ساتویں فصل
شیعوں کی علمی میراث
شرع مقدس اسلام میں تالیف وتصنیف کی اہمیت کسی پر مخفی نہیں ہے کیونکہ علم وآگاہی کے منتقل کرنے کے راستوں میں ایک راستہ لکھنا ہے، عرب کے معاشر ے میں اسلام سے پہلے اس نعمت سے بہت کم لوگ بہرہ مند تھے اور صرف چند افراد لکھنے اور پڑھنے کی توانائی رکھتے تھے۔( ١)
لیکن بعثت پیغمبر ۖاور نزول وحی کے بعدتعلیمات اسلامی سے واقفیت کے لئے قرآنی آیات کے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ،جیسا کہ ابن ہشام نے نقل کیا ہے کہ عمر بن الخطاب کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب اور ا ن کے شوہر سعید بن زید مسلمان ہوئے،خباب ابن ارث نے ایک نوشتہ کے ذریعہ کہ جسے صحیفہ کہتے ، عمر کی نظروں سے مخفی ہوکر انہیںسورہ طہ کی تعلیم دی۔ (٢)
مدینہ میں بھی رسول خدا ۖنے مسلمانوںمیں سے بعض افراد کو کہ جو لکھنے پر قادتھے وحی لکھنے کے لئے انتخاب کیا اس کے علاوہ پیغمبرۖ امیرالمومنین کو کہ جو دائمی وحی لکھنے والے تھے
............
(١)ابن خلدون،عبد الرحمن بن محمد،(مقدمہ)دار احیاء التراث، بیروت، ١٤٠٨ھ ص ٤١٧
(٢)ابن ہشام ،سیرة النبوة،دار المعرفة ،بیروت،(بی تا) ج١ ،ص٣٣٤
مسلسل آیات محکمات ومتشابہات اور ناسخ ومنسوخ آیات کے بارے میںوضاحت پیش کرتے تھے جس کی بنا پر صحیفۂ جامعہ کے نام سے ایک کتاب رسول خدا ۖنے املا کرایا جو حلال و حرام ، احکام و سنن اور وہ احکام جن کی دنیا و آخرت میں لوگوں کو ضرورت ہے ان سب کو شامل تھی۔(١)
دوسری دو کتابیں جن میں سے ایک دیات کے بارے میں تھی جس کا نام صحیفہ تھا اور دوسری کتاب جس کا نام فریضہ تھا اس کی نسبت بھی حضرت کی طرف دی گئی ہے۔(٢)
بعض دوسرے صحابہ نے بھی رسولۖ خداکی تقاریر اور احادیث کو جمع کیا تھا اس کو بھی صحیفہ کہتے تھے جیسا کہ بخاری نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے: اصحاب پیغمبر میں سے سب سے زیادہ میں احادیث رسول ۖکو نقل کرتا ہوں سوائے عبد اللہ بن عمر کے کیونکہ وہ جوچیز بھی پیغمبرۖ سے سنتے تھے اس کو لکھ لیتے تھے لیکن میں نہیں لکھتا تھا۔(٣)
............
