عباسیوں کے زمانے میں شیعوں کی کثرت کے ا سباب
شیعیت عباسیوں کے دور میں روز بروز بڑھتی گئی اس مسئلہ کے کچھ عوامل واسباب ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
(١)ہاشمی اور علوی بنی امیہ کے زمانے میں:
بنی امیہ کے دور میں ہاشمی چاہے علوی ہوں یا عباسی متحد تھے اور ہشام کے زمانے سے عباسیوں کی تبلیغ شروع ہوگئی تھی وہ زید اور ان کے فرزند یحییٰ کے قیام کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے تھے انہوں نے تشیع کی بنیاد پر اپنے کام کا آغاز کر دیا تھا جیساکہ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے :
جس وقت اموی خلیفہ ولید بن یزید قتل ہوااور مروانیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا تو بنی ہاشم کے مبلغین مختلف علاقے میں ہجرت کر گئے اور سب سے پہلے جس چیز کا اظہار کیا وہ حضرت علی کی افضلیت اور ان کے فرزندوں کی مظلومیت تھی ۔
منصور عباسی جو حدیث غدیر کے راویوں میں سے ایک تھا(١)جس وقت عباسی سپاہیوںنے علویوں کے مقابلہ میں ان کی سیاست کو دیکھا تواس کو قبول نہیں کیا اوران کا عباسیوں کے ساتھ اختلاف پیدا ہوگیا، ابو سلمہ خلال جو عراق میں عباسیوںکی جانب لوگوں کو دعوت دینے والا تھا۔(٢)
علویوں کی طرف میلان کی وجہ سے عباسیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا(٣)اگر چہ یہ شخص عقیدہ کے اعتبار سے شیعہ نہیں تھا مگر خاندان پیغمبر ۖ سے جواس کو لگائو تھا اس سے
انکار نہیں کیا جا سکتا، خاص کرقبیلۂ حمدان سے اور کوفہ کا رہنے والا تھا۔(4)
............
(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، منشوارات شریف رضی، قم ١٤١٦ھ ص ٢٠٧
(٢) خطیب بغدادی،تاریخ بغداد،دارالکتب العلمیہ بیروت طبع اول ١٤١٧ھ ج١٢،ص ٣٤٠
(٣) ابراہیم کی موت کے بعد ابو سلمہ( خلال کہ جو عراقیوںکو عباسیوں کی جانب سے دعوت دینے والا تھااور بعد میں سفاح کا وزیر بھی بنا) عباسیوں سے منصرف ہو گیا اور سادات
علوی میں سے جعفر بن محمد الصادق ، عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی اور عمرالاشرف بن زیدالعابدین کے پاس خط لکھا اور اپنے نامہ بر سے کہا: سب سے پہلے جعفر بن محمد کے پاس جانا اگر وہ قبول کرلیں تو بقیہ دونوں خطوط کے لے جانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر وہ قبول نہ کریں تو عبد اللہ محض کے پاس جانا اور اگر وہ بھی قبول نہ کریں تب عمرالاشرف کے پاس جانا ، نامہ بر سب سے پہلے مام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، نامہ دیا امام نے فرمایا : ابو سلمہ دوسروں کا محب اور چاہنے والاہے مجھے اس سے کیا کام ، نامہ بر نے کہا: خط تو پڑھ لیجیے امام نے خادم سے چراغ منگوایا اور خط کو جلا دیا ، نامہ بر نے کہا: جواب نہیں دیجیے گا؟ امام نے فرمایا : جواب یہی ہے جو تم نے دیکھا ہے ، ابو سلمہ کا نمایندہ عبد اللہ بن حسن کے پاس گیا اور خط دیا عبد اللہ نے جیسے ہی خط پڑھا خط کو بوسہ دیا فوراً امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: یہ ہمارے چاہنے والے شیعہ ابو سلمہ کا خط ہے ، خراسان میںمجھے خلافت کی دعوت دی ہے امام نے فرمایا :خراسان کے لوگ کب سے تمہارے چاہنے والے ہو گئے ہیں کیا ابو مسلم کو تم نے ان کی جانب روانہ کیا ہے ؟کیا تم ان میں سے کسی کو پہچانتے ہو؟ تم نہ انہیں جانتے ہو اور نہ وہ تمہیں جانتے ہیں تو پھر وہ کیسے تمہارے چاہنے والے ہیں ؟ !عبد اللہ نے کہا :آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آپ ان ساری باتوں سے واقف ہیں ، امام نے فرمایا :خدا جانتا ہے میں ہر مسلمان کی بھلائی چاہتا ہوں تمہاری بھلائی کیوں نہ چاہوں ، اے عبد اللہ! ان باطل آرزوئوں کو چھوڑ دو اور اس بات کو جان لو! کہ یہ حکومت بنی عباس کی ہے ایسا ہی خط میرے پاس بھی آچکا ہے، عبد اللہ وہاں سے ناراض ہو کر واپس آگئے عمر بن زیدالعابدین نے بھی ابو سلمہ کے خط کو رد کر دیا اور کہا: میں خط بھیجنے والے کو نہیں جانتا کہ جواب دوں
