مختار آل محمد
دسواں باب
اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا خطبہ قید خانہٴ شام سے رہائی مدینہ میں رسیدگی
اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا خطبہ قید خانہٴ شام سے رہائی مدینہ میں رسیدگی اور حضرت مختار کے خروج تک حضرت محمد حنفیہ(ع) کی روپوشی علماء کا بیان ہے کہ کوفہ سے ایک ہفتہ قید کے بعد حضرات آلِ محمد کو شام کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ یزید کے حکم سے وہاں دربار سجایا جا رہا تھا۔ آئینہ بندی ہو رہی تھی کہ اہلِ حرم کا لُٹا ہوا قافلہ بے شمار فوج کی حراست میں شام (دمشق) پہنچا۔ دربار کے سجنے میں چونکہ تاخیر تھی۔ اس لیے اہلِ حرم کا قافلہ "باب الساعات" پر تین گھنٹے بروایت تین دن تک ٹھہرا رہا۔ ذکر العباس ص ۱۹۱ میں ہے کہ چند دن قید خانہٴ کوفہ میں رکھنے کے بعد مخدراتِ عصمت وطہارت اور سرہائے شہداء کو امام زین العابدین (ع) کے ساتھ شام کے لئے روانہ کر دیا گیا۔
یہ تباہ حال قافلہٴ حسینی(ع) اس طرح روانہ کیا گیا کہ آگے آگے سرہائے شہداء ،اُن کے پیچھے مخدراتِ عصمت تھیں۔
علّامہ قائنی فرماتے ہیں کہ سروں میں حضرت عباس(ع) کا سر آگے اور امام حسین(ع) کا سر سب سے پیچھے تھا۔
(کبریت احمر ص ۱۲۰) علّامہ سپھر کاشانی کی تحریر سے مستفاد ہوتا ہے کہ ان حضرات کی روانگی کا انداز یہ تھا
کہ راستے میں جا بجا جناب زینت(ع) خطبہ فرماتی تھیں۔ جناب اُم کلثوم مرثیہ پڑھتی تھیں۔ جناب سکینہ "نحن سبایا آل محمد" "ہم قیدی اہل بیت رسول ہیں"۔ امام حسین(ع) کا سر مبارک تلاوت سورہٴ کہف کرتا تھا۔ (ناسخ التواریخ جلد ۶ ص ۳۵۰) ابو مخنف کہتے ہیں کہ اس قافلہ کا شام میں داخلہ باب خیزران سے ہوا… پھر دربار میں داخلہ ہوا۔ ایک شامی نے جناب سکینہ(ع) کو اپنی کنیزی میں لینے کی خواہش کی۔ (لہوف ص ۱۶۷) امام حسین(ع) کے لب ودندان سے ادبی کی گئی۔ (صواعق محرقہ) یزید نے حضرت زینب(ع) سے کلام کرنا چاہا۔ (رو ضۃ الشہداء) اور سرِدربار حضرت زینب(ع) کو پکار کر کہا کہ اب زینب(ع)! خدا نے تم کو کیسا ذلیل کیا اور کس طرح تمہارے بھائی کو قتل کرا دیا۔ یہ سُننا تھا کہ حضرت زینب(ع) کھڑی ہو گئیں اور بہ لہجہ امیرالمومنین(ع) فرمانے لگیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے:۔ "تمام حمد اس خدائے کائنات کے لئے سزاوار ہے جس نے عالمین کے لیے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے اور اس کی رحمتیں جناب رسالت ماب اور ان کی آلِ اطہار کے لیے موزوں ہیں۔ اے شامیو! خداوند عالم نے قرآن مجید میں تم جیسے لوگوں کی طرف سچا خطاب فرمایا ہے کہ: جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھٹھہ بنا کر جھٹلانے کے باعث فسق وفجور کے سمندر میں غوطہ لگایا ہے ان کی عاقبت اور ان کا نتیجہ نہایت مہلک اور قبیح ہو گا۔ اے یزید! خدا تجھ پر لعنت کرے، تُو نے ہمارے اوپر اطرافِ عالم کو تنگ کر دینے اور مصائب وآلائم نازل کر کے اسیر بنانے کے باعث یہ ظن قائم کر رکھا ہے کہ تُو اللہ کے نزدیک مقرب اور ہم ذلیل وخوار ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ تیرے اس بے محل خوشی منانے کا باعث فقط تیرا تکبر اور تیری حماقت ہے اور لوگوں کا تیری طرف رغبت کرنا۔ اے ملعون! اس خوشی اور فخریہ اشعار (جسے تُو نے ابھی ابھی پڑھا ہے) یکسوئی اختیار کر کے کیا تُو نے خداوند عالم کے اس ارشاد باصواب کو نہیں سُنا کہ کفار کو جو مہلت دی گئی ہے، یہ ان کی بہتری اور بہبودی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ وہ سرکش اور معصیت کی طغیانی میں کماحقہ غرق ہو لیں۔ "یاابن الطلقا"اے گندی نسل کی بنیاد !کیا تُو نے یہ عدل برتا ہے کہ اپنی بیویوں اور کنیزوں کو تو پردہ میں محفوظ رکھا ہے اور دخترانِ رسول کو بے مقنع وچادر شہربہ شہر پھریا جا رہا ہے۔ اور ہر خاص وعام بطور تماشبین ان کے گِرد محیط ہے، اے ملعون! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ دخترانِ رسول کو اس منظرِ عام میں لا کر خوشی مناتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ساتھ کوئی مددگار نہیں جو ہماری اعانت وحمایت کرے۔ پھر آپ کمال مایوسی کی حالت میں فرماتی ہیں:۔ ایسے خبیث الاصل سے رقت قلب اور رحم کی کیا اُمید ہو سکتی ہے جو ابتداء سے ہی ازکیاء کے جگر چبانے کے عادی ہیں اور جن کا گوشت خونِ شہداء بہانے کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور ہماری طرف بغض وکینہ کی نگاہ سے دیکھنے والا ہماری عداوت میں کیوں کر کوتاہی کر سکتا ہے پھر تُو اے خبیث ربیع بدری کے اشعار پڑھ کر یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ اگر میرے گذشتہ آباؤ اجداد موجود ہوتے تو میرے اس فعل پر مرحبا کے نعرے بلند کرتے ہوئے دعا دیتے کہ اے یزید تیرے دونوں ہاتھ کبھی شل نہ ہوں حالانکہ اے خبیث تُو اس مقام پر چھڑی مار رہا ہے جہاں رسول بوسے دیتے ہوئے تھکتے نہ تھے۔
اے ملعون تُو کس طرح یہ نہ کہے حالانکہ تُو ایسا ظالم ہے کہ جس نے درد رسیدہ زخموں کو دوبارہ تراش دیا ہے اور آلِ محمد جو نجوم ارض تھے اُن کے خون بہانے کے باعث تُو نے قبر میں لے جانے والے زخم ڈال دئیے ہیں۔ اے ملعون تپو نے اپنے آباؤ اجداد کو خوشی کے باعث پکارا ہے، یقینا تُو بھی اُن کی طرح جہنم میں جاگزیں ہو گا۔ اس وقت تُو یہ خواہش کرے گا کہ دُنیا میں میرے ہاتھ پاؤں شل ہوتے کہ کسی پر ظلم نہ کر سکتا اور گونگا ہی ہوتا کہ کسی کو لسانی تکلیف نہ دیتا اور جو کچھ دنیا میں کِیا ہے نہ کِیا ہوتا۔ پھر فرماتی ہیں: اللّٰھُم خذبحقنا وانتقم من ظالمنا خدایا ہمارے شہداء کا انتقام اور ہمارے حق کا بدلہ تیرے ذمّہ ہے۔ …… (پھر فرماتی ہیں) اے ملعون! یاد رکھ یہ تُو نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے چمڑے اور گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ کیونکہ عنقریب تجھے اس کے بدلہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اور تُو لازمی طور پر رسول اللہ کے سامنے ان جرموں کا حامل ہو کر پیش ہو گا۔ اور ہمارے جن اشخاص کو تُو نے قتل کرایا ہے انہیں مردہ مت گمان کر کیونکہ شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں اور تجھ سے اس دن انتقام لیا جائے گا جس دن خدا کے سوا کسی کی حکومت نہ ہو گی اور رسول اللہ تیرے خصم اور مدمقابل ہوں گے۔ اور جبریل ان کے مددگار اور ناصر ہوں گے۔ اور تیرے مددگاروں کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ ظالمین کی عافیت کیسی ہوتی ہے اور کون سی جماعت نے فتح پائی۔ اور کس جماعت کو شکست نصیب ہوئی اور اے ملعون تیرے ساتھ ہمکلامی کے سبب چاہے جتنے مصائب نازل کر دئیے جائیں۔ میں تیری ذلت طبع اور گمراہی کے اظہار سے باز نہ آؤں گی اور تیرے سامنے حق ضرور بیان کروں گی۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ کثرت غم کے باعث آنسوؤں سے آنکھیں ڈبڈبا رہی ہیں اور جگر پاش پاش ہوتا جا رہا ہے۔ فالعجب القتل حزب اللہ النجباء بحزب الشیطان الطلقاء عجیب بات ہے کہ گروہ خداوندی کو گروہ شیطان نے بظاہر قتل کر دیا ہے (لیکن حقیقتاً ان کی موت) زندگی کا پیغام ہے… اب عالم یہ ہے کہ ان خبیثوں کے ہاتھوں سے خون کے قطرات ٹپک رہے ہیں۔ اور شہداء کی نعشیں بے گوروکفن تپتے ہوئے ریگستانوں میں وحشی جانوروں کے سامنے پڑی ہیں۔ اے ملعون! آج تُو نے ہمارے مردوں کو قتل کرنا اور ہمارے اموال کو لوٹنا اگرچہ غنیمت سمجھ رکھا ہے لیکن عنقریب تجھے اس کے عوض عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے۔ ہمارا ذکر، ذکرِ خیر آخر تک رہے گا۔ اور تیرے عمل قبیح کی وجہ سے تجھ پر ہمیشہ لعنت ہوتی رہے گی۔ تیرا یہ لشکر اور تیری حکومت عنقریب ختم ہو جائے گی۔
الخ حضرت زینب(ع) تقریر فرما رہی تھیں لیکن آپ کے دل پر بے پردگی کا غم بادل چھایا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا آسمان دُور زمین سخت کِدھر جاؤں میں بیبیو(ع) مِل کے دعا مانگو کہ مَر جاؤں میں حضرت زینب(ع) کا خطبہ جاری ہی تھا کہ ایک مرتبہ یزید کی پشت کی جانب سے ایک در کا پردہ اُٹھا اور ہندہ زوجہ یزید سروپا برہنہ باہر نکل پڑی۔ یزید نے فوراً تخت سے اُتر کر اُس کے سر پر عبا ڈالی اور کہا کہ تُو نے میری بڑی توہین کی کہ بے پردہ نکل آئی۔
اُس نے کہا اے یزید وائے ہو تجھ پر کہ تجھے اپنی عزّت کا اتنا خیال اور آلِ رسول کی عزّت کا مطلق خیال نہیں ہے۔ (کشف الغمہ) دربار کی تمام مصیبتوں کو جھیلنے کے بعد مخدرات عصمت وطہارت داخل قید خانہ شام ہو گئیں قید خانہ ایسا جس پر کوئی چھت نہ تھی۔ جو ان عورات خاندانِ رسول کو گرمی وسردی کے شدائد سے محفوظ رکھ سکتی۔ علّامہ ابن طاؤس لکھتے ہیں کہ ان کے چہرے متغیر ہو گئے تھے (لہوف )ایک سال قید کی سختیاں جھیلنے کے بعد ان حضرات کی رہائی کا فیصلہ ہندہ کے ایک خواب کی وجہ سے ہوا سیّد سجاد(ع) نے حضرت زینب(ع) کے فرمانے کی بنا پر یزید سے ایک مکان خالی میں گریہ وماتم کے لیے کہا۔ مکان خالی کرا دیا گیا، آلِ رسول سات شبانہ روز اپنے اعزاء اقرباء کا ماتم کرتے رہے۔ یہ پہلی مجلس ماتم ہے جس کی بنیاد سر زمینِ دمشق میں ہوئی۔ پھر نعمان بن بشیر بن جرلم کے ہمراہ ان کی روانگی براہِ کربلا مدینہ کے لیے عمل میں آئی امام حسین(ع) کا یہ لُٹا ہوا قافلہ ۲۰ صفر ۶۲ ھء (یومِ چہلم) واردِ کربلا ہوا۔ جابر بن عبداللہ انصاری جو امام حسین(ع) کے پہلے زائر ہیں۔ کربلا پہنچ چکے تھے، وہاں پہنچ کر مخدرات عصمت وطہارت نے تین شبانہ روز نوحہ و ماتم کیا پھر وہاں سے مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے ایک روایت میں ہے کہ حضرت زینب(ع) قبرِ امام حسین(ع) چھوڑنے پر آمادہ نہ تھیں لیکن امام زمانہ حضرت امام زین العابدین (ع) کے حکم سے آپ کو ہمراہ جانا پڑا۔ کربلا سے روانگی کے بعد مدینہ سے پہلے ایک مقام پر حضرت زین العابدین (ع) نے قافلہ رکوایا او نعمان بن بشیر سے فرمایا کہ اندرون مدینہ ہمارے یہاں پہنچنے کی اطلاع دے دے، مدینہ میں اطلاع کا پہنچنا تھا کہ تمام اہل مدینہ سروپا برہنہ حضرت زینب(ع) کی خدمت میں پہنچ گئے۔ اس مقام پر ایسا کہرام بپا ہوا جس نے زمین و آسمان کو رُلایا۔ موٴرخین کا بیان ہے کہ حضرت اُم المومنین ام سلمہ اس عالم میں حضرت زینب کے قریب پہنچیں۔ کہ اُن کے ایک ہاتھ میں جناب فاطمہ صغری(ع)ٰ کا ہاتھ اور دوسرے ہاتھ میں وہ شیشی تھی۔ جس میں رسول کی دی ہوئی خاکِ کربلا خون ہو گئی تھی۔ امام ابواسحاق اسفرائنی لکھتے ہیں کہ جناب ام سلمہ نے مخدرات عصمت وطہارت سے ملنے کے بعد اس خون کو اپنے مُنہ پر مَل لیا اور فلک شگاف نالوں سے دل ارض وسما ہلانے لگیں۔ حضرت محمد حنفیہ(ع) ۱ کو جب اطلاع ملی دوڑ کر امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سیّد سجاد(ع) کو گلے لگا کر کہا "یابن اخی، این اخی، بن اخی" اے میرے بھتیجے میرے بھائی کہاں ہیں میرے بھائی کہاں ہیں؟ محمد حنفیہ(ع) نے جب حضرت امام زین العابدین کے پس گردن پر ہاتھ رکھا تو آپ نے فرمایا چچا جان ہاتھ ہٹا لیجئے ۔پوچھابیٹا کیوں؟ فرمایا چچا جان طوق گراں بار نے گردن زخمی کر دی ہے۔ پھر امام زین العابدین(ع) نے واقعات کربلا پر مختصر سی روشنی ڈالی۔ حضرت محمد حنفیہ(ع) نے جب یہ سُنا کہ میرا بھائی تمام اعزاء اقرباء کی شہادت کے بعد میدان میں یک وتنہا مددگاروں کو پکار رہا تھا اور کوئی مددگار تِیر وتلوار کے سوا نہ پہنچا تھا تو آپ بدحواس ہو کر زمین پر گِر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔ "فلما افاق من غثوتہ"جب آپ کو غش سے افاقہ ہوا آپ انتہائی رنج وغم کی حالت میں اُٹھ کھڑے ہوئے آپ نے زرّہ راست کی، تلوار لگائی اور اپنے بال بچوں میں جانے کے بجائے ایک طرف کو جا کر اس وقت تک روپوش ہو گئے جب تک حضرت مختار علیہ الرحمہ نے خروج نہیں کیا،