(١)نجاشی احمد بن علی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ ، موسسة النشر الاسلامی التابع لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ص ٣٦٠، اور طبرسی ، اعلام الوری باعلام الھدی ، موسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم طبع اول ، ١٤١٧ھ ج١ ص ٥٣٦
(٢) شیخ طوسی ، محمد بن حسن،تہذیب الاحکام،مکتبة الصدوق،طبع اول،٣٧٦ ھ ق ١٤١٨ھ ج١ ، ص٣٣٨۔٣٤٢
(٣) صحیح بخاری،دارالفکر،للطباعة والنشر والتوزیع،بیروت،ج١،ص٣٦
لیکن وفات پیغمبرۖ کے بعد دوسرے خلیفہ ،عمر نے احادیث رسول ۖ کو
لکھنے سے منع کر دیا۔(١)
عمر بن عبدالعزیز نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں اس ممانعت کو ختم کر دیا اور ابو بکر بن حزم کو احادیث لکھنے کے لئے خط لکھا۔(٢)
لیکن دوسری صدی ہجری کے شروع تک یہ کام عملی طور پر نہیں ہو سکا کیونکہ غزالی کے نقل کی بنا پر جن لوگوں نے اہل سنت کے درمیان حدیث کی کتاب کو سب سے پہلے تالیف کیا ہے وہ یہ ہیں : ابن جریح ،معمر بن راشد ،مالک بن انس اور سفیان ثوری،(٣)یہ لوگ دوسری صدی ہجری کے نصف دوم میں تھے، ان کی وفات کے سال ان کے نام کی ترتیب کے ساتھ اس طرح ہیں١٥٠ھ، ١٥٢ھ،١٧٩ھ،١٦١ھ لیکن خلیفہ دوم کی طرف سے کتابت احادیث پر پابندی اور روک ٹوک شیعوں کے درمیان مؤثر نہ ہوئی اور شیعوں کے بزرگ اصحاب جیسے سلمان فارسی ،ابو ذر غفاری،ابو رافع قبطی نے تالیف و تصنیف کی راہ میں پہلے قدم بڑھائے، ابن شہر آشوب کا بیان ہے ،غزالی معتقد ہے کہ سب سے پہلی کتاب جو جہان اسلام میں لکھی گئی وہ ابن جریح کی کتاب ہے جو تفاسیر کے حروف اور آثار کے بارے میں ہے کہ جس کو مجاہد اور عطا نے مکہ میں نقل کیا ہے، اس کی کتاب کے بعد یمن میںمعمر بن راشد صنعانی کی کتاب ہے اس کے بعد مدینہ میں موطا مالک بن انس کی کتا ب ہے نیز اس کتا ب کے بعدسفیان ثور ی کی کتاب جامع ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ عالم اسلام میں سب سے پہلی کتاب
............
(١)حیدر،اسد ، امام صادق و مذاہب اربعہ، دارالکتاب عربی، بیروت،١٤٠٣ھ،ج١ ص٥٤٤
(٢) صحیح بخاری ،دار الفکر ،للطباعة والنشر والتوزیع،بیروت،ج١،ص٢
(٣) ابن شہر آشوب ،معالم العلمائ،منشورات المطبعة الحیدریہ،نجف ١٣٨٠ھ،ص٢
امیرالمومنین نے لکھی ہے کہ جس میں قرآن کو جمع کیا ہے حضرت کے بعد سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری اصبغ بن نباتہ عبیداللہ بن ابی رافع نے تصنیف و تالیف کی راہ میں قدم اٹھایا اور ان کے بعد امام زین العابدین نے صحیفۂ کاملہ تالیف کی۔(١)
ابن ندیم نے بھی شیعی تالیفات کو پہلی صدی سے مربوط جانتا ہے۔(٢)
شیعو ں کی تالیف و تصنیف اور آثار نبوی کی جمع آوری میںمقدم ہونے کی وجہ سے ذہبی نے ابان بن تغلب کی سوانح حیات میں کہاہے: اگر ابان جیسے شخص کی وثاقت تشیع کی طرف جھکائو اور میلان کی وجہ سے ختم ہو جائے تو نبی اکرم ۖ کی بہت سی حدیثیں اور آثار ہمارے درمیان سے ختم ہو جائیں گے۔(٣)
اہل سنت کے گذشتہ فقہا اور محدثین خصوصاً ائمہ اربعہ نے امام صادق سے بلا واسطہ یا با لواسطہ استفا دہ کیا ہے نیز اس کے علاوہ مستقل طور پر شیعہ محدثین کی شاگردی بھی کی ہے اور ان سے احادیث دریافت کی ہیں۔(٤)
............
