تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
 

شیعو ں کے درمیان فقہ کی وضعیت وحیثیت
فقہ کی وضعیت شیعوں کے درمیان حضور ِمعصوم کے سبب فرق کر تی ہے اور اس طرح کا اجتہاد جو اہل سنّت کے درمیان رائج تھا وہ شیعوں کے درمیان معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ کلّی طور پرکہا جا سکتا ہے کہ فقہ شیعہ اماموں کے حضور کے دوران غیبت صغریٰ کے ختم ہونے تک ایک فرعی چیز تھی جو اجتہاد کے لئے راستہ ہموار کر رہی تھی۔(١)
............
(١)آیة اللہ ابراہیم جنّاتی معتقد ہیں کہ ابتدائے اسلام سے اب تک فقہ شیعہ آٹھ دور گذار چکی ہے :
(١) اجتہاد کی ابتدا رسول اکرم ۖ کی ہجرت سے ١١ھ تک ہوتی ہے ۔
(٢)تمہیدی دور یا اجتہادی مقدمات کا دور رسول اکرم ۖکی رحلت سے غیبت صغریٰ تک ہے
(٣) اصول قوانین کی تدوین یا مشترک عناصر اجتہادی کی تدوین کا دور جو ابن ابی عقیل ٣٢٩ھ سے شروع ہوتا ہے اور شیخ طوسی ٤٦٠ھ پر ختم ہوتا ہے ۔
(٤) اجتہاد کے مشترک عناصر کے یاد کرنے کا دور جو شیخ طوسی سے شروع ہوتا ہے اور ان کے پوتے ابن ادریس ٥٩٨ھ پر ختم ہوتا ہے ۔
(٥) اجتہادی مسائل کے استدلال کے پھیلنے کا دور جو ابن ادریس سے شروع ہو کر وحید بہبہائی ١٢٠٥ھ پر ختم ہوتا ہے ۔
(٦) اجتہاد کے تکامل وارتقا کا دور جو وحید بہبہائی سے شروع ہوتا ہے اور شیخ انصاری ١٢٨١ھ پر ختم ہوتا ہے ۔
(٧) اجتہادی مباحث میں عمیق غور و فکر کا دور جو شیخ انصاری سے شروع ہوتا ہے اور آقای خمینی پر ختم ہوتا ہے ۔
(٨) جدید طرزو روش سے اجتہاد سے فائدہ اٹھانے کا دور جس کے موجد آقای خمینی ہیں ۔
(ادوار اجتہاد ، سازمان انتشارات کیہان ، طبع اول ، ١٣٧٢ھ ش،فصل دوم کے بعد سے)
معصوم کے ہوتے ہوئے اور علم کا دروازہ کھلا رہنے کے ساتھ نیز نص تک دسترسی کی بنا پر اجتہادجو اکثر دلائلی ظنّی سے وابستہ ہے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ،فقہ شیعہ میں اجتہاد کی بنیاد سب سے پہلے ابن ابی عقیل عمانی کے ذریعہ قرن چہارم کے اوائل میں رکھی گئی ،جو شیخ کلینی کے ہم عصر تھے، ان کے بعد محمد بن جنید اس کافی نے ان کے مقصد کوجاری رکھااور اجتہاد و فقہ کی بنیادوں کو مستحکم کیا یہ لوگ قد یمین سے معروف ہیں ،شیخ مفید متوفی ٤١٣ ھ ، اورسید مرتضیٰ علم الھدیٰ متوفی ٤٣٦ھ ان لوگوں نے بھی اجتہاد کے راستہ کو ہموار کیا پھر نوبت شیخ طوسی ٤٦٠ھتک پہنچی ، شیعہ فقہ کو اس فقیہ بزرگ کے ذریعہ رونق اورترقی ملی انہوں نے حدیث کی دو معتبر کتا ب، تہذیب و استبصار کے علاوہ فقہی کتابیں بھی تالیف کی ہیںاور نہایہ، مبسوط اور خلاف جیسی کتا بیںانہیں کی قلم سے معرض وجود میں آئی ہیں ۔
