تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
 

چوتھی فصل

شیعوں اور علویوں کا قیام

بنی امیہ کے زمانے میں شیعوں اور علویوںکا قیام
شیعوں کاقیام او ر ان کا مسلحانہ بر تائوکربلا اور قیام عاشورہ سے شروع ہوتا ہے لیکن ہم فی الحال کربلا کی بحث کو دوسری جگہ کے لئے چھوڑتے ہیں ٦٠ھ امام حسین کی شہادت کے بعد دو شیعہ قیام، قیام توابین اور قیام مختار،وجود میںآیا، ان دونوں قیاموں کے رہنما علوی نہیں تھے بلکہ پاک دامن شیعہ تھے ( ہم اس بارے میں اس سے پہلے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں)ان دونوں قیام کی ماہیت جیسا کہ ان کے نعروں سے خود معلوم ہے مکمل طور پرشیعی تھا ،توابین کے رہبروں کے بارے میں اس بات میںکوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ وہ اصحاب پیغمبرۖ اور شیعیان علی میں سے تھے۔ (١)
جناب مختار کے بارے میں بھی علمائے رجال اور بزرگوں کے نظریہ کوتفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے سب ان کی حسن نیت کے قائل ہیںاور ان کے خلاف جو روایات ذکر ہوئی ہیں انہیں جعلی تصورکیا گیاہے۔
............
(١)دکتر سید حسین جعفری ،تشیع در مسیر تاریخ،ترجمہ،دکتر سید محمد تقی آیت اللہی:ص٢٦٨۔٢٧٣
تشیع کے فروغ کے حوالے سے انقلابات کے موثر ہونے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ قیام توابین کا زمانہ بہت کم تھاجس کی وجہ سے تشیع کو ترویج کی فرصت نہیں ملی اگر چہ کیفیت کے لحاظ سے تشیع کے مقاصدبہت زیادہ اہمیت کے حامل تھے اس قیام کی وجہ سے محبت اہل بیت دلوں میں راسخ ہوگئی اور شیعہ اپنے عقیدہ میں شدید اورمستحکم تر ہوگئے لیکن اس بات کی بہ نسبت قیام مختار شیعیت کی توسیع میں زیادہ مؤثر ثابت ہوا اور مختار نے موالیان اور غیر عرب کو بھی شیعوں کی صف میں داخل کردیا حالانکہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔(١)
اس زمانے میں شرق اسلام میں تشیع کی نبیاد پڑی کہ جس کا عروج ہمیں عباسیوں اور سپاہ جامگان کی تحریکوں میں نظر آتا ہے ،بنی امیہ کے آخری دور میں علویوں کی جانب سے جو قیام عمل میں آیا اس کا عباسیوں کے قیام کے ساتھ ایک طرح کارابطہ تھا اس لئے کہ علوی خواہ بنی ہاشم ہو ں یا عباسی ،بنی امیہ کے دور میں متحد تھے اور ان کے درمیان اختلاف نہیں تھا، یہاں تک کہ سفاح اور منصور ان دونوں خلیفہ نے محمد نفس زکیہ سے پہلے امام حسن کی اولاد کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی لیکن عباسیوں کی کامیابی کے بعد یہی محمد اپنے خاندان کے چند افراد کے ساتھ منصور عباسی کے ہاتھوں قتل کردیئے گئے، دوسری صدی ہجری میں علویوں کی جانب سے جو قیام وجود میںآئے وہ زیاد ہ تر زیدی نظریات و عقائد پر استوار تھے ،اگر چہ عباسیوں نے زید کے قیام سے زیادہ فائدہ اٹھایا ، جیسا کہ مؤرخ
معاصر امیر علی اس بارے میں بیان کرتاہے۔
............
