تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
 

(ب)دوسری صدی ہجری میں شیعہ نشین علاقے
دوسری صدی ہجری کی ابتدا میں تشیع جزیرةالعرب اور عراق کی سرحدوں سے عبور کر کے تمام اسلامی مناطق میںپھیل گیا ،شیعوں اور علویوں کے اسلامی سرزمینوں میںپھیلنے سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانہ سے شیعوںاور علویوںکی مہاجرت شروع ہوئی دوسری صدی ہجری کے شروع میںعلویوں کی تبلیغ اور قیام سے اس ہجرت میں تیزی آ گئی کوفہ میںقیام زید کے شکست کھانے کے بعد ان کے بیٹے یحییٰ نے اپنے چند چاہنے والوں کے ساتھ خراسان ہجرت کی،(1)اس کے بعد عبد اللہ بن معاویہ کاقیام عمل میں آیا،یہ جعفر طیار کے بیٹوں میں سے ہیںانہوں نے ہمدان ،قم، ری،قرمس،اصفہان اورفارس جیسے مناطق کو اپنے قبضہ میںکیا اور خود اصفہان میںزندگی گذاری۔
............
(1)ابوالفرج اصفھانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٤١٦ھ ص١٤٦
ابوالفرج اصفہانی کا بیان ہے : بنی ہاشم کے بزرگ اس کے پاس جاتے تھے اور وہ ہر ایک کے لئے کو اطراف میں حکومت فراہم کرتا تھایہاں تک کہ منصور اور سفاح عباسی نے بھی اس کا ساتھ دیا ،مروان حمار اورابو مسلم کے زمانہ تک وہ اپنی جگہ پر مستحکم تھا۔(١)
عباسیوں کے دور میںمسلسل علوی قیام وجود میںآتے رہے ان قیام کا ایک حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف علاقہ میںعلوی افرادپھیل گئے جیسا کہ منصور کی حکومت میں محمد نفس زکیہ کے قیام کی شکست کے بعد امام حسن کی اولاد مختلف منا طق میں پھیل گئی، مسعودی کا اس بارے میں کہنا ہے :
محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ )کے بھائی مختلف ملکوں میںپھیل گئے علی بن محمد مصر چلے گئے اور وہیں پر قتل کر دیئے گئے دوسرے بیٹے عبداللہ بن محمد نے خراسان اور وہاں سے سندھ مہاجرت کی اور وہاں مار دیئے گئے تیسرے بیٹے حسن بن محمدنے یمن کا سفر کیا وہاں زندان میںڈال دئے گئے اور زندان ہی میں دنیا سے رخصت ہوگئے ا ن کے بھائی موسیٰ نے جزیرہ کا رخ کیا اور دوسرے بھائی یحٰ نے ری اور وہاںسے طبرستان کا سفر کیا، ان کے تیسرے بھائی مراقش چلے گئے اور چوتھے بھائی ابراہیم نے بصرہ کا رخ کیا اور نے وہاں پر اہواز ،فارس اور دوسرے شہروں کے لوگوں کے ساتھ ملکرلشکر بنایا لیکن ان کاقیام شکست کھاگیا۔(٢)
اگر چہ ان میں سے زیادہ تر عباسی مامورین کی نگرانی میںتھے اور ایک جگہ
............
(١)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٤١٦ھ،ص :١٥٧
(٢)مسعودی ،علی بن حسین، مروج الذھب،منشورات مؤسسةالاعلمی للمطبوعات ،بیروت ١٤١١ھ، ج٣،ص٣٢٦
قیام نہیں کر سکتے تھے اورقتل ہوجاتے تھے لیکن اپنے اثرات چھوڑ جاتے تھے کبھی ان کے بیٹے ان علاقوںمیں رہتے تھے، جیسا کہ عبداللہ نفس زکیہ کا بیٹا ،مسعودی کے نقل کے مطابق وہ خراسان میںنہیں رہ سکے اور سندھ کی طرف چلے گئے،( ١)لیکن صاحب کتاب ''منتقلة الطالبیین'' کے نقل کے مطابق عبداللہ بن ابراہیم خراسان میںرہتے تھے اور ان کے قاسم اور محمد نام کے دو بیٹے تھے،(٢)اسی طرح ماوراء النہرمیںکچھ ایسے گروہ تھے کہ جو اپنے کو ابراہیم بن محمد نفس زکیہ سے نسبت دیتے تھے۔(٣)
اب ہم ان شہراورعلاقوں کے حالات کی تحقیق کریں گے جہاں دوسری صدی ہجری میں شیعہ کثیر تعداد میں زندگی بسر کررہے تھے۔

