تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
 

پانچویں فصل

جغرافیائی اعتبار سے تشیع کی وسعت
یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے تشیع کا مرکزمدینہ تھا اور اصحاب پیغمبرۖ کے درمیان سب سے پہلے شیعہ اسی شہر میں رہتے تھے تینوں خلفاکے زمانے میں شیعہ اصحاب مختلف مناطق و شہروںمیںپھیل گئے اور ان میں سے بعض سیا سی اور فوجی عہدوں پر فائز تھے، علامہ محمد جواد مغنیہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
شیعہ اصحاب کاتشیع کے پھیلانے میں ایک اساسی کردار رہا ہے جہاں بھی گئے لوگوں کو قرآن و حدیث اور صبرو تحمل کی طرف دعوت دی اور پیغمبرۖ کے اصحاب ہونے کی بنا پر لوگوں کے درمیان ان کابے حد احترام تھا اور ان کی تقاریربہت زیادہ اثر انداز ہوتی تھیں۔(١)
حتی ایسی جگہیں جیسے جبل عامل جو شام کا ایک حصہ تھا اور وہاںپر معاویہ کا نفوذ زیادہ تھا پیغمبرۖ کے بزرگ صحابی ابوذر کے جانے کی برکت سے وہ شیعوں کا اصلی مرکز ہوگیا۔(٢)
............
(١)الشیعہ فی المیزان ،منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٣ہجری،ص٢٦،٢٨
(٢)امین ،سید محسن،اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبوعات ،بیروت،ج١،ص٢٥
عثمان کی خلافت کے آخری زمانے میں بہت زیادہ شیعہ اسلامی سر زمینوں میں
رہتے تھے، اس طرح سے کہ مسلسل حضرت علی کا نام خلافت کے لئے لیا جانے لگا، اسی وجہ سے مدینہ میں جب مخالفین نے اجتماع کیا توعثمان نے علی سے تاکیدکی کہ وہ کچھ مدت کے لئے مدینہ سے نکل جائیںاوراپنی کھیتی جو ینبع میں ہے وہاں چلے جائیں تاکہ شاید شورش کرنے والوں کی تحریک میںکمی آجائے۔(١)
خصوصاً عراق میں عثمان کے زمانے میں شیعہ کا فی تعداد میں تھے مثلاً بصرہ کے شیعہ باوجود اس کے کہ یہ شہر ،سپاہ جمل کے تصرّف نیز ان کے تبلیغ کی وجہ سے ان کے زیر اثرآگیا تھا لیکن جس وقت انہیں یہ خبر ملی کہ امیر المومنین مہاجر اور انصار کے ہمراہ ان کی جانب آرہے ہیںتو صرف قبیلئہ ربیع سے تین ہزار افرادمقام ذی قارمیں حضرت سے ملحق ہو گئے،(٢) علی کے ساتھ ان کی ہمراہی عقیدت کی بنا پر تھی اور علی کو پیغمبر ۖ کی جانب سے منصوب خلیفہ کے عنوان سے مانتے تھے ۔
بلا ذری نے انہیں شیعیان علی اور قبیلہ ربیع سے تعبیر کیا ہے۔(٣)
اورجب علی خود بر سر حکومت آگئے اور عراق تشریف لے گئے تو تشیع کی وسعت میں عجیب وغریب اضافہ ہوا، اسی طرح حضرت کے حکام اوروالیوںکی اکثریت شیعہ ہونے کی وجہ سے ان مناطق میں شیعیت کو بہت زیادہ فروغ ملا، جیسا کہ سید محمد امین کا بیان ہے جہاں بھی والیان علی جاتے تھے وہاں کے لوگ شیعہ ہوجاتے تھے ۔(٤)
............
(١)نہج البلاغہ ، فیض اسلام ،خطبہ٢٣٥
(٢)بلاذری ، انساب الاشراف ، منشورات الاعلمی ، للمطبوعات ، بیروت ١٣٩٤ھ ج٢ ص ٢٣٧
(٣)بلاذری ، انساب الاشراف ، منشورات الاعلمی ، للمطبوعات ، بیروت ١٣٩٤ھ ج٢ ص ٢٣٧
(٤)اعیان الشیعہ ، دار التعارف ، للمطبوعات ، بیروت ، ج١ ص ٢٥
البتہ اس دور میں شام کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقہ میں بھی عثمان کی طرف میلان بڑھ گیا تھا ،شام تو پورے طور پر بنی امیہ کے زیر اثر تھامثلاً بصرہ اور شمالی عراق کے علاقہ میں عثمان کے قریبی افراد ا کے مستقر ہونے کی بناپر اس علاقے کے لوگ عثمان کی طرف مائل ہو گئے تھے،(١)اور شمال عر اق میں یہ میلان دوسری صدی ہجری کے آخر تک باقی تھا۔
مکہمیں بھی زمانہ ٔجاہلیت سے ہاشمیوں اور علویوں کے خلاف ایک فضا قائم تھی اسی طرح طائف میں بھی دورجاہلیت کی طرح اسلام کے بعد بھی قریش کو بنی ہاشم سے رقابت تھی اور وہ بنی ہاشم کی سر براہی کو قبول نہیں کرتے تھے اور یہ قریش کے رسولۖ خدا کے ساتھ مخالفت کے اسباب میںسے ہے طائف والوں نے بھی قریش کی ہم آہنگی سے پیغمبر ۖکی دعوت قبول نہیں کی تھی اگر چہ اسلام کے طاقتور ہونے کے بعد تا خیر سے سہی وہ لوگ بھی تسلیم ہو گئے۔
حجّاج کے زمانے میںشیعیت عراق و حجاز کی سرحدوں سے عبور کر کے تمام علاقے میں پھیل گئی،اسی دور میں شیعہ حجّاج کی طرف سے سختی اور فشار کی بنا پر عراق سے نکل کر منتشرہوگئے اور دوسری اسلامی سرزمینوں میں ساکن ہوگئے ،خاص کر اسلامی شرق جیسے ایران کہ جہاں پہلی صدی کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ مرکز قائم ہو گیا، خراسان میں عباسیوں نے ان سے خاندان پیغمبرۖ سے نسبت کی وجہ سے استفادہ کیا اور ''الرّضا من آل محمدۖ ''کے نعرہ کے ساتھ اپنے ارد گرد جمع کر لیا اور امویوں کے خلاف جنگ میں
ان سے فائدہ اُٹھایا ۔
............
