شیعہ فرقوں کے وجود میں آنے کے اسباب
بارہ اماموں کے اسماء مبارک احادیث نبوی میں وارد ہوئے ہیں اورپہلے دور کے شیعہ ان حضرات کو دیکھنے سے پہلے ان کے نا م جانتے تھے ،جیسا کہ پیغمبرۖکے وفا دار صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیںکہ جس وقت قرآن مجید کی یہ آیت: (یا ایّھاالّذین آمنوااطیعوااللّٰہ و اطیعوا الرّسول و اولی الامر منکم )(1)
اے ایمان لانے والو! اللہ کی ، اس کے رسول کی اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔
ناز ل ہوئی تو میں نے عرض کی: یارسولۖ اللہ! میں خدا اور اس کے رسول ۖ کو پہچانتا ہوں اور ان کی اطاعت بھی کرتا ہوں لیکن اولی الامرسے مراد کون لوگ ہیں جن کی اطاعت کو خدا وند عالم نے اپنی اور آپ کی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے؟ حضرت نے
............
(1) سورہ نساء ،٤آیت٥٩
فرمایا: اولی الامرسے مراد میرے جانشین اور میرے بعدکے پیشوا ہیں، ان میں سب سے پہلے علی بن ابی طالب اور ان کے بعدحسن ان کے بعد حسین ان کے بعد علی بن حسین ان کے بعد محمد بن علی جو توریت میںباقر کے نام سے معروف ہیںتم ان کی زیارت بھی کرو گے جس وقت تم ان کو دیکھنا میراسلام کہنا ، ان کے بعد جعفربن محمد ان کے بعد موسیٰ بن جعفر ان کے بعدعلی بن موسی ان کے بعد محمد بن علی ان کے بعد علی بن محمدپھران کے بعد حسن بن علی اور ان کے بعدان کا فرزندجو میرا ہمنام اورجس کی کنیت میری کنیت ہوگی وہ امام ہو گا، اسی کے ذریعہ شرق وغرب فتح ہوں گے وہ لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہو گا اس کی غیبت اتنی طولانی ہوگی جس کی وجہ سے لوگ اس کی امامت میںشک کریں گے سوائے ان لوگوں کے جن کے دلوں کو خدا وندعالم نے ایمان کے ذریعہ پاک کیا ہے۔(١)
یہی جابر مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ کر کہتے تھے اے باقرالعلم !آپ کہاںہیں ؟ لوگ کہتے تھے: جابر ہذیان بک رہا ہے۔ جابر کہتے تھے کہ میں ہذ یان نہیں بک رہا ہوں بلکہ مجھ کو رسولۖ اکرم نے خبر دی ہے کہ میرے خاندان میں سے ایک شخص جو میرا ہم نام اور میرا ہم شکل ہو گا تم اس کی زیارت کرو گے وہ علم کو شگافتہ کرے گا۔(٢)
ائمہ معصومین نے بھی دلیلوں اور معجزوں کے ذریعہ اپنی حقا نیت ثابت کی ہے اس
کے باوجودبعض اسباب و وعوامل اس بات کا باعث بنے کہ بعض شیعوںپر حقیقت مشتبہ ہوگئی اور وہ راہ (حق )سے منحرف ہوگئے ان عوامل کو ہم ذیل میںذکر کرتے ہیں ۔
............
