صحابہ کے درمیان حضرت علی کا مقام
حضرت علی کا اصحاب پیغمبر ۖکے درمیان ایک خاص مقام ہے ،مسعودی کہتا ہے: وہ تمام فضائل و مناقب جو اصحاب پیغمبرۖ میں تھے جیسے اسلام میں سبقت ، ہجرت ،نصرت پیغمبرۖ،آنحضرتۖ کے ساتھ قرابت ،قناعت ،ایثار ، کتاب خدا کا جاننا ،جھاد، تقویٰ، ورع پرہیز گاری ، زہد،قضا،فقہ وغیرہ یہ تمام فضیلتیں حضرت علی میں بدرجہ اتم موجود تھیں بلکہ ان
کے علاوہ بعض فضیلتیں صرف آپ کی ذات گرامی سے مختص ہیں جیسے پیغمبر ۖ کابھائی ہونا اور پیغمبر ۖ کا آپ کے بارے میں فرمانا: یا علی: تم کومجھ سے و ہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، اور یہ بھی کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں ، اے اللہ !علی کے دوستوں کودوست رکھ اور علی کے دشمن کو دشمن قراردے اور جب انس بھنے ہوئے پرندے کو لے کر حاضر ہوئے تو پیغمبر ۖنے دعاکی: پرور دگار ا!پنی محبوب ترین مخلوق کو بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے اس وقت حضرت علی وارد ہوئے اورآپ نے پیغمبر ۖ کے ساتھ کھانا کھایا ، جب کہ پیغمبر ۖکے تمام اصحاب ان فضائل سے محروم تھے۔(١)
بنی ہاشم میں بھی حضرت علی پیغمبر ۖسے سب سے زیادہ نزدیک تھے بچپنے ہی سے آپ نے پیغمبرۖ کے گھر اور انھیں کے زیر نظر تربیت پائی۔(٢)
آپ شب ہجرت پیغمبرۖ کے بستر پر سوئے اور پیغمبرۖ کی امانتوں کو صاحبان امانت تک پہنچایااور مدینہ میں آپ سے ملحق ہوئے ۔(٣)
ان سب سے اہم بات یہ ہے کہ رسول خدۖا نے اسلام میں حضرت علی کے مقام کو آغاز پیغمبری ہی میں معین فرمادیاتھا، جس وقت پیغمبر ۖ کوحکم ہو ا کہ اپنے قرابت داروں کو ڈرائیں اس جلسہ میں جو پیغمبرۖ کی مدد کے لئے حاضر ہوئے وہ صرف علی تھے اس کے بعد رسول ۖنے اسی جلسہ میں خاندان کے بزرگوں کے درمیان یہ اعلان کردیا کہ
............
(١)مسعودی ، علی بن حسین مروج الذھب ، موسسة الاعلمی ، للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھج ٢ ص٤٤٦
(٢)ابوالفرج اصفہانی ،مقتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٤١٦ھ ص٤١
(٣)مسعودی ،علی بن حسین ، مروج الذہب ،ص٢٩٤
علی میرے وصی وزیر ،خلیفہ اور جا نشین ہیں جب کہ حضرت علی کا سن تمام حاضرین سے کم تھا(١)
پیغمبر اکرمۖ نے مختلف مقامات پر مناسبت کے لحاظ سے حضرت علی کی موقعیت اور ان کے مقام کو لوگوںکے سامنے بیان کیا ہے اور ان کے مقام کے لئے خاص تاکید کی ہے، خاص طور پر اسلام کے پھیلنے کے بعد کافی لوگ جو مسلمانوں کے لباس میں آگئے تھے خصوصاًقریش کا حسد خاندان بنی ہاشم و رسالت سے کافی زیادہ ہوچکا تھا ، ابن شہر آشوب نے عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں:
میں علی کو اذیت دے رہا تھا کہ پیغمبر ۖسے ملاقا ت ہوگئی تو آپ نے فرمایا: اے عمر! تونے مجھے اذ یت دی ہے عمر نے کہا : خدا کی پناہ کہ میں اللہ کے رسول کو اذیت دوں،آپ نے فرمایا تونے علی کو اذیت دی ہے اور جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔
مصعب بن سعدنے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے : میںاور ایک دوسرا شخص مسجد میںعلی کو برا بھلا کہہ رہے تھے، پیغمبر ۖ غضب ناک حالت میں ہماری طرف آئے اورفرمایا :کیو ں مجھ کو اذیت دے رہے ہو جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔
ہیثمی نقل کرتا ہے: بریدہ اسلمی ان لو گوںمیںسے ہے کہ جو حضرت علی کی سپہ سالاری میں یمن گئے تھے وہ کہتا ہے کہ میں لشکر سے پہلے مدینہ واپس آگیا لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا خبر ہے؟میں نے کہا : خبریہ ہے کہ خدا نے مسلمانوں کو کامیاب کردیاہے پھر لوگوں
............
(١)یوسفی غروی ،محمد ہادی ،موسوعة التاریخ الاسلامی ،مجمع الفکرالاسلامی ،قم ،طبع اول ١٤١٧ھ ج١ ص٤١٠
نے دریافت کیا کہ تو تم کیوں پہلے واپس آگئے؟میں نے کہا : علی نے ایک کنیز خمس میں سے اپنے لئے مخصوص کرلی ہے میںآیاہوں تاکہ اس بات کی خبر پیغمبر ۖ کو دوں ، جس وقت یہ خبر پیغمبرۖ تک پہنچی تو پیغمبرۖ ناراض ہوئے اور آپۖ نے فرمایا: آخرکیوں کچھ لوگ علی کے بارے میں چوںچرا کرتے ہیں جس نے علی پر اعتراض کیا اس نے مجھ پر اعتراض کیا ہے جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہو ا، علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،وہ میری سرشت سے خلق ہوئے ہیں اور میں سرشت ابراہیم سے، اگرچہ میںابراہیم سے افضل ہوں،اے بریدہ! کیا تم نہیں جانتے کہ علی ایک کنیزسے زیادہ کے مستحق ہیںاور وہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں۔(١)
ابن شہر آشوب نے بھی اس طرح کی حدیث محدثان اہل سنت سے نقل کی ہے جیسے تر مذی ،ابو نعیم ،بخاری و موصلی وغیرہ۔(٢)
ابن شہر آشوب انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں :
رسول اسلام ۖکے زمانہ میں اگر کسی کو پہچاننا چاہتے تھے کہ کون حرام زادہ ہے اور کون حرام زادہ نہیںہے تو اس کو علی بن ابی طالب کے بغض سے پہچانتے تھے ،جنگ خیبر کے بعد لوگ اپنے بچوں کو اپنی آغوش میںلئے ہوئے جاتے تھے جب راستہ میں علی کو دیکھتے تھے اوروہ ہاتھوں سے حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے تھے اور بچہ سے پوچھتے تھے کہ اس شخص
............