خراسا ن :
دوسری صدی کے شروع ہو نے کے ساتھ ساتھ بنی ہا شم کے مبلغین کی تحریک اور کوشش سے خراسا ن کے اکثرلوگ شیعہ ہوگئے ۔(٤)
............
(١)مسعودی ،علی بن حسین، مروج الذھب،منشورات مؤسسةالاعلمی للمطبوعات ،بیروت ١٤١١ھ،ج٣،ص٣٢٦
(٢)ابن طباطبا،ابو اسماعیل بن ناصر ،منتقلةالطالبیین ،ترجمہ محمد رضا عطائی انتشارات آستانہ قدس رضوی ۔طبع اول١٣٧٢ش ھ،ص٢٠٧
(٣)ابن طباطبا،ابو اسماعیل بن ناصر ،منتقلةالطالبیین ،ترجمہ محمد رضا عطائی انتشارات آستانہ قدس رضوی ۔طبع اول١٣٧٢ش ھ:ص٤٠٣
(٤) اس بات پر توجہ رہے کہ بنی ہاشم کی اصطلاح اس زمانہ میں عباسیوں کو بھی شامل تھی کیونکہ ہاشم ان کے بھی جد تھے۔
یعقوبی نقل کرتا ہے: زید کی شہا دت کے بعد خراسان کے شیعہ جوش و خروش میں آگئے اور اپنے شیعہ ہونے کابرملہ ا ظہارکرنے لگے نیزمبلغوں اور خطیبوں نے بنی امیہ کی جانب سے خا ندان پیغمبر ۖپر ہونے والے مظالم کا کھلم کھلا اعلان کرنا شروع کردیا۔(١)
یحییٰ بن زید خراسا ن چلے گئے اور اور چند دنوں تک مخفی زندگی گزاری جس وقت خروج کیا کافی لوگ ان کے ارد گر دجمع ہو گئے ،(٢)
مسعودی کے نقل کے مطابق جس سال یحٰ کا قتل ہو ا اس سال جوبچہ بھی خراسان میں پیدا ہوا اس کا نا م یحٰ رکھا گیا۔ (٣)
البتہ خراسان کے شیعوں پر زیدیوں اور عباسیوں کے مبلغین کے سبب زیدیت اور کیسانیت کارنگ چڑھا ہو اتھاخاص کر عباسیوں نے اپنی خلافت کے آغاز میں محمد حنفیہ کے بیٹے محمد بن علی ابو ہاشم کی جانشینی کا اعلان کیا ،جیسا کہ ابو الفرج اصفہانی نے عبد اللہ بن محمد حنفیہ کے حالات کے ذیل میں لکھا ہے : یہ وہی ہیں جن کے بارے میں خراسان کے لوگوں کا گمان تھا کہ ان کے والد امام تھے اور یہ ان کے وارث ہیں اور ان کے وارث محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس ہیں اور محمد بن علی نے ابراہیم کو اپنا وصی بنایا ہے اس طرح سے عباسیوں میں جانشینی استوار ہوئی ،(٤)خراسانی مسلسل عباسیوں کے طرفدار تھے علویوں او ر عباسیوں کے درمیان ہونے والے نزاع کے دوران عباسیوں کی طرفداری
............
(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف الرضی ،قم ، ١٤١٤ھ، ج٢ ص ٣٢٦
(٢)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٤١٦ھ،ص ١٤٩
(٣)مسعودی ، علی بن حسین ،مروج الذھب، ص٣٣٦
(٤) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ص ١٢٣
کرتے تھے چنانچہ محمد نفس زکیہ کے ساتھ جنگ میں اکثر عباسی سپاہی خراسانی تھے اور فارسی میں گفتگو کرتے تھے، ابوالفرج اصفہا نی نقل کرتے ہیں: جس وقت محمد نفس زکیہ کے سرداروں میں سے ایک سردار بنام خضیر زبیری مدینہ سے فوجی چھائونی کی طرف آرہا تھاخراسانی فارسی میں کہہ رہے تھے :
خضیرآمدخضیر آمد۔(١)