(١)پیشوائی ،مہدی ،شخصیت ہای اسلامی،انتشارات توحید۔قم١٣٥٩ ص٦٣،تفسیر صافی سے نقل کیا ہے ، ج١،ص٣٦٦،کمال الدین وتمام النعمة،ج١،ص٣٦٥،طبع تہران،فارسی ترجمہ
(٢)شیخ طوسی اختیارمعرفةالرّجال،(رجال کشی)موسسہ آل البیت لاحیا التراث قم،١٤٠٤ھ ج :١، ص٢١٨
(١) اختناق(گھٹن، اضطراب)
٤٠ھ کے بعد خاندان پیغمبرۖاور ان کے چاہنے والوں پراس قدرگھٹن کا ماحول چھایا ہواتھا کہ شیعہ کے لئے ممکن نہیں ہوسکا کہ وہ ا پنے اماموں سے رابطہ برقرار کریں اورا ن کی ضروری معرفت حاصل کر تے پہلی صدی میں ٧٢ ھ اور ابن زبیر(جو شیعوں کا دشمن تھا) کی شکست کے بعد حجاج بن یوسف بیس سال تک عراق و حجازپر حاکم رہا اور شیعوں کو بہت زدو کوب کیا ان کو قتل کیا زندان میں ڈالااور عراق و حجاز سے انہیں فرار ہونے پر مجبورکیا۔(١)
امام سجاد تقیہ میں تھے اورشیعہ معارف کو دعائوں کی شکل میںبیان کرتے تھے فرقہ کیسانیہ اسی زمانہ میں رونما ہوا ،امام باقراور امام صادق کواگرچہ نسبتاًآزادی ملی تھی، انہوںنے شیعہ معارف کو وسعت بخشی لیکن جب منصور عباسی کوحکومت ملی تو شیعوں کی طرف متوجہ ہوا اور جس وقت اس کوامام صادق کی خبر شہادت ملی تو اس نے مدینہ میں اپنے والی کو خط لکھا کہ امام صادق کے جانشین کی شناسائی کرکے ان کی گردن اڑادے، امام جعفر صادق نے پانچ لوگوںکو اپنا جانشین بنایا تھا، ان میں ابو جعفرمنصور (خلیفہ)محمد بن سلیمان، عبداللہ، موسیٰ اور حمیدہ تھے۔(٢)
............
(١)زین عاملی ، محمد حسین، شیعہ در تاریخ، ترجمہ محمد رضا عطائی، انتشارات آستانہ قدس رضوی،طبع دوم،١٣٧٥ھ ش،ص١٢٠
(٢)طبرسی،بو علی فضل بن حسن، اعلام الوریٰ،موسسہ آل البیت، لاحیاء التراث، قم ١٤١٧ھ ج٢ ص١٣
امام کاظم کی عمر کا زیادہ حصہ زندان میں گذرا سب سے پہلے موسیٰ ہادی عباسی نے حضرت کو زندان میں ڈالا اور کچھ مدت کے بعد آزاد کر دیا ہارون نے چار بار امام کو گرفتارکیا اور شیعوں کوآپ کے پاس آنے جانے اور دیدار سے منع کیا ۔(١)
شیعہ حیران وسرگردان اور بغیر سرپرست کے رہ گئے ، اسماعیلیہ اور فطحیہ کے مبلغین کے لئے راستہ ہموار ہو گیا ،اس زمانہ میں کوئی ایسا نہیں تھا جو شیعوںکو ان کے شبہ کا جواب دیتا،عباسی حکومت اور اس کے جاسوسوںکی نظرامام کاظم کی کوششوں کے بارے میں اس حد تک تھی کہ علی بن اسماعیل جو آپ کے بھتیجے تھے وہ بھی اپنے چچا کی مخالفت میںچغلخوری کرتے تھے(٢) اکثر شیعہ اس وقت یہ نہیں جانتے تھے کہ امام موسیٰ کاظم زندہ ہیں یا نہیں؟
چنانچہ یحییٰ بن خالد برمکی کا بیان ہے:
میںنے رافضیوں کے دین کو ختم کر دیا اس لئے کہ انکا خیال ہے کہ دین بغیر امام کے زندہ اور استوار نہیں ر ہ سکتاآج وہ نہیں جانتے کہ ان کے امام زندہ ہیںیا مردہ۔ (٣)
حضرت کی شہادت کے وقت ایک بھی شیعہ حاضر نہیں تھا اسی لئے واقفیہ نے آپ کی موت( شہادت )سے انکار کردیا اگرچہ مالی مسائل واقفیہ کے وجود میں زیادہ مؤثر تھے ،ائمہ معصومین مسلسل عباسی حکومت کے زیر نظر تھے ،یہاں تک کہ امام ہادی اور
............
