(٣ )مرثیہ گوئی
دوسرے اہم ترین موضوعات جس پر شیعہ شعرانے اپنی سخنوری میں بہت ہی وسیع پیمانہ پر طبع آزمائی کی ہے اور شعر کہے ہیں وہ خاندان پیغمبر کی مصیبت کویاد دلانا اور شہداء کے
لئے مرثیہ ہے یہ موضوع ٦١ ھ امام حسین کی شہادت کے بعد وجود میں آیا اسسلسلہ میں دو حصہ میں گفتگو کی گئی ہے ۔
(الف) امام حسین اور شہدائے کربلا کے مراثی
آغاز اسلام سے آج تک تا ریخ اسلام میں واقعہ کربلا سے زیادہ درد ناک واقعہ پیش نہیں آیا چودہ سو سال گذرنے کے بعد بھی ابھی تک مومنین کے دلوں میں اس کی تاثیر موجودہے اس زمانے سے اہل بیت کے چاہنے والوں نے اپنی توا نائی کے مطابق اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں۔
حادثۂ کربلا کے بارے میں بہت زیادہ اشعار پہلی صدی ہجری کے اختتام بعد اور بنی امیہ کا زوال کے دور میں کہے گئے ہیں جیساکہ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ بہت سے متاخرین شعراء نے امام حسین کے لئے مرثیہ کہے ہیں ، بحث کے طویل ہونے کی وجہ سے ہم ان اشعارکوذکر نہیں کرسکتے، لیکن بنی امیہ کے دور میں بنی امیہ کی طرف سے سختی کی بنا پراس وقت کے شعراء نے امام حسین کے بارے میںبہت کم مرثیے کہے ہیں ۔(١)
جیسے عبیداللہ بن حربہ امام حسین کا مرثیہ کہنے کی وجہ سے ابن زیاد کی زیادتی کا نشانہ بنے اور فرار کرنے پر مجبور ہوئے۔(٢)
اگر چہ پہلی صدی ہجری ہی میں امام حسین کے بارے میں کافی اشعار کہے گئے
............
(١)مقاتل الطالبین،منشورات الشریف الرضی،طبع دوم،١٤١٦ھ،١٣٧٤ ھ ش،ص١٢١
(٢)ابی مخنف ،مقتل الحسین ،تحقیق حسن غفاری ،قم،طبع دوم ،١٣٦٤ھ،ش،ص٢٤٥
ہیںلیکن ان کا حجم دوسری صدی ہجری میں کہے گئے اشعار کی بہ نسبت بہت کم ہے ، سب سے پہلے بنی ہاشم کی داغ دیدہ خواتین نے اپنے عزیزوں کے بارے میں مرثیہ کہے ہیں،جس وقت امام حسین کی خبر شہادت مدینہ پہنچی بنی ہاشم زینب بنت عقیل سے نالہ و شیون کرتی ہوئی باہرنکل آئیں ان کی زبان پر یہ اشعار تھے : .
ماذا تقو لون اذ قال النبی لکم
ماذا فعلتم وانتم آخر الامم
پیغمبر ۖ کو کیا جواب دوگے جب تم سے پوچھیں گے کہ اے آخری امت! تم نے کیا کیا؟
بعترتی وباھلی بعد مفتقدی
نصف اساری و نصف ضرٍّوجوابدم
میرے مرنے کے بعد میرے اہل بیت کے ساتھ تم نے کیاسلوک کیا؟ ان میں سے نصف کو اسیر کیا اور نصف کو خون میںنہلا یا۔
ما کان ھذا جزائی اذ نصحت لکم
ان تخلفونی بشر فی ذوی رحمی(١)
کیا میری یہی جزا تھی؟! کہ میں تمہاری ہدایت کروں اور تم میرے اہل بیت کے ساتھ بد رفتاری کرو۔
............
(١) مقتل الحسین،ص٢٢٧۔٢٢٨
(٢)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین،منشورات شریف الرضی ، قم ، طبع دوم ، ١٤١٦ھ ١٣٧٤ھ ش، ص٩٠
من جملہ دل خراش مراثی میں سے شہدائے کربلا کے بارے میں سب سے زیادہ
دل خراش مرثیہ جناب ابو الفضل العباس کی والدہ ٔگرامی جناب ام البنین کا مرثیہ ہے ابوالفرج اصفہانی نقل کرتے ہیں : حضرت عباس کے فرزند عبید اللہ کا ہاتھ پکڑ کر جناب
ام البنین بقیع جاتی تھیں،مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے تھے اور ان کے مرثیہ پڑھنے سے رو تے تھے ،مروان بن حکم جیسا شخص بھی اس بانو کے مرثیہ پر رو پڑا۔(٢)
جناب ام البنین کے مرثیہ کے اشعار یہ تھے:
یامن رای العباس کر علی جماھیر النقد
اے وہ لوگو! کہ جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرا عباس کس طرح پست صفت لوگوں پر حملہ کرتا تھا۔
و کل لیث ذی لبد
ورائہ من ابناء حیدر
اس کے پیچھے فرزندان حیدر شیر کے مثل کھڑے رہتے تھے ۔
انبئت ان ابنی اصیب براسہ مقطوع ید
مجھے خبر دی گئی ہے کہ جب اس کے ہاتھ قلم ہوگئے تب سر پر گرز لگا ۔
ویل علیٰ شبلی اما لبراسہ ضر ب العمد
افسوس میرے بیٹے کے سر پر گرزگراںپڑا۔
لوکان سیفکٔ فی ید یکٔ لمادنا منکٔ احد(١)
(اے عباس! )اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تیرے پاس کوئی نہیں آتا۔
............
