عمومی منابع:
تاریخ تشیع کے بارے میں بعض خصوصی کتابوں کی مختصر تحقیق کے بعد تاریخ کے عمومی منابع سے متعلق ہم تحقیق کریں گے، موضوع کی حیثیت سے عمومی منابع اس طرح ہیں.
(١) تاریخ عمومی
(٢) ائمہ کی زندگانی
(٣) کتب فتن وحروب
(٤)کتب رجال وطبقات
(٥)کتب جغرافیہ
(٦) کتب اخبار
(٧)کتب نسب
(٨)کتب حدیث
(٩)کتب ملل ونحل
( ١)تاریخ عمومی
اس کتاب میں تاریخ تشیع کی تحقیق زیادہ تر ان کتابوں سے کی گئی ہے جو پہلی صدی ہجری یا تاریخ خلفا ء یا اس جیسے دور میں لکھی گئی ہیں، جیسے تاریخ یعقوبی ،مروج الذہب، تاریخ طبری، الکامل فی التاریخ ،الامامة والسیاسة ،العبر، تاریخ خلفاء ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،حتیٰ وہ تحقیقی اور تاریخی کتابیں جو معاصرین نے لکھی ہیں،تاریخ کی عمومی کتابوں میںسے سب سے زیادہ جس سے فائدہ اٹھا یا گیا ہے وہ تاریخ یعقوبی اور مروج الذھب ہے، ان دو کتابوں میں تقریباًبے طرف ہوکر تاریخی حوادث اور واقعات کو لکھا گیا ہے اور اس میں حقیقت پوشی سے کام نہیں لیا گیا ہے، یعقوبی نے اصحاب پیغمبرکی ابو بکر کی خلافت سے مخالفت کو تفصیل سے بیان کیا ہے( ١) نیزپیغمبر ۖ کی رحلت کے بعد جو گروہ بندیاں ہوئیںانہیں بھی بیان کیا ہے،وہ ان واقعات اور حوادث کو ذکر کرتے ہیں جوتاریخ شیعہ
............
(١ )ابن واضح ،احمد بن ابی یعقوب ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٤١٤ھ ج:٢ ص١٢٣تا١٢٦.
سے مربوط ہیں جیسے حکومت امیرالمومنین(١)،صلح امام حسن (٢)، شہادت حجر بن عدی(٣)، شہادت عمرو بن حمق(٤)اور شہادت امام حسین (٥)کواپنی قدرت و توانائی کے مطابق بیان کیا ہے اور اس نے حقّ مطلب کو تقریباًادا کیا ہے۔
مسعودی ایسے مؤرخ ہیںجنہوں نے کتاب مروج الذہب اور التنبیہ والاشراف میں حقیقت کو چھپانے میں تعمد سے کام نہیں لیاہے، نیز کتاب مروج الذہب اور التنبیہ والاشراف میں سقیفہ کا خلاصہ بیان کیا ہے ،اصحاب کے درمیان ا ختلاف اور بنی ہاشم کا ابوبکر کی بیعت نہ کرنے کو ذکر کیا ہے (٦)مسعودی نے اس کتاب میں دوسری جگہ قضیہ فدک کو تحریر کیا ہے،(٧) جو بھی واقعات امیر المومنین اور شہادت امام حسین کے دوران وجود میں آئے ہیں ان کو تفصیل سے بیان کیا ہے(٨)اس کے علاوہ مروج الذہب میں
............