قم:
دوسری صدی ہجری کے بعد قم اہم ترین شیعہ نشین شہرشمار ہوتا تھا اور اس شہرکی بنیاد نہ صرف یہ کہ اسلامی ہے بلکہ شیعوں کے ہاتھوں سے رکھی گئی ہے اور اس میںشروع سے ہی شیعہ آباد تھے اور ہمیشہ شیعہ اثنا عشری رہے کہ جو کبھی راستہ سے منحرف نہیں ہوئے ،نہ صرف یہ کہ سنیوںنے اس شہر میں کبھی سکونت نہیںکی بلکہ غالیوں کے لئے بھی یہاں آنا ممکن نہیں ہوااور اگرکبھی اس شہر میں آبھی جاتے تھے تو قم کے لوگ ان کو بھگادیتے تھے۔(٢)
یہاں کے بہت سے لوگوںنے ائمہ اطہار کی خد مت میں حاضری دی ہے اور ان بزرگوں سے کسب فیض کیا ہے اور مسلسل ائمہ سے رابطہ میں رہے ہیں ٨٢ ھ میں ابن اشعث کی شورش حجاج کے مقابلہ میں ناکام ہوگئی اور وہ کابل کی جانب فرار کر گیا ، (٣) ا س کی
............
(١) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ص ٢٣٨
(٢) رجال بن داؤد ،منشورات الرضی ، ص ٢٤٠۔٢٧٠
(٣)مسعودی علی بن حسین ،مروج الذھب ، منشورات موسسہ الاعلمی مطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ ، ج٣ص ١٤٩
فوج میں بعض شیعہ بھی موجود تھے ،منجملہ عبداللہ ،احوص،نعیم ،عبدالرحمٰن اوراسحاق ،سعد بن مالک بن عامر اشعری جو ابن اشعث کی شکست کے بعد قم کی طرف آگئے ،وہاں سات گاؤں تھے ان میں ایک گاؤں کا نام کمندان تھا یہ سارے بھائی اس گاؤں میں ساکن ہو گئے اور ان کے رشتہ داراور رفقا ان سے ملحق ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ تمام دہات آپس میں مل گئے اور سات محلوں کی طرح ہو گئے ان سب کو کمندان کہا جانے لگا آہستہ آہستہ آگے کے حروف کم ہوتے گئے اورترخیم ہوکر عربی میں قم ہو گیا۔ (١)
اس کے بعد قم شیعوں کا ایک اہم مرکز ہو گیا اور شیعہ خصوصاًعلوی ہر جگہ سے یہاں آئے اور قم میں ساکن ہوگئے ،(٢)دوسری صدی ہجری کے آخر میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی تشریف آوری سے اس شہر کی تاریخی عظمت بڑھ گئی اور معصومہ(س)کے آنے کی برکت سے اس شہر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ۔

بغداد:
دوسری صدی ہجری ١٤٥ ھ میں خلیفہ عباسی کے دوسرے خلیفہ منصور کے ذریعہ اس شہر کی بنا رکھی گئی اور بہت جلدی شیعوںکا مرکز ہو گیا ،(٣)اس چیز کو امام کاظم کی تشییع جنازہ میںپوری طرح ملاحظہ کیا جاسکتا ہے،شیعوں کے ازدہام اور جم غفیر کی
............
(١)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبد اللہ ، معجم البلدان ،دار احیاء التراث العربی ، بیروت، طبع اول ، ١٤١٧ھ، ج٧ ص ٨٨
(٢)ابن طبا طبا ، ابو اسماعیل بن ناصر ، منتقلةالطالبین ،ترجمہ ، محمد رضا عطائی ، انتشارات آستان قدس رضوی ، طبع اول ، ١٣٧٢ھ ص ٣٣٣۔٣٣٩
(٣)حموی ،یاقوت بن عبد اللہ ،معجم البلدان،دار احیاء التراث ، بیروت ج ٢ ص ٣٦١
بناپر عباسی خوف زدہ ہو گئے،سلیمان بن منصور، ہارون کا چچا لوگوں کے غصہ کو کم کرنے کے لئے پا برہنہ تشییع جنازہ میں شریک ہوا ۔(١)
بغدادکی بنیاد عراق میں رکھی گئی اور عراق کے اکثر لوگ شیعہ تھے اگر چہ ابتدا میں یہ ایک فوجی و سیاسی شہر تھا ،مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ جہان اسلام کی علمی مرکز یت یہاں منتقل ہوگئی اور کوفہ بصرہ مدائن کے شیعہ یہاں ساکن ہو گئے، اور مختصر سا زمانہ گزرنے کے بعد یہاں کی آبادی بہت زیادہ ہو گئی رفتہ رفتہ غیبت صغریٰ کے بعد شیعہ مذہب کی علمی مرکزیت بھی یہاں منتقل ہو گئی اور آل بویہ کی شیعہ حکومت کے سائے میں وہاں تشیع نے مزیدرونق حاصل کی، اس کے بعد شیخ طوسی نے شیعی مرکزیت کو نجف منتقل کیا ۔

