(ب)اولاد پیغمبر ۖ اور دیگر تمام شہداء کے لئے مراثی
دل سوختہ شیعہ شاعر جس وقت جناب مسلم بن عقیل اور ھانی بن عروہ کے حالات کا مشاہدہ کرتا ہے تو یہ اشعار اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے:
اذا کنت لا تدرین ما الموت فانظری
الیٰ ھانی فی السوق وابن عقیل
اگر نہیںجانتے کہ موت کیا ہے تو ابن عقیل اور ھانی کے ساتھ بازار کی سیر کرواور دیکھو۔
الیٰ بطل قد ھشّم السیف وجہہ
وآخریھوی فی طمارقتیل
ایک جوان مرد کی صورت کو تلواروں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اوردوسرے کو بالاخانہ سے گرا کرشہید کردیاگیا۔
اصابھا امر الامیر فاصبھا
احادیث من یسعیٰ بکل سبیل
امیر کے حکم سے وہ ان مصیبتوں میں مبتلا ہیں اور ان کی خبریں مسافروں کی زبان پر جاری ہے۔
تریٰ جسداًوقد غیّر الموت لونہ
ونضج دم قد سال کل مسیل
تم جس جسم کودیکھ رہے ہو موت نے ان کا رنگ بدل دیا ہے اور ہر طرف سے خون بہہ رہا ہے
ایترک اسماء المھایج آمناً
وقد طلبتہ مذ حج بذحول(١)
کیاقبیلۂ اسما ء مہاج امان میں رہ سکتے ہیں؟ حالانکہ قبیلہ مذحج قصاص کے درپے ہیں۔
............
(١) مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذھب، ج٣ ص ٧١
شاعر ا عشی حمدان نے طولانی قصیدہ کے ضمن میں شہدا ء توابین کے بارے میں اس طرح کہا ہے:
توجہ من دون ثنیة سائرا
الیٰ ابن زیاد فی الجموع الکتائب
تمام فوجی دستہ ثنیہ کی طرف سے ابن زیاد کی طرف روانہ ہوئے ۔
فیاخیر جیش للعراق واھلہ
سقیتم روایا کل اسحم ساکب(١)
اے عراق کے بہترین سپاہ! تم نے ہر ابرباراں کو سیراب کیا ہے ۔
اسی طرح شیعہ شعراء نے زید بن علی کے بیٹے یحٰ اور امام حسن کے فرزند کہ جنہوںنے عباسیوں کے دور میں قیام کیا تھا اور شہید ہو گئے تھے،ان کے بارے میں شعر کہے ہیں، اسی طرح علی بن عبداللہ خوافی،مشیع مدنی،اشجع بن عمر وسلمی اور ابو طالب قمی جیسے شعرا ء نے امام رضا کے بارے میں مرثیہ لکھا ہے۔(٢)
لیکن امام حسین کے بعد آل ابو طالب کے شہدا ء میں سب سے زیادہ اشعار یحٰ بن عمر طالبی کے بارے میں کہے گئے ہیں انہوںنے ٢٤٨ھ میں قیام کیا اور محمد بن عبداللہ ابن طاہر کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔(٣)
مسعودی کا بیان ہے : دور اور نزدیک والوں نے ان کے حال میں مرثیہ کہا ہے چھوٹے اور بڑے ان پر روئے ہیں۔(٤)
............
(١)مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذھب، ج٣ ص ١١٠
(٢)الامین، سید محسن ،اعیان الشیعہ، ص ١٧٠
(٣)مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذہب، ج٤ ص ١٥٩۔١٦٠
(٤)مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذہب، ج٤ ص ١٦٢
ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ آل ابی طالب کے فرزندوں میں کہ جو عباسیوں کے دور میں قتل ہوئے ہیں یحٰ بن عمر طالبی سے سے زیادہ کسی کے بارے میںاشعار ومرثیہ نہیں کہے گئے ہیں۔(١)
(٤) خاندان پیغمبرۖ کے فضائل و مناقب
دوسری صدی ہجری کے بعد شیعہ شعرا ء زیادہ تر فضائل امیر المومنین میں شعر کہتے تھے اور اس کے ذریعہ مذہب تشیع کی ترویج اور حضرت علی کی جانشینی اور امامت سے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے،اس سلسلہ میں فر زدق ،کمیت اسدی ،حمیری،سفیان بن مصعب عبدی اور دعبل خزاعی سب سے آگے تھے ۔
سید حمیری نے اپنی زندگی کو فضائل علی بیان کرنے لئے وقف کردیا تھایہ اپنے دور میں مکتب تشیع کے بزرگ ترین مبلغ تھے ،اسی وجہ سے شیعوں کے نزدیک ان کا بہت زیادہ احترام ہے،ابو الفرج اصفہانی کے بقول انہوں نے تئیس سو، ٢٣٠٠ قصید ے بنی ہاشم کی مدح میں کہے ہیں اورکوئی بھی شعر اہل بیت کی مدح اور دشمنوں کی سر زنش سے خالی نہیں ہے، اسی طرح ابو الفرج اصفہانی کہتے ہیں : سیدحمیری کوفہ میں سلیمان بن مہران معروف بہ اعمش کے گھر جاتے تھے اور ان سے فضائل علی سنتے تھے اور ان کو لکھنے کے بعد شعر میںقلم بند کرتے تھے ۔
ابن معتزکا بیان ہے:سید حمیری نے حضرت علی کے تمام فضائل کو شعر میں تبدیل
............