(١) مظفر،محمد حسین ،تاریخ شیعہ،منشورات مکتب بصیرتی،قم،(بی تا) ص٤٧
(٢)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ،قم ١٤١٦ھص ٤١٤
(٣)زین عاملی(،محمد حسین)شیعہ در تاریخ: ج ١، ص٢٣
امام عسکری کوسامرہ کی فوجی چھاونی میں رکھاگیاتا کہ ان دو نوںاماموں پرکڑی نظر رکھ سکیں،امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد آپ کے جانشین ( حضرت ولی عصر)کو پہچاننے کے لئے امام حسن عسکری کی کنیزوں اور بیویوں کوقید خانوںمیں ڈال دیا، یہاںتک کہ جعفر بن علی (جو جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہیں )نے اپنے بھائی امام حسن عسکری کے خلاف جد و جہد کی اسی وجہ سے غلات کے عقائدنصیری یعنی محمد ابن نصیر فہری کے ذریعہ پھیل گئے چند لوگ جعفر کے ارد گرد جمع ہوگئے اورانہوں نے امامت کا دعویٰ کردیا۔(١)
(٢)تقیہ
یعنی جب جان کا خوف ہو تو حقیقت کے خلاف اظہار کرنا، شیعوں نے اس طریقہ کار کو گذشتہ شریعتوں اور شریعت اسلام کی پیروی میںعقل وشرع سے اخذ کیا ہے جیسا کہ مومن آل فرعون نے فرعو ن اور فرعونیوں کے خوف سے اپنے ایمان کو چھپایا ،اصحاب رسول ۖمیں سے عمار یاسر نے بھی مشرکین کے شکنجہ اور آزار کی وجہ سے تقیہ کیا اور کفر کا اقرار کیا اور روتے ہوئے پیغمبرۖ کے پاس آئے تو حضرت نے فرمایا : اگرد وبارہ تم کو شکنجہ کی اذیت دیں تو پھر ا س کام کو انجام دینا۔(٢)
شیعہ چونکہ بہت ہی کم مقدار میںتھے اس لئے اپنی حفاظت کے لئے تقیہ
............
(١)شیخ طوسی،اخبار معرفت الرجال(رجال کشی)موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم ١٤٠٤ھ ج ٢
(٢)امین ،سید محمد،اعیان الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات،بیروت(بی تا)ج١،ص١٩٩
کرتے تھے اور اس روش کی بنا پر مکتب تشیع باقی رہاجیسا کہ ڈاکٹر سمیرہ مختار اللیثی نے لکھا ہے: شیعہ تحریک جاری رہنے کے عوامل میںسے ایک عامل تقیہ اور مخفی دعوت ہے کہ جس نے یہ فر صت دی کہ شیعوں کی نئی تحریک خلفائے عباسی اور ان کے حاکموں کی آنکھوں سے دور رہ کر ترقی کرے ۔(١)
لیکن دوسری طرف تقیہ شیعو ں کے مختلف گروہوں میں تقسیم ہونے کا سبب بنا کیونکہ شیعہ وقت کے ظالموں کے خوف سے اپنے عقائد کو مخفی رکھتے تھے اور ہمارے ائمہ بھی ایسا کرتے تھے چنانچہ اس دور کی خفقانی کیفیت اور گھٹن اور سختی کی وجہ سے اپنی امامت کو ظاہر نہیں کرتے تھے یہ بات امام رضا اور واقفیوںکے درمیان ہونے والی گفتگو سے روشن ہوجاتی ہے۔
علی بن ابی حمزہ کہ جس کا تعلق واقفی مذہب سے تھا اس نے امام علی رضا سے سوال کیا کہ آپ کے والد کیا ہوئے؟امام نے فرمایا: انتقال کرگئے، ابن ابی حمزہ نے کہا:انہوں نے اپنے بعد کس کو اپنا جانشین قرار دیا؟ امام نے فرمایا : مجھ کو، اس نے کہا :تو پس آپ واجب الاطاعت ہیں ؟ امام نے فرمایا: ہاں، واقفیوںکے دو افراد ، ابن سراج اور ابن مکاری نے کہا : کیاآپ کے والد نے امامت کے لئے آپ کو معین کیا ہے؟ امام رضا نے فرمایا : وای ہو تم پریہ لازم نہیں ہے کہ میں خود کہوں کہ مجھے معین کیا ہے، کیا تم چاہتے ہوکہ میں بغداد جائوں اور ہارون سے کہوں کہ میں اما م واجب الاطاعت ہوں؟ خدا کی قسم یہ میرا وظیفہ نہیں ہے ،ابن ابی حمزہ نے کہا :آپ نے ایسی چیز کا اظہار
............
