ں نے امام حسین کو جناب مسلم کی گر فتاری اور ان کی شہادت کی خبر پہنچائی تھی۔ (ج ٥، ص٣٧٥)
ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کا تذکر ہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ شخص علی سے روایت نقل کرتا ہے اور اس سے ابومخنف نے روایت نقل کی ہے۔جنگ صفین میں یہ شخص علی علیہ السلام کے ہمراہ تھا ۔ ابن حبان نے اسے ثقات(معتبر وثقہ راویوں) میں شمار کیا ہے ، پھر کہا ہے کہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کون ہے ؟
طبری نے اس شخص سے ٥روایتیں نقل کی ہیں ،جن میں سے دو روایتیںجنگ صفین سے متعلق ہیں،دوروایتیں خوارج کے ایک گروہ جس کا تعلق قبیلہ طئی سے تھا، کے سلسلے میں اورایک واقعہ کر بلا کے ذیل میںو ہی مسلم بن عقیل کی خبر ہے جو گزشتہ سطروں میںبیان ہوچکی ہے ۔
٣۔ دلہم بنت عمرو : یہ خاتون، زہیربن قین کی زوجہ ہیں۔ جناب زہیر بن قین کا امام حسین کے لشکر میں ملحق ہو نے کا واقعہ انھیںخاتون سے مروی ہے۔ روایت کا جملہ اس طرح ہے کہ ابو مخنف کہتے ہیں دلہم نے مجھ سے اس طرح روایت نقل کی ہے ۔(ج٥، ص٣٩٦)
٤۔ عقبہ بن ابی العیزار : امام حسین علیہ السلام کی دواہم خطبے جسے آپ نے مقام '' بیضہ'' اور مقام ذی حسم میں پیش کیا تھا اسی شخص سے مروی ہیں،نیز امام حسین علیہ السلام کے جواب میں زہیر بن قین کی گفتگو،امام حسین علیہ السلام کے اشعار اور طرماح بن عدی کے اشعار کی بھی اسی شخص سے روایت نقل ہوئی ہے ۔(ج٥ ، ص٤٠٣) ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص حر کے لشکر میں تھالہٰذانجات پا گیا۔ اپنی رجالی کتا بوں میںہمیں اس کا تذکرہ کہیں نہیں ملا۔ ہاں لسان المیزان میں اس کا ذکر موجود ہے۔لسان المیزان کے الفاظ اس طرح ہیں :'' یعتبر حدیثہ'' اس کی حدیث معتبر ہے، نیز وہیں اس بات کی بھی یاد آوری کی گئی ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے ۔
یہی وہ چار افراد ہیںجو ظاہراً ان واقعات کے شاہد ہیں اورابو مخنف نے ان سے بلا واسطہ حدیثیں نقل کی ہیں ۔

چو تھی فہرست
یہ وہ لوگ ہیں جو اس جانسوزواقعہ میں موجود تھے یا اس دلسوزحادثہ کے معاصر تھے لہٰذا انہوں نے ان واقعات کو نقل کیا ہے ۔ ابومخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایت نقل کی ہے۔ یہ ٢١افراد ہیں ۔
١۔ ابو سعید دینار: اس شخص کو'' کیسان''یا '' عقیصامقبری ''بھی کہا جا تا ہے۔مدینہ سے نکلتے وقت امام حسین علیہ السلام کے اشعارکو اسی شخص نے ایک واسطہ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے نقل کئے ہیں۔(ج٥، ص٣٤٢) ذہبی نے اس کا ذکر میزان الاعتدال میں کیا ہے۔ ذہبی کہتا ہے: وہ ابو ہریر ہ کے ہمنشین اور اس کے بیٹے کے دوست تھے۔ وہ ثقہ اور حجت ہیں ۔پیرانہ سالی کے باوجودذہن مختل نہیں ہوا تھا ... ۔آپ کی وفات ١٢٥ ہجری میں ہوئی ۔آپ کا شمار بنی تمیم کے طر فداروںمیں ہوتا ہے۔ابن حبان نے بھی ان کو ثقات میں شمارکیا ہے اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ مورداعتماد اور بھروسہ مند ہیں۔ (لسا ن المیزان، ج٢،ص١٣٩)
تہذیب التہذیب میں لکھاہے کہ واقدی نے کہا : یہ ثقہ ہیںاور ان سے بہت زیادہ حدیثیں مروی ہیں۔پہلی صدی ہجری میں آپ کی وفات ہوئی ۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ ولید بن عبدالملک کی خلا فت کے عہد میں وفات پائی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عمر نے انھیں قبر کھود نے کے کام پر مامور کیا تھا لہذا وہ قبروں کو کھود ا کر تے تھے اور مردوں کو قبروں میں اتار تے تھے لہٰذا ''المقبری'' کے نام سے مشہور ہو گئے ''۔ (تہذیب التہذیب، ج٨، ص ٤٥٣)شیخ طوسی نے اپنی کتاب ''الرجال''میں ان کا تذکرہ حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ''دینار ''کے نام سے کیا ہے ان کی کنیت ابو سعید اور لقب عقیصاذکر کیا ہے۔ اس لقب کا سبب وہ شعر ہے جسے ''دینار ''نے کہا تھا۔(رجال شیخ طوسی ، ص٤٠ ،ط نجف )شیخ صدوق ابو سعید عقیصا کے حوالے سے اپنی ''امالی ''میں امام حسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ پیغمبر اسلام ۖ نے حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا :''یاعلی!انت اخی و انا اخوک، اناالمصطفیٰ النبوة، وانت المجتبیٰ للامامة ، وانا صاحب التنزیل ، وانت صاحب التاویل ،واناوانت ابواھذہ الامة،انت وصےّوخلیفتی ووزیری و وارثی وابو ولدوشیعتک شیعتی''اے علی!تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں ، خدا نے مجھ کو نبوت کے لئے منتخب کیا اور تم کو امامت کیلئے چن لیا،میںصاحب تنزیل (قرآن)ہوں تم صاحب تاویل ہو ،میںاور تم دونوں اس امت کے باپ ہیں،تم میرے وصی،خلیفہ،وزیر،میرے وارث اورمیرے فرزندں کے باپ ہو،تمہارے شیعہ اورپیروکارمیرے شیعہ وپیرو کارہیں ۔
٢۔عقبہ بن سمعان : مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کے نکلنے کی خبر ، عبداللہ بن مطیع عدوی سے آپ کی ملاقات ، مکہ پہنچنے کی خبر، (ج٥،ص ٥٣١)مکہ سے نکلتے وقت ابن عباس اور ابن زبیر کی امام علیہ السلام سے گفتگو، (ج٥ ، ص٣٨٣) والی مکہ عمرو بن سعید بن عاص اشدق کے قاصد کاامام حسین تک پہنچنا اور حاکم مکہ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کو مکہ واپس لوٹانے کی خبر، منزل تنعیم پر '' ورس الیمن ''کی خبر ، قصر بنی مقاتل سے گذرنے کے بعد حضرت علی اکبر علیہ السلام کی اپنے بابا سے گفتگو ، نینوا میں اس نورانی کارواں کا ورود ،ابن زیاد کے پیغامبر کا حر تک ابن زیاد کا خط لیکر پہنچنا امام علیہ السلام اور پسر سعد کا کربلا میں وارد ہونا (ج٥،ص٤٠٧ ۔٤٠٩) اور وہ شرطیں جو امام حسین نے پسر سعد کے سامنے پیش کی تھیں اسی شخص سے مروی ہیں۔ (ج٥ ،ص٤١٣)یہ تمام روایتیں اس نے ایک واسطہ سے حارث بن کعب و البی ہمدانی سے نقل کی ہیں۔ یہ اس بات کی تائید ہے کہ ابو مخنف نے مناسبتوں کے مطابق روایتوں کی اسناد میں تقطیع ( درمیان سے راوی کو حذف کردینا )کی ہے۔ عقبہ بن سمعان کی سوانح زندگی گذشتہ صفحات پر گذرچکی ہے لہٰذ ا اسے وہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔
٣۔محمد بن بشر ہمدانی :معاویہ کی موت کے بعد کوفہ کے شیعوں کا سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر اجتماع ، سلیمان بن صرد کا خطبہ اور اجتماعی طور سے سب کاامام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا ، مسلم بن عقیل کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کا ان لوگوں کو جواب، (ج٥ ،ص٣۔ ٣٥٢)راستے ہی سے جناب مسلم کا امام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا ، پھر امام علیہ السلام کا جواب دینا ، مسلم کا کوفہ پہنچنا اور کوفہ کے شیعوں کا جناب مختار کے گھر میں مسلم کے پاس آناجانا (ج٥ص٣٥٤۔ ٣٥٥) اورہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد کا خطبہ،ان تمام روایتوں کو محمد بن بشیر ہمدانی نے ایک واسطہ سے حجاج بن علی بارقی ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔
یہ شخص سلیمان بن صرد کے گھر میں شیعوں کے اس اجتماع میں حاضر تھا ،کیونکہ وہ کہتا ہے : ''فذکرنا ہلاک معاویہ فحمد نا اللہ علیہ فقال لنا سلیمان بن صرد ...''تو ہم نے معایہ کی ہلاکت کا تذکرہ کیا او راس پر خدا کا شکر ادا کیا تو سلیما ن بن صرد نے ہم سے کہا ... ''ثم سرحنابالکتاب ...''پھر خط لے کر ہم لوگ نکلے ،'' وامر نا ھما با لنجاء ...''اور ہم نے ان دونوں کو کاملاًرازداری کا حکم دیا،'' ...ثم سرحنا الیہ ..''.پھر ہم لوگ اس کی طرف گئے'' ...ثم لبثنا یومین آخرین ثم سرحنا الیہ ...''پھر ہم لوگ دو دنوں تک ٹھہرتے رہے پھر اس کی طرف گئے ''...وکتبنا معھما ..''اور ہم نے ان دونوں کے ساتھ لکھا۔ (ج٥، ص٣٥٤ ۔ ٣٥٥)یہ شخص مختار کے گھر میں مسلم کے سامنے اس شیعی اجتماع میں حاضر تھا لیکن جنگ و جدال سے بچے رہنے کی غرض سے مسلم کی بیعت نہ کی، کیونکہ راوی حجاج بن علی کا بیان ہے کہ میں نے محمد بن بشیر سے کہا :''فھل کان منک ان تقول''؟کیا تم اس مورد میں کوئی عہد پیمان کروگے تو محمد بن بشیر نے جواب دیا:'' ان کنت لأ حب ان یعز اللّہ أصحابی با لظفر'' اگرچہ میں چاہتاہوں کہ خدا ہمارے ساتھیوں کو فتح وظفر کی عزت سے سر فراز کرے ''وما کنت احب ان اقتل !وکر ہت ان اکذب''(ج٥، ص٣٥٥) لیکن میں قتل ہو نا نہیں چاہتااور میں جھوٹ بولنا بھی پسند نہیں کر تا ۔
لسان المیزان میں ابو حاتم کے حوالے سے اس کا ذکر ہے کہ ابو حاتم کہتے ہیں :''یہ شخص محمد بن سائب کلبی کو فی ہے۔اسے اس کے جد محمد بن سائب بن بشر کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ (١) شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں اس شخص کو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے ۔(٢)
٤۔ ابو الودّاک جبربن نوف ہمدانی :کوفہ میں نعمان بن بشیر انصاری (معاویہ اوریزید دونوں کی جانب سے کوفہ کاحاکم )کا خطبہ ، کو فیوں کا خط یزیدکے نام ،(ج٥، ص٣٥٥۔٣٥٦) کوفہ میں ابن زیاد کا خطبہ، (ج٥،ص٣٥٨۔ ٣٥٩)مسلم کا ہانی کے گھر منتقل ہو نا ، ابن زیاد کی طرف سے معقل شامی کا جاسوسی کے ذریعہ مسلم کا سراغ پانا ، ابن زیاد کا ہانی کی عیادت کو آنا اور عمارہ بن عبید سلولی کا اشارہ کرنا کہ ابن زیاد کو قتل کردیں، لیکن ہانی کا اس مشورہ کو پسند نہ کرنا ، ہانی کے گھر ابن زیاد کا شریک بن اعور حارثی ہمدانی کی عیادت کو آنا اور شریک کا مسلم کو اشارہ کرنا کہ ابن زیادکو قتل کر دیں لیکن مسلم کا انکار کر نا،جس پر ہانی کا کبیدہ خاطر ہونا ، ابن زیاد کا ہانی کو طلب کر نا اور انہیںزدو کوب کرنااور قید کردینا ،اس پر عمروبن حجاج زبید ی کا قبیلہ کے جوانوں اور بہادروں کو لے کر دارالامارہ کے ارد گردہانی کی رہائی کے لئے ہجوم کرنا، اس پر دھوکہ اور فریب کے ساتھ قاضی شریح کا ہانی کے پاس جانااور واپس لوٹ کر جھوٹی خبر دینا کہ ہانی صحیح سالم ہیں، اس پر قبیلہ والوں کاواپس پلٹ جا نا ،مندرجہ بالا تمام خبریں اسی ابو ودّاک سے مروی ہیں۔اس نے ان تمام اخبار کو نمیر بن وعلہ ہمدانی کے حوالے سے نقل کیا ہے، فقط آخری خبر معلی بن کلیب سے نقل کی ہے ۔
..............
١۔لسان المیزان ،ج٥، ص٩٤
٢۔ رجال الشیخ ،ص ١٣٦۔٢٨٩ ط نجف ،طبری نے ''ذیل المذیل'' ،ص٦٥١مطبوعہ دارسویدان پر طبقات بن سعدج ،٦ ،ص٣٥٨، کے حوالے سے ذکر کیا ہے منصورکی خلا فت کے زمانے میں ،١٤٦، ہجری میں شہر کو فہ اس کی وفات ہوئی ۔
ابو ودّاک کا پورا نام امیر المومنین کے اس خطبہ میں ملتا ہے جس کی روایت خود اس نے کی ہے کہ'' نخیلہ'' میں خوارج کی ہدایت سے مایوس ہونے کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا۔ (ج٥،ص٧٨ )ظاہراًامام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ شخص کوفہ ہی میں تھا ۔ ایک دن اس نے ایوب بن مشرح خیوانی کی اس بات پر بڑی مذمت کی کہ اس نے حر کے گھوڑے کو کیوں پئے کیا ؛اس نے ایوب سے کہا : ''میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ خدا تم کو ان سب کے قتل کے عذاب میں واصل جہنم کرے گا،کیا تو نہیں جانتا ہے کہ اگر تو نے ان میں سے کسی پر تیر نہ چلایا ہوتا ، کسی کے گھوڑے کو پئے نہ کیا ہوتا ، کسی پرتیر بارانی نہ کی ہوتی، کسی کے روبرو نہ آیا ہوتا ، کسی پر ہجوم نہ کیا ہو تا ، کسی پر اپنے ساتھیوں کو بر انگیختہ نہ کیا ہوتا ، کسی پر اپنے ساتھیوں کی کثرت کے ساتھ حملہ آ ور نہ ہوا ہوتا ، جب تجھ پر حملہ ہواہوتا تو مقابلہ کرنے کے بجا ئے اگر تو عقب نشینی کرلیتا اور تیرے دوسرے ساتھی بھی ایسا ہی کرتے تو کیا حسین اور ان کے اصحاب شہید ہوجاتے ؟ تم سب کے سب ان پاک سرشت اور نیک طینت افراد کے خون میں شریک ہو۔ (ج٥،ص٣٥٧، ٣٥٨ ) ذہبی نے ان کا تذکرہ میزان الاعتدال میں کیا ہے۔،ذہبی کا بیان ہے: ''صاحب ابی سعید الغدری صدوق مشہور'' یہ ابو سعید غدری کے ساتھی اور صداقت میں مشہور تھے۔ (١)تہذیب میں اس طرح ہے :''ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔نسائی نے کہا ہے کہ صالح ہیں اور اپنی کتاب سنن میں ان سے روایت نقل کی ہے۔'' (٢)
٥۔ ابو عثمان نہدی : اہل بصرہ کے نام امام حسین علیہ السلام کا خط اور ابن زیاد کا اپنے بھائی عثمان کو بصرہ کا والی بنا کر کوفہ کی طرف روانہ ہونے کی خبر اسی شخص نے ایک واسطہ صقعب بن زہیر کے حوالے سے نقل کی ہے۔ یہ شخص مختار کے ساتھیوں میں تھا؛ جب یہ ابن مطیع کی حکومت میں کوفہ وارد ہواتو اسے ناداروں کی دادرسی کے امور پر مقرر کیا گیا۔ (ج٥، ص٢٢و٢٩)
..............
١۔میزان الاعتدال، ج٤، ص٥٨٤ ،ط حلبی ۔
٢۔تہذیب التہذیب، ج٢،ص٦٠وتنقیح المقال ،ج٣،ص٢٧
تہذیب التہذیب میں اس کا ذکرملتا ہے۔روایت میںہے کہ وہ قبیلہ قضاعہ سے تھا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا زمانہ درک کیا ہے لیکن آپ کے دیدار کا شرف اسے حاصل نہ ہوا ۔یہ شخص کوفہ کا باشندہ تھا ۔جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو اس نے بصرہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یہ شخص اپنی قوم میں معروف آدمی تھا، ٦٠حج انجام دئے، اس کا شمارصائم النہار اورقائم اللیل میں ہوتا تھا(یعنی دن روزں میں گذرتا تھا اور شب عبادت میں) اس پر لوگ بھروسہ کیا کرتے تھے، ایک سو تیس(١٣٠)سا ل کے سن میں ٩٥ھ میں وفات پائی ۔ (١)
٦۔ عبداللہ بن خازم کثیری ازدی : یہ شخص یوسف بن یزید کے حوالے سے حضرت مسلم بن عقیل کی جنگ کا تذکرہ کرتا ہے اور سلیمان بن ابی راشد کے واسطہ سے لوگوں کے مسلم کو دھوکہ دینے کے واقعہ کو نقل کرتا ہے۔ اس شخص نے پہلے مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی۔ جناب مسلم نے اسے ابن زیاد کے قصر کی طرف بھیجا تاکہ ہانی کا حال معلوم کرکے آئے ، پھر اس شخص نے جناب مسلم اورامام حسین علیہما السلام دونوں کو دھوکہ دیا ۔ (ج٥، ص٣٦٨۔٣٦٩)آخر کار اپنے کئے پر نادم ہوا اورتوابین کے ساتھ ہوگیا اور انھیں کے ہمراہ خروج کیا۔ (ج٥،ص٥٨٣) یہاں تک کہ قتل ہوگیا ۔(ج٥، ص٦٠١)
٧۔ عباس بن جعدہ جُدلی :اس شخص کو عیاش بن جعدہ جُدلی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ جناب مسلم کا اموی حاکم کے خلاف قیام ، کوفیوں کی مسلم کے ساتھ دغااور ابن زیادکا موقف اسی شخص نے یونس بن ابی اسحاق سبیعہمدانی کے واسطہ سے نقل کیا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی اور ان کے ہمراہ نبرد میں شریک رہا، پھر درمیان جنگ سے غائب ہوگیا اوردکھائی نہ دیا ، روایت کا جملہ اس طرح ہے۔'' خرجنا مع مسلم..''.ہم لوگ مسلم کے ہمراہ سپاہ سے نبرد آزمائی کے لئے نکل پڑے ۔
٨۔عبدالرحمن بن ابی عمیر ثقفی :مختار کو ابن زیا د کے پرچم امان کے تلے آنے کی دعوت دینااسی شخص سے منقول ہے ۔
٩۔ زائد ہ بن قدامہ ثقفی : جناب مسلم بن عقیل سے جنگ کے لئے محمد بن اشعث کا میدان نبرد
..............
