تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
 

اموی دور میں تشیع کی وسعت
اموی خلفا کے دور میں شیعوں پر ظلم و ستم ہونے کے باوجود تشیع کی ترویج و فروغ میں کوئی کمی نہیںآئی پیغمبر و خاندان پیغمبر ۖکی مظلومیت لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف کھینچتی رہی اور نئے نئے لوگ شیعہ ہوتے گئے، یہ مطلب اموی حکومت کے آخری زمانہ میں پورے طور سے دیکھا جا سکتا ہے اموی زمانہ میں تشیع کے پھیلنے کے کئی مراحل تھے ہر مرحلہ کی ایک خصوصیت تھی کلی طور پر شیعوں کی کثرت کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
(الف) ٤٠ھ سے ٦١ھ تک، دوران امام حسن اور امام حسین ۔
(ب) ٦١ھ سے ١١٠ ھ تک، دورا ن امام سجاد و امام باقر علیہما السلام۔
(ج) ١١٠ ھ سے ١٣٢ھ یعنی اموی حکومت کے اختتام تک، دوران اما م صادق

(الف) عصر امام حسن ١و امام حسین علیہما السلام
امیر المومنین کے زمانہ میں شیعیت نے آہستہ آہستہ ایک گروہ کی شکل اختیار کر لی تھی اور شیعوں کی صف بالکل نمایاں تھی اسی بنیاد پر امام حسن نے صلح نامہ کے شرائط میں ایک شرط شیعوں کی امنیت کی رکھی تھی کہ ان پر تجاوز نہ کیا جائے (١)
شیعہ رفتہ رفتہ عادت ڈال رہے تھے کہ جو امام اور خلیفہ حکومت سے وابستہ ہو اس کی اطاعت ضروری نہیں ہے، اسی وجہ سے جس وقت لوگ دھیرے دھیرے امام حسن کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے حضرت نے ان سے شرط رکھی تھی کہ وہ جنگ و صلح میں آپ کی اطاعت کریں گے اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ امامت لازمی طور پر حاکمیت کے مساوی نہیں ہے اور معاویہ جیساظالم حاکم امام نہیں ہو سکتا اور اس کی اطاعت واجب نہیں ہے ،چنانچہ امام نے جو خطبہ صلح کے بعد معاویہ کے فشار کی وجہ سے مسجدکوفہ میں دیا، اس میں فرمایا :
خلیفہ وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پیغمبرۖ پر عمل کرے ،جس کا کام ظلم کرناہے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ایک بادشاہ ہے جس نے ایک ملک کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے
............
(١)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ،مؤسسة انتشارات علامہ ، قم ،ج ٤ ص ٣٣
مختصر سی مدت تک اس سے فائدہ اٹھائے گا بعدمیں اس کی لذتیں ختم ہو جائیں گی لیکن بہر حال اسے حساب و کتاب دینا پڑے گا(١)
اس دور کے تشیع کی دوسری خصوصیت شیعوں کے درمیان اتحاد ہے جس کا سرچشمہ بہترین رہبر کا وجود ہے امام حسین کی شہادت تک شیعوں میں کوئی فرقہ نہیں تھاامام حسن اور امام حسین علیہ السلام کو مسلمانوں کے درمیان ایک خاص اہمیت حاصل تھی ان کے بعد ائمہ طاہرین میں سے کسی کوبھی یہ مقام حاصل نہیں ہوسکایہی دونوں فرزندتنہا ذریت پیغمبرۖتھے ، امیر المومنین نے جنگ صفین میں جس وقت دیکھا کہ اما م حسن تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں فرمایا:میرے بجائے تم اس جوان کی حفاظت کرو (ان کو جنگ سے روکومجھے مضطرب نہ کرو مجھے ان دونوں کی بہت فکر ہے) یہ دونوں جوان (امام حسن وامام حسین) قتل نہ ہوں کیونکہ ان کے قتل ہونے سے پیغمبر ۖکی نسل منقطع ہوجائے گی ۔(٢)
حسنین کا مقام اصحاب پیغمبرۖ کے درمیان بھی ایک خاص اہمیت کا حامل تھااس کی دلیل یہ ہے کہ لوگوں نے امام حسن کی بیعت کی اور صحابۂ پیغمبر ۖ نے حضرت کی خلافت کو قبول کیایہی وجہ ہے کہ خلافت امام حسن میں کوئی مشکل دیکھنے میں نہیں آتی کسی نے اعتراض تک نہیں کیا ،صرف شام کی حکومت کی طرف سے مخالفت کی گئی جس وقت حضرت نے صلح کی اور کوفہ سے مدینہ جانا چاہا تو لوگوں نے شدت سے گریہ کیا مدینہ میں
............
(١) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی، قم ، ١٤١٦ھ ص ٨٢
(٢)نہج البلاغہ ،فیض الاسلام ،خطبہ،١٦٨،ص٦٦٠
قریش کی طرف سے کسی نے معاویہ کو جو خبر دی اس سے حضرت کی اہمیت و عظمت کا اندازہ ہوتا ہے قریش کے کسی آدمی نے معاویہ کو لکھا :یا امیر المومنین!! امام حسن نماز صبح مسجد میںپڑھتے ہیں، مصلیٰ پر بیٹھ جاتے ہیں اور سورج طلوع ہونے تک بیٹھے رہتے ہیں، ایک ستون سے ٹیک لگائے ہوتے ہیں اور جو لوگ بھی مسجد میں ہوتے ہیں ان کی خدمت میں جاتے ہیںاور ان سے گفتگو کرتے ہیںیہاں تک کہ کچھ حصہ دن کا چڑھ جاتا ہے اس کے بعددو رکعت نماز پڑھتے ہیںاور آگے بڑھ جاتے ہیں اور پیغمبر ۖ کی بیو یوںکی احوال پرسی کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔(١)
امام حسین کا بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح اقبال بہت بلند تھا یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر جو اہل بیت کاسر سخت دشمن تھا وہ بھی امام حسین کی عظمت سے انکار نہ کرسکا،جب تک حضرت مکہ میں تھے لوگوں نے ابن زبیر کی طرف کوئی توجہ نہ دی اسی بنا پر وہ چاہتا تھا کہ امام جلدی مکہ سے چلے جائیں لہذاا مام سے کہتاہے کہ اگر میرا بھی آپ کی طرح عراق میں بلند مقام ہوتا تومیں بھی وہاں جانے میں جلدی کرتا۔(٢)
حضرت کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ جب آپ نے بیعت سے انکار کردیا تو حکومت یزیدزیر بحث آگئی اور یہی وجہ ہے کہ حضرت سے بیعت لینے کا اصرار و فشار اس قدر زیادہ تھا ،بنی ہاشم کے ان دو بزرگوں کاایک خاص احترام واکرام تھا اس طرح سے کہ ان کے
............