(١)ہیثمی ،نورالدین علی بن ابی بکر ،مجمع الزوائد، دار الفکر للطباعةوالنشر التوزیع،بیروت ١٤١٤ھ ، ج٩، ص١٧٣
(٢) ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ،ص،١١ ٢۔٢١٢
کو دوست رکھتے ہو اگر بچہ نے کہا: ہاں تو اس کا بوسہ لیتے تھے اور اگروہ کہتاتھا نہیں ، تو اس کو زمین پراتاردیتے اور کہتے کہ اپنی ماں کے پاس چلے جائو،عبادہ بن صامت کا بھی کہناہے: ہم اپنی اولادکو بھی علی بن ابی طالب کی محبت پر آزماتے تھے اگر دیکھتے تھے کہ ان میںسے کوئی ایک بھی حضرت علی کو دوست نہیں رکھتاتو سمجھ لیتے تھے کہ یہ نجات یافتہ نہیں ہو سکتا ۔(١)
پیغمبر اکرمۖ کی عمر کے آخری سال گزرنے کے ساتھ ساتھ مولا علی کی جانشینی کا مسئلہ عمومی تر ہوتا گیا اور اس قدر عام ہو ا کہ لقب وصی حضرت علی سے مخصو ص ہو گیا جس کو دوست و دشمن سبھی قبول کرتے تھے خاص کر رسول اکرم ۖ نے تبوک جانے سے پہلے حضرت علی سے فرمایا: اے علی !تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حجةالوداع کے موقع پر بھی پیغمبر ۖ نے منیٰ و عرفات کے میدان میں اپنی تقریر وں کے ذریعہ لوگو ں کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی تھی کہ میرے بارہ جانشین ہوں گے جو سب کے سب بنی ہاشم سے ہوں گے۔(٢)
بالآخر مکہ سے واپسی پرغدیر خم کے میدان میں خدا کا حکم آیاکہ تمام مسلمانوں کے درمیان علی کی جانشینی کا اعلان کردیں ،رسول اکرم ۖنے ،مسلمانوں کو ٹھہرنے کا حکم دیا اور اونٹ کے کجاؤںکے منبر پر تشریف لے گئے اورمفصل تقریر کے بعد فرمایا:
............
(١) ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ،ص،٢٠٧
(٢)مرتضیٰ عاملی ،سید جعفر ،الغدیروالمعارضون ،دار السیر، بیروت ،١٤١٧ھ ص٦٢۔٦٦
(من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ)
اس کے بعد لوگوں کو حکم دیا کہ علی کی بیعت کریں اس مطلب کی تفصیل علامہ امینی نے الغدیر کی پہلی جلد میں بیان کی ہے ،رسول خداۖ نے مسلمانوں میں اعلان کر دیا کہ کون میرا جانشین ہے اسی بنا پر لوگوں کو یقین تھا کہ پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد علی ان کے جانشین ہوں گے، زبیر بن بکار اس سلسلے میں لکھتا ہے :
تمام مہاجرین اور انصار کو اس بارے میں بالکل شک نہیں تھا کہ رسول خدۖا کی وفات کے بعد حضرت علی خلیفہ اور صاحب الامر ہوںگے۔(١)
یہ مطلب زمانۂ سقیفہ کے اشعار سے بخوبی آشکار ہے اور یہ اشعار اس مطلب پر دلیل ہیں جب کہ ان اشعار میں مختصر سی تحریف ہوئی ہے عتبہ بن ابی لہب نے سقیفہ کے واقعہ کے بعداور ابوبکر کے خلیفہ بن جانے کے بعد اس طرح اشعار پڑھے ہیں ۔
ما کنت احسب ان الأمر منصرف
عن ہاشم ثم منہا عن ابی حسن
میں نے اس بات کا گمان بھی نہیں کیا تھا کہ خلافت کو بنی ہاشم اور ان کے درمیان ابوالحسن یعنی حضرت علی سے چھین لیںگے۔
الیس اول من صلّی لقبلتکم
و اعلم الناس بالقرآن و السنن
............
(١) زبیر بن بکار، الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی،قم ،١٤١٦ھ ،ص٥٨
کیاوہ سب سے پہلے شخص نہیں ہیںجنہوںنے تمہارے قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور لوگوں میں قرآن و سنت کو سمجھنے میں سب سے دانا ہیں۔
و اقرب الناس عہداً باالنبی ۖ و من
جبرئیل عون لہ فی الغسل و الکفن
وہ لوگوں میں سب سے آخری شخص ہیںجس نے پیغمبر ۖ کے چہرے پر نگاہ کی ، جبرئیل آنحضرت کے غسل و کفن میں ان کی مدد کر رہے تھے۔
ما فیہ ما فیہم لا یمترون بہ
و لیس فی القوم ما فیہ من الحسن
جوکچھ ان کے پاس ہے اور جو کچھ دوسروں کے پاس ہے اس کے بارے میں فکر نہیںکرتے در حالانکہ قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کی نیکیاں ان کے برابر ہوں
ماذا الذی ردہم عنہ فتعلمہ
ہا ان ذا غبننا من اعظم الغبن
کون سی ایسی چیز ہے جس نے ان کو ان سے برگشتہ کردیا ہے ،جان لو کہ یہ ہمارا ضرر بہت بڑا نقصان ہے ۔
ان اشعار کے کہنے کے بعد حضرت علی نے اس سے سفارش کی کہ دوبارہ ایسا نہیں کرنا اس لئے ہمارے لئے دین کی سلامتی سب سے زیادہ اہم نکلے ۔(١)
............
(١)زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی قم ،١٤١٦ھ ص ا٥٨
ابن ابی عبرہ قرشی نے بھی یہ شعرپڑھے :
شکراً لما ہو باالثنا ء حقیق
ذہب الّجاج و بویع الصدیق
اس کا شکر جو تعریف کے لائق ہے ،صدیق کی بیعت کی گئی اور ہمارے درمیان جھگڑا ختم ہو گیا ۔
کنّا نقول لہا علی و الرضا
عمر و اولاہم بذاکٔ عتیق
ہم کہتے تھے کہ علی خلافت کے حقدار ہیں اور ہم عمر سے بھی راضی تھے لیکن اس مورد میں ان کے درمیان سب سے بہتر ابو بکر نکلے۔(١)
خلافت کے موقع پر وہ اختلاف جو سقیفہ کی بنا پر قریش و انصار کے درمیان پیدا ہوا اور عمرو عاص نے انصارکے خلاف گفتگو کی نعمان بن عجلان جو انصار کے شعراء میں سے ایک تھے انہوں نے عمرو عاص کے جواب میں اشعار کہے جو علی کے حق کی وضاحت کرتے ہیں۔
فقل لقریشٍ نحن اصحاب مکة
و یوم حنین والفوارس فی بدر
قریش سے کہو ہم فتح مکہ کے لشکر، جنگ حنین اور بدر کے سواروں میں سے ہیں
............