البتہ ایسا نہیں ہے کہ اجتہاد، فقہ و اصول حضورائمہ میں اصلاًرائج ہی نہیںہوئے تھے بلکہ بُعد مکانی کی وجہ سے ائمہ تک لوگوں کی رسائی نہیں تھی اس وجہ سے ائمہ معصومین ان موارد میں ان افراد کے ساتھ تعاون کر تے تھے اور فقہا کی شناسائی اورمعیار کو جن کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکے ان کی نشاندہی کر تے تھے اور وہ اجتہاد کے ذریعہ لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے ۔
جیسا کہ مقبو لہ عمر بن حنظلہ میں ہے کہ امام صادق سے سوال کیا گیا اگر شیعوں میں سے دو افراد کے درمیان کسی مسئلہ شرعی سلسلہسے متعلق مثلاً قرض او رمیراث میں اختلاف ہوجائے توکیا کہا جائے،امام نے فرمایا: اس کی طرف رجوع کرو جو ہماری احادیث کو نقل کر تا ہے اور ہمارے حلال و حرام پر نظر رکھتا ہے اور ہمارے احکام سے واقف ہے کہ میں نے ایسے شخص کو تمہارے لئے قاضی اور حاکم قرار دیا ہے۔(١)
ائمہ طاہرین بھی کبھی کبھی بعض اشخاص کو شیعو ں کے مسائل شرعی کا جواب دینے کے لئے منتخب کرتے تھے جیسا کہ شیخ طوسی نے کہا: علی بن مسیب نے امام رضا سے عرض کی راستہ بہت دور ہے اور میں جب چاہوںا پ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتا ایسی حالت میں میں احکام دین خُدا کے بارے میں کس سے سوال کروں؟ امام نے فرمایا: زکریا بن آدم قمی سے کیونکہ وہ دین و دنیا میں امین ہیں ۔(٢)
اسی طرح امام محمد باقر نے ابان بن تغلب کو حکم دیا کہ مسجد نبی ۖ میںبیٹھ کر لوگوں کو فتویٰ دیں ۔(٣)

آغاز اجتہاد:
اس دور میں أئمہ طاہر ین علیہم السلام اصول فقہ اور استنباط کے قواعد اپنے شاگردوں کو سکھاتے تھے، اسی وجہ سے وہ کتابیں جو شیعہ دانشمندوں کے ذریعہ لکھی گئی ہیں ،ان کی نسبت اماموں کی جانب دی جاتی ہے ، مثلاً کتاب آل الرسول ہاشم خوانساری کی تالیف ہے اصول اصلیہ، سیّدعبداللہ بن محمد رضا حسین کی تالیف ہے، کتاب فصول المہمہ در اصول ائمہ محمد بن حسن حر عاملی کی تالیف ہے۔(٤)
............
(١)حر عاملی ، وسائل الشیعہ، ج ١٨، ص ٩٩، کتاب القضا ابواب صفات قاضی ، باب ١١، حدیث ١
(٢) شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، قم ج٢ ،ص ٨٥٧
(٣)احمد بن علی ، رجال نجاشی ،النشر الاسلامی، الطابعة جامعة المدرسین، قم ، ١٤٠٧،ص١٠
(٤)صدر سید حسین، تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام،منشورات، الاعلمی ، تہران، ٣١٠
رجال کی کتابوں میںائمہ طاہرین کے بعض بزرگ اصحاب، فقہا میں شمار کئے گئے ہیں جیسا کہ فضل بن شاذان کے بارے میں نجاشی کا بیان ہے، ''کا ن ثقة احد اصحابنا الفقھا والمتکلمین ''۔(١)
............
