تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
 

(٢)پراگندہ قیام
اس قسم کے قیام بغیر کسی پروگرام اور پلاننگ کے ایک فرد کے عزم و ارادے سے وجود میں
آئے ہیں اور اکثر خلفاو حکام کی طرف سے شیعوں اور علویوں پر ہونے والے ظلم وجور کے مقابلے میں رد عمل کے طور پر متحقق ہوئے ہیں، ان قیاموں میں سے اہم ترین قیا م حسب ذیل ہیں:

(الف)قیام شہید فخ
آپ حسین بن علی حسنی( شہید فخ) کے نام سے مشہور تھے جنہوںنے ہادی عباسی کے دور حکومت میں قیام کیا ان کا خروج ،خلیفہ وقت کی طرف سے علویوں اور شیعوں پر بے حد ظلم و ستم کے مقابلے میں تھا ،یعقوبی کا بیان ہے : خلیفہ عبا سی موسیٰ ہادی نے طالبیوں کو تلاش کیا، ان کو شدت سے ڈرایا اور ان کے حقوق کو قطع کر دیا اور مختلف علاقہ میںیہ لکھ بھیجا کہ طالبیوں پر سختی کی جائے ۔(١)
ہادی عباسی نے مدینہ میں عمر کے پوتے کو حاکم بنایا تھا جو کہ طالبیوں پر بے حد سختی کرتا تھا ، اور ہر روز ان کی تلاشی لیتاتھا اس ظلم کے مقابلے میں حسین بن علی حسنی نے قیام کیا اور حکم دیا کہ مدینہ کی اذان میں'' حی علیٰ خیر العمل'' کہا جائے اور کتاب خدا اور سنت پیغمبر ۖکی بنیاد پر لوگوں سے بیعت لی اورلوگوں کو'' الرضا من آل محمدۖ'' یعنی اولاد رسول ۖسے ایک معین شخص کی رہبری کی طرف دعوت دی، ان کی روش امام کاظم کی
............
(١) ابن واضح ،تاریخ یعقوبی،منشورات شریف الرضی،قم،طبع١٤١٧،ج٢،ص٤٠٤
مرضی کے مطابق تھی، ان سے امام نے فرمایاتھا : تم قتل کردئے جائوگے۔(١)
اس وجہ سے زیدی ان سے دورہوگئے اور وہ پانچ سوسے کم افراد کے ساتھ عباسی سپاہیوں کے مقابلے میںکہ جن کا سردار سلیمان بن ابی جعفر تھا کھڑے ہوگئے آخرکار مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کہ جس کا نام فخ ہے وہاں اپنے دوست اور ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوگئے۔(٢)
امام رضانے فرمایا: کربلا کے بعد فخ سے زیادہ عظیم اور بڑی مصیبت کوئی نہیں تھی،(٣) بطور کلی علوی رہنمائوں کے قیام میںمحمد بن عبداللہ نفس زکیہ کے علاوہ عمومیت کے ساتھ مقبولیت کے حامل نہیں تھے ،شیعیان اور اصحاب ائمہ اطہار میں سے چند تن کے علاوہ ان تحریکوں میں زیادہ شریک نہیں تھے ۔

(ب)قیام محمد بن قاسم
محمد بن قاسم کا خروج ٢١٩ھ میں واقع ہوا وہ امام سجاد کے پوتوں میں سے تھے اور کوفہ میں ساکن تھے یہ علو ی سادات میںعابد و زاہد و پر ہیز گارشمار ہوتے تھے ، معتصم کی
............
(١) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، منشورات شریف الرضی ، طبع دوم ، ١٤١٦ھ١٣٧٤ھ، ص٣٧٢
(٢)ابوالفرج اصفہانی،گزشتہ حوالہ،ص٣٨٠،٣٨١
(٣) کیاء گیلانی ،سید احمد بن محمدبن عبد الرحمٰن،سراج الانساب،منشورات مکتبة آیة اللہ العظمیٰ المرعشی النجفی،قم ،١٤٠٩ھ،ص٦٦
جانب سے فشار بڑھا تو مجبور ہوئے کہ کوفہ چھوڑ کر خراسان کی طرف چلے جائیںیہی فشار قیام کا باعث بنا ،جیسا کہ مسعودی کا بیان ہے اس سال یعنی ٢١٩ھ میں معتصم نے محمد بن قاسم کو ڈرایا وہ بہت زیادہ زاہد اور پر ہیز گار تھے جس وقت معتصم کی جانب سے جان کا خطرہ ہوا تو آپ نے خراسان کی طرف کوچ کیا اور خراسان کے مختلف شہروں جیسے مرو، سرخس طالقان اور نسا میں گھومتے رہے۔(١)
ابوالفرج کے نقل کے مطابق ٤٠ ہزار کے قریب افراد ان کے اطراف میں جمع ہوگئے تھے ایسے حالات میں بھی ان کا قیام کسی نتیجہ کو نہیں پہنچا اور یہ جمعیت ان کے اطراف سے منتشر ہوگئی آخر میں طاہر یوں کے ہاتھوںگرفتار ہوگئے اور اس کے بعد سامرہ کی جانب روانہ ہوئے اور وہیں پران کو زندان میں ڈال دیا گیا۔(٢)
البتہ شیعوں اور اپنے چاہنے والوں کی وجہ سے آزاد ہوگئے لیکن اس کے بعد کوئی خبر ان کے بارے میں نہیں ملتی اور گمنام طریقہ سے دنیا سے چلے گئے۔ (٣)
............
(١)مسعودی،علی بن حسین ،مروج الذہب ،موسسة الاعلمی للمطبوعات ،بیروت،طبع اول ١٤١١ھ: ج٤:ص٦٠
(٢)ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، منشورات الشریف الرضی، قم طبع دوم ، ١٤١٦ھ ص،٤٦٤۔ ٦٤٧
(٣)مسعودی،علی بن حسین ،مروج الذہب ،موسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت،طبع اول : ١٤١١ھ، ج٤،ص١٦٠