روایت کے عیون الفاظ یہ ہیں۔ وما طھرالا فی وقت ظھر المختار جب تک حضرت مختار نے خروج وظہور نہیں کیا آپ ظاہر نہیں ہوئے۔ (مآئتیں جلد ۱ ص ۷۸۲۔ ۸۰۲ رو ضۃ الشہداء۔ ابولفدا نورالعین ص ۱۰۸۔ ناسخ التواریخ جلد ۶ ص ۳۷۴۔ ریاض القدس جلد ۱ ص ۱۵۸) ذکر العباس ص ۲۹۶ میں ہے کہ مدینہ منورہ میں مخدرات عصمت کی رسیدگی کے بعد مجلس غم کا سلسلہ شروع ہوا سب سے پہلی مجلس جناب ام البنین (ع)اور حضرت عباس(ع) کے گھر منعقد کی گئی پھر دوسری مجلس امام حسن(ع) کے گھر منعقد کی گئی۔ پھر حضرت محمد حنفیہ(ع) کے گھر مجلس منعقد ہوئی۔ پھر روضہٴ رسول پر منعقد کی گئی جو نوحہ پڑھا گیا اس کا پہلا شعر یہ ہے اَلا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ خَیْرَ مُرْسَلِ حُسَیْنُکَ مَقْتُولْ وَنَسْلَکَ ضَائِعْ (ترجمہ) اے پیغمبر اسلام، اے اللہ کے رسول اے بہترین مرسل۔ آپ کے فرزند حسین(ع) کربلا میں قتل کر دئیے گئے اور آپ کی نسل ضائع وبرباد کی گئی۔ پیغمبر اسلام کے روضہ پر نوحہ وماتم کرنے کے بعد سارا مجمع حضرت فاطمہ(ع) اور امام حسن(ع) کے روضہٴ انوار پر آیا۔ اور تادیر نوحہ وماتم کرتا رہا۔ ابن متوج کہتے ہیں کہ اس وقت جو نوحہ پڑھا گیا اس کے پہلے شعر کا ترجمہ یہ ہے: اے لوگو! نوحہ کرو اور رووٴ اس قتیل عطش پر جو کربلا میں تین دن کا بھوکا پیاسا (مع اعزا وقربا) شہید کر دیا گیا۔ (ریاض القدس جلد ۱ ص ۲۴۶) علّامہ محمد مہدی بہاری لکھتے ہیں کہ راوی کہتا ہے کہ محمد بن حنفیہ(ع) اپنے گھر میں بیمار پڑے ہوئے تھے۔ ان کو اس سانحہ کی کوئی خبر نہ تھی۔ جب یہ رونے پیٹنے کی آواز سُنی بہت گھبرائے کہنے لگے۔ یہ کیا ماجرا ہے ایسا تلاطم تو جب ہی ہوا تھا جس روز رسول خدا نے انتقال کیا تھا کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس خیال سے کہ بیماری کی وجہ سے نہایت لاغر وضیعف و کمزور و نحیف ہو گئے ہیں ایسی خبر جان گذا سُن کر کہیں انتقال نہ کر جائیں۔
جب انہوں نے اصرار کیا تو ان کے غلام نے بڑھ کر کہا کہ فِدا ہوں آپ پر یابن امیرالمومنین (ع)واقعہ یہ ہے کہ آپ کے بھائی حسین(ع) کو اہل کوفہ نے بُلایا تھا۔ مگر ان لوگوں نے بے وفائی کی اور مکر سے ان کے بھائی مسلم بن عقیل کو قتل کر دیا۔ ناچار وہ حضرت اپنے اہل وعیال اصحاب وانصار کے ساتھ یہاں صحیح وسالم واپس آئے ہوئے ہیں۔ محمد بن حنفیہ(ع) نے غلام سے فرمایا پھر بھائی حسین(ع) ہم کو دیکھنے کیوں نہیں آئے؟ اس نے کہا ان کو آپ کا انتظار ہے کہ آپ ہی وہاں جائیے یہ سُنتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے چلے بھائی کی ملاقات کو۔ ضعف سے کبھی کھڑے ہوتے تھے کبھی گِر پڑتے تھے۔ جب باہر آئے سامان دگرگوں دیکھا، دل دھڑکنے لگا۔ فرمایا: این اخی این اخی ثمرة فوادی این الحسین لوگو! برائے خدا جلد بتاؤ، میرے بھائی میرے میوہٴ دل میرے حسین کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا، اے آقا! بھائی آپ کے فلاں مقام پر ہیں، آخر لوگون نے ان کو گھوڑے پر بٹھا دیا۔ لباس درست کر دئیے سب غلام اُن کے ساتھ ساتھ تھے یہاں تک کہ مدینہ کے باہر پہنچے تو کچھ سیاہ عَلَم دکھائی دئیے کہنے لگے کہ میرے بھائی کا عَلم تو سبز تھا یہ سیاہ عَلم کیسے ہیں واللّٰہ قتل الحسین بنوامیہ خدا کی قسم بنی اُمیہ نے حسین قتل کر ڈالا۔یہ کہہ کر ایک چیخ ماری اور گھوڑے سے زمین پر گِر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔ خادم دوڑتا ہوا امام زین العابدین(ع) کے پاس گیا اور کہا "یا مولای ادرک عمک قبل ان یقارت روحہ الدنیا" اے آقاجلد اپنے چچا کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ ان کی روح دنیا سے انتقال کر جائے۔ یہ سُنتے ہی بیمارِ کربلا چلے، روتے جاتے تھے۔ دست مبارک میں سیاہ رومال تھا۔ اس سے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ جب پہنچے اپنے چچا کے سر کو گود میں رکھ لیا۔ جب ہوش میں آئے بھتیجے کو دیکھ کر پوچھا، بیٹا یہ تو بتاؤ کہ میرے بھائی میرے نوربصر ، تمہارے باپ ، میرے والد کے جانشین کہاں ہیں؟ فرمایا چچا کیا پوچھتے ہو حال اپنے بھائی کا ظالموں نے اُن کو قتل کیا۔ سب کے سب مارے گئے ہمارے ساتھ فقط عورتیں بے والی و وارث، بے حامی ومددگار روتی پیٹتی آئی ہیں، اے چچا! کیا حال ہوتا آپ کا اگر دیکھتے کہ وہ جناب ایک ایک سے پناہ مانگتے تھے مگر کوئی پناہ نہ دیتا تھا ایک ایک سے پانی مانگتے تھے۔ مگر کوئی پانی نہ دیتا تھا۔ حالانکہ جانور تک پیتے تھے۔ مگر حسین(ع) کو بھوکا پیاسا قتل کیا سُنتے ہی محمد حنفیہ(ع) نے چیخ ماری اور پھر بے ہوش ہو گئے جب ہوش میں آئے کہا بیٹا، کچھ اور بیان کرو کہ کیا کیا مصیبتیں تم لوگوں پر گزریں۔ سیّد سجاد بیان کرتے جاتے تھے اور دونون آنکھوں سے مثل پرنالے کے آنسو جاری تھے۔ دست مبارک میں رومال تھا اس سے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ کہاں تک مصیبتوں کو بیان کرتے۔ کہتے کہتے تھک گئے اتنے میں مدینہ کی عورتیں بھی پہنچ گئیں۔ جب زنانِ اہل بیت(ع) سے ملیں تو کہرام مچا ہوا تھا ۔ماتم کرتی تھیں۔ مُنہ پر طمانچے مارتی تھیں کہ اگر پتھر ہوتا تو وہ بھی غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ (الواعج الاحوال جلد ۲ ص ۳۶۲ طبع دہلی) علامہ کنتوری لکھتے ہیں کہ مدینہ میں نوحہ وماتم کا سلسلہ پندرہ شبانہ روز تک مسلسل جاری رہا۔ (مائتین ص ۷۹۹۔ مقتل ابی مخنف ص ۴۸۰) ایک روایت میں ہے کہ اس دوران میں کسی کے گھر میں آگ نہیں سلگائی گئی۔ علماء کا اتفاق ہے کہ رسول کریم کی مخدرات عصمت وطہارت نے غم کے لباس اس وقت تک تبدیل نہیں کیے جب تک حضرت مختار کے ہاتھوں قتل ہو کر ابن زیاد اور عمر سعد کا سر حضرت امام زین العابدین کی خدمت میں نہیں پہنچ گیا۔ یعنی عورات بنی ہاشم نے ۶۲ھء سے ۶۷ھء تک لباس غم نہیں اُتارا۔ اور اپنے سروں میں تیل نہیں ڈالا… اپنی آنکھوں میں سُرمہ نہیں لگایا۔ جب ۹ ربیع الاوّل ۶۷ھء کو یہ سر مدینہ پہنچے ہیں۔ تو بحکم امام (ع) مخدرات عصمت وطہارت نے غم کے لباس اُتارے۔ اور فی الجملہ خوشی منائی۔ (مجالس المومنین ص۳۵۶۔ اصدق الاخبار ص۹۔ ذوب النضار ابن نما ۴۱۵۔ اخذالثار ابومخنف ص ۴۹۶۔ رجال کشی ص ۸۵)۔

گیارھواں باب
زندانِ کوفہ میں حضرت مختار کی حالتِ زار حضرت میثم تمّار سے ملاقات
زندانِ کوفہ میں حضرت مختار کی حالتِ زار حضرت میثم تمّار سے ملاقات اور مُعلّم کوفہ عمیر بن عامر ہمدانی کا واقعہ اور حضرت مختار کی رہائی حضرت مختار محبت آلِ محمد کے جرم میں قیدخانہ کوفہ کی سختیاں نہایت دلیری کے ساتھ جھیل رہے ہیں۔ مختار کو اس دن کے بعد سے جس دن اہلِ حرم دربار کوفہ میں تھے اور مختار کو بلایا گیا تھا پھر مختار کو روشنی دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ انہیں ایسے قید خانہ میں محبوس کیا گیا تھا جو خاص شیعیانِ علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کے لیے خصوصیت کے ساتھ تعمیر ہوا تھا ۔وہ ایسا قید خانہ تھا جس میں نہ دھوپ کی روشنی پہنچتی تھی اور نہ ٹھیک طریقے پر اس میں ہوا کا گذر ہو سکتا تھا۔ وہ قید خانہ جس میں لوہے کے در لگے ہوئے تھے۔ اور جس کے قُفل پر ابن زیاد کی مہر لگی ہوئی تھی۔ اور اس کی تاریکی اور گہرائی کے لیے موٴرخین لکھتے ہیں کہ سطح زمین سے ایک روایت کی بنا پر پچاس ہاتھ نیچے اور ایک روایت کی بنا پر پچیس ہاتھ نیچے تھا۔ اس میں داخلہ کے وقت پچاس یا بیس سیڑھیاں طے کرنا پڑتی تھیں۔ اس قید خانہ میں کوئی ایک دوسرے کو پہچان نہ سکتا تھا اس قید خانہ میں عرصہ ٴدرازسے چار ہزار پانچ سو محبان امیرالمومنین(ع) مقید تھے۔ جن میں حضرت میثم تمّار بھی تھے۔ حضرت مسلم نے دورانِ قیامِ کوفہ میں بھی طے کیا تھا کہ ایک ذرا غلبہ نصیب ہوتے ہی سب سے پہلے ان لوگوں کو رہا کرانا ہے۔ (نورالابصار ص ۵۶)
حضرت مختار اسی شدید ترین قیدخانہ میں محبوس کیے گئے تھے۔ اور اُن کے ساتھ ایک خاص ظلم یہ تھا کہ ان کے ہاتھ پشت کی جانب سے بندھے ہونے تھے اور سارا جسم زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا گلے میں طوق گرا نبار اور پیروں میں سخت قسم کی بیڑیاں تھیں ۔ حضرت مختار کی حالت یہ تھی کہ انہیں گردن پھرانے کا بھی امکان نہ تھا ۔مزید برآں یہ کہ ان کو قید خانے کے آخری کونے میں ڈالا گیا تھا۔ (اخذ الثار وانتصار المختار ابی مخنف ص 480ضمیمہ بحار طبع ایران) حضرت مختار کے ہمراہ عبداللہ ابن حارث بن عبدالمطلب بھی تھے۔قید خانے میں پہنچ کر بہت دنوں تک حضرت مختار کے قید خانہ میں ہو نے سے اہلِ قید خانہ بے خبرتھے۔ ایک دن نہ جانے کس طرح حضر ت میثم تمار نے محسوس کر لیا کہ مختا ر ابن ابی عبیدہ ثقفی بھی اسی قید خانہ میں ہیں۔ بالا خر دونوں میں ملا قات ہوگئی اور ایک ہی جر م کے مجرم میثم تمار ومختارآپس میں ہمکلام ہوے۔ گفتگوہوتے ہوتے یہ بات بھی ہوئی کہ اب آئندہ کیا ہونا ہے ۔عبد اللہ ابن حارث نے کہاکہ میں تو انپے جسم کے بال صاف کر نا چاہتا ہوں۔ کیونکہ عنقریب مجھے پھانسی دی جائے گی ۔ حضرت مختار نے کہا کہ تم اس کا خیال بھی نہ کرو ابن زیاد نہ مجھے پھانسی دے سکتا ہے اور نہ تمہیں سپرد دار کرسکتا ہے عنقریب تم رہا ہوکر بصرہ کے حاکم بنوگے یہ سن کر حضرت میثم تمار نے فرمایا اے مختار ! تم واقعاً قتل نہ ہوگے اور ضرور رہا کیے جاؤ گے کیونکہ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا تمہیں نے واقعہ کربلا کا بدلا لینا ہے تم قید سے ضرور چھوٹو گے اور بے شمار دشمنان آل محمد کو قتل کروگے۔( دمعۃ ساکبہ ص 405) حجۃ الاسلام علامہ محمد ابراہیم تحریر فرماتے ہیں کہ مختار کی غذا قطر ان قرار دی گئی جو سیاہ رنگ کی چیز ہوتی ہے خارشتی ناقہ کے پشت پر ملی جاتی ہے جس کی شدید حرارت سے جگر شق ہوتا ہے اور آنکھوں سے پانی جاری رہتا ہے ۔ (نورالابصار ص 27) بہرحال حضرت مختار قید خانہ کی سختیاں جھیل ہی رہے تھے کہ دفعة ایک دن عمر بن عامر ہمدانی کا قید خانہ میں داخلہ ہوا انہیں چونکہ اسی قید خانہ میں مختار کے مقید ہونے کی خبر تھی لہٰذا انہوں نے داخل قید خانہ ہوکر حضرت مختار کو تلاش کیا اور ان کے قریب جاکر انہیں سلام کیا حضرت مختار نے سراٹھا کر عمر بن عامر کو دیکھنے کی سعی کی مگر گردن نہ اٹھ سکی پوچھا تم کون ہو کہا میں عامر بن ہمدانی ہوں پوچھا کس جرم میں یہاں لائے گئے ہو ۔عرض کی محبت آل محمد کے جرم میں اس کے بعد انہوں نے اپنے اوپر گزرے ہوئے واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا۔

معلم کوفہ عمیر بن عامر ہمدانی کی سرگذشت