(١)جعفریان،رسول ،تشیع در ایران از آغاز تا قرن ہفتم ہجری،شرکت چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی ، طبع پنجم،١٣٧٧ہجری ،ص٧٦
''زید کی موت نے عباسی مبلغین کو تقویت بخشی اور وہ تبلیغیںجو اولاد عباس کی خلافت کے سلسلے میںجاری تھی اس کی تائید کی کیونکہ اس نے احتمالی خطروں کو بھی راستے سے دور کردیا اس ماجرا کو ابو مسلم کے حالات کے ذیل میں بیان کیاگیا ہے جو بنی امیہ کی حکومت کو اکھاڑ نے کے لئے بنائی گئی تھی ''۔(١)

(الف) قیام زید
امام سجاد کے فرزند ارجمند اور امام باقر کے بھائی زید نے اموی خلیفہ ہشام او ر اس کے ظلم کے مقابلے میں قیام کیا، زید عراق کے حاکم یوسف بن عمرو کی شکایت کرنے ہشام کے پاس دمشق گئے تھے، ہشام کے یہاںان کی توہین کی گئی اور شام سے کوفہ واپس آنے کے بعدبہت سے شیعہ ان کے ارد گرد اکٹھا ہوگئے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں قیام کرنے کی انہیںتر غیب کی لیکن جنگ میں تیر کھانے کی وجہ سے ان کا قیام شکست کھاگیا اور خود شہیدہوگئے۔(٢)
زید کی شخصیت اور قیام کے بارے میں متعدد روایتیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے بعض روایتیں ان کی سر زنش پر دلالت کرتی ہیں، لیکن شیعہ علماء اور صاحبان فکر ونظر کا عقیدہ
............
(١)تاریخ عرب اسلام ، امیر علی ،ترجمہ : فخر داعی گیلانی، انتشارات گنجینہ ، تہران ، طبع سوم ، ١٣٦٦ھ ص ١٦٢۔١٦٣
(٢)مسعودی ،علی بن حسین،مروج الذہب،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات،بیروت،١٤١١ھ ج٣، ص٢٢٨۔٢٣٠
یہ ہے کہ زیدایک مردوارستہ اور قابل ستائش فردتھے اور ان کے منحرف ہونے کا ثبوت ہماری دسترس میں نہیں ہے شیخ مفید کا ان کے بارے میںکہنا ہے کہ بعض مذہب شیعہ ان کو امام جانتے ہیںاور اس کی علت یہ ہے کہ زید نے خروج کیااور لوگوں کو رضائے آل محمد ۖ کی طرف دعوت دی، لوگوں نے اس سے یہ مطلب نکالا کہ یہ اپنے بار ے میں کہہ ر ہے ہیںحالانکہ ان کا مقصد یہ نہیں تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی محمد باقر امام برحق ہیں اور خودانہوں نے اپنے بیٹے امام صاد ق کی امامت کی تاکید کی ہے۔(١)
علامہ مجلسی بھی زید سے مربوط روایتیں نقل کرتے ہیں کہ زید کے بارے میں گوناگوںا وراختلافی روایتیںموجودہیں لیکن وہ روایات جوان کی عظمت و جلالت کی حکایت کرتی ہیں اور یہ کہ ان کا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا،وہ بہت زیادہ ہیںاکثر علمائے شیعہ نے زید کی بلندعظمت اور شخصیت کے بارے میںاپنے آرا و نظریات کا اظہار کیا ہے، اس بنا پر مناسب یہ ہے کہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے اور ان کی مذمت نہ کی جائے۔(٢)
آیةاللہ خوئی زید کے بارے میں فرماتے ہیں :روایات زید کی مدح ان کی قدر و منزلت کے بارے میں نیز یہ کہ انہوں نے امر بالمعروف و نہی از منکر کے لئے قیام کیا ہے مستفیض ہیں اور ان کی مذمت میں تمام روایات ضعیف ہیں۔(٣)
............