(ج)قیام یحییٰ بن عمر طالبی
یحییٰ بن عمر جعفر طیار کے پوتوں میں سے تھے آپ نے کوفہ کے لوگوں میں اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے بلند مقام حاصل کرلیاتھا ،متوکل عباسی اور ترکی فوجیوں کی طرف سے جو ذلت آمیز مظالم آپ پر ہوئے اس کی وجہ سے مجبور ہوئے کہ کوفہ میں ان کے خلاف قیام کریں، جب تک امور کی زمام آپ کے ہاتھ میں تھی آپ نے عدل و انصاف سے کام لیا یہی وجہ ہے کہ کوفہ کے لوگوں میں آپ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوگئی لیکن آپ کا قیام محمد بن عبداللہ بن طاہر کے ہاتھوں شکست کھا گیا اورلوگوں نے آپ کی مجلس عزا میں بہت زیادہ رنج وغم کا مظاہرہ کیا۔ (١)
جیسا کہ مسعودی کاکہنا ہے : دور اور نزدیک کے لوگوں نے ان کے لئے مرثیہ کہا چھوٹے بڑوں نے ان پر گریہ کیا ۔(٢)
ابوالفرج اصفہانی کے مطابق وہ علوی جو دوران عباسی شہید ہوئے تھے ان میں کسی ایک کے لئے بھی اتنے مرثیہ نہیں کہے گئے ۔(٣)
............
(١)مسعودی، علی بن حسین ، مروج الذہب، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت، طبع اول ١٤١١ھ ج ص١٦٠
(٢)مسعودی، علی بن حسین ، مروج الذہب، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت، طبع اول ، ١٤١١ھ ج ص١٦٠
(٣)ابو الفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین،منشورات الشریف الرضی،قم،طبع دوم،١٤١٦ھ،ص٥١١

قیام و انقلاب کے شکست کے اسباب
ان قیام کی شکست کے اسباب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
ایک تو قیادت اور رہبری کا سُست ہونااور دوسرے فوج کا ہم آہنگ نہ ہونا غالباً اس طرح کے انقلاب کے اکثررہنما اور قائد صحیح طریقہ سے پلاننگ نہیں کرتے تھے اور ان کے قیام صحیح طرح سے اسلامی اصول وطریقہ پراستوار نہیں تھے اسی وجہ سے ان میں سے بہت سے انقلاب ایسے تھے کہ جسے امام معصوم کی طرف سے حمایت اور تائید حاصل نہیں تھی، دوسرے بعض قیام کی ناکامی، اگر چہ ان کے رہنما قابل اطمینان اور مؤثق افراد تھے، سبب یہ تھا کہ ان کی پلاننگ ایسی تھی کہ جن کی شکست پہلے سے قابل ملاحظہ تھی ایسی صورت میں اگر امام واضح طور پر ان کی تائید کر دیتے تو قیام کی شکست کے بعد تشیع کی بنیاد اور امامت خطرہ میں پڑ جاتی۔
دوسری طرف یہ قیام آپس میں ہم آہنگ نہیں تھے اگر چہ ان کے درمیان حقیقی اور مخلص شیعہ موجود تھے جو آخری دم تک اپنے مقصدکے حصول کی کوشش کرتے رہے ان میں سے اکثر لوگوں کا ہدف ایمانی نہیں تھا یاتو ان کا علوی رہبروں کے ساتھ توافق نہ ہوسکایازیادہ تر لوگوں نے میدان جنگ میں اپنے کمانڈروں کا ساتھ چھوڑ دیا، علامہ جعفر مرتضیٰ اس بارے میں لکھتے ہیں: ان کی شکست کی علت اس کے علاوہ کچھ نہیں تھی کہ زیدیوں کے قیام سب سے پہلے سیاسی محرکات رکھتے تھے ان کی خصوصیت صرف یہ تھی کہ خاندان پیغمبرۖمیں سے جس نے بھی حکومت کے مقابلے میں تلوارکھینچی اس کو دعوت دیتے تھے، ان کے اندرایمانی فکر اوراعتمادی وجدان نہیں تھا بغیر سوچے سمجھے اٹھ جاتے تھے،اپنے مردہ احساسات اور خشک و فرسودہ ثقافت پراس قدر بھروسہ کرتے تھے کہ احساسات اور وجدان میں ہم آہنگی باقی نہیں رہ گئی تھی کہ ایک مضبوط ومحکم سر چشمہ سے اپنی رسالت و پیغام کو اخذکر سکیں انہیں وجوہ کی بنا پران کی کشتی شکشت کے گرداب میں پھنس جاتی تھی اور جانیں مفت میں تلف ہو جاتی تھیں، بلکہ خود اندرونی طور پر انقلاب سے روکنے کا جذبہ ان میں ابھرتا تھا، ایسی طاقتوں پر اتنا ہی اعتماد تھا جتنا پیاسے کو سراب پر ہوتا ہے ، یہ وہ نکتہ ہے جو واضح کرتا ہے کہ لوگ حادثات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے اور جب پانی سر سے گذر جاتا تھا اور پھل تیار ہو جاتے تھے تو وہ عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔(١)
............
(١) زندگی سیاسی امام جواد علیہ السلام ، ترجمہ سید محمد حسینی ، دفتر انتشارات اسلامی ، قم ، طبع ہشتم ، ١٣٧٥ھ ، ص ١٩