(١) بلاذری ،انساب الاشراف، دار التعارف ،للمطبوعات ، بیروت، ١٣٩٤ھ، ج٣، ص ٢١
(٢) ابن عبد ربہ اندلسی ، احمد بن محمد ، عقد الفرید، دار احیاء التراث، العربی ، بیروت، ١٤٠٠ھ، ج٤، ص ٣٢٦
زمانے میں، بنی ہاشم میں سے نہ ہی کسی نے رہبری کا دعویٰ کیا اور نہ ہی کوئی (بنی ہاشم کی)سرداری کا مدعی ہوا،جس وقت امام حسن معاویہ کے زہر دینے کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوگئے تو شام میں معاویہ نے ابن عباس سے کہا :اے ابن عباس !امام حسن وفات کر چکے ہیںاور اب تم بنی ہاشم کے سردار ہو، ابن عباس نے جواب دیا: جب تک امام حسین موجود ہیں اس وقت تک نہیں۔(١)
ابن عباس بلند مقام ،مفسر قرآن ا ور حبرالامة تھے اور سن میںبھی امام حسن اور امام حسین دونوں سے بڑے تھے اس کے باوجود ان دوبزرگواروںکی خدمت کرتے تھے مدرک بن ابی زیاد نقل کرتا ہے:
ابن عباس امام حسن امام حسین کی رکاب سنبھالتے تھے تاکہ یہ دو حضرات سوار ہوجائیں، میں نے کہا : آپ ایساکیوںکرتے ہیں توانہوںنے فرمایا: احمق! تو نہیں جانتا کہ یہ کون لوگ ہیں یہ رسولۖ کے فرزند ہیں کیا یہ ایک عظیم نعمت نہیں ہے جس کی خدانے مجھے توفیق دی ہے کہ میں ان کی رکاب پکڑوں؟(٢)

تشیع کی وسعت میں انقلاب کربلاکا اثر
امام حسین کی شہادت کے بعد شیعہ اپنی پناہ گاہ کھو دینے کے بعد کا فی خوف زدہ تھے اور دشمن کے مقابلہ میں مسلحانہ تحریک اوراقدام سے نا امید ہو گئے تھے دل خراش واقعۂ
............
(١) مسعودی علی بن حسین ، مروج الذھب ، موسسہ ا لاعلمی ،للمطبوعات، بیروت،ج٣ ص ٩
(٢)ابن شہر آشوب،مناقب آل ابی طالب،موسسةانتشارات علامہ،ج٣ ص٤٠٠
عاشورہ کے بعد مختصر مدت کے لئے انقلاب شیعیت کو کافی نقصان پہونچا،اس حادثہ کی خبر پھیلنے سے اس زمانے کی اسلامی سر زمین خصوصاً عراق و حجاز میں شیعوں پر رعب و وحشت کی کیفیت طاری ہوگئی تھی کیونکہ یہ مسلّم ہو گیا کہ یزید فرزند رسوۖل کو قتل کرکے نیز ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرکے اپنی حکومت کی بنیادمستحکم کرنا چاہتا ہے اور وہ اپنی حکومت کوپائیدار کرنے میں کسی بھی طرح کے ظلم سے گریز نہیں کرنا چاہتا ہے اس وحشت کے آثار مدینہ اور کوفہ میں بھی نمایاں تھے ،واقعہ حرّہ کے ظاہر ہوتے ہی لوگوں کی بے رحمانہ سرکوبی میں یزید کی فوج کی جانب سے شدت آگئی تھی عراق و حجازکے شیعہ نشین علاقے خاص کر کوفہ اور مدینہ میں سانس لینابھی دشوارہو گیااور شیعوں کی یکجہتی و انسجام کا شیرازہ یکسر منتشر ہوگیا تھا امام صادق اس ابتر اورناگفتہ بہ وضعیت کے بارے میں فرماتے ہیں: امام حسین کی شہادت کے بعد لوگ خاندان پیغمبرۖ کے اطراف سے پرا گندہ ہو گئے ان تین افراد کے علاوہ ابو خالد کابلی، یحییٰ ابن ام الطویل ، جبیر ابن مطعم۔(١)
مورخ مسعودی بھی ا س بارے میں کہتا ہے : ''علی بن حسین مخفی اور تقیہ کی حالت میںبہت دشوار زمانے میں امامت کے عہدے دار ہوئے ،،(٢)یہ وضعیت حکومت یزید کے خاتمہ تک جاری رہی ،یزید کے مرنے کے بعد شیعوں کا قیام شروع ہوا اور اموی
............
(١)شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال ،معروف بہ رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ١٤٠٤ہجری، ج ١،ص ٢٣٨
(٢) اثبات الوصیة، مکتبة الحیدریة ، نجف ، طبع چہارم ، ٣١٧٣ھ ص ١٦٧
حکومت کے مضبوط ہونے تک یعنی عبد الملک کی خلافت تک یہ سلسلہ جاری رہا، یہ مدت تشیع کے فروغ کے لئے ایک اچھی فرصت ثابت ہوئی، قیام کربلا کی جو اہم ترین خاصیت تھی وہ یہ کہ لوگوں کے ذہنوں سے بنی امیہ کی حکومت کی مشروعیت یکسرختم ہوگئی تھی اور حکومت کی بدنامی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ خلافت بالکل سے اپنی حیثیت کھوچکی تھی اور لوگ اسے پاکیزہ عنوان نہیں دیتے تھے یزید کی قبر سے خطاب کر کے جو شعر کہا گیا اس سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے :
ایھا القبر بحوارینا
قدضمنت شر الناس اجمعینا(١)
اے وہ قبرکہ جو حوارین کے شہر میں ہے لوگوں میںسے سب سے بد ترین آدمی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔

اس زمانہ میںسوائے شامیوں کے شیعہ و سنی سب کے سب، حکومت بنی امیہ کے مخالف تھے، شیعہ اور سنی کی جانب سے بغاوتیں بہت زیادہ جنم لے رہی تھیں۔(٢)
یعقوبی لکھتا ہے:'' عبد الملک بن مروان نے اپنے حاکم حجاج بن یوسف کو لکھا تک تو مجھے آ ل ابی طالب کا خون بہانے میںملوث نہ کر کیونکہ میںنے سفیانیوں( ابوسفیان کے
............
