مقد مۂ مو لف
جب انسان نے لکھنا سیکھا تو اپنے اور دوسروں کے کارناموں کو زیو ر تحر یر سے آراستہ کیااوراس طرح آہستہ آ ہستہ تا ریخ وجود میں آئی ۔
ظہور اسلام کے وقت عرب میں تاریخ چند ایسے لو گوں پر منحصر تھی جو انساب عرب سے آگاہ اور انکے اہم دنوں سے واقف تھے۔ عرب ان کو کو علا مہ(١) کہا کر تے تھے۔ انہیں میں سے ایک نضر بن حارث بن کلدہ تھاجو ایران وروم کا سفر کیا کر تا تھا اور وہاں سے ایسی کتا بیں خریدکر لا تا تھا جس میں اہل فارس کی داستا نیں ہوا کر تی تھیں؛ جیسے رستم واسفندیار وغیرہ کی کہا نیاں۔یہ شخص انہیں کہا نیوں کے ذریعے لوگوں کو لہو ولعب میں مشغول رکھتا تھا تا کہ لو گ قرآن مجید نہ سن سکیں ۔ خدا وندعالم کی طرف سے اسکی مذمت میں آیت نازل ہو ئی :'' وَمِنَ النَّاسِ مَن ےَّشْتَرِیْ لَھْوَالْحَدِ یْثِ لِےُضِلَّ عَنْ سَبِےْلِ اللّہِ بِغَےْرِعِلْمٍٍِ وےَتَّخِذَھَا ھُزُواًاُوْلٰئِکَ لَھْمْ عَذَا ب مُّھِےْن وَاِذَاتُتْلَٰی عَلَےْہِ آےَا تُنَا وَلَّیٰ مُسْتَکْبِرًا کَأَ ن لَّمْ ےَسْمَعْھَاکَاَنَّ فِی اُذْنَےْہِ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَاْبٍ اَلِےْمٍ'' (٢)
..............
١ ۔کلینی علیہ الر حمہ نے کا فی میں اپنی سند سے امام مو سی کا ظم علیہ اسلام سے روایت بیان فرمائی ہے کہ آپ نے فرمایا :ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک آدمی کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ نے سوال کیا : یہ کون ہے ؟جواب دیا گیا :علامہ، آنحضرتۖنے سوال کیا : علامہ سے مرادکیا ہے؟ لوگو ں نے جواب دیا : یہ عرب کا سب سے بڑا نسب شناس ، اہم واقعات اور تاریخو ںسے آگا ہ اور اشعار عرب کا بڑاواقف کار ہے ؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرما یا:یہ ایسا علم ہے کہ نہ تو اس سے جاہل رہنا ضرر رساںہے اورنہ ہی اس کا جاننا مفید ہے۔ .پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: علم تین چیزوں پر مشتمل ہے،آےة محکمہ، فریضةعادلہ اورسنة قائمہ،اس کے علاوہ سب بیکار ہے ۔(کافی، ج١،ص٣٢ )
٢۔سور ہ ٔلقما ن آیہ٦۔٧۔تفسیر قمی، ج ٢ ،ص١٦١ ،مطبوعہ نجف وتفسیر ابن عباس ،ص٣٤٤ مطبوعہ مصر
مد ینہ میں بھی اسی طرح کاایک شخص تھا جس کا نام سوید بن صامت تھا وہ انبیائے ما سلف کے قصّے کوجو یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں موجود تھے لوگوں کو جمع کر کے سنایا کرتا تھا اور اس طرح سے لوگوں کو بیہودہ باتوں میں مصروف رکھتا تھا۔ جب اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کی خبر سنی تو مدینہ سے حج یا عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوا۔مکہ پہنچ کر اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی ۔سوید نے آپ سے کہا: ہمارے پاس لقمان کے حکمت آمیز کلمات موجود ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :ذرا مجھے بھی دکھاؤ ! اس نے ایک نوشتہ آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :''ان ھٰذا لکلا م حسن والذ مع احسن منہ ،قرآن انزلہ اللّہ علّ ھد ی و نوراً ''(١)
بیشک یہ کلام اچھا ہے لیکن میرے پاس اس سے بھی بہتر کلام قرآن ہے جسے اللہ نے مجھ پر نازل کیا ہے جو ہدایت اور نور ہے ۔
تاریخی دستاویزمیں گذشتہ انبیاء اور ان کی امتوں کی داستانیں بھی شمار ہو تی ہیں، جسے طبری اور محمد بن اسحاق نے ذکر کیا ہے۔یہ وہی تاریخی شواہد ہیں جو اسلام سے قبل بعض اہل کتاب دانشوروں کے ذریعے سے ہم تک پہنچے ہیں؛لہٰذاٰ ظہور اسلام اور قلب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن نازل ہونے سے پہلے کی تاریخ کے سلسلے میں ہماری معلو مات اسی حد تک محدود ہے۔ ایسے بد تر ین ما حول میںاسلام، قرآن مجیدکے ہمراہ آیا اور صبح وشام اس کی تلاوت ہو نے لگی۔ ا یسی صورت میں حفا ظ کرام کے حفظ کے باوجود ضرورت پیش آئی کہ اس مبارک کتا ب کوقلمبندکیا جا ئے۔ اسی ضرورت کے پیش نظرقرآن مجیدپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے دور میں صفحۂ دل پر نقش ہو نے کے ساتھ ساتھ صفحۂ قرطاس پر بھی محفوظ ہو نے لگا ،لیکن قرآن کی تفسیر ،گذشتہ شر یعتوں اورادیان کی خبر یں ، مسائل وا حکام شرعیہ کی تفصیلات کے سلسلے میں پیغمبراسلاۖم کی احادیث ،آپ کی سیرت وسنت اور جنگ و غزوات کے حالات کی تفصیلات غیر مدوّن رہ
..............
