تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
 

دوسری فصل

شیعوں کے آغاز کی کیفیت

شیعہ:لغت اور قرآن میں
لفظ شیعہ لغت میں مادہ شیع سے ہے جس کے معنی پیچھے پیچھے چلنے اور کامیابی اور شجاعت کے ہیں۔(١)
اسی طرح اکثر لفظ شیعہ کا اطلاق حضرت علی کی پیروی کرنے والوںاور ان کے دوستوں پر ہوتا ہے۔(٢)
جیساکہ ازہری نے کہا ہے: شیعہ یعنی وہ گروہ جو عترت اور خاندان رسولۖ کو دوست رکھتا ہے۔(٣)
ابن خلدون نے کہا ہے : لغت میں شیعہ دوست اور پیروکار کو کہتے ہیں، لیکن فقہااور
............
(١)اس شعر کی طرح:
والخزرجی قلبہ مشیع
لیس من الامر الجلیل یفزع
ترجمہ: خزرجی لوگ شجاع اور بہادر ہیں اور بڑے سے بڑا کام انجام دینے سے بھی نہیں ڈرتے۔ الفراہیدی'الخلیل بن احمد' ترتیب کتاب العین'انتشارات اسوہ'تھران، ج٢،ص٩٦٠
(٢)فیروزہ آبادی'قاموس اللغة'طبع سنگی ص ٣٣٢۔
(٣)الحسینی الواسطی الزبیدی الحنفی،ابو فیض السید مرتضیٰ،تاج العروس ،ج١١ص٢٥٧
گذشتہ متکلمین کی نظر میں علی اور ان کی اولاد کی پیروی کرنے والوںپراطلاق ہوتاہے (١)لیکن شہرستانی نے معنا ی شیعہ کے سلسلے میں دائرہ کو تنگ اور محدودکرتے ہوئے کہاہے : شیعہ وہ ہیں جو صرف علی کی پیروی کرتے ہیںاور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ علی کی امامت اور خلافت نص سے ثابت ہے اور کہتے ہیں کہ امامت ان سے خارج نہیں ہو گی مگر ظلم کے ذریعہ ۔(٢)
قرآن میں بھی لفظ شیعہ متعدد مقامات پر پیروی کرنے والوںاور مدد گار کے معنی میں آیا ہے جیسے''انّ من شیعتہ لابراھیم،،(٣) (نوح کی پیروی کرنے والوں میں ابراہیم ہیں)دوسری جگہ ہے ''فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ،،(٤) موسیٰ کے شیعوں میں سے ایک شخص نے اپنے دشمن کے خلاف جناب موسیٰ سے نصرت کی درخواست کی ،روایت نبوی میں بھی لفظ شیعہ پیروان اور علی کے دوستوں کے معنی میں ہے(٥) لفظ شیعہ شیعوں کے منابع میں صرف ایک ہی معنی اور مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ شیعہ، علی اور ان کے گیارہ فرزندوںکی جانشینی کے معتقدہیں جن میں پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد سے لے کر غیبت صغریٰ تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، جس طرح سے تیسری ہجری کے دوسرے حصہ کے نصف میں مکمل بارہ اماموں پر یقین
............
(١)ابن خلدون،عبدالرحمٰن بن محمد،مقدمہ ،دار احیا التراث العربی بیروت ١٤٠٨ھ ص١٩٦
(٢)شہرستانی،الملل والنحل ،منشورات الشریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ش،ج١ص١٣١
(٣)سورہ صافات٣٧،٨٣
(٤)سورہ قصص٢٨،١٥
(٥)بعد والی فصل میں اس روایت پر اشارہ کیا جائے گا۔
رکھتے تھے ،پہلے دور کے شیعہ جو پیغمبرۖ کے اصحاب تھے و ہ بھی اس بات کے معتقد تھے۔
اس لئے کہ انہوںنے بارہ اماموںکے نام حدیث نبوی سے یاد کئے تھے اگرچہ ستمگار حاکموں کے خوف کی بنا پر کچھ شیعہ ان روایات کو حاصل نہیں کر پائے جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے جیسا کہ پیغمبر ۖ نے فرمایا:(من مات لایعرف امامہ مات میتة جاھلیة) (١)جو اپنے زمان کے امام کو نہ پہچانے اور مر جائے تو ا س کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
اس رو سے ہم دیکھتے ہیں جس وقت امام جعفرصادق ـ کی شہادت واقع ہوئی
............
(١)ابن حجر ہیثمی جو اہل سنت کے دانشمندوں میں سے ایک ہیں انہوں نے اس حدیث کوجو بارہ اماموں کے بارے میں آئی ہے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے صحیح ہو نے پر اجماع کا دعویٰ بھی کیا ہے جو مختلف طریقوں سے نقل ہوا ہے، وہ اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے اہل سنت کے علماء اور دانشوروں کے متضاد و متناقض اقوال پیش کرتے ہیں کہ جو اس سلسلہ میں وارد ہوئے ہیں اور آخر میں کسی نتیجہ تک نہیں پہونچتے ہیں ،ان میں سے قاضی عیاض نے کہا :شاید اس سے مراد بارہ خلیفہ ہیں کہ جو اسلام کی خلافت کے زمانہ میں حاکم تھے کہ جو ولیدبن یزید کے زمانہ تک جاری رہا ،بعض دوسروںنے کہا: بارہ سے مراد خلیفہ بر حق ہیں کہ جو قیامت تک حکومت کریں گے جن میںسے چند کا دور گزر چکا ہے جیسے خلفائے راشدین ،امام حسن ،معاویہ عبداللہ بن زبیر ،عمر بن عبد العزیز اور مھدی عباسی، دوسرے اورجو دو با قی ہیںان میں سے ایک مھدی منتظر ہیں جو اہل بیت میں سے ہوں گے،نیز بعض علما ء نے بارہ ائمہ کی حدیث کی تفسیربارہ اماموںسے کی ہے کہ جو مہدی کے بعد آئیں گے ان میں سے چھ امام حسن کے فرزندوں میں سے اور پانچ امام حسین کے فرزندوں میںسے ہوںگے(الصواعق المحرقہ ، مکتبةقاہرہ، طبع دوم، ١٣٨٥،ص٣٧٧)
زرارہ جو کہ بوڑھے تھے انہوںنے اپنے فرزند عبید کو مدینہ بھیجا تاکہ امام صادق کے جانشین کا پتہ لگائیں لیکن اس سے پہلے کہ عبید کوفہ واپس آتے،زرارہ دنیا سے جاچکے تھے، آپ نے موت کے وقت قرآن کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : اے خدا !گواہ رہنا میں گواہی دیتاہوں اس امام کی امامت کی جس کو قرآن میں معین کیا گیا ہے۔(٢)
البتہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لفظ شیعہ کا معنی اور مفہوم اپنی اصلی شکل اختیار کرنا ہو گیا اور اس کے حدو د مشخص ہوگئے ،اسی لئے ائمہ اطہار نے باطل فرقوں اور گروہوں کی طرف منسو ب لوگوں کو شیعہ ہونے سے خارج جانا ہے ، چنانچہ شیخ طوسی حمران بن اعین سے نقل کرتے ہیں، میں نے اما م محمد باقر سے عرض کیا:کیا میں آپ کے واقعی شیعوں میںسے ہوں؟امام نے فرمایا:ہاں تم دنیااورآخرت دونوںمیں ہمارے شیعوں میںسے ہواورہمارے پاس شیعوں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں ،مگر یہ کہ وہ ہم سے روگردانی کریں ،پھر وہ کہتے ہیں، میں نے کہا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا کوئی آپ کا شیعہ ایسا ہے کہ جو آپ کے حق کی معرفت رکھتا ہو اور ایسی صورت میں آپ سے روگردانی بھی کر ے ؟امام نے فرمایا: ہاں حمران تم ان کو نہیں دیکھو گے ۔
حمزہ زیّات جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کے سلسلہ میں بحث کی لیکن ہم امام کے مقصد کو نہیں سمجھ سکے لہذاہم نے امام رضاکو خط لکھا اور امام سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو امام نے فرمایا : امام صادق
............