(1) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ص ٥١١
کردیا ہے اور جس مجلس میں آل محمدۖ کا ذکر نہیں ہوتا تھاوہاں جلدی خستہ ہوجاتے تھے ، چنانچہ ایک شخص نے نقل کیا ہے کہ میں عمرو بن علاء کے پاس بیٹھا تھا کہ سید حمیری تشریف لائے ہم لوگ روز مرہ کی گفتگو میں سر گرم تھے سید اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اورجانے لگے اور جب ان سے اس کا سبب معلوم کیا گیا تو اس طرح جواب دیا :
انی لأکرہ ان اطیل بمجلس
لا ذکر فیہ لفضل آل محمد
میںجس مجلس میں رہوں اس میں اگر آل نبیۖ کا ذکر نہ ہو تو وہاں میرے لئے بیٹھناباعث کراہت ہے ۔
لا ذکر فیہ لأحمد و وصیہ
و بنیہ ذلکٔ مجلس نطف ردی
جس مجلس میں احمدۖ اوران کے جانشین نیزان کی اولاد کا ذکر نہ ہو وہ مجلس بے ارزش ہے ۔
ان الذی ینساھم فی مجلس
حتی یفارقہ لغیر مسدد(١)
جس نے ان کو اپنی مجلس میںبھلا دیا ہے وہ بغیر فائدہ کے اس مجلس سے جائے گا۔
اسی طرح ایک روز کوفہ کے امرا ء میں سے کسی نے ان کو گھوڑا اور کچھ تحفہ عطا کیا انہوں نے ہدیہ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوئے اور کوفہ کے محلہ کنا سہ آئے اور شیعوں کو مخاطب
............
(١)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، ص ٢٤٢
کرکے کہا: اے علی والو! اگر کوئی علی کے فضائل میں سے ایسی فضیلت پیش کرے کہ جس کے بارے میں میں نے شعر نہ کہا ہو تومیں یہ گھوڑا اور یہ تحفہ اس کو بخش دوں گا لوگوںنے ہر طرف سے مولا علی کی فضیلت کوبیان کرنا شروع کیا اورانہوںنے اس فضیلت کے بارے میں جو شعر کہا تھااسے پڑھ کر سنایا ان میں سے کسی نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ایک روز علی نے چاہااپنی نعلین پہن کر گھر سے با ہر تشریف لے جا ئیں ایک نعلین پہنی تھی کہ عقاب(ایک پرندہ)آیا اور اپنی منقار(چونچ )سے دوسرے پیر کی نعلینلے کر آسمان کی طرف چلاگیا اور دوبارہ وہاں سے اس نعلین کو نیچے گرایا کہ جس ایک کالا سانپ نکلا اور سوراخ میں چلا گیا ،پھر حضرت نے اس نعلین کو پہنا،اس وقت سید حمیری نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا: میںنے اس کے متعلق ابھی تک کوئی شعر نہیں کہا ہے اس وقت اس شخص کو گھوڑا اورتحفہ بخش دیا اور یہ اشعار کہے:
الا یا قوم للعجب العجاب
لخفّ ابی الحسن وللحباب
اے لوگو! آ گاہ ہوجائو ابو الحسن کی نعلین کا یہ عجیب و غریب کارنامہ ہے۔
عدوّمن عدا ة الجن وغد
بعید فی المراد ہ من صواب
کہ علی دشمنوں میں سے ایک جن نے کہ جو کم عقل اور راستے سے منحرف ہے۔
اتی خفاًلہ انساب فیہ
لینھش رجلہ منہ بناب
علی کی نعلین میں خود کو چھپایا تاکہ انہیں گزندپہنچائے۔
لینھش خیر من رکب المطایا
امیر المؤمنین ابا تراب
اس بہترین شخص کو گز ند پہنچائے جو چار پایوں پر سوار ہوتا ہے یعنی امیر المومنین ابو تراب کو۔
فخرّمن السما لہ عقاب
من العقبان او شبہ العقاب
اس وقت آسمان سے ایک عقاب یا عقاب کی شبیہ کوئی پرندہ نیچے آیا۔
ودوفع عن ابی حسن علی
نقیع سمامہ بعد انسیاب (١)
اور اس پر حملہ آور ہوااس طرح سے ابوالحسن علی سے زہرا ورشر دفع ہوگیا۔