(١) زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی، قم ،١٤١٦ھ ص ٥٨٠
و قلتم حرام نصب سعد و نصبکم
عتیق بن عثمان حلال ابا بکر
تم نے کہا سعد کو خلافت پر منصوب کرنا حرام ہے اور تمہارا عتیق بن عثمان، (ابوبکر) کو نصب کرنا جائز ہے۔
و اہل ابو بکر لہا خیر قائم
و ان علیاً کان اخلق بالامر
اور تم نے کہا ابو بکر اس کے اہل ہیں اور اس کو انجام دے سکتے ہیں جبکہ علی لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کے حقدارو سزاوار تھے۔
وکان ہوانا فی علیّ و انہ
لاہل لہا یا عمرو من حیث لاتدری
ہم علی کے طرفدار تھے اور وہ اس کے اہل تھے لیکن اے عمر و !تو اس بات کو نہیںسمجھتا .
فذاکٔ بعون اللّہ یدعواالی الھدیٰ
و ینہیٰ عن الفحشاء و البغی و النّکر
یہ علی ہیں جو خدا کی مدد سے لو گوں کی ہدایت کرتے ہیں ،علی ہیں جو ظلم و فحشا سے روکتے ہیںاور نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔
وصی النبی المصطفیٰ وابن عمہ
وقاتل فرسان الضلالة والکفر
یہ علی ہیںجو وصی مصطفیۖ اور ان کے بھائی ہیں جو کفر و ضلالت کے پہلوانوں کو قتل کرنے والے ہیں ۔(١)
حسان بن ثابت نے بھی فضل بن عباس کے شکریہ کی وجہ سے کہجنہوںنے حضرت علی کے حکم سے انصار کا دفاع کیا، ان اشعار کو پڑھا:
جزیٰ اللّہ عنا و الجزابکفّہ
ابا حسن عنا و من کان کابی حسن
خدا ہماری طرف سے ابوالحسن کو جزائے خیر دے کیوں کہ جزا اسی کے ہاتھ میں ہے اور کون ہے جو کہ علی کے مانند ہے؟
سبقت قریش بالذی انت اہلہ
فصدرکٔ مشروح و قلبک ممتحن
علی ہی اس کے اہل تھے قریش پر سبقت لے گئے آپ کا سینہ کشادہ اور قلب امتحان شدہ (پاک و پاکیزہ )ہے ۔
حفظت رسول اللّہ فینا و عہدہ
الیکٔ و من اولیٰ بہ منکٔ من و من
پیغمبرۖ کی سفارش کو ہمارے بارے میں حفظ کیا آپ کے علاوہ کون ہے جو رسولۖ کا ولی اور جانشین ہو؟
الست اخاہ فی الہدیٰ و وصیّہ
واعلم منہ باالکتاب و السّنن
............
(١)زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی، قم ،١٤١٦ھ ص٥٩٢
کیا آپ وہ نہیں ہیں جو ہدایت میں پیمبرۖ کے بھائی اور ان کے وصی اور لوگوں میں کتاب و سنت کے سمجھنے میں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں؟ (١)
ابو سفیان بھی شروع میں(سقیفہ کی) خلافت کا مخالف تھا اور حضرت علی کی طرف سے دفاع کرتا تھا ،تقریر کے علاوہ جو اس نے سلسلہ میں کہے ہیں وہ ذیل کے اشعار کہ جس کی نسبت اس کی طرح دی گئی ہے :
بنی ہاشم لاتطمعوا الناس فیکم
ولا سیّما تیم بن مرّة اوعدی(٢)
اے بنی ہاشم! تم اس بات کی اجازت نہ دو کہ دوسرے تمھارے کام میں لالچ کریں بالخصوص تیم بن مرہ یا عدی ۔
فما الأمر الأ فیکم و الیکم
و لیس لہا الّا ابوالحسن علیّ
خلافت فقط تمہارا حق ہے اور صرف ابوالحسن علی اس کے اہل اور سزاوار ہیں۔(٣)
غدیر کے دن حسان بن ثابت جو شاعر پیغمبر ۖ کہے جاتے تھے رسول اسلام ۖ سے اجازت مانگی اور غدیر کے واقعہ کو اپنے اشعار میں اس طرح پیش کیا :
............
(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف الرضی ،قم ،طبع اول ١٤١٤ ھ ج ٢ ص ١٢٨
(٢)تیم ابو بکر کا اور عدی عمر کا قبیلہ تھا ۔
(٣)ابن واضح، تاریخ یعقوبی ص١٢٦
ینادیھم یوم ا لغدیر نبیھم
بخم واسمع بالنبی منادیاً
مسلمانوں کا پیغمبرۖغدیر خم کے دن ان کو آواز دیتا ہے لوگو آئو پیغمبر ۖ کی آواز کو سنو
وقد جاء جبرئیل عن امر ربہ
بانکّ معصوم فلاتکٔ وانیا
جبرئیل خدا کی طرف سے پیغام لائے کہ(اے رسولۖ) تم خدا کی حفظ و امان میں ہو لہذا اس سلسلہ میں سستی وغفلت نہ برتو۔
و بلّغھم ما انزل اللّہ ربھم
الیکٔ ولا تخش ھناکّ الاّ عادیا
جو کچھ تمہارے خدا نے تم پر نازل کیا ہے اس کو پہنچا دواور اس موقع پر دشمنوں سے نہ ڈرو۔
وتقام بہ اذ ذاکٔ رافع کفّہ
بکف علیّ معلن الصوت عالیا
علی کو اپنے ہاتھوں سے اٹھایااس طرح سے کہ علی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلندکیا اور بلند آواز سے اعلان کیا۔
فقال فمن مولاکم و ولیکم
فقالوا ولم یبدوا ھناکّ تعامیا
اس کے بعد لوگوں سے کہا: کون ہے تمہارا مولا و ولی؟ پس انہوں نے بے توجہی کا ثبوت دئے بغیر کہا۔
الھک مولانا وانت ولینا
ولن تجدن فینا لکٔ الیوم عاصیا
آپ کا خدا ہمارا مولا ہے اور آپ ہمارے ولی ہیں؟ ہم میں سے کوئی بھی سرکش نہیں ہے۔
فقال قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ھادیاً
اس کے بعد آپ نے فرمایا: اے علی ! اٹھو میں راضی ہوںاس بات سے کہ تم میرے بعد امام اور ہادی ہوگے۔
فمن کنت مولا ہ فھذا ولیّہ
فکونو لہ انصار صدق موالیاً
اس کے بعد کہا جس شخص کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں تم لوگ ا ن کے حقیقی اور سچے دوست بنو۔
ھناک دعا اللھم وال ولیہ
وکن للذی عادی علیاً معادیاً