ابن طقطقا ، الفخری ، صادر بیروت ١٣٦٨ھ ص ١٥٤، اور مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذہب ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ج ٤ ، ص ٢٨٠
(4) امین سید محسن ، اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبو عات ، بیروت ، ج١ ،ص ١٩٠
قحطانی قبائل کے درمیان قبیلۂ حمدان تشیع میں سب سے آگے تھا چنانچہ سید محسن امین نے اس کو وزراء شیعہ میں شمار کیا ہے،(١)حتیٰ شروع میںخود عباسیوں نے بھی ذریت پیغمبرۖ کی محبت سے انکار نہیں کیا ہے جیسا کہ لکھا ہے :جس وقت بنی امیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد کا سر ابوالعباس سفاح کے سامنے لایا گیا تو وہ طولانی سجدہ بجالایا اور اس نے سر کو اٹھا کر کہا: حمد اس خدا کی جس نے مجھے تیرے اوپر کامیابی عطا کی، اب مجھے اس بات کاغم نہیں ہے کہ میں مر جائوں کیونکہ میں نے حسین اوران کے بھائی اور دوستوں کے مقابلہ میں بنی امیہ کے دو سوافراد کو قتل کردیا، اپنے چچا کے بیٹے زید بن علی کے بدلے میں ہشام کی ہڈیوں کو جلا دیااور اپنے بھائی ابراہیم کے بدلے میں مروان کو قتل کردیا۔(٢)
جب عباسیوں کی حکومت مضبوط و مستحکم ہوگئی توان کے نیز خاندان پیغمبرۖ اور شیعوں کے درمیان فاصلہ ہوگیا،منصور عباسی کے زمانے سے عباسیوں نے پیغمبرۖ کی ذریت کے ساتھ بنی امیہ کی روش اختیا ر کی، بلکہ خاندان پیغمبرۖ سے دشمنی میں بنی امیہ سے بھی آگے بڑھ گئے۔
............
(١)امین سید محسن ، اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبو عات ، بیروت ، ج١ ،ص ١٩٠
(٢)مسعودی علی بن حسین ،مروج الذھب، ص ٣٨٣۔٢٨٤
(٢)بنی امیہ کا خاتمہ اور عباسیوں کا آغاز
اموی دور حکومت کے ختم ہونے اور عباسیوں کی حکومت آنے کے بعداور ان کے
درمیان جنگ و جدال کی وجہ سے امام باقر و امام صادق کو فرصت مل گئی انہوں نے تشیع کے مبانی کوپہچنوانے میںغیر معمولی فعالیت وسر گرمی انجام دیں ،خاص طور پر امام صادق نے مختلف شعبوں اور مختلف علوم میں بہت سے شاگردوں کی تر بیت کی ممتاز دانشور جیسے ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ،ابان بن تغلب،ہشام بن سالم مومن طاق ، مفضل بن عمر، جابر بن حیان وغیرہ نے حضرت کے محضر میں تر بیت پائی تھی ،شیخ مفیدکے قول کے مطابق ان کے موثقین (معتمدین )کی تعداد چار ہزار تھی،(١)مختلف اسلامی سر زمین کے لوگ امام کے پاس آتے تھے اور امام سے فیض حاصل کرتے تھے اور اپنے شبہات کو برطرف کرتے تھے ،حضرت کے شاگرد مختلف مناطق اور شہروںمیں پھیلے ہوئے تھے، فطری بات ہے کہ یہ لوگ مختلف مناطق میں تشیع کے پھیلانے کا سبب بنے ۔
(٣)علویوں کی ہجرت
عباسیوں کے دور میںتشیع کے پھیلنے کے سلسلہ میں ،سادات اور علویوں کا مختلف مقامات پر ہجرت کرجانا بھی ایک اہم سبب بنا ،ان میں اکثر تشیع نظریات کے حامل تھے اگر چہ ان میں سے کچھ زیدی مسلک کی طرف چلے گئے تھے یہاں تک کہ بعض منابع کے نقل کے مطابق سادات کے درمیان ناصبی بھی موجود تھے۔(٢)
یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سادات میں اکثر شیعہ تھے اورشیعہ مخالف
............