(١)جھادالشیعہ،دارالجیل،بیروت ،١٣٩٦ھ،ص٣٩٤
کیا کہ آپ کے آبائو اجدا دمیں سے کسی نے بھی ایسی چیز کا اظہار نہیں کیا ،امام نے فرمایا: خدا کی قسم میں ان کا بہترین جانشین ہوںیعنی پیغمبرۖ پر جس وقت آیت یہ نازل ہوئی اور خدا وند متعال نے حکم دیاکہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائو تو آپ نے اس کا اظہار کیا۔(١)
امام محمد باقر نے اپنے زمانہ میں کئی مسئلہ کے جواب میں تقیہ سے کام لیا جس کی وجہ سے کچھ شیعہ آپ کی امامت سے منحرف ہو کر فرقۂ زیدیہ بتریہ کے پیروں ہوگئے۔(٢)
دوسری طرف بعض افراد تقیہ کی مصلحت کو نہیںسمجھ سکے اور ائمہ اطہارکا اپنی امامت کے بارے میںکھل کر اظہار نہ کرنے کو خطا سے تعبیر کیا یعنی وہ لوگ تند خو اور افراطی تھے یہ بات بھی زیدیہ مذہب کے وجود میں آنے کا سبب بنی ،جس وقت فشار و گھٹن کا ماحول کم ہوا اور حالات کچھ بہتر ہوئے اور ائمہ نے اپنی حجت تمام کی تو شیعوں کے اندر فرقہ بندی بھی کم ہوگئی امام صادق کے زمانہ میں امویوں اور عباسیوں کے درمیان کشمکش کی وجہ سے ایک بہترین موقع فراہم ہوگیا تھا اور امام صاد ق کو عملی اعتبار سے آزادی حاصل تھی اس بنا پر شیعہ فرقہ بندی میں کمی واقع ہوگئی تھی، لیکن آپ کی شہادت کے بعد منصور خلیفہ مقتدر عباسی کادبائو بہت زیادہ تھا،فرقۂ ناؤسیہ،اسماعیلیہ ، خطابیہ ،قرامطہ، سمطیہ اور فطحیہ وجود میں آئے ۔(٣)
............