(١)ابن واضح ،احمد بن ابی یعقوب ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٤١٤ھ، ج٣ ص ١٧٨،١٧٩۔
(٢)گزشتہ حوالہ ،ص٢١٤،٢١٥۔
(٣)گزشتہ حوالہ، ص٢٣٠،٢٣١۔
(٤)گزشتہ حوالہ،ص٢٣١،٢٣٢۔
(٥)گزشتہ حوالہ، ص٢٤٣،٢٤٦۔
(٦)مسعودی علی بن حسین ،مروج الذھب ،منشورات مؤسسةالاعلمی للمطبوعات بیروت ١٤١١ھ، ج٢، ص٣١٦ ، التنبیہ والاشراف دار الصاویٰ للطبع والنشر والتالیف ،قاہرہ ،(بغیر تاریخ کے)ص ٤٢
(٧)مروج الذھب،ج٣،ص٢٦٢ ۔
(٨) گزشتہ حوالہ ،ج٢،ص٢٤٦تا٢٦٦ ۔
جگہ جگہ شیعوں کے نام ان کے قبیلوں اور دشمنان اہل بیت کے ناموں کو ذکر کیا ہے، اسی طرح ائمہ اطھار علیہم السلام کی وفات کے تمام سال کو ان کی مختصرحیات طیبہ کے ساتھ بیان کیا ہے خصوصی طور سے دوسری صدی ہجری میںعلویوںکے قیام کی بطورمفصل وضاحت کی ہے۔(١)
(٢)ائمہ علیہم السلام کی زندگانی
ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے مربوط جو کتابیں ہیں ان میںشیخ مفید کی کتاب الارشاد ، ابن جوزی کی تذکرةالخواص کی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔
کتاب الارشاد مہم ترین شیعوں کا پہلا مآخذ ہے جس میں بارہ اماموں کی زندگی موجود ہے اس اعتبار سے کہ امیرالمومنین کی زندگی کا بعض حصہ رسول اسلا م ۖ کے زمانہ میںتھا،پیغمبرۖ کی سیرت کو بھی اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے خصو صاًآنحضرت کی جنگیں ، جنگ تبوک کے علاوہ حضرت علی تمام جنگوں میں موجود تھے، اس کتاب کے بارے میں صرف اتنا ہی کہناکافی ہے کہ تاریخ تشیع اور امام معصوم کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں کوئی بھی محقق اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہے ۔
(٣) کتب فتن و حروب
یہ کتاب ان جنگوںکے بیا ن سے مخصوص ہے جو مسلمانوں کی تاریخ نگاری میں کافی
............
(١)مروج الذہب ،ج٢،ص٣٢٤ ۔ ٣٢٦ ۔ ٣٥٨۔
اہمیت کی حامل ہیں، ان میں سے قدیم ترین کتاب وقعةالصفین ہے جونصربن مزاحم منقری (متوفی ٢١٢ھ ) کی تالیف ہے۔ جس میں صفین کے واقعہ میں اور جنگ کو بیان کیا گیا ہے، اس کتاب میں حضرت علی اور معاویہ کے درمیان مکاتبات اور حضرت کے خطبات اور مختلف تقریروں کے سلسلہ میں اہم اطلاعات موجود ہیں ، اس کتاب کے مطالب کے درمیان مفید معلومات اصحا ب پیغمبر ۖ کے حضرت علی سے متعلق خیا لات اور عرب کے مختلف قبائل کے درمیان تشیع کے نفوذ کی عکاسی پائی جاتی ہے ۔
کتاب الغارات مؤلف ابراہیم ثقفی کوفی٢٨٣ھ یہ کتاب بھی ایک اہم منابع میںسے ہے جو اسی سلسلے میں لکھی گئی ہے اس کتاب میں امیر المو منین کی خلافت کے زمانے کے حالات بیان کئے گئے ہیں،اس کتاب میں معاویہ کے کا رندوں اور غارت گروں کے بارے میں کہ جوحضرت علی کی حکومت میں تھے تحقیق کی گئی ہے، اس کتاب سے امیرالمومنین کے دور کے شیعوں کے حالات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