(١)شیخ مفید ،الارشاد ،ترجمہ محمد ساعدی خراسانی، کتاب فروشی اسلامیہ ،١٣٦٧ھ ش ،ص ٥٢٥
(٢)ابن عنبہ، عمدة الطالب، مطبعةالحیدریہ نجف١٩٦١ص٧١،٢٢٠۔٢٥٣
حکومت کے ذریعہ ان پرجو مصیبتیںپڑیںان کی وجہ بھی واضح ہے،اکثراسلامی سرزمینوںمیںسادات تھے، ماوراء النہر اور ہندوستان سے لے کر افریقہ تک پھیلے ہوئے تھے اگر چہ یہ ہجرت حجاج کے زمانے سے شروع ہوگئی تھی عباسیوں کے زما نے میں علویوں کی طرف سے جو قیام ہواان میںسے زیادہ تر میںشکست ہوئی اور بہت نقصان ہوا ، شمال ایران، گیلان ،مازندران نیز خراسان کے پہاڑی اور دور افتادہ علاقہ علویوں کے لئے امن کی جگہ شمار ہوتے تھے ،سب سے پہلی بار ہارون رشید کے زمانے میں یحییٰ بن عبد اللہ حسنی مازندران کی طرف گئے کہ جو اس زمانے میں طبرستان کے نام سے مشہور تھا ،جب انہوںنے قدرت حاصل کرلی اور ان کے کام میں کافی ترقی پیدا ہوگئی توہارون نے اپنے وزیر فضل بن یحییٰ کے ذریعہ امان نامہ لکھ کر صلح کے لئے وادار کیا۔(١)
اس کے بعدوہاں کافی تعداد میں علوی آباد ہوگئے اور روز بروز شیعیت کو فروغ ملتا گیا اور وہاںکے لوگوں نے پہلی بار علویوں کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اورتیسری صدی ہجری کے دوسرے حصہ میں علویوں کی حکومت طبرستان میں حسن بن زید علوی کے ذریعہ تشکیل پائی اس زمانے میں سادات کے لئے یہ جگہ مناسب سمجھی جاتی تھی، جیسا کہ ابن اسفند یار کا بیان ہے کہ اس موقع پر درخت کے پتوں کے مانند علوی سادات اور بنی ہاشم حجازنیز اطراف عراق وشام سے ان کی خدمت میں جمع ہوگئے سبھی کو عزت و شرف سے
............
(١)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین،منشورات شریف الرضی ،قم ، پہلی اور دوسری طبع،١٤١٦، ١٣٧٤، ص٣٨٩،٣٩٥
بہت بہت نوازااور ایساہوگیا تھاکہ جب وہ کہیں جاناچاہتا تھا تین سو شمشیر بکف علوی اس کے ارد گرد صف بستہ ہوتے تھے۔(١)
جس وقت امام رضا مامون کے ذریعہ ولایت عہدی کے منصب پر پہنچے، حضرت کے بھائی اور ان کے قریبی افرادایران کی طرف روانہ ہوئے جیسا کہ مرعشی نے لکھا ہے: سادات نے ولایت کی آواز اور اس عہد نامہ پر کہ جو مامون کی طرف سے آنحضرت کی امامت کا پروانہ تھا اس طرف رخ کیاآنحضرت کے اکیس دوسرے بھائی تھے یہ تمام بھائی اور چچا زاد بھائی حسنی اور حسینی سادات میں سے تھے جہوںنے ری اور عراق میں حکومت کی ، جب سادات نے یہ سنا کہ مامون نے حضرت امام رضا سے غداری کی ہے تو انہو ںنے کوہستان دیلمستان اور طبرستان میں جاکر پناہ لی اور بعض لوگ وہیں شہید ہوگئے ، ان کی قبریں اور مزار مشہور ہیں،جیسیاہل اصفہان مازندران کہ جنہوںنے شروع میں اسلام قبول کیا تھا وہ سب کے سب شیعہ تھے اور اولاد رسول ۖ سے حُسن عقیدت رکھتے تھے اور سادات کے لئے وہاں قیام کرنا آسان تھا۔(٢)
شہید فخ کے قیا م کی شکست کے بعد ہادی عباسی کے دور خلافت میں حسین بن علی حسنی، ادریس بن عبد اللہ محمد نفس زکیہ کا بھائی افریقہ گئے تو وہاں پرلوگ ان کے اطراف ہیں جمع ہوگئے اورانہوں نے حکومت ادریسیان کی مغرب میں بنیاد ڈالی، چند روز نہیں گذرے تھے کہ خلافت کے کارندوں کے ذریعہ انہیں زہر دے دیا ہوگیا، لیکن
............