(١)جہادالشیعہ،دارالجیل،بیروت ،١٣٩٦ھ، ص ٧٦٣
(٢)اشعر ی قمی،سعد بن عبداللہ،مقالات والفرق،مرکز انتشارات علمی فرہنگی،تہران ص٧٥
(٣)اشعر ی ،قمی ، سعد بن عبد اللہ المقالات والفرق،مرکز انتشارات علمی و فرھنگی تہران، ص٧٩
امام رضا کے زمانہ میں حالات بہتر ہو گئے یہاں تک کہ ہارون کے زمانہ میں
حضرت نسبتاًعمل میں آزاد تھے اور اس زمانہ میں واقفیہ کے چند بزرگ مثلاًعبدالرحمٰن بن حجاج ،رفاعةبن موسیٰ،یونس بن یعقوب ،جمیل بن دراج،حماد بن عیسیٰ،وغیرہ اپنے باطل عقیدہ سے پھر گئے اور حضرت کی امامت کے قائل ہو گئے، اسی طرح امام رضا کی شہادت کے بعد باوجود اس کے کہ امام جواد سن میں چھوٹے تھے لیکن امام رضا کی کوششوں اور اپنے فرزند کو جانشین کے عنوان سے پہچنوانے کی بنا پر شیعوں کے اندر فرقہ بندی میں کمی آگئی تھی۔
(٣)ریاست طلبی اورحب دنیا :
جس وقت گھٹن کا ماحول ہوتاتھاتو ائمہ اطہار اساس تشیع کے تحفظ نیز شیعوں کی جان کی حفاظت کے لئے تقیہ کرتے تھے، اس وقت مطلب پرست اور ریاست طلب افراد جوشیعوں کی صفوں میںشامل ہوتے تھے لیکن دیانت پر بالکل اعتقاد نہیں رکھتے تھے وہ اس وضعیت سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے جیسا کہ امام جعفرصادق نے ایک صحابی کے جواب میں کہ جس نے احادیث کے اختلاف کے بارے میں پوچھا تھاتو آپ نے فرمایا :کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہماری حدیثوں کی تاویل کرکے دنیا اور ریاست تک پہنچنا چاہتے ہیں۔(١)
اس بنیاد پر دوسری صدی ہجری میں اور اس کے بعد جب شیعیت پھیل گئی تھی امام صادق،امام کاظم اور امام عسکری کی شہادت کے بعد مطلب پرست اور ریاست طلب افراد شیعوں کے درمیان کچھ زیادہ پیدا ہوگئے تھے، مال ا ور ریاست کی بنیاد پر
............
(١) شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم ١٤٠٤ ج ١ ص ٣٧٤
فرقوں کو ایجاد کرتے تھے امام باقرکی شہادت کے بعد مغیرہ بن سعید نے اپنی امامت کادعویٰ کیا اور کہا : امام سجاد اور امام باقرنے میرے بارے میں تاکید کی ہے اس وجہ سے اس کے طرفدار مغیریہ کہلائے ۔
امام صادق کی شہادت کے بعد نائوسیہ اور خطابیہ فرقے پیدا ہوئے جن کے رہبروں نے لوگوںکو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے امام صادق اور ان کے فرزند اسماعیل کے نام سے فائدہ اٹھایا ،فرقۂ نائوسیہ کا رہبر ابن نائوس ہے اس نے امام صادق کی رحلت کا انکار کیا اور ان کو مہدی مانا ہے او ر خطابیہ امام صادق کے فرزند اسماعیل کی موت کے منکر ہیںاور ان کے رہبروں نے ان دو بزرگوں کے بعد خود کو امام کے عنوان سے مشہور کیا ۔(١)
امام موسیٰ کاظم کی شہادت کے بعدمال کی وجہ سے کثرت سے فرقے وجود میں آئے یونس جو امام کاظم کے صحا بی ہیں نقل کرتے ہیں: جس وقت امام موسیٰ کاظم دنیا سے گئے ان کے نوابین ووکلا کے پاس بہت سے مال اور رقوم شرعیہ موجودتھی اسی وجہ سے انہوںنے حضرت پر توقف کیا اور حضرت کی شہادت کے منکر ہوگئے، نمونہ کے طور پر زیاد قندی انباری کے پاس ستر ہزار دینار اور علی بن حمزہ کے پاس تیس ہزار دینار تھے یونس کا بیان ہے : جس وقت میں نے ان کی اس وضعیت کو دیکھا تو میرے لئے حقیقت روشن ہوگئی اور حضرت امام رضا کی امامت کا قضیہ بھی مرے لئے واضح ہو گیا تھا،میں نے حقائق بیان کرنا شروع کردیئے اورلوگوں کو حضرت کی جانب دعوت دی، ان دونوں نے میرے پاس پیغام کہلوایا کہ تم کیوںلوگوں کو امام رضا کی امامت کی طرف دعوت دیتے
............