(ج)تیسری صدی ہجری میں شیعہ نشین علاقے
تیسری صدی ہجری میں شیعوںکی جغرافیائی صورت حال کو دو طریقہ سے مورد بحث قرار دیا جا سکتا ہے :
اسلامی سر زمین میں شیعہ حکومتوں کی تشکیل،٢٥٠ھمیں علویوں نے طبرستان میں حکومت تشکیل دی،(٢)تیسری صدی ہجری کے اواخر میں سادات حسنی نے یمن میںزیدیوں کی حکومت تشکیل دی،٢٩٦ھمیں فاطمی حکومت شمال افریقہ میںتشکیل پائی،(٣)اگرچہ یہ حکومتیں شیعہ اثنا عشری کے مبانی اور اصولوں پر استوار نہیں تھیںاس
............
(١)امین سید محسن ،اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ،ج١ ص ٢٩
(٢) ابی محمد بن جریر طبری ،تاریخ طبری، دار الکتب العلمیہ ، بیروت، طبع دوم ، ١٤٠٨ھ ج٥ ص ٣٦٥
(٣) جلال الدین سیوطی ، تاریخ الخلفائ،منشورات الرضی ، طبع اول ، ١٤١١ھ ،ج ص ٥٢٤
کے باوجود ان حکومتوںکا وجود ان علاقوں اور سر زمینوںپر فروغ شیعیت کے لئے ایک سنگ میل قرار پایا،زیدیوں اور اسماعیلیوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ۔
دوسرا راستہ ان مناطق کی فہرست ہے جہاں ائمہ اطہار کے وکیل تھے، وکالت کا نظام امام صادق کے دور سے شروع ہوا اور امام ہادی و امام حسن عسکری کے زمانے میں یہ نظام اپنے عروج پر تھا اور پوری طرح سے اس کی فعالیت جاری و ساری تھی جن مناطق میں ائمہ کے وکلاتھے وہ حسب ذیل ہیں: اہواز، ہمدان، سیستان، بست،ری، بصرہ،واسط، بغداد ،مصر، یمن،حجاز،مدائن۔(١)
البتہ تیسری صدی ہجری کے آخر میں کوفہ،قم ،سامرہ اور نیشاپور اہم ترین شیعہ شہروں میں شمار ہونے لگے، ان جگہوں پر شیعہ فقہ کی تدریس ائمہ معصومین کی احادیث کی بنیاد پر ہوتی تھی، ہاں تیسری صدی ہجری کے بعد کوفہ کی رونق کم ہو گئی اور آہستہ آہستہ بغداد نے اس کی جگہ لے لی آل بویہ کے وہاں آنے سے نیز بزر گان شیعہ جیسے شیخ مفید سید مرتضیٰ،سید رضی ،شیخ طوسی کے وجود سے بغداد کے حوزۂ علمیہ کو مزید فروغ ملا۔
بغداد میں شیعہ نفود کے بارے میں آدام متزچوتھی صدی ہجری کے حوالہ سے لکھتا ہے : بغداد جو تمام جہت سے اسلام کا پایہ تخت تھا اورہر طرح کے فکری نظریات کا دریا وہاں موجزن تھا ،تمام مذاہب کے طرفدار وہاں موجود تھے جن میں دو گروہ سب سے زیادہ قوی اور حد سے زیادہ متعصب تھے، ایک حنبلی دوسرے شیعہ، طرفداران تشیع بازار کرخ کے اطراف میںمنظم طریقہ سے مقیم تھے اور چوتھی صدی ہجری کے آخر میں پل
............
(١)پور طباطبائی ، مجید،تاریخ عصر غیبت، مرکز جہانی علوم اسلامی ، ص ١١٩
کے اس طرف باب الطاق میںبھی آباد ہوگئے دجلہ کے غرب میں خصوصاًباب بصرہ میںہاشمیوں(سادات عباسی) نے ایک طاقتور اور قوی دستہ تشکیل دیا تھا، جو شیعوںسے شدید دشمنی رکھتا تھا یاقوت لکھتا ہے :
باب البصرہ کے محلے میں رہنے والے کرخ و قبلہ کے درمیان سب سنی حنبلی ہیں بائیں ہاتھ اور جنوب کے محلے میں بھی سبھی سنی ہیں لیکن کرخ کے تمام افراد شیعہ امامیہ ہیں اور ان کے در میان سنیوں کا وجود نہیں ہے۔
مؤرخین کے مطابق بغداد کے شیعوں نے ٣١٣ھ میں سب سے پہلے مسجد براثا میں اجتماع کیا وہاں کے خلیفہ کو یہ خبر ہوگئی کہ ایک گروہ خلفا پر لعنت کرنے کے لئے وہاں جمع ہوا ہے حاکم کے حکم کے مطابق روز جمعہ نماز کے وقت اس جگہ کا محاصرہ کرلیا گیا اور تیس نمازیوں کو گرفتار کرکے ان کے بارے میںچھان بین کی گئی ،ان کے پاس ایک سفید مٹی کی سجدگاہ برآمد ہوئی کہ جس پر امام کا نام منقوش تھا ،٣٢١ھ سردار ترک میں علی بن یلبق نے حکم دیا کہ معاویہ اور یزیدپر منبروں سے لعنت کی جائے، سنیوں نے اس کے خلاف شورش برپا کی، جن کی عنان حنبلیوں کے پیشوا اور ان کے دوستوںکے ہاتھ میں تھی، حنبلیوں کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے ٣٢٣ھ میںبغداد میں یہ قانون پاس کیا گیا کہ دوحنبلی ایک جگہ جمع نہ ہوسکتے اور خلیفہ نے ایک خط لکھا جس میں حنبلیوں کی غلطیوں کی سزا معین کی(١)اور یہ چیز مشہور ہو گئی۔
............
(١)آدم متزتمدن اسلامی درقرن چہارم ہجری،ترجمہ علی رضا ذکاوتی قرا گز لو، انتشارات امیر کبیر،تہران،طبع دوم ،١٣٦٤ہجری،ص٨٥،٨٦

