(ج) تشیع عصرامام باقر اور امام صادق علیہما السّلام میں
امام محمد باقر ـ کی امامت کا دوسرا دور اور امام صادق علیہما السّلام کی امامت کا پہلا دور عباسیوںکی تبلیغ اور علویو ں کے قیام سے متصل ہے علویوں میں جیسے زید بن علی ، یحییٰ بن زید ، عبداللہ بن معاویہ کہ جوجعفر طیّار کے پوتے ہیں۔ (١)
عباسیوں میں رہبری کا دعوی کرنے والے ابو مسلم خراسانی کا خراسان میں قیام جو لوگوں کو بنی امیہ کے خلاف ابھاررہے تھے۔(٢)
دوسری طرف بنی امیہ آپس میںاپنے طرفداروںکے درمیان مشکلات واختلافات کاشکار تھے اس لئے کہ بنی امیہ کے طرفداروں میں مصریوں اور یمنیوں کے درمیان بہت زیادہ اختلاف تھا، یہ مشکلات اور گرفتاریا ں سبب واقع ہوئیں کہ بنی امیہ شیعوں سے غافل ہو گئے جس پر شیعیوں نے سکون کا سانس لیا اور شدید تقیہ کی حالت سے باہر آئے تاکہ اپنے رہبروں سے رابطہ برقرار کر یں اور دوبارہ منظم ہوں،یہ وہ دور تھا کہ جس میں لوگ امام باقر کی طرف متوجہ ہوئے اور ان نعمتوں سے بہرہ مند ہوئے کہ جس سے برسوں سے محروم تھے، حضرت نے مکتب اہل بیت کو زندہ رکھنے کے لئے قیام کیا اور لوگوں کی ہدایت کے لئے مسجد نبی ۖ میں درسی نششتیں اورجلسے تشکیل دیئے جو کہ لوگوں کے رجوع کرنے کا محل قرار پایا ان کی علمی اور فقہی مشکلات کواس طرح حل کرتے تھے کہ جو ان کے لئے حجت ہو ،قیس بن ربیع نقل کرتے ہیں کہ میں
............
(١) مقاتل الطالبین، منشورات الشریف الرضی ، قم ،ج٢ ص ٣٣٢
(٢)تاریخ یعقوبی، منشورات الشریف الرضی ، قم ،ج٢ ص ٣٣٣
نے ابواسحاق سے نعلین پرمسح کرنے کے متعلق سوال کیا اس نے کہا :میں بھی تمام لوگوں کی طرح نعلین پر مسح کرتا تھا یہاں تک کہ بنی ہاشم کے ایک شخص سے ملاقات کی کہ میں نے ہر گز اس کے مثل نہیں دیکھا تھا اوراس سے نعلین پر مسح کرنے کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے مجھے اس کام سے منع کیا اور فرمایا امیر المو منین نعلین پر مسح نہیںکرتے تھے اس کے بعد میں نے بھی ایسا نہیں کیا ، قیس بن ربیع کہتے ہیں : یہ بات سننے کے بعد میں نے بھی نعلین پر مسح کرنا ترک کردیا۔
خوارج میں سے ایک شخص امام مُحمّد باقر کی خدمت میں آیا اور حضر ت کو مخاطب کر کے کہا: اے ابا جعفر !کس کی عبادت کرتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: خُدا کی عبادت کرتا ہوں،اس شخص نے کہا :کیا اس کو دیکھا ہے؟ فرمایا: ہاں لیکن دیکھنے والے اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے بلکہ بہ چشم قلب حقیقت ایمان سے اس کو دیکھا جا سکتا ہے، قیاس سے اس کی معرفت نہیں ہو سکتی حواس کے ذریعہ اس کو درک نہیں کیاجا سکتا،وہ لوگوں کی شبیہ نہیں ہے،وہ خارجی شخص امام کی بارگا ہ سے یہ کہتا ہوا نکلا کہ خُدا خوب جانتا ہے کہ رسالت کو کہاں قرار دے ۔
عمر و بن عبید ،طاؤس یمانی ،حسن بصری ، ابن عمرکے غلام نافع ،علمی وفقہی مشکلات کے حل کے لئے امام کی خدمت میں حاضر ہو تے تھے۔(١)
امام محمد باقر علیہ السلام جس وقت مکہ میں آتے تھے تو لو گ حلال و حرام کو جاننے کے لئے امام کے پاس آتے تھے اور حضرت کے پاس بیٹھنے کی فرصت کو غنیمت شمار کرتے تھے اور اپنے علم ودانش میں اضافہ کرتے تھے۔ سر زمین مکہ پر آپ کے حلقہ درس
............
(١)حیدر ، اسد،امام صادق و مذاہب اربع، دار الکتاب العربی ، طبع سوم ، ج١ ص ٤٥٢۔٤٥٣
میں طالب علموں کے علاوہ اس زمانہ کے دانشمند بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ (١)
جس وقت ہشام بن عبد الملک حج کے لئے مکہ آیااور حضرت کے حلقۂ درس کو دیکھا تو اس پر یہ بات گراں گذری اس نے ایک شخص کو امام کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ امام سے یہ سوال کرے کہ لوگ محشر میں کیا کھائیں گے؟ امام نے جواب میں فرمایا: محشر میں درخت اور نہریں ہوںگی جس سے لوگ میوہ کھائیںگے اور نہر سے پانی پئیں گے یہاںتک کہ حساب و کتاب سے فارغ ہوجائیں،ہشام نے دوبارہ اس شخص کو بھیجا کہ وہ امام سے سوال کرے کہ کیامحشر میں لوگوں کو کھانے پینے کی فرصت ملے گی ؟ امام نے فرمایا:جہنم میں بھی لوگوں کو کھانے پینے کی فرصت ہوگی اور اللہ سے پانی اور تمام نعمتوں کی درخواست کریں گے۔
زُرارہ کا بیان ہے امام باقرکے ہمراہ کعبہ کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا امام روبقبلہ تھے اور فرمایا: کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے اس وقت ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کعب الاحبارکا کہنا ہے کہ کعبہ بیت المقدس کو ہر روز صبح کو سجدہ کرتا ہے، حضر ت نے فرمایا: تم کیا یہ کہتے ہو اس شخص نے کہا :کعب سچ کہتا ہے، ا مام ناراض ہو گئے اور فرمایا: تم اور کعب دونوں جھو ٹ بو لتے ہو ۔(٢)
حضرت کے محضراقدس میں بزرگ علمائ،فقہا اور محدّثین نے تربیت پائی ہے جیسے زُرارہ بن اعین کہ جن کے بارے میں امام صادق نے فرمایاہے: اگر زُرارہ نہ
............