(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، منشورات الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج٢ ص ١٧٨
عباسیوں کے دور میں تشیع کی وسعت میں معتدبہ اضافہ ہوا شیعہ مشرق میںایران، ہندوستان، قفقازوغیرہ کی طرف ہجرت کرگئے اوردولت اموی کے خاتمہ پرغرب یعنی یورپ کی سمت (مراقش )میں بھی شیعوں کا نفوذ ہو گیا،خصوصاً افریقہ میں دوسری صدی میں ادریسیوں کی شیعہ حکومت قائم ہوگئی اگر چہ یہ حکومت زیدیوں کی تھی لیکن شیعیت کے پھیلنے کا پیش خیمہ تھی البتہ اس کا ارتباط مصر میں اغلبیوں کی حکومت کی وجہ سے کہ جو اس کے مقابلہ میں قائم ہوئی تھی مرکز یعنی مدینہ میں بہت کم اثر تھا۔(١)
اس طرح دوسری صدی ہجری میںمذہب تشیع، جہانِ اسلام کے شرق وغرب میں پھیل گیا اس کے علاوہ خوزستان جبل مرکزی ایران نیز مشرق وسطی کے دور دراز علاقے ، افغانستان ،آذر بائیجان ، مراقش ہندوستان اور طبرستان تک پھیل گیا۔ (٢)

شیعہ اجتماعی مراکز
جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے پہلی تین صدی ہجری میں شیعہ اسلامی سر زمین کے کافی علاقوں میں زندگی بسرکرتے تھے اور تمام جگہ منتشرہو گئے تھے لیکن شیعوں کی بھاری
............
(١)امیر علی ، تاریخ عرب اسلام ، انتشارات گنجینہ ، طبع سوم ، ١٣٦٦ھ ص ٢٤١۔٢٤٥، ابوالفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ، ق، ١٤١٦ھ ،ص ٤٠٨
(٢) ائمہ اطہار کے اصحاب کے درمیان حلب ، مصر ، مدائن ، قزوین ، ری ، کاشان ، ارمنستان ، ساباط ، اصفہان ، ہمدان ، سمرقند ،کابل وغیرہ کے رہنے والے بھی موجود تھے ، رجال نجاشی ، دفتر نشر اسلامی ص ٨۔ ٩۔ ٦٦۔١٣٠۔١٦١۔٢٠٨۔٢٣٣۔٢٣٦۔٢٩٠۔٣٤٤۔٣٦٧،اور ابن شہر آشوب ، معالم العلماء ، منشورات مطبعة الحیدریة، نجف ، ١٣٨٠ھ ش، ص ٣١
اکثریت اورعظیم اجتماع چند ہی مناطق میں تھا پہلی صدی ہجری میںشیعہ اجتماعی مراکز یہ تھے :مدینہ یمن،کوفہ، بصرہ، مدائن ، جبل عامل ، دوسری صدی میں ان مراکز کے علاوہ قم، خراسان، طبرستان، بغداد،جبل عامل، افریقہ وغیرہ میں بھی شیعہ مراکز قائم ہو گئے تھے ، اب ہم یہاں ان جگہوں کی وضاحت کریں گے۔

(الف )پہلی صدی ہجری میں شیعہ نشین علاقے
پہلی صدی ہجری میں شیعہ نشین علاقے زیادہ تر حجاز ویمن وعراق کی حد تک محدود تھے، ان علاقے میں رہنے والے افراد عرب تھے اور پہلے دور کے مسلمانوں میںان کاشمار ہوتا تھا، حجاز ویمن میں تشیع کی بنیاد رسولۖ خدا کے دور میں پڑ چکی تھی، پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد عراق کا اضافہ ہوا جو یمنی قبائل کا محل زندگی قرار پایا اورحضرت علی علیہ السّلام کے دور حکومت میں وہاں کے تشیع کی وسعت میںمزید اضافہ ہوا۔(١)

مدینہ :
ہجرت سے پہلے مدینہ کا نام یثرب تھا یہاں یمن کے دو قبیلے آباد تھے جنہیں اوس و خزرج کہا جاتا تھا جنہیں بعد میں انصار کہا گیا اور تین یہودی قبیلے بنام بنی قینقاع ،بنی نضیراور بنی قریظہ یہاں آبادتھے، جب رسالت مآب نے ہجرت فرمائی تو اس شہر کا نام مدینة النبی یعنی رسول اکرم ۖکا شہر پڑ گیا ،کثرت استعمال اور تکرار کی وجہ سے نبی حذف ہو گیا،اور صرف مدینہ مشہور ہو گیا تینوں خلفاکا مرکز
............
(١)شہیدی ، دکتر سید جعفر ،تاریخ تحلیل اسلام تا پایان اموی، مرکز نشر دانشگاہ ، تہران ج ٢ ،ص ١٣٧۔ ١٣٨
حکومت مدینہ رہا ،اہل بیت کے سر سخت دشمن قریش یہیں رہتے تھے اس کے باوجود مدینہ کی بیشتر آبادی انصار سے مربوط تھی جو اہل بیت کے محب تھے اور سیاسی کشمکش کے وقت اہل بیت کا ساتھ دیتے تھے رسول اکرم ۖکے بہت سے جلیل القدر صحابی یہاں رہتے تھے اور لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرتے تھے ، چنانچہ آپ کے عظیم صحابی جناب جابربن عبد اللہ انصاری اپنے عصا کا سہارا لے کر مدینہ کی گلیوں میں گھومتے اور اعلان کرتے :
(علی خیرُ البَشَرِ مَن انکَرَھٰا فَقَدْ کَفَر)
یعنی حضرت علی بہترین مخلوق ہیں جس نے انکار کیا وہ کافر ہو گیا ۔
اے انصار !تم اپنے بچوں کو علی کی محبت کا عادی بنائو اور جو بھی علی کی محبت قبول نہ کرے اس کے نطفہ کے بارے میں اس کی ماں سے پوچھو!(١)
یہی جابر مسجد النبی کے دروازے پر بیٹھ جاتے تھے اور آواز دیتے تھے :
اے باقر العلوم! آپ کہاں ہیں ؟ بہت سے لوگ کہتے تھے جابر ہذیان بک رہے ہیں،جابر کہتے تھے میں ہذیان نہیں بک رہا ہوں بلکہ میں نے رسولۖ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے : میرے بعد میری نسل سے ایک بچے کی زیارت کرو گے جس کا نام میرا نام ہوگا وہ مجھ سے مشابہ ہوگا وہ لوگوں کے سامنے علم کے دروازے کھولے گا ۔(٢)
جناب جابر نے جب امام پنجم کی زیارت کی تو اپنا معمول بنا لیا تھاکہ ہر روز دو بار آنحضرت کی زیارت سے مشرف ہوں ۔(٣)
............