اس مقام پر رسولۖ نے دعا کی: خدایا !علی کے دوست کو دوست رکھ اور علی کے دشمن کو دشمن قرار دے۔
فیارب انصر ناصریہ لنصرھم
امام ھدی کالبدر یجلوا الدیا جیا(١)
پرور دگارا!علی کی مدد کرنے والوںکی مدد کرکیونکہ جس طرح تاریک شب میں چاند ہدایت کرتا ہے اسی طرح وہ اپنے چاہنے والوں کی ہدایت کرتے ہیں۔
ان اشعارمیں حسان نے پیغمبر اسلامۖ کی تقریر جو علی کے بارے میں تھی ان کو امام، ولی اور ہادی جاناکہ جو امت کی رہبری اور زعامت کی وضاحت کرتی ہے
ہاں !عام مسلمان اس بات کا گمان نہیں کرتے تھے کہ پیغمبر ۖکے بعدکوئی بھیپیغمبرۖ کی جانشینی اور خلافت کے بارے میں علی سے جھگڑا کرے گاجیسا کہ معاویہ نے محمد بن ابی بکر کے خط کے جواب میں تحریر کیا کہ رسول ۖکے زمانہ میں میں اور تمہارے باپ ابوطالب کے بیٹے کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم سمجھتے تھے اور ان کے فضل کو اپنے اوپر آشکار جانتے تھے پیغمبر ۖ کی رحلت کے بعد تمہارے باپ اورعمر سب سے پہلے وہ شخص تھے کہ جنہوںنے علی کے مرتبہ کو گھٹا یا اور لوگوں سے اپنی بیعت لی ۔(٢)
یہی وجہ ہے وہ لوگ جو پیغمبرۖ کی زندگی کے آخری مہینوںمیں مدینہ میںنہیں تھے انہیں بعد وفات پیغمبرۖ بعض انجام دی جانے والی سازشوں کا علم نہیں تھا، جیسے خالدبن سعید
............
(١)امینی ، عبد الحسین،الغدیر ،دارالکتب الاسلامیہ ،تہران،١٣٦٦ہجری شمسی ج،١ ص١١،و ج٢،ص ٣٩
(٢)بلاذری ،احمد بن یحییٰ بن جابر ،انساب الاشراف ،منشورات مؤسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت ١٣٩٤ھ ،ج٢،ص٣٩٦
اور ابوسفیان پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد جب مدینہ آئے تو انے دیکھاکہ ابوبکر پیغمبر ۖ کی جگہ بیٹھے ہیں اور خود کو پیغمبر ۖ کا خلیفہ بتا رہے ہیںتو ان لوگوں کو بہت تعجب ہوا ۔( ١)
حتیٰ کہ جب ابو سفیان سفر سے واپس آیا اور ان حالات کو دیکھا تو عباس بن عبدالمطلب اور علی کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی کہ اپناحق لینے کے لئے قیام کریں لیکن انہوں نے اس کی بات کو قبول نہیں کیا، البتہ ابو سفیان کی نیت میں خلوص نہیں تھا۔(٢)
اگر چہ پیغمبر اکرم ۖکے اکثر صحابہ نے ابو بکر کی خلافت کو قبول کرلیا لیکن علی کے کی فضلیت وبرتری کو نہیں بھولے جب آپ مسجد میںہوتے تھے شرعی مسائل میںآپ کے علاوہ کوئی فتویٰ نہیں دیتا تھا کیونکہ آپ کو رسول ۖ اکرم کی صاف و صریح حدیث کی بنا پر امت میںسب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والا جانتے تھے۔(٣)
حضرت عمر کا کہنا تھا کہ خدانہ کرے کوئی مشکل پیش آئے اور ابوالحسن نہ ہوں ۔(٤)
نیزاصحاب پیغمبرۖ سے کہتے تھے ؛ جب تک علی مسجد میںموجودر ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی فتویٰ دینے کا حق نہیں رکھتا۔(٥)
............
(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی منشورات شریف الرضی، قم ،طبع اول ،١٤١٤ھ، ج٢، ص١٢٦
(٢) ابن اثیر، عزالدین ابی الحسن علی بن ابی الکرم ،اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ، داراحیاء التراث العربی بیروت ،ج٣ ،ص١٢، ابن واضح، تاریخ یعقوبی ۔ج٢ ،ص١٢٦
(٣)بلاذری ،انساب الاشراف ،ص٩٧
(٤)ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،دار احیاء التراث االعربی ،ج ١ ،ص١٨
(٥)ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،دار احیاء التراث االعربی ،ج ١ ،ص١٨
اگر چہ علی نے پیغمبر کی وفات کے بعد سیاسی اقتدارحاصل نہیں کیالیکن آپ کے فضائل ومناقب کویہی اصحا ب پیغمبر ۖبیان کرتے ہیں، ابن حجر ہیثمی جو اہل سنت کے متعصب عالموں میں سے ہیں انہوںنے حدیث غدیر کے راویوں کی تعداد تیس افراد بتائی ہے۔(١)
لیکن ابن شہر آشوب نے حدیث غدیر کے اصحاب میںراویوں کی تعداد اسی(٨٠) بیان کی ہے۔(٢)
لیکن علامہ امینی نے حدیث غدیر کے راویوں کی تعداد جو صحابہ سے نقل ہوئی ہے ایک سو دس ذکر کی ہے کہ جس کی تفصیل یوں ہے:۔(٣)
ابو ہریرہ، ابو لیلیٰ انصاری ،ابو زینب انصاری، ابو فضالہ انصاری، ابو قدامہ انصاری، ابو عمرہ بن عمرو بن محصن انصاری، ابوالہیثم بن تیّہان، ابو رافع، ابو ذؤیب، ابوبکر بن ابی قحافہ، اسامہ بن زید،ا بی بن کعب ،اسعد بن زراۂ انصاری، اسماء بنت عمیس،ام سلمہ، ام ہانی، ابو حمزہ انس بن مالک انصاری، براء بن عازب، بریدہ اسلمی، ابوسعید ثابت بن ودیعہ انصاری، جابر بن سمیرہ، جابر بن عبد اللہ انصاری، جبلہ بن عمرو انصاری، جبیر بن مطعم قرشی، جریر بن عبد اللہ بجلی ، ابوذر جندب بن جنادہ، ابو جنیدہ انصاری ،حبہ بن جوین عرنی، حبشی بن جنادہ سلولی ،حبیب بن بدیل بن ورقاء خزاعی، حذیفہ بن اسید غفاری، ا بو ایوب خالد زید انصاری، خالد بن ولید مخزومی، خزیمہ بن
............