معلم کوفہ عمیر بن عامر ہمدانی کی سرگذشت حضرت امام عبداللہ ابن محمد اپنی کتاب قرة العین فی اخذ ثار الحسین ص 120 طبع بمبئی 1292ء میں اور علامہ عطاالدین حسام الواعظ اپنی کتاب ،رو ضۃ المجاہد ین ص63 میں اور موٴرخ اعظم ابو مخنف لو ط بن یحییٰ ازدی ، اپنی کتاب اخذالثار وانتصاالمختار علی الطغاة الفجار ضمیمہ بحار جلد 10 ص 480 طبع ایران میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسین (ع) جب درجہ شہادت پر فائز ہوچکے اور بنی امیہ کا اقتدار بلند ہوچکا اور شیعیان علی بن ابی طالب ابن زیاد کے ظلم و جورکی فراوانی کی وجہ سے شرق و غرب عالم میں منتشر ہو چکے تو ابن زیاد بدنہاد نے کوفہ و بصرہ میں اعلان عام کرادیا کہ جو علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد کو خیر کے ساتھ یاد کرے گا۔ اسے قتل کردیا جائے گا۔ اسی دوران میں یہ واقعہ ہوا کہ کوفہ کے ایک معلم عمر بن عامر ہمدانی جو آل محمد کے شیعوں میں سے تھے۔ اور مخفی طور پر اپنے ایمان کو چھپائے زندگی کے دن گزار رہے تھے اور اپنے دل میں دعائیں کرتے تھے ۔ خدایا مجھے ایسے شخص کی امداد کا موقع عنایت فرما جو قاتلان حسین (ع) کو قتل کرنے والا ہو شب دروز یہی دعائیں کرتے تھے اور قید خانہ میں مختا رپر جو گزر رہی تھی ۔ اس سے بڑے دل تنگ تھے لیکن کچھ نہ کرسکتے تھے یہ معلم نہایت متقی اور پرہیز گار شخص تھے۔ اور بے انتہازیرک اور ہوش مند اتفاقاً ایسے وقت میں جب کہ آپ مشغول تدریس تھے اور کوفہ کے تمام بڑے بڑے لوگوں کے لڑکے زیر درس تھے ایک شخص سے پانی طلب کیا اس نے ٹھنڈے پانی کا جام حاضر عمر بن عامر کیا آپ نے جو نہی اسے نوش کیا ۔ واقعہ کربلا کا نقشہ نگاہوں میں پھر گیا اور بے ساختہ منہ سے یہ نکل گیا کہ خدایا امام حسین (ع) کے قاتلوں اور ان پر پانی بند کرنے والوں پر لعنت کر اس کے بعد کوزہ واپس کردیا اور ایک درہم پانی پلانے والے کو بھی دیا وہ تو چلا گیا لیکن معلم سے ضبط گریہ نہ ہوسکا ۔ وہ بآواز بلند رونے لگا۔ معلم کے پاس جو بچے زیر تعلیم تھے اور اس وقت حاضر تھے ان میں سنان بن انس نخعی کا فرزند بھی تھا اس نے جب معلم سے قاتلان حسین پر لعنت کرتے سنا تو اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ تو مجھے اور میرے والد کو نہیں جانتا کہ ہم لوگ کون ہیں تو نے اتنی بڑی جسارت کی کہ ہمارے سامنے حسین کے قاتلوں پر لعنت کردی کیا تجھے نہیں معلوم کہ حسین (ع) کا قاتل ابن زیاد اس وقت حاکم کوفہ ہے جس نے عمر سعد کی کمان میں امام حسین (ع) کو بحکم یزید قتل کرایا ہے
اور قتل کے بعد میرے باپ سنان ابن انس نے ان کاسرنیزے پر بلند کیا تھا اب تیری اتنی مجال ہوگئی کہ تو ہمارے سامنے ان لوگوں پر لعنت کرے ۔
اور انہیں گالیاں دے سن میں اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتا یہ سننا تھا کہ معلم عمر بن عامر کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اس کے ہاتھ سے طوطے اُڑ گئے ہکا بکا ، حیران کھڑا فرزند سنان بن انس کا منہ تکنے لگا۔ تھوڑ ی دیر کے بعد حواس بجا ہوئے تو اس سے کہا کہ بیٹے میں نے جوکچھ ہے اور تو سمجھا کچھ ہے ، تیرا جو خیال ہے وہ میرا منشا نہیں ہے۔ میں نے تو کسی پر لعنت نہیں کی نہ جانے میں نے کیا کہا اور تو نے کیا سنا۔ غرضیکہ معلم نے ابن سنان بن انس کو نہایت نرمی اور شفقت سے سمجھا بجھا دیااور اس سے خواہش کی کہ ان باتوں کا کسی سے تذکرہ نہ کرنا۔ اس لڑکے نے فی الحال معلم کے کہنے سے خاموشی اختیار کرلی مگر چونکہ نسل میں کھوٹ تھا اس لیے وہ اسے بالکلیہ فراموش نہ کرسکا اسے جب یقین ہوگیا کہ معلم کے ذہن سے اب واقعہ محو ہوگیا ہوگا تو ایک عرصہ کے بعد ایک خرابہ (کھنڈر) میں گیا جو مکتب کے قریب ہی تھا۔ اس میں پہنچ کر اس نے یہ حرکت کی کہ سب سے پہلے اپنے کپڑے پھار ڈالے اور صافہ کے شملہ میں ایک پتھر باندھ لیا ۔
پھر اس پتھر سے اپنے سراور جسم کو اس درجہ زخمی کیا کہ لہولہان ہوگیا جب جسم کے مختلف اطراف سے خون بہنے لگا تو روتا پیٹتا دارالامارہ میں گیا جہاں اس کا باپ کرسی اقتدار پر بیٹھا تھا ۔ باپ نے اسے دیکھا گھبرا کر پوچھا خیر تو ہے اس نے کہا خیر کیا ہے ،
واقعہ یہ ہوا کہ معلم عمیر بن عامر ہمدانی نے پانی پی کر قاتلان حسین (ع) پر لعنت کی اور ان لوگوں پر بھی لعنت کی جن لوگوں نے ان پر پانی بند کیا تھا اور جنہوں نے ان کا حق غصب کیا ہے یہ سن کر میں نے اس سے کہا کہ تو جو کچھ کہہ رہا ہے اسے سمجھ کرکہتا ہے یا یونہی بول رہاہے اس نے جواب دیا میں بہت سمجھ کر کہہ رہا ہوں اور اب سن لے ، خدا لعنت کرے ۔ یزید ابن زید ، سنان پر اور تجھ پر ، میں نے کہا کہ اے شیخ کیا یزید سے زیادہ حسین مستحق خلافت ہے جو تو ایسی باتیں کرتا ہے۔ اس نے مجھے اس کے جواب میں گردن سے پکڑلیا اور مجھے گھیسٹ کر ایک تاریک کمرہ میں لے گیا اور مجھے رسی سے بہت مستحکم طریقہ پر باندھ دیا اس کے بعد مجھے مارنا شروع کیا اور اس درجہ مارا کہ میں مرنے کے قریب پہنچ گیا ۔ دفعة رسی ٹوٹ گئی اور میں جان بچا کر بھاگ نکلا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر رسی نہ ٹوٹتی تو میں آج قتل کردیا جاتا یہ سننا تھا کہ سنان بن انس آگ بگولا ہوگیا اور حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کے حق میں اول فول بکنے لگا ۔ پھر نہایت غصہ کے عالم میں ابن زیاد کے پاس پہنچا اور اپنے لڑکے کو ہمراہ لے جاکر اس کے سامنے اس کی پیٹھ کھولی اور سارے زخم اسے دکھلائے اور اس نے کہا کہ اے امیر عمیر ابن عامر نے میرے لڑکے پر بڑا ظلم کیا ہے ۔ اس نے پوچھا کیا ہوا اس نے کہا کہ عمیر بن عامر نے پانی پی کر قاتلان حسین پر لعنت بھیجی اور اس کے اس فعل پر میرے لڑکے نے ٹوکا تو اس نے اس کا یہ حال بنا دیا ۔ یہ سننا تھا کہ ابن زیاد کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس نے دربان سے کہا کہ عمیر کو اس کے گھر سے پکڑ کر میرے پاس حاضر کر اور اگر اس کے لانے میں کوئی مزاحمت کرے تو اسے قتل کردے اور اس کا گھر پھونک دے۔ حکم ابن زیاد پاتے ہی دربان ،عمیر بن عامر کی تلاش میں نکل پڑا اور اس کے گھر جا کر اس کو وہ جس حال میں تھا گرفتار کرلیا اس کے گلے میں عمامہ کا پٹہ ڈال کر گھسیٹتے ہوئے ابن زیاد کی خدمت میں حاضر کیا، تو ابن زیاد نے کہا کہ اے عمیر خدا تجھے غارت کرے تو نے ہی قاتلان حسین (ع) پر لعنت کی ہے اور تو ہی حسین کا مداح ہے یہ کہہ کر ابن زیاد نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے مارو، چنانچہ سب نے مل کر اس کاحلیہ بگاڑ دیا ۔ اس کے منہ کے سارے دانت توڑ دئیے۔ جب کافی مار پڑگی تو عمیر نے اپنی خطادریافت کی کہا گیا کہ خطا کیا پوچھتا ہے تو نے قاتلان حسین پر لعنت کی ہے اس کی تجھے سزا مل رہی ہے۔ عمیر بن عامر نے جب اپنی خطا سنی تو کہا خدا کی قسم میں نے کچھ نہیں کہا اور اس لڑکے کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ خدا کی قسم اس نے مجھ پر افترا کیا اور بہتان باندھا ہے ۔ حضور میرے امر میں جلدی نہ کریں اور کسی کے قول کو باور نہ فرمائیں ۔ میں نے کچھ نہیں کہا۔ سنئے اگر ایک شخص بھی اس امر کی گواہی دے دے کہ میں نے کچھ کہا یا کچھ کیا ہے تو میری جان اور میرا مال تیرے لئے حلال ہے یہ سن کر ابن زیاد کا غصہ قدرے فرد ہوگیا لیکن حکم دے دیا کہ اسے قید کردیا جائے۔
حکم ابن زیاد پاتے ہی کارندوں نے اسے اسی قید خانہ میں پہنچا دیا جو شیعیان علی بن ابی طالب کیلئے بنایا گیا تھا ۔ معلم عمیر بن عامر ہمدانی کا بیان ہے کہ حکم ابن زیاد پانے کے بعد مجھے ایسے قید خانے میں لے گئے جو زمین کے اندر تھا اور اس پر قُفْل لگے ہوئے تھے اور نگہبان مقررومعین تھے وہ قید خانہ اتنا تاریک تھا کہ رات اور دن میں کوئی فرق نہ تھا میں ایسا سمجھ رہا تھا کہ جیسے مجھے تحت الثری میں پہنچا دیا ہے ۔ اس قید خانے میں سطح زمین سے نیچے کیطرف پچاس زینے تھے ۔ جب میں آخری زینے پر پہنچا تو مجھے بالکل ہی کچھ بھی دکھائی نہ دیا اور سوا لوگوں کی آوازوں کے جو چیخ و پکار اور فریاد کررہے تھے اور کچھ سنائی نہ دیتا تھا میں سخت حیرانی کی حالت میں اس میں دن گزارنے لگا۔ ایک دن میں نے محسوس کیا کہ قید خانہ کے آخری گوشہ سے آواز آرہی ہے اور زنجیریں ہل رہی ہیں میں نے قریب جاکر ایک ایسے شخص کا ادر اک کیا جس کے دونوں پیروں میں بڑی بڑی بیڑیاں پڑی ہیں اور اس کے دونوں ہاتھ پس گردن سے بندھے ہیں اور زنجیروں میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ دائیں بائیں ہل نہیں سکتا اور نہ زمین پر آسانی سے لیٹ سکتا ہے ۔
اس شخص کے چہرہ پر ایک زخم ہے جس سے مواد جاری ہے ، میں نے اس سے زیادہ سختی میں کسی ایک کا بھی ادراک نہیں کیا۔ میں نے اسے اس حال میں دیکھ کر اس پر سلام کیا اس نے جواب سلام دیا اور سراٹھا کر میری طرف دیکھا اس کے بعد آہ سرد کھینچ کر میری طرف متوجہ ہوا ۔
میں نے نہایت قریب سے دیکھا کہ اس کے سر کے بال آنکھوں کو بندکیے ہوئے ہیں ۔ اس کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ میں نے پوچھا کہ اے شخص تو نے کون سی خطا کی ہے جس کی تجھے اتنی سخت سزادی گئی ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھ سے زیادہ سختی میں کوئی اور قیدی نہیں ہے ۔ اس نے جواب دیا خدا کی قسم محبت آل محمد کے سوا میرا کوئی گناہ نہیں ہے میں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے اس نے کہا مجھے مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کہتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ میں ان کے قدموں پر گر پڑا اور ان کے پیروں کا بوسہ دینے لگا ۔ یہ دیکھ کر مختار نے مجھے دعائیں دیں اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے میں نے کہا عمیر بن عامر ہمدانی معلم اطفال کوفہ۔ حضرت مختار نے کہا کہ سبحان اللہ ! یہ کیا بات ہے کہ تم تو ان کے بچوں کو تعلیم دیتے ہوں پھر ایسے سخت قید خانے میں کیسے آگئے۔ یہ ایسے لوگوں کی جگہ ہے جو آل محمد کے دوست دار ہوں اور بنی امیہ کو ان سے خدشہ ہوکہ کہیں ان کی حکومت کا تختہ نہ پلٹ دیں۔ اور خون حسین (ع) کا بدلہ لینے پر آمادہ نہ ہوجائیں۔ معلم کوفہ کا بیان ہے کہ میں کئی روزتک ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور بات چیت کرتا رہا یہاں تک کہ ایک دن انہوں نے فرمایا کہ اے عمیر ہمدانی تم عنقریب قید سے رہا ہوجاؤ گے ابومخنف کا بیان ہے کہ حضرت مختار کا یہ فرمانا بالکل درست ثابت ہوا کیونکہ اس ارشاد کے چند ہی دنوں کے بعد معلم رہا ہوگیا اس کی رہائی کے متعلق مرقوم ہے کہ معلم کی گرفتاری کے بعد اس کے وہ بھتیجی جو کہ ابن زیاد کی لڑکی کی دا یہ تھی جس کا نام "بستان" تھا ۔ اسے جب اطلاع ملی کہ میرا چچا گرفتار ہوگیا ہے تو اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور بال بکھیرلیے اور اسی حالت میں ابن زاد کی لڑکی کے پاس گئی ابن زیاد اس لڑکی کو دل و جان سے چاہتا تھا ۔ اس نے جب اپنی دایہ کو اس حال میں دیکھا تو کہا خیر تو ہے تو نے یہ کیا حالت بنائی ہے اس نے جواب دیا اے میری مالکہ میرے چچا عمیر بن عامر ہمدانی پر کسی بچے نے بہتان لگا کر امیر سے شکایت کردی ہے اور امیر نے اسے گرفتار کرادیا ہے۔ حالانکہ وہ معلم ہونے کی حیثیت سے ہر ایک کا خادم ہے اور اس کا سب پر حق ہے اسے میری مالکہ اس کو جس طرح قید میں رکھا ہے اگر اسی طرح وہ مقید رہا تو بہت جلد مرجائے گا میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ آپ میری خدمت کا لحاظ کرکے اپنے والد سے سفارش کردیجئے ۔ اور میرے چچا کو رہا کرادیجئے۔ ابن زیاد کی لڑکی نے کہا کہ گھبراؤ مت میں بڑی خوشی سے سفارش کروں گی اور اسے رہا کرا چھوڑوں گی ۔ یہ کہہ کر وہ اسی وقت اٹھی اور اپنے باپ کے پاس گئی اور اس سے کہنے لگی۔ بابا جان میری دایہ کا چچا عمیر بن عامر ہمدانی ایک مرد ضعیف اور کبیر السن ہے جو معلم کو فہ ہے جس کے پاس کوفہ کے تمام بچے پڑھتے رہے ہیں ،