١۔تہذیب التہذیب، ج٦،ص٢٧٧
میں آنا ، آپ کا اسیر ہو نا، قصر کے دروازہ پر پہنچ کر پانی طلب کرنااورآپ کوپانی پلائے جانے کاواقعہ اسی شخص کے حوالے سے مرقوم ہے ۔(ج٥،ص٣٧٥)
'' طبری ''نے اس شخص کو'' قدامہ بن سعیدبن زائدہ بن قدامہ ثقفی'' کے نام سے یاد کیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زائدہ بن قدامہ ، قدامہ بن سعید کے دادا ہیںاور وہ کوفہ کی پر ماجراداستان میں موجود تھا اور اس کا پوتا'' قدامہ بن سعید ''وہ ہے جسے جناب شیخ طوسی نے اما م صادق علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔ (طبری ،ص٢٧٥،ط نجف )لہٰذاہمارے نزدیک یہی صحیح ہے کہ'' قدامہ بن سعید، زائدہ بن قدامہ ثقفی'' سے روایت نقل کرتے ہیں ۔
٥٨ ہجری میں عام الجماعة(١) کے بعد معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے عبدالرحمن بن ام حکم ثقفی کے دور حکومت میں قدامہ بن سعیدکا دادا زائدہ بن قدامہ کو فہ کی پو لیس کا سربراہ تھا۔ (ج٥ ،ص٣١٠)جب ابن زیاد نے جناب مسلم علیہ السلام کے ارد گرد سے لوگوں کو جدا کرنے کے لئے پرچم امان بلند کیا تو'' عمر و بن حریث ''کے ہمراہ یہ شخص اس پرچم امن کا پرچمدار تھا۔ اسی شخص نے اپنے چچا زاد بھائی مختار کی سفار ش کی تھی، یہی وہ شخص ہے جو کوفہ میں ابن زیاد کے قید خانے سے مختار کا خط لیکر مختار کے بہنوئی عبداللہ بن عمر کے پاس لے گیا تھا۔ تاکہ وہ یزید کے پاس جا کرمختار کی رہائی کی سفارش کرے۔ صفیہ بنت ابی عبید ثقفی کے شوہر عبداللہ بن عمر ، مختار کے بہنوئی نے جاکر وہاں سفارش کی تو مختار کو ابن زیاد نے آزاد کردیا ، لیکن ابن زیاد نے اس فعل پر ''زائد بن قدامہ'' کا پیچھاکیا تو وہ بھاگ نکلا یہاں تک کہ ان کے لئے امن کی ضمانت حاصل کی گئی۔ (ج٥،ص٥٧١)جب عبداللہ بن زبیر کی طرف سے مقرر والی کوفہ عبداللہ بن مطیع کی بیعت ہونے لگی تو بیعت کرنے والوں کے ہمراہ'' زائد بن قدامہ ''نے بھی ابن مطیع کی بیعت کی ابن مطیع نے بیعت کے فوراً بعد ابن ''قدامہ'' کو مختار کی طرف روانہ کیا تاکہ مختار کو بیعت کی دعوت دیں ،لیکن ابن قدامہ نے جب مختار کو اس کی خبر دی تو مختار نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ (ج٦،ص١١)
..............
١۔ جماعت کا سال وہ سال ہے جس کا نام معاویہ نے جماعت کا سال رکھا تھا جسکے بعد اہلسنت خود کو اہلسنت والجماعت کہنے لگے ۔
کوفہ سے مختار کے قیام کا آغاز اسی شخص کے باغ سے ہواتھا جو محلہ'' سبخہ'' میں تھا۔ (ج٦ ،ص٢٢) ابن زبیر کے مقرر کردہ والیٔ کوفہ عمر بن عبدالرحمن مخزومی کو ہٹانے کے لئے مختار نے اسی شخص کو روانہ کیا تھا اور ابن قدامہ نے اسے دھمکی اورمال کی لالچ دیکرہٹادیا ۔(ج٦، ص٧٢) کچھ دنوں کے بعد یہ شخص عبدالملک بن مروان سے ملحق ہوگیااور اس کے ہمراہ مصعب بن زبیر سے جنگ شروع کی یہاں تک کہ ''دیر جاثلیق ''میں مختار کے خون کا انتقام لینے کے لئے اس نے مصعب کے خون سے اپنی شمشیر کو سیراب کر دیا ۔(ج٦،ص١٥٩)
بالآخر حجاج نے ابن قدامہ کوایک ہزار فوج کے ہمراہ مقام'' رودباد ''میں شبیب خارجی سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ کیا۔وہاں پر اس نے خوب جنگ کی یہاں تک کہ وہ ماراگیا؛ جبکہ اس کے ساتھی اس کے ارد گرد تھے۔، یہ واقعہ ٧٦ہجری کے آس پاس کا ہے۔ (ج٦ ،ص٢٤٦)اس سے یہ صاف واضح ہے کہ'' قدامہ بن سعید بن زائد ہ'' جن سے ابومخنف نے روایت نقل کی ہے کوفہ میں جناب مسلم کے قیام کے عینی شاہد نہیں ہیں ، پس صحیح یہی ہے کہ'' قدامہ بن سعید ''نے ''زائدہ بن قدامہ'' سے روایت نقل کی ہے کیونکہ زائدہ ( جیسا کہ گذشتہ سطروں میں ملاحظہ کیا ) عمروبن حریث کے ہمراہ تھا لہٰذا حضرت مسلم کی طرف ابن زیادکی جانب سے محمدبن اشعث کو بھیجے جانے کی خبر اسی شخص نے اپنے پوتے قدامہ بن سعید سے نقل کی ہے ۔
١٠۔عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی: مسلم بن عقیل کا پانی طلب کرنا اور اس پر انھیںپانی پلائے جانے کی خبر اسی شخص کے پوتے سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ نے اس سے نقل کی ہے اور ابو مخنف نے اس سے روایت کی ہے۔ تقریب التہذیب میں لکھا ہے : یہ شخص روایت میں مورد اعتماد ہے جس کی وفات ١١٦ ہجری میں واقع ہوئی ہے۔
١١۔عمر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی : صقعب بن زہیر کے حوالے سے اس شخص نے مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے نکلتے وقت کی خبر کو ذکر کیا ہے۔( ج٥، ص ٣٨٢)مختار کے زمانے میں عبداللہ بن زبیر نے اس شخص کو کوفہ کا والی بنایا تو مختار نے مال کی لالچ اور ڈرا دھمکا کر اسے اس عہدہ سے ہٹادیا۔ (ج٦، ص٧١) تہذیب التہذیب میں اس کا تذکرہ موجود ہے ، صاحب کتاب کا بیان ہے کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے ، دوسرا بیان یہ ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت سے یہ شخص روایت نقل کرتا ہے ۔
١٢۔ عبداللہ اور مذری : عبداللہ بن مسلم اور مذری بن مشمعل یہ دونوں قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتے ہیں۔حجر اسود اور باب کعبہ کے پاس امام حسین علیہ السلام کا ابن زبیر سے روبرو ہونا ، فرزدق کی امام سے ملاقات اور'' ثعلبیہ'' کے مقام پر امام علیہ السلام کا جناب مسلم کی شہادت سے باخبر ہونا،انھیں دونوں افراد نے دو واسطوں:(١) ابی جنا ب یحٰبن ابی حےةالوداعی کلبی سے اور اس نے عدی بن حرملہ اسدی سے نقل کیا ہے۔یہ دونوں افراد وہ ہیں جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی فریاد سنی لیکن آپ کی مدد نہیں کی عبد اللہ بن مسلم اسدی ٧٧ ہجری تک زندہ رہا۔ (٢)
١٣۔امام علی بن الحسین بن علی علیہماالسلام :عبداللہ بن جعفر کا اپنے فرزند عون ومحمد کے ہمراہ خط ، عمرو بن سعید اشدق کا اپنے بھائی یحٰ کے ہمراہ خط اور امام علیہ السلام کا جواب چوتھے امام علیہ السلام سے ایک واسطہ سے مروی ہے اور وہ واسطہ حارث بن کعب والبی ہے ۔(٣)
١٤۔ بکر بن مصعب مزنی : عبداللہ بن بقطر کی شہادت اور منزل'' زبالہ'' کا واقعہ ایک واسطہ سے اسی شخص سے مروی ہے اور وہ واسطہ ا بو علی انصاری ہے ۔(٤) قابل ذکر بات یہ ہے کہ علماء رجال کی نگاہوں میں ان دونوں کی کوئی شناخت نہیں ہے ۔
١٥۔ فزّاری :سدّی کے واسطہ سے زہیر بن قین کے امام حسین علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہونے کی خبر اسی شخص سے مروی ہے۔ روایت کا جملہ اس طرح ہے :'' رجل من بنی فزار ''(٥)بنی فزارہ کے ایک شخص نے بیان کیا ہے ۔
١٦۔ طرماح بن عدی :طرماح بن عدی کی روایت ایک واسطہ سے ''جمیل بن مرثد غنوی '' نے نقل کی ہے کہ طرماح نے امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ امام حسین ے انہیں اپنی مدد کے لئے بلایا تو انھوں نے اپنی تنگ دستی اور عیال کے رزق کی فراہمی کا عذر پیش کیا ۔ امام علیہ السلام
..............
١۔تہذیب التہذیب، ج٧ ، ص٤٧٢ وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال ،ص٢٨٤
٢۔طبری ،ج٦ ، ص٩٥ ٢
٣۔طبری، ج٥ ،ص٣٨٧،٣٨٨
٤۔ج٥، ص٣٩٨۔ ٣٩٩
٥۔ج٥،ص٣٩٦
نے بھی ان کو نہیں روکا ؛اس طرح طرماح امام علیہ السلام کی نصرت کے شرف سے محروم رہ گئے۔شیخ طوسی نے آپ کا تذکرہ امیر امومنین اور امام حسین علیہما السلام کے اصحاب میںکیا ہے ۔
لیکن مامقانی نے آپ کی توثیق کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے : ''انہ ادرک نصرة الامام علیہ السلام وجرح و برء ثم مات بعد ذالک'' (١)
''آپ امام علیہ السلام کی نصرت ومدد سے شرفیاب ہو ئے اور جنگ کے دوران زخمی ہو ئے لیکن بعد میں آپ کا زخم مندمل ہو گیا؛ پھر اس کے بعد آپ نے وفات پائی ہے '' لیکن ما مقانی نے اس سلسلے میں کو ئی ما خذذکر نہیں کیا ہے ۔
١٧۔ عامر بن شراحیل بن عبد الشعبی ہمدانی : مجالد بن سعید کے حوالے سے انھوں نے قصر بنی مقاتل کی خبر کا تذکرہ کیا ہے ۔ (٢) مذکورہ شخص نے ٢١ ہجری میں اس سرائے فانی میں آنکھ کھولی (٣) اس کی ماں ١٦ ہجری کے ''جلولائ''کے اسیروں میں شمار ہو تی ہے۔یہی دونوں باپ بیٹے ہیںجنہوں نے جناب مختار کو سب سے پہلے مثبت جواب دیا اور ان کی حقانیت کی گواہی دی۔ (٤)٦٧ ہجری میں یہ دو نوں باپ بیٹے جناب مختار کے ہمراہ مدائن کے شہر ''ساباط ''کی طرف نکل گئے۔ (٥) مختار کے بعد عامر بن شراحیل ، اموی جلا د''حجاج بن یوسف ثقفی ''سے ملحق ہو کر اس کا ہمنشین ہو گیا (٦)لیکن ٨٢ ہجری میں ''عبد الرحمن بن اشعث بن قیس کندی ''کے ہمراہ حجاج کے خلاف قیام کر دیا (٧) اور جب عبد الرحمن نے شکست کھا ئی تو ''ری'' میں حجاج کے والی قتیبہ بن مسلم سے ملحق ہو گئے اور امن کی درخواست کی تو حجاج نے امان دیدیا۔ (٨) اسی طر ح ز ندگی گذارتا رہا یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزکے دور حکومت میں ٩٩ھ سے ١٠١ ھ تک یزید بن عبد الملک بن مروان کی طرف سے اسے کوفہ کے قاضیوں کا سربراہ قرار دیا گیا۔
..............