(١)تاریخ طبرستان و رویان ، ص ٢٩٠
(٢)مرعشی ،تاریخ طبرستان و رویان و مازندران ،نشتر گسترہ ،تھران ١٣٦٣،٢٧٧ و٢٧٨
ان کے بیٹوں نے وہاں پرتقریباً ایک صدی حکومت کی،(١)اس طرح سادات نے اس طرف کا رخ کیا اسی وجہ سے متوکل عباسی نے ایک نامہ مصر کے حاکم کو لکھا کہ سادات علوی میں مردوں کوتیس دینار اور عورتوں کو پندرہ دینارکے بدلے نکال باہر کرے لہذایہ لوگ عراق منتقل ہوگئے اور وہاں سے مدینہ بھیج دئے گئے۔(٢)
منتصر نے بھی مصر کے حاکم کو لکھا کہ کوئی بھی علوی صاحب ملکیت نہ ہونے پائے اور گھوڑے پر سوار نہ ہونیز پائے تخت سے کسی دوسرے علاقہ میں کوچ نہ کرنے پائے اور ایک غلام سے زیادہ رکھنے کا انہیں حق حاصل نہ ہو۔ (٣)
علویوں نے تیزی سے لوگوں کے درمیان خاص مقام پیدا کر لیا اس حد تک کہ حکومت سے مقابلہ کر سکیں جیسا کہ مسعودی نقل کرتا ہے:
٢٧٠ھ کے آس پاس طالبیوں میں سے ایک شخص بنام احمد بن عبد اللہ نے مصر کے منطقہ صعید میں قیام کیا لیکن آخر میں احمد بن طولان کے ہاتھوں شکست کھائی اور قتل ہوگیا۔(٤)
............
(١) ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین،منشورات شریف الرضی ،قم پہلی اور دوسری طبع ١٤١٦، ١٣٧٤، ص٤٠٦،٤٠٩
(٢)ادام تمدن اسلامی در قرن چہارم ہجری،ترجمہ علی رضا ذکاوتی،قرا گزلو،موسسہ انتشارات امیر کبیر،تہران ١٣٦٤ھ،صفحہ٨٣،الولاة والقضاة کندی کے نقل کے مطابق،ص ١٩٨
(٣)الولاة والقضاةکندی،ص ٢٠٣،٢٠٤
(٤)مسعود ی ،علی بن حسین مروج الذہب موسسة الاعلمی للمطبوعات ،بیرو ت ،طبع اول ١٤١١ہجری ج٤، ص ٣٢٦
یہی وجہ ہے کہ عباسی دور خلافت میںان کے اہم ترین رقیب اور دشمن علوی شمار ہوتے تھے ٢٨٤ھ میں معتضد خلیفئہ عباسی نے ارادہ کیا کہ یہ دستورصادر کرے کہ منبر پر معاویہ کو نفرین(لعنت )کی جائے اور اس بارے میں اس نے حکم لکھا لیکن اس کے وزیر نے ہنگامہ ہونے سے ڈرایا،معتضد نے کہا: میں ان کے درمیان شمشیر سے کام لوں گاوزیر نے جواب دیا: اس وقت ان طالبیان کے ساتھ کیا کرے گا جو ہر طرف سے نکل رہے ہیں اور خاندان پیغمبرۖ سے دوستی کی بنا پرلوگ ان کے حامی ہیں ،یہ تیرا فرمان ان کے لئے لائق ستائش اور قابل قبول ہوگا اور جیسے ہی لوگ سنیں گے ان کے طرفداراور حامی ہو جائیںگے۔(١)
علوی جس منطقہ میں بھی رہتے تھے مورد احترام تھے اسی وجہ سے لوگ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی قبروں پر مزار اور روضے تعمیر کرتے تھے اور ان کی زندگی میں ان کے اطراف جمع ہوتے تھے جس وقت محمد بن قاسم علوی معتصم کے دور میں خراسان تشریف لے گئے مختصر سی مدت میں چالیس ہزار افراد اس کے اطراف جمع ہوگئے اور ان کوایک مضبوط قلعہ میں جگہ دی۔(٢)
چونکہ ایک طرف علوی پاک دامن اور پرہیز گار افراد تھے جب کہ اموی اور عباسی حاکموں کا فسق و فجور لوگوں پر روشن تھا دوسری طرف ان کی مظلومیت نے لوگوں کے
............