اس کے خلاف کسی بچے نے افتراپردازی کرکے اسے گرفتار کرادیا ہے اور آپ نے اس پر عاید کردہ الزام کو درست تسلیم کرلیا ہے بابا اس کے تمام اہل کوفہ پر بڑے حقوق ہیں ۔ اگر اسے قید میں مزید رکھا گیا تو وہ اپنی کمزوری اور بڑھاپے کی وجہ سے ہلاک ہوجائے گا۔ بابا جان میں چاہتی ہوں کہ آپ اسے میرے حوالے کردیجئے اور اس کو مجھے بخش دیجئے اور جلد سے جلد اسے رہا کردیجئے۔ ابن زیاد نے اپنی لڑکی کی گفتگو سن کر کہہ دیا کہ جا۔ میں نے اُسے رہا کردیا ، لڑکی اٹھ کر چلی گئی اور اس نے داروغہ محبس کو بلوا کر حکم دے دیا کہ عمیر بن عامر ہمدانی کو رہا کردو، چنانچہ اس نے زندان بان کو حکم دے دیا اور وہ قید خانہ میں جاکر قفل کھولنے لگا قفل کھلنے کی جیسے آواز آئی۔ حضرت مختار نے عمیر سے کہا کہ درزنداں تیری رہائی کیلئے کھل رہا ہے ۔ یہ سن کر معلم اٹھ کھڑا ہوا اور فوراًدوڑ کر حضرت مختار کے گلے لگ گیا اور کہنے لگا اے میرے مولا! خدا ایسے گھر میں پھر کبھی نہ لائے لیکن آپ کی جدائی مجھے بہت شاق ہے ۔ دل یہی چاہتا ہے کہ آپ کا ساتھ نہ چھوٹے ۔ حضرت مختار نے فرمایا اے عمیر خدا تم کو جزائے خیر دے سنو! مجھے تم سے ایک حاجت ہے اگر تم اسے پوری کردوگے تو میں تم کو اس کے جزادوں گا اور اگر مجھ سے جزا دینا ممکن نہ ہوسکا تو خدا و رسول (ص) جزائے خیردیں گے ۔ معلم عمیر بن عامر ہمدانی نے دست بستہ عرض کی مولا ،فرمائے ، زہے نصیب کہ مجھے آپ کے ارشاد کی تعمیل کا موقع مل سکے ۔ میں ضرور آپ کے ارشاد کی تعمیل کروں گا۔ حضرت مختار نے فرمایا کہ اے عمیر اگر تم بخیریت اپنی جگہ پہنچ جانا تو میرے لیے کسی صورت سے ایک تھوڑا سا کاغذ، ایک قلم اور دوات فراہم کرکے میرے پاس بھیجنے کی سعی کرنا ، معلم نے کہا ۔ حضور بسروچشم اس کی سعی بلیغ کروں گا۔ابھی ان دونوں میں بات چیت ہورہی تھی کہ قید خانہ کا دروازہ کھل گیا اور دربان نے آکر آواز دی کہ اے معلم عمیر بن عامر ہمدانی ، امیر ابن زیاد تم سے راضی ہوگیاہے اور اس نے تمہاری رہائی کا حکم دے دیا ہے ۔ معلم یہ سن کر اٹھ کھڑا ہو ااور دوڑ کر حضرت مختار کے گلے لگ کر نہایت بدحواسی سے رونے لگا۔ اس کے بعد ان سے رخصت ہوکر زندان بان کے ہمراہ روانہ ہوگیا قید خانہ سے نکل کر معلم، امیرابن زیاد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابن زیاد کی نظر جو نہی معلم پر پڑی کہنے لگا کہ اے معلم !میں نے اپنی لڑکی کے کہنے سے تیرا گناہ معاف کردیا ہے۔ دیکھ اب آئندہ ایسا جرم عظیم (لعنت برقاتلان حسین(ع)) نہ کرنا۔ معلم نے کہا کہ حضور میں بارگاہ خداوندی میں توبہ کرتا ہوں کہ اب کبھی بچوں کو تعلیم نہ دوں گا۔ اور اب کسی مکتب اور مدرسہ میں برائے تدریس نہ بیٹھوں گا ۔
ابن زیاد نے کہا اچھا جاؤ میں نے تم کو رہا کر دیا ہے معلم ابن زیاد کو سلام کرکے وہاں سے روانہ ہوگیا۔

قید خانہ میں حضرت مختار کو قلم و دوات پہنچانے کی سعی
معلم عمیر بن عامرہمدانی قید خانہ سے چھوٹنے کے بعد اپنے گھر پہنچے انہوں نے محض اس خیال سے کہیں راز فاش نہ ہوجائے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ بروایت اس نے کہا کہ اگر تم چاہو طلاق لے لو اور چاہو تو میرے ساتھ رہو لیکن میرے راز کی حفاظت کرو بروایت ابواسحاق اسفرائنی معلم نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کا مہر ادا کردیا۔ اور اس کو اس کے باپ کے گھر بھیج دیا ۔ اور خود ارشاد مختار کی تعمیل کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوگئے ایک روایت میں ہے کہ بیوی نے طلاق لینی پسند نہیں کی اور وہ عمیر کے پاس ہی رہی اس کے بعد عمیر نے پانچ سواشرفی ایک رومال میں باندھی اور اسی رومال کے دوسرے گوشہ میں ایک ہزار درہم باندھا اور ایک موٹا گوسفند بھنوایا اور بہت سی روٹیاں پکوائیں اور بہت سی مٹھائی منگوائی اور بہت کافی فروٹ منگوایا اور جب رات کی تاریکی چھا گئی تو اسے اپنے سر پر اٹھا کر خودلے جاکر زندان بان کے مکان پر پہنچے ۔ عمیر اگرچہ بہت مالدار اور کوفہ کے نمایاں افراد میں سے تھے ، لیکن اپنی پوزیشن کا خیال کیے بغیر سب کچھ اپنے سر پر اس لیے لادکر لے گئے کہ کسی کو راز معلوم نہ ہوسکے۔ زنداں بان کے دروازے کو کھٹکھٹایا تو اس کی بیوی نے کہا کہ وہ کہیں باہر گیا ہوا ہے عمیر نے سارا سامان اس کی بیوی کے حوالے کردیا اور اس سے کہہ دیا کہ جب آئے تو بعد سلام میری طرف سے کہنا کہ معلم نے نذر مانی تھی آج اس نے اسے ادا کیا ہے اس لیے یہ سامان تم کو دیا گیا ہے یہ کہہ کروہ اپنے گھر واپس آیا۔ جب صبح ہوئی زنداں بان اپنی ڈیوٹی سے واپس آیا ، آکر سارا سامان دیکھ کر پوچھنے لگا کہ یہ کس نے دیا ہے ۔ زوجہ نے عمیر معلم کی ساری گفتگو دہرادی۔ زنداں بان نے کہا خدا کی قسم کوئی نذرنہ تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے ذیل میں کسی حاجت کی تکمیل چاہتا ہے ۔ زندان بان حضرت امام حسین (ع) کے دوست داران میں سے تھا اور امام حسین (ع) کے مصائب سے بے حد متاثر تھا اس کے محب آل محمد ہونے کی اطلاع عمیر کو نہ تھی۔ دوسری رات عمیر نے پھر پہلے قسم کے تحائف زنداں بان کے گھر پہنچا دئیے اور وہی پہلی بات جو نذر سے متعلق تھی۔ اسے زوجہ کے ذریعے سے کہلادیا جب صبح ہوئی اور وہ گھر پلٹ کر آیا تو زوجہ نے سب ، ماجرا اس سے بیان کیا اس نے پھر کہا کہ خدا کی قسم اس کی کوئی نذر نہیں ہے وہ ضرور کوئی حاجت رکھتا ہے ۔
زندان بان عمیر معلم کے اس ترکیب سے بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ وہ مجھے اتنی عزت دے رہا ہے کہ اگر خدا کی قسم اس کی کوئی بھی حاجت ہوئی تو میں ضرور اسے پوری کروں گا چاہے اس کی تکمیل میں ہلاک ہی کیوں نہ ہونا پڑے ۔ زنداں بان نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ حضرت مختار کی رہائی کی بھی خواہش رکھتا ہوگا تو میں یہ بھی کروں گا چاہے مجھ پر کچھ ہی کیوں نہ گزر جائے۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ آج کی شب بھی آئے گا اور سب کچھ مثل سابق لائے گا آج میں چھٹی لے کر گھر میں اس کا انتظار کروں گا ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ جب رات ہوئی اور معلم اپنے ہدایا سمیت آیا تو اس نے اٹھ کر خود دروازہ کھولا اور اس کو بڑی تعظیم کے ساتھ اچھی جگہ پر بٹھایا اور اس سے کہنے لگا کہ خدا و رسول (ص)اور علی(ع)ابن ابی طالب (ع) کی قسم اگر تو مجھ سے کوئی حاجت رکھتا ہو تو بیان کر میں بقسم کہتا ہوں کہ اگر تیری حاجت روائی میں میری جان، میرا مال، میری اولاد بھی قربان ہو جائے گی تب بھی میں اس کی تکمیل و تعمیل کروں گا۔ اور اے معلم ! سن اگر تو مختار جیسے قیدی کی بھی رہائی کا خواہش مند ہوگا تو میں وہ بھی کروں گا۔ یہ سن کر معلم کے حوصلے بلند ہو گئے اور اس کے دل کو اطمینان حاصل ہوگیا۔ معلم مطمئن ہونے کے بعد اس سے کہنے لگا کہ بات یہ ہے کہ میں نے زمانہ قید میں حضرت مختار کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ میرا دل پارہ پارہ ہے جب میں قید سے چھوٹ کر چلنے لگا تھا تو انہوں نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی کہ کسی صورت سے قلم و دوات اور کاغذ میں ان تک پہنچادوں ۔ میں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم کسی صورت سے میری یہ حاجت پوری کردو اور یہ چیزیں جو مختار کے مطلوبہ ہیں پہنچادو۔ زندان بان نے کہا کہ اگرچہ یہ نہایت سخت معاملہ ہے لیکن میں ضرور کوشش کروں گا۔ بات یہ ہے کہ قید خانہ پر چالیس افراد معین ہیں اور تیس تو ایسے ہیں جو ہر وقت میرے ساتھ لگے رہتے ہیں اور بات بات کی خبر ابن زیاد تک پہنچاتے ہیں ۔ میں ایک ترکیب بتلا تا ہوں اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ شاید خدا کامیابی عنایت فرمائے اور وہ یہ ہے کہ جب صبح ہو تو سکباج تیار کراؤ جو سرکہ زعفران اور گوشٹ سے بنتا ہے ۔ (مجمع البحرین) اور بہت سی روٹیاں خریدو۔
روٹیاں ایسی ہوں جن کے کنارے شکستہ ہوں اور بہت سا کھیرا جوزاور خرمہ جمع کرلو ، ایک کھیرے میں چھوٹا سا قلم اور بادام میں تھوڑی سی روشنائی رکھ کر ٹھیک سے بند کردو۔ اور ایک کھیرے میں کاغذ رکھ دو ۔ یہ سب سامان رکھ کر ایک مزدور پر لدوا کردرزنداں پر لے آؤ۔ جب تم میرے پاس پہنچوگے تو میں تم سے مقصد دریافت کرنے کے بعد تم کو بھی ماروں گا اور مزدور کو بھی زدوکوب کروں گا ۔ تمہارے کپڑے پھاڑوں گا اور تمہیں بُرا بھلا کہوں گا اور اتنا شور کروں گا کہ تمام لوگ جمع ہوجائیں گے اور تمہارے ساتھ ہمدردی کریں گے اور مجھ سے کہیں گے کہ کیوں غریب بوڑھے کو مارتے ہوا اور برا بھلا کہتے ہو جب ان کی ہمدردی تمہارے ساتھ بہت ہوجائے گی
اور لوگ انصاف کی خواہش کریں گے اور فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوجایں تو تم سب سے کہنا کہ یہ دربان نے جانے کیسا آدمی ہے اس کو حیا ء نہیں آتی کہ اس نے بلاجرم و خطا مجھے مارا ہے اور گالیاں دیتا ہے۔
جب لوگ واقعہ پوچھیں تو تم کہنا کہ میں جس زمانہ میں قیدتھامیں نے اس قیدخانہ میں ایک شخص کو بری طرح مقید دیکھا تھا ، میں نے اس سے اپنی رہائی کے وقت یہ دریافت کیا تھا کہ اگر کوئی حاجت باہر کے متعلق ہو تو بیان کرو۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میر اجی چاہتا ہے کہ میں مرنے سے پہلے سکباج کھیرا اور بادام جی بھر کر کھا ؤں اگر تم سے ہوسکے تو یہ چیزیں مجھے پہنچا دینا میں نے اس سے خدا کو گواہ کرکے وعدہ کیا تھا کہ اگر ممکن ہوسکا تو ضرور پہنچاؤں گا ابھی میری رہائی کا فیصلہ نہ ہونے پایا تھا اور میں اس سے بات چیت کرہی رہا تھا کہ زندان کا دروازہ کھلا اور میں رہا کردیا گیا۔ اب جب کہ میں رہا ہوکر آگیا ہوں تو چاہتا ہوں کہ خدا کو حاضر ناظرجان کر جو نذر کی ہے اور جو وعدہ کیا ہے اس سے سبکدوش ہوجاؤں۔ اور خدا سے اپنا عہد وفا کروں میں بوڑھا ہوں میری تمنا ہے کہ یہ بارلے کردنیا سے نہ جاؤں اسی لیے یہ سب چیزیں لایا ہوں اور کچھ تم لوگوں کے واسطے بھی لے آیا ہوں ۔ جب لوگ تمہاری یہ باتیں سنیں گے تو مجھ سے خواہش کریں گے کہ میں تم سے نرمی کروں تو میں ان سے اس کے جواب میں کہوں گا کہ میں اس بوڑھے پر نرمی ضرور کرتا مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں تم لوگ مجھ پر کوئی بلانہ نازل کردو مجھے اگر تمہاری طرف سے اطمینان ہو تو میں اسے اجازت دے سکتا ہوں کہ یہ چیزیں مختار تک پہنچا دے وہ لوگ مجھے جواب دیں گے کہ ہم میں کوئی چغل خوری کرنے والا نہیں ہے بے شک تم اجازت دے سکتے ہو تمہارا راز کوئی افشا نہ کرے گا۔ یہ سن کر میں تم سے کہوں گا کہ جو کچھ پہنچانا چاہتے ہو مختار کے پاس پہنچا دو پھر تم سب چیزیں ان کے پاس لے جانا وہ بہت ہوشیار شخص ہیں وہ جو چیزیں خفیہ لکھیں گے اسے میں دوسرے دن ان سے حاصل کرکے تمہارے پاس پہنچادوں گا۔ زنداں بان کی یہ بات سن کر معلم عمیر اس کے پیروں پر گرپڑا اور اس کے پاؤں کا بوسہ دینے لگا پھر وہاں سے نکل کر نہایت خوشی کے عالم میں گھرآیا اور اسی وقت سارا سامان مہیا کرکے اس کی تیاری شروع کردی ساری رات تیاری میں گزری صبح ہوتے ہی سارا سامان مزدور کے سر پر رکھ کر دروازہ قید خانہ پر پہنچا۔ زندان بان نے پوچھا کیا لائے ہو معلم نے کہا خدا تجھ پر رحم کرے بات یہ ہے کہ جب میں ایک لڑکے کے بہتان کی وجہ سے جیل میں آیا تھا تو میں نے ایک شخص کو ایسے عذاب میں دیکھا تھا جس میں کوئی دوسرا مبتلا نہ تھا میری اور اس کی محبت سی ہوگئی تھی ۔ اس نے چلتے وقت مجھے سے خواہش کی تھی کہ میں یہ سکباج وغیرہ سے پہنچانے کی کوشش کروں اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں چاہتا ہوں کہ اس نذر سے سبکدوشی حاصل کرلوں وغیرہ وغیرہ یہ سننا تھا کہ زندان بان اپنے مقام سے اٹھا اور اس کے قریب آکر اس کا سارا سامان پلٹ کر دیا اور زدوکوب کرنے کے بعد اس کا پیرا ہن پھاڑ ڈالااور اس کے عمامہ میں اس کی گردن پھنسا کر گھیسٹنے لگا ۔ وہ کہنے لگا کہ میں تم کو اسی وقت ابن زیاد کے پاس لے چلوں گا تو نے یہ سامان غلط فراہم کیا ہے میں ہرگز اسے مختار تک نہ پہنچنے دوں گا ابن زیاد جس کو چاہتا ہے سختی میں رکھتا ہے تم اس کے پاس عمدہ عمدہ چیزیں پہنچانا چاہتے ہو یہ کبھی نہ ہوگا۔ یہ حالت دیکھ کر سب زنداں بانوں نے بیک زبان کہا کہ دیکھ یہ بڑا شریف آدمی ہے اس کے سب پر حقوق ہیں کوفہ کا کوئی امیر و غریب ایسا نہیں ہے جس کے بچوں نے اس سے تعلیم حاصل نہ کی ہو یہ تو کیا کررہا ہے اس غریب پر اتنی سختی روا نہیں ہے خدا را اس سے نرمی کر یا اس کی خواہش پوری کردے یا اسے نرمی سے واپس کردے سختی کا تجھے کوئی حق نہیں ہے۔ زندان بان نے کہا کہ میں اس کی خواہش پوری کردیتا مگر میں تم سے ڈرتا ہوں کہ اگر تم نے رپورٹ کردی تو میری زندگی خراب ہوجائے گی ۔ ان لوگوں نے کہا ہم یزید بن معاویہ کی بیعت کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم ہرگز اوپر رپورٹ نہ کریں گے۔ جب زندان بان مطمئن ہوگیا تو معلم عمیر بن عامر ہمدانی سے کہنے لگا کہ اچھا لاکیالایا ہے میں اسے مختار کے پاس پہنچادوں۔ چنانچہ وہ سب سامان لے کر مختار کے پاس پہنچادیا اور انہیں بتا دیا کہ اسی سامان میں قلم و دوات وغیرہ ہے۔ یہ دیکھ کر مختار نہایت مسرور ہوئے اور شکر خدا کرنے لگے ابومخنف کا بیان ہے کہ مختار کے پاس قلم و دوات پہنچاہی تھا کہ ابن زیاد سے چغلی کردی گئی اور چغلی کرنے والا خود زندان بان کا لڑکا تھا اس کا واقعہ یہ ہے کہ زندان بان نے ایک پڑا ہوالڑکا پایا تھا اس کی اس نے پرورش کی تھی وہ جوان ہوچکا تھا جس وقت معلم اور زندان بان میں مختار کو قلم و دوات دینے کی گفتگو ہورہی تھی وہ سن رہا تھا جس صبح کو زنداں بان نے قلم و دوات مختار تک پہنچایا اسی صبح کو زندان بان کے لڑکے نے ابن زیاد کے پاس جاکر چغلی کردی اور سارا واقعہ اس سے بیان کردیا حسام الواعظ لکھتے ہیں کہ لڑکے کا نام بشارت تھا۔ زندان بان نے ابھی سامان مختار تک پہنچایا ہی تھا کہ ابن زیاد بیس فوجیوں کو ہمراہ لے کر درزندان پر پہنچ گیا ۔ ابن زیاد جس وقت درزندان پر پہنچا اس کے بدن پر دیباج کی چادراور سر پر عدن کی چادر تھی جس کے بندکھلے ہوئے تھے ۔ زندان باناں ، خادماں اور خبر دہندگان نے جس وقت ابن زیاد کو اس ہیت سے دیکھا ، ہیبت کے مارے تھراکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابن زیاد زندان بان کی طرف متوجہ ہوا اور اس کو اس زور سے تازیانہ مارا کہ اس کی پشت زخمی ہوگئی اور حکم دے دیا کہ زنداں بان کو قتل کردیا جائے اور قتل سے پہلے اسے خوب مارا جائے ۔ چنانچہ لوگوں نے اسے مارنا شروع کیا اور اس درجہ کہ وہ لہولہان ہوگیا۔ اس کے بعد معلم کو بلوایا اور اسے بھی خوب پٹوایا پھر دونوں کوقتل کردینے کا حکم دے کر جانے لگا تو زندان بان آگے بڑھا اور عرض پرواز ہوا کہ حضور میرا قصور بتادیا جائے ابن زیاد نے کہا کہ تو یہ سمجھتا ہے کہ میں تیری حرکتوں سے غافل ہوں تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میں تیری تمام حرکتوں سے واقف ہوں زندان بان نے کہا کہ حضور میں خطا ہی جاننا چاہتا ہوں ۔
ابن زیاد نے کہا کہ تیری خطا یہ ہے کہ تو مختار کے پاس قلم دوات پہنچانے میں معلم کا مدد گار ہے تو چاہتا ہے کہ میری سلطنت کا تخت پلٹ جائے زندان بان نے کہا کہ حضور نہ گھوڑا دور نہ میدان میں بھی حاضر ہوں ۔ معلم بھی موجود ہے مختار قید میں پڑا ہے اور یہ معلم اس وقت سے پہلے کبھی میرے پاس آیا بھی نہیں ۔ اسی وقت آیا ہے ،آپ مختار کی تلاشی کرالیجئے اگر اس کے پاس قلم دوات وغیرہ نکل آئے تو بے شک آپ ہم سب کو قتل کرادیجئے ابن زیاد نے اس کی بات مان لی اور حکم دیا کہ مختار کی تلاشی لی جائے چنانچہ لوگ شمع لے کر قید خانہ میں داخل ہوئے اور مختار کی باقاعدہ تلاشی لی مگر کوئی چیز بر آمد نہ ہوئی، رپورٹ ملنے پر ابن زیاد سخت متحیر اور پریشان و پشیمان ہوا تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا کہ اس لڑکے کو میرے پاس حاضر کیا جائے جس نے یہ دروغ بیانی کی ہے ۔ چنانچہ لوگوں نے اسے فوراً حاضر کیا ابن زیاد نے کہا اے ملعون ! تو نے دروغ بیانی کی ہے اب تیری سزا یہ ہے کہ تو قتل کردیا جائے اس کے بعد اس کے قتل کا حکم دیا ۔ یہ دیکھ کر زندان بان آگے بڑھا اور اس نے ابن زیاد سے کہا کہ حضور بات یہ ہے کہ یہ لڑکا جو سامنے کھڑا ہے میرا پروردہ ہے میں نے اسے سڑک پر پڑاپایا تھا ۔ میں نے اس کی پرورش کی یہاں تک کہ یہ جوان ہوا جوان ہوتے ہی یہ میری بیوی کی طرف سے بدنظر ہوگیا ۔ میں نے اس چیز پر کنٹرول کرلیا چونکہ یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا لہٰذا اس نے اس دشمنی میں یہ سب کچھ کیا ہے ۔ ابن زیاد نے یہ سن کر معلم اور زندان بان کو چھوڑ دیا اور حکم دیا کہ مختار کی سختی کم کردی جائے اور معلم و زندان بان کو خلعت عطا کی جائے اور لڑکے کو قتل کردیا جائے۔ علماء کا بیان ہے کہ مختار نے قلم اور دوات و کاغذ اس خوبصورتی سے چھپا دیا تھا کہ تجسس کرنے والے برآمد نہ کرسکے تھے اسی وجہ سے ابن زیاد کو پشیمان ہونا پڑا۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے دوسرے دن زنداں بان حضرت مختار کے پاس حاضر ہوا مختار نے اس کا غذا کے دو ٹکٹرے کرکے دو خط تحریر کیے تھے ایک اپنے بہنوئی ، عبداللہ بن عمر کے نام اور دوسرا اپنی بہن عاتکہ یا صفیہ کے نام ۔ مختار نے وہ دونوں خطوط زندان بان کے حوالے کردئیے۔ زندان بان نے انہیں معلم عمیر بن عامر ہمدانی کے پا س پہنچادیا۔ معلم نے امانت کی وجہ سے ان خطوط کو پڑھا نہیں خطوط پاتے ہی معلم حمام گیا اور غسل کیا بال ترشوائے احرم باندھا اور قصر ابن زیاد کے پاس پہنچا وہاں پہنچ کر اس نے تلبیہ کیا اس وقت ابن زیاد دربار میں بیٹھا ہوا تھا ۔ معلم کے تلبیہ کی آواز سن کر اس نے کہا کہ یہ تلبیہ کہنے والا کون ہے ، لوگوں نے کہا کہ یہ وہی معلم ہے جسے تو نے قید کیا تھا اور اس نے منت مانی تھی کہ جب قید سے رہا ہوں گا تو حج کروں گا ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے میرے سامنے حاضر کرو۔ جب وہ آیا تو اس نے پوچھا کہ پہلے مدینہ جاؤگے یا مکہ ۱ اس نے کہا کہ حج کامل کروں گا ۔ یعنی دونوں جگہ جاؤں گا ۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے ایک ہزار درہم دے دئیے جائیں۔ بروایت ایک ہزار درہم اور ایک ہزار دینار دے دئیے جائیں معلم نے رقم حاصل کی گھرآکر اسے فقراء و مساکین پر تقسیم کردیا۔ اور اپنی رقم سے سفر کی تیاری کی ۔ راحلہ کرایہ پر لیا اور مدینہ کے لیے روانہ ہوگیا۔ معلم عمیر ابن عامر ہمدانی نہایت عجلت کے ساتھ قطع منا زل طے مراحل کرتا ہوا واردِ مدینہ ہوا۔ یہ اسی وقت مدینہ پہنچ کر ابن عمر کے گھر پہنچا ۔ جس وقت وہاں عمدہ عمدہ کھانوں سے دسترخوان مرصع تھا بن عمر اپنی بیوی کو کھانے کیلئے دسترخوان پر بلا رہا تھا اور وہ دسترخوان پر آنے سے یہ کہہ کر انکار کر رہی تھیں۔ کہ واللّٰہ لااکلت لذیذ الطعام الاان اخبرت بخبراخی ۔ خدا کی قسم میں اچھے کھانے اس وقت تک نہ کھاؤں گی جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ میرے بھائی مختار کس حال میں ہیں اور کہاں ہیں اتنے میں عمیر بن عامر نے دق الباب کیا یعنی دستک دی عبداللہ بن عمر نے فورا، لونڈی بھیج کر معلوم کیا کہ دروازہ پر کون ہے اس نے کہا میرا نام عمیرہمدانی ہے میں کوفہ سے آیا ہوں ۔ اور ایک اہم حاجت لایا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ صفیہ اشتیاق مختار میں زمین پر گرکر بیہوش ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو کہا کہ اے عبداللہ ! تم خود دروازے پر جاؤ ۔ شاید آنے والا میرے بھائی مختار کی خبر لایا ہو ۔ عبداللہ ابن عمر اپنے مقام سے اٹھے اور دروازے کے قریب پہنچے۔ دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص روشن روخوش لباس کھڑا ہے ۔ عبداللہ نے سلام کیا ۔ عمیر نے جواب دیا اس کے بعد اسے بیٹھک میں لے آئے اور بڑی عزت و توقیر کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا۔ کھانا چنا ہوا تھا ۔ عبداللہ اور عمیر نے کھانا کھایا اس کے بعد عبداللہ نے عمیر ہمدانی سے آنے کا سبب پوچھا اس نے حضرت مختار کے دونوں خطوط نکال کردیئے۔ عبداللہ نے جیسے ہی خط پڑھا رونا شروع کردیا پھر اٹھ کر اپنی زوجہ صفیہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ تمہارے بھائی حضرت مختار کے زندان کوفہ سے دو خط ارسال کیے ہیں وہ قید میں ہیں انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ میں ان کی رہائی کیلئے یزید کو خط لکھوں صفیہ جن کے گریہ گلوگیر تھا اپنے شوہر سے کہنے لگیں کہ مجھے اجازت دوکہ میں اس مسافر کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں جس نے میرے بھائی سے ملاقات کی ہے اور اس سے سارے واقعات دریافت کروں ، عبداللہ نے اجازت دی وہ چادر اوڑھ کر عمیر کے پاس گئی اور کہنے لگی اے شخص تجھے خدا کی قسم ہے مجھے اس محب حسین ، مختار کے صحیح حالات وواقعات بتادے۔
میرا دل اس کی جدائی میں کباب ہوگیا میں اس کے فراق میں اپنے آپے سے باہر ہوں ۔ اے شخص تجھے امام حسین (ع) کی قسم ہے مجھ سے کچھ پوشیدہ نہ کرنا یہ سن کر عمیر ہمدانی نے قید خانے کے سارے واقعات صفیہ کے سامنے بیان کردئیے جو نہی صفیہ نے یہ سنا کہ مختار زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان کے جسم سے خون جاری ہے برداشت نہ کرسکی اور اس درجہ روئی کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ پھر اس کے پاس سے اٹھ گئی اور گھر کے اندر جا کر اپنے سر کے سارے بال نوچ ڈالے ماں کو دیکھ کر لڑکیوں نے بھی بال نوچ ڈالے اور ان بالوں کو سامنے رکھ کر گریہ و ماتم کرنے لگی۔ عبداللہ نے شورگریہ سنا تودوڑے ہوئے گھر کے اندر آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ سرکے بال نوچ کر صفیہ اور لڑکیوں نے سامنے رکھا ہوا ہے سب محو گریہ ہیں کہنے لگے ارے تم نے یہ کیا کیا۔ صفیہ بولی اے عبداللہ اب میں تمہارے گھر میں چین سے نہیں بیٹھ سکتی ہائے میرا بھائی سخت ترین قید میں مقید ہے ، اے عبداللہ تمہاری غیرت و حمیت پدرانہ کو کیا ہوگیا ہے ۔ ارے کیا یزید تم سے بہتر ہے خدا کیلئے جلدی میرے بھائی کورہا کراؤ۔ ورنہ میں جان دے دوں گی۔ عبداللہ ابن عمر نے یہ سن کر کہا اے صفیہ خدا کی قسم اگر مجھے جلد سے جلد خط پہنچانے والا کوئی بھی مل گیا تو میں اسے جلد سے جلد رہا کرالوں گا پس تاخیر اتنی ہوگی کہ میرا خط یزید کے پاس پہنچے اور اس کا خط ابن زیاد کے پاس پہنچے یقین کرو کہ میری بات وہ کسی صورت سے ٹال نہیں سکتا۔ یہ سننا تھا کہ معلم عمیر ہمدانی بول اٹھا۔ اے ابن عمر میں یزید کے پاس اور اس کے بعد ابن زیاد کے پاس خود خط لے کر نہایت سرعت کے ساتھ جاؤں گا ۔ چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے میں ہی کیوں نہ ہو میں خط انہیں پہنچاؤں گا ابن عمر نے کہا کہ تم میرا خط یزید کے پاس لے جاؤ گے اور اس کا جواب لاؤ گے ۔ معلم نے کہا بے شک میں ایسا کروں گا میں نے تو مختار کی رہائی کی کوشش کیلئے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا بھی فیصلہ کیا تھا میں اس خدمت سے بہتر دنیا میں کوئی خدمت نہیں سمجھتا۔ عبداللہ ابن عمر نے یہ سن کر نہایت مسرت کا اظہار کیا اور قلم ودوات و کاغذ منگوا کر یزید کو ایک خط لکھا جس میں پندونصیحت اور خوف خدا کا حوالہ دے کر لکھا کہ تم ابن زیاد حاکم کوفہ کو جلد سے جلد حکم دے کر مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کو قید خانہ سے رہا کراؤ ۔ اس خط کا عنوان یہ تھا۔ عبداللہ ابن عمر بن خطاب کی طرف سے یزید ابن معاویہ ابن ابی سفیان کے نام پھر دیباج سپاہ کا ایک ٹکٹرا منگوایا اس میں اس مکتوب کو لپٹیا اور اسی میں اپنی بیوی اور لڑکیوں کے سر کے بال بھی رکھ دئیے اور اسے باندھ کر معلم عمیر ہمدانی کے حوالہ کیا اور اسے تیز رونا قہ اور زادراہ دے کر روانہ کردیا ۔ عمیر ہمدانی ابن عمر کا خط لیے ہوئے نہایت سرعت کے ساتھ چل کر دمشق پہنچے۔ وہاں پہنچ کر داخل دربار یزید ہونا چاہا لوگوں نے داخلہ سے روک دیا وہ حیران و پریشان اس مقام سے واپس ہوکر مسجد کے قریب ایک کمرہ کرایہ پر لیا اور اسی میں قیام پذیر ہوگیا اور پابندی کے ساتھ مسجد میں جاکر نماز پڑھنے لگا اور ہر نماز کے بعد لوگوں سے اس دعا کی درخواست کرتا تھا کہ خدا ان لوگوں پر رحم کرے جو میری حاجت برآری کریں لوگ اس کی حاجت برآری کے لیے برابر دعا کرتے تھے یہ روزانہ مسجد میں دعا کر اکر دربار یزید میں داخلہ کے لئے جاتا اور وہاں سے محروم واپس آتا اسی طرح کئی روز گزر گئے۔ ایک دن امام مسجد نے اپنے مقتدیوں سے کہا کہ لوگ یہ غلط کہتے ہیں کہ اہل کوفہ بے وفا ہوتے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک کوفی روزانہ لوگوں کیلئے دعا کرتا ہے اور وہ اپنی ایک حاجت کا حوالہ بھی دیتا ہے لیکن ہم نے کبھی اس سے یہ نہ پوچھا کہ اس کی حاجت کیا ہے اس سے دریافت حال کرنا چاہیے لوگوں نے کہا کہ اس کے لیے آپ سے زیادہ موزوں اور کون شخص ہے ۔ آپ اس سے دریافت فرمائیں کہ اس کی کیا حاجت ہے ایک دن اپنی حسب عادت جب عمیر ہمدانی نے دعا کرائی تو لوگوں نے امام جماعت سے کہا کہ آپ اپنے لڑکوں کو لے کر اس کے قیام گاہ پر جائیں اور اس سے حاجت دریافت فرمائیں ۔ اس نے کہا بہتر ہے۔ جب نماز کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تو امام جماعت مسجد سے نکل کر عمیر ہمدانی کی قیام گاہ پر گیا ۔ عمیر نے اس کی بڑی عزت کی بالاخر اس سے حاجت دریافت کی اور کہا کہ بھائی اگر تم قرضدار ہو تو ہم قرضہ ادا کریں اگر احسان کا خواہش مند ہے تو ہم احسان کریں اگر کسی سے خوفزدہ ہو تو ہم تیری حفاظت کریں ۔ اگر مال دنیا کا خواہش مند ہو تو ہم تیری اس خواہش کو پوری کریں اور اگر کوئی اور حاجت ہو تو اسے بیان کرتا کہ ہم تدارک کی سعی کریں۔ عمیر ہمدانی نے کہا کہ میں ان میں سے کوئی حاجت نہیں رکھتا اور کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔ ان لوگوں نے اسے رسول خدا (ص) علی مرتضیٰ (ع) اور حسین (ع) کی قسم دی کہ اپنی حاجت بتادے عمیر ہمدانی جب ان کی گفتگو سے مطمئن ہوا تو کہنے لگا کہ میں یزید کے نام عبداللہ بن عمر کا ایک خط لایا ہوں اور اس تک پہنچانا چاہتا ہوں بروایت اس نے ساری داستان حضرت مختار سے متعلق بیان کردی
امام جماعت جو بروایت آقائے دربندی شیعہ اور محب آل محمد تھا ۔ عمیر ہمدانی سے کہنے لگا کہ مجھے تم سے پوری پوری ہمدردی ہے تم اگر یزید سے ملنا چاہتے ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ تم اپنی ہئیت اور شباہت بدل دو ۔ اور جس طرح میں کہوں اس طرح کا لباس پہنو معلم نے کہا نہایت بہتر ہے جیسا آپ فرمائیں گے میں کروں گا امام مسجد نے کہا تم سفید دیباج کی قمیض پہنو اور سفید دیباج ہی کا پائجامہ پہنو اور دیباج سفید کی چادر سر پر ڈالو اور سفید جوتیاں پہنو اس کے بعد قصر یزید میں جاؤ جب تم وہاں پہنچو گے تو تم کو ایک ہزار سے زیادہ مسلح لوگ پہلی ڈیوڑھی میں ایسے ملیں گے جو شمشیر برہنہ لئے کھڑے ہوں گے تم نہ ان کی طرف دیکھو اور نہ ان کو سلام کرو۔ اور وہاں سے اور آگے بڑھ جاؤ پھر دوسری ڈیوڑھی میں تمہیں پہلی ڈیوڑھی سے زیادہ لوگ مسلح نظر آئیں گے تم ان کی طرف بھی متوجہ نہ ہو اور سلام کیے بغیر آگے بڑھ جاؤ پھر تیسری ڈیوڑھی میں داخل ہو وہاں تمہیں دوسری سے بھی زیادہ مسلح لوگ نظر پڑیں گے تم ان کی طرف مثل سابق التفات نہ کرو ۔اور بلاسلام کیے ہوئے آگے بڑھ جاؤ پھر چوتھی ڈیوڑھی میں داخل ہوجاؤ وہاں تم کو پانچ سوار نظر آئیں گے جو دیوان خانے کے عمال ہوں گے تم ان کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور سلام کیے بغیر آگے بڑھ جاؤپھر پانچویں ڈیوڑھی میں داخل ہو وہاں تم کو پہلے سے زیادہ سوار نظر آئیں گے ان کی طرف مطلقاً متوجہ نہ ہو اور بالکل بے خوف آگے بڑھ جاؤاور چھٹی ڈیوڑھی میں داخل ہوجاؤ۔ وہاں پہنچ کر تم بے شمار سوار وں کودیکھو گے کہ دو بڑے چوڑے چبوترے بنے ہوئے ہیں اور ان پر مروارید کے ایسے فرش بچھے ہوں گے جو مطلا ہوں گے اور ہر ایک پر تین تین افراد بیٹھے ہوں گے جو شراب سے مخمور لہو و لعب میں مشغول ہوں گے ۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے امام حسین (ع) کا سرطشت طلا میں رکھ کر یزید کے سامنے پیش کیا تھا اور یزید نے خوش ہوکر انہیں بلند مقام عطا کیا ہے ۔ ان لوگوں کو طشتیہ کہتے ہیں تم جب ان کے قریب پہنچو تو بلاتوجہ والتفات بلاسلام کیے ہوئے ان کے پاس سے گذر جاؤ اور بالکل خوف و ہر اس نہ کرو اور آگے بڑھ جاؤ ، جب آٹھویں ڈیوڑھی میں پہنچو تو دو چبوترے پہلے سے بھی زیادہ چوڑے تم کو نظر آئیں گے اور ان پر جوفرش ہوں گے وہ پہلے سے زیادہ قیمتی اور مرصع ہوں گے مگران فرشوں پر کوئی بیٹھا ہوا نہ ہوگا جب وہ چبوترے اور فرش تمہیں خالی نظر آئیں تو تم اپنی نظر بچا کر بے توجہی کے ساتھ وہاں سے گزر جاؤ اور ہرگز ان چبوتروں کی طرف حیرت سے نظر نہ کرو ورنہ خادمان یزید تم کو اجنبی سمجھیں گے
اس کے بعد جب دسویں ڈیوڑھی میں داخل ہوتو تم کو ایک نہایت حسین اور خوبصورت جوان نظر آے گا ۔ وہ سیاہ لباس پہنے ہوگاوہ محب امام حسین (ع) ہوگا اس کا واقعہ یہ ہے کہ جس دن امام حسین(ع) شہید ہوئے ہیں اسی دن سے اس نے سیاہ لباس پہن لیا ہے اور ہمیشہ لباس غم میں رہتا ہے ، اکثر رویا کرتا ہے اے عمیر جس وقت تم اس کے سامنے پہنچو گے تمہارا مقصد پورا ہوجائے گا ۔ وہ ایسا ہے کہ آزاربند بن کر اپنی روزی پیدا کرتا ہے ۔ یزید سے مطلقاً کچھ نہیں لیتا۔ یہ باتیں سن کر عمیر بن عامر ہمدانی خوش و مسرور ہوگئے اور امام مسجد کو دعائیں دینے لگے امام مسجد یزید سے ملنے کی ترکیب بتا کر عمیر ہمدانی سے رخصت ہوگیا۔ رات گذری صبح ہوئی ، عمیر ہمدانی نے اپنا بکس منگوایا اور اس میں سے دو دیباج کے جامے نکالے ۔ اور ایک رومی جامہ نکالا اور اسے پہنا پھر اس کے اوپر خزکاجامہ پہنا اور خزکوفی کا عمامہ باندھا اور دو چمڑے کے موزے پہنے اور اپنے کو مختلف قسم کی خوشبو سے معطر کیا اور عبداللہ بن عمر کا وہ خط جس میں اس کی بیوی اور لڑکیوں کے سر کے بال بھی تھے ہمراہ لیا اور نکل کھڑے ہوئے بالاخر یزید کے محل سرا میں جاپہنچے۔ معلم عمیر ہمدانی کہتے ہیں کہ میں نے وہی کچھ دیکھا جو امام مسجد نے بتایا تھا میں ایک کے بعد دوسری ڈیوڑھی کواسی طرح طے کر تاہوا جس طرح امام مسجد نے بتایا تھا دسویں ڈیوڑھی پر جاپہنچا جب اس میں داخل ہو تو جوان خوشرو سے ملاقات ہوئی میں نے اسے سلام کیا اس نے جواب میں سلام کے بعد کہا ۔ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ۔ ارے تو اٹھارہ دن تک کہاں تھا اے عمیر میں 18 دن سے تمہارا انتظار کررہا ہوں میں نے کہا اے میرے سردار میں تو بار بار آتا رہا لیکن دربان داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔ پھر امام مسجد نے مجھے ایک ترکیب بتائی جس کے بعد میں تم تک پہنچامعلم کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے جوان خوشرو کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ جب کہ میں پہلے پہل یہاں پہنچا ہوں تم نے میرا نام کیسے جانا ۔ اس نے کہا کہ جس دن تم دمشق میں پہنچے ہواسی دن حضرت امام حسین علیہ السلام نے مجھے خواب میں حکم دیا ہے کہ تمہارے پاس عمیر ہمدانی ایک خاص حاجت لے کر آرہے ہیں تم ان کی مقصد برآری جلد سے جلد کردو۔ حجۃ الاسلام علامہ محمد ابراہیم لکھتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جس نے ایک لاکھ اشرفیوں کا سر امام حسین (ع) خرید کر کربلا میں جسم کے ساتھ دفن کرنے کیلئے بھیجا تھا۔
عمیر ہمدانی کہتے ہیں کہ ملاقات کے بعد اس جوان خوشرو نے مجھے بڑی عزت سے اپنے پہلو میں بٹھایا ،
میں اس کے پہلو میں بیٹھا ہی تھا کہ دیکھا کہ 100 آدمی ہاتھوں میں گلاب پاش اور مجمرطلائی لیے ہوئے میرے سامنے سے گزرے میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اس نے کہا کہ یزید کے حمام کو معطر کرنے والے ہیں جب یزید حمام جاتا ہے تو یہ لوگ اس کے حمام میں داخل ہونے سے پہلے حمام کو معطر کرتے ہیں ۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ پانچ سو خوبصورت لونڈے جن کی عمر دس سال اور سات سال کی ہوگی وہ گزرے ، میں نے پوچھا یہ کون ہیں اس نے کہا کہ یہ یزید کے گرد جمع رہنے والے لوگ ہیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ یزید آرہا ہے وہ دیباج کا لباس پہنے ہے اس کے سر پر ایک چادر ہے جو سونے سے مزین ہے اس کے پاؤں میں سونے کی جوتی ہے جس کا تسمہ مروارید اور چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس کے بغل میں ریشم کا بند ہے ۔ وہ ہاتھ میں ایک عصا لئے ہوئے ہے جس پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ یزید امیرالمومنین لکھا ہوا ہے ۔ خداوندعالم نے دنیا ہی میں اس کا منہ سیاہ کیا ہوا ہے ۔ اس کی ناک پر کسی چوٹ کا نشان نمایاں ہے اس کیلئے محل سرا سے حمام تک زریں کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ عمیر بن عامر ہمدانی کا بیان ہے کہ جب میں نے اس کی شان و شوکت دیکھی آنکھوں میں کربلا کا نقشہ پھر گیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ یزید کو دیکھ کر جوان خوشرو نے میرے ہاتھ سے عبداللہ ابن عمر کا لفافہ لے لیا اور حمام میں داخل ہونے سے پہلے وہ لفافہ یزید کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ تو نے اپنے باپ کے حق کی قسم کھا کر مجھ سے کہا ہوا ہے کہ تو میرے ہر حاجت پوری کرے گا تجھے معلوم ہے کہ میں نے آج تک تجھ سے کوئی خواہش نہیں کی ،