سفیان بن مصعب عبدی کا شمار منجملہ ان شعراء میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی عمر کو ذکر علی میں صرف کر دیا ،علامہ امینی ان کے بارے میں کہتے ہیں:آل محمدۖ کے علاوہ کسی کی مدح میں میں نے ان کے ایک شعر بھی نہیں دیکھے، خاندان پیغمبرۖکے فضائل و مناقب کی حدیثیں امام صادق سے یاد کرتے تھے اور فوراً ان کو شعر کے قالب میں ڈھال لیتے تھے۔(١)
ابن شہر آشوب نقل کرتے ہیں: امام صادق نے فرمایا :اے گروہ شیعہ! اپنی اولاد کو عبدی کے اشعار کی تعلیم دو کیونکہ وہ دین خدا پر ہیں۔
............
(١)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین، ص ٢٤١۔٢٤٢
(٢)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین، ص ٢٩٥
(٥)خاندان پیغمبرۖ کے دشمن کی ہجو
دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک راستہ تبلیغ ہے جو آج کی دنیا میں ارتباط کی صورت میں پورے طور پر رائج اور معمول ہے،گذشتہ زمانے میں بھی شعر کے دائرے میں تبلیغ کے سلسلہ میں مہم ترین تاثیر قائم تھی ،شیعہ شعرانے بھی اپنے اشعار کے ذریعہ اصل تشیع کا دفاع کیا ہے اور دشمنان اہل بیت کی ہجو کی ہے نیز موقع و مناسبت سے کچھ شعر کہہ کر اپنے دشمن کو ذلیل کیا اور ان کی کمر توڑ دی ہے ،معاویہ،ولید بن عقبہ و عمرو بن عاص جیسے لوگ جو دشمن خدا ورسول ۖتھے بارہشعراءے بنی ہاشم کی طرف سے مورد ہجو قرار پائے ہیں، ایسے شعراء کہ جو نہیں چاہتے تھے کہ ان کے نام آئیں کہ جس کی وجہ سے منظر عام پربنی امیہ انہیں نقصان پہنچائیںانہوںنے یزید کی موت کے بعد یزید کی ہجواور مذمت کر کے شیعوں کے دل کو ٹھنڈا کیا اور اس طرح کہا:
یا ایھا القبر بحوّارینا
ضممت شرّ الناس اجمعینا(١)
اے وہ قبر! جو حوارین میں ہے! دنیا کے سب سے بد ترین آدمی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے،(حوارین ایک شہر ہے جہاں یزید کی قبر ہے)
............
(١)مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذھب، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت طبع اول ، ١٤١١ھ ،ج٣ ص ٦٥
منجملہ بنی امیہ کی مذمت اورہجو میں بہترین اشعار کمیت بن زید اسدی کے ہیں
جوانہوںنے بنی امیہ کے بارے میں کہے ہیں:
فقل لبنی امیہ حیث حلوّا
وان خفت المھندّوالقطیعا
بنی امیہ جہاںکہیں بھی ہوں ان سے کہوکہ تلوار، تازیانہ سے ڈریں۔
اجاع اللّٰہ من اشبعتموہ
واشبع من بجورکم اجیعا
خدا اسے بھوکا رکھے جسے تو نے سیر کیا ہے اور خدا انہیں اسیر کرے جو تمہارے ظلم کی وجہ سے بھوکے رہے ہیں۔
مبرضیّ السیاسة ھاشمی
یکون حیالأمّتہ ربیعاً(١)
بنی ہاشم کی پسندیدہ سیاست امت کے لئے بہار زندگی فراہم کرنا ہے ۔
ڈاکٹر شوقی ضیف کا بیان ہے:شیعہ عراق، خراسان اور حجاز میں کمیت کے اشعار کو ایک دوسرے تک منتقل کرتے تھے اسی سبب سے امویوں اور ان کے حاکم یوسف بن عمر ثقفی نے کمیت کی جانب سے شدید خطرہ کا احساس کیا۔(٢)
ابو الفرج اصفہانی نے کمیت کے بارے میں کہا ہے:بنی امیہ کے طرف سے سختی اورپابندی کے دور میں ہر لحاظ سے کمیت اسدی شیعوں میںبہت بڑے شاعر تھے، وہ شعرا ء
............