(١) کلینی ،اصول کافی ،دارالکتب ا لاسلامیہ طبع پنجم تھران ،١٣٦٣ش،ج١ ص٣٧٧
(٢)شیخ طوسی ، اختیارمعرفةالرجال ،مؤسسہ آل البیت لاحیا ء التراث ،قم ١٤٠٤ ھ، ص،٣٧١
کا مقصود، فرقہ واقفیہ تھا(١)
اس بنا پر رجال شیعی میں صرف شیعہ اثنا عشری پر عنوانِ شیعہ کا اطلاق ہوتا ہے،اورفقہا کبھی کبھی اس کو اصحابنا یا اصحابناالامامیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ لوگ جو صحیح راستہ یعنی راہ تشیع سے منحرف ہوگئے تھے ان کوفطحی ،واقفی ،ناؤوسی وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر ان کا نام شیعوں کی کتب رجال میں آیا بھی ہے توانہوں نے منحرف ہونے سے قبل روایتیںنقل کی ہیں ،چنانچہ اہل سنت کے چند راویوں کے نام اس کتاب میں آئے ہیںجنہوں نے ائمہ اطہار سے روایتیں نقل کی ہیں لیکن اہل سنت کے دانشمندوں اور علماء رجال نے شیعہ کے معنی کو وسیع قرار دیا ہے اور تمام وہ فرقے جو شیعوںسے ظاہر ہوئے ہیں جیسے غلاة وغیرہ ان پر بھی شیعہ کا اطلاق کیا ہے، اس کے علاوہ اہلبیت پیغمبرۖ کے دوستوں اور محبوں کو بھی شیعہ کہا ہے جب کہ ان میں سے بعض اہل بیت کی امامت اور عصمت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے ،جیسے سفیان ثوری جومفتیان عراق میں سے تھا اور اہلسنت کے مبنیٰ پر فتویٰ دیتاتھا لیکن ابن قتیبہ نے اس کو شیعوں کی فہرست میں شمار کیا ہے۔( ٢)
ابن ندیم کہ جو اہل سنت کے چار فقہامیں سے ایکہے شافعیوں ان کے بارے میں یوں کہتا ہے کہ شافعیوں میں تشیع کی شدت تھی(٣)البتہ دوسری ا ور تیسری صدی ہجری میں شیعہ اثناعشری کے بعد شیعوں کی زیادہ تعداد کو زیدیوں نے تشکیل دیا ہے، وہ لوگ اکثر سیاسی معنیٰ
............
(١) شیخ طوسی،معرفة الرجال موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، ج٢ص٧٦٣۔
(٢) ابن قتیبہ ،المعارف منشورات شریف الرضی ،قم ،طبع اول ،١٤١٥،١٣٧٣،ص ٦٢٤۔
(٣)ابن ندیم ،ا لفہرست ،دارالمعرفة للطبع والنشر ،بیروت،ص٢٩٥،(کان الشافعی شدیداًفی التشیع)
میں شیعہ تھے نہ کہ اعتقادی معنیٰ میں، اس لئے کہ فقہی اعتبار سے وہ فقہ جعفری کے پیروی نہیں کرتے تھے بلکہ فقہ حنفی کے پیرو تھے، (٢)اصول اعتقادی کے اعتبار سے شہرستانی نقل کرتا ہے، زید ایک مدت تک واصل بن عطا کا شاگرد تھا جس نے مذہب معتزلہ کی بنیاد ڈالی اور اصول مذہب معتزلہ کو زید نے پھیلایا ہے، اس وجہ سے زیدیہ اصول میں معتزلی ہیں اسی باعث یہ مفضول کی امامت کوافضل کے ہوتے ہوئے جائز جانتے ہیں اور شیخین کو برا بھی نہیں کہتے ہیں اور اعتقادات کے اعتبار سے اہل سنت سے نزدیک ہیں۔(٣)
چنانچہ ابن قتیبہ کہتا ہے: زیدیہ رافضیوں کے تمام فرقوں سے کم تر غلو کرتے ہیں۔(٤)
اس دلیل کی بنا پر محمد نفس زکیہ کے قیام(جو زیدیوں کے قائدین میں سے ایک تھے) کو بعض اہل سنت فقہاکی تاکید اور رہنمائی حاصل تھی اور واقدی نے نقل کیا ہے، ابوبکر بن ابیسیرہ(٥)ابن عجلان(٦) عبد اللہ بن جعفر(٧)مکتب مدینہ کے بڑے محدثین میں سے تھے اور خود واقدی نے ان سے حدیث نقل کی ہے ،وہ سب محمد نفس زکیہ کے قیام میں شریک تھے ،اسی طرح شہرستانی کہتاہے محمد نفس زکیہ کے شیعوں میں ابوحنیفہ بھی تھے ۔ (٨)
بصرہ کے معتزلی بھی محمد کے قیام کے موافق تھے اور ابو الفرج اصفہانی کے نقل کے مطابق بصرہ میں معتزلیوں کی ایک جماعت نے جن میں واصل بن عطا اور عمرو بن عبید تھے ان لوگوںنے ان کی بیعت کی تھی (١)اس لحاظ سے زیدیہ صرف سیاسی اعتبار سے شیعوں میں شمار ہوتے تھے اگر چہ وہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت واولویت کے معتقد بھی تھے ۔
............