(١)رجال نجاشی،ص ٣٠٧۔

فقہاء اصحاب ائمہ
شیخ طوسی نے امام باقر ـ،امام صادق ـ، امام کاظم ـاور امام رضا ـکے اصحاب میں سے اٹھارہ اصحاب کو فقیہ بزرگ کے عنوان سے پہچنوایاہے اورانہیں فقہائے اصحاب ابی جعفر فقہائے اصحاب ابی عبداللہ اور فقہائے اصحاب ابی ابراہیم اور ابی الحسن الرضا سے تعبیر کیا ہے،پھر مزیدفرماتے ہیں کہ شیعہ ان حضرات کی روایات کی صحت پر اجماع رکھتے ہیں اور اصحاب أئمہ کے درمیان ان کے افقہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، شیخ نے ان کو تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے:

پہلاطبقہ :
فقہائے اصحاب امام باقر،جیسے زرارہ ،معروف بن خربود ،بریدہ ابوبصیر اسدی ، فضیل بن یسارا ور محمد بن مسلم طائفی کہ زرارہ ان سب میں افقہ تھے یعنی سب سے بڑے فقیہ تھے ان لوگوں کا اصحاب امام صادق علیہ السلام میں بھی شمار ہو تا ہے

دوسرا طبقہ:
فقہائے امام صادق علیہ السلام ،جمیل بن درّاج ،عبداللہ بن مسکان، عبداللہ بن بکیر ، حماد بن عیسیٰ ا و رحماد بن عثمان ۔

تیسرا طبقہ:
فقہائے امام کاظم اور امام رضا علیہما السلام ،یو نس بن عبدالرحمن، صفوان بن یحٰ ، بیاع السابری، محمد بن ابی عمیر ، عبداللہ بن مغیرہ ،حسن بن محبوب، احمد بن محمد بن ابی نصر۔(١)
ابن ندیم نے بھی چند شیعہ فقہا اور ان کی تالیف کردہ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ وہ بزرگان ہیںکہ جنہوں نے فقہ کو امامو ں سے نقل کیا ہے کہ اس کے بعدابن ندیم نے ان کے نامو ں کا تذکرہ کیا ہے جو حسب ذیل ہیں :
صالح بن ابی الاسود ،علی بن غرّاب ، ابی یحییٰ لیث مرادی ، زریق بن زبیر، ابی سلمہ بصری ،اسماعیل بن زیاد ، ابی احمد عمربن الرّضیع ،دائود بن فرقد ، علی بن رئاب ، علی بن ابراھیم معلی،ہشام بن سالم ، محمد بن حسن عطار، عبدالمومن بن قاسم انصاری سیف بن عمیرہ نخعی ، ابراھیم بن عمر صنعانی ، عبداللہ بن میمون قداح، ربیع بن ا بی مدرک، عمر بن ابی زیاد ابزاری، زیکار بن یحیی واسطی، ابی خالد بن عمرو بن خالد واسطی ، حریزبن عبدللہ ازدی سجستانی ، عبداللہ حلبی، زکریا ی مومن ثابت ضرری ، مثنیٰ بن اسد خیاط، عمر بن اذینہ، عمّار بن معاویہ دہنی عبدی کوفی ، معاویہ بن عمّار دہنی، حسن بن محبوب سراد، ان بزرگوں میں سے ہر ایک نے فقہ میںکتاب تحریر کی ہے۔(٢)
............