(١)شیخ طوسی ،رجال کشی ،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، قم ، ١٤٠٤ھ ج١،ص٨٠
ہواگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم تم کو بے نیاز کردیں گے اورانہوں نے دس ہزار دینار کی مجھے پیش کش کی لیکن میں نے قبول نہیں کیا لہذاوہ غصہ ہوئے اورانہوں نے مجھ سے دشمنی اور عداوت کا اظہار کیا ۔(١)
سعد بن عبداللہ اشعری کا بیان ہے : امام کاظم کی شہادت کے بعد فرقۂ ہسمویہ کا یہ عقیدہ تھاکہ امام موسیٰ کاظم کی وفات نہیں ہوئی ہے اور وہ زندان میںبھی نہیں رہے ہیں بلکہ وہ غائب ہو گئے ہیں اور وہی مہدی ہیں، محمد بن بشیر ان کا رہبر تھا اس نے دعوٰی کیا کہ ساتویںامام نے خوداس کواپنا جانشین بنایا ہے، انگوٹھی اور وہ تمام چیزیں جن کی دینی او ردنیوی امور میں احتیاج ہوتی ہے اسے میرے حوالے کیا ہے اور اپنے اختیارات بھی مجھے دیئے ہیں اور مجھے اپنی جگہ بٹھایا ہے لہذا میں امام کاظم کے بعد امام ہوں محمد بن بشیر نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزند سمیع بن محمد کو اپنی جگہ بٹھایا اور اس کی اطاعت کو امام موسیٰ کاظم کے ظہور تک واجب قرار دیا اور لوگوں سے کہا کہ جوبھی خدا کی راہ میںکچھ دیناچاہتا ہے وہ سمیع بن محمد کو عطا کرے ان لوگوںکانام ممطورہ پڑا۔(٢)
............
(١)زین عاملی ،محمد حسین ،شیعہ در تاریخ ،ص١٢٣،شیخ طوسی کی غیبت سے نقل کی ہے ص٤٦
(٢)اشعری قمی،سعد بن عبد اللہ،المقالات والفرق،ص٩١
(٤)ضعیف النفس افراد کا وجود :
شیعوں میں کچھ ضعیف النفس افراد موجود تھے جس وقت امام سے کوئی کرامت دیکھتے تھے تو ان کی عقلیں اس کو تحمل نہیں کرپاتی تھیں اور وہ غلو کر نے لگتے تھے اگرچہ خود
ائمہ طاہرین نے شدت سے اس طرح کے عقائد کا مقابلہ کیا ہے ،رجال کشی کے نقل کے مطابق بصرہ کے سیاہ نام لوگوں میں سے ستّر لوگوں نے جنگ جمل کے بعد حضرت علی کے بارے میں غلو کیا۔( ١)
مفاد پرست اور ریاست طلب افرادان لوگوں کے عقید ے سے سو ء استفادہ کرتے تھے ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو منحرف کرتے تھے اور اپنے مفاد میں ان سے کام لیتے تھے جیسا کہ ابی خطاب نے فرقۂ خطابیہ کو ایجاد کیا اور امام صادق کو مقام پیغمبری میں قرار دیا اورکہا : خدا ا ن میں حلول کر گیا ہے اور خود کو ان کا جانشین بتایا۔(٢)
امام زمانہ کی غیبت صغریٰ میں بھی ابن نصیر نے خود کو پہلا باب اور احکام کے نشر کرنے اور اموال جمع کرنے میں خود کوامام کا وکیل مشہور کیا ، اس کے بعد پیغمبری کا دعویٰ کیا اور آخر میں خدائی کا دعویٰ کیا،(٣) اس کے چاہنے والوں نے اس کو قبول بھی کرلیا بلکہ اپنے چاہنے والوں کے ایمان کی بنا پر ہی اس نے یہ دعوے کئے تھے اور اسی طرح فرقہ غلات وجود میں آئے ۔
............