١۔ تنقیح المقال ،ج٢، ص١٠٩ یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ یہ وہی معروف مقتل ہے جو ابو مخنف کی طرف منسوب ہے اور یہ وہی روایت ہے جس پر نفس المہموم کے صفحہ ١٩٥پر محدث قمی نے تعلیقہ لگا یا ہے ۔ ٢۔ طبری ج٥، ص٧
٣۔ج٤ص١٤٥
٤۔ج٦،ص٦۔٧
٥۔ج٦،ص٣٥
٦۔ج٦،ص٣٢٧
٧۔ج٦،ص٣٥٠
٨۔طبری، ج٦، س ٣٤٤
یہی وہ شخص ہے جس نے جناب مسلم اور امام حسین علیہماالسلام کی مدد سے سر پیچی کی اور امام علیہ السلام کا سا تھ نہیں دیا۔ ابو مخنف ان سے بطور مرسل حدیث نقل کر تے ہیں اور''الکنی والا لقاب'' کے مطابق ١٠٤ ھمیں نا گہاںاس کو موت آگئی۔ (١)
تا ریخ طبری میں اس شخص سے ١١٤ روایتیں مو جود ہیں۔ تہذیب التہذیب میںمذکورہ شخص کا تذکر ہ مو جود ہے؛ اس کتاب میں عجلی سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ شعبی نے ٤٨صحابہ سے حدیثیں سنی ہیں اور اس نے حضر ت علی علیہ السلام کے زمانے کو بھی درک کیا ہے۔ ایک نقل کے مطابق ١١٠ ھمیں وفات ہوئی ۔(٢)
١٨۔ حسان بن فائدبن بکیرعبسی : نضر بن صالح بن حبیب بن زہیرعبسی کے حوالے سے اس شخص نے پسر سعد کے اس خط کا تذکرہ کیا ہے جو اس نے عبید اللہ بن زیاد کے پاس روانہ کیا تھا اور اس کے بعد ابن زیاد کے جواب کا بھی تذکرہ موجود ہے۔روایت کا جملہ یہ ہے :'' اشہد ان کتاب عمربن سعد جاء الی عبیداللہ بن زیاد وأ نا عندہ فاذا فیہ...'' (١) میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عمر بن سعد کا خط عبید اللہ بن زیاد کے پاس آیااور میں اس وقت وہاں موجود تھا ؛اس خط میں یہ لکھا تھا ...۔
اس شخص نے.عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے مقرر کر دہ والیٔ کو فہ عبد اللہ بن مطیع عدوی کے لشکر کے سر براہ راشد بن ایاس کے ہمراہ جناب مختار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جنگ میںشرکت کی تھی؛ (٢) جب قصر کوفہ کا محاصرہ کیا گیا تو یہ شخص ابن معیط کے ہمراہ اس میں موجود تھا۔ (٣)آخر کارر ٦٤ ھمیں ابن معیط کے ساتھیوں کے ہمراہ مقام'' مضر'' کو فہ کے کوڑے خانہ کے پاس قتل کر دیاگیا ۔
تہذیب التہذیب میں مذکو رہ شخص کا تذکرہ اس طرح ہے : ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے اور سورہ نساء کی آیہ ٥١ میں ''جبت'' کی تفسیر میں بخاری نے شعبہ سے، اس نے ابو اسحاق سبیعی سے،
..............
١۔الکنی والا لقاب ،ج٢،ص٣٢٨
٢۔ تہذیب التہذیب ،ج٥،ص ٦٥
٣۔ طبری، ج٥، ص٤١١
٤۔ طبری، ج٦، ص٢٦،
٥۔ ج٦، ص٣١
اس نے حسان سے اور اس نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے کہ ''جبت'' یعنی سحر اور یہ بھی کہا ہے کہ اس شخص کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے۔ (١)
١٩۔ ابوعمار ہ عبسی : ابوجعفر عبسی کے حوالہ سے اس شخص نے یحےٰی بن حکم کی گفتگو اور دربار یزید کا تذکرہ کیا ہے۔ (٢)
٢٠۔قاسم بن بخیت :شہداء کے سروں کا دمشق لا یاجانا،مروان کے بھائی یحیٰی بن حکم بن عاص کی گفتگو ،زوجہ یزید ہندکی گفتگو اور یزید کا چھڑی سے امام حسین علیہ السلام کے لبوں کے ساتھ بے ادبی کر نے کا تذکرہ اسی شخص نے ابوحمزئہ ثمالی سے اور انھوں نے عبداللہ ثمالی اور انھوں نے قاسم کے ذریعہ کیا ہے۔(٣)
٢١۔'' ابو الکنودعبدالرحمن بن عبید'' :اس نے ام لقمان بنت عقیل بن ابی طالب کے اشعارکو سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ (٤)'' زیاد بن ابیہ'' کی طرف سے یہ شخص کوفہ کا والی تھا۔ (٥) یہ مختار کے ساتھیوں میں تھا اور اس نے دعویٰ کیا کہ اسی نے شمر کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے تاریخ طبری میں اس سے ٩ روایتیں مذکور ہیں جیسا کہ'' اعلا م'' میں بھی ملتا ہے ۔
٢٢۔ فاطمہ بنت علی : طبری کے بیان مطابق یہ خاتو ن جناب امیر کی دختر ہیں ۔ابو مخنف نے حارث بن کعب والبی کے حوالہ سے دربار یزید کا منظر انھیں خاتون سے نقل کیاہے۔الغرض ان لوگوں میں ٢١ افراد وہ ہیں جو یا تو ان مظالم میں شریک تھے یا اس دلسوز واقعہ کے معاصرتھے جنہوں نے روایتیں نقل کی ہیں اور ابو مخنف نے ان لوگوں سے ایک یا دو واسطوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔
..............
١۔ تہذیب التہذیب، ج٢، ص٢٥١
٢۔ طبری ،ج٥، ص٤٦٠۔ ٤٦١
٣۔ طبری ،ج٥ ، س٤٦٥
٤۔ ج٥، ص ٤٦٦
٥۔ج٥، ٢٤٦
پا نچویں فہرست
یہ وہ گروہ ہے جس سے ابو مخنف نے دویا چند واسطوں سے روایتیں نقل کی ہیں۔ یہ گروہ ٢٩ افراد پر مشتمل ہے ۔
١۔ عبد الملک بن نوفل بن عبداللہ بن مخرمہ: مدینہ سے نکلتے وقت امام حسین علیہ السلام کے اشعارکو انھوں نے ابو سعد سعیدبن ابی سعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ (١)
اسکے علاوہ اپنی موت کے وقت معاویہ کا لوگوں سے یزید کی بیعت لینا، معاویہ کے سپاہیوں کے سر برا ہ اور اس کے ا مورد فن کے ذمہ دارضحاک بن قیس فہری کی گفتگواور اپنے باپ معاویہ کی خبر مرگ سن کر یزید کے اشعاراسی شخص نے واسطوں کی تصریح کئے بغیر ذکر کئے ہیں ۔
ابو مخنف کے حوالے سے تاریخ طبری میں اس شخص سے ١٥روایتیں مذکور ہیں جنھیں خود ابو مخنف نے ایک شخص کے واسطے سے نقل کیا ہے ۔ان میں اکثر وبیشترروایتیں مکہ میں ابن زبیر اور مدنیہ میں عبد اللہ بن حنظلہ کے خروج سے متعلق ہیں۔ ان میں سے ایک روایت وہ اپنے باپ نوفل سے نقل کر تا ہے(٢)تو دوسر ی روایت عبداللہ بن عروہ سے، (٣)اور تیسری روایت معاویہ کے ایک دوست حمید بن حمزہ سے منقول ہے۔ (٤)
سات روایتیں بنی امیہ کے ایک چاہنے والے شخص بنام حبیب بن کرّہ سے منقول ہیںیہ مروان بن حکم کا پر چمدار بھی تھا (٥) اور آخری خبر سعید بن عمر وبن سعید بن عاص اشدق کے حوالے سے مروی ہے۔(٦)غالباً عبدالملک نے معاویہ کی وصیت اور اس کے دفن ہو نے کی روایت کو بنی امیہ کے کسی موالی سے نقل کیاہے؛ اگر چہ اس کے نام کی تصریح نہیں کی ہے۔عبد الملک کا باپ نوفل بن مساحق بن مطیع کی جانب سے دو یا پانچ ہزارکی فوج کا کما نڈر ا مقرر تھا ۔خود ابن مطیع کو ابن زبیر نے مقرر کیا تھا۔ ایک
..............