قبائل کے درمیان تشیّع
اصولی طور پر عدنانیوں کے مقابلہ میں قحطانی قبائل میں حضرت علی کے چاہنے والے اور ان کے شیعہ زیادہ تھے اور قحطانیوں کے درمیان تشیع کو زیادہ فروغ ملا امیرالمؤمنین کے دور خلافت میں آنحضرت کے سر کردہ افراد اور سپاہی نیزاہل شیعہجنوب عرب کے قبائل اور قحطانی تشکیل دیتے تھے، جیسا کہ حضرت نے ایک رجز میں صفین کے میدان میں اس طرح فر مایا :
انا الغلام القرشی المؤتمن
الماجد الابیض لیث کالشطن
میں امین اور بزرگوار قریش کا ایک جوان ہوں سفید رو اور مثل شیر ہوں۔

یرضی بہ السادة من اہل الیمن
من ساکنی نجد ومن اہل عدن(١)
اہل یمن کے بزرگ اور عدن کے رہنے والے اس سے راضی ہیں۔
اسی طرح پیغمبر اسلامۖ کی رحلت کے بعد اصحاب پیغمبرۖکے درمیان علی کے طرفداروں میں سب سے زیادہ انصار تھے جو اصل میں قحطانی تھے اور علی کے ساتھی مدینہ سے جمل تک انصار ہی تھے۔(٢)
ابن عباس نے بھی امام حسین سے کوفہ کی جانب کوچ کرتے وقت کہاتھا:'' اگر اہل عراق آپ کے خوا ہاں ہیں اور آپ کی مدد کے لئے آمادہ ہیں تو ان کو لکھ بھیجے کہ میرے دشمن
............
(١)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ،موسسہ انتشارات علا مہ ،قم ،ج٣،ص١٧٨
(٢)بلاذری ،انساب الاشراف،ج٣،ص١٦١
کو باہر نکال دیں، اس کے بعد آپ وہاں جائیں ورنہ آپ یمن کی جانب رحلت کریں کیونکہ وہاں ایسے پہاڑ اور قلعے ہیں جو عراق میں نہیں ہیں یمن ایک بزرگ سر زمین ہے اوروہاں آپ کے والد کے شیعہ موجود ہیں ،اس جگہ آپ اپنے مبلغین کو اطراف میں بھیجئے تاکہ لوگ آپ کی طرف آئیں''امام حسین کے اصحاب بھی بنی ہاشم اورچند غفاریوں کے علاوہ سب یمنی قبائل میں سے تھے۔ (١)
جیساکہ مسعودی کا بیان ہے:
اصحاب پیغمبر ۖ میں صرف چار افراد حضرت امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے اور یہ چاروںافرادانصارمیں سے تھے۔(٢)
انصار کا انتساب بھی قبائل یمن کے ساتھ معلوم ہے اس کے برخلاف اشراف قریش، علی اور خاندان علی کے دشمن تھے (جس طرحسے پیغمبر ۖکے دشمن تھے )ان کے درمیان دوست بہت کم تھے یہاں تک وہ قبائل جن کاقریش کے ساتھ نزدیکی رابطہ تھا وہ بھی ہمیشہ علی کے مخالفین کی صف میں کھڑے ہوتے تھے مثل قبیلۂ ثقیف اور اہل طائف کہ جو جنگ صفین میں اور اس کے بعد معاویہ کے طرفدار تھے ، جس وقت معاویہ نے بسر بن ارطاة کو حجاز اور یمن کی غارت گری کے لئے بھیجا اور جس وقت وہ طائف کے نزدیک پہنچا تو مغیرہ بن شعبہ اس کے استقبال کے لئے آیا اور کہا : خدا تجھے جزائے خیر دے، تو دشمن کے ساتھ سخت گیر اور دوستوں کے ساتھ احسان کرنے والا ہے اس کی خبر مجھ کو ملی ہے'' بسر نے کہا : اے مغیرہ !میں چاہتا ہوں کہ اہل طائف پردبائوڈالوں تاکہ معاویہ کی بیعت
............
(١)کلبی،جمہرة النسب،عالم الکتب ،بیروت ،ص٨٨
(٢)مسعودی،علی بن الحسین،مروج الذھب ، بیروت،١١١٤ھ ج :٣، ص ٧٤