١۔طبری، ج٢، ص٣٥٣، مطبوعہ دارالمعارف ویعقو بی ،ج٢، ص٣٠ ،مطبوعہ نجف
گئیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم فنا سے ملک بقا کی طرف کو چ کر گئے؛ اب آپ کے پیرومسلمان ان لوگوں سے حد یثیںکسب کر نے لگے جنہوں نے احادیث کو حفظ کر لیا تھا اورخود پیغمبر اسلامۖ ۖ سے ان حدیثوں کو سناتھا یارسول اللہۖ کی عملی زندگی میں اس کو دیکھاتھا۔
ادھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ان لوگوں نے سراٹھا نا شروع کیا جو آپ کی حیات میں مسلمان ہونے کا دم بھر تے تھے ایسے لوگوں کے خلاف اصحاب رسول جنگوں میں شرکت کے لئے میدان میں اترآئے تو فقط یمامہ کی جنگ میںجو مدعی نبوت مسیلمہ کذ اب اور اس کے ساتھیوں کے خلاف لڑی گئی تھی تقریباً تین سو (٣٠٠)افراد سے زیادہ شہید ہو ئے (١) ایسی صورت حال میں اصحاب کواحادیث رسولۖ کی تدوین کی فکر لاحق ہو ئی،لیکن صحابہ اس پر متفق نہ ہو سکے؛ بعض نے اجازت دی تو بعض نے منع کیا لیکن افسوس اس کا ہے کہ ترجیح تدوین سے روکنے ہی والوں کو دی گئی کیوں کہ ادھر خلیفئہ اول (٢)و دوم (٣)و سوم(٤) تھے۔ منع حدیث کایہ سلسلہ دوسری صدی ہجری تک ان کے پیر ؤں کے درمیان باقی رہا آخر کار مسلمانوں نے مل جل کر خود کو اس مصیبت سے نجات دلائی اور تاریخ نویسی کا سلسلہ شروع کیا ۔
اسلام کا پہلا تاریخ نگار
١میر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین کے بعد تدوین و تحریر کے کام کو لازم و ضروری سمجھتے ہوئے قلم سنبھالا اورخودیہ عہد کیا کہ نماز کے علاو ہ اس وقت تک دوش پرردا نہیں ڈالوں گاجب تک کہ قرآن مجید کوترتیب نزولی کے مطابق مرتب نہ کر لوں۔اس تدوین میں آپ نے عام و خاص، مطلق و مقید ،مجمل و مبین ، محکم و متشابہ ، ناسخ و منسوخ، رخصت وعزائم اور آداب وسنن کی طرف اشارہ کیا، اسی طرح آیات میں اسباب نزول کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی اور جہاں بعض پہلوئوں میں مشکل دکھائی دیتی تھی اس کو بھی واضح کیا ۔
..............
١۔ طبری،ج ٣ ،ص٢٦٩،طبع دارالمعارف
٢۔تذکرةالحفاظ، ج١،ص٣و٥
٣۔گذشتہ حوالہ، ج١، ص٣،٤،٧؛بخاری ،ج٦،باب الاستیذان ؛طبقات بن سعد ،ج٢،ص٢٠٦
٤۔مسند احمد، ج١،ص٣٦٣ ، کتاب '' السنة قبل التد وین ''ملاحظہ ہو۔
کتاب عزیزکی جمع بندی کے بعد آپ نے دیّات کے موضوع پربھی ایک کتاب تالیف فرمائی جسے اس زمانے میں''صحیفہ''کہاجاتاتھا۔ابن سعید نے اپنی کتاب کے آخر میں جو''الجامع''کے نام سے معروف ہے ا س کاذکرکیا ہے اور بخاری نے بھی اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ہے مثلاً جلد اول کی'' کتاب العلم'' ہی میں اس کاتذکرہ موجود ہے۔
اسی زمانے میںآپ کے چاہنے والوں کی ایک جماعت نے آپ کی اس رو ش کی بھر پور پیروی کی جن میں ابو رافع ابراہیم القبطی اور ا س کے فرزند علی بن ابی رافع اور عبید اللہ بن ابی رافع قابل ذکر ہیں ۔
عبید اللہ بن ابی رافع نے جمل ،صفین اور نہروان میں شرکت کرنے والے اصحاب کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھی (١)جو تاریخ تشیع میں، تاریخ کی سب سے پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ تاریخ نویسی میں شیعہ تمام مسلمانوں کے درمیان میر کارواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔دیگر مورخین جیسے محمد بن سائب کلبی متوفیٰ١٤٦ھ ،ابو مخنف لوط متوفیٰ١٥٨ھ اور ہشام کلبی٢٠٦ھوغیرہ کی تا ریخی کتابیں، تاریخ اسلام کے اولین مصادر و منابع میں شمار ہوتی ہیں۔(٢)
کربلا
دشت کربلا میں وہ غمناک اور جاںسوزواقعہ رونما ہواجسے تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ایک نمایاںحیثیت حاصل رہی ہے۔اس سر زمین پرسبط رسول اکرم ۖسید ا لشہداء حضرت ابو عبداللہ امام حسین علیہ الصلوٰة والسلام کے اوپر وہ وہ مظالم ڈھائے گئے جس سے تاریخ کا سینہ آج بھی لہو لہان ہے۔
یہ درد ناک واقعہ جو٦١ھ میں پیش آیا، داستانوں کی صورت میں لوگوں کے درمیان سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا اور ایک زبان سے دوسری زبان تک پہنچتارہا ۔یہ واقعات لوگوں نے ایسے افراد کی زبانی سنے
..............
١۔رجال نجاشی، ج ١ ، ص٥، مطبوعہ ہند؛الفہرست،ص ١٢٢،مطبوعہ نجف
٢۔ مزید معلومات کے لئے مؤ لفوا الشیعہ فی الاسلام ، الشیعہ و فنون الاسلام ، تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام، ص٩١۔٢٨٧؛ اعیان الشیعہ، ج١ ، ص ٨ و٤٨،اور الغدیر، ج٦ ، ص٠ ٢٩۔٢٩٧ کا مطالعہ کیجئے۔
جو وہاں موجود تھے اورجو اْن خونچکاں واقعات کے عینی شاہد تھے ،بالکل اسی طرح جس طرح دیگر اسلامی جنگوں کے واقعات سنے جاتے تھے ۔
لیکن کسی نے بھی ان واقعات کو صفحۂ قرطاس پر تحریر نہیں کیاتھا۔یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا؛یہاںتک کہ دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ابومخنف لوط بن یحییٰ بن سعید بن مخنف بن سلیم ازدی غامدی کوفی متوفیٰ١٥٨ھ(١) نے اس واقعہ کو معتبر راویوں کی زبان سے یکجا کیا اور اس امانت کو کتابی شکل دیکر اس کا نام ''کتاب مقتل الحسین'' رکھا جیسا کہ آپ کی کتابوںکی فہرست میںیہی نام مرقوم ہے۔ یہی وہ سب سے پہلی کتاب ہے جو اس عظیم اورجانسوز واقعہ کے تاریخی حقائق کو بیان کرتی ہے ۔
دوسری تاریخ
ابو مخنف کی روشن بینی کے زیر سایہ تربیت پانے والے ان کے شاگرد نے تاریخ اسلام اور بالخصو ص کربلا کے جانسوزواقعات کاعلم اپنے استاد سے حاصل کیا۔آپ کانام ہشام بن محمد بن سائب کلبی تھا۔ نسب شناسی میںآپ کوید طولیٰ حاصل تھا۔ ٢٠٦ ھ میںآپ نے وفات پائی۔ (٢) ہشام بن محمدبن سائب کلبی نے اسی سلسلہ کی دوسری کتاب تحریرفرمائی لیکن اس کی تنظیم و تالیف سے قبل وہ اسے اپنے استاد ابی مخنف کو فی کی خدمت میں لے گئے اور ان کے سامنے اس کی قرائت کی ؛پھر ان دلسوز واقعات کے تمام نشیب و فرازکواپنے استاد کے ہمراہ تکمیل کی منزلوں تک پہنچایا۔ اس کتاب میں حدثنی ابو مخنف یا عن ابی مخنف (ابو مخنف نے ہم سے بیان کیا ہے )بہت زیادہ موجود ہے۔ اپنے استاد کی کتابوں میں سے جس کتاب کو ہشام نے کتابی شکل دی اور ان کے سامنے قرا ئت کی نیز اس سے روایات کو نقل کیا، ابو مخنف کی وہی کتاب ''مقتل الحسین'' ہے جو ان کی کتابوں کی فہرست میں موجود ہے لیکن ہشام نے جو اہم کام انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے مقتل الحسین میں فقط اپنے استاد ابو مخنف ہی کی حدیثوں پر اکتفا نہیں کیا
..............