(١)صواعق المحرقہ ،مکتبہ قاہرہ ،طبع١٣٨٥،ص١٢٢
(٢)مناقب آل ابی طالب ،مؤسسہ انتشارات علامہ ،ج٣،ص٢٥و٢٦
(٣)الغدیر ،دارالکتب الاسلامیہ ،تہران،ج١،ص١٤۔٦١
ثابت، ابو شریح خویلد بن عمرو خزاعی، رفاعہ بن عبد المنذر انصاری، زبیر بن عوام، زید بن ارقم ،زید بن ثابت ،زید بن یزید انصاری ،زید بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، سعد بن جنادہ،سلمہ بن عمرو بن اکوع، سمرہ بن جندب، سہل بن حنیف، سہل بن سعد انصاری، صدی بن عجلان، ضمیرة الاسدی، طلحہ بن عبید اللہ، عامر بن عمیر، عامر بن لیلیٰ، عامر بن لیلیٰ غفاری،عامر بن واثلہ،عائشہ بنت ابی بکر ،عباس بن عبدالمطلب، عبد الرحمن بن عبدربہ انصاری،عبد الرحمن بن عوف قرشی، عبدالرحمن بن یعمر الدیلی ، عبداللہ بن ابی عبد الاثر مخزومی، عبد اللہ بن بدیل، عبد اللہ بن بشیر، عبد اللہ بن ثابت انصاری،عبد اللہ بن ربیعہ، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن ابی عوف، عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن یامیل، عثمان بن عفان، عبید بن عازب انصاری، ابو طریف عدی بن حاتم، عطیہ بن بسر، عقبہ بن عامر، علی بن ا بی طالب، عمار بن یاسر، عمارہ الخزرجی، عمر بن عاص، عمر بن مرہ جہنی، فاطمہ بن رسول ۖ فاطمہ بنت حمزہ، عمربن ابی سلمہ، عمران بن حصین خزاعی ،عمر و بن حمق خزاعی، عمر و بن شراحیل، قیس بن ثابت انصاری ،قیس بن سعد انصاری، کعب بن عجرہ انصاری، مالک بن حویرث لیثی،مقداد بن عمرو، ناجیہ بن عمرو خزاعی، ابو برزہ فضلہ بن عتبہ اسلمی، نعمان بن عجلان انصاری، ہاشم مرقال، وحشی بن حرب، وہب بن حمزہ، ابو جحیفہ، وہب بن عبد اللہ و یعلی بن مرہ۔(١)
حدیث غدیر کے راویوں کے درمیان وہ لوگ جو علی سے دشمنی رکھتے تھے جیسے ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ،عبدالرحمن بن عوف،زیدبن ثابت،اسامہ بن زید،حسان بن ثابت،
............
(١) الغدیر، درالکتب الاسلامیہ،تہران،ج١،ص١٤ـ ٦١۔
خالد بن ولید،اور عائشہ کا نام لیا جاسکتا ہے حتیٰ کہ یہی صحابہ جوحضرت علی کے موافق بھی نہیں تھے لیکن اس کے باوجودکبھی آپ کی طرف سے آپ کے دشمن کے مقابلے میں دفاع بھی کرتے تھے جیسے سعد بن وقاص ،یہ ان چھ لوگوں میں سے تھے جو عمر کے مرنے کے بعد انتخاب خلافت کے لئے چھ رکنی کمیٹی بنی تھی اورانہوںنے علی کے مقابلے میں عثمان کو ووٹ دیا نیز خلافت کے مسئلہ میں حضرت علی کی طرفداری اور حمایت بھی نہیں کی اور بے طرفی اختیار کی، وہ باتیں جو ان کے اور معاویہ کے درمیان ہوئیں تو انہوں نے معاویہ سے کہا: تونے اس شخص سے جنگ و جدال کیا ہے جو خلافت میں تجھ سے زیادہ سزاوار تھا، معاویہ نے کہا: وہ کیسے؟ اس نے جواب دیا : میرے پاس دلیل یہ ہے کہ ایک تو رسولۖ نے علی کے بارے میں فرمایا جس کا میں مولاہوں اس کے علی مولاہیں بارالہاٰ! علی کے دوستوں کو دوست اورعلی کے دشمنوں کو دشمن رکھ اوردوسرے ان کے فضل و سابقہ کی وجہ سے(١)
اسی طرح عمرو عاص کا بیٹا عبد اللہ جنگ صفین میں اپنے باپ کے ساتھ معاویہ کی طرف تھا ،جب عمارقتل ہوگئے اور ان کے سر کو معاویہ کے پاس لایا گیا تو دو شخص آپس میں جھگڑنے لگے ہر ایک یہ دعویٰ کرنے لگا کہ عمار کو اس نے قتل کیا ہے عبد اللہ نے کہا :بہتر یہ ہے کہ تم میں سے ایک اپنا حق دوسرے کو بخش دے اس لئے کہ میں نے رسولۖ اسلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: عمار کو ایک ظالم گروہ قتل کرے گا معاویہ نا راض ہوا اور اس نے کہا:
............
(١)بلاذری،انساب الاشراف،موسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، طبع اول، ١٣٩٤ ہجری، ج٢،ص ١٠٩،اخطب خوارزمی ،المناقب، منشورات، المکتبة الحیدریہ، نجف، ١٣٥٨، ہجری ص٥٩۔٦٠
تو یہاںپر کیا کر رہا ہے عبد اللہ نے کہا :کیونکہ رسولۖ نے مجھ کو باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اس لئے میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن جنگ نہیں کروںگا۔(١)
جناب عمار کا امیر المومنین کی رکاب میں موجود ہونا کہ رسولۖ اسلام نے عمار کے قاتلوںکو ایک ستم گار گروہ بتایا ہے اس پر آشوب دور میں یہ علی کی حقانیت کی بہترین گواہی تھی جس کا عمرو عاص کے بیٹے نے بھی اعتراف کیا ۔
سقیفہ کی تشکیل میں قریش کاکردار
علی کی جانشینی کے بارے میںپیغمبر ۖ کی تمام کوششوں اور واقعہ غدیرکے باوجودسقیفہ کا اجتماع واقع ہوا خدا کافرمان زمین میں دھرارہ گیا اور رسول اکرم ۖ کا خانوادہ خانہ نشین ہو گیا ، اس سلسلہ میں ضروری ہے کہ قریش کے کردارکی نشاندہی کی جائے اس لئے کہ قریش ہی چاہتے تھے کہ پیغمبر ۖ کی عترت کا حق غصب کریں ،حضرت علی نے مختلف مقامات پر قریش کے مظالم اور خلافت حاصل کرنے کی کوشش کو بیان کیا ہے ۔(٢)
............