کریں،مغیرہ نے کہا : جو برتائو تو نے دشمنوں کے ساتھ کیا وہی برتائو تو دوستوں کے ساتھ کیوں کرنا چاہتا ہے ایسا کام انجا م نہ دے ورنہ سب تیرے دشمن ہو جائیں گے۔ (١)
بنی ہاشم کے علاوہ قریش کے معدودے چند افراد حضرت علی کے ساتھ تھے جیسے محمد بن ابی بکر اور ہاشم مرقال اگر چہ قریش کے ان اندھیروں اور ظلمتوں کے درمیان کچھ لوگ حضرت علی کے ساتھ تھے۔ مثلاًخالد بن ولید جو دشمن امیرالمومنین میں سے تھا اس کابیٹا مہاجر بن خالد صفین میں حضرت کے سپاہیوں میں تھا، یا عبداللہ بن ابو حذیفہ معاویہ کے ماموں کا بیٹا حضرت علی کے مخلص شیعوں میںسے تھا اور آخر میں معاویہ کے سپاہیوںکے ہاتھوں شہید ہو گیا،یمن کے تمام قبیلوں میںعلی کے دوست اور طرفدار موجود تھے مثلاً قبائل کندہ ، نخع ،ازد جہینہ ،حمیر بجیلہ، خثعم، خزاعہ، حضرموت ،مذحج ،اشعر ،طی،سدوس،حمدان اور ربیعہ، (٢) لیکن ان میں دو قبیلہ حمدان اور ربیعہ سب سے آگے تھے ۔(٣)
حمدانی زمانہ پیغمبر ۖ میں ہی حضرت علی کے ذریعے اسلام لائے اور مسلمان ہوگئے تھے اور حضرت کے دوست نیز ان کے مخلص شیعوں میں شمار ہوتے تھے ،مسعودی کہتا ہے: صفین میں ان میں سے ایک آدمی بھی معاویہ کی فوج میں نہیں تھا۔ (٤)
حضرت علی نے حمدان کے بارے میں فرمایا:
............
(١)شہیدی ، دکتر سید جعفر ،تاریخ تحلیل اسلام تا پایان امویان ،مرکز نشر دانش گاہی ، تہران ١٣٦٣ھ، ص١٣٧
(٢)احمد بن محمد بن خالد البرقی،رجال برقی،موسسہ القیوم ص٣٧ج٤٠ ، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ،دار احیاء الکتب العربیة،قاہرہ ،ج ٣،ص١٩٣
(٣)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب،موسسہء انتشارات علامہ، قم ،ج٣،ص١٧٨
(٤)مسعودی مروج الذھب،منشورات موئسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت،ج٣، ص٩٩
و لوکنت بواً باًعلیٰ باب الجنة
لقلت لحمدان ادخلوا بسلام ( ١)
اگر میں بہشت کا دربان رہا تو قبیلہء حمدان سے کہوں گا کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائیں ۔
معاویہ حمدانیوں سے دلی دشمنی رکھتا تھا وہ صفین میں ایک دن میدان میں آیا اور یہ اشعار پڑھے :
لاعیش الا فلق الہام
من ارحب ویشکر شبام
زندگی نہیں چاہئے مگراس لئے کہ حمدان کے قبیلوں میں سے یشکر و شبام اور ارحب کے سروں کو جدا نہ کر دوں ۔
قوم ھم اعداء اہل الشام
کم من کریم بطل ھمام
وہ لوگ جو شام والوں کے دشمن ہیں ان میں بہت سے لوگ کریم النفس بلند مرتبہ نیز شجاع و بہادرہیں۔
و کم قتیل و جر یح ذام
کذلکٔ حرب السادة الکرام
اگر چہ ان میں سے کتنے مر گئے ہیں اور مجروح و معلول ہو گئے ہیں لیکن
............
(١)بلاذری ،انساب الاشراف،منشورات موئسسة الاعلمی بیروت،ج٢،ص٣٢٢
ہاںبہادروں کی جنگ اسی طرح ہوتی ہے۔
اس وقت سعد بن قیس نے اس رجز کو پڑھتے ہوئے کہا:
لا ھم رب الحل والحرام
لا تجعل الملکٔ لأہل الشام
اے حل و حرام کے پرور دگار !حکومت کو اہل شام کے لئے قرار نہ دے''