یزید نے کہا کہ کیا کوئی حاجت اس وقت رکھتا ہے ، اس نے کہا کہ ہاں! میری خواہش یہ ہے کہ اس نامہ کو پڑھ کر اسی وقت اس کی تعمیل کردے۔ یہ سن کر یزید نے نامہ ابن عمر ہاتھ میں لیا اور اس کو کھول کر پڑھا پھر پوچھا کہ جو شخص یہ نامہ لایا ہے وہ کہاں ہے جوان نے کہا وہ یہ حاضر ہے ۔ عمیر ہمدانی کہتا ہے کہ جب میں یزید کے سامنے پیش ہوا تو اس نے کہا کہ عبداللہ ابن عمر کی یہ خواہش ہے کہ میں ابن زیاد حاکم کوفہ کو یہ لکھ دوں کہ وہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کو رہا کردے ۔ عمیر نے کہا جی ہاں یزید نے کہا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ تم امام حسین (ع) کے شیعوں میں سے ہو۔ میں نے کہا حضور میں تو ایک کرایہ کا آدمی ہوں مجھے ابن عمر نے یہ خط دے کر اجرت پر آپ کے پاس بھیجا ہے۔ یزید نے خط پڑھا ، اس کا رنگ اڑگیا ۔ چہرہ زرد ہوگیا ، کہنے لگا ابن عمر نے نہایت اہم مسئلہ کے متعلق لکھا ہے لیکن کیا کروں کہ میں اس کی بات رد نہیں کرسکتا جوان خوشرونے کہا اے خلیفہ وقت تیرا کیا نقصان ہے تو تو ابن عمر کی خواہش پوری کرے گا اگر اس کی درخواست مان لے گا اس سے کیا بحث کہ خط لانے والا شیعہ حسین ہے یا کون ہے یہ سن کر ابن معاویہ نے ابن زیاد کو خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ میرا خط پاتے ہی مختار کو رہا کر دے اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ اسے ابن عمر کے پاس مدینہ بھیج دے اور اسے اور اس معلم عمیر ہمدانی کو انعام واکرام دے اور ان لوگوں کو ہرگز کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد اس جوان خوشرد کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے تمہاری خواہش پوری کردی اور سنو اگر تم دو لاکھ روپے مانگتے تو مجھے اتنا نہ کھلتا جتنا اس خط کی تعمیل مجھے کھلی ہے لیکن دو وجہوں سے میں نے اس کے مضمون کی تعمیل کردی ہے ایک یہ کہ عبداللہ بن عمر کے مجھ پر حقوق ہیں دوسرے تم سفارش کرنے والے ہو۔ عمیر ہمدانی کہتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد یزید نے حکم دیا کہ میرے لیے ایک عمدہ قسم کی سواری مہیا کی جائے اور مجھے پانصددرہم دئیے جائیں اور خلعت عطا کی جائے حکم کو ابھی دیر نہ ہوئی تھی کہ سب کچھ حاضر کردیا گیا۔ میں بے انتہا خوش ہوا اور قصر یزید سے باہر نکلا اور اسی ناقہ پر سوار ہوکر جو یزید نے دیاتھا کوفہ کی طرف روانہ ہوگیا
اور نہایت تیزی سے چل کر کوفہ پہنچ گیا وہاں پہنچ کر ایک چادر سر میں اس طرح لپٹ کر کہ آنکھوں کے سوا کچھ نظر نہ آئے دارالامارة پروارد ہوا ابن زیاد کے دربان سے اجازت داخلہ مانگی ۔ انہوں نے پوچھا تم ہوکون میں نے کہا کہ میں یزید کافر ستادہ ہوں یہ سن کردربانوں نے اجازت دی میں ابن زیاد کے پاس حاضر ہوا اور منہ کھول کر اس کے سامنے یزید کا خط پیش کیا یزید کے خط کو پڑھ کر ابن زیاد نہایت غیظ و غضب کی حالت میں کچھ دیر خاموش رہ کرہنس پڑا اور کہنے لگا کہ کم بخت عمیر تو نے یہ کیا کیا میں نے کہا کہ ہاں میں نے کیا ہے اور یہ کچھ کرنا دل سے چاہتا تھا ابن زیاد کی عادت یہ تھی کہ وہ یزید کا خط پاتے ہی اپنے ماتھے پر اسے رکھتا تھا اور اسے بوسہ دیتا تھا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا تھا عرضیکہ خط پڑھنے کے بعد اس نے کہا کہ حکم یزید سرآنکھوں پر۔ اس کے فوراً بعد حکم دیا کہ مختار کو عزت و توقیر کے ساتھ میرے سامنے پیش کیا جائے ، پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد مختار ابن زیاد کے سامنے پیش کردئیے گئے ابن زیاد نے جو نہی مختار کو دیکھا سروقد تعظیم کیلئے کھڑا ہوگیا اور فورا ًایک طبیب کو بلوا کر ان کے اس زخم کا علاج کرایا جو اسی کی ضرب سے ہوگیا تھا۔ پھر حکم دیا کہ مختار کو حمام میں لے جایا جائے اور انکے بال اور ناخن کاٹے جائیں اور خلعت فاخرہ انہیں پہنایا جائے۔ جب مختار حمام وغیرہ سے فارغ ہوئے تو حکم دیا کہ انہیں نہایت عمدہ سواری کے ذریعہ سے مدینہ منورہ پہنچا دیا جائے اور یہ حکم دیا کہ ایک ناقہ پر زاد راہ اور عطا یا رکھے جائیں اور ایک ناقہ پانی کا ساتھ کیا جائے اور دس ہزار دینا ر نقد دئیے جائیں ۔ الغرض حکم ابن زیاد کے مطابق مختار کو تمام چیزیں دے دی گئیں اور بروایت رو ضۃ الصفا ان کو حکم دے دیا گیا کہ تین دن میں کوفہ چھوڑ دیں۔ ایک روایت کی بنا پر عمیر ہمدانی کو بھی بہت کچھ دیا گیا ۔ اس کے بعد یہ دونوں دارالامارة ابن زیاد سے برآمد ہوکر روانہ … ہوئے ۔ عمیر ہمدانی کا بیان ہے کہ میں حصرت مختار کے ہمراہ وہاں سے نکل کر اپنے مکان پر پہنچا اور نہایت عمدہ کھانا تیار کرا کر حصرت مختار کہ خدمت میں پیش کیا حصرت مختار نے فرمایا ۔
اے عمیر اب میں لذید کھانا کیا کھاؤں گا سنو ! خدا کی قسم اب میں اس وقت تک نہ لذیذ کھانا کھاؤں گا نہ عورت کے پاس جاؤں گا
اور نہ دنیا میں خوشی کا کوئی کام کروں گا جب تک بنی امیہ سے حضرت امام حسین(ع) کے واقعہ کربلا کا بدلہ نہ لے لوں جب میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں گا سب کچھ کروں گا میری خواہش ہے کہ میں دل بھر کر بنی امیہ کو قتل کروں انہیں پامال کروں ۔ ان کے سروں پر بیٹھوں ان کی لاشوں پر بساط فرح و سرور بچھا کر سکوں کی سانس لوں اس کے بعد لذیذ کھانا کھاؤں۔ عمیر ہمدانی کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے معمولی کھانا کھایا اس کے بعد حضرت مختار کی خدمت میں میں نے سواری حاضر کی اس کے بعد ہم دونوں ناقوں پر سوار ہوکر کوفہ سے باہر نکلے حضرت مختار نے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا اب عمیر خداحافظ اب میں جاتا ہوں تم واپس جاؤ میں نے کہا میرے مولا آپ نے یہ کیا کہا ارے اب میں بھلا آپ سے جدا ہوسکتا ہوں ۔ میں تو اب آپ کے قدموں سے تاحیات لپٹا رہوں گا مختار نے فرمایا بہتر ہے اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ہودج میں بٹھا لیا اور ہم دونوں مدینہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ قطع منازل وطے مراحل کرتے ہوئے جلد سے جلد مدینہ منورہ پہنچے وہاں پہنچ کر عبداللہ ابن عمر کے مکان کی جانب روانہ ہوئے ہم لوگ جس وقت ابن عمر کے مکان پر پہنچے ، انہوں نے ہریسہ پکوایا ہوا تھا اور وہ دسترخوان پر رکھا ہوا تھا ۔ وہ اپنی بیوی کو جنہیں بہت چاہتے تھے پکار رہے تھے کہ آؤ کھانا کھالو وہ کہہ رہی تھیں کہ میں ا س وقت تک گوشت کا استعمال نہ کروں گی جب تک اپنے بھائی مختار کی شکل نہ دیکھ لوں ابھی یہ باتیں زن وشوہر میں ہورہی تھیں کہ حضرت مختار نے دق الباب کیا ۔ ہمشیرہ مختار ، صفیہ نے پوچھا کون ہے ۔ حضرت مختار نے کہا "میں مختار ہوں" یہ سننا تھا کہ صفیہ اپنے مقام سے اٹھی اور بے تحاشا دروازے کی طرف دوڑی اور دروازہ کھول کر مختار کو گلے سے لگا لیا ۔ بھائی بہن گلے لگ کر فرط مسرت سے دونوں رونے لگے۔یہاں تک دونوں بیہوش ہو گئے اور قریب تھاکہ دونوں ہلاک ہو جاہیں۔اکثر روایت کی بنا پر حضرت مختار کو ہوش آگیا لیکن صفیہ کو ہوش نہ آیا جب انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ہے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت مختار اور ابن عمر بہت غمگین اور رنجیدہ ہوئے
اور سخت افسوس اور غم کی حالت میں ان کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا حضرت مختار مدینہ میں اس وقت تک مقیم رہے جب تک حکم خدا وندی واقعہ کربلا کے بدلا لینے کا نہیں ہوا (نورالابصار فی اخذ الثار ص 26 تا ص 54 طبع لکھنو ، اصدق الاخبار فی الاخذ بالثار ص 34 طبع دمشق ، رو ضۃ الصفا جلد 3 ص 74 ، ذوب النضار فی شرح الثار ابن نما ص 401 ، ضیمہ بحار جلد 10 طبع ایران) علامہ محمد باقر تحریر فرماتے ہیں کہ مختار کے ساتھ عبداللہ ابن حارث بھی رہا ہوگئے تھے کیونکہ ان کی سفارش ہندبنت ابی سفیان نے کی تھی جوان کی خالہ تھی اس کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت مختار کو ابن زیاد نے رہا کرنے کے بعد کہہ دیا تھا کہ اگر تم تین یوم میں کوفہ چھوڑ نہ دو گے تو قتل دئیے جاؤ گے حضرت مختار اسی وجہ سے مدینہ کی طرف تیزی سے جارہے کہ مقام واقصہ میں قصعب بن زہیر ازدی ملے انہوں نے پوچھا کہ تمہاری آنکھ کو کیا ہوگیا ہے ۔ حضرت مختار نے فرمایا کہ ابن زیاد نے ا س پر ضرب لگائی ہے اور اس نے مجھے سخت ترین قید میں ایک عرصہ سے رکھ چھوڑا تھا اب میں رہا ہوکر اپنی بہن صفیہ زوجہ عبداللہ ابن عمر کے پاس مدینہ جارہا ہوں اے قصعب سنو میں عنقریب انشاء اللہ ابن زیاد کو قتل کردوں گا۔ قتلنی اللہ ان لم اقتلہ اگر میں اسے قتل نہ کروں تو خدا مجھے قتل کرا دے میں اس کے اعضا وجوارح ٹکڑے ٹکڑے کروں گا حضرت امام حسین کے واقعہ کا اس طرح بدلا لوں گا کہ دنیا انگشت بدنداں ہوگی میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ حضرت یحییٰ بن زکریا کے قتل پر جس طرح ستر ہزار قتل کیے تھے میں بھی کم از کم ستر ہزار ہی و شمنان آل محمد کو قتل کروں گا فرمایا۔
والذی انزل القران وبین الفرقان و نذع الادیان و کرہ العصیان لاقتلن القضاة من ازدوعمان و ملوحج و ھمدان ونھد و خولان وبکر وھران ونقل ویتھان وعیس وزبیان و قبائل قیس وغیلان غضبا لابن بنی الرحمن۔اس ذات کی قسم جس نے قرآن مجید نازل کیا اور فرقان حمید کو ظاہر کیا اور دین کی راہ کھولی اور گناہوں کو بڑی نگاہ سے دیکھا میں ضرور ضرور ان گناہگاروں جنہوں نے امام حسین (ع) کے خون سے ہاتھ کو رنگین کیاہے قتل کروں گا ، چاہے وہ قبیلہ ازوکے ہوں یا عمان کے مدحج کے ہوں یا ہمدان کے نہد کے ہوں یا خولان کے بکر کے ہوں یا ہران کے نقل کے ہوں یا تیہان کے عبس کے ہوں یا غیلان کے (یعنی کسی دشمن کو بھی نظر انداز نہ کروں گا۔ (دمعۃ ساکبہ ص 405 طبع ایران) واضح ہوکہ اس واقعہ کے سلسلہ میں بعض حضرات نے معلم عمیر بن عامر ہمدانی کا نام کثیر بن عامر لکھا ہے جو میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

بارھواں باب
حضرت مختار کی کوفہ سے مکہ کو روانگی اور ابن زبیر سے ملاقات
حجۃ الاسلام مولانا محمد ابراہیم لکھتے ہیں کہ حضرت مختارکوفہ سے روانہ ہوکر مکہ پہنچے اور سیدھے ابن زبیر کے پاس گئے ان سے ملے ابن زبیر نے ان کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور پوچھا کہ تم کوفہ سے آرہے ہو یہ بتاؤ کہ کوفہ کے لوگوں کا کیا حال ہے اور ان کے جذبات کن حدود تک قابل اعتماد ہیں حضرت مختار نے فرمایا کہ تم کوفہ کے لوگوں کے بارے میں کیا پوچھتے ہو۔ وہ دل میں دشمنی اور ظاہر میں دوستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور میرے خیال میں وہ ہرگز قابل اعتماد نہیں ہیں۔ عبداللہ ابن زبیر نے اہل کوفہ کی مذمت شروع کی اور بہت زیادہ ان کی تذلیل کے الفاظ استعمال کیے حضرت مختار نے فرمایا کہ سنو ہمارے دل میں جو کچھ ہے وہی تمہارے تزدیک بھی ہے ہم بھی واقعہ کربلا کا بدلہ لینا چاہتے ہیں
اور تم بھی یہی کچھ کہتے ہو اس سے بہتر کچھ نہیں ہوسکتا اور ہم اور تم مل کر اس مہم کو سرکریں اور اس کی بہترین ترکیب یہ ہے کہ تم اپنا ہاتھ بڑھاؤ میں تمہاری بیعت کرلوں تم میری نگاہ میں یقینا یزید جیسے ملعون سے بہتر ہو تم فہیم اور عقل مند ہو ، تم ہوشیار اور صاحب فراست ہو وہ ملعون بدکردار اور احمق ہے۔ ابن زبیر سنو! میں تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری حکومت کی بنیادوں کو پورے طور پر مستحکم کرسکتا ہوں اور عراق و عرب اور دیار شام کو تمہارے زیرنگین کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہوں ابن زبیر نے کہا تمہارا کہنا درست ہے لیکن میرے خیال میں تامل سے کام لینا چاہیے ۔ اورعجلت نہ کرنی چاہیے ۔ یہ سن کر مختار نے محسوس کیا کہ ابن زبیر اپنے راز کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں اور مجھے بھی بتانا پسند نہیں کرتے اس احساس کی وجہ سے مختار کو سخت رنج ہو اور وہ انتہائی غصہ میں عبداللہ ابن زبیر کے پاس سے اٹھ کر روانہ ہوگئے۔

حضرت مختار کی مکہ سے طائف کو روانگی
ابن زبیر کے پاس سے اٹھ کر حضرت مختاررنجیدگی کے عالم میں مکہ سے طائف کی طرف روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے عزیزوں کے ساتھ ایک سال قیام کیا۔ مختار کے چلے جانے کے بعد ابن زبیر کو محسوس ہوا اور وہ ان کی تلاش کرنے لگے ایک سال تک ابن زبیر حضرت مختار کو ڈھونڈھتے رہے لیکن ان کا نشانہ نہ ملا ایک سال کے بعد حضرت مختار حج کرنے کے ارادے سے پھر مکہ واپس آئے ایک دن وہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابن زبیر کی ان پر نظر پڑگئی یہ دیکھ کر ابن زبیر نے اپنے ہمدردوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مختار میری بیعت کرلیں جہاں تک میں خیال کرتا ہوں وہ بیعت نہ کریں گے۔