(١)شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ( رجال کشی ) تحقیق سید مہدی رجائی ، ج ١ ص ٢٣٧
(٢) شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ( رجال کشی ) تحقیق سید مہدی رجائی ، ج ١ ص ٢١٨
(٣)شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ( رجال کشی ) تحقیق سید مہدی رجائی ، ج ١ ص ٢٢٢
حضرت ابوذر غفاری مسجد نبی کے دروازہ پر کھڑے ہو کر کہتے تھے:جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتاہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا وہ پہچان لے میں ابو ذرغفاری جند ب بن جنادہ ہو ں، محمد ۖعلم آدم اور تمام انبیاء کے فضائل کے وارث ہیں اور علی ابن ابی طالب محمد ۖ کے وصی اور ان کے وارث ہیں۔(١)
اکثر بنی ہاشم اسی شہر میں زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے جد کے حرم کا احترام کرتے تھے، اس کے علاوہ ائمہ معصومین بھی اس شہر میں ساکن تھے لہذا یہاں کے لوگ ان کی تعلیمات سے بہرمندہوتے تھے ، خاص طور پر امام باقر اور امام صادق کے زمانے میں ان کے حلقۂ درس نے لوگوں کو مسجد نبیۖ کی جانب کھینچ لیا تھا ۔
ابو حمزہ ثمالی کا بیان ہے : میں مسجد نبیۖ میں بیٹھا ہوا تھا میرے نزدیک ایک شخص آیا اور سلام کیا اور امام محمدباقر کے متعلق پو چھا میں نے دریافت کیا کہ کیا کام ہے؟ اس نے جواب دیا :میں نے چالیس مسئلہ آمادہ کئے ہیں تاکہ امام محمدباقر سے سوال کروں اس کی بات ابھی تمام بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امام محمدباقر مسجد میں داخل ہوئے، کچھ اہل خراسان نے ان کو گھیر رکھا تھا اور مناسک حج کے بارے میں حضرت سے سوالات کررہے تھے ۔(٢)
ان دو بزرگوار کے بعض شاگرد جیسے ابان بن تغلب بھی مسجد نبی ۖ میں درس دیتے تھے ، ابان جس وقت مسجد میں داخل ہوتے تھے پیغمبر ۖ کی جگہ بیٹھتے تھے اور لوگ ان کے
............
(١)تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ،١٤١٢ھ، ج٢ ص ١٧١
(٢)بحار الانوار، ج ٤٦، ص ٣٥٧
اردگرد جمع ہو جاتے تھے، ابان ان کے لئے پیغمبر ۖ کی حدیث بیان کرتے تھے،امام صادق ان سے فرماتے تھے: آپ مسجد نبیۖ میں بیٹھ کر فتو یٰ دیا کیجئے میںچاہتا ہو ں کہ میرے شیعوں کے درمیان آپ جیسے افرادظاہر ہوں ۔(١)

یمن:
عراق کی فتح اور کوفہ کی بناء سے پہلے شیعہ یمن میں زندگی بسر کرتے تھے یمن مدینہ کے بعد دوسرا علاقہ تھا جہاں پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد شیعیان علی موجود تھے،اس لئے کہ وہا ں کے لوگ سب سے پہلی مرتبہ حضرت علی کے ذریعے مسلما ن ہوئے تھے ، ابن شہر آشوب لکھتا ہے: رسولۖ اکرم نے خالدبن ولید کو یمن کی جانب روانہ کیا تاکہ ان کو اسلام کی دعوت دے، براء بن عازب بھی خالد کی فوج میں موجود تھا خالد وہاں چھ مہینے رہا لیکن کسی کو مسلمان نہ کر سکا، رسولۖ خدا اس بات سے بہت ناراض ہوئے اور خالد کو بر طرف کر کے اس کی جگہ امیر المو منین علی کو بھیجا،حضرت جس وقت وہاں پہنچے ،نماز صبح بجالائے اور یمن کے لوگوں کو پیغمبر ۖ کا خط پڑھ کر سنایا،قبیلہ حمدان کے تمام لوگ ایک ہی دن میں مسلمان ہو گئے اورحمدان کے بعد یمن کے تمام قبائل نے اسلام قبول کر لیا، رسولۖ خدا اس خبر کو سننے کے بعد سجدئہ شکر بجا لائے ۔(٢)
یمن میں جس جگہ سب سے پہلے حضرت علی نے سکونت اختیار کی وہ ایک خاتون بنام امّ سعدبر زخیہ کا گھر تھا ،حضرت علی نے وہاں قرآن کی تعلیم دینا شروع کی، بعد میں یہ گھر مسجد ہو گیا اور اس کا نام مسجد علی رکھ دیا گیا ،خاص طور پر پیغمبر ۖکی آخری عمر میں
............
(١)نجاشی ، احمد بن علی ،فہرست اسماء مصنفی الشیعة ، رجال نجاشی ، دفتر نشر اسلامی ، قم، ص ١٠
(٢)مناقب آل ابی طالب ، موسسہ انتشارات علامہ ، قم ، ج٢ ص ١٢٢
یمن کے مختلف قبائل نے مدینہ میں پیغمبر ۖ کا دیدار کیا اور درمیان میںہونے والی گفتگومیںحضور اکرم ۖ نے حضرت علی کی وصایت اور جانشینی کو بیان کیا،(١)اس بنا پر ان کے ذہن میں یہ مطلب موجود تھا ۔(٢)
............
(١)مظفر، محمد حسین ،تاریخ الشیعہ،منشورات مکتبہ بصیرتی ، ص ١٢٢
(٢)جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں : یمن کے مختلف قبیلہ کے لوگ حضور اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے رسول اکرم ۖ نے فرمایا: لوگوں میںایسے نرم دل اورقوی الایمان افراد پیدا ہوں گے ، کہ جو میرے جانشین ( امام مہدی ) کی نصرت کرنے کے لئے سترّہزار افراد ان کے درمیان اٹھ کھڑے ہوں گے وہ سب کے سب اپنی تلواروں کو خرمے کی چھال سے حمائل کئے ہوںگے ، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کا وصی کون ہے ؟ فرمایا: میرا وصی وہ ہے جس سے متمسک ہونے کا حکم خدا وند عالم نے دیا ہے اور آیت پڑھی: (واعتصموا بحبل اللّہ جمیعا ولا تفرقوا )( آل عمران ، آیت : ١٠٣) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور انتشار کا شکار نہ بنو ، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اللہ کی رسی کیا ہے ؟ یہ رسی وہی اللہ کا فرمان ہے : (الا بحبل من اللّٰہ و من الناس) ( آل عمران ، آیت : ١١٢) خدا کی جانب سے رسی قرآن ہے اور لوگوں کی جانبسے رسی میرا وصی ہے ، پوچھا یا رسول اللہۖ! آپ کا وصی کون ہے ؟ فرمایا : میرا وصی وہ ہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے : (ان تقول نفس یا حسرتی علی ما فرطت فی جنب اللّٰہ )( سورہ زمر آیت : ٥٦) لوگ کہیں گے کے امر خدامیں کتنی کوتاہی کی ہے ، لوگوں نے سوال کیا یہ امر خدا کیا ہے ؟ فرمایا : وہ میرا وصی ، لوگوں کا رہبر ہے جو میرے بعد لوگوں کی میری جانب ہدایت کرے گا ، لوگوں نے کہا :یا رسول اللہ ۖ !آپ کو اس خدا کی قسم جس نے آپ کو مبعوث کیا ہے آپ اپنے وصی کوہمیں دکھا دیں ،ہم ان کی زیارت کے مشتاق ہیں ، فرمایا : خدا نے اسے لوگوں کے لئے علامت قرار دیا ہے دل سے دیکھو گے تو پہچان لوگے کہ کون میرا وصی ہے جس طرح تم نے اپنے پیغمبر کو پہچان لیا ہے ، جائو مسجد میں لوگوں کو دیکھو ( )