١۔فوات الوفیات، ج٢ ، ص١٤٠ ؛الاعلام للزرکلی ،ج٣ ،ص ٨٢١؛مروج الذہب، ج٤ ، ص٢٤ ،مطبوعہ مصر
٢۔مروج الذھب، ج٤ ، ص ٢٤، مطبوعہ مصر
بلکہ اس میں تاریخ کے اپنے دوسرے استاد عوانةبن حکم متوفیٰ١٥٨ھ کی حدیثیں بھی بیان کیں ۔
صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے وا لوں سے یہ بات پوشیدہ نہیںہے کہ تمام اسلامی مورخین انھیں د و عظیم علماء کی عیال شمار ہوتے ہیںاور وہ سب ابی مخنف کے دستر خوان کے نمک خوار ہیں؛ اسکا سبب یہ ہے کہ وہ زمان واقعہ کے نزدیک ترین مورخوں میں شمار ہوتے ہیں لہٰذاوہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ جزئی مسائل کی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور واقعہ کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جس طرح وہ واقع ہواہے ۔
اکثر مورخین نے تاریخ کے سلسلہ میں ابو مخنف کی کتابوں کو بطور خلاصہ اپنی تالیفات میں جگہ دی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتابیں اس وقت مورخین کے پاس موجود تھیں۔
جن مورخین نے ابو مخنف کی تحریر سے اپنی کتابوں میں استفادہ کیا ہے ان میں سے مندرجہ ذیل افراد کے نام قابل ذکر ہے ۔
..............
١۔محمدبن عمر واقدی متو فی ٢٠٧ھ ۔
٢۔طبری،متوفیٰ ٣١٠ھ۔
٣۔ابن قتیبہ ،متو فی ٣٢٢ھالامامة والسیاسةمیں۔
٤۔ ابن عبدربّہ اندلسی ،متوفیٰ٣٢٨ھ نے اپنی کتاب'' العقدالفرید''میںسقیفہ کی بحث کرتے ہوئے ۔
٥۔علی بن حسین مسعودی، متوفیٰ٣٤٥ھنے عروہ بن زبیر کی عذر خواہی کا قصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عروہ بن زبیر نے بنی ہاشم سے اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کے لئے بیعت کا مطالبہ کیا ۔ بنی ہاشم نے مخالفت کی ؛اس پر عروہ نے ان لوگوں کو دھمکی دی کہ تمہارے گھروں کو جلا دیں گے۔ا س کی اطلاع جب اس کے بھائی عبد اللہ کو ملی تو اس نے عروہ کی سر زنش کی اور عروہ نے اپنے بھائی سے عذرخواہی کی ۔
٦۔شیخ مفید ،متوفیٰ ٤١٣ھ نے'' الارشاد ''میں امام حسین کی شہادت کے ذیل میںاور ''النصر ہ فی حرب البصرہ'' میں ۔
٧۔شہرستانی،متوفیٰ٥٤٨ ھ نے فرقہ نظامیہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب'' ملل و نحل'' میں۔
٨۔خطیب خوارزمی، متوفیٰ٥٦٨ ھ نے اپنی کتاب'' مقتل الحسین'' میں۔
٩۔ ابن اثیر جزری،متوفیٰ٦٣٠ ھ نے اپنی کتاب'' الکامل فی التاریخ ''میں ۔
١٠۔سبط بن جوزی،متوفیٰ٦٥٤ ھ نے اپنی کتاب'' تذکرہ خواص الامة''میں ۔
١١۔ آخری شخص جسے میں نے دیکھا ہے کہ کسی واسطہ کے بغیر ابو مخنف سے روایت نقل کرتا ہے ، ابو الفدا ،متوفیٰ٧٣٢ ھ ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
اس وقت ابو مخنف کی کتابیں بالخصوص ''مقتل الحسین ''ہماری معلومات کے مطابق دسترس میں نہیں ہے بلکہ تمام کتابیں ضائع ہو چکی ہیں ،دوسری کتابوں سے جستہ و گریختہ جو معلومات فراہم ہوئی ہیں وہی اس وقت موجود ہیں ۔
قدیم ترین سند
١۔گذشتہ سطروں میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ابو مخنف کی ساری کتابیں ضائع ہوچکی ہیں لہٰذا وہ قدیم نص اورسند جو اس کتاب سے متعلق ہمارے پاس موجود ہے تاریخ طبری ہے؛ جس میںمحمدبن جریرطبری ،متوفیٰ٣١٠ ھ نے ہشام کلبی کی حدیثوںکو جو انہوں نے اپنے استاد ابو مخنف سے حاصل کی تھیںذکر کیا ہے۔واضح رہے کہ طبری نے اس سلسلہ میں بطور مستقل کوئی کتاب نہیں لکھی ہے اورنہ ہی اپنی تاریخ میں کوئی الگ سے باب قائم کیا ہے بلکہ ٦٠ ھ اور ٦١ھکے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے۔ (١)
قابل ذکر ہے کہ طبری بلا واسطہ ہشام کلبی سے ان احادیث کی روایت نہیں کرتے بلکہ ان کی کتابوں اور تحریروں سے حدیثوں کو بیان کرتے ہوئے یوں ناقل ہیں:حدثت عن ہشام بن محمد، ہشام بن محمد سے حدیث نقل کی گئی ہے ؛لیکن اس کی وضاحت نہیں کرتے کہ ان احادیث کو خود طبری سے کس نے بیان کیا ہے۔ہمارے اس قول کی دلیل کہ طبری نے ہشام کے زمانے کو درک نہیں کیا ہے اور بلا واسطہ حدیثوں کو ان سے نہیں سنا ہے، طبری کی تاریخ ولادت٢٢٤ھ اور ہشام کی تاریخ وفات٢٠٦ھ ہے ۔
..............