(٢)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ش ،ج ١، ص١٤٣
(٣)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ش ،ج ١، ص ١٣٨
(٤)ابن قتیبہ ،المعارف ،ص ٦٢٣
(٥)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٧٤ص٢٥١
(٦)گزشتہ حوالہ ص،٥٤
(٧)گزشتہ حوالہ ص،٢٥٦ ٢
(٨ )شہرستانی ،ملل و نحل ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ش مج ١ ص١٤٠

آغاز تشیّع
آغاز تشیع کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، جنہیںاجمالی طور پر دو طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(١)وہ صاحبان قلم اور محققین جن کا کہنا ہے: شیعیت کا آغاز رسول اعظمۖ کی وفات کے بعد ہوا، خود وہ بھی چند گروہ میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔
(الف )پہلے گروہ کا کہنا ہے : شیعیت کا آغاز سقیفہ کے دن ہوا ، جب بزرگ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے کہا :حضرت علی علیہ السلام امامت و خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں ۔(٢)
............
(١)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، ص ٢٥٨ .
(٢)یعقوبی بیان کرتے ہیں :چند بزرگ صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیااور کہا: حضرت علی خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں، تاریخ یعقوبی، جلد ٢،ص ١٢٤،طبع، منشورات الشریف الرضی قم ١٤١٤ھ
(ب)دوسرے گروہ کا کہنا ہے : آغاز تشیع خلافت عثمان کے آخری زمانے سے مربوط ہے اور یہ لوگ اس زمانہ میں ، عبد اللہ بن سبا کے نظریات کے منتشر ہونے کوآغاز تشیع سے مربوط جانتے ہیں۔(١)
(ج)تیسرا گروہ معتقد ہے کہ شیعیت کا آغاز اس دن سے ہوا جس دن عثمان قتل ہوئے ،اس کے بعد حضرت علی کی پیروی کرنے والے شیعہ حضرات ان لوگوں کے مدمقابل قرار پائے ،جو خون عثمان کا مطالبہ کررہے تھے ، چنانچہ ابن ندیم ر قم طراز ہیں:جب طلحہ و زبیر نے حضرت علی کی مخالفت کی اور وہ انتقام خون عثمان کے علاوہ کسی دوسری چیز پر قانع نہ تھے ، نیز حضرت علی بھی ان سے جنگ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ حق کے سامنے تسلیم ہوجائیں ،اس دن جن لوگوں نے حضرت علی کی پیروی کی وہ شیعہ کے نام سے مشہور ہوگئے اور حضرت علی بھی خود ان سے فرماتے تھے:یہ میرے شیعہ ہیں ،(٢) نیز ابن عبدربہ اندلسی ر قم طراز ہیں :
''شیعہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی کو عثمان سے افضل قرار دیتے ہیں۔(٣)
(د)چوتھا گروہ معتقد ہے کہ شیعہ فرقہ روز حکمیت کے بعدسے شہادت حضرت علی تک وجود میں آیا۔ (٤)
............
(١)مختار اللیثی، سمیرہ ، جہاد الشیعہ ، دار الجیل ، بیروت ، ١٣٩٦ھ، ص :٢٥
(٢)ابن ندیم الفہرست ''دار المعرفة''طبع،بیروت(بی تا) ص٢٤٩
(٣)ابن عبدربہ اندلسی احمد بن محمد ، العقد الفرید ،دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ١٤٠٩ھ ج٢ ص٢٣٠
(٤)بغدادی ، ابو منصور عبد القادر بن طاہر بن محمد ''الفرق بین الفرق'' طبع،قاہرہ،١٣٩٧، ص١٣٤
(ھ )پانچواں گروہ آغاز تشیع کو واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین سے مربوط قرار دیتاہے۔(١)
(٢)دوسرا طبقہ ان محققین کا ہے جو معتقد ہیںکہ شیعیت کا ریشہ رسول خدا ۖکی حیات طیبہ میں پایا جا تا تھا،تمام شیعہ علما بھی اس کے قائل ہیں ۔(٢)
بعض اہل سنت دانشوروں کابھی یہی کہنا ہے ،چنانچہ محمد کردعلی جو اکابرعلمائے اہل سنت سے ہیں ،کہتے ہیں :''رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں بعض صحابہ کرام شیعیان علی کے نام سے مشہور تھے۔(٣)
مذکورہ بالا نظریات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ روز سقیفہ ، خلافت عثمان کا آخری دور،جنگ جمل ، حکمیت اور واقعہ کربلا وغیرہ وہ موارد ہیںجن میں رونما ہونے والے کچھ حادثات تاریخ تشیع میں مؤثر ثابت ہوئے ،چونکہ عبداللہ بن سبا نامی کے وجود کے بارے میں شک و ابہام پایا جاتاہے،لہٰذا ان ادوار میں شیعیت کا تشکیل پا نا بعید ہے ۔
کیونکہ اگر احادیث پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر محققانہ نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی بہت سی احادیث میں لفظ شیعہ حضرت علی کے چاہنے والوں کے لئے استعمال ہوا ہے ،جن میں سے ہم بعض کی طرف اشارہ کررہے ہیں، نیز یہ تمام احادیث اہل سنت و الجماعت کے نزدیک مقبول ہیںاور منابع احادیث میں ہیں ،جیسا کہ سیوطی جو کہ اہل سنت والجماعت کے مفسروں
............