جس کی طرف تمہارا قلب مائل ہو جائے سمجھ لووہی میرا وصی ہے ، اس لئے کہ خدا فرماتا ہے : (فاجعل افئدة من الناس تھوی الیھم) ( ابراہیم ، آیت : ٣٧) خدایا! لوگوں کے دلوں کو اسی کی طرف مائل کر دے
اسی وقت اشعریوں میں سے ابو عامر اشعری ،خولانیوں میں سے ابو عزہ خولانی ، بنی قیس سے عثمان بن قیس ، قبیلہ دوس سے غریہ دوسی اور لاحق بن علافہ کھڑے ہوئے اور مسجد النبی میں لوگوں کو دیکھنا شروع کیا اور حضرت علی کا ہاتھ پکڑکر خدمت رسولۖ میں آئے اور کہا: یا رسول اللہ ۖ !ہمارا دل ان کی جانب کھنچتاجارہا ہے ، رسول اکرم ۖ نے فرمایا : خدا کا شکر ہے تم نے پیغمبر ۖکے وصی کو پہچان لیا شاید اس کے پہلے تم نے انہیں دیکھا ہو یمنی لوگ رونے لگے کہا :یا رسول اللہ ۖ !ہم کسی چیز کی بنا پر نہیں رورہے ہیں بلکہ ہمارے دل رو رہے ہیں ہم نے جیسے ہی انہیں دیکھا ہمیں سکون حاصل ہوگیا ایسا لگا جیسے ہم نے اپنے باپ کو پا لیا ہے۔ ( مظفر ، محمد حسین ، تاریخ الشیعہ مکتبة بصیرتی ، قم ، ص ١٢٤۔١٢٥
پیغمبر ۖکی وفا ت کے بعد انہوں نے مدینہ کی حکومت کو رسمیت نہیں دی اور خلیفہ وقت ابو بکر کو زکوٰة دینے سے انکار کیا جیسا کہ ان کے اشعار میں آیا ہے:

اطعنارسول اللّہ ما دام وسطنا

فیا قوم شأنی وشان ابی بکر
أیورثھا بکراً اذا کان بعدہ
فتلکٔ لعمر اللّہ قاصمة الظھر
جس وقت تک رسولۖخدا ہمارے درمیان تھے ہم ان کی اطاعت کرتے تھے اے لوگو !ہم کہاں اور ابو بکر کہاں؟!
اگر ابو بکر کے پاس بکر نام کا فرزند ہو تاتوکیا وہ اس کے بعد خلافت کا وارث
ہوتا؟میری جان کی قسم یہ سوال کمر شکن ہے ۔(١)
حضرت علی کے دور خلافت میں یمن کے رہنے والے لاکھوں افراد عراق میں رہتے تھے(٢)
اور ہزاروں آدمی حضر ت کے لشکر میںتھے ،یمن میں رہنے والے، اکثر شیعہ تھے عثمانی اور بنی امیہ کے طرفداروں کی تعداد بہت کم تھی اس کے لئے بطور شاہد معاویہ کا وہ رویہ ہے کہ جو اس نے بسرابن ارطاة کو جس کے بار ے میں تاکید کی تھی ،(٣)کہ جس علاقہ میں لوگ قریش اور بنی امیہ کے طرف دارہوں ان سے کوئی سرو کار نہیں رکھناچنانچہ جب وہ مکہ اور طائف کے نزدیک سے گذرا تو ان دو شہروں کو ہاتھ تک نہیں لگایا ۔(٤)
لیکن جس وقت یمن کے شہر'' ارحب ''، صنعا اور حضر موت پہنچا توقتل و غارت گری شروع کردی ،صنعا میں تقریبا سو افراد کہ جن کا شمار ایرانی بزرگوں میں ہوتا تھا ان کا سر قلم کردیا اور مأرب کے نمائند ہ جو امان لینے کے لئے آئے تھے ان پر رحم نہیں کیا اور سب کو قتل کردیا اور جس وقت حضر موت پہنچا تو اس نے کہا :میں چاہتا ہوں کہ اس شہر کے ایک چو تھائی لوگوں کو قتل کردوں۔(٥)
............
(١)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبداللہ ، معجم البلدان ، احیاء التراث العربی ، بیروت ، طبع اوّل ، ١٤١٧ھ ، ج٣ ، ص ١٥٨
(٢)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبداللہ ، معجم البلدان ، احیاء التراث العربی ، بیروت ، طبع اوّل ، ١٤١٧ھ ، ج ٧ ، ص ١٦١
(٣) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی ،ص ١٩٧
(٤) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی ،ص :١٩٧
(٥) ثقفی کوفی، ابراھیم بن محمد ،الغارات،محمد باقر کمرہ ای کا ترجمہ ، فرہنگ اسلام ص ٣٢٥ ۔ ٣٣١
خصوصاًجیشان میں یعقوبی کے کہنے کے مطابق وہاں کے تمام افراد شیعہ تھے
اس نے وہاںپر بہت زیادہ قتل وغارت کیا۔(1)
ابن ابی الحدید نے بسربن ارطاة کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار بیان کی ہے، ان میں سے زیادہ تر یمن کے رہنے والے تھے ،(2) یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس زمانے میںوہاں پر شیعوں کی آبادی قابل ملاحظہ تھی بہر حال بسر نے جو ہنگامہ کر رکھا تھا اسے کچلنے کے لئے امیر المومنین نے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا یہ سنکر بسر یمن سے بھا گ کھڑا ہوا یمن کے لوگ اور وہاں کے شیعہ جہاں بھی عثمانیوں اور بنی امیہ کے طرفداروں کو پاتے تھے قتل کر دیتے تھے۔(3)
حضرت علی کی شہادت کے بعد بھی یمن شیعوں کا عظیم مرکز تھا اور جس وقت امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے کوفہ کی جانب کوچ کیا توابن عباس نے امام حسین کو مشورہ دیاکہ وہ عراق نہ جائیں بلکہ یمن کی طرف روانہ ہوں کیونکہ وہاں آپ کے والد کے شیعہ ہیں۔(4)
البتہ اس بات کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ابتدائی کامیابی اور اسلامی سرزمین کی سر حدوں کے پھیلنے کے ساتھ یمن اور پوری طرح سے جزیرئہ عرب کا علاقہ ٹھپ نظر آیا یہی وجہ ہے کہ سپاہی اورفوجی لحاظ سے وہاں کا کوئی نقش نظر نہیں آتا اگر چہ دو شہر مکہ،اور مدینہ مذہبی وجہ سے ایک اجتماعی حیثیت رکھتے تھے لیکن یمن جو پیمبرۖ کے زمانے میں ایک مہم ترین اسلامی
............