(١) مسعودی علی بن حسین ، مروج الذھب ، موسسہ ا لاعلمی ،للمطبوعات، بیروت،١٤١١ھ ج٣ ص ٥٦
(٢)مسعودی علی بن حسین ، مروج الذہب ، موسسہ لاعلمی ،للمطبوعات، بیروت، ١٤١١ ھ، ج٣ ، ص٨١۔٩٩
بیٹے)کا نتیجہ ان کے قتل کرنے میں دیکھا کہ کن مشکلات سے دوچار ہوئے تھے''(١)
آخرکار خون اما م حسین علیہ السلام نے بنی امیہ کے قصر کو خاک میں ملا دیا ۔
مقدسی کہتا ہے :'' جب خدا وند عالم نے خاندان پیغمبر ۖپر بنی امیہ کا ظلم و ستم دیکھا تو ایک لشکر کو کہ جو خراسان کے مختلف علاقوں سے اکٹھا ہواتھا شب کی تاریکی میں ان کے سروں پر مسلط کردیا۔(٢)
دوسری طرف سے امام حسین علیہ السلام اور شھداء کربلا کی مظلومیت کی وجہ سے خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت لوگوںکے دلوں میں بیٹھ گئی اور ان کے مقام کو اولاد پیغمبرۖ اوراسلام کے تنہا سرپرست ہونے کے عنوان سے مستحکم کردیا ،بنی امیہ کے دور میں جگہ جگہ لوگ یالثارات الحسین کے نعرہ کے ساتھ جمع ہوتے، یہاں تک کہ سیستان میں ابن اشعث کاقیام ،(٣)حسن مثنیٰ فرزند اما م حسن علیہ السلام
............
(١) ابن واضح تاریخ یعقوبی، منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٤ھ ،ص٣٠٤
(٢) مقدسی، احسن التقاسیم ، ترجمہ منذوی ، شرکت مولفان و مترجمان ایرانی، ج ٢ ص ٤٢٦۔٤٢٧
(٣) عبد الرحمن بن محمد بن اشعث حجاج کی جانب سے سیستان میں حاکم تھا ، سیستان کا علاقہ مسلمانوں اور ہندئوں کے درمیان سر حدواقع ہوتا تھا یہاں مسلمانوں اور ہندوستان کے حاکموں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں ، حجاج کو عبد الرحمن سے جو دشمنی تھی اس کی بنا پر اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ اسے اس طرح ختم کر دے ، عبد الرحمن جب اس سازش سے آگاہ ہوا تواس نے ٨٢ھ میں حجاج کے خلاف بغاوت کردی ، چونکہ عوام حجاج سے نفرت کرتی تھی لہذابصرہ و کوفہ کے کافی لوگ عبد الرحمن کے ساتھ ہوگئے، کوفہ کے بہت سے قاریان قرآن ا ور شیعہحضرات قیام کرنے والوں کے ساتھ ہوگئے، اس طرح عبد الرحمن سیستانسے عراق کی جانب روانہ ہوا ، اس کا پہلا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو )
کے نام سیتشکیل پایا (١)اسی بنیاد پر امام مہدی کی احادیث انتقام آل محمد ۖکے عنوان سے پھیلی(٢)اور لوگ بنی امیہ سے انتقام لینے والے کا بے صبری اور شدت سے انتظار کرنے لگے( ٣)کبھی مہدی کے نام کو قیام اور تحریک کے قائدین پر منطبق کرتے تھے۔ (٤)
دوسری طرف ائمہ اطہار اور پیغمبر ۖ کے خاندان والے شہدائے کربلاکی یادوںکو زندہ رکھے ہوئے تھے ،امام سجاد جب بھی پانی پیناچاہتے تھے اور پانی پر نظر پڑتی تھی تو
............
(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ کا ) پروگرام یہ تھا کہ حجاج کو بر طرف کردے پھر خود عبد الملک کو خلافت سے ہٹادے ، عبد الملک نے شام سے بہت بڑا لشکر حجاج کی مدد کے لئے روانہ کیا ،کوفہ سے سات فرسخ کے فاصلہ پر ''دیر الجماجم ''نامی جگہ پر شام کے لشکر نے عبد الرحمن کو شکست دے دی ،وہ ہندوستان بھاگا اور وہاں کے ایک بادشاہ سے پناہ طلب کی لیکن حجاج کے عامل نے اسے قتل کر دیا ، مسعودی ، مروج الذھب ، ج ٣ ص ١٤٨، معجم البلدان ، یاقوت حموی ، ج ٤ ص ٣٣٨
(١)ابن عنبہ ،عمدةالطالب فی انساب آل ابی طالب، انتشارات رضی،قم ، ص ١٠٠
(٢)ابوالفرج اصفہانی مقاتل الطالبین ،منشوارات شریف رضی ، قم ١٤١٦ھ،ص٢١٦
(٣)یعقوبی نقل کرتا ہے : عمر بن عبد العزیز نے اپنی خلافت کے دور میںعامر بن وائلہ کو کہ جس کا نام وظیفہ لینے والوںکی فہرست سے کاٹ دیا گیا تھا ، اس کے اعتراض کے جواب میں کہا: سنا ہے تم نے اپنی شمشیر کو تیز کیا ہے ،نیزہ کو تیز کیا ہے تیر اور کمان کو آمادہ رکھا ہے اور ایک امام قائم کے کہ وہ قیام کریں لہذا انتظار کرو جس وقت بھی وہ خروج کریں گے اس وقت تمہیں وظیفہ دیا جائے گا،( تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٤ ھ، ج ٢ ص ٣٠٧ )
(٤)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ج ٢، ص٢١٠
آنکھوںمیں آنسو بھر آتے تھے، جب لوگوں نے اس کا سبب معلوم کیا تو آپ نے فرمایا : کیسے گریہ نہ کروں اس لئے کہ انہوںنے پانی جنگلی جانوروں اور پرندوںکے لئے آزاد رکھاتھا اور میرے بابا کے لئے بند کردیا تھا؛ایک روز امام کے خادم نے دریافت کیا، کیا آپ کا غم تمام نہیں ہوگا؟امام نے فرمایا: ''افسوس تجھ پر یعقوب کے بارہ بیٹوں میں سے ایک آنکھوںسے اوجھل ہوگیا تھا اس کے فراق میں اتنا گریہ کیا کہ نابینا ہوگئے اور شدت غم سے کمر جھک گئی حالانکہ ان کا فرزند زندہ تھا لیکن میںنے اپنے باپ بھائی ،چچا نیز اپنے خاندان کے سترہ افراد کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے ان کے لاشے زمین پر پڑے ہوئے تھے لہذا کس طرح ممکن ہے کہ میرا غم تمام ہوجائے ؟!''۔ (١)
امام صادق امام حسین کی مدح میں اشعارکہنے والے شاعروں کی تشویق کرتے تھے اور فرماتے:'' جو بھی امام حسین کی شان میں شعر کہے اور گریہ کرے اور لوگوں کو رلائے اس پر جنت واجب ہے اور اس کے گناہ معاف کر دئے جائیںگے۔ (٢)
امام حسین تشیع کی بنیاداور علامت ٹھہرے اسی بنا پربہت سے زمانوں میںجیسے متوکل کے دور میں آپ کی زیارت کو ممنوع قرار دیا گیا۔ (٣)
............