(١)علامہ مجلسی ، محمد باقر ،بحار الانوار،مکتبة الاسلامیہ، ج ٢٦، ص ٣٥٥
(٢)حیدر ، اسد ، امام صادق و مذاھب اربعہ ، دار الکتاب العربی ، طبع سوم ، ج ١ ص ٤٥٢۔ ٤٥٣
ہوتے تو میر ے والد کی احادیث کے ختم ہو جانے کا احتمال تھا۔ (١)
محمدبن مسلم نے امام محمد باقرسے تیس ہزار حدیثیں سنی تھیں (٢) ابو بصیر جن کے بارے میں امام صادق ـنے فرمایا:اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو آثار نبوت پرانے ہو جاتے یا قطع ہو جاتے(٣) اور دوسرے بزرگ جیسے یزید بن معاویہ عجلی ،جابر بن یزید ، حمران بن اعین ، ہشّام بن سالم حضر ت کے مکتب کے تربیت یافتہ تھے ، شیعہ علماء کے علاوہ بہت سے علمائے اہل سنّت بھی امام کے شاگرد تھے اور حضرت سے روایتیں نقل کی ہیں، سبط ابن جوزی کہتا ہے :جعفر اپنے باپ کے حوالے سے حدیث پیغمبر ۖ نقل کرتے تھے، اسی طرح تا بعین کی کچھ تعداد نے جیسے عطا بن ابی رباح، سفیان ثوری ، مالک بن انس (مالکی فرقہ کے رہنما) شعبہ اور ابو ایوب سجستانی نے حضرت کی طرف سے حدیثیں نقل کی ہیں(٤)خلاصہ یہ کہ حضرت کے مکتب سے علم فقہ وحدیث کے ہزاروںعلماء و ماہرین نے کسب فیض کیا اور ان کی حدیثیں تمام جگہ پھیلیں بزر گ محدّث جابر جعفی نے ستّر ہزارحدیثیں حضرت سے نقل کی ہیں (٥) حضرت نے ١١٤ھ میں ساتویں ذی الحجہ کوشہادت پائی ۔ (٦)
............
(١)شیخ طوسی اختیارمعرفة الرجال،ج ١ ص ٣٤٥
(٢)شیخ طوسی ، اختیا ر معرفة الرجال ،ج ١ ص ٣٨٦
(٣)شیخ طوسی ، اختیا ر معرفة الرجال ،ج ١ ص٣٩٨
(٤) ابن جوزی ، تذکرة الخواص ، منشورات شریف الرضی ، قم ، ١٣٧٦ھ ش، ١٤١٨ھ ص ٣١١
(٥) تاریخ الشیعہ ، ص ٢٢
(٦)کلینی، اصول کافی ،دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ١٣٦٣ھ ش، ج١ ص ٧٢
جعفریہ یونیورسٹی
امام صادق کوایک مناسب سیاسی موقع فراہم ہوا تھا کہ جس میں انہوںنے اپنے والد کی علمی تحریک کو آگے بڑھایا اور ایک عظیم یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی کہ جس کی آوازپورے آفاق میں گونج گئی ۔
شیخ مفید لکھتے ہیں : حضرت سے اتنی مقدار میں علوم نقل ہوئے کہ زبان زدخلائق تھے امام کی آواز تمام جگہ پھیل گئی تھی، خاندان پیغمبر ۖ میں سے کسی فرد سے اتنی مقدار میں علوم نقل نہیں ہوئے ہیں ۔(١)
امیر علی حضرت کے بارے میں لکھتے ہیں : علمی مباحث اور فلسفی مناظروں نے تمام مراکز اسلامی میں عمومیت پیدا کرلی تھی اور اس سلسلے میںجو رہنمائی اور ہدایت دی جاتی تھی وہ فقط اس یونیورسٹی کی مرہون منت تھی جو مدینہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے زیر نظر تھی ،آپ امیر المومنین کی اولاد میں سے تھے نیز ایک عظیم وبزرگ دانشور تھے کہ جن کی نظر دقیق اور فکر عمیق تھی اس دور میں تمام علوم کے متبحرتھے، در حقیقت اسلام میں دانشکدئہ شعبۂ معقولات کے بانی تھے۔ (٢)
اس بنا پر علم و دانش کے چاہنے والے اور معارف محمدیۖ کے تشنہ لب افراد جوق در جوقمختلف اسلامی سر زمینوں سے امام کی طرف آتے اور تمام علوم و حکمت کے
............
(١)شیخ مفید ، الارشاد ، ترجمہ ، محمد باقر ساعدی ، خراسانی ، کتاب فروشی الاسلامیہ ،تہران ١٣٧٦ھ ش ، ص ٥٢٥
(٢) امیر علی ، تاریخ عرب و اسلام،ترجمہ فخر داعی گیلانی ،انتشارات گنجینہ ، تہران ، ١٣٦٦ ھ ،ش، ص ٢١٣
چشمہ سے بہرہ مند ہوتے تھے ، سید الاہل کہتے ہیں :
کوفہ، بصرہ، واسط اور حجاز کے ہر قبیلہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوںکو جعفر بن محمد کی خدمت میں بھیجا عرب کے اکثر بزرگان اور فارسی دوست بالخصوص اہل قم حضر ت کے علم کدے سے شرفیاب ہوئے ہیں۔(١)
مرحوم محقق، معتبر میں لکھتے ہیں:امام صادق کے زمانے میں اس قدر علوم منتشر ہوئے کہ عقلیں حیران ہیں، رجا ل کی ایک جماعت میں چار ہزار افراد نے حضرت سے روایتیں نقل کی ہیں اور ان کی تعلیمات کے ذریعہ کافی لوگوںنے مختلف علوم میں مہارت پیدا کی ، یہا ں تک کہ حضر ت کے جوابات اورلوگوںکے سوالات سے چارسو کتابیںمعرض وجود میں آگئیںکہ جن کو اصولاربعہ ماة کا نام دیا گیا ۔ (٢)
شہید اوّل بھی کتاب ذکریٰ میں فرماتے ہیں: امام صادق علیہ السلام کے جوابات لکھنے والے عراق و حجاز اور خُراسان کے چار ہزار افراد تھے۔ (٣)
حضرت کے مکتب کے برجستہ ترین دانشمند جو مختلف علوم منقول و معقول کے ماہر تھے جیسے ہشّام بن حکم ، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم ، مومن طاق مفضل بن عمر ،جابر بن حیا ن و غیرہ ۔
ان کی تصنیف جو اصول اربع مائةکے نام سے مشہور ہے جو کافی، من لا یحضر ہ الفقیہ،تہذیب،استبصار کی اساس و بنیاد ہے ۔
............
(١)حیدر ، اسد،الامام الصادق والمذاہب الاربعة، طبع سوم ، ١٤٠٣ ھ، ق
(٢)المعتبر ،طبع سنگی، ص ٤۔٥
(٣)ذکری،طبع سنگی ، ص ٦
امام صادق کے شاگر د صرف شیعہ ہی نہیں تھے بلکہ اہل سنّت کے بزرگ دانشوروں نے بھی حضرت کی شاگردی اختیارکی تھی، ابن حجر ہیثمی اہل سنّت کے مصنف اس بارے میں لکھتے ہیں: فقہ وحدیث کے بزرگ ترین پیشوا جیسے یحییٰ بن سعد ، ابن جریح مالک ، سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ، ابو حنیفہ، شعبی وایوب سجستانی وغیرہ نے حضرت سے حدیثیں نقل کی ہیں ۔(١)
ابو حنیفہ حنفی فرقہ کے پیشوا کہتے ہیں : ایک مدت تک جعفر بن محمد کے پاس رفت و آمدکی، میں ان کوہمیشہ تین حالتوں میں سے کسی حالت میں ضرور دیکھتا تھا یا نماز میں مشغول ہو تے تھے یا روزہ دار ہواکرتے تھے یا تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہتے تھے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے بغیر وضو کے حدیث نقل کی ہو ،(٢)علم وعبادت اور پرہیزگاری میں جعفر بن محمد سے بر تر نہ آنکھوں نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی کے بارے میں دل میںایسا تصور پیدا ہوا ۔(٣)
آپ کے درس میں صرف وہی لوگ شریک نہیں ہوئے کہ جنہوں نے بعد میں مذاہب فقہی کی بنیا د رکھی بلکہ دور ودراز کے رہنے والے فلاسفرا ور فلسفہ کے طالب علم آپ کے درس میں حاضرہوتے تھے، انہوں نے اپنے امام سے علوم حاصل کرنے کے بعداپنے وطن ایسی درسگاہیں تشکیل دیں کہ جس میں مسلمان ان کے گرد جمع ہوتے تھے
............
