نام کتاب : واقعۂ کربلا
تالیف : لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
تحقیق: شیخ محمد ہادی یوسفی غروی
ترجمہ : سید مراد رضا رضوی
تصحیح: مرغوب عالم
نظر ثانی: اختر عباس جون
پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ
ناشر: مجمع جہانی اہل البیت
طبع اول : ١٤٢٩ھ ۔ ٢٠٠٨ئ
تعداد : ٣٠٠٠
مطبع : لیلیٰ
ISBN:978-964-529-243-8 www.ahl-ul-bayt.org
info@ahl-ul-bay.org
حرف آغاز
جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے، حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے ہیں اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں، تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے اپنی استعداد و قابلیت کے اعتبار سے اس کی کرنوں سے فیض حاصل کیا۔
اسلام کے مبلغ و موسّس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا۔ آپ کے تمام الٰہی پیغامات نظریات اوراعمال فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھے، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں۔وہ تہذیبی اصنام جو ممکن ہے کج فکر افراد کو دیکھنے میں اچھے لگتے ہوں لیکن اگروہ حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔
اگرچہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گراںبہا میراث کہ جس کی حفاظت و پاسپانی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر کی ہے، خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکروقت کے ہاتھوں اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میںاسلامی دنیا کو خدمت میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشورپیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظریاتی موجوںکے مقابلے میں اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں کے ذریعے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی اور ہرزمان و مکان میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام ، قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم ا لسلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں۔ اسلامی دشمن اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوست اس مذہبی وثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں۔یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔
مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام (عالمی اہل بیت کونسل)نے بھی مسلمانوں خاص طور پراہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر عقل و خرد پر استوار اہل بیت عصمت و طہارت کی تعلیمات و ثقافت کوماہرانہ انداز میں عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتۖو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکارسامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں۔زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔کتاب ''وقعة الطف''(جس کو جناب حجة الاسلام والمسلمین محمد ہادی یوسفی غروی زید عزہ نے طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کی تاریخ کربلا کوتحقیق فرما کر یکجا کیا ہے ) کو فاضل جلیل جناب مولانا سید مراد رضا رضوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے ،جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں۔اسی مقام پر ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے۔خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔ والسلام مع الاکرام
مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام
گفتار مترجم
کربلا کی تاریخ وہ انقلاب آفرین تاریخ ہے جو اپنے بعدکے تمام حرّیت پسند انقلابوں کے لئے میر کارواں کا مقام رکھتی ہے۔وہ انقلاب قومی وملی ہوں یا ذ ہنی و فکری، ہر انقلاب کے سنگ میل اور رہنما کا نام کربلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطل پرست طاقتوں نے ہمیشہ اس کے انمٹ نقوش مٹانے کی بھر پور کوشش کی؛ کبھی خود کربلا اور اس کے آثار کو مٹانے کی کوشش کی تو کبھی اس حماسہ آفرین واقعہ پر لکھی جانے والی تاریخوں میں تحریف ایجاد کر کے اس زندگی ساز حسینی انقلاب کے رنگ کو ہلکا کرنا چاہا لیکن
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