ہاتھ میں نیزہ لئے آگے بڑھے اور معاویہ پر حملہ کیا معاویہ وہاں سے فرار ہوکر لشکر شام میں داخل ہو گیااور ذوالکلاع (جو شام کے لشکر کا ایک کمانڈر تھا)کو سعد بن قیس کے مقابلہ کے لئے بھیجا ،تمام شب ان کے درمیان جنگ جاری رہی، آخر میں اہل شام نے اپنی شکست قبول کرلی اور فرار ہو گئے اس وقت امیرالمؤمنین نے ان کی تشویق کے لئے یہ اشعار پڑھے:
فوارس من حمدان لیسوا بعزل
غداة الوغیٰ من شاکر وشبام
حمدان کے شہ سوار جو شاکر و شبام کے قبائل میں سے تھے وہ جنگ کی صبح تک سست نہیں ہوئے ۔

یقودھم حامی الحقیقة ماجد
سعید بن قیس والکریم محام
حقیقت کے حامی و طرفدار عظیم شخص سعد بن قیس ان کی کمانڈری کرتے ہیں اور شریف لوگوں کی انہیںحمایت حاصل ہوتی ہے۔

جزی اللہ حمدان الجنان فانھم
سھام العدی فی کل یوم حمام (١)
خدا قبیلۂ حمدان کو بہشت عطا کرے اس لئے کہ جنگ کے دنوںمیںیہ دشمنوں کے قلب کے لئے نیزہ و تیر ہیں۔

اس طرح فوج شام کی جانب سے حمدان کے خلاف جنگ صفین میں پڑھے جانے والے اشعار کوملاحظہ کریں، مثلاًعمرو عاص صفین کے دن قبیلہء حمدان کو مخاطب کرکے کہتا ہے:
الموت یغشاہ من القوم الانف
یوم لحمدان ویوم للصدف
موت کواس قوم کے ذریعہ دعوت دینا ہے ایک روز قبیلہء حمدان کامیاب ہیں اور ایک روز صدف۔

و فی سدوس نحوہ ماینحرف
نضربھا بالسیف حتیٰ ینصرف
قبیلہ سدوس بھی انہیں کی طرح ہیں جب تک وہ بوڑھے نہ ہوجائیں ہم ان کو تلوار سے قتل کرتے رہیں گے یہاںتک کہ حالات بدل جائیں ۔
............
(١)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب، موسسۂ انتشارات علامہ،قم،ج٣،ص١٧٠ ،١٧١
و لتمیم مثلھا اویعترف(١)
تمیم کے ساتھ بھی ایسا برتائو کریں گے مگر یہ کہ وہ اطاعت قبول کرلیں۔
قبیلہ حمدان کی چند عورتوں نے بھی صفین میںامیرالمومنین کے سپاہیوں کو معاویہ کے مقابلہ میں جوش دلایا،جیسے سودہ حمدانیہ ،زرقاء حمدانیہ جو عدی بن قیس کی بیٹیاں ہیں۔(٢)
سودہ نے اپنے باپ کومخاطب قرار دے کر کہا :
شمرکفعل ابیکٔ یابن عمارة
یوم الطعان و ملتقی الاقران
اے عمارہ کے فرزند! میدان کار زاراور جنگ کے دنوں میں اپنے باپ کے مانند آستین ہمت چڑھا اور اپنے دشمن سے جنگ کر۔

وانصر علیاًوالحسین و رھطہ
واقصد لھندوابنھا بھوان
علی اورحسین نیز ان کی قوم کی مدد ونصرت کر ،ہنداورا س کے بیٹوں کوذلت اور اہانت کا مزا چکھا۔

انّ الامام اخاالنبی محمد
علم الھدیٰ و منارةالایمان
بیشک حضرت علی نبی محمدۖ کے بھائی ہیں جو ہدایت کی علامت اور ایمان کے روشن منارہ ہیں۔
............
(١)بلاذری ،انساب الاشراف ، ج٢، ص٣٢٣
(٢) ابن عبدریہ العقد الفرید ،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،١٤٠٩ھ ج١ ص١٣٥۔٣٣٧
فقدم الجیوش و سر امامھم لوائہ
قدماًبابیض صارم وسنان (١)
لشکر کے آگے بڑھو اورآگے بڑھ کر چمکتے نیزوں اور خون آشام تلواروںکے پرچم لہرائو۔