(١)الصواعق المحرقة ، مکتبة القاہرہ ، ١٣٨٥ھ ،ص ٢٠١
(٢)ابن حجر عسقلانی ، تہذیب ، دار الفکر ، بیروت ، طبع اول ، ١٤٠٤ھ ،ق ،ج ١ ص ٨٨
(٣)حیدر ، اسد ،الامام الصادق و المذاھب الاربعہ،دار الکتب العربیہ ، بیروت، ج١ ص ٥٣
اور یہ لوگ معارف اہل بیت سے لوگوں کو سیراب کرتے تھے اور تشیع کو فروغ دیتے تھے، جس وقت ابان بن تغلب مسجد بنیۖ میں تشریف لاتے تو لوگ اس ستون کو کہ جس سے پیغمبرۖ تکیہ لگا تے تھے ان کے لئے خالی کردیتے تھے اور وہ لوگوں کے لئے حدیث نقل کرتے تھے، امام صادق نے ان سے فرمایا: آپ مسجد نبوی میں بیٹھ کے فتویٰ دیجیے میں دوست رکھتا ہو ں کہ میرے شیعوں کے درمیان آپ جیسے شخص دیکھنے میں آئیں ۔
ابان پہلے شخص ہیں جنہوں نے علوم قرآن کے بارے میں کتاب تالیف کی ہے اور علم حدیث میں بھی انہیں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ آپ مسجد نبوی ۖ میں تشریف فرما ہوتے اور لوگ آآکر آپ سے طرح طرح کے سوالات کرتے تھے اور مختلف جہت سے ان کے جوابات دیتے تھے مزید احادیث اہل بیت کوبھی ان کے درمیان بیان کرتے تھے ،(١)
ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے بارے میںلکھتے ہیں: ابان کے مثل افراد جو تشیع سے متہم ہیں اگر ان کی حدیث رد ہو جائے تو کافی آثار نبویۖ ختم ہو جائیں گے ۔(٢)
ابو خالد کابلی کا بیان ہے: ابو جعفر مومن طاق کو مسجد نبی ۖ میں بیٹھے ہوئے دیکھا مدینہ کے لوگوں نے ان کے اطراف میں ہجوم کر رکھا تھا، لوگ ان سے سوال کر رہے تھے، اور وہ جواب دے رہے تھے۔(٣)
............
(١)حیدر ، اسد، الامام الصادق و المذاھب الاربعہ، ج١ ص ٥٥
(٢)ذہبی ، شمس الدین محمد بن احمد ،میزان الاعتدال ، دار المعرفة، بیروت ،ج١ ص ٤
(٣)شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال ، ج ٢ ص ٥٨١
شیعیت اس دور میں اس قدر پھیلی کہ بعض لوگوں نے اپنی اجتماعی حیثیت کے چکر میں اپنی طرف سے حدیث جعل کرنا شروع کردیا اور احادیثِ ائمہ طاہرین کی بیجاتاویل کرنے لگے نیزاپنے نفع میں روایات ائمہ کی تفسیر کر نے لگے ،جیسا کہ امام صادق نے اپنے صحابی فیض ابن مختار سے اختلاف احادیث کے بارے میں فرمایا :وہ ہم سے حدیث اور اظہار محبت میں رضائے خُدا طلب نہیں کرتے بلکہ دنیا کے طالب ہیں اور ہر ایک اپنی ریاست کے چکر میں لگا ہوا ہے۔(١)
شیعہ عبّاسیو ں کے دور میں
شیعیت ١٣٢ ھ یعنی عباسیوں کے آغازسے غیبت صُغریٰ کے آخریعنی ٣٢١ ھ تک امویوں کے دور کی بہ نسبت زیادہ پھیلی، شیعہ دور و دراز کے علاقہ میں منتشر اوربکھرے ہوئے تھے جیسا کہ ہارون کے پاس امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شکایت کی جاتی تھی کہ دنیا کے مشرق ومغرب سے آپ کے پاس خُمس آتا ہے، (٢)جس وقت امام رضا نیشا پورآئے دو حافظان حدیث جن میں ابو زرعہ رازی اور محمد بن مسلم طوسی اور بے شما رطالبان علم حضرت کے ارد گرد جمع ہو گئے اور امام سے خواہش ظاہرکی کہ اپنے چہرئہ انور کی زیارت کرائیں اس کے بعد مختلف طبقات کے لوگ جو ننگے پائوں کھڑے ہوئے تھے ان کی آنکھیں حضرت کے جمال سے روشن ہوگئیں، حضرت نے حدیث سلسلة الذہب ارشاد فرمائی بیس ہزار کاتب اور صاحبان قلم نے اس حدیث کو لکھا۔(٣)
............
(١)شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ، ج ٢ ص٣٤٧
(٢) شیخ مفید ،الارشاد،ترجمہ محمد باقر ساعدی ، خراسانی ، کتاب فروشی اسلامیہ ، ١٣٧٦ھ، ص ٥٨١
(٣)شیخ صدوق ، عیون اخبار الرضا ،طبع قم ، ١٣٧٧ ھ ق، ج٢ ص ١٣٥
اسی طرح امام رضا نے ولی عہدی قبول کر نے کے بعد مامون سے کہ جو حضرت سے بہت کچھ توقع رکھتاتھا،اس کے جواب میں فرمایا: اس ولی عہد ی نے میری نعمتو ں میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے جب میں مدینہ میں تھا تو میرالکھاہوا شرق وغرب میں اجر ا دہوتا تھا۔(١)
اسی طرح ابن داؤد جو فقہا ئے اہل سنّت میں سے تھا اور شیعوں کا سرسخت مخالف اور دشمن تھا اس کا اعتراف کر نا بھی اہمیت کا حامل ہے اس سے پہلے کہ معتصم عباسی چور کے ہاتھ کاٹنے کے بارے میں امام جواد کی رائے کو فقہا ئے اہل سنت کے مقابلہ میںقبول کرے ،ابن داؤد تنہائی میں اس کومشورہ دیتا ہے کہ کیوں اس شخص کی بات کو کہ آدھی امت جس کی امامت کی قائل ہے درباریوں، وزیروں ،کاتبوں اور تمام علما ئے مجلس کے سامنے ترجیح دیتے ہیں ،(٢)یہا ں تک کہ شیعیت حکومت بنی عباس کے فرمانروائوں اور حکومت کے لوگوں کے درمیان بھی پھیل گئی تھی جیسا کہ یحییٰ بن ہر ثمہ نقل کرتا ہے۔
عباسی خلیفہ متوکل نے مجھے امام ہادی کو بلانے کے لئے مدینہ بھیجا جس وقت میں حضرت کو لے کر اسحاق بن ابراہیم طاہری کے پاس بغداد پہنچا جو اس وقت بغداد کا حاکم تھاتو اس نے مجھ سے کہا: اے یحییٰ! یہ شخص رسول ۖ خُدا کا فرزند ہے ،تم متوکل کو بھی پہچانتے ہو اگر تم نے متوکل کو ان کے قتل کے لئے برانگیختہ کیا تو گویا تم نے رسولۖ خُدا سے دشمنی کی، میں نے کہا: میں نے اس سے نیکی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ،اسکے بعد میں
............