(١)بلاذری،انساب الاشراف،ص٣١٢۔٣١٣
(٢)بطور نمونہ نہج البلاغہ ، خطبہ ١٧،میں فرماتے ہیں خدایا قریش اور ان لوگوں کے مقابلے میں جو ان کی مدد کرتے ہیں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کیوں کہ انہوں نے میرے مرتبہ کو کم کیا اور وہ خلافت جو مجھ سے مخصوص تھی اس کے بارے میں میرے خلاف متفق ہوگئے، نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، ص ٥٥٥،
اس طرح اپنے بھائی عقیل کے خط کے جواب میں فرماتے ہیں:قریش سخت گمراہی میں ہیں ، ان کی دشمنی اور نا فرمانی معلوم ہے انہیں سر گردانی میں ہی چھوڑ دو اس لئے کہ انہوں نے مجھ سے جنگ ٹھان لی ہے جس طرح رسول اللہ ۖ سے جنگ پر تلے ہوئے تھے مجھ کو سزا دینے سے پہلے ،
انہیں چاہئے کہ وہ قریش کو سزا دیں اورانہیں مزہ چکھائے کیونکہ انہوں نے رشتہ داری توڑ دی اور میرے بھائی کی حکومت مجھ سے چھین لی۔
امام حسن نے جو خط معاویہ کو لکھا تھا اس میں سقیفہ کی تشکیل میںقریش کے کردار کو اس طرح بیان فرمایا : پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد قبیلۂ قریش نے اپنے آپ کواس حیثیت سے پہچنوایا کہ ہم لوگ پیغمبرۖ سے زیادہ نزدیک ہیں اور اسی دلیل کی بنا پر تمام عربوں کوکنارے کردیا اور خلافت کواپنے ہاتھ میں لے لیا ہم اہل بیت محمدۖ نے بھی یہی کہاتو ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا اور ہم کو ہمارے حق سے محروم کردیا۔(١)
امام باقر نے بھی اپنے ایک صحابی سے فرمایا : قریش نے جو ستم ہمارے اور ہمارے دوستوں اور شیعوں پر کئے ہیں اس کے بارے میں کیا کہوں؟ رسول خداۖ کی وفات ہوئی جب کہ پیغمبر ۖنے کہا تھاکہ لوگوں کے درمیان(خلافت کے لئے) اولیٰ ترین فردکون ہے؟ لیکن قریش نے ہم سے روگردانی کی اور خلافت کو اس کی جگہ سے منحرف کردیا ہماری دلیلوں کے ذریعہ انصار کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے بعد خلافت کو ایک دوسرے کے حوالے کرتے رہے اور جس وقت ہمارے پاس واپس آئی توبیعت شکنی کی اور ہم سے جنگ کی ۔(٢)
قریش کافی مدت پہلے ایسا عمل انجام دے چکے تھے جس سے لوگ سمجھ گئے تھے کہ یہ
............
(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات شریف الرضی ، قم ١٤١٦ھ ص ٦٥
(٢)کتاب سلیم بن قیس العامری، منشورات دار الفنون ، بیروت ، ١٤٠٠ھ ص ١٠٨، شیرازی السید علی خان، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة ، مؤسسة الوفاء ، بیروت ،ص ٥
خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہیں اسی لئے انصار سقیفہ کی طرف دوڑے تاکہ قریش تک حکومت پہنچنے سے مانع ہوں ، اس لئے کہ قریش فرصت طلب تھے۔
خاندان پیغمبر ۖسے قریش کی دشمنی کے اسباب
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیوں قریش خاندان پیغمبرۖ سے دشمنی رکھتے تھے؟ کیاان کا دین اور ان کی دنیا اس خاندان کی مرہون منت نہیں تھی؟ کیاانہوںنے اسی خاندان کی برکت کی وجہ سے ہلاک ہونے سے نجات نہیں پائی تھی ؟اس سوال کا جواب دینے کے لئے چند امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
(١) قریش کی ریاست طلبی
قریش زمانہ جاہلیت میں پورے جزیرة العرب پر تمام عربوں میں ایک امتیاز رکھتے تھے، ابوالفرج اصفہانی کا اس بارے میں کہنا ہے : تمام عرب قومیں قریش کو شعر کے علاوہ ہر چیز میںمقدم جانتی تھی(١)یہ موقعیت اورحشیت ان کو دوجہتوں سے حاصل ہوئی تھی۔
(الف) اقتصادی قوت : قریش نے پیغمبر ۖ کے جد جناب ہاشم کے زمانہ ہی سے پڑوسی ممالک جیسے یمن، شام ،فلسطین ، عراق، حبشہ سے تجارت کرنی شروع کردی تھی اور اشراف قریش اس تجارت کی وجہ سے بہت زیادہ ثروتمند ہو گئے تھے۔(٢)
............
(١) اصفہانی، الاغانی، دار الاحیاء تراث العربی ، ج ١ ص ٧٤
(٢) مہدی پیشوائی، تاریخ اسلام ، دانشگاہ آزاد اسلامی ،واحد اراک ، ص ٥٠۔٥١
خداوند عالم اس تجارت کو قریش کے لئے سرمایہ افتخار اور عیش و مسرت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :ایک دوسرے سے محبت و الفت پیدا کرنے گرمیوں اور سردیوں میں آپس میں رابطہ رکھنے کے لئے اللہ کی عبادت کریں وہی پروردگارکہ جس نے بھوک سے انہیں نجات دی اورخوف و ہراس ان سے دور کیا۔ (١)
(ب) معنوی حیثیت :قریش کعبہ کے وجود کی بنا پر کہ جو عرب دنیامیں ، عرب قبائل کے درمیان ایک مشہورزیارت گاہ تھی نیز اسے عربوں کے درمیان ایک خاص معنوی حیثیت حاصل تھی خاص طور پر ہاتھیوں کے لشکر ابرہہ کی شکست کے بعد قریش کا احترام لوگوں کی نظر میں زیادہ ہو گیاتھا اور یہ کعبہ کے کلید دار بھی تھے،قریش نے اس واقعہ سے فائدہ اٹھایا اور خود کو آل اللہ ، جیران اللہ اور سکان حرم اللہ کہلواناشروع کر دیا ، اسی وسیلہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنے مذہبی مقام کو استوار کرلیا ۔(٢)
اسی احساس برتری و اقتدار کی وجہ سے قریش نے کوشش شرو ع کی کہ اپنی برتری کو ثابت کریں چونکہ مکہ کعبہ کی وجہ سے عرب کے لئے مرکز تھا جزیرةالعرب کے اکثر ساکنین وہاں آتے جاتے تھے،قریش اپنی رسومات کو مکہ آنے والوں پرتھوپتے تھے طواف کعبہ کے وقت لوگوں کو متوجہ کرتے تھے کہ حاجی ان سے خریدے ہوئے لباس میں طواف کریں(٣) لیکن رسول اکرم ۖکے ظاہر ہونے کے بعد انہوں نے احساس کیا کہ تعلیمات اسلامی ان کی برتری اور انحصار طلبی کے منافی ہے ،قریش نے ان کو قبول نہیں کیا اور اپنی تمام
............