(١)ابن شہر آشوب ،معالم العلمائ، ص ٢
(٢)الفہرست،دار المعرفة،للطباعة والنشر،بیروت، ص٣٠٧
(٣)ذہبی ، میزان الاعتدال، دار الفکر للطباعة والنشرو التوزیع، بیروت ، ج١ ص ٤
(٤)ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغة،دار الاحیاء التراث العربی،بیروت ،ج١، ص١٨
لیکن ان کتا بوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے جو شیعوں کے درمیان تیسری صدی ہجری تک لکھی گئی ہیں، صاحب وسائل نے کہا ہے : ائمہ اطہار کے ہم عصر دانشمندوں اور محدثوں نے امام امیر المومنین کے زمانہ سے لے کر امام حسن عسکری
کے زمانہ تک چھ ہزار چھ سو کتابیں تحریر فر مائی ہیں۔(١)
شیعوں نے اس دور میں روز مرّہ کے مختلف علوم جیسے ادبیات، لغت ،شعر ،علوم قرآن ،تفسیر ،حدیث، اصول فقہ ،کلام ،تاریخ، سیرت،رجال ، اخلاق کے بارے میں بے حد کوششیں کی ہیں اور کثیر تعداد میں اپنی تالیفات چھوڑی ہیں نیز بیشترعلوم میں وہ سبقت رکھتے ہیں ۔
ابوالاسود دوئلی نے علم نحو کی بنیاد رکھی ،(٢)انہوں نے ہی سب سے پہلی مرتبہ قرآن پر نقطہ گذاری کی۔(٣)
مسلمانوں کی سب سے پہلی لغت کی کتاب، کتاب العین ہے جس کو خلیل بن احمد نے مرتب کیا ہے(٤) ان کا شمار شیعہ دانشوروں میں ہوتا ہے ۔(٥)
پیغمبر ۖ کی جنگوں اور سیرت کے بارے میں سب سے پہلی کتاب ابن اسحاق نے لکھی اور ابن حجر نے اس کے شیعہ ہونے کی گواہی دی ہے۔(٦)
اس مختصر سی روشنی ڈالنے کے بعد ہم یہاں علم فقہ و حدیث اور کلام کی مختصر وضاحت پیش کرتے ہیں جن کو مکتب تشیع نے اپنے مبانی اور اصول کی بنیاد پر اپنے سے مخصوص کیا ہے ۔
............
(١)شیخ حرعاملی،محمد بن حسن،وسائل الشیعہ،مکتبةالاسلامیہ ، تہران، طبع ششم ج ٢٠، ص ٤٩
(٢)ابن ندیم،وہی کتاب ص٦١
(٣)بستانی،دائرةالمعارف،دار المعرفة،بیروت،ج١،ص٧٨٨
(٤)ابن ندیم،وہی کتاب،ص٦٣
(٥)اردبیلی الغربی الحائری ،محمد بن علی ،جامع الرواة،منشورات مکتبة آیةاللہ مرعشی نجفی،قم، ١٤٠٣ھ قمری،ج١،ص٢٩٨
(٦)ابن حجر عسقلانی، تحریر تقریب التہذیب ،موسسة الرسالة ،بیروت ،طبع اول ،١٤١٧ھ ١٩٩٧ئ، ج٣،ص٢١١۔٢١٢
علم حدیث:
حدیث یا سنت:
قرآن کے بعد اسلامی فقہ کا دوسرا منبع و ماخذہے یعنی معصوم کا قول،فعل اور تقریر،(تقریر یعنی معصوم کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور معصوم خاموش رہیں اس کی رد میں کچھ نہ کہیں) اہل سنت حضرات سنّت یاحدیث کوپیغمبرۖ کے قول و فعل و تقریر میں منحصرجانتے ہیں لیکن شیعہ اما م معصوم کے قول،فعل اور تقریر کو بھی حجت قراردیتے ہیں اور حدیث کا حصہ شمار کرتے ہیں(١)اب ہم ائمہ کے زما نے میں حدیثوں کی تحقیق کے چار طبقہ جو چار مرحلوں کو شامل ہے انجام دیںگے :
پہلا طبقہ :
نجاشی کے مطابق پہلے حدیث لکھنے والے حسب ذیل ہیں :
ابو رافع قطبی ، علی ابن ابی رافع ، ربیعہ بن سمیع ، سلیم بن قیس ہلالی، اصبغ بن نباتہ مجا شعی ، عبید اللہ بن حر جعفی یہ افراد امیرالمومنین علیہ السّلام اور امام حسن و امام حسین کے اصحاب میں سے ہیں۔(٢)
............