(١)غفاری،حسن ،ذیل کتاب مقتل الحسین ابی مخنف،قم،١٣٦٤،ص١٨١
جس وقت کربلا کے اسیروں کا کارواں مدینہ کی جانب چلا اور مدینہ کینزدیک پہنچا تو امام زین العابدین نے پہلے بشیر بن جذلم کو مدینہ بھیجا اور بشیر نے ان اشعار کے ساتھ اسیران اہل بیت علیہم السلام کے مدینہ میں داخلہ کی خبردی :
یا اھل یثرب لا مقام لکم بھا
قتل الحسین فاد معی مدرار
اے اہل مدینہ! اب یہ جگہ تمہارے رہنے کے قابل نہیں رہی حسین قتل کردئیے گئے ان پر آنسو بہاؤ ۔
ا لجسم منہ بکربلامضرّج
والرأس منہ علیٰ ا لقناة یدار(1)
ان کا جسم کربلا کی زمین پر خون میں غلطاں اور ان کا سر نیزہ کے اوپر بلند تھا۔
شاعروں کے درمیان خالدبن معدان،عقبہ بن عمرو،ابو الرمیح خزاعی،سلیمان بن قتہ عدوی ،عوف بن عبد اللہ احمر ازدی اور عبید اللہ بن حرّ پہلی صدی ہجری کے شعرا ء ہیں جنہوںنے مرثیہ گوئی کی ہے اور امام حسین کی مصیبت میں اشعار کہے ہیں جس وقت خالد بن معدان نے شام میں حضرت کاسر نیزہ پر دیکھا تو یہ اشعارپڑھے:
جائو ا براسک یا ابن بنت محمّد
مترملاً بد ما ئہ تر میلا
اے نواسہ رسولۖ ! آپ کے سر کو خون میں ڈوبا ہوا لائے۔
............
(1)ابن طائوس ،لھوف،ترجمہ محمد دز فولی،موسسہ فرہنگی وانتشاراتی انصاری،قم،طبع اول ١٣٧٨،ص٢٨٤
و کانّمابک یا ابن بنت محمّد
قتلوا جھاراًعامدین رسولا
اے محمدۖکے نواسے! تمہیں علی الاعلان قتل کرکے چاہتے ہیں کہ پیغمبرۖسے انتقام لیں۔
قتلوک عطشاناًو لم یترقبوا
فی قتلک التنزیل والتاویلا
آپ کو پیاسا قتل کیا اور آپ کے قتل میں قرآن کی تاویل و تنزیل کی رعایت نہیں کی ۔
ویکبرون بان قتلت وانّما
قتلو بک التکبیر و التھلیلا (١)
جب آپ قتل ہوئے تو تکبیریں بلند کیں حالانکہ آپ کے قتل ساتھ تکبیرو تہلیل کو بھی قتل کر دیا۔
گزشتہ شعرا ء میں عبید اللہ بن حر ہیں کہ جنہوں نے امام حسین کی مصیبت میں مرثیہ کہا ان کے مرثیہ کا پہلا شعر یہ ہے :
یقو ل امیرغادر ای غادر
ألا کنت قاتلت الشھید بن فاطمہ
خائن کاامیر ،خائن کا بیٹا مجھ سے کہتا ہے کہ تم نے کیوں فاطمہ کے شہید فرزند
کے ساتھ جنگ نہیں کی؟
............
(١)الامین،سیدمحسن،اعیان الشیعہ،دارالتعار ف للمطبوعات،بیروت ( بی تا) ج١ ص ٦٠٢٣
ابن زیاد نے جس وقت ان اشعار کو سنا عبید اللہ کے پیچھے بھاگااس نے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی جان بچائی۔(١)
............