(١)مختار اللیثی، ڈاکٹر سمیرہ '' جہاد الشیعہ '' ٣٥ ۔ نقل از برنا '' رولویس '' اصول الاسماعیلیہ ص٨٤
(٢)دفاع از حقانیت شیعہ، ترجمہ غلام حسن محرمی ، مومنین ، طبع اول ١٣٧٨ ص ٤٨، اورشیعہ در تاریخ،، ترجمہ محمد رضا عطائی ، انتشارات آستانہ قدس رضوی ، طبع دوم ، ١٣٧٥ ، ش ، ص ، ٣٤
(٣)خطط الشام ، مکتبة النوری ، دمشق ، طبع سوم ، ١٤٠٣ ھ ۔ ١٩٨٣ ، ج ٦ ، ص ٢٤٥
میں سے ہیں اس آیۂ کریمہ: ''اولٰئکٔ ھم خیر البریة '' کی تفسیر میں پیغمبر اکرم ۖسے حدیث نقل کرتے ہیں ، منجملہ یہ حدیث کہ پیغمبرۖ اسلام نے فرمایا : اس آیۂ کریمہ: ''اولٰئکٔ ھم خیر البریة '' میں خیرالبریہ سے مراد حضرت علی اور ان کے شیعہ ہیں اور وہ قیامت کے دن کامیاب ہیں۔(١)
ر سول اکرم ۖ نے حضرت علی سے فرمایا : خداوند کریم نے آپ کے شیعوں کے اور شیعوں کو دوست رکھنے والے افراد کے گناہوں کو بخش دیا ہے ،(٢)نیز پیغمبر اسلامۖنے حضرت علی سے فر مایا :آپ اور آپ کے شیعہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے در حالانکہ آپ حوض کوثر سے سیراب ہوںگے اور آپ کے چہرے (نور سے ) سفیدہوں گے اور آپ کے دشمن پیاسے اور طوق و زنجیر میں گرفتا رہوکر میرے پاس آئیںگے (٣)رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک طولانی حدیث میں حضرت علی کے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے فاطمہ! علی اور ان کے شیعہ کل (قیامت میں ) کامیاب(نجات پانے والوں میں) ہیں۔(٤)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
اے علی ! خداوند عالم نے آپ کے اور آپ کے خاندان اور آپ کے شیعوں کو
............
(١) الدر المنثور فی التفسیر بالمأ ثور،ج :٦ ،ص :٣٧٩، منشورات مکتبةآیة اللہ مرعشی نجفی ، قم ١٤٠٤ھ
(٢) ابن حجر ھیثمی المکی صواعق محرقہ ،ص ٢٣٢ طبع دوم مکتب قاہرہ، ١٣٨٥
(٣)ابن حجرمجمع الزوائد، نورالدین علی ابن ابی بکر ۔ ج ٩ ، ص ١٧٧ ، دار الفکر ١٤١٤ھ
(٤) المناقب ، ص ٢٠٦ ، اخطب خوارزمی منشورات مکتبةالحیدریہ ، نجف ١٣٨٥
دوست رکھنے والوں کے گناہوں کو بخش دیا ہے ۔(١)
نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
اے علی !جب قیامت برپا ہوگی تو میں خدا سے متمسک ہوں گا اورتم میرے دامن سے اورتمہارے فرزندتمہارے دامن سے اورتمہاری اولاد کے چاہنے والے تمہاری اولاد کے دامن سے متمسک ہوں گے۔ (٢)
نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا :
تم قیامت میں سب سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہو گے اور (تمہارے) شیعہ نورکے منبر پر ہوں گے ۔(٣)
ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جناب جبرئیل نے خبر دی کہ (حضرت) علی اور ان کے شیعہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنت میں لے جائے جائیں گے ۔(٤)
جناب سلمان فارسی نقل کرتے ہیںکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا : اے علی !سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنو تاکہ مقرب لوگوں میں قرار پاؤ، حضرت علی نے پوچھا : مقربین کون ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
............
(١) مذکورہ مصدر کے علاوہ، ینابیع المودة ، قندوزی حنفی ، منشورات مؤسسہ اعلمی طبع اول، ١٤١٨ ھ ج ١، ص ٣٠٢
(٢) المناقب ، ص ٢١٠ ، اخطب خوارزمی
(٣) المناقب ، ص ١٥٨، ١٣٨٥ھ
( ٤) مذکورہ مصدر ،ص ٣٢٢ ۔ ٣٢٩ حدیث کے ضمن میں، فصل ١٩
جبرئیل و میکائیل، پھر حضرت علی نے پوچھا :کون سی انگوٹھی ہاتھ میں پہنوں؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : وہ انگوٹھی جس میں سرخ عقیق ہو ، کیونکہ عقیق وہ پہاڑ ہے ،جس نے خدائے یکتا کی عبودیت ، میری نبوت ، آپ کی وصایت اور آپ کے فرزندوں کی امامت کا اقرار و اعتراف کیا ہے اور آپ کو دوست رکھنے والے اہل جنت ہیںاور آپ کے شیعوں کی جگہ فردوس بریں ہے ،(١)پھر رسول خدا ۖ نے فرمایا :ستر ہزار (٧٠٠٠٠)افراد میری امت سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ،حضرت علی نے دریافت کیا : وہ کون ہیں ؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:وہ تمہارے شیعہ ہیں اورتم ان کے امام ہو۔ (٢)
انس ابن مالک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''جبرئیل نے مجھ سے کہا :خدائے کریم حضرت علی کواسقدر دوست رکھتا ہے کہ ملائکہ کو بھی اتنا دوست نہیں رکھتا ،جتنی تسبیحیں پڑھی جاتی ہیں، خدائے کریم اتنے ہی فرشتوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ وہ حضرت علی کے دوستوں اور ان کے شیعوں کے لئے تاقیامت استغفار کریں۔(٣)
جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیںکہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :خدائے یکتا کی قسم جس نے مجھے پیغمبر بنا کر مبعوث کیاکہ خدا وند عالم کے مقرب بارگاہ
............