(١)ابن واضح ، تاریخ یعقوبی،ص١٩٩
(٢)شرح نہج البلاغہ ، دارالکتاب العربیہ ، قاہرہ ، ج ٢ ، ص ١٧
(٣)ثقفی کوفی ،ابراھیم بن محمد ،الغارت،ص ٣٣٣
( ٤)بلاذری، انساب الاشراف، منشورات الا علمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٣٩٤ھ ق، ج ٣ ،ص ١٦١
حکومت شمارہوتاتھا مسلمانوں کے وسیلہ سے قریب کے ملکوں پر فتح حاصلکرنے کے بعد تقریباً اسلامی سر زمینوں کے ایک گوشہ میںواقع ہوگیا تھا اوروہ جنوب کا آخری نقطہ شمار ہوتا ہے اس کے با وجود روح تشیع وہاں پر حاکم تھی دوسری صدی کے اختتام پر ابو سرایا ابراہیم بن موسیٰ وہاں پربغیر مزاحمت کے داخل ہوگیا اور اس نے اس علاقہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا،(١)آخرکار مذہب زیدیہ کو سر زمین یمن میں کامیابی حاصل ہوئی آج بھی وہاں کے رہنے والے اکثر زیدی ہیں۔(٢)

کوفہ:
کو فہ وہ شہر ہے جو اسلام کے بعد وجود میں آیا اور مسلمانوں نے اس کی بنیاد رکھی کوفہ سے قریب قدیمی شہر حیرہ تھا جو لخمیوں کی حکومت کا مرکز تھا۔(٣)
١٧ھ میں سعد بن وقاص جو ایران محاذ کا کمانڈر تھا اس نے خلیفۂ دوّم کے حکم پر اس شہر کی بنیادرکھی اس کے بعد اصحاب میں سے اسّی لوگ وہاں پر ساکن ہو گئے، (٤) ابتدامیں شہر کوفہ میں زیادہ تر فوجی چھاونی تھی جو شرقی محاذپر فوجیوں کی دیکھ ریکھ کرتی تھی اس شہر کے اکثر رہنے والے مجاہدین اسلام تھے جس میں اکثر قحطانی اور یمن کے قبائل تھے، اس و جہ سے کوفہ میں قحطانی اور یمنی ماحول زیادہ تھا ،(٥) اصحاب پیغمبرۖ میں سے اکثر
............
(١)ابو الفرج اصفہانی،علی بن حسین،مقاتل الطالبین،منشورات الشریف الرضی،قم ١٤١٦ہجری، ص٤٣٥
(٢)مظفر ،محمد حسین،تاریخ شیعہ ،ص١٣٢
(٣) یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبداللہ ، معجم البلدان،دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، طبع اوّل ، ١٤١٧ھ، ص ١٦٢
(٤)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی، منشورات شریف الرضی ، قم ، ١٤١٤ھ ،ج ٢ ، ص ١٥٠
(٥) یاقوت حموی ،شہاب الدین ابی عبداللہ، معجم البلدان ،ص ١٦١
انصار وہاںرہنے لگے جودر اصلیمنی تھے، انصار کے دو قبیلوں میں سے ایک خزرج تھا جن کا کوفہ میں اپنا مخصوص محلہ تھا ،یا قوت حموی کا بیان ہے: زیاد کے زمانے میں زیادہ تر جو گھر اینٹ کے بنے ہوئے تھے وہ خزرج ا و رمرادکے تھے ،(١)البتہ کچھ موالی اور ایرانی بھی کوفہ میں زندگی بسر کرتے تھے جو امیر المومنین علیہ السلام کے دور خلافت میں کوفہ کے بازار میںخرید و فروخت کیا کرتے تھے،(٢) جناب مختارکے قیام کے وقت ان کی فوج میں زیادہ تر یہی موالی تھے۔(٣)
کوفہ کی فضیلت کے بارے میں اہل بیت سے کافی احادیث وارد ہوئی ہیں کہ جن میں سے بعض یہ ہیں : حضرت علی نے فرمایا:
کوفہ کتنا اچھا شہر ہے کہ یہاں کی خاک ہم کو دوست رکھتی ہے اور ہم بھی اس کو دوست رکھتے ہیں، کوفہ کے باہر قبرستان (وہ قبرستان کوفہ جو شہر سے باہر واقع تھا ) سے روز قیامت ستّر ہزار افراد ایسے محشور ہوں گے جن کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے ہوںگے، کوفہ ہمارا شہر اور ہمارے شیعوں کے رہنے کی جگہ ہے ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خُدایا !جو شخص بھی کوفہ سے دشمنی رکھے توبھی اسے دشمن قرار دے،(٤) کوفہ میں شیعیت حضرت علی کی ہجرت سے بھی پہلے موجود تھی
............
(١)یاقوت حموی ،شہاب الدین ابی عبداللہ، معجم البلدان ،ص ١٦١
(٢)بلاذری، انساب الاشراف، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، ١٣٩٤ھ ،ج٢ ص١٢٦
(٣)جعفریان ،رسول،تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا ہفتم ہجری، شرکت چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی ، ١٣٧٧ھ ، ص٧١
(٤)ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ،دار الاحیاء کتب العربیہ،طبع قاہرہ ،ج٣،ص١٩٨
جس کے دوعوامل بیان کئے جاتے ہیں ۔
ایک یمنی قبائل کا وہاں پر ساکنہونا جیسا کہ پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ زیادہ تر افراد وہاںخاندان پیغمبر ۖکو دوست رکھنے والے تھے۔
دوسرے بزرگ شیعہ اصحاب کا وجود جیسے عبداللہ بن مسعود ، عمّار یاسر،عمر نے عمّار کووہاں کا حاکم بناکر اور ابن مسعود کو معلّم قرآن کے عنوان سے بھیجا تھاابن مسعود نے برسوں وہاں لوگوں کو فقہ او رقرآن کی تعلیم دی۔(١)
ان دو بزرگو ں کی تعلیمات کے اثرات حضرت علی کی خلافت کے آغاز میں قابل مشاہدہ ہیں،آنحضرت کی بیعت کے وقت مالک اشتر کا وہ خطبہ جو کوفہ کے لوگوں کے درمیان روح تشیع کی حکایت کرتا ہے ا س وقت مالک اشتر کہہ رہے تھے: اے لوگو! وصی ا وصیاء اوروارث علم انبیا وہ شخص ہے جس کے ایمان کی گواہی کتاب خُدا نے دی ہے اور اس کے جنّتی ہونے کی گواہی پیغمبرۖ نے دی ہے تمام فضائل اس پر ختم ہوجاتے ہیں، اس کے سابقہ علمی اور فضل و شرف کے سلسلہ میں اولین اور آخرین میں کسی نے شک نہیں کیاہے۔(٢)
جس وقت حضرت علی نے اپنے بیٹے امام حسن اور عمار کواہل کوفہ کے پاس ناکثین کے مقابلہ میں جنگ کرنے کے حوالے سے بھیجا تو ابو موسیٰ اشعری وہاں کا حاکم تھا اور لوگوں کو حضرت علی کا ساتھ دینے سے منع کر رہاتھا ،اس کے باوجود نو ہزار افراد حضر ت
............