(١)شیخ طوسی، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم، ج ٢ ص ٥٠٧۔ ٣٧٦۔٨٣٠
(٢) طوسی، ابی جعفر محمد بن حسن ، بن علی،الفہرست ،دار المعرفة للجماعة والنشر ، بیروت، ص ٣٠٨
علم کلام
ان اعتقاد کے مجموعہ کا نام علم کلام ہے جن پر ہر مسلمان کو یقین رکھناضروری ہے،دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ علم کلام ایک ایسا علم ہے جو اصول دین میں تحقیق و گفتگو کا متکفل ہوتا ہے اصول دین میں پہلا اختلاف مسئلہ امامت میں پیغمبر ۖکی وفات کے فوراً بعد وجود میں آیا ، شہر ستانی کاکہناہے: اسلام میں اہم ترین اختلاف امامت کے سلسلہ میں ہے امامت کی طرح کسی دوسرے دینی مسئلہ میں تلواریں نہیں کھینچی گئی۔(١)
نوبختی کا بھی بیان ہے:رسول ۖخُداربیع الاوّل ١٠ ھ (١)میں دنیا سے گئے آپ کی عمر ترسٹھ سال تھی ا ور مدّت نبوت تیئس سال تھی ، اس وقت امّت اسلام تین فرقوں میں تقسیم ہو گئی ، ایک فرقہ کا نام شیعہ یعنی شیعان علی ابن ابی طالب تھا،شیعوں کی تمام قسمیں ان سے وجود میں آئی ہیں ،دوسرا فرقہ جس نے حکومت وامارت کا دعویٰ کیا وہ انصار تھے ، تیسرا فرقہ ابو بکر بن ابی قحافہ کی طرف مائل ہو گیا اور کہا: پیغمبرۖ نے کسی کو اپنا جانشین نہیں بنایا ہے اور اس کا اختیار امت کو دے دیا ہے۔(٣)
اس بناپراس وقت سے مسلسل شیعوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان امر امامت کے سلسلہ میںاحتجاج بحث و مباحث نیز گفتگو کا سلسلہ جاری ہے لیکن دوسرے اصول اور مبانی میں اختلاف پہلی صدی کے آخر اور دوسری صدی کے اوائل
............
(١) ملل ونحل، شہرستانی ، منشورات الشریف الرضی قم ، طبع دوم ١٣٦٤ھ ج ١ ص ٣٠
(٢) مشہور یہ ہے کہ رسول خدا نے اٹھائیس صفر کو رحلت فرمائی
(٣)نو بختی ابن ابی محمد حسن بن موسیٰ، فرق الشیعہ، مطبع حیدریہ نجف ١٣٥٥ ، ١٩٣٦ ص ٢۔ ٣
میں وجود میں آیا ہے ، جیسا کہ شہرستانی کا بیان ہے: اصول میں اختلاف صحابہ کے آخری ایّام میں ہوا ،معبد جہنی، غیلان دمشقی اور یونس اسواری نے خیر و شر کے سلسلہ میں قدر جیسے قول کی بدعت جاری کی ہے اورو اصل بن عطا جوحسن بصری کا شاگرد ہے اور عمر بن عبید نے قدر میں کچھ چیزوں کا اضافہ کیا ہے۔ (١)
وہ کلامی فرقے جو اس دور میں تھے حسب ذیل ہیں:
وعیدیہ ، خوارج،مرجئہ اور جبریہ، البتہ کلامی بحث اس وقت عروج پر پہنچی جب واصل بن عطا، حسن بصری سے علیحدہ ہوگیااور مذہب معتزلہ کی بنیاد رکھی ، (٢) مکتب معتزلہ کہ جو زیادہ تر عقلی استدلال پر مبنی تھا اہل حدیث کے مقابلہ میں قرار پایا کہ جسے حشویہ کہا جاتا ہے ابوالحسن اشعری تیسری صدی ہجری کے آخر میں مکتب معتزلہ سے جدا ہو گیا اور مذہب اہل حدیث کا عقلی بنیادوں پردفاع کیا اور اس کا مذہب ،مذہب اشعری کے نام سے موسوم ہو گا ۔(٣)
اس کے بعد معتزلی مذہب نے پیشرفت نہیں کی اور اہل حدیث کے مقابلے میں عقب نشینی اختیار کی اس حد تک کہ اس وقت اہل سنّت کے درمیا ن رائج کلام اشعری کاکلام ہے، کلام شیعہ مسلمانوں کے درمیان سابق ترین کلامی مکتب ہے، شیعوں کے پہلے امام معصوم حضرت علی نے اعتقادی مسائل جیسے توحید قضاو قدر ، جبرو اختیار کے بارے میں گفتگو کی اور اس طریقے کے مطالب حضرت کی زبان سے نہج البلا غہ میں جمع ہوئے
............