(١) مذکورہ مصدر ص ٢٣٤
(٢) مذکورہ مصدر ص ٢٣٥
(٣) ینابیع المودة ، القندوزی الحنفی ، شیخ سلمان ،ص ٣٠١
فرشتے حضرت علی کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں نیز ان کے اور ان کے شیعوں کے لئے باپ کی طرح الفت و محبت اور اظہارہمدردی کرتے ہیں۔ (١)
خود حضرت علی روایت کرتے ہیںکہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے علی!اپنے شیعوں کو خوش خبری دیدوکہ میں روز محشر(ان کی ) شفاعت کروں گا جس دن میری شفاعت کے علاوہ مال و فرزند کوئی فائدہ نہیں دیں گے ۔(٢)
رسالت مآبۖ نے فرمایا: اے علی ! سب سے پہلے جنت میں جو چار افراد داخل ہوں گے وہ میں ،تم اور حسن و حسین ،ہیں ،ہماری ذریت ہمارے پیچھے اور ہماری ازواج ہماری ذریت کے پیچھے اور ہمارے شیعہ دائیں،بائیں ہوں گے۔(٣)
خلاصہ، بہت سے محققین اور مؤرخین اہل سنت، منجملہ ابن جوزی ، بلاذری ، شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، خوارزمی اور سیوطی نے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :
'' یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ''(٤) حتیٰ بعض شیعہ حضرات
............
(١) ینابیع المودة ص ٣٠١
(٢) ینابیع المودة ص ٣٠٢
(٣)مجمع الزوائد ص١٧٨، ھیثمی نور الدین علی بن ابی بکر
(٤) تذکرة الخواص ص ٥٤ ، ابن جوزی ، منشورات المطبعة الحیدریہ نجف ١٣٨٣ ھ، ص ٥٤، بلا ذری انساب الاشراف ،تحقیق محمد باقر محمودی ، موسسہ اعلمی بیروت ، ج ٢ ،ص ١٨٢ ، قندوزی حنفی ینابیع المودة منشورات اعلمی للمطبوعات ،طبع بیروت ،طبع اول ١٤١٨ ھ ج ١، ص٣٠١، اخطب خوارزم المناقب، منشورات المطبعة الحیدریہ ، نجف ، ١٣٨، ص٢٠٦، سیوطی جلا ل الدین ، الدر المنثور فی تفسیر بالمأ ثور ، مکتبة آیة اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی ، قم ، ١٤٠٤ھ ، ج ٦، ص ٩ا٣٧
کے بارے میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایات منقول ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ شیعوں کے مخالفین کی زبانی روایات نقل ہوئی ہیں ،جیسے جناب عائشہ سے حجر بن عدی کے بارے میں روایت منقول ہے ،جب معاویہ حجر اور ان کے دوستوں کے قتل کے بعد حج کرکے مدینہ آیاتو عائشہ نے اس سے کہا:
''اے معاویہ ! جب تم نے حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کو قتل کیا توتمہاری شرافت کہاں چلی گئی تھی؟آگاہ ہوجاؤ کہ میں نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ،آنحضرت صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :ایک جماعت ''مرج عذرائ''نام کی جگہ قتلہوگی، ان کے قتل کی وجہ سے اہل آسمان غضب ناک ہوں گے۔(١)
چونکہ یہ احادیث قابل انکار نہیں ہیں اور انہیں بزرگان اہل سنت نے نقل کی ہیں، لہٰذا بعض صاحبان قلم نے ان میں بیجا و نارواتاویلیں کی ہیں،چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں :
''بہت سی روایات میں ان شیعوں سے مراد جن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ افراد ہیں جو حضرت علی کو تمام مخلوق میں سب سے افضل و برتر سمجھتے ہیں ،اس وجہ سے ہمارے معتزلی علمانے اپنی تصانیف اور کتابوں میں لکھا ہے کہ در حقیقت ہم شیعہ ہیں اور یہ جملہ قریب بہ صحت اور حق سے مشابہ ہے ''(٢)
نیز ابن حجر ہیثمی نے اپنی کتاب '' الصواعق محرقہ فی الرد علی اھل البدع والزندقة''میں جوکہ شیعوں کے اصول و اعتقادکے خلاف لکھی گئی ہے،اس حدیث کو نقل
............
(١ ) ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج٢، ص٢٣١
(٢) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ۔دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ، ج ٢٠ ، ص ٢٢٦
کرتے وقت بیان کیا : اس حدیث میں شیعوں سے مراد موجودہ شیعہ نہیں ہیں بلکہ ان سے مراد حضرت علی کے خاندان والے اوران کے دوست ہیںجو کبھی بدعت میں مبتلا نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اصحاب کرام کو سب و شتم کیا ''(١)
مرحوم مظفر ان کے جواب میں بیان کرتے ہیں :
بڑے تعجب کی بات ہے کہ ابن حجر نے گمان کیا ہے کہ یہاں شیعوں سے مراد اہل سنت حضرات ہیں مجھے نہیں معلوم کہ یہ مطلب لفظ شیعہ و سنی کے مترادف ہونے کی وجہ سے ہے یا اس وجہ سے کہ یہ دونوں فرقے ایک ہی ہیں ؟یا یہ کہ اہل سنت حضرات شیعوں سے زیادہ خاندان پیغمبر اسلام ۖ کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں اور انہیں دوست رکھتے ہیں۔(٢)
مرحوم کاشف الغطاء کہتے ہیں :
لفظ شیعہ کو شیعیان حضرت علی سے منسو ب کرنے ہی کی صورت میں یہ معنیٰ سمجھ میں آتے ہیں ،ورنہ پھر اس کے علاوہ شیعہ کے کوئی دوسرے افراد ہیں۔(٣)
احادیث اور اقوال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میںشیعہ معنیٰ کا ظہور روز روشن کی طرح واضح وآشکار ہے اور یہ حضرات اس طرح کی بے جا تاویلات کے ذریعہ حقیقت سے روگردانی کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے خود اپنے نفسوں کو دھوکا دیا،کیونکہ لفظ شیعہ کے
............
(١)ہیثمی مکی ،ابن حجر ، صواعق محرقہ، مکتبة قاہرة، ١٣٨٤، ص ٢٣٢
(٢)مظفر ، محمد حسین تاریخ الشیعہ ، منشورات مکتبة بصیرتی ، ص٥
(٣) دفاع از حقانیت شیعہ ، ترجمہ غلام حسن محرمی ،مؤمنین، طبع اول ١٣٧٨ھ،ص٤٨۔٤٩
مصادیق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں موجود تھے اور کچھ اصحاب پیغمبر اسلام صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم شیعیان علی کے نام سے مشہورتھے ۔ (١)
اصحاب پیغمبر اسلام صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو شیعہ کہتے تھے ، ہاشم مرقال نے 'حضرت علی سے''محل بن خلیفہ طائی ''نامی شخص کے بارے میں کہا:
''اے امیرالمؤمنین!وہ آپ کے شیعوں میں سے ہیں ۔''(٢)
اور خود شیعہ بھی آپس میں ایک دوسرے کو شیعہ کہتے تھے ،چنانچہ شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ایک جماعت نے حضرت علی کی خدمت میں شرفیاب ہوکر عرض کی:''اے امیرالمومنین!''ہم آپ کے شیعوں میں سے ہیں ۔
نیز حضرت علی نے فرمایا :
............