(١)علامہ مجلسی ،بحار الانوار ، المکتبة الاسلامیہ ،تہران،طبع دوم ،١٣٩٤ھ ق،ج٤٦ص١٠٨
(٢)شیخ طوسی ، اختیارمعرفة الرجال ، معروف بہ رجال کشی ،ج٢ ص ٥٧٤
(٣)طبری، ابی جعفر محمد بن جریر ،تاریخ طبری ، دارالکتب العلمیہ بیروت،طبع دوم،١٤٠٨ھ ج٥،ص٣١٢

(ب) عصر امام سجّاد علیہ السّلام
امام سجّاد کے دور کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا مرحلہ: شہادت امام حسین اوربنی امیہ کی حکومت کے متزلزل ہونے کے بعدسے اورسفیانیوں(ابو سفیان کے بیٹوں اور پوتوں ) کے خاتمہ اور مروانیوں کے برسراقتدار آنے نیز بنی امیہ کے آپس میںجھگڑنے اور مختلف طرح کی شورشوں اور بغاوتوں میں گرفتار ہونے تک یہاں تک کہ مروانیوں کی حکومت برقرار ہوگئی۔
دوسرا مرحلہ: حجاج کی حکمرانی اورمکہ میں عبداللہ بن زبیر کی شکست،(١)سے لے کر امام محمد باقر کا ابتدائی زمانہ اور عباسیوں کے قیام تک۔
............
( ١ ) مکہ میں عبد اللہ بن زبیر کی حاکمیت ،اس زمانے سے کہ جب اس نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور لوگوںکو اپنی طرف آنے کی دعوت دی ، یہاں تک کہ ٧٢ھ میں حجاج کے سپاہیوں نے اسے قتل کردیا ، یہ کل بارہ سال کا عرصہ ہے ابن عبدر بہ نے اس بارہ سال کے طولانی دور کو ''العقد الفرید ''میں ابن زبیر کے فتنہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے، معاویہ کے مرنے کے بعد مدینہ کے حاکم نے ابن زبیر سے یزید کی بیعت طلب کی، یزید کی بیعت سے بچنے کے لئے جس وقت امام حسین مکہ تشریف لے گئے تو ابن زبیر بھی مکہ آگیا لیکن وہاں لوگوں نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی، اسی بنا پرمکہ میں امام حسین کا رہنا اسے ناگوار لگ رہا تھا لہذا اس نے امام حسین سے کہا : اگر آپ کی طرح لوگ مجھے بلاتے تو میں عراق چلا جاتا ، امام حسین کی شہادت کے بعد یزید کے خلاف پرچم بغاوت بلند کر دیا یزید نے ٦٢ ھ میں مسلم بن عقبہ کو ایک لشکر کے ساتھ مدینہ کی شورش کو دبانے اور ابن زبیر کی سر کوبی کے لئے پہلے مدینہ اور پھر مکہ روانہ کیا لیکن واقعۂ حرّہ کے بعد مکہ جاتے ہوئے راستہ ہی میں وہ مر گیا اس کا جا نشین حصین بن نمیر شام کے لشکر کے ہمراہ مکہ گیا
اور ٦٤ ھ میں منجنیق کے ذریعہ کعبہ پر آگ برسائی انہ کعبہ کا پردہ جل گیا اسی جنگ کے دوران یزید کے مرنے کی خبر ملی، شام کی فوج سست پڑ گئی ،حصین نے ابن زبیر سے کہا : بیعت کر لو اور شام چلو وہاں مجھے تخت حکومت پر بٹھادو لیکن ابن زبیر نے قبول نہیںکیا،یزید کے مرنے کے بعد اردن کے علاوہ تمام اسلامی سر زمین نے ابن زبیر کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کر لی اور اس کی حکومت کو تسلیم کر لیا لیکن بنی امیہ نے مروان کو جابیہ میںاپنا خلیفہ منتخب کرلیا اس نے شام میں اپنے مخالفین کو تخت سے اتار دیا، اس کے بعد اس کا بیٹا عبد الملک خلیفہ بنا عبد الملک نے مصعب بن زبیر کو شکست دینے کے بعد اس کے بھائی عبد اللہ ابن زبیر کو شکست دینے کے لئے حجاج ابن یوسف کو عراق سے مکہ روانہ کیا حجاج نے مکہ کا محاصرہ کر لیا ، کوہ ابو قبیس پر منجنیق رکھ کر گولہ باری کر کے کعبہ اور مکہ کو ویران کر دیا اس جنگ میں عبد اللہ بن زبیر کے ساتھیوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن عبد اللہ نے مقاومت کی اور آخر کار قتل ہو گیا، اس طرح ١٢ سال بعد عبد اللہ ابن زبیر کا کام تمام ہو گیا ( ابن عبد ربہ اندلسی ، احمد بن محمد ، العقد الفرید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، ١٤٠٩ھ ج ٤ ص ٢٦٦، مسعودی ، علی ابن الحسین ، مروج الذھب ،منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ ج ٣ ص ٧٨۔٧٩
امام حسین کی شہادت کے بعدایک طرف سے تو بنی امیہ عراق و حجاز کے علاقہ میں برپا ہونے والے انقلابات میں گرفتار تھے تو دوسری طرف سے ان کے اندر اندرونی اختلاف تھا جس کی بنا پرحکومت یزید زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکی یزید تین سال کی حکومت کے بعد ٦٤ ھ میں مر گیا،(١)اس کے بعداس کا بیٹا معا ویہ صغیر بر سر اقتدار آیا ا س نے چا لیس روز سے زیادہ حکومت نہیں کی تھی کہ خلافت سے الگ ہو گیا اور بلا فاصلہ دنیاسے رخصت ہو گیا،(٢) اس کے مر تے ہی خاندان بنی امیہ کے درمیان اختلاف
............
(١) ابن واضح تاریخ یعقوبی، منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٤ھ ،ج ٢،ص٢٥٢
(٢) ابن واضح تاریخ یعقوبی، منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٤ھ ،ج ٢،ص٢٥٦
شروع ہو گیا ، مسعودی نے اس کے مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات کہ جس سے بنی امیہ کی ریاست طلبی کی عکاسی ہوتی ہے یوں بیان کیا ہے: معاویہ دوّم ٢٢ سال کی عمر میں دنیا سے چلا گیااوردمشق میں دفن ہوا ولید بن عتبہ بن ابی سفیان خلافت کی لالچ میں آ گے بڑھا تا کہ معاویہ دوم کے جنازہ پر نماز پڑھے نماز تمام ہونے سے پہلے ہی اسے ایسی ضرب لگی کہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا اس وقت عثمان بن عتبہ بن ابی سفیان نے نماز پڑھائی لیکن لوگ اس کی خلافت پربھی راضی نہیں ہوئے اور وہ ابن زبیر کے پاس مکہ جانے پر مجبور ہوگیا ۔(١)
امام حسین کی شہادت کو ابھی تین سال بھی نہ گزرے تھے کہ سفیانیوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، اسلامی سر زمین کے لوگ یہاںتک کہ بنی امیہ کے کچھ بزرگ افراد جیسے ضحاک بن قیس ا و رنعمان بن بشیر،ابن زبیر کی طرف مائل ہو گئے تھے، اسی وقت ابن زبیر نے مدینہ سے اموی ساکنین منجملہ مروان کونکال باہرکیا وہ سب وہاں سے نکل کرر اہی شام ہو گئے چونکہ دمشق میں کوئی خلیفہ نہیں تھا ،امویوں نے جابیہ میں مروان بن حکم کوخلیفہ بنا د یااور خالد بن یزید اور اس کے بعد عمرو بن سعید اشدق کو اس کا ولی عہد قرار دیا ، کچھ مدّت کے بعد مروان نے خالد بن یزید کو بر طرف کر دیا اور اس کے بیٹے عبدالملک کو اپنا ولی عہد بنایا اسی وجہ سے خالد کی ماں جو مروان کی بیوی تھی اس نے اس کو زہر دیا اور مروان مر گیا ، عبدالملک نے بھی عمرو بن سعید کو اپنے راستے سے ہٹاکر اس کے فرزند کو اپنا ولی عہد بنایا۔
دوسری طرف سے امویوں کو بہت سی شورشوں اور بغاوتوں کا سامنا تھا یہ قیام دو
............