١۔ طبری، ج٥، ص ٣٤٢
٢۔ج٥، ص ٤٧٤
٣۔ج٥،ص٤٧٨
٤۔ج٥،ص٤٧٨
٥۔ ج٥ ، ص ٤٨٢اور ٥٣٩
٦۔ج٥ ،ص ٥٧٧
بار میدان جنگ میں ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور گردن پر تلوار رکھ دی لیکن پھر چھوڑدیا ۔
عسقلانی نے تہذیب التہذیب (١) اور الکا شف (٢) میں مذکور ہ شخص کی روایتوں کو قابل اعتماد بتایا ہے ۔
٢۔ ابو سعید عقیصا : مسجد الحرام میں احرام کی حالت میں امام حسین علیہ السلام کا عبداللہ بن زبیر سے روبرو ہونا اسی شخص نے اپنے بعض ساتھیوں کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔ (٣)
علامہ حلی اپنی کتاب ''خلا صہ '' کے باب اول میں ابو سعید کو امیر المو منین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔ (٤) ، ذہبی نے بھی'' میزان الاعتدال'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یو ں کہا ہے : ''یہ شخص علی علیہ السلام سے روایتیں نقل کرتا ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ ابن سعید نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں اور ان کانام دینار ہے ۔ یہ شیعہ ہیںاور انھوں نے١٢٥ ھمیں وفات پائی ہے۔ (٥)
تہذیب التہذیب میں عسقلانی کہتے ہیں : ''واقدی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں ان سے بہت زیادہ حدیثیں مروی ہیں۔ پہلی صدی ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ ابن سعد نے کہا کہ انھوں نے ولیدبن عبدالملک کے زمانے میں وفات پائی۔بعضوں نے کہا ہے کہ عمر نے ابوسعید کو قبریں کھود نے پر مامور کیا تھا اور بعضوں کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ یہ پائیتی سے قبر میں اترتے تھے لہٰذا ان کو مقبری کہا جانے لگا۔ (٦)
..............
١۔ تہذیب التہذیب، ج٦، ص٤٢٨
٢۔الکا شف، ج٢ ،ص٢١٦
٣۔طبری ،ج٥، ص٣٨٥
٤۔ الخلا صہ، ص١٩٣
٥۔ میزان الا عتدال، ج٢،ص ١٣٩وج٣ ،ص٨٨ ؛ کا مل الزیارات کے ص ٢٣ پر ابن قولو یہ نے اپنی سند سے ابو سعید عقیصا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ''میں نے کافی دیر تک امام حسین علیہ السلام کو عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ آہستہ آہستہ گفتگو کر تے ہوئے سنا۔راوی کہتا ہے : پھر امام علیہ السلام عبد اللہ بن زبیر سے اپنا رخ موڑ کر لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : یہ مجھ سے کہتا ہے کہ حرم کے کبوتر وں کی طرح ہو جایئے جبکہ اگر مجھے حرم میں شرف کے ساتھ قتل کیا جائے تو مجھ کو اس سے زیادہ یہ پسند ہے کہ مجھ کو کسی ایسی جگہ دفن کیا جائے جہاں فقط ایک بالشت زمین ہو۔اگر مجھ کو طف (کربلا ) میں قتل کیا جائے تو حرم میں قتل ہونے سے زیادہ مجھ کو یہی پسند ہے کہ میں کر بلا میں قتل کیا جاؤں''اس روایت سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ راوی نے خود امام علیہ السلام سے حدیث سنی ہے، نہ اس طرح جس طرح ابو مخنف نے سند ذکر کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ''کامل '' اکمل ہے ۔
٦۔تہذیب التہذیب، ج٨،ص٤٥٣ولسان المیزان، ج٢، ص٤٢٢
٣۔ عبد الرحمن بن جندب ازدی : مذکورہ شخص کی کچھ روایتیں عقبہ بن سمعان کے حوالے سے نقل ہوئی ہیں ۔تاریخ طبری میں اس شخص سے تقریباً ٣٠ روایتیں کے مروی ہیں جن میں جنگ جمل ، صفین، نہروان اور کر بلا کا واقعہ ایک واسطہ عقبہ بن سمعان سے منقول ہے۔وہ حجاج کے زمانے کا واقعہ کسی واسطے کے بغیر نقل کر تا ہے کیو نکہ ابن جندب نے ٧٦ھ میں زائدہ بن قدامہ کی سر براہی میں حجاج کی فوج کے ہمراہ رودبار میں شبیب خارجی کے خلاف جنگ میں شرکت کی (١)اوراس میںاسیر کر لیا گیا۔ خوف کے عالم میںاس نے شبیب کے ہاتھوں پر بیعت کرلی (٢)پھر کسی طرح کوفہ پہنچ گیا۔یہ وہ موقع تھا جب حجاج دوسری مرتبہ شبیب پرحملہ کرنے کے لئے تقریر کررہاتھا اوریہ ٧٧ھ کا زمانہ تھا۔(٣)استرآبادی کی ''رجال الوسیط'' کے حوالے سے مقدس اردبیلی نے ابن جندب کو اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار کیا ہے(٤)اور'' لسان المیزان'' میں عسقلانی نے بھی ان کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں کہا ہے :''یہ کمیل بن زیاد اور ابو حمزہ ثمالی سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔'' (٥)
٤۔حجاج بن علی بارقی ہمدانی : مذکورہ شخص کی تمام روایتیں محمد بن بشر ہمدانی کے واسطے سے نقل ہوئی ہیںلہٰذا محمد بن بشر کی طرف مراجعہ کیا جائے۔ تاریخ طبری میں بارقی سے ابن بشر کے علاوہ کسی دوسرے سے کوئی روایت نقل نہیںہوئی ہے'' لسان المیزان'' میں ان کاتذکرہ یوں ملتا ہے : ''شیخ روی عنہ ابو مخنف''یہ ایسے بزرگ ہیں کہ ابو مخنف ان سے روایتیں نقل کر تے ہیں ۔(٦)
٥۔ نمیر بن وعلة الہمدانی ینا عی : مذکور ہ شخص اپنی روایتیں ابو ودّاک جبربن نو فل ہمدانی ، ایوب بن مشرح خیوانی اور ربیع بن تمیم کے حوالے سے نقل کر تا ہے ۔
تاریخ طبری میں اس شخص سے ١٠ روایتیں موجود ہیں۔ آخری روایت شعبی سے ٠ ٨ ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی کے دربار کے بارے میں ہے۔ (٧) لسان المیزان میں یناعی کا تذکرہ یوں ملتا ہے
..............
١۔طبری ،ج٦،ص٢٤٤
٢۔طبری، ج٦،ص٢٤٢
٣۔طبری ،ج٦،ص٢٦٢
٤۔جامع الرواة،ج١، ص٤٤٧
٥۔لسان المیزان، ج٣ ،ص٤٠٨،ط حیدر آباد
٦۔ لسان المیزان، ج٢، ص ١٧٨
٧۔ طبری، ج٦، ص ٣٢٨
اور یہ شعبی سے روایت کر تے ہیں اور ان سے ابو مخنف روایت کر تے ہیں۔'' (١) مغنی میں بھی یہی مطلب موجود ہے۔ (٢)
٦۔ صقعب بن زہیرازدی : مذکورہ شخص اپنی روایتیں ابو عثمان نہدی ،عون بن ابی جحیفہ سوائی اور عبدالر حمن بن شریح معافری اسکندری کے حوالے سے نقل کرتا ہے۔ تہذیب التہذیب کی جلد٦ ،ص ١٩٣ پر مرقوم ہے کہ ١٦٧ ہجری میں اسکندرہی میں ''صقعب ''نے وفات پائی وہ عمر بن عبدالر حمن بن حا رث بن ہشام مخزومی اور حمید بن مسلم کی روایتوں کو بھی نقل کرتا ہے ۔
تاریح طبری میں ابن زہیر سے ٢٠ خبریں منقول ہیں اور تمام خبریں اس طرح ہیں ''عن ابی مخنف عنہ'' ابو مخنف ان (صقعب) سے روایت نقل کرتے ہیں۔ ان روایتوں میں ٣روایتیںپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے متعلق ہیں۔ چونکہ یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے لشکر میں تھے لہٰذا جناب عمار بن یاسرکی شہادت کا بھی تذکرہ کیا ہے (٣) اسی طرح حجر بن عدی کی شہادت کے واقعہ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ (٤) کر بلاکے سلسلے میںنو روایتیں نقل کی ہیں اور تین روایتیں مختار کے قیام کے سلسلے میں ہیں۔ تہذیب التہذیب میں عسقلانی کا بیان اس طرح ہے: ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابوزرعہ کا بیان ہے کہ روایت کے سلسلے میں یہ مورد اعتماد ہیں؛ ابو حاتم کا بیا ن ہے کہ یہ مشہور نہیں ہیں۔(٥) ''خلا صة تہذیب ا لتہذیب الکمال '' کے حاشیہ پر ہے کہ ابو زرعہ نے ان کی توثیق کی ہے۔ (٦)
٧۔ معلی بن کلیب ہمدانی : کر بلا کا دلسوز واقعہ انھوں نے ابو وداک جبر بن نو فل کے واسطہ سے نقل کیا ہے لہٰذا ابو وداک کی روایتوں کو دیکھا جائے ۔
٨۔ یوسف بن یزید بن بکر ازدی : مذکورہ شخص عبداللہ بن حازم ازدی اور عفیف بن زہیر بن ابی اخنس سے روایتیں نقل کر تا ہے۔ تار یخ طبری میں ان کاپورانام مذکورہے (٧) اور ان سے ١٥روایتیںنقل
..............