( ١) علامہ مجلسی ،بحار الانوار،مکتبة الاسلامیہ ،تہران ، ١٣٥٨ھ ق ،ج٤٩،ص ١٥٥
(٢) علّامہ مجلسی ،بحارر الانوار، ج٠ ٥، ص٦
سامرہ کی طرف روانہ ہو ا جس وقت میں وہاں پہونچا سب سے پہلے وصیف ترکی کے پاس گیا اس نے بھی مجھ سے کہا،(١) اگر اس شخص کے سر کا ایک با ل بھی کم ہو گیا تو تم میرے مقابلہ میں ہو۔(٢)
سیّد محسن امین نے اپنی کتاب کی پہلی جلد میں عباسی حکومت کے چند افراد کو شیعوں میں شمار کیا ہے منجملہ ان میں سے ابو سلمہ خلال ہیں(٣) کہ جو خلافت عباسی کے پہلے وزیر تھے اور وزیر آل محمد کے لقب سے مشہور تھے ، ابو بجیر اسدی بصری منصور کے زمانے میں بزرگ فرمانروائوں میںمحسوب ہوتے تھے، محمد بن اشعث ہارون رشیدکے وزیر تھے اور امام کاظم کی گرفتاری کے وقت اسی شخص سے منسوب داستان ہے جو اس کے شیعہ ہونے پر دلالت کرتی ہے، علی بن یقطین ہارون کے وزیروں میں سے تھے،اسی طرح یعقوب بن داؤد مہدی عباسی کے وزیر اور طاہر بن حسین خزاعی مامون کے دور میں خراسان کے حاکم اور بغداد کے فاتح تھے ،اسی وجہ سے حسن بن سہل نے ان کو ابی السرایا کی جنگ میں نہیں بھیجا۔ (٤)
اسی طرح بنی عباس کے دور میںمن جملہشیعہ قاضیوں کی فہرست یوں ہے:
............
(١)ترک کے سردار وں میںسے
(٢) مسعودی، مروج الذھب ، منشورات موسسئہ الا علمی للمطبوعات، بیروت ، طبع اول ، ج ٤، ص ١٨٣
(٣) البتہ کچھ صاحبان نظر اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر ابو سلمہ کے شیعہ ہونے کی دلیل وہ خط ہے کہ جو امام صادق کی خدمت لکھا گیا تھاتویہ دلیل نہیں ہے کیو نکہ اس اقدام کو ایک سیاسی اقدام تصور کیاگیا ہے ، رجوع کیا جائے پیشوائی ،مہدی ، سیرئہ پیشوایان ،موسسئہ امام صادق ، طبع چہارم ، ١٣٧٨، ص٣٧٨
(٤)اعیان الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات ، بیروت ،ج ١ ص ١٩١
شریک بن عبداللہ نخعی کوفہ کے قاضی اورواقدی مشہور مورّخ جو مامون کے دور میں قاضی تھے ،(١)یہاں تک کہ تشیع ان مناطق میں کہ جہاںپر عباسیوں کارسوخ و نفوذ تھااس قدر پھیل گئی تھی کہ ان کو بڑا خطرہ لا حق ہونے لگاتھا جیسا کہ امام کاظم کی تشییع جنازہ کے موقع پر سلیمان بن منصورکہ جوہارون کا، چچا تھااس نے شیعوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جوکافی تعداد میں جمع تھے آپ کے جنازہ میں پا برہنہ شرکت کی۔ (٢)
اسی طرح جس وقت امام جواد شہید ہوئے وہ چاہتے تھے کہ ان کو مخفی طور پر دفن کردیں لیکن شیعہ باخبر ہو گئے اور بارہ ہزار افراد مسلح ہوکرہاتھوں میں تلوار لئے گھروں سے باہر آگئے اور عزت و احترام کے ساتھ حضرت کے جنازہ کی تشییع کی(٣) امام ہادی کی شہادت کے موقع پر بھی شیعوں کی کثرت کی بنا پر اور بہت کافی گریہ و بکا کی وجہ سے مجبور ہوئے کہ حضرت کو ان کے گھر میں دفن کردیں۔(٤)
امام رضاعلیہ السلام کے دور کے بعدعباسی خُلفا نے فیصلہ کیا کہ ائمہ طاہرین کے ساتھ اچھی رفتار سے پیش آئیں تاکہ شیعوں کے غصّہ کا سبب نہ بنیں، اسی بنا پرمام رضا کو ہارون کے دور میں نسبتاً آزادی حاصل تھی اور آپ نے شیعوں کے لئے علمی ا و رتبلیغی
............
(١) اعیان الشیعہ، دار التعارف ، للمطبوعات ،بیروت ،ص١٩٢۔١٩٣ ،( البتہ واقدی کامحققین کے درمیان تشیع کے بارے میںاختلاف ہے )
(٢) امین، سید محسن،اعیان شیعہ ،دارالتعارف للمطبوعات ،بیروت ،ج ١ ،ص ٢٩
(٣) حیدر، اسد، الامام الصادق والمذاہب ا لا ربعہ ، دار الکتاب عربی، بیروت ،طبع سوم، ج١ ، ص٢٢٦
(٤)ابن واضح، تاریخ یعقوبی، منشورات شریف الرضی ، قم ،ج٢ ،ص٤٨٤
فعالیت وسر گرمیاںبھی انجام دیںنیز اپنی امامت کا کھل کر اعلان کیا اور تقیہ سے باہر آئے مزید دوسرے تمام فرق و مذاھب کے اصحاب سے بحث وگفتگو کی، اور ان میں سے بعض کوجواب سے مطمئن کیا جیسا کہ اشعری قمی نقل کرتا ہے: امام کاظم اور امام رضا کے زمانے میں اہل سنّت فرقہ سے مرحبۂ اور زیدیوں کے چند افراد شیعہ ہو گئے اور ان دو اماموں کی امامت کے قائل ہوگئے۔(١)
بعض خُلفائے عباسی کی کوشش یہ تھی کہ ائمہ طاہرین کو اپنی نظارت میں رکھیں تاکہ ان پر کنٹرول کر سکیں، ان حضرات کو مدینہ سے لاتے وقت اس بات کی کوشش کی کہ ان کو شیعہ نشین علاقہ سے نہ گذارا جائے ،اسی وجہ سے امام رضا کو مامون کے دستور کے مطابق'' بصرہ'' ،''اہواز'' اور'' فارس'' کے راستے سے مرو لے گئے نہ کہ کوفہ،جبل ا ور قم کے راستے سے کیونکہ یہ شیعوں کے علاقے تھے۔(٢)
یعقوبی کے نقل کے مطابق جس وقت امام ہادی علیہ السلام کو متوکل عباسی کے دستور کے مطابق سامرّہ لے جایا گیا توجس وقت آپ بغداد کے نزدیک پہنچے تب اس بات سے باخبر ہوئے کہ کافی تعداد میں لوگ امام کے دیدار کے منتظر ہیں یہ لوگ وہیںٹھہر گئے اور رات کے وقت شہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے سامرہ گئے ،(٣)
عباسیوں کے دور میں شیعہ حضرات ،دور د ر از اور مختلف مناطق میں پراگندہ
............