(١)ابی مخنف،مقتل الحسین ،ص٢٤٥
سلیمان بن قتة من جملہ اہم ترین مرثیہ کہنے والوں میں سے تھے ان کے اشعار یہ ہیں :
مررت علیٰ ابیات آل محمّد
فلم أرھاکعھدھایوم حلّّت
میں آل محمدۖ کے گھروں کی جانب سے گزرا اور ان کو پہلے کی طرح بھرا ہوا نہیں پایا۔
و کانوا رجائً ثمّ صاروا رزیّة
و قد عظمت تلکٔ الرّزایا وجلّت
آل محمد ۖ امید کا گھر تھے اور بعد میں مصیبت کا محل بن گئے اور وہ بھی بزرگ اورعظیم مصیبتیں۔
الم ترانّ الشمس اضحت مریضہ
لفقد حسین والبلاد اقشعرّت
کیا تم نہیں دیکھتے سورج شہادت حسین سے مریض ہو گیا ہے اور شہرافسر دہ ہوگئے ہیں۔
و قد اعولت تبکی السماء لفقدہ
وانجمھا ناحت علیہ و صلّت(١)
کیا تم نہیں دیکھتے آسمان نے امام حسین پر گریہ ونالہ کیا اور ستاروں نے نوحہ پڑھااور درود بھیجا ۔
پہلی صدی ہجری کے بعد اموی حُکّام کادبائو عبّاسیوں کے ساتھ اختلاف و ٹکرائو کی وجہ سے کم ہوا اور آخر کارامیوںکا عباسیوں کے ہاتھوں خاتمہ ہوا ائمّہ اطہار نے امام حسین کی مرثیہ گوئی کو زندہ کیا اور بزرگ شعرا جیسے کمیت اسدی،سید حمیری،سفیان بن مصعب عبدی،منصور نمری اوردعبل خزاعی ائمہ کے حضور میں امام حسین کی مصیبت میں اشعار پڑھتے تھے ۔
جیسا کہ سفیان بن مصعب عبدی نے نقل کیا ہے کہ میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہو اامام نے خادموں سے فرمایا: امّ فروہ سے کہو وہ آئیں اور سنیں ان کے جدامجد پر کیاگزری، امّ فروہ آئیں اور پشت پردہ بیٹھ گئیں، اس وقت امام صادق نے مجھ سے فرمایا:پڑھو میںنے قصیدہ پڑھنا شروع کیاقصیدہ اس بیت سے شروع ہوتا ہے:
فرو جودی بدمعکٔ المسکوب
اے فروہ اپنی آنکھوں سے آنسو بہاؤ
اس موقع پر ام فروہ اور تمام عورتوں کی آواز گریہ بلند ہو گئی ۔(2)
............
(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، ص ١٢١
(2)علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج٢ ص ٢٩٤۔٢٩٥
اسی طرح ابوالفرج اصفہانی،اسماعیل تمیمی سے نقل کرتے ہیں کہ میں امام صادق کی خدمت میں تھا کہ سید حمیری امام سے اجازت لے کر داخل ہو ئے امام نے اہل خانہ سے فرمایا: پشت پردہ بیٹھ جائیں، اس کے بعد سید حمیری سے امام حسین کی مصیبت میں مرثیہ پڑھنے کو کہا، سید نے ان اشعار کو پڑھا :
امرر علیٰ جدث الحسین فقل لا عظمہ الزکیہ
امام حسین کی قبر کی طرف سے گذروتوان کی پاک ہڈیوں سے کہو ۔
یا اعظماًلازلت من وظفاًوساکبہ رویّہ
اے ہڈیو سلامت رہو اور مسلسل سیراب ہوتی رہو۔
فاذا مررت بقبرہ فاطل بہ وقف المطیّہ
جس وقت ان کی قبرکے پاس سے گذرنا اونٹوں کے مانند دیر تک ٹھہرنا ۔
وابکٔ المطھرللمطھر والمطھرة النقیہ
امام مطہّر کو حسین مطہّرپر گریہ کراؤ ۔
کبکاء معولہ اتت یوماًلواحدھا المنیة
اور تمہاراگریہ ایسا ہو جیسے ماںاپنے فرزند کی لاش پر روتی ہے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ امام کی آنکھ سے آنسو جاری ہیں اور گھر سے بھی
رونے کی آوازیں بلند ہیں۔(١)
کبھی کبھی دوسرے لوگ بھی جیسے فضیل رسان،ابو ہارون مکنوف وغیرہ سیدحمیری کے اشعار امام جعفر صادق کی خدمت میں پڑھتے تھے اور حضرت کو رلاتے تھے،ابن قولویہ کے مطابق امام صادق نے اپنے صحابی ابو عمار سے کہا: عبدی کے مرثیہ کے اشعار جو امام حسین کے بارے میں ہیںمیرے سامنے پڑھو۔(٢)
دعبل خزاعی نے امام حسین کے لئے بہت سے مرثیہ کے اشعار کہے ہیں امام رضا علیہ السلام اپنے جد کا مرثیہ پڑھنے کے لئے ان کو بلاتے تھے۔(٣)
............
(١)علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج٢ ص٢٣٥
(٢)علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج٢ ص٢٩٥
(٣) مسعودی ، علی ابن الحسین ،مروج الذہب،منشورات لاعلمی للمطبوعات ، طبع اول ١٤١١ھ، ج٣ ص ٣٢٧، رجال ابن دائود ، منشورات رضی ، قم ، ص ٩٢
|