١۔ لسان المیزان، ج٦، ص١٧١،ط حیدرآباد
٢۔ج٢، ص٧٠١، طبع دارالدعوہ
٣۔ج٥، ص ٣٨
٤۔ ج٥ ، ص٢٥٣
٥۔تہذیب التہذیب ج٤، ص ٤٣٢،
٦۔ الخلا صہ ،ص ١٧٦، ط دارالد عوہ
٧۔طبری ،ج٦، ص ٢٨٤
ہوئی ہیں . ٧٧ھ کے بعد تک انھوں نے زندگی گزاری ہے۔ ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' میں ان کا اس طرح ذکر کیا ہے : آپ بڑے سچے شریف اور بصرہ کے رہنے والے تھے، آپ سے ایک جماعت نے روایتیں نقل کی ہیں اور بہت سارے لوگوں نے ان کی تعریف کی ہے ۔وہ اپنی حدیثیں خودلکھا کر تے تھے۔(١) تہذیب التہذیب میںعسقلا نی نے ان کا اس طرح تذکرہ کیا ہے : ابن حبان نے انھیں ثقات میں شمار کیا ہے۔مقدسی نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں۔ابو حاتم کا بیا ن ہے کہ وہ اپنی حدیثیں خود لکھا کر تے تھے۔ (٢) یہی تذکرہ خلاصة تذ ہیب تہذیب الکمال میں بھی ملتا ہے۔ (٣)
٩۔یونس بن ابی اسحاق :ابو اسحاق عمروبن عبداللہ سبیعی ہمدانی کوفی کے فرزندیونس، عباس بن جعدہ جدلی کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں اورحضرت مسلم بن عقیل کے قیام کے سلسلے میںانھوں نے روایت کی ہے کہ آپ کے مقابلہ میں چار ہزار کا لشکر تھا ۔
علامہ سید شرف الدین موسوی اپنی گرانقدر کتاب ''المراجعات''میں فرماتے ہیں:'':یونس کے والد ابو اسحاق عمروبن عبدللہ بن سبیعی ہمدانی کوفی، کے شیعہ ہونے کی تصریح ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ''المعارف ''اور شہرستانی نے اپنی کتاب ''الملل و النحل''میں کی ہے۔ آپ ان محدثین کے سربراہ تھے جن کے مذہب کو دشمنان اہل بیت کسی طرح لائق ستائش نہیں سمجھتے ،نہ ہی اصول میںاور نہ ہی فروع میں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اہل بیت اطہار علیہم السلام کے نقش قدم پرچلتے ہیں اوردین کے مسئلہ میں فقط اہل بیت اطہار کی پیروی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جوزجانی (گرگانی )(جیسا کہ میزان الاعتدال میں زبیدی کے شرح حال میں ذکر ہواہے) (٤) نے کہا ہے کہ اہل کوفہ میں کچھ لوگوں کا تعلق ایسے گروہ سے تھا ۔جن کے مذہب ومرام کو لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے جبکہ یہ لوگ محدثین کوفہ کے بزرگوں میں سے تھے مثلاًابو اسحاق ، منصور ، زبید الیامی ، اعمش اوران جیسے دوسرے افراد، ان لوگوں کی روایتیں فقط ان کے سچے ہونے کی بنیاد پر قبول کی جاتی ہیں؛ لیکن اگر ان کی طرف سے مرسلہ روایتیں نقل ہوں تو
..............
١۔میزان الا عتدال، ج ٤، ص ٤٧٥
٢۔ تہذیب التہذیب، ج١١، ص ٤٢٩
٣۔الخلا صہ ،ص ٤٤٠
٤۔میزان الاعتدال، ج٢،ص٦٦،ط حلبی
چوں و چرا کیا جاتا ہے۔ نمونے کے طور پر ان میں سے ایک روایت جسے دشمنان اہل بیت ابو اسحاق کے مراسل(مرسلہ کی جمع وہ روایت جس میں درمیان سے راوی حذف ہو)میںشمار کرتے ہوئے انکار کرتے ہیں ابو اسحاق کی وہ روایت ہے جسے عمرو بن اسماعیل نے (جیسا کہ میزان الاعتدال میں عمرو بن اسماعیل کے شرح حال میں مذکور ہے )(١) ابو اسحاق سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ''قال رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم مثل علیٍّ کشجرةانااصلھاوعلی فرعھا و الحسن والحسین ثمرھا والشیعةورقھا''نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی مثال اس درخت کی سی ہے کہ جس کی جڑ میں ہوںشاخ علی ہیں ،حسن و حسین اس کے پھل اور شیعہ اس کے پتے ہیں ۔
پھر علامہ شرف الدین اعلی اللہ مقامہ فرماتے ہیں کہ ( جیسا کہ میزان الاعتدا ل میں ہے کہ) مغیرہ کا یہ بیان کہ اہل کوفہ کی حدیثوں کو ابو اسحاق اور اعمش جیسے لوگوں نے تباہ کیا ہے ، (٢) یایہ کہ اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور اعمش جیسے لوگوں نے ہلاک کیا ہے (٣)فقط اس لئے ہے کہ یہ دونوں آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خالص پیرو تھے اور ان کی سنتوں میں جو چیزیں ان کی خصوصیات و صفات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ اس کے محافظ و نگراں تھے ۔
پھر فرماتے ہیں : صحاح ستہ اور غیر صحاح (اہل سنت کی ٦کتابیں جنہیں وہ صحاح کے نام سے یاد کرتے ہیں ) کے مصنفین نے ان دونوں سے روایتوں کونقل کیا ہے۔ (٤)
بہر حال ''الو فیات '' کے بیان کے مطابق عثمان کی خلافت ختم ہونے کے ٣سال قبل یعنی ٣٣ھ میں آپ کی ولادت ہوئی اور ابن معین و مدائنی کے بیان کے مطابق ١٣٢ھ میں آپ نے وفات پائی ۔
آپ کے فرزند یونس آپ ہی سے روایتیں نقل کرتے ہیں جنکی وفات ١٥٩ ھ میں ہوئی اور اس وقت آپ کی عمر ٩٠ سال کی تھی ۔ یہ وہی شخص ہیں جو ابو مخنف سے عباس بن جعدہ کے حوالے سے کوفہ میں جناب مسلم کے قیام کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں۔ تاریخ طبری میں اس خبر کے علاوہ یونس سے ایک اور خبر
..............
١۔میزان الاعتدال، ج٣ ،ص٢٧٠
٢۔ میزان الاعتدال، ج٣ ،ص ٢٧٠
٣۔ میزان الاعتدال ، ج٢ ،ص ٢٢٤
٤۔ المراجعات، ص ١٠٠ ،ط دار الصادق
منقول ہے لیکن کسی کا حوالہ موجود نہیں ہے اور وہ خبر ابن زیاد کے سلسلے میں ہے کہ ابن زیاد نے ایک لشکر روانہ کیا تاکہ کوفہ پہنچنے سے پہلے امام حسین علیہ السلام کو گھیر لے ، اس کے علاوہ تاریخ طبری میں گیارہ دوسری روایتیں بھی ہیں جنہیں ابو مخنف نے یونس سے نقل کیاہے نیز ١٣روایتیں اور ہیں لیکن وہ ابو مخنف کے علاوہ کسی اور سے مروی ہیں ۔
تہذیب التہذیب میں عسقلانی کا بیان ہے کہ ابن حبان نے آپ کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابن معین کا بیان ہے کہ آپ ثقہ ہیں۔ ابو حاتم نے کہا کہ آپ بہت سچے تھے۔نسائی کا بیان ہے کہ ان کی روایتوں میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ ان کی روایتیں بہت اچھی ہیں ۔ لوگ ان سے روایتیں نقل کرتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ١٥٩ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ (١)
١٠۔ سلیمان بن راشدازدی : مذکورہ شخص عبداللہ بن خازم بکری ازدی ، حمید بن مسلم ازدی اور ابو کنود عبد الرحمن بن عبید کی روایتوں کو نقل کرتا ہے۔ تاریخ طبری میں اس شخص سے ٢٠روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں اکثر و بیشتر بالواسطہ ہیںوہ ٨٥ ھتک زندہ رہے۔ (٢)
١١۔ مجالد بن سعید ہمدانی : یہ شخص عامر شعبی ہمدانی سے روایتیں نقل کرتا ہے۔ اس کی روایت قصر بنی مقاتل کے سلسلے میں ہے ۔(٣) مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفیوں کی بے وفائی ، جناب مسلم علیہ السلام کی تنہائی اور غریب الوطنی ، آپ کا طوعہ کے گھر میں داخل ہونا ، ابن زیاد کا خطبہ ، بلال بن طوعہ کی خبر اور ابن زیاد کااشعث کے بیٹے کو جناب مسلم علیہ السلام سے لڑنے کے لئے بھیجنے کے سلسلے میں بھی'' مجالد ''کی روایتیں موجود ہیں لیکن وہ مرسل ہیں جن کو طبری نے کسی کی طرف مستند نہیں کیا ہے۔(٤)
تاریخ طبری میں مجالد سے ٧٠ خبریں نقل ہوئی ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر شعبی کے حوالے سے ہیں۔ ابو مخنف اسے محدث کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ (٥)
..............
١۔تہذیب التہذیب ،ج١ ، ص ٤٣٣
٢۔ طبری ،ج٦ ، ص ٣٦٠
٣۔طبری ،ج٥ ص ٤٠٧
٤۔ ج٥، ص ٣٧١۔٣٧٣
٥۔ طبری، ج٥ ، ص٤١٣
ذہبی نے میزان الاعتدال میں''مجالد'' کا تذکرہ اس طرح کیا ہے : یہ مشہور اور صاحب روایت ہیں اور ''اشبح ''نے ذکر کیا ہے کہ وہ خاندان رسالت کے پیرو تھے۔ مجالد کی وفات ١٤٣ھ میں ہوئی ۔اس کے بعد ذہبی، بخاری سے روایت کرتے ہیں کہ بخاری نے مجالد کے شرح حال میں ان سے روایت نقل کی ہے اور وہ شعبی سے اور وہ ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا : جب بنت رسولۖنے اس دنیا میں قدم رکھ کر اس دنیا کو منور کیا تو پیغمبر اسلامۖ نے ان کا نام ''منصورہ '' رکھا۔ اسی وقت جبرائیل نازل ہوئے اور فرمایا : اے محمد !اللہ آپ پر تحفۂ درودسلام بھیجتا ہے اور آپ کے گھر پیدا ہونے والی بچی کے لئے بھی ہدیہ درود و سلام بھیجتا اورفرماتا ہے: '' مااحب مولود احب الی منھا '' ہمارے نزدیک اس مولود سے زیادہ کوئی دوسرا مولود محبوب نہیں ہے لہٰذا خداوند عالم نے اس نام سے بہتر نا م منتخب کیا ہے؛ جسے آپ نے اس بیٹی کے لئے منتخب کیا ہے ، خدا نے اس کا نا م'' فاطمہ'' رکھا ہے'' لانھا تفطم شیعتھا من النار''کیونکہ یہ اپنے شیعوں کو جہنم سے جداکرے گی ،لیکن یہ حدیث ذہبی کے حلق سے کیسے اتر سکتی ہے لہٰذا انہو ں نے فوراًاس حدیث کو جھٹلایا اور دلیل یہ پیش کی کہ بنت رسول کی ولادت تو بعثت سے قبل ہوئی ہے۔ (اگر چہ ذہبی کا یہ نظریہ غلط ہے لیکن دشمنی اہل بیت اطہار میں وہ بے بنیاد حدیث کو بھی صحیح ما ن لیتے ہیں اور فضائل کی متواتر حدیث کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ضعیف ثابت کر نے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ) اسی حدیث کی بنیا د پر ذہبی نے کہہ دیا کہ وہ توشیعہ تھے۔ (١)
١٢۔ قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی :قدامہ اپنے دادا زائدہ بن قدامہ سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔قدامہ کی روایت ہے کہ محمد بن اشعث مسلم بن عقیل علیہ السلام سے جنگ کے لئے نکلا ،پھر جناب مسلم قید کئے گئے ، آپ نے دار الامارہ کے دروازہ پر پانی طلب کیا اور آپ کو پانی پیش کیا گیا۔ (٢) طبری نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے باپ یا دادا سے استناد نہیں کیا اور ظاہراًیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قدامہ کوفہ میں ان واقعات کے رونما ہوتے وقت موجود ہی نہیں تھے وہ تو ان کے دادا ''زائدہ''تھے جو اس
..............