(١)جب امیر المومنین جنگ جمل سے فارغ ہوئے ٧٠لوگ جو سیاہ پوست جوبصرہ میں رہتے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے نے اپنی زبان میں علی سے بات کرنا شروع کی علی نے ان کی زبان میں ان کو جواب دیا انہوںنے آپ کے بارے میں غلو کیا علی نے فر مایا: میں خدا کی مخلوق اور اس کا بندہ ہوں انہوں نے قبول نہیں کیاانہوں نے کہا: آپ ہی خدا ہیں، آپ نے ان سے توبہ کرنے کی در خواست کی لیکنانہوںنے توبہ نہیں کی اس وجہ سے آپ نے ان کو پھانسی دی،شیخ طوسی،اختیار معرفة الرجال، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث،قم،١٤٠٤ھ،ج١، ص ٣٢٥
(٢)شہرستانی ،کتاب ملل ونحل،منشورات شریف رضی،قم ،ج١،ص١٦٠
(٣)شیخ طوسی، رجال کشی،ج٢،ص٨٠٥
غالیوں کے خلاف ائمہ کا مبارزہ
اہم ترین خطروں میں ایک خطرہ جو طول تاریخ میں شیعوں کے لئے چیلنج کا سبب بنا رہا وہ غالیوں کامسئلہ اور عقائد کا شیعوں کی ظرف نسبت دیناہے ہمیشہ شیعوں کے دشمن شیعوں کو ان کے اماموں کے متعلق غلو اور زیادہ روی سے متہم کرتے تھے ہم یہاں غلات کے مختلف فرقوں اور ان کے عقائد کو بیان نہیں کریں گے لیکن قابل توجہ مطلب یہ ہے کہ اہم ترین خصوصیت اور غلات کے تمام فرقوں کے درمیان نقطئہ اشتراک ائمہ اطہار کے بارے میں غلو کرنا ہے اور ان کوخدا کے مرتبہ تک پہنچانا ہے مسلمانوں کے درمیان غلات کاوجود داخلی عوامل سے زیادہ خارجی عوامل کی بنیاد پر ہے جب دشمنان اسلام براہ راست مقابلہ نہیں کرسکے اوروہ تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کو خاطر خواہ نقصان نہ پہنچاسکے تو انہیں یہ حربہ اپنایا ،چونکہ اسلام ان کی سر زمینوں میںداخل ہوچکا تھا اور ان کی پوری طرح سے شکست ہوچکی تھی لہٰذا ان کی یہ کوشش یہ رہی کہ اسلام کو داخلی طریقہ سے نقصان پہنچایا جائے اسی وجہ سے انہوںنے اسلام کے پہلے اصول کو مورد ہد ف قرار دیا، سیاسی حکومتیںبھی اس جانب مائل تھیں کہ اہل بیت پیغمبر ۖکے چاہنے والوں اور ان کے شیعوںکے درمیا ن ایسے افراد پیدا ہوںجن کے عقائد کی نسبت شیعوں کی طرف دی جائے اور اس طریقہ سے اہل بیت کے چاہنے والوں کو غالی اور مسلمانوں کے زمروں سے علیحدہ کردیا جائے ،اگر چہ یہ سلسلۂ خلافت امیرالمومنین کے دور سے شروع ہو گیا تھااور کچھ غیر فعّال لوگ آپ کے بارے میںافراطی عقیدہ رکھنے لگے تھے جب وہ اپنے عقیدہ سے نہیںپلٹے توحضرت نے ان کو ختم کر دیا۔(١)
............