(١) شہرستانی، ملل و نحل ، منشورات الشریف الرضی ، قم طبع دوم ١٣٦٤ ھ ج ١ ص ٣٥
(٢)ملل ونحل، شہرستانی ، ص ٥٠٠
(٣)شہرستانی، ملل و نحل ، ص ٨٥۔٨٦
ہیں، لیکن شیعوں کے درمیان امامت کے سلسلہ میں کلامی گفتگو پیغمبر ۖ کی وفات کے فوراًبعد حضرت علی کی حقانیت کے دفاع میںشروع ہو گئی تھی ،شیخ صدوق کے مطابق جنہوںنے سب سے پہلے سقیفہ کے مقابلہ میں حضرت علی کے حق سے دفاع کیا وہ پیغمبرۖ کے بزرگ اصحاب میں سے بارہ افراد ہیںکہ جنہوںنے سقیفہ کے چند روز بعد مسجد نبیۖ میں ابو بکر کے خلاف احتجا ج کیا اور ابو بکر ان کے جواب میںعاجز و نا تواں نظرآئے۔(١)
ان کے بعد بھی ابوذر غفّاری جیسے شخص، امیرالمومنین کے حق کے غاصبوں کے مقابلہ میں خاموش نہیں بیٹھے، عثمان نے خوف کی وجہ سے ان کو شام اور ربذہ شہر بدر کردیا ، پیغمبرۖ کے ابن عم حضرت علی کے شاگرد ابن عباس (مفسر قرآن، عظیم دانشور اوربر جستہ ہاشمی سیاست مدار)مکتب تشیع کے مدافعین میںسے تھے اور مستقل حقانیت علی کی جانبداری کرتے تھے یہاں تک کہ عمر نے ان پر اشکال واعتراض کیا کیوں آپ کہتے رہتے ہیں کہ ہمارا حق غصب ہوا ہے ؟وہ آخر عُمر میں نا بینا ہوگئے تھے، ایک روز سنا کہ کچھ لوگ کہیں پر علی کو برا کہہ رہے ہیں اپنے بیٹے علی سے کہا میر ا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے چلو ،جس وقت وہاں پہنچے ان کو مخاطب کر کے کہا تم میں سے کون خُدا کو بُرا کہہ رہا تھا: سب نے کہا: کوئی نہیں، پھر سوال کیا تم میںسے کون رسول خدا ۖکو برا کہہ رہا تھا ؟سب نے کہا:کوئی نہیں پھر کہا :تم میں سے کون علی کو بُرا کہہ رہا تھا؟اس بار ان لوگوں نے کہا : ہم کہہ رہے تھے، ابن عباس نے کہا گواہ رہنا میں نے رسولۖ خُدا سے سنا ہے کہ جس نے
............
(١)شیخ صدوق، الخصال، منشورات جماعة المدرسین ، فی الحوزہ العلمیہ قم ١٤٠٣ ص ٤٦١، ٤٦٥
علی کو برا کہا اس نے مجھ کو برا کہا اور جس نے مجھ کو برا کہا اس نے خُدا کو برا کہا اور خُدا کو برا کہنے والا جہنّم میں جائے گا، وہاں سے پلٹتے وقت راستے میں بیٹے سے کہا ان کو کس حال میں دیکھ رہے ہو،بیٹے نے یہ شعر پڑھا :
نظروا الیکٔ بأ عین محمرہ
نظرا لیتو س الیٰ شفار الجارز
آپ کو سُرخ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جیسے قربانی کے جانورکی نگاہ قصّا ب کی چھری پر ہو تی ہے، ابن عبّاس نے کہا :آگے پڑھو ، کہا:

خزر الحواجب نا کسی اذقا نھم
نظرالذلیل الیٰ العزیز القادر
ان ابرواوران کی بھویں چڑھی ہوئی تھیں منہ پچکا ہوا تھا، اس طرح آپ کو دیکھ رہے تھے جیسے ذلیل قدرتمند کودیکھتا ہے ۔

ابن عبّاس نے کہا: مزید کہو،بیٹے نے جواب دیا: دوسری چیزیں بیان نہیں کرسکتا، ابن عبّاس نے خود یہ شعر پڑھے:
احیا ؤ ھم خزی علیٰ امواتھم
والمیّتون فضیحة للغابر (١)
ان کے زندہ ان کے مرنے والوں کے لئے ذلت کا باعث ہیں اور ان کے مرنے والے گزشتہ لوگوں کے لئے توہینکا سبب ہیں ۔
............