(١)سورہ قریش
(٢)تاریخ اسلام ،مہدی پیشوائی ، ص ٥٢
(٣)ابن سعد ، الطبقات الکبری ، دار صادر ، بیروت ، ج١ ،ص ٧٢
طاقت کے ساتھ مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور جو بھی اسلام کی نابودی کے لئے ممکن تھا اس کوانجام دیا لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے، آخر کار پیغمبرۖنے قریش پرکامیابی حاصل کرلی ،آٹھویں ہجری میں قریش کے کچھ افراد مدینہ آئے اور مسلمانوں سے مل گئے لیکن دشمنی سے باز نہ آئے مثلاًحکم بن عاص نے پیمبرۖ کا مذاق اڑایا آنحضرتۖ نے ا سے طائف کی جانب شہر بدر کردیا۔(١)
جب قریش میں رسول اکرم ۖسے مقابلے کی طاقت نہیں رہی تو انہوں نے ایک نیا فارمولہ بنا یاکہ آنحضرتۖ کے جانشین سے مقابلہ کریں عمر نے ہمیشہ ابن عباس سے کہا: عرب نہیں چاہتے کہ نبوت اور خلافت تم بنی ہاشم کے درمیان جمع ہواسی طرح مزید کہا:(٢) اگر بنی ہاشم میںسے کوئی امر خلافت کا ذمہ دار بن گیا تو اس خاندان سے خلافت باہر نہیں جائے گی اور ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا لیکن اگر بنی ہاشم کے علاوہ کوئی اس کا ذمہ دار ہوگیا تو وہ لوگ اپنے ہی درمیان ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہیں گے۔(٣)
اس زمانے کے لوگ بھی قریش کے اس رویہ سے آگاہ تھے جیسا کہ براء بن عازب نے نقل کیا کہ میں بنی ہاشم کے چاہنے والوں میںسے تھا جس وقت رسول اکرم ۖ دنیا سے گئے تو مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ قریش بنی ہاشم سے خلافت کو نہ چھین لیں اور میں کافی حیران وسر گردان تھا۔(٤)
............
(١) ابن اثیر، اسد الغابة فی معرفة الصحابہ،دار احیا التراث العربی،ج٢،ص٣٤
(٢) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١٩٤
(٣)ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١٩٤
(٤) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج٢،ص٥١
قریش کا ابو بکر اور عمر کی خلافت پر راضی ہونا خود ان کے فائدے میں تھا جیساکہ ابوبکر نے مرتے وقت قریش کے کچھ لوگوں سے کہ جو اس کی عیادت کے لئے آئے تھے کہا: میں جانتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک یہ خیال کرتا ہے کہ میرے بعد خلافت اس کی طرف منتقل ہوگی لیکن میں نے تم میں سے بہترین شخص کو اس کے لئے چنا ہے۔(١)
ابن ابی الحدید کہتا ہے: قریش عمر کی طولانی خلافت کی وجہ سے ناراض تھے اور عمربھی اس بات سے آگاہ تھے لہذاوہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ مدینہ سے باہر جائیں۔(٢)
(٢) قبیلوں کی رقابت و حسادت
عربوں میں قبیلوں کے درمیان رقابت اور حسادت بہت تھی خدا وند عالم نے قرآن مجید میں سورہ تکاثر(٣)اور سورہ سبائ( ٤)میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے، زمانۂ جاہلیت
............
(١) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١١٠
(٢) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج٢ ،ص١٥٩
(٣)تمہاری سرگرمی کا باعث زیادہ طلبی ہے یہاں تک کہ تم اپنے مرنے والوں کی قبروں سے ملاقات کرو۔
(٤)تم نے کہا : ہمارے پاس مال اور بیٹے زیا دہ ہیں اسی وجہ سے ہم سزا نہیں پاسکتے ان سے کہہ دوکہ میراخدا جب کسی کو چاہے گا اس کی روزی کم کردے اور جب چاہے زیادہ کردے گا لیکن زیادہ تر لوگ نہیں جانتے ہیں کہ اولاد اور مال کا زیادہ ہونا ان کو مجھ سے نزدیک نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ لوگ جو ایمان لائیں اور عمل صالح انجام دیں ۔
میں بنی ہاشم اور دوسرے تمام قبائل کے درمیان رقابت موجود تھی، زمزم کھودتے وقت جناب عبدالمطلب کے مقابلہ میں قریش کے تمام قبائل جمع ہوگئے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ افتخار صرف عبد المطلب کو حاصل ہو ۔(١)
یہی وجہ ہے کہ ابو جہل کہتا تھا ہم بنی ہاشم سے ان کے شرف کی وجہ سے رقابت کرتے تھے وہ بھی لوگوں کو کھانا دیتے تھے توہم بھی لوگوںکو کھانا دیتے تھے ، وہ لوگوں کو سواری مہیاکرتے تھے تو ہم بھی لوگوں کو سواری مہیا کرتے تھے تو وہ لوگوں کو پیسے دیتے تھے ہم بھی لوگوں کو پیسے بانٹتے تھے اور ہم ان کے ساتھ اس طرح شانہ بشانہ بڑھ رہے تھے جیسے گھوڑوں کی دوڑمیں دو گھوڑے ساتھ چل رہے ہوں ، یہاں تک کہ ان لوگوں نے کہا : ہم میں ایک ایسا پیغمبرمنتخب ہوا ہے کہ جس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اب ہم ان تک کیسے پہونچتے ؟ خدا کی قسم !ہم اس پر ہرگز ایمان لائے اور نہ ہی ان کی تصدیق کی۔ (٢)
امیہ بن ابی ا لصلت جو طائف کے اشراف میں سے تھا اس نے اسی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیااور پیغمبرۖ موعودکا سالہا سال انتظار کرتا رہاتاکہ اس انتطارمیں خود کو اس منصب تک پہنچا دے جب اس کو بعثت رسول ۖکی خبر ملی پیروی کرنے سے اجتناب کیا اور اس کی علت یہ بتائی کہ مجھ کو ثقیف کی عورتوں سے شرم آتی ہے، اور اس کے بعد کہتا ہے : کافی عرصہ تک میںان سے یہ کہتا رہاکہ وہ پیغمبر موعود میںہوگااب کس طرح تحمل کروں کہ وہ مجھے بنی عبد مناف کے ایک جوان کا پیرو دیکھیں۔(٣)
............