١۔طبری ،ج٥،ص٣٣٨،٤٦٧ ،مطبوعہ دارالمعارف
طبری نے سینۂ تاریخ کے ناسور،واقعۂ حرہ کا ذکر کرتے ہوئے خود اس بات کی تصریح کی ہے کہ انھوں نے ان مطالب کو ہشام کلبی کی کتابوں سے نقل کیا ہے طبری کا بیان اس طرح ہے:
ھکذاوجدتہ فی کتابی... میں نے اس واقعہ کو اسی طرح ان کی دونوں کتابوں میں دیکھا ہے۔ (١)
٢۔ طبری کی نص و سند کے بعدہمارے پاس ابو مخنف سے منقول کربلا کے واقعات کی قدیم ترین سند شیخ مفید، متو فیٰ٤١٣ ھ کی کتاب ''الارشاد'' ہے جس میں انہوں نے بلا واسطہ ہشام کلبی کی کتاب سے روایتیں نقل کی ہیں کیونکہ شیخ مفید علیہ الرحمہ، اپنی کتاب میںواقعہ کربلا کو ذکر کرنے سے پہلے اس طرح بیان فرماتے ہیں:''فمن مختصرالاخبار...مارواہ ا لکلبی ...''ان خبروں کاخلاصہ ...جس کی روایت کلبی نے کی ہے ..۔(٢)
٣۔ اس کے بعد ''تذکرة الامةبخصائص الائمة'' میںسبط ابن جو زی ،متوفیٰ٦٥٤ھ بھی بہت سارے مقامات پر امام حسین علیہ السلام کی خبروں کے ذیل میں ہشام کلبی ہی سے تصریح کے ساتھ روایتیں نقل کرتے ہیں۔
جب ہم طبری کی نقل کا شیخ مفیداورسبط ابن جوزی کی نقل سے موازنہ کرتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان نصوص کے درمیان کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے ،البتہ شاذو نادر اختلافات بھی دکھائی دیتے ہیں، مثلاًواو کی جگہ پر فاء ہے یا اس کے بر عکس۔اسی قسم کے دوسرے اختلافات بھی آپ کو کتاب کے مطالعہ میں واضح طور پر دکھائی دیں گے ۔
..............
١۔طبری ،ج٥،ص٤٨٧،اس مقام پرطبری کا بعض اسماء کو مختلف طریقوں سے لکھنا بھی دلیل ہے کہ اس نے روایت سنی نہیںبلکہ دیکھی ہے، مثلاًمسلم بن مسیب کا نام دو جگہ آیاہے ، ایک جگہ صحیح لکھا ہے لیکن دوسری جگہ سلم بن مسیب کردیا ہے جبکہ یہ ایک ہی شخص ہے ،جیسا کہ مختار کے واقعہ میں ایسا ہی ہوا ہے۔
٢۔الاشاد ، ص٢٠٠،طبع نجف
ابو مخنف
تا ریخ نے ہما رے لئے ابو مخنف کی تا ریخ ولادت کو ذکر نہیں کیا ہے۔فقط شیخ طو سی علیہ الرحمہ نے کشّی رحمة اللہ علیہ سے نقل کر تے ہو ئے ان کو اپنی کتاب'' الر جال ''میں راویوں کے اس گروہ میں شامل کیا ہے جو حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں ،پھر شیخ طوسی فر ما تے ہیں : ''وعندی ھذا غلط لان لو ط بن یحییٰ لم یلق امیر المو منین علیہ السلام بل کا ن ابو ہ یحیٰ من اصحابہ''(١) میر ی نظر میںکشی کی یہ بات غلط ہے کیو نکہ لوط بن یحٰ ابو مخنف نے امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ ہاں ان کے والد یحٰ،امام علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار ہو تے تھے ۔لیکن شیخ کے علاوہ کسی اورنے امیر المو منین کے اصحاب میں ابو مخنف کے والد یحییٰ کا تذکرہ نہیں کیا ہے، البتہ انکے دادا مخنف بن سلیم ازدی کے بارے میںملتا ہے کہ وہ اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو تے تھے۔اس کے بعد شیخ فرماتے ہیں کہ مخنف بن سلیم ازدی عائشہ کے خالہ زاد بھائی، عر ب نژاداور کو فہ کے رہنے والے تھے۔ (٢)
قابل ذکر ہے کہ شیخ طوسی نے اس بات کو شیخ کشی کی کتاب سے نقل کیا ہے،خود ان سے بلا واسطہ نقل نہیں کیا ہے، کیو نکہ کشی تیسری صدی ہجری میں تھے اور شیخ طو سی ٣٨٥ھکے متولد ہیں، جیسا کہ ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب ''معالم العلما ئ'' (٣)میں ذکر کیا ہے ۔کشی کی اس کتاب کا نام''معر فہ النا قلین عن الا ئمہ الصادقین''ہے لیکن آج یہ کتاب نایاب ہے۔ ہماری دسترس میں فقط وہی سند ہے جسے سیدا بن طاؤوس نے فرج المہموم(٤)میں ذکر کیا ہے کہ شیخ طوسی نے ٤٦٥ہجری میں اس بات کو کشی کی کتاب سے نقل کیا ہے .خود شیخ طوسی کے مختار نظریہ کے مطا بق بھی کہیں یہ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ انہوں نے ابو مخنف کو اصحاب امیر المو منین علیہ السلام میں شمار کیا ہو۔شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب'' رجال'' میں
..............