(١)شیرازی سید علی خان ، الدرجات الرفیعہ، منشورات مکتبہ بصیرتی ،قم ، (بی تا)ص ١٢٧
اصحاب امیر المو منین میں سے بعض بزرگان جیسے صعصعة بن صوحان، میثم تمّار،کمیل بن زیاد ، اویس قرنی ، سلیم بن قیس ،حارث حمدانی اور اصبغ بن نباتہ نے بھی امیرالمومنین کے حق کا دفاع کیا اور اس بارے میں حضرت کے دشمنوں سے احتجاج کیا ، لیکن شیعوں میں سب سے پہلے علم کلام میں کس نے کتاب لکھی یہ تحقیقی موضوع ہے، ابن ندیم و ابن شہر آشوب کے مطابق علی بن اسماعیل بن میثم تمّار کلام شیعہ کے پہلے مصنف ہیں،انہوں نے اس بارے میں کتاب امامت اور کتاب استحقاق لکھی ہے۔ (١)
لیکن مرحوم سیّد حسن صدر علم کلام میں پہلے مصنف عیسیٰ بن روضہ کو جانتے ہیں۔(٢)
البتہ کلام شیعہ کی قدیم ترین کتاب جوآج بھی دسترس میں ہے، کتاب ''الایضاح '' ہے جس کے مصنف فضل بن شاذان متوفی ٢٦٠ھ ہیں جو امام ہادی اور امام حسن عسکری کے صحابی تھے ،امام صادق کے دور میں علم کلام نے بھی دوسرے تمام علوم کی طرح ترقی پائی اور حضرت کے چند شاگرد جیسے ہشام بن حکم ،ہشام بن سالم، مومن طاق ، فضال بن حسن ، جابر بن یزید جعفی وغیرہ اس موضوع میںسب زیادہ برجستہ اورنمایاں تھے اور اس سلسلہ انہوں نے میں اپنی کتابیں چھوڑی ہیں ان کا دوسرے مکاتب کے دانشمندوں سے مناظرہ ہوتا تھا ، فضل بن شاذان نیشاپوری متوفی ٢٦٠ھ ممتاز ترین شیعہ متکلم تھے، انہوں نے امام رضا امام جواد اور امام ہادی کے زمانے کو درک کیا ہے اور کلام و عقائد اور منحرف مذاہب
............
(١) ابن ندیم گزشتہ حوالہ ، ص ٢٤٩، اور ابن شہر آشوب ، معالم العلماء ، منشورات مکتبة الحیدریہ ، نجف ١٣٨٠ھ ١٩٦١م ص ٦٢
(٢)تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام، منشورات الاعلمی ، تہران ص ٣٥٠
کے خلاف کافی کتابیں لکھی ہیں۔ (١)
حسن بن نو بختی متوفی ٣١٠ ھ شیعہ متکلمین میں سے تھے ان کی جملہ کتابوں میں سے ایک فرق الشیعہ ہے ۔ (٢)
............
(١)نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، نجاشی موسسة الاسلامی تابعة لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ، ص٣٠٦
(٢) فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، نجاشی موسسة الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ص ٦٣