١۔ میزان الاعتدال، ج ٣ ، ص ٤٣٨ ،ایک قول یہ ہے کہ ١٤٢ یا ١٤٤ ہجری ذی الحجہ کے مہینہ میں مجالد نے وفات پائی۔ ذہبی نے تہذیب التہذیب میں یہی لکھا ہے ۔
٢۔ طبری ،ج ٥ ، ص ٣٧٣ ۔ ٣٧٥
وقت وہاں موجود تھے اور عمر و بن حریث کے ہمراہ کوفہ کی جامع مسجد میں ابن زیاد کا پرچم امن لہرارہے تھے ، کیونکہ ابن زیاد نے یہ کہا تھا کہ مسلم سے جنگ کے لئے محمدبن اشعث کے ہمراہ بنی قیس کے ٧٠ جوان بھیجے جائیں (١) اور اس وقت زائدہ نے اپنے چچازاد بھائی مختار کے لئے سفارش کی تھی، (٢) لیکن قدامہ بن سعید کو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے(٣) جس کی تفصیل پہلے گذرچکی ہے لہٰذا وہاں دیکھاجائے ۔
١٣۔ سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط اموی :یہ شخص اپنے دادا عمارہ بن عقبہ سے روایت نقل کر تا ہے کہ اس کے دادا نے اپنے غلام قیس کو اپنے گھر روانہ کیا تا کہ وہ پا نی لے کر آئے اور محل کے دروازہ پر کھڑ ے مسلم ابن عقیل کو ابن زیاد کے پاس لے جانے سے پہلے پا نی پلا دے۔(٤) کتا ب کی عبارت ہے : ''حد ثنی سعید ... ان عمارہ بن عقبہ ... '' '' سعید نے ہم سے حدیث نقل کی ہے ... کہ عمارہ بن عقبہ ...''اس عبارت سے یہی ظاہر ہو تا ہے کہ حدیث بغیر کسی سند کے بلا واسطہ نقل ہو رہی ہے لیکن یہ بہت بعید ہے۔ظاہر یہی ہے کہ سعید اپنے دادا عمارہ کے حوالے سے حدیثیں نقل کر تے ہیں۔ہمارے نزدیک پا نی لا نے کے سلسلے میں قدامہ بن سعید ہی کی روایت تر جیح رکھتی ہے جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ پا نی عمر وبن حریث لے کر آیا تھا، نہ کہ عمارہ یا اس کا غلام۔ اس حقیقت کا تذکر ہ اس کتاب میں صحیح موقع پر کیا گیا ہے۔
١٤۔ ابو جناب یحٰ بن ابی حیہ وداعی کلبی : یہ شخص عدی بن حرملہ اسدی سے اور وہ عبد اللہ بن سلیم اسدی ومذری بن مشمعل اسدی سے اور وہ ہا نی بن ثبیت حضرمی سے روایتیں نقل کر تا ہے۔ یہ روایتیں کبھی کبھی مرسل بھی نقل ہو ئی ہیںجن میں کسی سند کا تذکرہ نہیںہے۔ انھیںمیں سے ایک روایت جناب مسلم کے ساتھیوں کا ابن زیاد سے روبروہو نا، (٥) ابن زیاد کاجناب مسلم اور جناب ہا نی کے سروں کو یزید کے پا س بھیجنا اور اس سلسلے میں یزید کو ایک خط لکھنا بھی ہے۔(٦)
..............
١۔طبری ،ج ٥ ،ص ٣٧٣
٢۔ طبری، ج ٥ ، ص ٥٧٠
٣۔ رجال شیخ ، ص ٢٧٥ ،ط نجف
٤۔ طبری، ج٥، ص ٣٧٦
٥۔ج٥ ،ص ٣٦٩۔ ٣٧٠
٦۔ج٥ص٣٨٠
جیسا کہ یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ ظاہراً ان واقعات کو ابو جناب نے اپنے بھائی ہانی بن ابی حیہ و داعی کلبی کے حوالے سے نقل کیا ہے جس کو ابن زیاد نے جناب مسلم کے سراور اپنے نامے کے ساتھ یزید کے پاس بھیجا تھا۔ (١) تا ریخ طبری میں ٢٣روایتیں با لو اسطہ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان کے سلسلے میں نقل ہوئی ہیں اور ٩روایتیں واقعۂ کر بلا کے سلسلے میں ہیں جن میں سے پا نچ بالواسطہ اور تین مر سل ہیں، لیکن ظاہر یہ ہے کہ در حقیقت یہ تینو ں روایتیں بھی مستند ہیں۔ان روایتوں سے یہ انداز ہ ہو تا ہے کہ وہ ان لو گوں میں سے نہ تھا جو دشمن کے لشکر میں تھے ،البتہ اس کا ان کے ہم عصروں میں شمار ہو تا ہے ۔
آخری مرسل روایت جو میری نظروں سے گذری ہے یہ ہے کہ جناب مختار کے قیام کے بعد ٦٧ ھمیں مصعب بن زبیر نے ابراہیم بن مالک اشتر کو خط لکھوا کر اپنی طرف بلا یا ۔(٢)عسقلانی تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں: ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔اسی طرح ابن نمیر، ابن خراش، ابو زرعہ اور ساجی نے کہا کہ یہ کو فہ کے رہنے والے تھے اور بہت سچے تھے۔ ابو نعیم کا بیان ہے کہ ان کی روایتوں میں کو ئی مشکل نہیں ہے۔ ١٥٠ہجری میںان کی وفات ہوئی ،اگرچہ ابن معین کا بیان ہے کہ ٧ ١٤ھ میں وفات پا ئی۔ (٣)
١٥۔ حارث بن کعب بن فقیم والبی ازدی کوفی : حارث بن کعب عقبہ بن سمعان ، امام زین العابدین علیہ السلام اور فاطمہ بنت علی کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں۔وہ شروع میں کیسا نیہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے (٤) ( جو جناب مختار کو امام سمجھتے تھے ) لیکن بعد میں امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے قائل ہوگئے اور ان سے روایتیں بھی نقل کرنے لگے۔ (٥) ایسا اندازہ ہو تا ہے کہ یہ کو فہ سے مدینہ منتقل ہو گئے تھے کیو نکہ انھوں نے امام زین العابدین اور فاطمہ بنت علی علیہما السلام سے خودحد یثیں سنی ہیں۔(٦)
..............
١۔ ج ٥ ،ص ٣٨٠
٢۔طبری، ج٦، ص ١١
٣۔ تہذیب التہذیب، ج١١،ص ٢٠١
٤۔طبری، ج٦، ص ٢٣
٥۔طبری ،ج٥،ص ٣٨٧
٦۔ ج٥، ص ٤٦١
شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے آپ کو امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے،لیکن نجف سے طبع ہو نے والی اس کتاب میں جو رجال شیخ کے نام سے معروف ہے شیخ نے کعب کی جگہ حر بن کعب ازدی کو فی کر دیا ہے۔ محقق کتاب نے حاشیہ میں ایک دوسرے نسخہ کی مدد سے حارث لکھا ہے اور یہی صحیح ہے ۔
١٦ ۔ اسما عیل بن عبد الرحمن بن ابی کریمہ سدّی کو فی : زہیر بن قین کے واقعہ کو یہ فزاری کے حوالے سے نقل کر تے ہیں ۔
ذہبی نے'' میزان الا عتدال'' میں ان کا تذکرہ کر تے ہو ئے کہا ہے : ان پر تشیع کی نسبت دی گئی ہے اور وہ ابو بکر وعمر پر لعنت وملا مت کر تے تھے ا۔بن عدی نے کہا ہے کہ یہ میرے نزدیک بڑے سچے ہیں۔ احمد نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں۔یحٰ نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ سدّی کو اچھے نا م سے یاد کرتا ہے اور ان کو کسی نے ترک نہیںکیا ۔ ان سے شعبہ اور ثوری روایت کر تے ہیں ۔(١) تا ریخ طبری میں ان سے ٨٤ روایتیںنقل ہوئی ہیں جن میں دوسری صدی ہجری کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔
''تہذیب التہذیب اور ''الکاشف '' میں مذکور ہے کہ انھوں نے ٧ ١٢ھمیں وفات پائی، چونکہ یہ مسجد کو فہ کے درواز ہ پر با لکل وسط میں بیٹھا کر تے تھے لہٰذ ان کو'' سدّی'' کہا جا نے لگا ۔یہ قر یش کے موالی میں شمار ہو تے ہیں اور امام حسن علیہ السلا م سے روایتیں نقل کر تے ہیں۔
١٧۔ ابو علی انصاری : یہ بکر بن مصعب ْمزنی ّ سے روایت نقل کر تے ہیں۔عبد اللہ بن بقطر کی شہادت کا تذکرہ انھیں کی روایت میں مو جو د ہے۔ تاریخ طبری میں اس روایت کے علاوہ ان کی کو ئی دوسری روایت موجود نہیں ہے۔ رجال کی کتا بوں میں ان کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے ۔
١٨۔ لو ذان : یہ شخص اپنے چچا کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام سے راستے میں اپنے چچا کی ملا قات کا تذکرہ کر تا ہے اورخود غیر معروف ہے ۔
١٩۔ جمیل بن مر ثدی غنوی : یہ شخص طر ماح بن عدی طائی سے انھیں کی خبر کو نقل کر تا ہے ۔
..............