(١)المقا لات و الفرق، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی ، تہران ، ص٩٤
(٢)پیشوائی ، مھدی ،سیرئہ پیشوایان ، موسسئہ امام صادق ، طبع ھشتم، ١٣٧٨ھ ش ، ص ٤٧٨
(٣)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، ج ٢، ص ٥٠٣
تھے ائمہ طاہرین نے وکالت کے نظام کی داغ بیل ڈالی اور مختلف مناطق اور شہروں میں اپنے نائب اور وکیل معین کئے تاکہ ان کے اور شیعوں کے درمیان رابطہ قائم ہوسکے، یہ مطلب امام صادق کے زمانے سے شروع ہوا اس وقت خلفا کا کنٹرول ائمہ طاہرین پر جتنا شدید ہو تا گیا اتنی ہی شیعو ں کی دسترسی اماموں تک مشکل ہوتی گئی اور اسی اعتبار سے وکالت اور وکیلوں کے نظام کی اہمیت میں اضافہ ہوتاگیا ، کتاب تاریخ عصر غیبت میں آیا ہے کہ مخفی کمیٹیو ں کے پھیلنے اورتقویت پانے کا سب سے اہم ترین سبب وکلا ہیں،یہ نظام امام صادق کے زمانے سے شروع ہوا اور عسکریین کے دور میںاس میں بہت زیادہ ترقی اور وسعت ہوئی۔ (١)
استاد پیشوائی اس بارے میں لکھتے ہیں : شیعہ ائمہ جن بحرانی شرائط سے عباسیوں کے زمانے میں رو برو تھے وہ سبب بناکہ ان کی پیروی کرنے والوں کے درمیان رابطہ برقرار کرنے کے لئے نئے وسائل کی جستجوکی جائے اور ان کی بروئے کار لایا جائے اور یہ وسائل وکالت کے ارتباط اور نمائندوںسے رابطہ نیز وکیلوںکا تعین کرنا مختلف مناطق میں امام کے توسط سے تھا، وکلا اورنمائندوں کے معین کرنے کا مقصد مختلف مناطق سے خمس و زکوٰة،ہدایا اورنذورات کی رقم کا جمع کرنا تھا اور وکلاکے توسط سے لوگوں کی طرف سے ہونے والی فقہی مشکل اور عقیدتی سوالات کا امام کو جواب دینا تھا چنانچہ اس طرح کی کمیٹیاں امام کے مقاصدکوآگے بڑھانے میں کافی مؤثر رہیں ۔(٢)
............
(١) پور طبا طبائی ،سید مجید ، تاریخ عصر غیبت ، مرکز جہانی علوم اسلامی ، ص ٨٤
(٢)پیشوائی ، مہدی،تاریخ عصر غیبت ،ص ٥٧٣
وہ مناطق اور علاقے کہ جہاں امام کے وکیل ا و ر نائب ہوا کرتے تھے وہ مندرجہ ذیل ہیں، کوفہ ، بصر ہ ، بغداد قم،و ا سط، اہواز ،ہمدان ،سیستان ، بست ،ری ، حجاز ، یمن ، مصر ا و رمدائن ۔ (١)
شیعہ مذہب چوتھی صدی ہجری میں ،شرق وغرب اور اسلامی دنیا کے تمام مناطق میں اتنی اوج اور بلندی پیدا کر چکا تھا کہ اس کے بعد اور اس سے پہلے ایسی وسعت دیکھنے میں نہیں آئی… مقدسی نے شیعہ نشین شہروں کی فہرست اس دور کے اسلامی سر زمین میں جو پیش کی ہے وہ اس مطلب کی طرف نشاندہی کرتی ہے ، ہم اس کی کتاب سے وہ عبارت نقل کرتے ہیں جس میں اس نے ایک جگہ کہا ہے: یمن ، کرانہ ، مکہ اور صحار میں اکثر قاضی معتزلی اور شیعہ تھے۔(٢)
جزیرة العرب میں بھی کافی شیعیت پھیلی ہوئی تھی،(٣) اہل بصرہ کے ارد گردرہنے والوں کے بارے میں ملتا ہے کہ اکثر اہل بصرہ قدری ،شیعہ ، معتزلی یاپھر حنبلی تھے (٤)کوفہ کے لوگ بھی اس صدی میں کناسہ کے علاوہ سب شیعہ تھے ، (٥)
............
(١)رجال نجاشی،دفتر نشر فرہنگ اسلامی ،وابستہ جامع مدر سین ،قم ،١٤٠٤ھ ص ٣٤٤، ٧٩٧، ٨٠٠، ٨٢٥،٨٤٧
(٢) مقدسی ، ابو عبداللہ محمد بن احمد ، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم،ترجمہ منذوی، شرکت مؤلفان ، ومترجمان، ایران، ١٣٦١ ،ج ١ ،ص ١٣٦
(٣)احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ،ص ١٤٤
(٤)گزشتہ حوالہ ،ص١٧٥
(٥)گزشتہ حوالہ ،ص ١٧٤
موصل کے علاقوں میں بھی کچھ شیعہ موجود تھے ،(١)اہل نابلس ، قدس اور عُمان میں بھی شیعوں کی اکثریت تھی ،(٢)قصبہ فسطاط او ر صند فا کے لوگ بھی شیعہ ہی تھے(٣) سندہ کے شہر ملتان میں بھی شیعہ تھے کہ جو اذان واقامت میں ہرفقرے کو دو بار پڑھتے ہیں۔(٤)
اہواز میں شیعہ اور سنی کے درمیان حالات کشیدہ رہے اورجنگ تک نوبت پہونچ گئی۔(٥)
مقریزی نے بھی حکومت آل بویہ اور مصری فاطمیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے رافضی مذہب مغرب کے شہروں میںشام ، دیار بکر ، کوفہ ، بصرہ ، بغداد ، پورے عراق، خراسان کے شہر، ماوراء النہراور اسی طرح حجاز، یمن، بحرین، میں پھیل گیا ، ان کے اور اہل سنت کے درمیان اس قدر جنگیں ہوئیںکہ جن کو شمارنہیں کیا جا سکتا ، (٦) اس صدی میں بغداد میں بھی اکثر شیعہ ہی تھے جب کہ بغدادبنی عباس کی خلافت کا مرکز تھا اور جتنا ہو سکتا تھا روز عاشو را کھل کر آزادانہ طور پر عزاداری کرتے تھے ،جیسا کہ ابن کثیر کا بیان ہے شیعوں کی کثرت اورحکومت آل بویہ کی حمایت کی بنا پر اہل سنت ان کو اس
............