(١)شیخ مفید محمد بن نعمان، ارشاد ،ترجمہ محمد باقرمساعدی خراسانی،کتاب فروشی اسلامیہ ص٥٢٠
(٢)علامہ مجلسی ، محمد باقر ،بحار الانوار،ج٤٦،ص٢٥٠
(٣) خوئی ،سید ابو القاسم ،معجم رجال حدیث،طبع بیروت ،ج ١٨ص؛١٠٢۔١٠٣
کافی شواہد و ادلہ گواہی دیتے ہیں کہ زید کا قیام امام صادق کی خفیہ اجازت و موافقت سے تھا، ان شواہد میں سے امام رضاکامامون کے جواب میں یہ فرمانا کہ میرے والدامام موسی بن جعفر علیہما السلام نے نقل کیا کہ انہوںنے جعفر بن محمد سے سناتھا کہ زید نے اپنے قیام سے متعلق مجھ سے مشورہ لیا تھاتو میں نے ان سے کہا : اے عمو جان ! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو کناسہ میں پھانسی دی جائے تو آپ کا راستہ صحیح ہے۔(١)
جس وقت زید امام کے حضور سے باہر چلے گئے تو امام نے فرمایا: افسوس ہے اس پرجو زید کی آواز کو سنے اور اس کی مدد کو نہ جائے۔(٢)
زید حقیقی شیعہ اور امام صادق کی امامت کے معتقد تھے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ہر زمانہ میں ہم اہل بیت میں سے ایک شخص لوگوں پر خدا کی حجت ہے اور ہمارے زمانے میں یہ حجت میرے بھائی کے فرزند جعفر بن محمد ہیں جو شخص بھی ان کی پیروی کرے گا وہ گمراہ نہیں ہوگا اور جو بھی ان کی مخالفت کرے گا وہ ہدایت نہیں پائے گا۔(٣)
زید خود کو امام نہیں سمجھتے تھے اور لوگوں سے بھی منع کرتے تھے اس بارے میںامام صادق فرماتے ہیں خدا میرے چچا زید پر رحمت نازل کرے وہ جب بھی
............
(١)کوفہ کے محلہ میں سے ایک محلہ ہے ،حموی ،یاقوت بن عبد اللہ ، معجم البلدان ،دار احیاء التراث العربی،بیروت ،طبع اول ،١٤١٧ہجری،ج٤،ص١٥٣
(٢)صدوق عیون اخبار رضا ،موسسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت ١٤٠٤ہجری ،ج١ ص٢٢٥، باب:٢٥،حدیث:١
(٣)شیخ صدوق ،الامالی،المطبعہ،قم ،١٣٧٣ہجری قمری ،ص٣٢٥
کامیاب ہوتے اپنے وعدے کو وفا کرتے زید نے جن آل محمد ۖ کی طرف دعوت دی ہے وہ میں ہوں۔(١)
امام صادق نے زید کی شہادت کے بعد ان کے خاندان کی سر پرستی فرمائی(٢) جس خاندان کے افراد زید کے ساتھ شہید ہوگئے تھے ان کی نصرت و مدد کی اورایک دفعہ تو ایک ہزار دینار ان کے درمیان تقسیم کیا۔(٣)
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ زید کا قیام توابین و مختار کے قیام کی طرح پوری طرح شیعی او ردرست موقعیت پر استوار تھا نیز ظلم کے مقابلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے تھا ان کی روش فرقہ زیدیہ سے بالکل جداتھی۔

(ب)قیام یحییٰ بن زید
زید کی شہادت کے بعد ١٢١ھ میں ان کے فرزند یحییٰ نے اپنے والد کی تحریک کو آگے بڑھایا اور مدائن کے راستے سے خراسان آئے اور شہر بلخ میں ایک مدت تک ناآشنا طریقہ سے زندگی بسر کی، یہاں تک کہ نصر بن سیار نے ان کو گرفتار کرلیا اور ایک عرصہ تک زندان میں رہے یہاں تک کہ اموی خلیفہ ہشام کے مرنے کے بعد جیل سے فرار
............
(١)شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)تحقیق سید مہدی رجائی ،موسسہ آل البیت الاحیاء التراث،قم ،ہجری،ج ص٢،پیشوائی،مہدی:سیرئہ پیشوایان ،موسسہ امام صادق،قم ،طبع ہشتم ١٣٧٨ھ ، شمسی،ص٤٠٧۔٤٠٩
(٢)اصفہانی ابو الفرج ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم،١٤١٦ہجری ص ٣٣١
(٣)شیخ مفید ،الامالی،المطبعہ،قم ،١٣٧٣ہجری قمری ،ص٣٤٥
ہوگئے، خراسان کے شیعہ کافی تعداد میں ان کے اطراف میں جمع ہوگئے وہ نیشاپور آئے اور وہاںکے حاکم عمر بن زرارہ قسری کے ساتھ جنگ کی اوراس کو شکست دی لیکن آخر کار ١٢٥ ھ میں جوزجان میں بنی امیہ کی افواج سے جنگ کرتے ہوئے آپ کی پیشانی پر تیر لگا اور میدان جنگ میں قتل ہوگئے اور ان کی فوج منتشر ہوگئی۔(١)
قیام زید کے بر خلاف ان کے بیٹے یحییٰ کا قیام کاپوری طرح زیدیہ فرقہ کے مطابق اور اس سے ہماہنگ تھا یہ مطلب متوکل بن ہارون کے درمیان ہونے والی گفتگو سے ظاہر ہے کہ جو امام صادق کے اصحاب میں سے تھے وہ ایک طرح سے اپنے باپ کی امامت کے قائل تھے اور خود کو اپنے باپ کا جانشین سمجھتے تھے، امامت کے تمام شرائط کے ساتھ وہ تلوار سے جنگ کرنے کو بھی امامت کے شرائط میںسے جانتے تھے۔ (٢)
یہاں سے فرقہ زیدیہ کی بنیاد پڑتی ہے ان کا راستہ اور شیعہ اثنا عشری سے بالکل جدا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ فقہی مسائل میں بھی ائمہ معصومین کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے ۔
............