(١)شہید ثانی،شیخ زین الدین،ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ،طبع سنگی،ص٤،اور الرعایة فی علم الدرایة،شہید ثانی،مکتبة آیةاللہ مرعشی نجفی،طبع اول ١٤٠٨،ص٥٠۔٥٢
(2)رجال نجاشی،موسسہ نشر اسلامی التابعہ لجامعة المدرسین ، قم ، ١٤٠٧ھ ، قم ، ١٤٠٧ھ ق ص ٤۔ ٩
دوسراطبقہ :
بعض محققین کے مطابق امام سجّاد اور امام باقر کے اصحاب کے درمیان بارہ افرادصاحب تالیف ا ورصاحب کتاب تھے۔(١) ان میںابان بن تغلب کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جن کو ائمہ کے نزدیک ایک خاص مقام و مرتبہ تھا امام باقر نے ان سے فرمایا : مسجد نبی ۖ میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوی دوکیونکہ میںتم جیسے افرد کو اپنے شیعوں کے درمیان دیکھنا چاہتا ہوں۔(٢)
نجاشی کا بیان ہے :ابان بن تغلب مختلف فنون و علوم میں ماہر تھے ، ابان نے ان فنون کے بارے میں کتابیں تحریر کی ہیں ،ان میں سے تفسیر غریب القرآن اور کتاب الفضائل وغیرہ ہیں ۔(٣)
اسی طرح ابو حمزہ ثمالی جن کے بارے میں امام صادق علیہ السّلام نے فرمایا: ابوحمزہ اپنے زمانے میں سلمان کی طرح تھے،(٤) ان کی تالیف کردہ کتابیں درج ذیل ہیں کتاب نوادر ، کتاب زھد اور تفسیر قرآن ۔(٥)
............
(١)ان بارہ افراد کے نام یہ ہیں ، برد الاسکاف ، ثابت بن ابی صفیہ ابو حمزہ ثمالی ، ثابت بن ہرمز ، بسام بن عبد اللہ صیرفی ، محمد بن قیس بجلی ، حجر بن زائد حضرمی ، زکریا بن عبد اللہ فیاض، ابو جہم کوفی ، حسین بن ثویر ، عبد المومن بن قاسم انصاری ، عبد الغفار بن قاسم انصاری ،اور ابان بن تغلب ،رجوع کریں مقدمۂ وسائل الشیعہ، مکتبة الاسلامیہ ، طبع تہران ،ج ٦ ،١٤٠٣ھ ق ص
(٢) نجاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص ١٠
(٣) نجاشی ،احمد بن علی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة،موسسہ النشر الاسلامی لجماعة المدرسین،قم، ص ١١
(٤)احمد بن علی ، نجّاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص١٥
(٥)ابن شہر آشوب ،معالم العلماء ،منشورات مطبعة الحیدریہ، نجف ،١٣٨٠ھ ص ٣٠
تیسرا طبقہ :
امام صادق کا زمانہ اسلامی معاشرہ میں علوم کی پیشرفت اور رشد کا زمانہ تھا اور شیعہ بھی نسبتاً آزاد تھے ،شیخ مفید کے مطابق امام صادق کے موثق اورمعتبر شاگردوں کی تعداد چار ہزارسے زائد ہے ۔(١)
امام رضا کے صحابی حسن بن علی وشاکا بیان ہے میں نے مسجد کوفہ میں نو سو افراد کو دیکھا جو امام صادق سے حدیث نقل کر رہے تھے ،(٢) اس وجہ سے حضرت سے کئے گئے سوالات کے جوابات میں چارسو کتابیں تالیف کی گئیں،(٣)کہ جن کو اصل کہتے ہیں ان کتابوں کے علاوہ بھی دوسری کتابیں مختلف علوم و فنون میں امام صادق کے اصحاب اور شاگردوں کے ذریعہ تحریر میں آئی ہیں ۔
چوتھا طبقہ :
یہ دور امام صادق کے بعد کا دور ہے اس دور میںبہت سی حدیثوں کی کتابیں لکھی گئیں مثلاً امام رضا کے صحابی حسین بن سعید کوفی نے تیس کتابیں حدیث میں لکھی ہیں۔(٤)
امام رضا کے دوسرے صحابی محمدبن ابی عمیر نے چورانوے( ٩٤)کتابیںلکھی ہیں اور امام رضا و امام جواد کے صحابی صفوان بن بجلی نے تیس٣٠ کتابیں تالیف کی
ہیںان کتابوں میں اکثر پرجامع کا عنوا ن منطبق ہوتا ہے محدّ ثین جیسے ثقة الاسلام کلینی شیخ صدوق، شیخ طوسی نے اپنی کتابوں کی تالیف میں ان لوگوں کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ۔
............