(١)مسعودی ،مروج الذھب ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ ج٣ ص ٨٥۔٨٦
حصّوں میں تقسیم ہوتا ہے،ایک وہ قیام جو شیعہ ما ہیت نہیں رکھتا تھا جیسے حرّہ کا قیام اور ابن زبیر کا قیام، ابن زبیرکے قیام کی حقیقت معلوم ہے اس قیام کا قائد ابن زبیر تھا جو خاندان رسولۖکا سخت ترین دشمن تھا ،جنگ جمل میں شکست کے بعدہی اس کا دل (اہل بیت کے ) بغض و کینہ سے بھر گیا تھا لیکن اس کا بھائی مصعب شیعیت کی طرف مائل تھا اس نے امام حسین کی بیٹی سکینہ سے شادی کی تھی، اسی بنا پر عراق میں اس کو ایک حیثیت حاصل تھی، امویوں کے مقابلہ میں شیعہ اس کے ساتھ تھے، جناب مختار کے بعد ابراہیم بن مالک اشتر ان کے ساتھ ہوگئے تھے اور انہیں کے ساتھ شہید ہوئے ۔
دوسر ے وہ قیام جو ماہیت کے اعتبار سے شیعہ فکر رکھتے تھے ۔
قیام حرّہ کو بھی شیعی حمایت حاصل نہیں تھی ،(١)اس قیام میں امام سجاد
کی کسی قسم کی مداخلت نہ تھی جس وقت مسلم بن عقبہ لوگوں سے بیعت لے رہا تھااور یہ کہہ رہا تھا غلام کی سے جنگ کروں گا اس نے مجھے تحفے دئے اکرام کیا میں نے اس کے ہدیہ و تحفہ کو قبول نہیں کیا جگہ یزید کی بیعت کریںاس وقت وہ امام سجاد کا احترام کر رہا تھا اور حضرت پر کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا۔(2)
............
(١)حرّہ کا واقعہ ٦٢ھ میں پیش آیا ، مسعودی اس کی وجہ لوگوں کا یزید کے فسق و فجور سے نا خوش ہونا اور امام حسین کی شہادت جانتا ہے ، مدینہ جو اولاد رسول ۖ اور اصحاب رسول ۖ کا مرکز تھا یہاں کے لوگ یزید سے ناراض تھے مدینہ کا حاکم عثمان بن محمد بن ابی سفیان جو ایک نا تجربہ کار نوجوان تھا ، مدینہ کے لوگوں کی نمائندگی میں کچھ لوگوں کو شام روانہ کیا تاکہ یزید کو قریب سے دیکھیں اور اس کی نوازشات سے فائدہ اٹھائیں اور جب مدینہ آئیں لوگوں کو یزید کی اطاعت پر تشویق کریں ، اس عثمانی تجویز میں مدینہ کے بزرگان کہ جن میں عبد اللہ بن حنظلہ جو غسیل الملائکہ کہے جاتے ہیں وہ بھی شامل تھے ، یزید جو اسلامی تربیت سے بالکل بے بہرہ تھا ان لوگوں کے سامنے بھی اس نے اپنے فسق و فجور کو جاری رکھا، لیکن مدینہ سے آنے والوں کی خوب آئو بھگت کی سب کو گراں بہا تحفے دئے تاکہ یہ لوگ واپس جا کر اس کی تعریفیں کریں لیکن اس کا سب کچھ کرنا بیکار ہو گیا یہ لوگ جب مدینہ پلٹے تو مجمع میں یہ اعلان کیا کہ ہم اس کے پاس سے واپس آرہے ہیں جو بے دین ہے شراب پیتا ہے ، ناچ گانا سنتا
ہے ، کتے سے کھیلتا ہے ،ان طوائفوں کے ساتھ ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرتا ہے، ان سے ہمنشینی کرتاہے کی آواز یں سنتا ہے ، عیش و عشرت میں زندگی گذارتا ہے ، ہم لوگ آپ کو گواہ قرار دیتے ہیں کہ ہم نے اسے خلافت سے معزول کر دیا ہے ، عبد اللہ ابن حنظلہ نے کہا اگر کسی نے بھی میری مدد نہیں کی تو میں صرف اپنے بچوں کے ساتھ یزیدمگر صرف اس لئے لے لیا کہ خود اس کے خلاف استعمال کروں اس کے بعد لوگوں نے عبد اللہ ابن حنظلہ کی بیعت کی مدینہ کے حاکم اور تمام بنی امیہ کو مدینہ سے باہر بھگا دیا ۔
جب یزید کو یہ خبر ملی تو اس نے بنی امیہ کے ایک نمک خوار و تجربہ کار شخص مسلم بن عقبہ کو ایک بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور کہا: ان لوگوں کو تین دن کی مہلت دینا اگر تسلیم ہو جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان سے جنگ کرکے کامیابی کے بعد تین دن تک جتنی لوٹ مار کرنی ہو کر لینا اور سپاہیوں کو کھلی اجازت دے دینا ۔
اہل مدینہ اور لشکر شام میں شدید جنگ ہوئی آخر کار اہل مدینہ کو شکست ہوئی بڑے بڑے رہبر مارے گئے مسلم نے تین دن بالکل قتل عام کا حکم صادر کر دیا ،لشکر شام نے وہ کام کیا جسے بیان کرنے سے قلم کو بھی شرم آتی ہے اس ظلم و بربریت کی بنا پر مسلم کو مسرف کہا گیا ،قتل و غارت کے بعد اس نے یزید کے لئے لوگوں سے زبر دستی بیعت لی ۔
ابن عبد ربہ اندلسی ، العقد الفرید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، ج ٤ ص ٣٦٢، ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٤ھ ج٢ ص ٢٥٠۔ ٨٢ ، ابن اثیر ، الکامل دار صادر ، بیروت ، ج ٤ ص ١٠٢۔١٠٣۔ ٢٥٥۔٢٥٦
(2) ابی حنیفہ ، دینوری ، احمد بن دائود ، الاخبار الطوال ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، ص ٢٦٦

شیعی قیام
شیعی قیام درج ذیل ہیں : قیام توّابین اور قیام مختار، ان دو قیام کا مقام ومرکز عراق میں شہر کوفہ تھا اور جو فوج تشکیل پائی تھی وہ شیعیان امیرالمو منین کی تھی سپاہ مختار میںشیعہ غیر عرب بھی کافی موجود تھے ۔
توابین کے قیام کی ماہیت میں کوئی ابہام نہیں ہے یہ قیام صحیح ہدف پر استوار تھا جس کا مقصد صرف خون خواہی امام حسین اور حضرت کی مدد نہ کرنے کے گناہ کو پاک کرنے اور ان کے قاتلوں سے مقابلہ کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، . توابین کوفہ سے نکلنے کے بعد کربلا کی طرف امام حسین کی قبر کی زیارت کے لئے گئے اور قیام سے پہلے اس طرح کہا:
پروردگارا!ہم فرزند رسول ۖ کی مدد نہ کر سکے ہمارے گنا ہوں کو معاف فرما، ہماری توبہ کو قبول فرما ، امام حسین کی روح اور ان کے سچّے ساتھیوں پر رحمت نازل کر، ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم اسی عقیدہ پر ہیں جس عقیدہ پر امام حسین قتل ہوئے، پروردگارا!اگر ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کیا اور ہم پر لطف وکرم نہیں کیا تو ہم بد بخت ہو جائیں گے۔(١)
مختار نے مسلم بن عقیل کے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد ان کی مدد کی جس کی وجہ سے عبید اللہ بن زیادکے ذریعہ دستگیر ہوئے اور زندان میں ڈال د یئے گئے اور واقعہ عاشورہ کے بعداپنے بہنوئی عبداللہ بن عمر کے توسط سے آزاد ہوئے وہ ٦٤ھ میں کوفہ آئے اور اپنے قیام کو قیام توابین کے بعد شروع کیا اور یا لثارات الحسین کے نعرہ کے
............