(١)ابن واضح، تاریخ یعقوبی،منشورات شریف رضی،قم ،١٤١٤ہجری ،ج٢،ص٣٢٦،٣٢٧،٣٣٢
(٢)متوکل بن ہارون کہتے ہیں: یح بن زید اپنے باپ کی شہادت کے بعد جب خراسان جا رہے تھے تو میں نے ان سے ملاقات کی ،میں نے سلام کیا انہوں نے پوچھا تم کہاں سے آرہے ہو؟ میں نے کہا: حج سے، پھرانہوں نے مدینہ میں اپنے عزیز و اقارب کے بارے میں پوچھا نیزجعفر بن محمد کے بارے میں بہت سے سوالات کئے، میں نے حضرت کے بارے میں زید کی شہادت کے بعد جوصدمہ و غم تھا اسے بتایا، یح نے کہا: میرے چچا محمد بن علی الباقر علیہ السلام نے بنی امیہ کے خلاف جنگ کرنے سے میرے والد کو منع کیا تھا اور انجام سے با خبر کیا تھا ، کیا تم نے میرے بھائی جعفر بن محمد سے بھی ملاقات کی، میں نے کہا: ہاں ، پوچھا میرے بارے میں بھی انہوں نے کچھ کہا ہے ؟میں نے کہا : انہوںنے جو کچھ کہا ہے اسے میں آپ کے سامنے بیان نہیں کر سکتا ، کہنے لگے ،مجھے موت سے نہ ڈرائو جو کچھ سنا ہے اسے بیان کرو، میں نے بتا یا کہ حضرت نے فرمایاتھا
کہ آپ کو قتل کر کے سولی پر لٹکا دیاجائے گاجس طرح آپ کے والد کو شہید کر کے سولی پر لٹکا دیا گیا تھا، یحکا رنگ متغیر ہو گیا کہا : (یمحواللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب)اے متوکل! خدا نے اپنے دین کی تائید ہمارے ذریعہ کرائی ہے ، علم و تلوار کا دھنی ہمیں بنایا ہے اور یہ دونوں چیزیں مجھ میں موجود ہیں لیکن ہمارے چچازادبھائیوں کو صرف علم دیا ہے ، میں نے کہا :میں آپ پر قربان جائوں لیکن لوگ تو آپ سے زیادہ جعفر بن محمد کی طرف راغب ہیں کہنے لگے: میرے چچا محمد بن علی اور جعفر بن محمد لوگوں کو زندگی کی دعوت دیتے ہیں اور ہم لوگوں کوموت کی طرف دعوت دیتے ہیں ، میںنے کہا :فرزند رسول! آپ زیادہ جانتے ہیں یا وہ لوگ ، تھوڑی دیر سر جھکا کر سوچتے رہے پھر کہا : ہم سب علم و دانش رکھتے ہیں سوائے اس کے کہ ہم جو کچھ جانتے ہیں اسے وہ جانتے ہیں مگر وہ جو جانتے ہیں ہم اسے نہیںجانتے ، پھر سوال کیا گیا : میرے بھائی کی کوئی چیز تمہارے پاس محفوظ ہے ؟ میں نے کہا : ہاں میں نے حضرت کی کچھ حدیث اور صحیفہ سجادیہ کی کچھ دعائیںدکھائیں … ( صحیفہ کاملہ سجادیہ ، ترجمہ علی نقی فیض الاسلام ،انتشارات فیض الاسلام ، ص ٩۔ ١٢