الجمل یا نصرةالجمل شیخ مفیدکی یہ کتاب ارزش مند منابع میں سے ایک ہے کہ جس میں جنگ جمل کے حالات کی تحقیق کی گئی ہے چونکہ یہ کتاب حضرت علی کی پہلی جنگ جو آپ کی خلافت کے زمانے میں واقع ہوئی ہے اس کے متعلق ہے لہٰذا اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا مرتبہ عراق کے لوگوں کے درمیان آپ کے وہاں جانے سے پہلے کیا تھا ۔
(٤)کتب رجال و طبقات
علم رجال ان علوم میں سے ہے کہ جن کاربط علم حدیث سے ہے اور اس علم کا استعمال احادیث کی سند سے مربوط ہے، اس علم کے ذریعہ راویان حدیث اور اصحاب پیغمبرۖکے حالات زندگی کا پتہ چلتا ہے،رجال شیعہ میں اصحا ب پیغمبر ۖ کے علاوہ ائمہ معصومین کے اصحاب کو بھی مورد بحث قرار دیا گیا ہے ، علم رجال شناسی دوسری صدی ہجری سے شروع ہو ااور آج تک جاری ہے اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ا س میں تکامل وترقی ہوتی جارہی ہے ، اہل سنت کی بعض معروف ومعتبر کتابیں اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل ہیں :
(١)الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ، ابن عبدالبرقرطبی ٤٦٣ھ
(٢) اسد الغابہ فی معرفةالصحابہ، ابن اثیر جزری ٦٣٠ھ
(٣) تاریخ بغداد، خطیب بغدادی ٤٦٣ ھ
(٤) ا لاصابہ فی معرفة الصحابہ، ابن حجر عسقلانی
اسی طرح شیعوں کی بھی اہم ترین کتابیں درج ذیل ہیں:
(١)اختیار معرفة الرجال کشی،شیخ طوسی ٤٦٠ھ
(٢)رجال نجاشی(فہرست اسماء مصنفی الشیعة)
(٣)کتاب رجال یا فہرست شیخ طوسی
(٤)رجال برقی،احمد بن محمد بن خالد برقی٢٨٠ھ
(٥)مشیخہ ،شیخ صدوق ٣٨١ھ
(٦)معالم العلما ئ،ابن شہر آشوب مازندرانی٥٨٨ ھ
(٧)رجال ابن دائود،تقی الدین حسن بن علی بن دائود حلی٧٠٧ھ
البتہ شیعوں کے درمیان علم رجال نے زیادہ تکامل وارتقاپیدا کیا ہے اور مختلف حصوں میں تقسیم ہوا ہے۔
بعض کتب رجال جیسے اسد الغابہ ،فہرست شیخ ،رجال نجاشی اور معالم العلماء کو حروف کی ترتیب کے لحاظ سے لکھا گیا ہے اور کچھ کتابیں جیسے رجال شیخ اور رجال برقی رسولۖ اکرم اور ائمہ کے اصحاب کے طبقات حساب سے لکھی گئی ہیں ،علم رجال پر اور بھی کتابیں ہیں جن میں لو گوں کو مختلف طبقات کی بنیاد پر پرکھا گیا ہے ان میں سے اہم کتاب طبقات ابن سعد ہے ۔
(٥) کتب جغرافیہ
کچھ جغرافیائی کتابیں سفر نا موں سے متعلق ہیں، جن میں اکثر کتابیںتیسری صدی ہجری کے بعد لکھی گئی ہیں چونکہ اس کتاب میں تاریخ تشیّع کی تحقیق شروع کی تین ہجری صدیوں میں ہوئی ہے ،اس بنا پر ان سے بہت زیادہ استفا دہ نہیں کیا گیا ہے،ہاں بعض جغرافیائی کتابیں جن میں سند کی شناخت کرائی گئی ہے اس تحقیق کے منابع میں سے ہیں ، ان کتابوں میں معجم البلدان جامع ہونے کے اعتبار سے زیادہ مورد استفادہ قرار پائی ہے، اگر چہ مؤلف کتاب''یاقوت حموی'' نے شیعوںکے متعلق تعصب سے کام لیا ہے اور کوفہ کے بڑے خاندان کا ذکر کرتے وقت کسی بھی شیعہ عالم اور بڑے شیعہ خاندانوں کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