(١) سعد بن عبد اللہ اشعری اس بارے میں کہتے ہیں :سب سے پہلا فرقہ شیعہ ہے اوریہی فرقہ علی بن ابی طالب کے نام سے مشہورہے کہ جس کے افراد زمانہ ٔ پیغمبر ۖمیں شیعیان علی کہے جاتے تھے اور وفات پیغمبرۖ کے بعد بھی مشہور تھا کہ یہ افرادحضرت علی کی امامت کے معتقد ہیں ،جن میں مقداد بن اسود کندی ، سلمان فارسی اور ابوذر و عمار ہیں ،یہ حضرات حضرت علی کی اطاعت و پیروی کو ہر چیز پر ترجیح دیتے تھے اور آنجناب کی اقتدا کرتے تھے ،دیگر کچھ افراد ایسے تھے کہ جن کا نظریہ حضرت علی کے موافق تھا اور یہ اس امت کا پہلا گروہ ہے ، جس کو شیعیت کے نام دیا گیا،نیز شیعہ ایک قدیم نام ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی لفظ شیعہ کا استعمال ہوا ہے مثلا، شیعۂ نوح ، شیعۂ ابراہیم ، شیعۂ موسیٰ اور شیعۂ عیسیٰ نیزدیگر انبیا کے سلسلہ میں بھی ملتا ہے''المقالات والفرق ، مرکز انتشارات علمی ، فرہنگی ، تہران ص٣۔
(٢)شیخ مفید محمد، بن محمد نعمان ''الجمل ''مکتبة العلوم الاسلامی ، مرکز نشر ط دوم ١٤٢٦ھ ص٢٤٣
''ہمارے شیعوں کے چہرے راتوں میں عبادت کی وجہ سے زرد پڑجاتے ہیں اور گریہ و زاری کی وجہ سے ان کی آنکھیں کمزور ہوجاتی ہیں…،(١)مذکورہ بالا روایت کی طرح حضرت علی نے بہت سے مقامات پر اپنی پیروی کرنے والوں کو شیعوں کے نام سے یاد کیا ہے ،مثلا جب طلحہ وزبیر کے ہاتھوں بصرہ میں رہنے والے شیعوں کی ایک جماعت کی خبر شہادت پہنچی تو حضرت نے (ان قاتلوں) کے حق میں نفرین کرتے ہوئے فرمایا :
خدایا !انہوں نے میرے شیعوںکو قتل کردیا ،تو بھی انہیں قتل کر''(٢)
حتیٰ دشمنان حضرت علی بھی اس زمانہ میں آپ کی پیروی کرنے والوں کو شیعہ کہتے تھے ،چنانچہ جب عائشہ و طلحہ و زبیر نے مکہ سے سفر عراق کی طرف سفر کیا تو آپس میں گفتگوکی اور کہا :
''بصرہ چلیں گے اور حضرت علی کے عاملین کو وہاں سے باہر نکالیں گے اور ان کے شیعوں کو قتل کریں گے۔(٣)
بہر حال حقیقت تشیع وہی حضرت علی سے دوستی و پیروی اور آ پ کو افضل وبرتراور مقدم قرار دینا ہے جوکہ زمانہ پیغمبر ۖسے مربوط ہے،آنحضر ت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی احادیث و اقوال میں لوگوں کو حضرت علی اورآپ کے خاندان کی دوستی و پیروی کا حکم دیا ۔
منجملہ غدیر خم کا واقعہ ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں :یہ روایات، ان
............
(١) شیخ مفید ،محمد بن محمد نعمان ، ''الارشاد'' ترجمہ محمد باقر ساعدی خراسانی ، کتاب فروشی اسلامیہ ، طبع دوم ، ص٢٢٨
(٢) شیخ مفید، محمد بن محمد نعمان''الجمل ''ص٢٨٥
(٣) شیخ مفید ،محمد بن محمد نعمان ص٢٣٥
لوگوں نے نقل کی ہیں جنہیں رافضی اور شیعہ ہونے سے کسی نے بھی متہم نہیں کیاہے یہاں تک کہ وہ دوسروں کی نسبت حضرت علی کی افضلیت و برتری اور تقدم کے قائل بھی نہیں تھے ۔(١)
ہم اس سلسلہ کی بعض احادیث کی طرف( مزید) اشارہ کرتے ہیں :
بریدہ اسلمی کہتے ہیں :
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : خدائے تعالیٰ نے مجھے چار لوگوں سے دوستی کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھ سے فرمایا ہے : میں بھی انہیں دوست رکھتا ہوں ، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ۖ!ان کا نام بتائے؟
آنحضرت نے تین بار فرمایا: ''علی ''اور پھر ابوذر ، مقداد اور سلمان فارسی کا نام لیا۔(٢)
طبری جنگ احد کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں کہ رسو ل خدا ۖ نے فرمایا :
''میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں''(٣)
جناب ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا :
''جب کبھی حضرت رسو ل خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ ہوتے تھے تو حضرت علی کے علاوہ کوئی ان سے گفتگو کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا،سعد ابن ابی وقاص نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
............