(١)گزشتہ حوالہ ، ص ٢٠٠
(٢) گزشتہ حوالہ ، ص ٢٢٠
(٣) گزشتہ حوالہ ، ص٢٨٦
(٤) گزشتہ حوالہ،ج٢ ،ص ٧٠٧
(٥) احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ،ج٢ ،ص ٦٢٣
(٦)مقریزی ،تقی الدین ابن العباس احمد بن علی ، المواعظ و الاعتبار بذکر الخطط و الآثار ''المعروف با لخطط المقریزیہ ''دار الکتب العلمیہ ، بیروت ،طبع اوّل ، ١٤١٨،ج ٤ ،ص ١٩١
عزاداری سے نہیں روک سکے،(١) اس زمانے میں شیعوںکے لئے اتنا زیادہ راستہ ہموار ہو گیا تھا کہ اکثر اسلامی سرزمینیں شیعہ حاکموں کے زیر تسلط تھیں، ایران کے شمال میں، گیلان اور مازندران میں طبرستان کے علوی حکومت کرتے تھے ،مصر میں فاطمی ، یمن میں زیدی ، شمال عراق او ر سوریہ میں حمدانی اور ایران وعراق میں آل بویہ حکومت کرتے تھے ، البتہ بعض عباسی خلفا جیسے مھدی ، امین ، مامون، معتصم واثق اور منتصر ان کے زمانے میں شیعہ نسبتاً عملی طورسے آزاد تھے، ان خلفا کے زمانے میں پہلے کی بہ نسبت سخت گیری کم ہو گئی تھی ، یعقوبی کے نقل کے مطابق مھدی عباسی نے طالبیان او ر شیعوں کو کہ جو زندان میں تھے آزاد کر دیا تھا ۔(٢)
امین کی پنج سالہ دور حکومت میں بھی عیش ومستی اور اپنے بھائی مامون سے جنگ میں مشغول ہونے کی وجہ سے شیعوں پر سختی کم تھی مامون ، معتصم، واثق ، اور معتضدعباسی بھی شیعیت کی طرف مائل تھے ،لیکن متوکل خاندان پیغمبر ۖ اور شیعوں کا سخت ترین دشمن تھا اگر چہ اس کے دور میں شیعہ کنٹرول کے قابل نہیں تھے اس کے باو جود بھی و ہ زیارت قبر امام حسین علیہ السلا م سے روکتا تھا ۔( ٣)
ابن اثیرکا کہناہے: متوکل اپنے سے پہلے خلفا، جیسے مامون ، معتصم ، واثق جو علی ا و ر خاندان علی سے محبت کا اظہار کرتے تھے ان سے دشمنی رکھتا تھا اور جن کا شمار دشمنان علی میں
............
(١)البدایہ والنھایہ، بیروت ، ١٩٦٦، ج ١١، ص٢٤٣
(٢) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی ، منشورات شریف الرضی ، قم ، ج ٢ ، ص ٤٠٤
(٣)طبری ،محمد بن جریر ،تاریخ طبری، دارالکتب العلمیة ،بیروت،ج٥ ص٣١٢
ہوتاتھا مثلاً شامی شاعر علی بن جہم ، عمر بن فرج ، ابو سمط اور مروان بن ابی حفصہ کی اولادیں کہ جو بنی امیہ کا دم بھرتی تھیں اسی طرح عبداللہ بن محمد بن داؤد ھاشمی کہ جو ناصبی اور دشمن علی تھا اس کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا(١) اس دور میں ناصبی اور بے دین شاعروں میں متوکل سے نزدیکی کی وجہ سے یہ جرأت پیدا ہوگئی تھی کہ خاندان پیغمبرۖ کے خلاف اشعار کہنے لگے، لیکن متوکل کے جانشین منتصر نے اس روش کے خلاف کام کیا اور شیعوں کو عملی آزادی دی اور قبر امام حسین کی تعمیر کرائی اور زیارت کی ممانعت کو بر طرف کر دیا ۔(٢)
اس دور کے شاعر بحتری نے اس طرح کہا ہے:
انّ علیاًلاولی بکم
وازکی یداًعند کم من عمر (٣)
عمر کی بہ نسبت حضرت علی علیہ السلام زیادہ مقرب و مقدس ہیں ۔
عبّاسی خلفاء کی شیعہ رہبروں پرکڑی نظر
عباسی حکومت نے ٣٢٩ھ تک کلی طور پر ایرانی وزرا ء اور افسروں نیزترک فوجیوں کی برتری کے دو دور گذارے ہیں، اگر چہ ترکوں کے دور میں خلافت کی باگ ڈور ضعیف رہی
............
(١)الکامل فی التاریخ،دار صادر ، بیروت ، ١٤٠٢ھ ، ج ٧ ، ص٥٦
(٢) مسعودی ، علی بن حسین ، مروج الذھب ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ ، ج ٤ ، ص١٤٧
(٣)مسعودی ، علی بن حسین ، مروج الذھب ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ، ج ٤ ، ص١٤٧
اورزیادہ تر عباسی خلفاکے افسر اور نمائندے ترک تھے ،اور کلی طور پر حکومت کی سیاست شیعوں کے خلاف تھی عباسیوں کے دور میں تشیّع کے زیادہ پھیلنے کی بنا پر عباسی خُلفا کی سیاست یہ تھی کہ شیعہ قائدین پر سخت نظر رکھی جائے ،اگر چہ شیعوں کے سلسلہ میں خلفاکا رویہ ایک دوسرے سے مختلف تھا بعض ان میں سے جیسے منصور ،ہادی ،رشید ، متوکل ، مستبدحددرجہ سخت گیر اور خون بہانے والے تھے ان میں سے بعض دوسر ے جیسے مہدی عباسی ، مامون واثق اپنے پہلے خلفا کی طرح بہت زیادہ سخت گیر نہیں تھے اور ا ن کے زمانہ میں شیعہ کسی حد تک آرام کی سانس لے رہے تھے،جس وقت منصور عباسی نے محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کی طرف سے خطرہ کا احساس کیا تو اس نے ان کے باپ ، بھائیوں اور چچاؤں کو گرفتار کیا اور زندان میں ڈال دیا ۔(١)
منصور نے بارہا امام صادق ـ کو دربار میں بلوایا اور حضرت کے قتل کا ارادہ کیا لیکن خُدا کاارادہ کچھ اور ہی تھا ،(٢)
............