(١)شیخ طوسی ،رجال کشی ،ج١،ص٣٢٥
عبداللہ بن سبا جو ایک موہوم اور خیالی شخص ہے جس نے سب سے پہلے اس کا نام لیا وہ طبری ہے اس نے ابن سبا کی داستان کو سیف ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ تمام علمائے رجال ابن سیف کے کذاب ہونے پر متفق ہیں،(١)ائمہ اطہار مسلسل اس طرح کے مسائل سے دوچار تھے اورانہوںنے شدت سے اس کا مقابلہ کیا ہے اور ہمیشہ ان پر لعنت کی ہے اور لوگوں کو ان کے خطرات سے آگاہ کیا ہے اور شیعوں کو حکم دیا ہے کہ ان کے پاس نہ بیٹھیںاور ان سے رابطہ برقرار نہ کریں۔(٢)
امام صادق نے چندغالی لیڈروں کا نام لیا ہے، جیسے مغیرہ بن سعید ،بیان، صائدنہدی ،حارث شامی ،عبداللہ بن حارث، حمزہ بن عمار بربری، اور ابوالخطاب وغیرہ اور ان افراد پر لعنت بھی کی ہے ۔(٣)
یہ لوگ ائمہ طاہرین کی نفرین اور لعنت کی وجہ سے سخت عذاب میں مبتلا ہوتے تھے اور بری حالت میں مارے جاتے تھے جیسا کہ امام رضا نے فرمایا :بنان نے امام سجاد پر جھوٹ کا الزام لگایا خدا نے اس کوتیز تلوار کا مزہ چکھایا ،مغیرہ بن سعید نے امام باقر پر جھوٹ کا الزام لگایا کہ اس کو بھی خدا نے تیز تلوار کا مزہ چکھایا ،محمد بن بشیر نے امام کاظم کی طرف جھوٹی نسبت دی اس کو بھی خدانے تلوار کے ذریعہ ختم کر دیا ابوالخطاب نے امام صادق کی نسبت جھوٹ الزام لگایا وہ بھی شمشیر کی زد میں آیا اور جو مجھ پر جھوٹ کا الزام لگاتاہے وہ محمد بن فرات ہے۔(٤)
............
(١)رجوع کیا جائے ،عسکری ،سید مرتضیٰ، عبداللہ بن سبا و اساطیر اخریٰ،طبع ششم،١٤١٣ ھ ١٩٩٢ ج٢ ص ٣٢٨۔٣٧٥
(٢)شیخ طوسی،رجال کشی ،ج٢،ص٥٨٦
(٣)شیخ طوسی،رجال کشی ،ص٥٧٧
(٤)شیخ طوسی،رجال کشی ،ص٥٩١
امام حسن عسکری کے دور میں غلات کاسلسلہ بہت زیادہ وسیع ہوگیاتھا اس وجہ سے امام نے قاسم یقطینی ،علی بن حسکہ قمی ،ابن باباقمی فہری،محمد بن نصیر نمیری و فارس بن حاتم قزوینی وغیرہ غلات کے رہبر اور سردار تھے ان لوگو ں پرآپ نے لعنت بھیجی ہے ۔(١)
شیعہ نشین علاقہ جیسے قم کہ جوہمیشہ غالیوں کا مخا لف تھا اور غالیوں کو یہاں سکونت کی اجازت نہیں تھی اس بنا پر ابن دائود نے حسین بن عبداللہ محررکی سوانح حیات کے ضمن میں یہ تحریر کیا ہے :روایت میں ہے کہ اس کو کسی غالی کے ساتھ ہونے کی بنا پر قم سے نکال دیا گیاتھا ۔(٢)
ابن جزم کے نقل کے مطابق ابوالحسن محمد بن احمد جو امام کاظم کے فرزند وں میں سے ہیں اورجنہوں نے تیسری صدی ہجری میں آذر بائیجان میں زندگی بسرکی ہے، وہاں ان کا ایک بلندمقام تھاانہوں نے غلات کے مبلغین پر بہت سختی کی یہاں تک کہ ان کے قتل کے اسباب فراہم کئے اور آذر بائیجان کے حاکم ابن ابی ساج کے غلام مفلح کواس بات پر وارد کیا کہ وہ تمام مبلغینِ غلاف کو قتل کردے۔(٣)
............
(١)شیخ طوسی،رجال کشی ،ص٨٠٥
(٢)رجال ابن دائود،منشوارت رضی،قم، ص٢٤٠
(٣)جمہرة انساب العرب،بیروت،طبع اول،١٤٠٣ھ،ص٦٣
|