(١)شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید معتزلی ،ج ٢، ص٣٤٩،طبع دار الاحیاء التراث العربی
(٢)ہیثمی مکی صواعق المحرقہ، ص١٢٢، مکتبة القاہرہ، طبع دوم ١٣٥٨
(٣)تاریخ طبری، ج٢ ص٦٥ طبع سوم، دار الکتب العلمیة ، بیروت، تیسری طباعت ١٤٠٨ھ
''جس نے علی کو دوست رکھا ، اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا ، اس نے خدا کو دوست رکھا اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی گویااس نے خدا سے دشمنی کی۔(١)
ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
''اے علی ! تم جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والے ہو، تم جنت کے دروازہ کوکھولوگے اور بغیر حساب داخل ہوجاؤ گے ،(٢)
کتاب مناقب خوارزمی میں جناب ابن عباس سے نقل ہواہے کہ رسو ل خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
''جب مجھے معراج پر لے جا یا گیا ،تو میں نے جنت کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا:لاالہ الااللّہ ، محمد رسول اللّہ ،علی حبیب اللّہ ،الحسن والحسین صفوة اللّہ،فاطمة امة اللّہ،علیٰ مبغضھم لعنة اللّہ ''(١)
زبیر بن بکار جو زبیر کے پوتے ہیں اور حضرت علی سے انحراف اختیار کرنے میں مشہور ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
'' جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور میری نبوت کو قبول کیا ،میں انہیں علی بن ابیطالب علیہماالسلام کی ولایت اور دوستی کی وصیت کرتا ہوں ، جس نے انہیںدوست رکھا، اس نے مجھے
............
(١)صواعق محرقہ ص١٢٣، ہیثمی مکی
(٢)ہیثمی مکی الصواعق المحرقہ ، ص ١٢٣،تذکرة الخواص،ص ٢٠٩، سبط ابن جوزی طبع ، منشورات مطبعہ حیدریہ نجف اشرف ١٣٨٣
(٣) مناقب ، ص ٢١٤ ، اخطب خوارزمی ١٣٨٥
دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا ،اس نے خدا کود وست رکھا''(١)
ابن ابی الحدید ، زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیںکہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
''میں تمہیں اس چیز کی طرف راہنمائی کررہا ہوں کہ اگر جان لو گے تو ہلاک نہیںہوگے ، تمہارے امام علی بن ابی طالب( علیہماالسلام )ہیں ،ان کی تصدیق کر وکہ جناب جبرئیل نے مجھے اس طرح خبر دی ہے ''۔
ابن ابی الحدید معتزلی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں اگرلوگ کہیں کہ یہ حدیث صریحی طور پر حضرت علی کی امامت پر دلالت کرتی ہے توپھر معتزلہ کس طرح اس اشکال کو حل کریں گے ؟
ہم جواب میں کہتے ہیں :ہوسکتاہے کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ ہو کہ حضرت علی فتویٰ دینے اور احکام شرعی میں لوگوں کے امام ہیں ، نہ کہ خلافت کے سلسلہ میں ، جس طرح ہم نے بغدادی علمائے معتزلہ کے اقوال کی شرح میںجو بات کہی ہے وہ (اس اشکال کا ) جواب ہوسکتی ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے:
در حقیقت امامت و خلافت حضرت علی کا حق تھا ، اس شرط کے ساتھ کہ آنجناب اس کی طرف میل و رغبت کا اظہار کرتے اور اس کی خاطر دوسروں کے مد مقابل آجاتے لیکن چونکہ آپ نے اس عہدہ امامت و خلافت کو دوسروں پر چھوڑکر سکوت اختیار کیا،لہذا ہم نے ان کی ولایت و سر براہی کو قبول کرتے ہوئے ان کی خلافت کے صحیح ہونے کا اقرار
............
(١) الاخبار الموفقیات ، انتشارات الشریف الرضی ، قم، ١٤١٦ھ ص٣١٢
واعتراف کرلیا ،چنانچہ حضرت علی نے خلفائے ثلاثہ کی مخالفت نہیں کی اور ان کے مقابلہ میں تلوار نہیں اٹھائی اور نہ ہی لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کایا ، پس آپ کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان کی خلافت کی تصدیق کی، اسی وجہ سے ہم ان کو قبول کرتے ہیں اور ان کے بے قصور ہونے اور ان کے حق میں خیر وصلاح کے قائل ہیں،ورنہ اگر حضرت علی ا ن حضرات سے جنگ کرتے اور ان کے خلاف تلوار اٹھا لیتے اور ان سے جنگ کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دیتے تو ہم بھی ان کے فاسق و فاجر اور گمراہ ہونے کا اقرار و اعتراف کرلیتے'' (١)

شیعوں کے دوسرے نام:
حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بعد جب تشیع وسیع تر ہوئی تو شیعہ نام کے علاوہ آہستہ آہستہ اور دوسرے عناوین جیسے علوی ،امامی ،حسینی ،اثنا عشری ،خاصہ، جعفری ترابی ، رافضی، خاندان رسالت کے دوستوں کے لئے استعمال ہونے لگے اگر چہ عام طور پر اہل بیت کے دوستوں کو شیعہ ہی کہتے تھے، یہ القاب اور عناوین مختلف مناسبتوں سے شیعوں کے متعلق کہے گئے کبھی مخالفین یہ القاب شیعوں کی سرزنش اور ان کو تحقیر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے، چنانچہ معاویہ کے زمانے میں بنی امیہ اور اہل شام علی کے القاب اور کنیت میںسے آپ کو ابو تراب اور آپ کے شیعوں کو ترابی کہتے تھے ،معاویہ نے صفین

(١)شرح نہج البلاغہ ،ج ٣ ، ص ٩٨ ابن ابی الحدید معتزلی ،طبع ، دار الاحیاء الکتب العربیة مصر،طباعت اول، ١٣٧٨ھ ق
اورحکمیت کے بعد جب عبداللہ بن خزرمی کو بصرہ بھیجنا چاہاتو تمام قبیلوں کے بارے میں اس نے بہت تاکید کی لیکن قبیلہ ربیعہ کے بارے میں کہا کہ:ربیعہ کو چھوڑواس لئے کہ اس کے تمام افراد ترابی ہیں۔(١)
مسعودی کے بقول ابو مخنف کے پاس ایک کتاب تھی جسکا نام'' اخبار الترابیین'' تھا، مسعودی اس کتاب سے نقل کرتا ہے کہ جس میں ( عین الورد کے حوادث)کا تذکرہ کیا گیا ہے۔(٢)
رافضی عنوان کو مخالفین، شیعوں پر اطلاق کرتے تھے اور اکثر جب کسی کو چاہتے تھے کہ اس پر دین کو چھوڑنے کی تہمت لگائیں تو اس کورافضی کہتے تھے ۔
چنانچہ شافعی کہتے ہیں:
ان کان رفضاً حب آل محمدٍ
فلیشہد الثقلان انی رافضی
یعنی اگر آل محمد علیہم السلام کی دوستی رفض ہے تو جن وانس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں ۔(٣)(٤)

تاریخ میں آیا ہے کہ زید بن علی کے قیام کے بعد شیعوں کو رافضی کہا جاتا تھا،
............