(١)شیخ مفید،الارشاد،ترجمہ ، محمد باقر ساعدی ، خراسانی ، کتاب فروشی اسلامی ، تہران ، ١٣٧٦ھ ش، ص ٥٢٥
(٢) نجاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص ٣٩۔٤٠
(٣) اعلام الوریٰ با علام الہدیٰ ،موسسة آل البیت الاحیاء التراث ، قم طبع اول ج١ ص ٥٣٥
(٤)معالم العلماء ، ص ٤٠
علم فقہ :
مجموعی طور پر انسان کے اعمال کا رابطہ خُدا اور اس کی مخلوق سے ہے کہ جس کے لئے کچھ اصول اورقوانین کی ضرورت ہے اسی اصول اورقوانین کا نام علم فقہ ہے اسلامی قوانین خُدا کی جانب سے ہیں اور خُدا کے ارادے سے ظاہر ہوتے ہیں، البتہ ارادئہ خُدا کہیں بھی فقط قرار دادی اور اعتباری نہیں ہیں بلکہ مصالح و مفاسد تکوینی کی بنیاد پر استوارہوتے ہیں رسول اکرم ۖخُدا کے بھیجے ہوئے نبی ہیں ان کا حکم خُدا کا حکم ہے :
( ما ینطق عن الھویٰ اِن ھواِلّا وحی یوحی)(١)
اور آیۂ( اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرّسول و اولی الأمر منکم )(٢)
کی بنیاد پر خُدا نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے، ائمہ معصومین علیہم السلام کی باتیں وحی کے سوا کچھ نہیں ہیں اور پیغمبر ۖکی طرح ان کی بھی اطاعت واجب ہے۔
............
(١)سورہ نجم ،٥٣، آیت ٣۔٤
(٢)سورہ نسائ، آیت ٥٩
عصر صحابہ و تابعین میں فقہ کی موقعیت و وضعیت
رسول ۖاکرم کی وفات کے بعدحقیقی اسلام کا راستہ متغیرو منحرف ہو گیا اور لوگ بر حق جانشین پیغمبرۖ سے دور ہو گئے، مسائل شرعی میں اصحاب پیغمبر ۖ کی طرف رجوع کرنے لگے البتہ چنداصحاب ان میں سے پیش قدم تھے، جیسا کہ ابن سعد کا بیان ہے کہ ابوبکر، عمر، عثمان کے دور خلافت میں حضرت علی علیہ السلام، عبد الرّحمن بن عوف ،معاذ بن جبل ابی بن کعب اور زید بن ثابت فتویٰ دیتے تھے ۔(١)
اگر چہ ائمہ اطہار اور کچھ بزرگان شیعہ جیسے ابن عبّاس، ابو سعید خدری بھی فقیہ اور قانون شریعت سے واقف ہونے کی وجہ سے عامہ اور اہل سنّت کے لئے مورد توجہ قرار پائے اور ان کی طرف لوگ رجوع بھی کرتے تھے ۔(٢)
البتہ اس دور میں شیعہ افراد فقہی مسائل اور اسلامی معارف کے بارے میں اپنے معصوم امام نیز اہل بیت رسول ۖکی جانب مراجعہ کرتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں فقہی اصول آج کی طرح بیان نہیںہوئے تھے لیکن صحابہ کا دور ختم ہونے کے بعد تابعین کی کچھ تعداد نے جدیدفقہی مسائل کے لئے فقہ میں کاوش کی اور فقیہ کا عنوان ان پرمنطبق ہوا منجملہ ا نہیں میں سے وہ سات فقہائے مدینہ ہیں ۔ (٣)
............
(١)ابن سعد، طبقات الکبری، دار احیاء التراث ، العربی ، بیروت ، طبع اول ،ج ٢ ص ٢٦٧
(٢)ابن سعد،طبقات الکبری، ج ٢ ص ٢٧٩۔٢٨٥
(٣) ابن سعد کہتا ہے : مدینہ میں جو لوگوں کے فقہی مسائل کا جواب دیتے تھے اور ان کا قول قابل اعتماد تھا وہ یہ ہیں: سعید بن مسیّب، ابو بکر بن عبد الرحمن ، عروة بن زبیر ، عبد اللہ بن عبد اللہ بن عتبة، قاسم بن محمد، خارجة بن زید اور سلیمان بن سیّار ،طبقات الکبری، ج ٢ ص ٢٩٣
|