بنی امیہ اور بنی عباس نے اپنی پوری طاقت صرف کردی؛ کبھی حسینی زائروں کو تہہ تیغ کیاتوکبھی کربلا کو ویران کیا لیکن اللہ رے آتش عشق حسین جو مزید شعلہ وری ہوتی گئی اور باطل کی آرزوئوں کے خرمن کو خاکستر کرتی گئی۔حکومتوں کے زر خریدغلاموں اور ان کی چشم و ابرو کی حرکت پر کام کرنے والے کارندوں نے بھی ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حق کو کبھی کوئی مٹا نہیں سکتا۔
کربلا کی تاریخ پر سب سے پہلے قلم اٹھا نے والے مورخ کا نام ابو مخنف لوط بن یحییٰ ازدی غامدی کوفی ہے ؛ جنہوں نے بلا واسطہ یابالواسطہ ( ایک یا دو واسطے سے ) واقعہ کربلا کوزیور تحریر سے آراستہ کیااور اس کا کا نام مقتل الحسین رکھا ، لیکن یہ کتاب حکومت کی نگاہوں میں کھٹکنے لگی کیوں کہ اس کتاب سے حکومت کی کارستانیاں اور اس کی ظلم وستم کی پالسیاں کھل کر سامنے آرہی تھیں لہٰذا اس کتاب کا اپنی اصلی حالت پر باقی رہنا ایک مسئلہ ہو گیا تھا۔آخر کار ہوا بھی یہی کہ آج اصل کتاب ہماری دوسری میراثوں کی طرح ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ ایک تحریف شدہ کتاب لوگوں کے درمیان موجود ہے جس کے بارے میں وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہی کتاب ہے جس کی تد وین ابو مخنف نے کی تھی۔
اس کتاب کی قدیم ترین سند وہی ہے جسے طبری نے مختلف تاریخی مناسبتوں کے اعتبار سے اپنی تاریخ میں لکھا ہے ۔
خدا وند عالم، محقق محترم جناب حجة الاسلام والمسلمین محمد ہادی یوسفی غروی زید عزہ پر رحمتوں کی بارش کرے، جنہوں نے طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کی تاریخ کربلا کو یکجا کیا اور اس پر تحقیق فرماکر اس کتاب کو ایک تحقیقی درجہ عطا کردیا ۔محترم محقق نے اس کتاب کا نام '' وقعة الطف '' رکھا، جس کا تر جمہ '' واقعۂ کربلا '' آپ کے سامنے موجود ہے ۔
واضح رہے کہ طبری شیعہ مورخ نہیں ہے لہٰذا قاتلان اور دشمنان امام حسین علیہ السلام کے لئے جو الفاظ استعمال کرنے چاہیئے وہ کہیں نہیں ملتے۔ اس کے علاوہ مجالس کے صدقہ میں جو باتیں محبّان اہل بیت کے ذہن میں موجود ہیںاس کتاب میں بہت سارے موارد ایسے ہیں جو ان افکار کے مخالف ہیں۔اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ باتیں غلط ہیں اورجو کچھ اس کتاب میں ذکر ہواوہی صحیح ہے، بلکہ مصائب کا تذکرہ کرنے والے افراد مثاب ہونے کے لئے مختلف مقاتل کی طرف رجوع کرتے ہیںاور اس کا نتیجہ عزاداروں کے سامنے پیش کرتے ہیں، لہٰذا قارئین سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھیں، تاکہ واقعۂ کربلا کے تجزیہ میں انھیں آسانی ہو اور آنسو کے مقولہ سے ہٹ کرکہ جو واقعۂ کربلا کا ایک اساسی اور بنیادی رکن ہے، امام حسین علیہ السلام کی امن دوستی اور باطل ستیزی کا بغور مطالعہ کرکے مدعی امن وامان کے سامنے پیش کرسکیں ،تاکہ امن و امان کے نعرہ میں دھشت گردی پھیلا نے والوں کا چہرہ کھل کر سامنے آجائے اور کربلا کی آفا قیت کا آفتاب، امن وامان کی روشنی کے ذریعے دنیا کو خوف و ہراس اور دھشت گردی کی تاریکی سے نجات دے ۔
یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ قلمی خدمت کرنے والے افراد تو بہت ہیں لیکن ان کی قلمی خدمات کی قدر نہیں ہوتی اور ان کو کوئی چھپوانے والا نہیں ملتا ۔
انقلاب اسلامی ایران جو حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کی رہبری میں برپا ہوا اور جس نے کربلا کے انقلاب کو پھر ایک نیا رخ دیا اور ساری انسانیت با لخصوص شیعیت کو افق کائنات کا آفتاب بنادیا؛ اسی انقلاب کا صدقہ ہے جو آج رہبر انقلاب حضرت آےة العظمی خامنہ ای مد ظلہ العالی کی رہبری میں شیعیت کا پیغام ساری دنیا تک پہنچ رہا ہے اور مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے دنیا کی تمام زبانوںمیں پیغام اسلام با لخصوص پیغام تشیع کو پہنچانے کی بھر پور کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب ہیں اور قابل تبریک و تحسین ہیں ۔
یہ کتاب بھی اسی ادارہ سے شائع ہو کر آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ۔
خدا وند متعال اس ادارہ کے مسئولین اور دیگر مخلصین کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور حضرت آےة اللہ العظمیٰ خامنہ ای ، دیگر مراجع عظام اور نظام اسلامی کا سایہ تا ظہور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔آمین
والسلام
سید مراد رضا رضوی
١٥ رجب١٤٢٦
|