(١)ابن اثیر ، ابی الحسن علی بن ابی کرم، اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ، دار الاحیاء التراث العربی بیروت ، ج٣ ، ص ٢٥٨
(٢) ابن واضح، تاریخ یعقوبی،ص١٧٩
علی سے ملحق ہوگئے۔(١)
حضرت علی کی ہجرت کے وقت سے تیسر ی صدی ہجری کے آخر تک کوفہ شیعوںکا اہم ترین شہر تھا ،ڈاکٹر حسین جعفری اس سلسلے میں کہتے ہیں: جس وقت حضرت علی سن ٣٦ھ میںکوفہ منتقل ہوئے اس وقت سے بلکہ اس سے بھی پہلے یہ شہر در واقع بہت سی تحریکوں، آرزؤں، الہامات اوربسا اوقات شیعوں کی ہم آہنگ کوششوں کا مرکز تھا اور کوفہ کے اندر اور باہر بہت سے نا گوار حادثات رونما ہوئے جو تشیع کے آغاز کے لئے تاریخ ساز تھے ،ان حوادث میں جیسے جنگ جمل وصفّین کے لئے حضرت علی کا فوج کو آراستہ کرنا، امام حسن علیہ السّلام کا خلافت سے دورہونا ۔حجر بن عدی کندی کا قیام ، امام حسین اور ان کے ساتھیوںکی در ناک شہادت ،انقلاب توابین اور قیام مختارمنجملہ انہیں حوادث میں سے ہیں، اس کے باوجود کوفہ نا امّیدی و محرومیت کا مرکز تھا،حتی کہ شیعوں کے ساتھ خیانت، اور ان کی آرزوں کی پامالی ان لوگوں کی طرف سے تھی جو خاندان علی کواسلامی سماج میں قیادت کے عنوان سے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔(٢)
اگر چہ امام حسین کو قتل کرنے والے اہل کوفہ تھے،(٣)شیعوں کی بزرگ ہستیاں اس وقت ابن زیادکے زندان میںمقید تھیں،(٤) دوسری طرف حضرت مسلم اور ہانی کی
............
(١) بلاذری ،انساب الاشراف،ص ٢٦٢
(٢) ڈاکٹر سید حسین جعفری ،تشیع در مسیر تاریخ، ترجمہ ڈاکٹر سید محمد تقی آیت اللھی، دفتر نشر فر ہنگ اسلامی، طبع قم ، ١٣٧٨ھ، ص ١٢٥
(٣) مسعودی ، علی بن حسین، مروج الذھب،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ١٤١١ھ، ج٣، ص٧٣
(٤) مظفر محمد حسین تاریخ الشیعہ،منشورات مکتب بصیرتی ، ص٦٧
شہادت سے شیعہ ابن زیاد جیسے قوی خونخوار دشمن کے مقابلے میں بغیررہبر کے سر گردان و پریشان تھے لیکن امام حسین کی شہادت کے بعدوہ خواب غفلت سے بیدار ہوئے، توابین اور مختارکا قیام عمل میں آیا ،کوفہ اہل بیت کے ساتھ دوستی اور بنی امیہ کے ساتھ دشمنی میں مشہور تھا یہاں تک کہ مصعب بن زبیر نے اہل کوفہ کے دلوں کو اپنی طرف موڑنے کے لئے محبت اہل بیت کا اظہار کیا اور اسی وجہ سے امام حسین کی بیٹی سے شادی کی۔(١)
پہلی صدی ہجری کے تمام ہونے تک اگر چہ نئے شیعہ نشین علاقے قائم ہوچکے تھے پھر بھی کوفہ شیعوں کا اہم ترین شہرشمار کیا جاتا تھا ۔
جیسا کہ عباسی قیام کے رہنما محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے دوسری صدی کی ابتدا اور بنی امیہ کے خِلاف قیام کے شروع میںبطور شفارش اپنی طرف دعوت دینے والوں سے کہا:یادرہے کوفہ اور اس کے اطراف میں شیعیان علی ابن ابی طالب رہتے ہیں۔(٢)
............
(١) ابن قتیبہ ، ابی محمد عبداللہ بن مسلم ، المعارف ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، طبع اوّل ، ص ٢١٤
(٢) فخری نقل کرتا ہے: محمد بن علی نے اپنے چاہنے والوں اور مبلغوں سے کہا : کوفہ اور اس کے اطراف میں علی بن ابی طالب کے شیعہ رہتے ہیں ،بصرہ کے لوگوں نے عُثمانی جماعت کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے لیکن جزیرہ کے لوگ حروری مسلک اور دین سے خارج ہیں، شام کے لوگ آلِ ابوسُفیان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے اور بنی مروان کے علاوہ دوسرے کی اطاعت نہیں کرتے لیکن مدینہ اور مکہ کے لوگ ابو بکر اورعمر کی سیرت پر ہیں اس بنا پر خُراسان کے لوگوںسے غفلت نہ کرو کیونکہ وہاں کے لوگ بہت ہوشیار ، پاک دل اور آسودہ خاطر ہیں ، انہیں کسی چیز کی فکر نہیں ہے نہ تو مختلف مذاہب میں بٹے ہوئے ہیں اور نہ ہی دین و دیانت کے پابند ہیں ۔( ابن طباطبا ،الفخری فی اٰداب السُلطانیہ،طبع مصر ،ص ١٠٤
دوسری اور تیسری صدی ہجری میں بھی طالبیوں کے چند افراد نے کوفہ میں قیام کیا تھا ، عباسیوں کے دور میں عراق میں بغداد ایک اہم شہر بن چکا تھا اس کے باوجود بھی کوفہ نے اپنی سیاسی اہمیت کو ہاتھوں سے نہ جانے دیا اوردوسری صدی ہجری کے آخری نصف میں ابوالسرایا کی سپہ سالاری میں ابن طبا طبا کا قیام اس شہر میں عمل میں آیا ۔(١)
اسی وجہ سے بنی امیہ کی طرف سے کوفہ کی سخت نگرانی ہونے لگی اور سفّاک و ظالم افراد جیسے زیاد، ابن زیاداور حجّاج بن یوسف اس شہر کے حاکم بنادیئے گئے وہاں کے حکاّم علویوں کے مخالف تھے اور اگر اتفاق سے کوئی حاکم مثل خالد بن عبداللہ قسری اگر تھوڑاسا شیعوں پر رحم بھی کرتا تھا تو فوراً اس کو ہٹا دیا جاتاتھا حتیٰ کہ اس کو زندان میں ڈال دیا جاتا تھا۔(٢)
کوفہ سیاسی حیثیت کے علاوہ علمی اعتبار سے بھی ایک اہم شہر شمار ہوتا تھا اور شیعہ تہذیب وہاںپرحاکم تھی، اس شہر کاعظیم حصّہ ائمہ کے شیعہ شاگردوں پر مشتمل تھا ، شیعوں کے بہت سے بزرگ خاندان اس شہر کوفہ میں زندگی گذارتے تھے کہ جنہوں نے شیعہ تہذیب کی بے حد خدمت کی ،جیسے آل اعین امام سجاد کے زمانے سے غیبت صغریٰ تک اس خاندان کے افراد ائمہ طاہرین کے اصحاب میں سے تھے، اس خاندان سے ساٹھ جلیل القدر محدثین پیدا ہوئے جن میں زرارہ بن اعین،حمران بن اعین ، بکیر بن اعین ، حمزہ بن حمران ،محمد بن حمران ،عبید بن زُرارہ کہ یہی عبید امام صادق کی شہادت کے بعد
............