١۔رجال، شیخ، ص ٥٧،مطبو عہ نجف
٢۔ گذشتہ حوالہ٥٨
٣۔ معالم العلما ء ،ص ٢٠٢، ط نجف
٤۔فرج المہموم، ص ١٣٠ ،ط نجف
ابو مخنف کو اصحاب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام میں شمار کیا ہے، (١)جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں بھی انکا ذکر کیا ہے، (٢) پھر اسکے بعد امام زین العابدین اور امام محمد با قر علیھماالسلام کے اصحاب میں ذکر نہیں کیا ہے۔
شیخ طوسی اپنی کتاب ''الفہر ست'' میں بھی کشی کے اس نظریہ کو پیش کرنے کے بعد اظہار نظر کر تے ہوئے فر ماتے ہیں :''والصحیح ان ابا ہ کان من اصحاب امیر المومنین علیہ السلام وہولم یلقہ ''(٣) صحیح تو یہ ہے کہ ابو مخنف کے والد اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو تے تھے لیکن خودابو مخنف نے حضرت کو نہیں دیکھا ہے۔اسکے بعد شیخ ابو مخنف تک سند کے طریق میں ہشام بن محمد بن سا ئب کلبی اور نصر بن مزاحم منقری کا ذکر کر تے ہیں ۔
شیخ نجاشی نے بھی اپنی کتاب'' رجال'' میں انکا ذکر کیا ہے۔وہ فر ما تے ہیں : ''لوط بن یحٰبن سعید بن مخنف بن سالم (٤)ازدی غامدی ابو مخنف ،کو فہ میں اصحاب اخبار وا حادیث کے درمیان بزرگ اور جانی پہچانی شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے ۔آپ اس قدر مورد اطمینان تھے کہ آپ کی بیان کی ہوئی باتوں کو لوگ بغیرچون وچرا قبول کر لیا کر تے تھے۔ آپ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایتیں نقل کیا کر تے تھے'' لیکن یہ صحیح نہیں ہے( رجال النجاشی، ص ٢٢٤،طبع حجرہند ) اس کے بعد نجاشی نے ابو مخنف کی کتابوں کے تذکرہ میں '' کتاب مقتل الحسین ''کا بھی ذکر کیا ہے۔پھر ان روایتوں کے نقل کے لئے اپنے طریق میں ہشام بن محمد بن سائب کلبی کاذکر کیا ہے جو ابو مخنف کے شاگرد تھے ۔
اب تک ہم نے علم رجال کی چار اہم کتابوںمیںسے تین کتابوں سے ابو مخنف کے سلسلہ میں علمائے رجال کے نظریات آپ کی خدمت میں پیش کئے لیکن ان تینوں منابع میں کہیں بھی ابو مخنف کی تاریخ ولادت و وفات کا تذکرہ نہیں ملتا ۔
..............
١۔رجال، شیخ طوسی، ص٧٠
٢۔سابقہ حوالہ، ص ٧٩
٣۔ الفہرست، شیخ طوسی ،ص١٥٥،ط نجف
٤۔کتنے تعجب کی بات ہے کہ یہاں پرشیخ نجاشی مخنف بن سالم کہہ رہے ہیں لیکن جب کتاب کا ذکر کر تے ہیں تو فر ما تے ہیں انکی کتاب بنام ''اخبار آل مخنف بن سلیم ''ہے ! بہتر یہی ہو گا کہ اسے نسخہ نویسوں کی غلطی شمار کیا جائے۔
طبری اور خاندان ابومخنف
طبری اپنی کتاب''ذیل المذیل'' میں ان صحابہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جو ٨٠ ھ میں اس دنیا سے گذر گئے ، بیان کرتے ہیں :''مخنف بن سلیم بن حارث...بن غامدبن ازد'' ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ۔آپ کوفہ میں خاندان ازد سے تعلق رکھتے تھے اورآپ کے تین بھائی تھے۔
١ ۔ ''عبدشمس ''جنہوں نے جنگ نخیلہ میں جام شہاد ت نو ش فرمایا ۔
٢۔ ''الصقعب ''آپ جنگ جمل میں درجہ شہادت پرفائزہوئے۔
٣۔ ''عبداللہ'' آ پ بھی جنگ جمل ہی میں شہید ہوئے ۔
مخنف ہی کی اولاد اور نسل میں ابو مخنف لوط بن یحٰبن سعید بن مخنف ہیں جو تاریخ داں اور تاریخ نگار دونوں تھے۔ لوگوں کے تاریخی واقعات آپ ہی سے نقل کئے جاتے ہیں۔'' (١) پھر طبری بصرہ کے واقعات و احوال کے سلسلہ میں دوسرے مورخین کے حوالے سے لکھتے ہیںکہ امیر المومنین نے ان ٧گروہوں بجیلہ ،انمار، خثعم ،ازد... مخنف بن سلیم بن ازدی کو سردار لشکر قراردیا ۔(٢) ان دونوںعبارتوں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ابو مخنف جنگ جمل میں شہید ہوئے ہیں ، لیکن طبری جنگ جمل کے سلسلہ میں ابو مخنف سے ایک دوسری روایت نقل کرتے ہیں کہ ابو مخنف نے اپنے چچا محمد بن مخنف سے اس طرح نقل کیا ہے :''کوفہ کے کچھ بزرگوں نے جو جنگ جمل میں موجود تھے، مجھ سے بیا ن کیا ہے کہ اہل کوفہ میں خاندان ازد کا پرچم مخنف بن سلیم کے ہاتھوں میں تھا۔ مخنف بن سلیم اسی جنگ میں جاں بحق ہوگئے ۔ان کے بعد ان کے دو بھائیوںصقعب اور عبداللہ کے ہاتھوں یہ پرچم لہرایا گیا اور وہ دونوں بھی اسی جنگ میں شہید ہوگئے ''۔
طبری کی یہ عبارت'' ذیل المذیل ''کی عبارت سے مشترک ہے جس میں مخنف کے دو بھائی
..............