(١)ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ ، ج ٤ ص ١٥٨۔١٨٦
ذریعہ تمام شیعوں کو جمع کیا وہ اس منصوبے اور حوصلہ کے ساتھ میدان عمل میں وارد ہوئے کہ امام حسین کے قاتلوں کوان کے عمل کی سزادیں اور اس طرح سے ایک روز میں (٢٨٠) ظالموں کو قتل کیا اور فرار کرنے والوں کے گھروں کو ویران کیا، من جُملہ محمّد بن اشعث کے گھر کو خراب کیا اور اس کی باقیات (ملبہ و اسباب) سے علی کے وفادار ساتھی حجر بن عدی کا گھر بنوایا جس کو معاویہ نے خراب کر دیا تھا۔ (١)
جناب مختار کے بارے میں اختلاف نظرہے بعض ان کو حقیقی شیعہ اور بعض انہیں جھوٹا جانتے ہیں، ابن داؤد نے رجال میں مختار کے بارے میں اس طرح کہا ہے:
مختار ابو عبیدثقفی کا بیٹا ہے بعض علماء شیعہ نے ان کو کیسانیہ سے نسبت دی ہے اور اس بارے میں امام سجّاد کا مختار کا ہدیہ رد کرنے کوبطور دلیل پیش کیا گیا ہے لیکن یہ اس کی رد پر دلیل نہیں ہو سکتی ،کیونکہ امام محمّد باقر نے ان کے بارے میں فرما یا : مختار کو برا نہ کہو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا ہے اور اس نے نہیں چاہا کہ ہمارا خون پامال ہو ،ہماری لڑکیوں کی شادی کرائی اور سختی کے موقع پر ہمارے درمیان مال تقسیم کیا ۔
جس وقت مختار کا بیٹا ابو الحکم امام باقر کے پاس آیا امام نے اس کا کافی احترام کیا ابو الحکم نے اپنے باپ کے بارے میں معلوم کیا اور کہا :لوگ میرے باپ کے بارے میں کچھ باتیں کہتے ہیں لیکن آپ کی جو بات ہو گی وہ صحیح میرے لئے معیار ہوگی اس وقت امام نے مختار کی تعریف کی اور فرمایا :
'' سُبحان اللہ میرے والد نے مجھ سے کہا: میری ماں کا مہر اس مال میں سے تھا جو
............
(١)مقتل الحسین ، منشورات المفید ، قم ، ج ٢ ص ٢٠٢
مختار نے میرے والد کو بھیجا تھا اور چند بار کہا: خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل کرے اس نے ہمارے حق کو ضائع نہیں ہونے دیا ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارا خون پامال نہیں ہونے دیا ''۔
امام صادق نے بھی فرمایا : ''جب تک مختار نے امام حسین کے قاتلوں کے سرقلم کر کے ہم تک نہیں بھیجااس وقت تک ہمارے خاندان کی عورتوں نے بالوں میں کنگھا نہیں کیا اور بالوں کو مہندی نہیں لگائی '' ۔
روایت میں ہے جس وقت مختار نے عبید اللہ ابن زیاد ملعون کا سر امام سجّاد کے پاس بھیجا امام سجدہ میں گر پڑے اور مختار کے لئے دعائے خیر کی، جو روایتیں مختار کی سرزنش میں ہیں وہ مخالفین کی بنائی ہوئی روایتیں ہیں۔(١)
مُختار کی کیسانیہ سے نسبت کے بارے میں یا فرقۂ کیسانیہ کی ایجادمیں، مختار کے کردار کے بارے میں آیةاللہ خوئی مختار کے دفاع اور کیسانیہ سے ان کی نسبت کی رد میں لکھتے ہیں:
بعض علماء اہل سنّت مختار کو مذہب کیسانیہ سے نسبت دیتے ہیں اور یہ بات قطعاً باطل ہے کیونکہ محمد حنفیہ خود مدعی امامت نہیں تھے کہ مختار لوگوں کو ان کی امامت کی دعوت دیتے مختار مُحمّد حنفیہ سے پہلے قتل ہو گئے اور محمّد حنفیہ زندہ تھے، اور مذہب کیسا نیہ محمّد حنفیہ کی موت کے بعد وجود میں آیا ہے لیکن یہ کہ مختار کو کیسانیہ کہتے تھے اس وجہ سے نہیں کہ ان کا مذہب کیسانی ہے اور بالفرض اس لقب کو مان لیا جائے تو یہ وہ روایت ہے کہ امیرالمومنین نے ان سے دو مرتبہ فرمایا:( یاکیس یا کیس) اسی کو صیغئہ تثنیہ میں کیسان کہنے لگے ۔ (٢)
............