(٦)کتب اخبار
کتب اخبارسے مراداحادیث کی وہ کتابیں نہیں ہیں جن میں حلال و حرام سے گفتگو کی گئی ہے بلکہ ان سے مراد وہ قدیم ترین تاریخی کتابیںہیں جو تاریخ کی تدوین کے عنوان سے اسلامی دور میں لکھی گئی ہیں کہ ان کتابوں میں تاریخی اخباراور حوادث کو راویوں کے سلسلہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، یعنی تاریخی اخبار کے ضبط ونقل میں اہل حدیث کا طرز اپنایا گیاہے ۔ اس طرح کی تاریخ نگاری کی چند خصوصیات ہیں ،پہلی خصوصیت یہ کہ ایک واقعہ سے متعلق تمام اخبار کو دوسرے واقعہ سے الگ ذکر کیاجاتا ہے وہ تنہا طور پر مکمل ہے اورکسی دوسری خبر اور حادثہ سے ربط نہیں ہے،دوسری خصوصیت یہ کہ اس میں ادبی پہلوئوں کا لحاظ کیا گیاہے یعنی مؤلف کبھی کبھی شعر، داستان مناظرے سے استفادہ کرتا ہے یہ خصوصیت خاص طور پر سے ان اخبار یین کے آثار میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جو ''ایام العرب'' کی روایات سے متاثر تھے ، اسی وجہ سے بعض محققین نے ''خبر '' کی تاریخ نگاری کو زمانۂ جاہلیت کے واقعات کے اسلوب و انداز سے ماخوذ جانا ہے۔تیسری خصوصیت یہ کہ ان میں روایات کی سند کا ذکر ہوتا ہے ۔
در حقیقت تاریخ نگاری کا یہ پہلا طرز خصوصاً اسلام کی پہلی دو دصدیوں میں کہ جس میں اکثرتاریخ کے خام موادو مطالب کا پیش کرنا ہوتا تھا اسلامی دور کے مکتوب آثار کا ایک اہم حصہ رہاہے۔اسی طرح سے اخبار کی کتابوں کے درمیان کتاب الاخبارالموفقیات جو زبیر بن بکارکی تالیف کردہ ہے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ،اس کتاب کا لکھنے والا خاندان زبیر سے ہے کہ جس کی اہل بیت سے پرانی دشمنی تھی اس کے علاوہ اس کے ، متوکل عباسی( جو امیر المومنین اور ان کی اولاد کا سخت ترین دشمن تھا) سے اچھے تعلقات تھے اور اس کے بچوں کا استاد بھی تھا۔(١) نیز اس کی جانب سے مکہ میں قا ضی کے عہدے پر فائز تھا (٢) ان سب کے باوجوداس کتاب میںابوبکر کی خلافت پر اصحاب پیغمبرۖ کے اعتراضات کے بارے میںاہم معلومات ہیں خصوصاً اس میں ان کے وہ اشعاربھی نقل کئے گئے ہیں جو حضرت علی کی جانشینی اور وصایت پر دلالت کرتے ہیں۔
(٧)کتب نسب
نسب کی کتابوں میں انساب الاشراف بلاذری سب سے زیادہ قابل استفادہ قرار پائی ہے جو نسب کے سلسلہ میں سب سے بہترین ماخذ جانی جاتی ہے ،دوسری طرف اس کتاب کو سوانح حیات کی کتابوںمیں بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ علم نسب کے لحاظ سے کتاب جمہرة الانساب العرب جامع ترین کتاب ہے کہ جس میں مختصر وضاحت بھی بعض لوگوں کے بارے میں میں کی گئی ہے ۔
کتاب منتقلہ الطالبیین میں ذریت پیغمبرۖاور سادات کی مہاجرت سے متعلق تحقیق کی گئی ہے، ان مطالب سے استفادہ کرتے ہوئے ابتدائی صدیوں میں اسلامی سرزمینوں پر تشیع سے متعلق تحقیق کی جا سکتی ہے۔
............