(١)مسعودی ، علی بن حسین ، مروج الذھب ،منشورات الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ج ٣ ،ص ٣٢٤
(٢)ابن جوزی نقل کرتا ہے جس وقت منصور مکہ کے ارادے سے مدینہ میں وارد ہو ا ،ربیع حاجب سے کہا ،جعفر بن محمد کو حاضر کرو خُدا مجھ کو مار ڈالے اگر میں ان کو قتل نہ کروں، ربیع نے حضرت کے حاضر کرنے میں سُستی برتی ،منصور کے فشار کی وجہ سے ربیع نے حضرت کو حاضر کیا ،جس وقت امام حاضر ہوئے اس وقت آپ نے آہستہ آہستہ اپنے لبوں کو حرکت دی،جب منصور کے نزدیک پہنچے اور آپ نے سلام کیا تو منصور نے کہا: اَے خُدا کے دشمن !نابود ہوجا، ہماری مملکت میں خلل واقع کرتا ہے خُدا مجھ کو مارڈالے اگر میں تم کو قتل نہ کروں ،امام صادق نے فرمایا :
سُلیمان پیغمبرکوسلطنت ملی انہوں نے خدا کا شکرادا کیا ،ایوب نے مصیبت دیکھی اور صبر کیا ،یوسف مظلوم واقع ہوئے ظالموں کو بخش دیا ،تم ان کے جانشین ہوبہتر ہے کہ ان سے عبرت حاصل کرو ،منصور نے اپنے سر کو نیچے جھکالیا دوسری بار اپنے سر کو اُٹھا کر یہ کہا: آپ ہمارے قرابت داروںاور رشتہ داروں میں سے ہیں اس کے بعد اس نے حضرت کو عزّت دی، معانقہ کیا اور آپ کو اپنے نزدیک بٹھاکر آپ سے بات کرنے میں مشغول ہوگیا ،پھر ربیع سے کہا : جتنی جلدی ہوسکے انعام واکرام اورجعفر بن محمد کے لباس کو لے آئواوران کو رخصت کرو،جس وقت حضرت باہر نکلے ربیع آپ کے پیچھے پیچھے آیااور آپ سے کہا :میں تین دن سے آپ کی طرف سے دفاع اورمدار اکر رہاتھاآپ جب آئے تومیں نے دیکھا کہ آپ کے لب حرکت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے منصور آپ کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکا چونکہ میں سُلطان کا کارندہ ہوں اِس دُعا کا محتاج ہوں چاہتاہوں کہ آپ مجھ کو یہ دُعا تعلیم فرمائیں حضرت نے فرمایا : یہ کہہ :
((اَللّھمّ احرِ سنی بِعینِکٔ الّتِی لَا تنام وَ اَکنِفنِی بکنَفِکٔ الّذِی لَا یرامُ اَو یَضامُ وَ اغْفِر لِی بِقْدرَتِکَٔ عَلیَّ وَ لا اَھْلِکٔ وَ اَنْتَ رَجَائیِ اللّھُمَ اِنَّکَٔ اَکْبَرُ وَ اَجَلُّ مِمَّنْ اخَافُ وَ اَحذَرُ اَللّھُمَ بِکَٔ اَدفَعُ فِی نَحْرِ ہِ و َ اَ سْتعِیذ ُ بِکَٔ مِنْ شَرِ ہ))
بارالٰہا! تیری آنکھوں کی قسم! کہ جوسوتی نہیںمیری حفاظت کر اورتجھے اس قدرت کا واسطہ ! کہ جو ہدف ِ بلا قرارنہیں پاتی مجھے اس چیز سے محفوظ رکھ اور میں ہلاک نہ کیاجائوں کیونکہ توہی میری اُمید کا سر چشمہ ہے ، بارالٰہا! وہ فراوان نعمتیںکہ جوتونے مجھے دی ہیں میں ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکااور تونے مجھ کو ان نعمتوں سے محروم نہیں کیابہت سی وہ بلائیںکہ جس میں تو نے مجھے مبتلا کیا اور میں نے کم صبری کا مظاہرہ کیا اس سے تومجھے نجات دے ،بار الٰہا! تیری قدرت کے دفاع اور پشت پناہی سے ہی اس کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہوں اور اس کے شر سے تجھ سے پناہ چاہتاہوں ۔
(تذکرة الخواص ، منشورات المطبعة الحیدریہ ومکتبتھا ، النجف الاشرف ،١٣٨٣ ھ ،ص ٣٤٤ )
خلفائے عباسی کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ شیعہ رہنمائوں کو جو ان کے
رقیب ہوا کرتے تھے ان کو راستے سے ہٹادیا جائے یہاں تک کہ منصور نے ابن مہاجر نام کے ایک شخص کو کچھ رقم دیکر مدینہ بھیجا تاکہ وہ عبداللہ ابن حسن اور امام صادق علیہ السّلام اور بعض دوسرے علویوںکے پاس جائے اور ان سے کہے کہ میں خراسان کے شیعوں کی طرف سے آیا ہوں اور اس رقم کو ان کے حوالہ کر کے ان سے دستخط لے لے، امام صادق نے اس کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ تم کو منصور نے بھیجا ہے اور اس سے تاکید کی کہ منصور سے جاکرکہنا :علویوں کو ابھی کچھ عرصہ سے مروانی حکومت سے نجات اور راحت ملی ہے اورانہیں ابھی اس کی ضرورت ہے، ان کے ساتھ حیلہ اور فریب نہ کر۔(١)
اسدحیدر کہتے ہیں: منصورنے اما م صا دق کو ختم کرنے کے لئے مختلف وسیلوں کا سہارا لیا اور شیعوں کی طرف سے ان کو خط لکھوایا اور ان کی طرف سے آپ کی خدمت میں کچھ مال بھیجا لیکن ان میںسے کسی ایک میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ۔(٢)
جس وقت منصور کوامام صادق علیہ السّلام کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے مدینہ کے حاکم محمد بن سلیمان کوخط لکھا کہ اگر جعفر بن محمد نے کسی معین شخص کو اپنا وصی قرار دیا ہے تو اس کو پکڑ لیا جائے اور اس کی گر دن اُڑادی جائے، تو مدینہ کے حاکم نے اس کے جواب میں لکھا : جعفر بن محمد نے ان پانچ افراد کو اپنا وصی قرار دیا ہے ، ابو جعفر منصور ،محمد بن سلیمان عبداللہ ، موسیٰ اور حمیدہ ،اس وقت منصور نے کہا:تب ان کو قتل نہیں کیا جاسکتا ،(٣)
............
(١) ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ،موسسئہ انتشارات علامہ، قم ، (بی تاج ٤ ص ٢٢٠
(٢)الامام الصادق و المذاھب الاربعہ،دار الکتاب العربی ، بیروت ، طبع سوم ، ١٤٠٣ھ ج١، ص ٤٦
(٣) طبرسی ، ابو علی فضل بن حسین ، اعلام الوریٰ موسسة احیا ء التراث ، قم ، ١٤١٧ ج ٢ ،ص ١٣
مہدی عباسی اپنے باپ کی طرح شیعو ں اور علویوں کے لئے سخت گیر نہیں تھا ۔
یعقو بی نقل کرتا ہے: مہدی جب خلیفہ ہوا تواس نے دستور دیا جتنے بھی علوی زندان میں ہیں ان کو آزاد کردیا جائے ،(١)اس وجہ سے اس کے زمانے میں کوئی بھی علوی قیام وجود میں نہیں آیا ، ابوالفرج اصفہانی نے فقط دو کا ذکر کیا ہے کہ جو اس کے زمانے میں مارے گئے ایک علی عبّاس حسنی کہ جن کو زہر کے ذریعہ قتل کیا گیا دوسرے عیسیٰ بن زیدکہ جن کی نا معلوم طریقہ سے موت واقع ہوئی وہ منصور کے زمانے سے پوشیدہ طور پر زندگی بسر کررہے تھے۔(٢)
ہادی عباسی کے زمانے میں علویوں اور شیعوں کے بڑے قائدین پر شدید فشار تھا جیسا کہ یعقوبی نے لکھا ہے:ہادی نے شیعوں اور طالبیوں پر بہت سختی کر رکھی تھی اور ان کو بہت زیادہ ڈرا رکھا تھا اور وہ وظائف او رحقوق کہ جو مہدی نے اپنے زمانے میں ان کے لئے مقرر کئے تھے ان کو قطع کر دیا اور شہروں کے حاکم ا و ر فرمانروائوں کو یہ لکھ بھیجا کہ طالبیوں کا تعاقب کریں اور ان کو گرفتار کر لیں ، (٣) اس غلط رویے کے خلاف اعتراض کرتے ہوئے حسین بن علی کہ جو سادات حسنی سے تعلق رکھتے تھے( شہید فخ ) نے قیام کیااور اس جنگ میں حسین کے علاوہ بہت سے علوی قتل ہوئے۔ (٤)
............