(١)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، منشورات شریف الرضی ، قم، ١٤١٦ ھ ق ، ص٤٢٤ ۔ ٤٣١
(٢) بلاذری ، ، انساب الاشراف، دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ، ٣٩٧ ھ ج ٣، ص ٢٣٣
اہل کوفہ کی طرف سے نمائندہ بن کر مدینہ آئے تھے تاکہ امامت کے متعلق پیدا ہونے والے شبہات کو دور کریں اور کوفہ پلٹ جائیں۔( ١)
آل ابی شعبہ بھی کوفہ میں شیعوں کا ایک بڑا خاندان تھا کہ ان کے جد ابو شعبہ نے امام حسن اور امام حسین سے حدیثیں نقل کی ہیں ،نجّاشی کا بیان ہے کہ وہ سب کے سب قابل اطمینان ا ور موثق ہیں۔(٢)
اسی طرح آل نہیک جیسے شیعوں کے بڑے خاندان کوفہ میں رہتے تھے ،عبداللہ بن محمد اور عبد الرّحمن سمری انہیں میں سے ہیں ۔(٣)
کوفہ کی مساجد بالخصوص وہاں کی جامع مسجد میں ائمہ طاہرین کی احادیث کی تدریس ہوتی تھی ،امام رضا علیہ السلام کے صحابی حسن بن علی وشّا کہتے ہیں: کوفہ کی مسجد میں میں نے نوسو افراددیکھے کہ وہ سب امام صادق سے حدیث نقل کر رہے تھے۔(٤)
............
(١) بلاذری،ابو غالب ، رسا لة فی آل اعین،مطبعہ ربانی، اصفہانی ، ص ٢ ۔١٨
(٢) نجاشی ، ابو العباس احمد بن علی ، فہرست اسمأ مصنفی شیعہ،دفتر نشر اسلامی ،وابستہ جامعہ مدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ، ص ٢٣٠
(٣) نجاشی ، ابو العباس احمد بن علی ، فہرست اسمأ مصنفی شیعہ،دفتر نشر اسلامی ،وابستہ جامعہ مدرسین ، قم ، ٠٧ ١٤ھ ، ص٢٣٢
(٤) نجاشی ، ابو العباس احمد بن علی ، فہرست اسمأ مصنفی شیعہ،دفتر نشر اسلامی ،وابستہ جامعہ مدرسین ، قم ، ٠٧ ١٤ھ ، ص ٣٩ ۔ ٤٠ ) ۔

بصرہ:
بصر ہ و ہ شہر ہے کہ جس کی مسلمانو ں نے کوفہ کے ساتھ ہی ١٧ ھ
میںبنیاد رکھی ،(١) اگر چہ بصرہ کے لوگ عائشہ،طلحہ وزبیر کی حمایت کی وجہ سے عثمانی حوالے سے شہرت رکھتے تھے جس زمانے میں جمل کی فوج بصرہ میںمقیم تھی شیعیان امیر المومنین بھی وہاں زندگی بسر کرتے تھے اور امیر مومنین کے بصرہ پہنچنے سے پہلے ان کے شیعوں نے دشمنوں سے جنگ بھی کی کہ جس میں کافی تعداد میں لوگ شہید ہوئے جیسا کہ شیخ مفید نے نقل کیا ہے کہ فقط عبدالقیس قبیلہ سے پانچ سو شیعہ افراد شہید ہوئے۔(٢)
بلاذری کے نقل کے مطابق ربیعہ قبیلہ کے تین ہزار شیعہ محل ذی قار میں حضرت سے ملحق ہوئے ۔(٣)
جنگ جمل کے بعد بصرہ میں عثمانی رجحان بڑھنے کے باوجود کافی تعداد میں شیعہ وہاں زندگی بسر کر تے تھے ،اسی وجہ سے جب معاویہ نے ابن حضرمی کو فتنہ ایجاد کرنے کے لئے وہاں بھیجا تو اس کواس بات کی تاکید کی کہ بصرہ میں رہنے والے کچھ لوگ شیعہ ہیںبعض قبائل جیسے ربیعہ سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی، بہر حال عثمانی خیال وہاں پر زیادہ تھے اور اگرحضرت علی علیہ السّلام کوفہ سے فوج نہیں بھیجتے تو ابن حضرمی کی فتنہ پردازیوں سے بصرہ عثمانیوں کے ذریعہ ان کے کنٹرول سے نکل جاتا ۔(٤)
............
(١) یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبداللہ ، معجم البلدان،دار احیا ء التراث العربی ، بیروت طبع اوّل ، ١٤١٧ ھ، ج ٢ ، ص ٣٤٠
(٢) شیخ مفید، الجمل، مکتب الاعلام الا سلامی ،مر کز نشر ، قم ، ١٤١٦ھ،ص٢٧٩
(٣)انساب الاشراف،منشورات موسسئہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٣٩٤ ھ ، ج ٢ ، ص ٢٣٧
(٤) ثقفی کوفی ، ابراھیم بن محمد ، الغارت ،ترجمہ محمد باقر کمرہ ای ، فرہنگ اسلامی ،ص١٦٦
واقعہ کربلا کے وقت بھی امام حسین نے بصرہ کے چند بزرگوں کو خط لکھا ان میں سے یزید بن مسعود نہشلی نے امام کی دعوت کو قبول کیااور لبیک کہا اورکچھ قبائل بنی تمیم ، بنی سعد، اور بنی حنظلہ کو جمع کرکے ان کو امام حسین کی مدد کے لئے دعوت دی ، اس وقت ان قبیلوں نے اپنی آمادگی کا خط امام کو لکھا ،لیکن جب امام حسین سے ملحق ہونے کے لئے آمادہ ہوئے توان کو حضرت کی خبر شہادت ملی۔( ١)
مسعودی کے نقل کے مطابق توابین کے قیام میں بھی بصرہ کے کچھ شیعہ مدائن کے شیعوں کے ساتھ فوج میں ملحق ہوئے لیکن جس وقت وہاں پہنچے جنگ تمام ہو چکی تھی۔ (٢)
بنی امیہ کے دور میں بصرہ کے شیعہ زیاد اور سمرہ بن جندب جیسے ظالموں کے ظلم کا شکار تھے، زیاد ٤٥ھ میں بصرہ آیا اور خطبہ بتراء پڑھا ،(٣) کیونکہ زیاد نے اس خُطبہ کو بغیر نام خدا کے شروع کیا اس لئے اس کو بتراء کہا جانے لگا اس نے اس طرح کہا: خدا کی قسم میںغلام کوآقا، حاضر کو مسافر ، تندرست کو بیمار کے گناہ کی سزا د وں گا یہاں تک کہ تم ایک دوسرے کا منھ دیکھو گے اور کہو گے سعد خود کو بچائو کہ سعید تباہ ہو گیا،آگاہ ہو جائواس کے بعد اگر کوئی بھی رات میں باہر نکلاتومیں اس کا خون بہادوں گا اپنے ہاتھوں اور
............