١۔المطبوع مع التاریخ،مطبو عہ دارالقاموس، ج ١٣،ص٣٦۔ اورمطبوعہ دار سویدان، ج١١، ص٥٤٧
٢۔طبری ،ج ٤،ص٥٠٠،مطبوعہ دارالمعارف
صقعب اور عبداللہ کی شہادت کا تذکرہ ہے ممکن ہے کہ'' ذیل المذیل ''میں طبری نے اسے اپنی ہی تاریخ سے نقل کیا ہو، لیکن مخنف بن سلیم کی شہادت کے سلسلے میں یہ خبر دوسری روایتوں سے منافی اور متعارض ہے، کیونکہ اس عبارت میں طبری نے کہا کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل میں شہید ہوگئے ۔طبری کی یہ بات اس روایت کے منافی ہے جسے انھوں نے کلبی کے حوالے سے ابومخنف سے جنگ صفین کے سلسلہ میں نقل کیا ہے :''حدثنی ابی ، یحٰبن سعید عن عمہ محمد بن مخنف قال : کنت مع ابی (مخنف بن سلیم ) یومئذ و انا ابن سبع عشرہ سنة''(١)مجھ سے میرے والد یحٰ بن سعید نے اپنے چچا محمد بن مخنف کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے کہا :''میں جنگ صفین میں اپنے والد (مخنف بن سلیم ) کے ہمراہ تھا اس وقت میری عمر سترہ سال تھی''۔ اسی طرح طبری نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :''مجھ سے حارث بن حصیرہ ازدی نے اپنے اساتید اور بزرگان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ '' قبیلہ ازد'' جب ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے تو'' مخنف بن سلیم ''پر یہ بڑی سخت گھڑی تھی جس سے وہ کافی ناراض تھے''۔
ا سی طرح طبری نے مدائنی متوفیٰ٢٢٥ھ اور عوانہ بن حکم متوفیٰ ١٥٨ھ سے روایت کی ہے کہ ان لوگوں نے سلسلۂ سند کو قبیلہ بنی فزار کے ایک بزرگ تک پہنچاتے ہوئے کہا : ''معاویہ نے نعمان بن بشیر کو ٢ہزار سپاہیو ں کے ہمراہ امیر المومنین کی طرف روانہ کیا ۔وہ لوگ ایک مقا م تک پہنچے جس کا نام عین التمرتھا۔ وہاں سے ان لوگوں نے حضرت کے لشکر پرحملہ کیا ، اس مقام پر مالک بن کعب ارحبی جو لشکر امیر المومنین کے علمدار تھے ،اپنے تین سو افراد کے ساتھ ان حملہ آورں کے سامنے ڈٹے رہے اورحضرت علی کو خط لکھ کر فوج کی مدد طلب کی ۔مالک بن کعب نے ایک دوسرا خط مخنف بن سلیم کو لکھا کیو نکہ وہ وہاں سے نزدیک تھے اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ مخنف نے فوراًاپنے فرزند عبد الرحمن کو پچاس آدمیوں کے ہمراہ ان تک روانہ کیا ؛یہ افراد بلا تاخیر وہاں پہنچ کر مالک کے لشکر سے ملحق ہوگئے ۔
..............
١۔ طبری ،ج٤، ص٢٤٦
جب اہل شام نے یہ منظر دیکھا اور سمجھ گئے کہ مالک بن کعب کی مدد کے لئے لشکر موجود ہے تو وہیں سے ان کے قدم اکھڑگئے اور وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔'' (١) ان تمام تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل کے بعد تک با حیات تھے اور نہ فقط بعد از جنگ جمل بلکہ جنگ صفین کے بعد بھی زندہ تھے، کیونکہ جنگ صفین ٣٧ھ میں ختم ہوگئی اور معاویہ کی طرف سے سرحدی علاقوں میں قتل و غارت گری کا سلسلہ ٣٩ ھ سے شروع ہوا ۔اس درمیان فقط وہی ایک روایت ہے جس میں جنگ جمل میں شہادت کا تذکرہ موجو دہے جیسا کہ گذشتہ سطروں میں اس کی وضاحت ہوگئی ہے ،لیکن طبری اس کی طرف با لکل متوجہ نہیں ہوئے، نہ ہی اس کے اوپر کوئی تعلیقہ لگایا، جبکہ انھوںنے''ذیل المذیل ''میں اس کی صراحت کی ہے کہ وہ ٨٠ ھ تک زندہ تھے۔ (٢)
نصربن مزاحم اور خاندان ابومخنف
طبر ی کے علاوہ نصر بن مزاحم منقری، متوفیٰ ٢١٢ ھنے بھی اپنی کتاب'' وقعة صفین'' میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ مخنف بن سلیم جنگ جمل کے بعد بقید حیات تھے۔ وہ اپنی کتاب میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ یحٰبن سعید نے محمد بن مخنف سے نقل کیا ہے کہ محمدبن مخنف کہتے ہیںکہ حضرت علی علیہ السلام نے بصرہ سے پلٹنے کے بعد میرے والد (مخنف بن سلیم ) کی طرف نگاہ کی اور فرمایا :''لیکن مخنف بن سلیم اور ان کی قوم نے جنگ میں شرکت سے سر پیچی نہیں کی...۔'' (٣)
محمد بن مخنف اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا یہ کہنا ہے کہ امیر المو منین نے مخنف بن سلیم کو اصفہان اور ہمدان کی ذمہ داری دیکر گو رنر کے طور پروہاں روانہ کیا اور وہاں کے سابق ذمہ دار جر یربن عبد اللہ بجلی کو معزول کر دیا۔(٤)محمد بن مخنف مزید کہتے ہیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے شام کا قصد کیا تو اپنے کا رکنوں کو اس سے آگا ہ کیا ؛ منجملہ ایک خط مخنف بن سلیم کو
..............
١۔ طبری ،ج ٥ ،ص ١٣٣ مطبوعہ دار المعارف
٢۔ ذیل المذیل، ص٥٤٧ ،مطبوعہ دار سویدان؛ تاریخ طبری کی گیارہویںجلد
٣۔ وقعة صفین، ص٨ ، طبع مدنی
٤۔ سابقہ حوالہ، ص١١
روانہ کیا جسے آپ کے حکم کے مطابق آپ کے کاتب عبداللہ ابی رافع نے تحریر کیا تھاخط ملتے ہی مخنف بن سلیم نے اپنے اہلکاروں میں سے دو آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیا اور خود وہاں سے فوراً حضرت کے لشکر کی طرف روانہ ہوگئے ؛یہاں تک کہ صفین ہی میں حضر ت علی علیہ السلام کی ہمر کا بی میں شہید ہو گئے۔(١) آگے بڑھ کر محمد بن مخنف کہتے ہیں کہ مخنف بن سلیم چار بڑے قبیلے ازد ، بجیلہ ، انصاراور خزاعہ کے سربراہ تھے۔ (٢) پھر لکھتے ہیں:مخنف ، بابل کے سفرمیں علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ (٣)
اسکے علاوہ بزرگان'' ازد'' سے مروی ہے کہ'' قبیلہ ازد'' کا ایک گروہ شام کی طرف سے اور دوسرا گروہ عراق کی طرف سے (جس میں مخنف بھی تھے )جب آمنے سامنے ہوا تو مخنف بن سلیم کے لئے یہ بڑی سخت منزل تھی۔ان کے دل پر اس سے چوٹ لگی اور وہ بے چین ہو گئے؛ لہٰذاانہوں نے ایک تقریر کی اور فر مایا کہ یہ امر میرے لئے بڑاسخت ہے اورمیں اس سے خوش نہیں ہوں۔ (٤)
اس سلسلے میں ابو مخنف کا بیان بھی قابل استفادہ ہے۔ وہ اس واقعہ کو اپنے والد کے چچا محمد بن مخنف سے نقل کر تے ہیں کہ محمدبن مخنف کہتے ہیں :''اس دن میں اپنے والد مخنف بن سلیم کے ہمراہ تھا اوراس وقت میری عمر ٧ا سال کا تھی''۔ (٥)
اس جملہ سے کہ '' میری عمر١٧سال تھی '' اندازہ ہوتا ہے کہ سعیداپنے بھائی محمد سے چھوٹے تھے اور وہ جنگ صفین میں حاضر نہ تھے لہٰذا اس جنگ کی روداد کو اپنے بھائی سے نقل کررہے ہیں۔ یہ خبر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محمد بن مخنف کی ولادت٢٠ ھ میں ہوئی ۔بنابراین سعید، جو لوط (ابو مخنف )کے دادا ہیں وہ بھی اسی سال کے آس پاس متولد ہوئے ہیں ۔
..............