(١)رجال ابن دائود ، منشورات الرضی ، قم ص ٢٧٧
(٢)آیة اللہ سید ابو القاسم خوئی ،معجم رجال الحدیث، بیروت، ج ١٨، ص ١٠٢۔١٠٣

مروانیوں کی حکومت ( سخت دور)
جیسا کہ بیان کر چکے امام سجّاد کے دور کا دوسرامرحلہ مروانی حکومت دور تھا بنی مروان نے عبداللہ بن زبیر کے قتل کے بعد ٧٣ ھ( ١) میں اپنی حکومت کومستحکم کر لیا تھا ، اس نے اور اس دور میں ظالم و جابرحجّاج بن یوسف کے وجود سے فائد ہ اُٹھایاوہ دشمن کو ختم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی یہاں تک کہ کعبہ کو بھی مورد حملہ قرار دیا اس پر آگ کے گولے برسائے اور اس کو ویران کردیا اور بنی امیہ کے مخالفین کوچاہے وہ شیعہ ہو ںیا سُنّی جہاں کہیں بھی پایا فوراان کو قتل کردیا٨٠ ھ میںابن اشعث نے قیام کیا مگر اس قیام سے بھی حجاج کو کوئی نقصان نہیں پہونچا (٢) ٩٥ ھ تک حجاز اور عراق میں اس کی ظالم
............
(١)ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ،منشورات الشریف الرضی ، قم، ١٤١٤ھ ج ٢ ص ٢٦٧
(٢)٨٠ھ میں با وجود اس کے کہ حجاج ، عبد الرحمن بن اشعث سے خوش نہیں تھا مگر سیستان اور زابلستان کا حاکم بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ رتبیل کو کہ جس نے سیستان پر حملہ کیا تھا اسے باہر بھگا دے ، عبد الرحمن جب وہاںپہونچا تو حملہ آوروں کو ٹھکانے لگادیا شہر میں امن و امان قائم کیا اس کے بعد بھی چونکہ حجاج نے مطالبہ تھاکہ دشمن کا تعاقب کرے جسے عبد الرحمن اور اس کے فوجیوں نے حجاج کی چال سمجھا لہٰذا وہ دشمن سے لڑنے کے بجائے حجاج پر ہی حملہ کرنے کے لئے عراق روانہ ہو گیا خوزستان کے علاقہ میں حجاج اور عبد الرحمن میں جنگ ہوئی، پہلے تو حجاج کے سپاہیوں کو شکست ہوئی عبد الرحمن نے اپنے کو عراق پہنچا دیا اور کوفہ پر قابض ہو گیا بصرہ کے بہت سے لوگوں نے بھی اس کی مدد کی، حجاج نے عبد الملک سے مدد طلب کی، شام سے لشکر اس کی مدد کے لئے روانہ ہوا لشکر کے پہنچنے پر حجاج نے دوبارہ حملہ کیا یہ شدید جنگ( دیر الجماجم )کے نام سے مشہور ہے، بصرہ اور کوفہ کے لوگ یہاں تک کہ قاریان و حافظان قرآن جو حجاج کے دشمن تھے عبد الرحمن کی نصرت کی، عبد الرحمن کے پاس اتنی بڑی فوج تھی کہ خود
عبد الملک کو خوف ہونے لگا اس نے لوگوں سے کہا : اگر لوگحجاج کو معزول کرنا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں لیکن عراق والوں نے اس کی سازش قبول نہ کی اور عبد الملک کو ہی معزول کر دیا، بڑی شدید جنگ ہوئی عبد الملک نے عبد الرحمن کے کچھ فوجیوں کو فریب دیا اورشب خون مار ا، ابن اشعث کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ فرار ہونے پر مجبور ہوئے اور رتبیل کے پاس پناہ حاصل کی، بعد میں رتبیل نے حجاج کے فریب اور لالچ میں آکر اسے قتل کر دیا اور سر کو حجاج کے پاس بھیجا ( مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت ، ١٤١٤ھ ق ، ج ٣ ص ١٤٨۔١٤٩، و شہیدی ، دکتر سید جعفر ، تاریخ اسلام تا پایان امویان ، مرکز نشر دانشگاہ تہران ، طبع ششم ، ١٣٦٥ھ ش، ص ١٨٥۔١٨٦
حکومت قائم رہی۔(١)
امام سجّاد نے ایسے حالات میں زندگی گذاری اور دعائوں کے ذریعہ اسلامی معارف کو شیعوں تک منتقل کیا، ایسے وقت میںشیعہ یا تو فرار تھے یا زندان میں زندگی بسر کر رہے تھے یا حجاج کے ہا تھوں قتل ہورہے تھے یا تقیہ کرتے تھے اس بنا پر لو گو ں میں امام سجّاد سے نزدیک ہو نے کی جرأت نہیں تھی اورحضرت کے مددگار بہت کم تھے ، مرحوم علّا مہ مجلسی نقل کرتے ہیں: حجّاج بن یو سف نے سعید بن جبیر کو اس وجہ سے قتل کیا کہ اس کا ارتباط امام سجّاد سے تھا ۔(٢)
البتہ اس زمانے میں شیعوں نے سختیوں کی وجہ سے مختلف اسلامی سر زمینوں کی
............
(١) مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذہب ، ص ١٨٧
(٢)شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ، معروف بہ رجال کشی، موسسہ آل البیت ، لاحیاء التراث، قم ١٤٠٤ھ ج١ ص ٣٣٥
طرف ہجرت کی جو تشیع کے پھیلنے کا سبب بنی، اسی زمانے میں کوفہ کے چند شیعہ قم کی طرف آئے اور یہا ں سکونت اختیار کر لی اور وہ تشیع کی ترویح کا سبب بنے۔(١)
امام محمد باقرکی امامت کا ابتدائی دور بھی حکومت امویان سے متصل تھا اس دور میں ہشّام بن عبد الملک حکومت کرتا تھاجو صاحب قدرت اور مغرور بادشاہ تھا، اس نے ا مام محمدباقر کو امام صادق کے ساتھ شام بلوایا اور ان کو اذیت وآزار دینے میں کسی قسم کی کو تاہی نہیں کی۔(٢)
اسی کے زمانے میں زید بن علی بن الحسین نے قیام کیا اور شہید ہو گئے اگرچہ عمر بن عبد العزیز کے دور میں سختیوں میںبہت کمی آگئی تھی لیکن اس کی مدت خلافت بہت کم تھی وہ دو سال اور کچھ مدت کے بعدسرّی طور پر(اس کو موت ایک معمہ رہی ) اس دنیا سے چلا گیا ، بنی امیہ اس قدر فشار اور سختیوں کے باوجود نور حق کو خاموش نہ کر سکے اور علی ابن ابی طالب کے فضائل ومناقب کومحو نہ کر سکے چونکہ یہ خدا کی مرضی تھی، ابن ابی الحدید کہتا ہے : ''اگر خدانے علی میں سر(راز) قرار نہ دیا ہوتاتوایک حدیث بھی ان کی فضیلت و منقبت میں موجودنہ ہوتی''اس لئے کہ حضرت کے فضائل نقل کرنے والوں پر مروانیوں کی طرف سے بہت سختی تھی۔(٣)
............