(١)امین ، سید محسن ، اعیان الشیعہ ،دارالتعارف للمطبوعات ، بیروت ،( بی تا ) ج ١ ،ص ٥٩٠
(٢)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ ج٣ ، ص ١٠٩
(٣) بتراء ابتر کا مؤنث ہے جس کے معنی بریدہ اور ناقص کے ہیں حدیث میں ہر وہ گفتگو جو خُدا کے نام سے شروع نہ ہو اس کو ابتر کہا جاتا ہے۔
زبان کو بند رکھنا تاکہ میرے ہاتھ اور زبان سے امان میں رہو،(١)بعد میں کوفہ بھی زیادکے کنٹرول میں آگیا، زیاد چھ ماہ کوفہ میں رہتاتھا اور چھ ماہ بصرہ میں جس وقت کوفہ جاتا تھا سمرة بن جندب کو بصرہ میں اپنی جگہ معین کر دیتا تھا، سمرہ ایک ظالم شخص تھا جو خون بہانے میں ذرہ برابر بھی اعتنانہیں کرتا تھا اس نے زیاد کی غیر موجود گی میں آٹھ ہزار افراد کو قتل کیا (٢)وقت کے ساتھ ساتھ بصرہ میں شیعیت بڑھتی گئی یہاں تک کہ حکومت عباسی کے آغاز میں دوسرا علوی قیام جو محمد نفس زکیہ کے بھائی ابراہیم کانے کیا بصرہ میں واقع ہوا ۔(٣)

مدائن :
کوفہ اور بصر ہ کے بر خلاف مدائن ایساشہر ہے کہ جو اسلام سے پہلے بھی موجود تھا اور سعد بن ابی وقاص نے ١٦ھ میںعمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں اس کو فتح کیا، ایک قول کے مطابق نوشیرواں نے اس شہر کی بنا رکھی اور فارسی میں اس کانام تیسفون تھا جو ساسانیان کے پائے تخت میں شمار ہوتا تھا طاق کسریٰ بھی اسی شہر میں واقع ہے اس شہر میںسات بڑے محلے تھے ہر محلہ ایک شہر کے برابر تھا اسی بنا پر عربوں نے اسے مدائن کہا جو مدینے کی جمع ہے البتہ کوفہ بصرہ ،بغداد ،واسط اور سامرہ جیسے جدید شہروںکی بناکے بعد یہ شہر ویران ہوتاگیا۔ (٤)
............
(١) شہیدی ڈاکٹر سید جعفر ، تاریخ تحلیل اسلام تا پایان امویان،مر کز نشر دانشگاہ علمی ، تہران ، ص ١٥٦
(٢)طبری ، محمد بن جریر ، تاریخ الامم والملوک،دار القاموس الحدیث ، بیروت ، ج ٦ ، ص ١٣٢
(٣)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات شریف الرضی ، قم ١٤١٦ ھ ، ص٢٩٢
(٤)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبد اللہ ،معجم البلدان، طبع اول ، ١٤١٧ھ ، ج٧ ص ٢٢١۔٢٢٢، مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذہب ، ج١ ص ٢٦٧
پہلی دوسری وتیسری صدی ہجری تک مدائن شیعہ نشین شہروں میں شمار ہوتا تھا اور یہ جلیل القدرشیعہ اصحاب جیسے سلمان فارسی ،حذیفہ بن یمان کی حکمرانی کی وجہ سے تھا اسی وجہ سے مدائن کے لوگوں نے اسلام کوشروع میں شیعہ اصحاب سے قبول کیا تھا قیام توابین میں شیعیان مدائن کے نام واضح و روشن ہیں ،مسعودی کا بیان ہے سلیمان بن صرد خزاعی اور مسیب بن نجبہ فزاری کی شہادت کے بعد توابین کی قیادت کی ذمہ داری عبداللہ بن سعد بن نفیل نے اپنے ذمہ لے لی ،اس وقت مدائن و بصرہ کے شیعوں کی تعداد تقریباً پانچ سو افرادتھی اور مثنیٰ بن مخرمہ اور سعد بن حذیفہ ان کے سردار تھے ، تیزی سے آگے آئے اور اپنے کو توابین تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن نہیں پہنچ سکے،(١)یاقوت حموی کے قول کے مطابق اکثر اہل مدائن شیعہ تھے ۔(٢)

جبل عامل:
پہلی صدی ہجری میں شیعہ نشین مناطق میں سے ایک جبل عامل تھا یہاںشیعیت اس وقت سے وجودمیں آئی جب عثمان نے جناب ابوذرکو ملک شام شہربدرکیا مرحوم سید محسن امین کہتے ہیں :
معاویہ نے بھی ابوذر کو جبل عامل کے دیہاتوں میں شہر بدرکردیا ابوذر وہاں لوگوں کی ہدایت اور تبلیغ کرتے رہے، لہذا وہاں کے لوگوں نے مذہب تشیع اختیار کر لیا جبل عامل کے دو گائوں صرفند ،اور میس میں دو مسجدیں ہیں، جو ابوذر سے منسوب ہیں یہاں تککہ امیر المومنین کے زمانے میں اسعار نام کے گائوں میں شیعہ مذہب کے
............
(١)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب ، ج٣ص ١٠٩
(٢)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبد اللہ ،معجم البلدان، طبع اول ، ١٤١٧ھ ، ج٧ ص٢٢٢
لوگ تھے۔(١)
مرحوم مظفر نے بھی وہاں کے تشیع کے بارے میں کہا ہے جبل عامل میں تشیع کی ابتدا ابوذر غفاری کے فضل سے ہے ،(٢) کرد علی کا بھی کہنا ہے :دمشق ،جبل عامل اور شمال لبنان میں تشیع کا آغازپہلی صدی ہجری سے ہی ہے۔(٣)
............
(١)اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ،ج١، ص ٢٥
(٢)تاریخ الشیعہ، منشورات مکتبة بصیرتی ، ص ١٤٩
(٣)خطط الشام ، مکتبة النوری ، دمشق ،طبع سوم ،١٤٠٣ھ ١٩٨٣ ج ٦ ص ٢٤٦