(١)طبری ،ابی جعفر، محمد بن جریر،تاریخ طبری دارلکتب علمیہ بیروت طبع دوم،١٤٠٨ہجری ج، ص٦٢٠۔٦٢٥
(٢)مسعودی،علی بن حسین ،مروج الذھب، ص٦٠
دلوں میں جگہ بنالی تھی جیساکہ مسعودی نے نقل کیا ہے :جس سال یحییٰ بن زید شہید ہوئے اس سال خراسان میں جو بھی بچہ پیدا ہوا اس کا نام یحییٰ یا زید رکھاگیا۔(١)
سادات کی ہجرت کے اسباب
سادات کے مختلف اسلامی علاقے میں ہجرت کرنے اور پھیلنے کے تین اسباب بیان کئے جاسکتے ہیں :
جنگوںمیں علویوں کی شکست ،حکومتی دبائو،ہجرت کے لئے مناسب موقع کا فراہم ہونا۔
(١)علویوں کے قیام کی شکست
جنگوں میں شکست کھانے کی وجہ سے ان کے لئے عراق اور حجاز میں زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا تھا جو اس وقت مرکز خلافت بغداد کے کنٹرول میں تھا لہٰذا وہ مجبور ہوئے کہ دور دراز کے علافوں میں ہجرت کرجائیں اور اپنی جان بچائیں جیسا کہ محمد نفس زکیہ کے بھائیوں کے منتشر کے بارے میںمسعودی کا کہنا ہے: محمد نفس زکیہ کے بھائی اور بیٹے مختلف شہروں میں منتشرگئے اور لوگوں کو ان کی رہبری کی طرف دعوت دی ان کا بیٹا علی بن محمد مصر گیا اور وہاں قتل کردیاگیا ان کا دوسرا بیٹا عبداللہ خراسان گیا اور وہاں سے سندھ کی طرف کوچ کیا اور سندھ میں اسے قتل کردیاگیا،ان کا تیسرا بیٹا حسن یمن پہونچا
............
(١)مسعودی،علی بن حسین ،مروج الذھب، ج٣،ص٢٣٦
زندان میں ڈال دیا گیا اوروہیں دنیا سے چل بسا ، ان کے ایک بھائی موسیٰ جزیرہ گئے او ر ایک بھائی یحییٰ ری اور وہاں سے طبرستان تشریف لے گئے نیز ایک دوسرے بھائی ادریس مغرب کی طرف روانہ ہوئے تولوگ ان کے اطراف جمع ہونا شروع ہو گئے۔(١)
(٢)حکومتی دبائو
حجاز و عراق کے علاقہ جو مر کز حکومت سے نزدیک تھے جس کی وجہ سے یہاں کے علوی افراد ہمیشہ حکومت کے فشار میں تھے مسعودی کے بقول محمد بن قاسم کا کوفہ سے خراسان کی جانب کوچ کرنامعتصم عباسی کے دبائو کی وجہ سے تھا ۔ (٢)
(٣)مناسب موقع کا فراہم ہونا
علویوں کی ہجرت کے اسباب میں سے ایک سبب قم اور طبرستان کے علاقے میں ان کے لئے اجتماعی لحاظ سے بہترین موقعیت کا پایا جانا ہے۔
............
(١)مسعودی،علی بن حسین ، مروج الذھب ،ج٣،ص٣٢٦
(٢)مسعودی،علی بن حسین ، مروج الذھب ،ج٤،ص٦٠
|