معاویہ ان سے دشمنی رکھتا تھا حضرت علی کی شہادت کے بعد معاویہ نے ان کو شام بلایا اور ان کے اشعار کی وضاحت چاہی اور ان کی سر زنش کی۔(٢)
دوسرا یمنی قبیلہ کہ جس میں شیعیان علی بہت زیادہ تھے قبیلہ ربیعہ تھا جیسا کہ برقی نے یاران و شیعیان علی کو شمار کیا ہے اور بعض اصحاب علی کو قبیلہ ربیعہ سے مخصوص کیا ہے جبکہ باقی یمنی شیعوںکو ایک دوسر ے حصہ میںذکر کیا ہے۔(٣)
حضرت علی نے جس وقت سناکہ قبیلۂ ربیعہ کے چند افراد عائشہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے تو آپ نے فرمایا:
یالھف نفسی علیٰ ربیعة
ربیعةالسّامعةالمطیعة (٤)
ربیعہ پر افسوس کہ ربیعہ فرمانبر دار اور مطیع ہیں۔
............
(١)ابن عبدریہ العقد الفرید ،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،١٤٠٩ھ ج١ ص ٣٣٢
(٢)ابن عبدربہ العقد الفرید ،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،١٤٠٩ھ ج١ ص ٣٣٥
(٣) احمد بن محمد بن خالد البرقی ،رجال برقی ،موسسة القیوم،ص ٣٧
(٤)زبیر بن بکار الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٤٦١ھ ص ١٥٩
مسعودی کا بھی بیان ہے کہ ربیعہ کی تعریف کے بارے میں حضرت علی کی بہت سی تقریریں ہیں کیونکہ وہ حضرت علی کے انصار ،مددگار ، اور ان کے ارکان میں شامل تھے جنگ صفین میں ربیعہ کے بارے میں حضرت نے فرمایا :
لمن رایة سوداء یخفق ظلھا
اذا قیل قدمھا حضین تقدماً
اگر کوئی سیاہ پرچم لہرارہا ہو توان سے کہا جاتاہے کہ پرچم لیکر آگے بڑھو ۔

فیوردھا فی الصف حتیٰ یعلھا
حیاض المنا یا تقطر الموت والدما
پھروہ اس کوصف میں شامل کرتے ہیں تاکہ وہ نیزوں سے آگے بڑھ جائیں کہ جس سے موت اورخون کے قطرے ٹپکتے ہیں ۔

جزی اللّٰہ قوماًقاتلوا فی لقا ئہ
لدی الموت قدماًما اعروا کرما
خدا س قوم کو جزا دے جو جنگ کے وقت لڑتی ہے اور موت کا سامنا کرتی ہے، اور کبھی بھی نیکیوں سے منھ نہیں موڑتی۔

واطیب اخباراًو اکرم شیمة
اذا کان اصوات الرجال تغمغما
لباس کے اعتبار سے، اچھی علامت کے اعتبار سے خوب صورت ہیں جب میدان جنگ میںان کی للکار گونجتی ہے۔

ربیعہ اعنی انھم اہل نجدة
وبأس اذا لاقو ا خمیساًعر مر ما (١)
میری مراد ربیعہ ہے وہ لوگ طاقتور پہلوان کے مقابلہ میں شجاع اور بہادر ہیں ۔

ربیعہ کے بزرگان میں سے ایک جمیل بن کعب ثعلبی تھے جن کا علی کے شیعوں میں شما ر ہوتا تھا ،جب معاویہ نے ان کواسیر کیا تو ان سے کہا کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ خدانے مجھ کو ایسے انسان پر مسلط کیا کہ جس نے ایک گھنٹہ کے اندر میرے بہت سے ساتھیوں کو قتل کیا تھا۔(٢)
شقیق بن ثور سدوسی نے بھی قبیلۂ ربیعہ کو صفین میں اس طرح سے خطاب کیا۔
اے گروہ ربیعہ !تمہارے لئے کوئی عذر نہیں ہے اگر علی قتل کردیئے جائیں اور تم میں سے ایک شخص زندہ رہ جائے۔(٣)
یزید کی موت کے بعد بھی اہل کوفہ نے عاملین بنی امیہ کو شہرسے نکا ل دیا، انہوں نے چاہا کہ کسی کو اپنا قائد اور امیر معین کریں ،بعض نے مشورہ دیا کہ عمر بن سعدکو امیر قرار دیا جائے ، مسعودی نقل کرتا ہے : اس موقع پر حمدان ،کہلان ،انصار ،ربیعہ اور نخع کی عورتیں آئیں اور مسجدجامع میں داخل ہوگئیںوہ امام حسین پر گریہ کر رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں:
............
(١) مسعودی ، مروج الذھب ، ج٣ ص ٥٩
(٢)مسعودی ، مروج الذھب ، ج٣ ص ٦٠
(٣)بلاذری ،انساب الاشراف ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبو عات ،ج٢ ص٣٠٦
کیا یہ کافی نہیں ہے کہ عمر بن سعد نے امام حسین کوقتل کیا ہے اور اب وہ ہما را امیر بننا چاہتا ہے'' یہ باتیںبین کرکے لوگوں کو رلا رہی تھیںاورمردوں کو اس بات پر آمادہ کررہی تھیں کہ عمر بن سعد کی حمایت نہ کریں۔(١)
............
(١)بلاذری ،انساب الاشراف ، ج٢، ص٣٠٦