١۔سابقہ حوالہ، ص١٠٤
٢۔صفین، ص١١٧
٣۔سابقہ حوالہ، ص١٣٥
٤۔سابقہ حوالہ، ص٢٦٢ ؛کتاب تقریب التہذیب میں مذکو ر ہے کہ ''مخنف بن سلیم ٦٤ھ میں توابین کے ہمراہ عین الوردةمیں شہید ہو ئے لیکن یہ غلط ہے۔
٥۔طبری، ج، ٤ص٤٤٦
لوط کے داد ا سعید حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں جبکہ آپ کے والدیحٰ امیر المو منین کے اصحاب میں شمار نہیں ہوتے ۔.پس ہم اگر کم ترین مدت بھی فرض کریں تو یہی کہا جاسکتاہے کہ سعید کی شادی کے بعد جب یحٰدنیا میں آئے تو اس وقت سعید ٢٠ سال کے تھے ۔(١) اس بنیاد پر لوط کا اصحاب امیر المومنین میں ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو تا، بلکہ ان کے والد یحٰکو بھی حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔اب ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یحٰنے شادی کی اور اس سے لوط دنیا میں آئے تو اس وقت ان کا سن ٢٠ سال تھا؛ اس کا مطلب یہ ہو گا ٦٠ ھ گذر گیا تھاجبکہ یہ بہت کم ترین مدت فرض کی گئی ہے۔ اسطرح خود لوط کے بارے میں ہم یہ فرض کر تے ہیں کہ انھوں نے اپنی عمرکے بیسویںسال کے آس پاس حدیث کا سننا اور حاصل کرنا شروع کیا ؛ اس کی بنیاد پر ٨٠ ھسامنے آجا تی ہے ،پھر انھوں نے اس کتاب کی تالیف میں تقریبا٢٠ سال صرف کیے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ لوط پہلی صدی ہجری کے آخری سالوں یا صدی تمام ہونے کے بعد اس کتاب کی تالیف سے فارغ
..............
١۔ابو مخنف کے والد یحییٰ کس طرح اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو سکتے ہیں؟اور کس طرح شیخ نے اسے اپنی دونوں کتا بوں میں لکھ دیا؟ یہ ایک سوال ہے اور.ہم سے پہلے فاضل حائری نے اپنی کتاب منتہی المقال میں شیخ پر یہی اعتراض کیا ہے۔انہوں نے اس بات پر استدلا ل قا ئم کیا ہے کہ ابو مخنف نے حضرت علی علیہ السلام کو نہیں دیکھا ہے ؛ اسکے بعد انھوں نے شیخ طوسی کے قول جو انھوں نے اپنی دونوں کتابوں میں بیان کیا ہے کہ یحٰ نے حضرت علی علیہ السلام کا دیدار کیا ہے ،کو اس دلیل سے ضعیف جانا ہے کہ ان کے پر دادا مخنف بن سلیم حضرت علی کے اصحاب میں تھے، جیسا کہ شیخ وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ فاضل حائر ی کی عبارت اس طرح ہے : اس سے ثابت ہو تا ہے کہ لوط نے حضرت کا دیدار نہیں کیا بلکہ ان کے باپ یحٰکا حضرت کو درک کر نا بھی ضعیف ہے۔ بنا برین ابو مخنف کا اصحاب امیر المو منین میں شما ر ہو نا جیسا کہ کشی نے کہا ہے غیر ممکن ہے اورجو استدلال مقتل ابو مخنف کے مقدمہ پر شیخ غفاری نے تحریر کیا ہے وہ بھی بے جا ہے ۔شیخ غفاری کہتے ہیں کہ ممکن ہے ابو مخنف اپنے پر دادا مخنف بن سلیم کے ہمراہ ہوں ،اس طرح سے کہ اس وقت لوط ١٥ سال کے ہوں اور ان کے والد یحٰ٣٥ کے ہوں اور انکے دادا سعید کی عمر ٥٥سال ہو اور پر دادامخنف بن سلیم کا سن ٧٥ سال ہو۔اس استدلال میں جو اعتراض واردہے وہ واضح ہے، کیو نکہ ابو مخنف اپنے والد کے چچا محمد بن مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ وہ جنگ صفین کے موقع پر ١٧ سال کے تھے یعنی ان کے بھائی سعید ان سے بڑے نہیں تھے بلکہ چھوٹے تھے اسی لئے جنگ صفین میں شریک نہیں ہو ئے اور انہو ں نے اس جنگ کی روداد اپنے بھائی سے نقل کی پس اس وقت ان کاسن ١٥سال کے آس پا س ہو گا، نہ کہ ٥٥ سال کا ۔
ہوئے ،لیکن یہ بہت بعید ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں اسے لکھا ہواور پھر لوگوں کو املا کریا ہو۔کیونکہ اس زمانے میں تدوین حدیث پربڑی سخت پابندی عائد تھی؛ بلکہ سخت ممنوع تھا۔ اس اموی دور سلطنت میں تاریخ نویسی کا کیا سوال پیدا ہو تا ہے اوروہ بھی شیعی تاریخ کا ؟ !جبکہ یہ زمانہ شیعوں کے لئے خوف،تقیہ اور گھٹن کا زمانہ ہے ۔