(١) بلاذری ،انساب الاشراف ،منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ،بیروت ،١٣٩٤ھ ج ٢ ص٤٢٣
(٢)مسعودی ،مروج الذہب ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات،بیروت، ١٤١١ھ ج٣ ص١٥
(٣)ہیثمی مکی ،الصواعق المحرقہ ص ١٢٣،
(٤)الامین ،سید محسن ،اعیا ن الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات ،بیروت ،ج١، ص٢١
شہرستانی کہتا ہے: جس وقت شیعیان کوفہ نے زید بن علی سے سنا کہ وہ شیخین پر تبرّا نہیں کرتے اور افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز جانتے ہیں تو ان کو چھوڑ دیا اوروہ اسی وجہ سے رافضی کہلانے لگے، کیونکہ رفض کے معنیٰ چھوڑنے کے ہیں۔(١)
علوی لقب کے بارے میں سید محسن امین لکھتے ہیں :عثمان کے قتل نیز معاویہ کے حضرت علی سے برسر پیکار ہونے کے بعد معاویہ کی پیروی کرنے والوں کو عثمانی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ عثمان کو دوست رکھتے تھے اورحضرت علی سے نفرت کرتے تھے اور حضرت علی کے چاہنے والوں پر شیعہ کے علاوہ علوی ہونے کا بھی اطلاق ہوتا ہے اور یہ طریقۂ کار بنی امیہ کے دور حکومت کے آخر تک جاری رہا اور عباسیوں کے زمانے میںعلوی اور عثمانی نام منسوخ ہو گئے اور صرف شیعہ اور سنی استعمال ہو نے لگا،(٢) شیعوں کے لئے دوسرا نام امامی تھا جو زیدیوں کے مقابلے میں بولا جاتا تھا۔
چنانچہ ابن خلدون لکھتا ہے: بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ روایات صریح دلالت کرتی ہیں کہ امامت صرف علی کی ذات میں منحصر ہے اور یہ امامت ان کے بعد ان کی اولاد میں منتقل ہو جائے گی ،یہ لوگ امامیہ ہیں اور شیخین سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں کیوںکہ انہوںنے علی کو مقدم نہیں کیا اور ان کی بیعت نہیں کی ،یہ لوگ ابو بکر اور عمر کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیںاور بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر ۖ نے اپنی جگہ پر کسی کو معین نہیں کیا بلکہ
............
(١)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ج: ١، ص١٣٩
(٢) امین ،سید محسن ،اعیان الشیعہ ص١٩
امام کے اوصاف بیان کردیئے کہ جوصرف امام علی پر منطبق ہوتے ہیں اور یہ لوگوں کی کو تاہی تھی کہ انہوںنے ان کو نہیں پہچانا ،وہ لوگ جو شیخین کو برا نہیںکہتے ہیں وہ فرقہ زیدیہ میں سے ہیں۔(١)
امام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے بعد جوا شعار کہے گئے ہیں اور ابھی تک باقی ہیں ان سے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ امام مظلوم کی شہادت کے بعد ان کے شیعوں کو حسینی بھی کہا جاتا تھا، ان لوگوں نے اپنے کو اکثر اشعار میں حسینی اور دین حسین پر اپنے آ پ کو پہچنوایاہے۔(٢)
ابن حزم اندلسی اس بارے میں کہتے ہیں : رافضیوں میں سے کچھ حسینی ہیں کہ جو ابراہیم (ابن مالک)اشتر کے اصحاب میں سے ہیں کہ جو کوفہ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے اور ''یا لثارات الحسین'' کا نعرہ لگاتے تھے ان کو (حسینی) کہا جاتا تھا۔(٣)
لیکن قطعیہ کانام امام موسیٰ کاظم کی شھادت کے بعد واقفیہ کے مقابلہ میں شیعوں پر اطلاق ہوتا تھایعنی ان لوگوں نے امام موسیٰ کاظم کی شہادت کا قاطعیت کے ساتھ یقین کرلیا تھا اور امام رضا اور ان کے بعد آنے والے اماموں کی امامت کے قائل ہوگئے تھے جب کہ واقفیہ امام موسیٰ کاظم کی شہادت کے قائل نہ تھے۔(٤)
............
(١)ابن خلدون ،مقدمہ ،دار احیاء ا لتراث العربی،بیروت،١٤٠٨ھ ص١٩٧
(٢)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ،مؤسسہ انتشارات علامہ ،قم ،ج٤،ص١٠٢
(٣)عبد ربہ اندلسی ،العقد الفرید، دار احیاء التراث العربی، بیروت ،١٤٠٩ھ ج٢ ،ص٢٣٤
(٤)شہرستانی ،ملل و نحل ،ص ١٥٠
آج جعفریہ کالقب،فقہی اعتبار سے زیادہ تر اہل سنت کے چار مذاہب کے مقابل میں استعمال ہوتا ہے کیو نکہ فقہ شیعہ امام جعفر صادق کے توسط سے زیادہ شیعوں تک پہنچی ہے اور زیادہ تر روایتیں بھی امام جعفرصادق سے نقل ہوئی ہیں، لیکن سید حمیری کے شعر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلمۂ جعفری کانہ صرف فقہی لحاظ سے امام صادق کے زمانہ میں شیعوں پر اطلاق ہوتا تھا بلکہ اصولی لحاظ سے بھی تمام فرقوں کے مقابلہ میںیہ نام استعمال ہوا ہے، سیدحمیری اپنے شعر میں کہتے ہیں۔
''تجعفرت باسم اللہ واللہ اکبر''
میں خدا کے نام سے جعفری ہو گیا ہوں اور خدا وند متعال بزرگ ہے ۔(١)
سید حمیری کا مقصد جعفری ہونے سے فرقۂ حقہ شیعہ اثنا عشری کے راستہ پر چلنا ہے کہ جو کیسانیہ کے مقابلہ میں ذکر ہوا ہے۔
............
(١)مسعودی ،علی بن حسین ،مروج الذھب منشورات مؤسسةالاعلمی،ج:٣،ص٩٢