١۔تہذیب التہذیب، ج١،ص ٢٣٦،ط جلی
٢٠ ۔ ابو زہیر نضربن صالح بن حبیب عبسی : مذکو رہ شخص حسان بن فا ئد بن بکیر عبسی کے حوالے سے پسر سعد کے ابن زیاد کو خط لکھنے کی روایت اور ابن زیاد کے جواب دینے کا تذکرہ کر تا ہے۔اس کے علا وہ قرہ بن قیس تمیمی کے حوا لے سے جناب حر کا واقعہ بیان کر تا ہے ۔
تا ریخ طبری میںاس راوی سے ٣١ روایتیں منقول ہیں۔ ابو زہیر نے جناب مختار کے زما نے کو بھی درک کیا ہے۔ (١) اس کے بعد ٦٨ ہجری میں مصعب بن زبیر کے ہمراہ یہ قطریّ خارجی سے جنگ کے لئے میدان نبرد میں اتر آئے ،پھر ٧٧ ہجری میں مطرف بن مغیرہ بن شعبہ ثقفی خارجی کے مدائن میںنگہبان اور دربان ہوگئے۔ اس وقت ان کی جوانی کے ایام تھے لہٰذا ہر وقت مطرف کی نگہبانی کے لئے تلوار کھینچے کھڑے رہتے تھے ،نیز اسی سال انھوں نے مطرف کی فوج میںرہ کر حجاج کے لشکر سے جنگ کی،(٢) اس کے بعد کوفہ پلٹ گئے۔ (٣)
امام رازی نے اپنی کتاب ''الجرح والتعدیل'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوے کہا ہے :''میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ابو مخنف ان سے روایت نقل کرتے ہیں اوروہ بالواسطہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں۔(٤)
٢١۔ حارث بن حصیرہ ازدی : یہ شخص بعض روایتوں کو عبداللہ بن شریک عامری نہدی کے حوالے سے نقل کرتا ہے اور بعض روایتوں کو اس کے واسطے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتا ہے ۔
ذہبی نے'' میزان الاعتدال'' میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : ابو احمد زبیری کا بیا ن ہے کہ یہ رجعت پر ایمان رکھتے تھے اور یحٰ بن معین نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ان کو خشبی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس خشب (لکڑی) کی طرف منسوب ہیں جس پر زید بن علی کو پھانسی دی گئی تھی ۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ ان کا شمار کوفہ کے شدید شیعوںمیںہوتا ہے ۔ ابوحاتم رازی کہتے ہیں کہ ان کا شماربہت قدیم شیعوں میں ہوتا ہے لیکن اگر ثوری نے ان سے روایت نقل نہ کی ہوتی تو یہ متروک تھے۔ (٥)
..............
١۔ طبری ،ج ٦، ص ٨١
٢۔ ج٦ ، ص٢٩٨
٣۔ ج٦، ص٢٩٩
٤۔الجرح والتعدیل،ج٨، ص ٤٧٧
٥۔میزان الاعتدال، ج ، ص٤٣٢،ط حلبی
ذہبی نے نفیع بن حارث نخعی ہمدانی کوفی اعمی (جو اندھے تھے ) کے شرح حال میں حارث بن حصیرہ سے روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے : '' بہت سچے تھے لیکن رافضی تھے۔ اس کے بعد سند روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ حارث بن حصیرہ نے عمران بن حصین سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے کہا :''کنت جالساعندالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وعلیُّ الی جنبہ '' میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس بیٹھاتھا اور علی (علیہ السلام) ان کے پہلو میں بیٹھے تھے ،'' اذقرأ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ'' امن یجیب المضطرّاذا دعاہ و یکشف السوء و یجعلکم خلفاء الارض'' (١)
اسی درمیان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیہ شریفہ ''امن یجیب المضطر...''کی تلاوت فرمائی'' فارتعد عَلِیّ ،فضرب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ بیدہ علی کتفہ''آیت کو سن کر علی لرزنے لگے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو علی کے شانے پر رکھا''فقال: لایحبک الا مومن ولا یبغضک الا منافق الی یوم القیا مة''(٢)اور فرمایا: قیامت تک تم سے محبت نہیں کریگا مگر مومن او ر دشمنی نہیں کرے گا مگر منافق۔
تاریخ طبری میں ابن حصیرہ سے ١٠ روایتیں موجود ہیں اور ان تمام روایتوں کو ابو مخنف نے ان سے نقل کیاہے۔ شیخ طوسی نے اپنے رجال میں ان کو امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے(٣)لیکن آپ نے حارث بن حصین ازدی نامی شخص کا تذکرہ امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب میںکیا ہے جو غلط ہے ۔
٢٢۔ عبداللہ بن عاصم فائشی ہمدانی : یہ ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کی روایتوں کو نقل کرتے ہیں۔مقدس اردبیلی نے ''جامع الرواة ''میں ذکر کیا ہے کہ کافی میں تیمم کے وقت کے سلسلے میں ان سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی ایک روایت منقول ہے ۔
تہذیب میں عسقلانی نے ان کا تذ کرہ کیا ہے، نیز بصائر الدرجات میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے۔ ان سے ابان بن عثمان اور جعفر بن بشیر نے روایتیں نقل کی ہیں۔ (٤)
..............
١۔نمل ٦٢
٢۔میزان الاعتدال، ج ٤ ،ص٢٧٢
٣۔ رجال شیخ ، ص ٣٩،ط نجف
٤۔جامع الرواة ،ج١،ص ٤٩٤
٢٣۔ ابو ضحاک : یہ شب عاشور کا واقعہ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ۔
ذھبی نے'' میزان الاعتدال ''(١)میں اور عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب'' (٢)میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ شعبہ نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔
٢٤۔ عمرو بن مرّہ الجملی : یہ ابو صالح حنفی سے اوروہ عبد ربہ انصاری کے غلام سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔ان کی خبر میں جناب بریر بن خضیر کی شوخی کا تذکرہ ہے ۔(١) ذہبی نے ''میزان الاعتدال'' (٢) میںا ور عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب''(٣)میں انکا تذکرہ کیا ہے۔وہ کہتے ہیں :ابن حبان نے ان کو ثقہ میں شمار کیا ہے اس کے بعد کہتے ہیں کہ انھوں نے ١١٦ھ میں وفات پائی۔احمد بن حنبل نے ان کی ذکاوت اورپاکیزگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات ١١٨ ہجری میں ہوئی اور بخاری کا بیان ہے کہ علی (علیہ السلام ) سے انھوں نے تقریبا١٠٠روایتیں نقل کی ہیں۔ شعبہ کا بیا ن ہے کہ یہ بڑے صاحب علم تھے۔ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ سچے اور مورد اعتماد ہیں ابن معین کا بیا ن ہے کہ وہ ثقہ ہیں ۔
٢٥۔ عطأ بن سائب :انھوں نے جنگ کے شروع میں ابن حوزہ کی شہادت کا تذکرہ عبدالجبار بن وائل حضرمی کے حوالے سے اور اس نے اپنے بھائی مسروق بن وائل حضرمی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ (٤)
عسقلانی نے'' تہذیب التہذیب'' میں انکا اس طرح تذکرہ کیا ہے : عبدالجبار بن وائل اپنے بھائی سے روایت نقل کرتا ہے۔ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے،اس کے بعد کہتے ہیں کہ ١٢٢ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔عطاء مکہ کے رہنے والے ہیں ٦٤ ہجری میں ابن زبیر کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی خرابی اور اس کی تجدید کوانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ٩٤ ہجری تک حجاج کے ہاتھوں قتل نہ ہوسکے۔ (٧)'' تہذیب التہذیب'' میں ہے کہ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے ، اور یہ کہا ہے کہ ان کی وفات١٣٧ ہجری میں ہوئی ہے ۔
..............
١۔میزان الاعتدال، ج٤ ،ص ٥٤٠،ط حیدر آباد
٢۔تہذیب التہذیب، ج١٢ ،ص ١٣٦
٣۔طبری ،ج٥ ،ص ٥٢٣
٤۔ میزان الاعتدال، ج٣ ،ص ٢٨٨
٥۔ تہذیب التہذیب، ج ٨ ، ص ١٠٢
٦۔طبری ،ج٥ ص٤٣١
٧۔ج٦،ص٤٨٨
٢٦۔ علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی ہمدانی : زہیر بن قین کے خطبہ کی روایت کو انھوں نے کثیر بن عبداللہ شعبی ہمدانی کے حوالے سے نقل کیاہے۔حنظلہ بن اسعد شبامی اصحاب امام حسین علیہ السلام میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا ہے۔ علی ان کے فرزند ہیں ؛ایسا لگتا ہے کہ یا تو علی اس وقت کربلا میں موجود نہ تھے یا کمسن ہونے کی وجہ سے قتل نہ ہو پائے ۔یہ بلا واسطہ کوئی خبر نقل نہیں کرتے ہیں۔ مذکورہ روایت انھوں نے کثیر بن عبداللہ شعبی قاتل زہیر بن قین کے حوالے سے نقل کی ہے ۔
٢٧۔ حسین بن عقبہ مرادی : یہ عمر و بن حجاج کے حملے کا تذکرہ زبیدی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔
٢٨۔ ابو حمزہ ثابت بن دینار ثمالی : اہل حرم کی شام میں اسیری کی روایت کو یہ قاسم بن بخیت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔ آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے بلکہ تعریف و تمجید سے بالا تر ہے ۔
٢٩۔ ابو جعفر عبسی : یحٰبن حکم کے اشعار کو یہ ابو عمارہ عبسی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔
یہ وہ ٢٩افراد ہیں جو ابو مخنف اور عینی گواہوں کے درمیان واسطہ ہیں ۔