(١)ابن ہشام ،السیرة النبویہ ،دارالمعرفة،بیروت ،ج ١ ،ص١٤٣،١٤٧
(٢)ابن ہشام ،سیرةالنبویہ، دار المعرفة ، بیروت (بی تا) ج١ ص ١٤٣۔١٤٧
(٣) ابن قتیبہ، المعارف ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٥ھ ص ٦٠، اور تاریخ اسلام ، مہدی پیشوائی ، زمانہ جاہلیت سے حجة الوداع تک ، دانشگاہ آزاد اسلامی ، واحد اراک ، ص ٨٨
لیکن اس حسد ورقابت کے باوجود خدا نے پیغمبر ۖ کو کامیاب کیا اور قریش کی شان و شوکت کو خاک میں ملادیا ،آٹھویں ہجری کے بعد اکثر اشراف قریش مدینہ منتقل ہو گئے اور وہاں بھی خاندان پیغمبر ۖ کو تکلیف دینے سے باز نہ آئے۔
ابن سعد نے نقل کیا ہے کہ مہاجرین میں سے ایک نے عباس بن عبدالمطلب سے چند بار کہا : آپ کے والد عبدالمطلب اور بنی سہم کاہنہ غیطلہ دونوں جہنم میں ہیں، آخر کار عباس غصہ ہو گئے اور اس کے منھ پر طمانچہ مارا اور اس کی ناک سے خون نکل آیا، اس شخص نے پیغمبر ۖ سے آکر عباس کی شکایت کی رسول ۖنے اپنے چچا عباس سے اس با ت کی وضاحت چاہی ،عباس نے سارا قضیہ بیان کیا تو پیغمبر ۖ نے فرمایا : کیوں عباس کو اذیت دیتے ہو؟(١)
حضرت علی اپنے مخصوص کمال کی بنا پر زیادہ مورد حسد قرار پائے امام باقر فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اکرم ۖ علی ـ کے فضا ئل بیان کرناچاہتے تھے یا اس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے تھے جو علی کی شان میں نازل ہوئی تھی تو کچھ لوگ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے، اس طرح کی روایت نبی اکرم ۖ سے بہت زیا دہ وارد ہوئی ہیں۔ (٢)
آپ ۖنے فرمایا: جس نے علی سے حسد کیا اس نے مجھ سے حسد کیا اور جس نے مجھ سے حسد کیا وہ کافر ہوگیا ۔(٣)
............
(١)طبقات الکبریٰ داربیروت ١٤٠٥ھ ، ج ٤ ،ص٢٤
(٢)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج ٣ ،ص٢١٤
(٣)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج ٣ ص، ٢١٣۔٢١٤
یہاں تک کہ پیغمبرۖکے زمانہ میںبعض افراد علی سے حسد کرتے تھے اور آ پ کو اذیت پہونچاتے تھے جیسا کہ سعد بن وقاص سے نقل ہواہے کہ میں اور دوسرے دو آدمی مسجد میں بیٹھے علی کی برائی کر رہے تھے کہ پیغمبر ۖ غصہ کی حالت میں ہم لوگو ں کی طرف آئے اورفرمایا : علی نے تمہارا کیا بگاڑاہے؟ جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی ۔(١)
(٣)حضرت علی سے قریش کی دشمنی
علی کی محرومیت اورمظلومیت کی اہم ترین دلیل قریش کی مخالفت اور دشمنی تھی کیونکہ وہ حضرت علی سے زک کھا چکے تھے حضرت نے رسول ۖ خدا کے زمانے میںجنگوں میں ان کے باپ،بھائیوںاور عزیزوں کو قتل کیا تھا ،چنانچہ یعقوبی حضرت علی کی خلافت کے شروع کے حالات کے بارے میںلکھتا ہے :قریش کے مروان بن حکم ،سعید بن عاص اور ولید بن عقبہ کے علاوہ تمام لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھوںپر بیعت کی ، ولید نے ان لوگوں کی طرف سے حضرت علی سے کہا:آپ نے ہم لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے، بدرکے بعد میرے باپ کی گردن اڑائی سعیدکے باپ کو جنگ میں قتل کیا اور جب عثمان نے مروان کے باپ کو مدینہ واپس بلا نا چاہا تو آپ نے اعتراض کیا ۔(٢)
اسی طرح خلافت علی کے وقت عبید اللہ بن عمر نے امام حسن سے سفارش کی
............
(١)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج :٣ ،ص٢١١
(٢)ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف رضی ، قم ،٤١٤١ھ، ج٢،ص ١٧٨
کہ آپ مجھ سے ملاقات کریں مجھے آ پ سے کام ہے، جس وقت دونوں کی ملا قات ہوئی تو عبید اللہ بن عمرنے امام حسن سے کہا : آپ کے والد نے شروع سے آخر تک قریش کو نقصان پہنچایا لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں آپ میری مدد کریں تاکہ ان کو ہٹا کر آ پ کو ان کی جگہ بٹھادیا جائے۔(١)
جب ابن عباس سے سوال کیاگیا: کیوں قریش حضرت علی سے دشمنی رکھتے ہیں؟ تو انہوںنے کہا : پہلے والوں کو حضرت علی نے واصل جہنم کیا اور بعد والوںکے لئے باعث عار ہو گئے ،حضرت علی کے دشمن قریش کی اس ناراضگی سے فائدہ اٹھاتے تھے اورقضیہ کو مزید ہوا دیتے تھے۔(٢)
عمر بن خطاب نے سعد بن عاص سے کہا : تومجھے اس طرح دیکھ رہا ہے جیسے میںنے ہی تیرے باپ کو قتل کیا ہو میں نے اس کو قتل نہیں کیا بلکہ علی نے ان کو قتل کیا ہے۔(٣)
خود حضرت علی نے بھی ابن ملجم کے ہا تھوں سے ضربت کھانے کے بعد ایک شعر کے ضمن میں قریش کی دشمنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
تکلم قریش تمنا ی لتقتلنی
فلا و ربکٔ ما فازوا وما ظفروا(٤)
قریش کی خود تمنا تھی کہ وہ مجھے قتل کریں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔
............
(١) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلا غہ ،ج١،ص٤٩٨
(٢) ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ، ص ٢٢٠
(٣) ابن سعد ، طبقات الکبریٰ ، دار بیروت ، ١٤٠٥ھ ، ج ٥ ،ص ٣١
(٤)ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ،ص٣١٢
|