ابو مخنف نے مسلم بن عقیل کے کوفہ میں وارد ہو کر مختار بن ابو عبید ثقفی کے گھر رہنے کے سلسلے میں جو خبر نقل کی ہے اس میںیہ جملہ موجود ہے :'' یہ گھر آج مسلم بن مسیب کے گھر سے معروف ہے''اس جملہ سے ہمیں ایک فائدہ یہ حاصل ہو تا ہے کہ انھوں نے اس مقتل کی تالیف پہلی صدی ہجری کی تیسری دہائی میں کی ہے ،کیونکہ مسلم بن مسیب ١٢٩ ھمیں شیراز کے عامل تھے جیسا کہ طبری کی ،ج٧،ص٣٧٢ پر مر قوم ہے اور یہ عہد بنی امیہ کے ضعف و شکست اور بنی عباس کے قیام کا دور شمار ہو تا ہے جس میں بنی عباس اہل بیت کی رضایت حاصل کر کے امام حسین اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کے خون کا بدلہ لینا چاہتے تھے لہذا ممکن ہے عباسیوں ہی نے ابو مخنف کومقتل حسین علیہ السلام کی تالیف کی دعوت دی ہو تاکہ ان کے قیام کی تائیدہو سکے پھر جب یہ لوگ زمام حکومت پر قابض ہوگئے تو ابو مخنف اور ان کے مقتل کو تر ک کر دیاجیسا کہ اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ دیا بلکہ ان سے جنگ پر آمادہ ہوگئے ۔
ابومخنف کی کتابیں
( الف)شیخ نجاشی نے ابو مخنف کی مندرجہ ذیل کتابوں کا ذکر کیاہے۔
١۔کتاب المغازی
٢۔کتاب الردّہ
٣۔کتاب فتوح الاسلام
٤۔کتاب فتوح العراق
٥۔کتاب فتوح الخراسان
٦۔کتاب شوریٰ
٧۔کتاب قتل عثمان
٨۔کتاب جمل
٩۔کتاب صفین
١٠۔کتاب الحکمین
١١۔ کتاب النہروان
١٢۔کتاب الغارات
١٣۔ کتاب اخبار محمد بن ابی بکر
١٤۔ کتاب مقتل محمدبن ابی بکر
١٥۔ کتاب مقتل امیرالمومنین علیہ السلام
١٦۔کتاب اخبار زیاد
١٧۔ کتاب مقتل حجر بن عدی
١٨۔ کتاب مقتل الحسن
١٩۔کتاب مقتل الحسین علیہ السلام
٢٠۔ کتاب اخبارالمختار
٢١۔کتاب اخبار ابن الحنفیہ
٢٢۔ کتاب اخبارا لحجاج بن یوسف ثقفی
٢٣۔کتاب اخباریوسف بن عمیر
٢٤۔کتاب اخبارشبیب الخارجی
٢٥۔کتاب اخبارمطرف بن مغیرہ بن شعبہ
٢٦۔کتاب اخبارالحریث بن الاسدی الناجی
٢٧۔کتاب اخبارآل مخنف بن سلیم
اس کے بعد نجاشی نے اپنے طریق کو اس طرح ذکر کیا ہے :''عن تلمیذہ ہشام الکلبی''ابو مخنف کے شاگرد کلبی سے مروی ہے۔ (١)
(ب) شیخ طوسی نے بھی فہرست میں ان میں سے بعض کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کی ایک کتاب بنام ''کتاب خطبات الزہرائ'' بھی ہے۔ شیخ طوسی روایت میں اپنے طریق کو بیا ن فرماتے ہیں۔ (٢)
(ج)ابن ندیم نے بھی اپنی فہرست میں ان کتابوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے، منجملہ مقتل الحسین کوابو مخنف ہی کی کتابوں میں شمار کیاہے۔
دواہم نکات
ابومخنف کی کتابوں کی فہرست کابغور مطالعہ کرنے کے بعد دو اہم نکات سامنے آتے ہیں :
١۔سب سے پہلی بات یہ کہ ابو مخنف نے اپنی ساری کوششیں اس پر صرف کی ہیں کہ شیعی روایات بالخصوص کوفہ سے متعلق اخبار کو اپنی کتابوں میںدرج کریں۔ ان کتابوں میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں بنی امیہ یا بنی مروان کا عنوان شامل ہو، اسی طرح ان کتابوں میں ابو مسلم خراسانی کا قیام اوربنی عباس کی تشکیل حکومت کے سلسلے میں بھی کوئی عنوان نظر نہیں آتا جبکہ بنی عباس کی حکومت کی تشکیل کے ٢٥ سال بعد ٥٨ا ہجری میںابو مخنف کی وفات ہوئی ہے۔ اگر فہرست کتب میں اس مو ضوع پر کوئی کتاب نظر آتی ہے تو وہ فقط ''کتاب حجاج بن یوسف ثقفی ''ہے اور حجاج کی تباہکاریوں کی داستان اس کی موت کے ساتھ ٩٥ ہجری میں ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ طبری نے بنی امیہ کے آ خری ایام کی خبروں کو ١٣٢ ہجری کے حوادث میں ابو مخنف ہی سے نقل کیا ہے۔ (٣)
٢۔ دو سرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ابو مخنف کی روایات کو ان کی کتابوں میں ، خصوصاًطبری کی روایتوں میں ملا حظہ کر نے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ ابو مخنف نے بہت سارے موارد میں اپنے باپ ،چچا،چچازادبھائیوں یا ''قبیلۂ ازد'' کے وہ بزرگان جو اس وقت زندہ تھے، ان سے رواتیںنقل کی ہیں اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابو مخنف کے قبیلہ میں بہت ساری خبر یں موجو دتھیںجس نے ابو مخنف کو ان کی جمع آوری اور تالیف پربر انگیختہ کیا۔ .اسی وجہ سے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی خبروں میں کوفہ اور اہل کوفہ ہی پر اکتفا کر تے ہیںاور اس فن میں انھوں نے اتنا یدطولیٰ حاصل کیا کہ دوسروں کے مقابلہ میں وہ اس فن میںاعلم شمار ہو تے ہیں ۔
..............
١۔رجال نجاشی، ص٢٢٤،طبع حجر ہند
٢۔فہرست، ص١٥٥وطبری ،ج٧،ص٤١٧،سال ١٣٢ ہجری فی خروج محمد بن خالد بالکوفہ
٣۔طبری ،ج٥، ص٤١٧
|