(١)خطیب بغدادی،الحافظ ابی بکر احمد بن علی ،تاریخ بغداد،مطبعة السعادہ،مصر،١٣٤٩ھ ج٨،ص٤٦٧
(٢) ابن ندیم ،الفہرست،بیروت،(بی تا)ص١٦٠
(٨)کتب ا حادیث
تاریخ تشیع کے دوسرے منابع میں سے حدیث کی کتابیں ہیں عرف اہل سنت میں حدیث سے مراد قول ،فعل اور تقریر رسول ۖہے ،لیکن شیعوں نے رسولۖ کے ساتھ ائمہ معصومین کو بھی شامل کیا ہے اور شیعہ رسول کے ساتھ ائمہ معصومین کے قول ،فعل اورتقریر کوبھی حجت مانتے ہیں ،اہل سنت کی کتابوں میں صحیح بخاری (١٩٤۔٢٥٦)مسند احمد بن حنبل (١٦٤۔٢٤١) مستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری (ف٤٥٠)صحابہ کے درمیان تشیع اور امیرالمومنین کی حقانیت( جو تشیع کی بنیادہے) کی تحقیق کے لئے بہترین کتابیں ہیں۔
شیعہ حضرات کی حدیث کی کتابیں جیسے کتب اربعہ :الکافی کلینی(٣٢٩ھ )، من لا یحضرہ الفقیہ صدوق (ف٣٨١ھ) تہذیب الاحکام و استبصارشیخ طوسی (وفات ٣٦٠ھ)اوردوسری کتابیں جیسے امالی ،غررالفوائدو درر القلائدسید مرتضیٰ (٣٥٥۔٤٣٦) الاحتجاج طبرسی( چھٹی صدی )شیعہ احادیث کا عظیم دائرة المعارف (انسائیکلوپیڈیا) بحارالانوار مجلسی (١١١١ھ) وغیرہ کہ جو اہل سنت کی کتابوںپر امتیازی حیثیت رکھتی ہیں، اس کے علاوہ شیعوں کے فروغ ، ان کے رہائشی علاقے، ان کے اجتماعی روابط اور ائمۂ معصومین کے ساتھ انکے اربتاط کے طریقہ کار کا اندازہ ان کی حدیثوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔
(٩)کتب ملل ونحل
اس سلسلہ میں اہم ترین ماخذشہرستانی (٤٧٩ ۔٥٤٨ ) کی کتاب ملل ونحل ہے، یہ کتاب جامعیت اورماخذ کے قدیم ہونے کے اعتبار سے بہترین منابع میں شمار ہوتی ہے بلکہ یہ کتاب محققین اور دانشمندوں کے لئے مرجع ہے اگرچہ مؤلف نے مطالب کو بیان کی میں تعصب سے کام لیا ہے،اس نے کتاب کے مقدمہ میں ٧٣فرقہ والی حدیث کا ذکر کیا ہے اور اہل سنت کو فرقہ ناجیہ قرار دیا ہے حتی الامکان شیعہ فرقوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ثابت کرے کہ شیعہ فرقوںکی کثرت شیعوں کے بطلان پر دلیل ہے، شہرستانی نے مختاریہ ،باقریہ ،جعفریہ ،مفضلہ ،نعمانیہ ، ہشامیہ ،یونسیہ جیسے فرقوں کو بھی شیعہ فرقوں میں شمار کیا ہے جب کہ ان فرقوں کا خارج میں کوئی وجود ہی نہیں ہے، جیسا کہ مقریزی نے اپنی کتاب خطط میں کہاہے کہ شیعہ فرقوں کی تعدادتین سو ہے لیکن ان کو بیان کرتے وقت بیس سے زیادہ فرقہ نہیںبیان کرسکا ۔
ملل ونحل کی جملہ قدیم ترین ا ور اہم ترین ، اشعری قمی کی المقالات والفرق او ر نو بختی کی فرق الشیعہ ہے۔ اشعری قمی اور نو بختی کا شمارشیعہ علماء اوردانشوروں میں ہوتاہے جن کا زمانہ تیسری صدی ہجری کا نصف دوم ہے ۔
کتاب'' المقالات و الفرق ''معلومات کے لحاظ سے کافی وسیع ہے اور جامعیت رکھتی ہے لیکن اس کے مطالب پراگندہ ہیں اورمناسب ترتیب کی حامل نہیں ہے۔ بعض محققین کی نظر میں نوبختی کی کتاب فرق الشیعہ حقیقت میں کتاب المقالات والفرق ہی ہے ۔
|