(١)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبد اللہ ، معجم البلدان ، دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت طبع اول ١٤١٧ھ ، ج ٧ ص ٨٨
(٢)طبری، محمد بن جریر بن رستم ، دلائل الامامہ منشورات المطبعة الحیدریہ، نجف ، ١٣٨٣ھ ص ١٠٥
(٣)محمد عبدہ ، شرح نہج البلا غہ، دار احیاء الکتب العربیہ، قاہرہ، ج ٤ ص ٧٣

عباسیوں کی دعوت کا آغاز اورشیعیت کا فروغ
سن ١١١ھ سے عباسیو ں کی دعوت شروع ہو گئی(١)یہ دعوت ایک طرف تو اسلامی سر زمینوں میںتشیع کے پھیلنے کا سبب بنی تو دوسری طرف سے بنی امیہ کے مظالم سے نجات ملی جس کے نتیجہ میں شیعہ راحت کی سانس لینے لگے ،ائمہ معصومین علیہم السّلام نے اس زمانے میں شیعہ فقہ وکلام کی بنیاد ڈالی تشیّع کے لئے ایک دور کا آغاز ہوا ، کلّی طور پرامویوں کے زمانے میںفرزندان علی اور فر زندان عبّاس کے درمیان دو گا نگی کا وجود نہیں تھا کوئی اختلاف ان کے درمیان نہیں تھا جیسا کہ سیّد محسن امین اس سلسلے میں کہتے ہیں: ''ابنائِ علی اور بنی عباس، بنی امیہ کے زمانے میں ایک راستے پر تھے، لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ بنی عباس، بنی امیہ سے زیادہ خلافت کے سزا وار ہیں اور ان کی مدد کرتے تھے کہ نبی عباس لوگ شیعیان آل محمد کے نام سے یاد کئے جاتے تھے اس زمانے میں فر زندان علی و فرزندان عبّاس کے درمیان نظریات و مذہب کا اختلاف نہیں تھا لیکن جس وقت بنی عباس حکومت پر قابض ہوئے شیطان نے ان کے اور فرزندان علی کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا، انہوںنے فرزندان علی پر کا فی ظلم وستم کیا،(٢) اسی سبب سے داعیان فرزندان عبّاس لوگوں کو آل محمّد کی خشنو دی کی طرف دعوت دیتے تھے اور خاندان پیغمبرۖ کی مظلومیت بیان کرتے تھے ۔
ابو الفرج اصفہانی کہتا ہے: ولید بن یزید کے قتل اور بنی مروان کے درمیان
............
(١) ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، ج ٢ ص ٣١٩
(٢)سید محسن امین ، اعیان الشیعہ ،دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ، ج ١ص ١٩
اختلاف کے بعد بنی ہاشم کے مبلّغین مختلف جگہوں پرتشریف لے گئے اورانہوں نیجس چیز کا سب سے پہلے اظہار کیا وہ علی ابن ابی طالب اور ان کے فرزندوں کی فضیلت تھی،وہ لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ بنی امیہ نے اولاد علی کو کس طرح قتل کیا اور ان کو کس طرح دربدر کیا ہے،(١)جس کے نتیجہ میں اس دور میںشیعیت قابل ملاحظہ حد تک پھیلی یہا ں تک امام مہدی سے مربوط احادیث مختلف مقامات پر لوگوں کے درمیان کافی تیزی سے منتشر ہوئی داعیان عبّاسی کی زیادہ تر فعالیت وسر گرمی کا مرکز خراسان تھا اس بنا پر وہاں شیعو ں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ۔
یعقوبی نقل کرتا ہے : ١٢١ھ میںزید کی شہادت کے بعدشیعہ خراسان میں جوش وحرکت میں آگئے اور اپنی شیعیت کو ظاہرکرنے لگے بنی ہاشم کے بہت سے مبلّغین ان کے پاس جاتے تھے اور خاندان پیغمبر ۖ پر بنی امیہ کی طرف سے ہونے والے مظالم کو بیان کرتے تھے، خراسان کاکوئی شہر بھی ایسا نہیں تھا کہ جہاں ان مطالب کو بیان نہ کیا گیا ہواس بارے میں اچھے اچھے خواب دیکھے گئے ،جنگی واقعات کو درس کے طور پر بیان کیا جانے لگا ۔(٢)
مسعودی نے بھی اس طرح کے مطلب کو نقل کیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خراسان میں کس طرح شیعیت پھیلی وہ لکھتا ہے کہ١٢٥ھمیں یحییٰ بن زید جو زنجان میں قتل ہوئے تو لوگوں نے اس سال پیدا ہونے والے تمام لڑکوں کا نا م یحییٰ رکھا۔ (٣)
............
(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ، ١٤١٦ھ ص ٢٠٧
(٢) ابن واضح ، ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، ج ٢ ص٣٢٦
(٣) مروج الذھب منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١٧ھ ج٣ ص ٢٣٦
اگر چہ خراسان میں عبّاسیوں کا زیادہ نفوذتھا چنانچہ ابو الفرج، عبداللہ بن محمد بن علی ابی طالب کے حالات زندگی میں کہتا ہے: خراسان کے شیعو ں نے گمان کیا کہ عبداللہ اپنے باپ محمّد حنفیہ کے وارث ہیںکہ جو امام تھے اور محمد بن علی بن عبداللہ بن عبّاس کو اپنا جانشین قرار دیا اورمحمدکے جانشین ابراہیم ہوئے اور وراثت کے ذریعہ امامت عباسیوں تک پہونچ گئی۔ (١)
یہی وجہ ہے کہ عباسیوں کی فوج میں اکثر خراسانی تھے اس بارے میں مقدسی کا کہنا ہے : جب خدا وند عالم نے بنی امیہ کے ذریعہ ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھا تو خراسان میں تشکیل پانے والے لشکر کو رات کی تاریکی میں ان پر مسلط کردیا حضرت مہدی کے ظہور کے وقت بھی آپ کے لشکر میں خراسانیوں کے زیادہ ہونے کا احتمال ہے ۔(٢)
بہر حال اہل بیت پیغمبر ۖ کالوگوں کے درمیان ایک خاص مقام تھا چنانچہ عباسیوں کی کامیابی کے بعد شریک بن شیخ مہری نامی شخص نے بخارا میںخانوادہ پیغمبر پر عباسیوں کے ستم کے خلاف قیام کیا اور کہا :ہم نے ان کی بیعت اس لئے نہیں کی ہے کہ بغیر دلیل کے ستم کریں اورلوگوں کا خون بہائیں اور خلاف حق کام انجام دیںچنانچہ یہ ابومسلم کے ذریعہ قتل کردیا گیا ۔(٣)
............
(١)ابو الفرج اصفہانی ،مقا تل الطالبین ، منشورات ؛شریف الرضی ، قم ١٤١٦ ص ١٣٣
(٢)مقدسی ، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ، ترجمہ دکتر علی نقی منزوی ، شرکت مولفان و مترجمان ایران ، ج٢ ص ٤٢٦۔٤٢٧
(٣) تاریخ یعقوبی، منشورات الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج ٢ ص ٣٤٥