(١) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، منشورات شریف الرضی ، قم ، ١٤١٤ ھ ، ج ٢ ،ص ٣٩٤
(٢) ابو الفرج ،اصفہانی ، مقاتل الطالبین ،منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٦ ھ ،ص ٣٤٢ ۔ ٣٦١
(٣) ابن واضح، تاریخ یعقوبی ،ص٤٠٤
(٤)ابو الفرج ،اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات شریف الرضی ، قم ، ١٤١٦ ھ ،ص٣٦٦
یہ جنگ امام کاظم علیہ السلام پرشدید فشارکا باعث بنی ،ہادی عباسی نے حضرت کوڈرایا اور اس طرح سے کہا :خُدا کی قسم حسین (شہید فخ ) نے موسیٰ بن جعفر کے دستور کی بنا پر میر ے مقابل قیام کیا ہے اوروہ اس نے ان کے تابع اور پیروہیں کیوں کہ اس خاندان کا امام او ر پیشوا موسیٰ بن جعفر کے سوا کوئی اورنہیں ہے، خُدا مجھے موت دیدے اگر میں ان کو زندہ چھوڑدوں،(١) لیکن وہ اپنی موت کا وقت قریب آنے سے اپنے ارادہ کو نافذ نہ کر سکا ۔
دوسر ی صدی ہجری میں منصور کے بعد ہارون رشید علویوں اور شیعہ قائدین کے لئے سخت تر ین خلیفہ تھا ،ہارون علویوں کے ساتھ بے رحمانہ رفتار رکھتا تھا اس نے یحییٰ بن عبداللہ محمد نفس زکیہ کے بھائی کو امان دینے کے بعد بے رحمانہ طریقہ سے زندان میں ڈالا اور قتل کر وا د یا ۔(٢)
اسی طرح ایک داستان عیون اخبار الرضا میں ذکر ہوئی ہے جو ہارون رشید کی بے رحمی کی حکایت کرتی ہے، حمید بن قحطبہ طائی طوسی نقل کرتا ہے : ہارون نے ایک شب مجھ کو بلوایا اور حکم دیا کہ اس تلوار کو پکڑو اور اس خادم کے دستور پر عمل کرو خادم مجھے ایک گھر کے پاس لایا جس کا دروازہ بند تھا ، اس نے دروازہ کو کھولا اس گھر میں تین کمرے اور ایک کنواں تھا اس نے پہلے کمرہ کو کھولا او ر اس میں سے بیس سیّدوں کو باہرنکا لا جن کے بال بلند اور گھنگھریلے تھے ،ان کے درمیان بوڑھے اور جوان دکھائی دے رہے
............
(١) علّامہ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار،ج٤٨، ص١٥١
(٢) ابو الفرج اصفہانی ، مقا تل الطالبین ،منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٦ ھ ، ص ٣٨١ ۔ ٤٠٤
تھے ان سب کو زنجیر وں میں جکڑا گیا تھا ہارون کے نوکر نے مجھ سے کہا: امیر المومنین کا دستور ہے کہ ان سب کو قتل کردو یہ سب اولاد علی ا و راولاد فاطمہ ۖ سے ہیں ، میں ایک کے بعد دوسرے کو قتل کرتا گیا اور نو کر ان کے بدن کو سروں کے بل کنویں میں ڈالتا رہا ،اس کے بعد اس نے دوسر ے کمرہ کو کھولا اس کمرہ میں بھی بیس افراد اولاد علی او راولاد فاطمہ میں سے تھے میں نے ان کو بھی پہلے افراد کی طرح ٹھکانے لگادیا،اس کے بعد تیسرے کمرہ کو کھولا اس میں دوسرے بیس افراد اہل سادات تھے میں نے ان کو بھی پہلے والے چالیس افراد کے ساتھ ملحق کردیا ، صرف ایک بوڑھا شخص باقی رہ گیا تھا وہ میری طرف متوجہ ہوا اور اس نے مجھ سے کہا: اے منحوس آدمی! خُدا تجھے نابود کرے روز قیامت ہمارے جد رسول ۖ خُدا کے سامنے کیا عذر پیش کرے گا اس وقت میرے ہاتھ کانپنے لگے تو نوکر نے غضبناک آنکھوں سے مجھے دیکھا اور دھمکی دی تو میں نے بوڑھے آدمی کوبھی قتل کردیا اور نوکر نے اس کا بدن بھی کنویں میں ڈال دیا ۔(١)
آخر کا ر ہارون رشید نے امام کاظم علیہ السلام کو باوجود اس کے کہ وہ ان کے مقام و مرتبہ کاقائل تھا گرفتار کیا اور زندان مین ڈال دیا اور آ خر میں ز ہر دے کر آپ کو شہید کردیا۔ (٢)
امام کاظم علیہ السّلام کی شہادت کے بعد ہارون رشید نے اپنے سرداروں میں سے
............
(١) صدوق ، عیون اخبار الرضا ، دار العلم ، قم ، طبع ١٣٧٧ ھ ق ، ص ١٠٩
(٢)طبرسی ، ابو علی فضل بن حسین، اعلام الوریٰ ، موسسئہ آل البیت لا حیاء التراث ، قم ، ١٤١٧ ، ھ ج٢، ص ٣٤
ایک جلودی نامی شخص کو مدینہ بھیجا تاکہ آل ابی طالب کے گھروں پر حملہ کرے، اورعورتوں کے لباس لوٹ لے ہر عورت کے لئے صرف ایک لباس چھوڑدے امام رضادروازے پر کھڑے ہوگئے اور آپ نے عورتوں کو حکم دیا کہ تم اپنے اپنے لباس ان کے حوالے کر دو۔ (١)
مامون ،عباسی خلفا میں سب سے زیادہ سیاست مدارتھا کہ جس نے شیعہ اماموںاور رہبروں پر پابندی کے لئے ایک نئی روش اختیار تاکہ ائمہ اطہار کو زیر نظر رکھ سکے، مامون کے مہم ترین انگیزوں میں سے ایک انگیزہ امام رضا کی ولی عہدی اسی مقصد کے لئے تھی جیسا کہ مامون نے اِس سیاست کو دوسری بار امام جواد کے لئے بھی انجام دیا اور اپنی بیٹی کی شادی آپ کے ساتھ کردی تاکہ مدینہ میں آپ کی فعالیت وسر گرمی پر نظر رکھ سکے مامون کے بعد والے خُلفانے بھی اس روش کو اختیار کیا اور ہمیشہ ائمہ معصومین علیہم السلام حکومت کے جبر سے مرکز خلافت میں زندگی بسر کرتے رہے یہاں تک کہ دسویں اور گیارہویںامام سامرہ میں زندگی گذارنے کی وجہ سے جو ایک فوجی شہر تھا عسکریین کے نام سے مشہور ہو گئے۔
............
(١) امین، سید محسن ،ص٢٩
|