(١)حافظ ابی عثمان عمر وبن بحر،البیان والتبیین،مطبعةلجنة التالیف والترجمة والنشر ، قاہرہ، طبع اول ، ١٣٦٧ھ،ق ١٩٤٨ ج٣ ص ٣٦٥
(٢)الشعر و طوابعہ الشبعیہ علی مرّ العصور، دار المعارف ، قاہرہ ،ص٣٦
جو علی کے دشمن تھے اور بنی امیہ کے طرفدار تھے اور خاندان پیغمبرۖ کے خلاف شعر کہتے تھے، ان کا جواب دینے سے باز نہیں آتے تھے ۔
حکیم بن عباس کلبی جس نے علی کی ہجو کی تھی ا ور قحطانیوں میں اس کا شمار ہوتا تھا، کمیت نے اس پر شدت سے حملہ کیا اور اس کے اشعار کو بزرگان قریش اور عدنانیوں کے مدمقابل قرار دیااور اس طرح اس کی ہجو کی اور اس کو مغلوب کیا۔(١)
کبھی کبھی شعراء بغیر نام لئے حکومتی شعراکا جواب دیتے تھے اور ان کو ذلیل ورسوا کرتے تھے ،سعید بن حمید جو مستعین کے دور حکومت میں تھا اور حضرت علی و خاندان پیغمبرۖکا دشمن تھا مختلف مواقع پر شیعہ شعراء کی جانب سے مورد ہجو قرار پا یا ۔
اسی طرح شاعری کے اس دور میںعلی بن جہم جو ناصبی اور امیر المومنین کا دشمن تھا، علی بن محمد بن جعفر علوی جو شیعہ شاعر تھے، انہوںنے اس کی ہجو کی اور اس کے نسب سے انکار کیا اور کہا: سامة بن لوی کی جانب اس کی نسبت صحیح نہیں ہے ۔
ابن زیاد کی ہجو میں ابو الاسود دوئلی کہتے ہیں:
اقول وذاک من جزع و و جد
ازل اللّٰہ ملکٔ بنی زیاد
غم واندوہ کی بنیاد پر کہتا ہوں خدا ابن زیاد کی حکومت کو نیست و نابود کرے ۔
وابعدھم بما غدروا و خانوا
کما بعدت ثمود و قوم عاد(٢)
اور ان کو ان کی حیلہ و خیانت کی وجہ سے اس طرح ہلاک کرے جس طرح قوم عاد و ثمود ہلاک ہو گئی ۔
............
(١)ابو الفرج اصفہانی ،الا غانی،ج١٧، ص ٣٦
(٢)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذہب ، ج٣ ص ٨١
بنی عباس کے ایک قاضی نے سید حمیری کی گواہی فقط شیعہ ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کی تو سید حمیری نے اس کی ہجو میں اس طرح کہا:
ابوکٔ ابن سارق عنز النبی
وانت ابن بنت ابی جحدر
تیرا باپ پیغمبر ۖ کی بھیڑوںکا چرانے والا ہے اور تو جحدر کی بیٹی کا بیٹا ہے۔
ونحن علیٰ رغمکٔ الرافضون
لأھل الضلا لہ والمنکر(١)
اور ہم تیرے خیال اورنظریہ کے مطابق رافضی ہیں یعنی اہل ضلالت و گمراہی کو ترک کرنے والے ہیں ۔
ابو نعامہ دقیقی کوفی تیسری صدی ہجری کے ان شعرا ء میں سے ہیںکہ جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ بنی عباس کے بزرگان کی ہجو کی ہے اور ان کی طرف برے کاموں کے ارتکاب کی نسبت دی ہے آخر میںوہ عباسی حکومت کے ایک ترک سردار کے ذریعہ جس کانام مفلح تھا قتل کردئے گئے۔(٢)
والحمد للہ ربّ العٰالمین
............
(١) علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر ، ص ٢٥٦
(٢)تاریخ الادب العربی العصر العباسی الثانی،دار المعارف، مصر، ص ٣٨٨.
|