حضرت مختار مکہ میں اور ابن زبیر کی بیعت
یہ سن کر عباس بن سہل انصاری نے کہا کہ مجھے اجازت دیں تو میں راہ ہموار کروں۔ابن زبیر نے انہیں اجازت دی اور وہ حضرت مختار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کہنے لگے کہ ابن زبیر کی بیعت بڑے بڑے لوگوں نے کرلی ہے تعجب ہے کہ آپ نے اب تک ان کی بیعت نہیں کی حضرت مختار نے فرمایا کہ میں ایک سال قبل ان کے پاس اسی بیعت کے لیے گیا تھا لیکن انہوں نے میری طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی میں یہ بھی چاہتا تھا کہ ان کے دشمنوں کو تہ تیغ کرکے ان کی حکومت کو مستحکم کروں مگر جب کہ انہوں نے توجہ نہ کی اور اپنے معاملات کو ہم سے پوشیدہ رکھا تو ہم نے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی پھر اس کے بعد سے میں ان کے پاس نہیں گیا اور اب میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ انہیں میری ضرورت ہے یا مجھے ان کی ضرورت ہے۔ عباس بن سہل انصاری نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ جس وقت آپ نے ان سے بیعت کے لیے کہا تھا کچھ لوگ ایسے اس وقت بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے وہ کچھ کہنا نہیں چاہتے تھے ۔ اے ابواسحاق بس یہی وجہ تھی ورنہ وہ آپ کے بہت زیادہ خواہش مند ہیں اور آپ کی امداد کے طالب ہیں میری رائے یہ ہے کہ آپ میرے ہمراہ رات کے وقت ان کے پاس چلیں اور ان سے ملاقات کریں اور ایک دوسرے کے مافی الضمیر سے آگاہی حاصل کریں مختار نے کہا بہت بہتر ہے
چنانچہ رات کے وقت حضرت مختار ، عبداللہ ا بن زبیر کے پاس عباس انصاری کے ساتھ گئے ابن زبیر نے جو نہی حضرت مختار کو دیکھا اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ان کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور بہت زیادہ عذر خواہی کی اور کہا کہ اس سے قبل جب آپ نے بیعت کا سوال کیا تھا تو میں نے اس لیے خاموشی اختیار کی تھی کہ کچھ نامناسب قسم کے لوگ اس وقت میرے پاس بیٹھے تھے میں نہیں چاہتا تھا کہ ان کے سامنے اس قسم کی بات ہو اب میں چاہتا ہوں کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہوں کہیں میں ہر طرح آپ کے ارشاد کا احترام کروں گا، بے شک آپ میرے ہمدرد اور میرے مشفق و مہربان ہیں۔ حضرت مختار نے کہا کہ لمبی چوڑی گفتگو سے کوئی فائدہ نہیں بس مختصریہ ہے کہ میں آپ کی اس شرط سے بیعت کرتا ہوں کہ مجھے آپ کی حکومت میں اتنا دخل ہوکہ آپ جو کچھ کریں مجھے اپنے مشورے میں ضرور شامل رکھیں ۔ خصوصا ً ایسے موقع کے بعد جب آپ کو یزید ملعون پر غلبہ حاصل ہوجائے اور میں یہ اس لیے چاہتا ہوں کہ یزید اور اس کے حامیوں سے واقعہ کربلا کا بدلہ لینے میں مجھے کامیابی نصیب ہوسکے۔
ابن زبیر نے کہا کہ "اے ابوسحاق ! میں تمہاری بیعت کتاب خدا اور سنت رسول کے حوالہ سے چاہتا ہوں" حضرت مختار نے فرمایا کہ ایسی بیعت تو میں ایک غلام کی بھی کرنے کو تیار ہوں آپ تو میرے سردار اور آقا ہیں۔ شرط کے بموجب ابن زبیر بیعت لینے پر راضی نہ تھے لیکن عباس بن سہل انصاری کے درمیان پڑنے سے معاملہ روبراہ ہوگیا اور حضرت مختار نے محض اس خیال سے کہ واقعہ کربلا کا بدلا لینے میں کامیابی نصیب ہوسکے ابن زبیر کی بیعت کرلی۔اسی دوران میں عمر بن زبیر جو عبداللہ بن زبیر کے بھائی تھے ان پر حملہ آور ہوئے حضرت مختار نے پوری کوشش کی اور اس سے پوری نبروآزمای کے بعد اس پر قابو پا لیا اور ایسے حالات پیدا کردئیے کہ وہ گرفتار ہوگیا۔اسی طرح جب ابن زبیر پر حکم یزید سے حصین بن نمیر نے حملہ کیا اور خانہ کعبہ کا محاصرہ کرکے عبداللہ ابن زبیر کو قتل کرنا چاہا تو حضرت مختار نے اپنی پوری سعی سے اسے ناکام بنا دیا۔اس کے بعد حضرت مختار مدینہ منورہ تشریف لے گئے (نور الابصار ص ۸۳ طبع لکھنوٴ ، و رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۵ طبع نو لشکور لکھنوٴ، مجالس المومنین ۳۵۱، تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۴۸)

تیرھواں باب
حضرت مختار کا مدینہ میں قیام حضرت رسول کریم (ص) کا خط
حضرت مختار کا مدینہ میں قیام حضرت رسول کریم (ص) کا خط ،عزم مختار کی توانائی اور حضرت مختار کی حضرت امام زین العابدین (ع) سے اجازت طلبی کیلئے مکہ کو روانگی علماء موٴرخین کا بیان ہے کہ حضرت مختار عبداللہ ابن زبیر کی بیعت کرکے مکہ سے مدینہ منورہ واپس آگئے۔ اور وہیں اس وقت تک قیام پذیر رہے ۔
جب تک خداوندعالم کا حکم انتقام نافذ نہیں ہوگیا، امام اہل سنت علامہ عبداللہ بن محمد رقمطراز ہیں۔ ثم ان المختار اقام فی المدینة الی ان احب اللہ ان ینتقم من ظالمی ال محمد صلوت اللہ علیھم اجمعین۔ الخ پھر حضرت مختار مدینہ میں اس وقت تک مقیم رہے جب تک خداوندعالم نے یہ نہیں چاہا کہ آل محمد پر ظلم کرنے والوں سے بدلہ لیا جائے اور انہوں نے ان کے جو حقوق غصب کیے ہیں اس کی سزادی جائے۔ (قرة العین ضمیمہ نور العین ص 133 )
حضرت مختار مدینہ میں شب و روز اپنے منصوبے میں کامیابی کے اسباب پر غور و فکر کرتے رہتے تھے اورلوگوں سے مل کر اپنی کامیابی کے متعلق تبادلہ خیا لا ت کرتے رہتے تھے ۔
ان کاکوئی لمحہ ایسا گزرتا تھاجس میں وہ اپنے مقصد سے غافل رہتے رہے ہوں ۔آل محمد کے صفات واوصاف بیان کرنے اور ان کی نشرواشاعت رطب اللسان رہناان کی زندگی کاجزبن گیاتھا۔
حضرت مختا ر کو جو چیز متر ددکر تی تھی ۔وہ اہل کوفہ کی بیوفائی تھی اور انہیں اس کا بھی بڑا خیال تھا۔ کہ ساری دنیا مخالف ہے اور جس مقام پرمیں بد لہ لینے کاعزم کر چکا ہوں وہ کوفہ ہے اور کوفے کے تمام حسینی دلیر جن کی تعد اد تقر یبا ً پانچ ہزار ہے۔ سب جیلوں میں پڑے ہیں اور جیل بھی کوفے کی جس کامزہ مجھے معلوم ہے وہ اس پربھی بڑے تدبر سے غور کر رہے تھے کہ جبکہ کوفہ کی بڑی آبادی خون حسینی سے ہاتھ رنگین کیے ہوئے ہے اورہمیں انہیں کوقتل کرناہے۔ اور انہیں سے بدلہ لیناہے اور ہمارے مددگاروں کی تعداد بہت کم ہے پھر کیو ں کر کامیابی ہوگی۔

حضرت رسول کریم کا خط حضرت مختار کے نام
حضرت مختار یہی کچھ سوچ رہے تھے کہ ایک دن ایک شخض نے آکر آپ کی خدمت میں ایک خط پیش کیا۔ جب حضر ت مختا ر نے اُ سے کھو لا تو وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے (ص) کا حظ تھا ۔
موٴرخ ہروی علامہ محمد خاوند شاہ لکھتے ہیں: سبب جزم مختار با نتقام وتصمیم عزیمت اوبر محاربہ و قتل اہل ظلام وصول کتاب امیرالمومنین علی بود و مفصل ان مجمل انکہ شعبی۱ روایت میکند کہ روزے در مجلس مختار ناصر اہل بیت رسول اللہ نشة بودم ناگاہ شخصے برہیت مسافران درآمد ہ گفت السلام علیک یا ولی اللہ ان گاہ مکتوبے سربمہر بیروں آور دوبدست مختار وادومعروض گردانید کہ این امانتی ست کہ امیرالمومنین علی بمن سپرد و فرمود بمختار رساں مختار گفت ترابخدای کہ جزاوخدائی نیست سوگندمی دہم کہ آنچہ گفتی مطابق واقعہ درست است آں شخص برصدق قول خود سوگندخوردہ مختار مہراز کاغذ برداشت و درآنجابود کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیک امابعد بداں اے مختار… خدائے تعالیٰ محبت اہل بیت رادردل توافگندوخون مارا ازاہل بغی وطغیان وارباب تمردو عصیان طلب خواہی داشت باید کہ خاطر جمع داری وہیچ گونہ پریشانی بہ ضمیر خود راہ نہ دہی ومختار بعداز اطلاع بر مضمون ایں مکتوب مستظہر و قوی دل شدہ در قتل دشمنان خاندان رسالت ، مساعی جمیلہ مبذول داشت )رو ضۃ الصفا جلد 3 ص (75 ونور الابصار ص 83 و مجالس المومنین ص 357 کہ انتقام خون حسین پر حضرت مختار کی جرات اور اس پر عزم بالجزم کی وجہ یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین کا مرسلہ وہ مکتوب جو حضرت رسول نے رسال فرمایا تھا وہ مختار کو مل گیا اس اجمال کی تفصیل یہ ہے شعبی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت مختار کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ناگاہ ایک شخص بصورت مسافر داخل مجلس ہوا اس نے آکر السلام علیک یاولی اللہ کہا اور سربمہر ایک مکتوب حضرت مختار کے ہاتھ میں دے کربولا کہ یہ حضرت امیرالمومنین کی امانت ہے وہ مجھے دے گئے تھے کہ میں آپ کی خدمت میں پہنچاؤں حضرت مختار نے اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ تم قسم کھاؤ کہ یہ جو بیان کررہے ہو بالکل درست ہے چنانچہ اس آنے والے نے قسم صداقت کھائی اس کے بعد حضرت مختار نے اس خط کی مہر توڑی اس میں لکھا تھا کہ خداوندعالم نے ہمارے اہل بیت کی محبت تمہارے دل میں ڈال دی ہے تم ہمارے اہل بیت کے دشمن سے عنقریب بدلہ لوگے دیکھو اس سلسلہ میں تم حیران و پریشان نہ ہونا اور دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کرنا اس خط کو پانے کے بعد حضرت مختار نہایت قوی دل ہوگئے اور قتل دشمن میں دلیر ہو کر سامنے آنکلے اور پوری سعی سے واقعہ کربلا کا بدلہ لیا۔ اس خط کو پاتے ہی حضرت مختار کا جذبہ انتقام جوش مارنے لگا ان کی ہمت بلند اور ان کا حوصلہ جو ان ہوگیا لیکن چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انتقام لینا بغیر امام وقت کی اجازت کے صحیح نہ ہوگا اس لیے انہوں نے ضروری سمجھا کہ امام زمانہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اجازت حاصل کریں اس مقصد کے لیے وہ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے کیونکہ امام علیہ السلام اس زمانہ میں مکہ ہی میں قیام پذیر تھے۔ (لواعج الاحزان) حضرت مختار مدینہ سے روانہ ہوکر مکہ جارہے تھے کہ راستہ میں ابن عرق سے ملاقات ہوئی وہ کہتے ہیں کہ رایت المختار اشترالعین الخ میں نے مختار کو دیکھا کہ ان کی آنکھ پر چوٹ ہے تو ان سے پوچھا کہ یہ زخم کیسا ہے جو اچھا ہونے کو نہیں آتا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہی چوٹ ہے جوابن زیاد کی مار سے پیدا ہوگئی تھی اور اب اس نے ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ کسی صورت سے اچھی نہیں ہوتی ۔
اے ابن عرق میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ فتنہ ابھر گیا ہے اور فساد کی آگ تیار ہوگئی ہے اور دیکھو عنقریب وہ بھڑک اٹھے گی اور میں ابن زیاد کو اس کے کیفر کردار تک پہنچادوں گا ۔ (دمعۃ ساکبہ ص 408 ، طبع ایران ) اس کے بعد حضرت مختار آگے بڑھے اور چلتے چلتے داخل مکہ ہوئے اور اس روایت کی بنا پر جس میں ظہور وخروج مختار تک کے لیے حضرت محمد حنفیہ(ع) روپوش ہوگئے تھے حضرت مختار نے ان کو تلاش کرنا شروع کیا بالاخر ان سے ملاقات ہوئی ۔ مختار نے ان سے اپنے عزم وارادہ کو بیان کیا ۔ حضرت محمد حنفیہ(ع) بے انتہا خوش ہوئے اور وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ انتقام واقعہ کربلا بلا اجازت امام زمانہ درست نہیں ہے اور امام زمانہ اس وقت تک حضرت امام زین العابدین (ع) ہیں جن کو میں بھی قطعی طور پر امام زمانہ تسلیم کرتا ہوں (زوب النضار ابن نما ضمیمہ بحار جلد 10 ص 401) ان سے دریافت کرنا چاہیے حضرت محمد حنفیہ(ع) نے حضرت مختار سے کہا کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں واقعہ کربلا کے خون بہا کو واجب سمجھتا ہوں (تاریخ طبری جلد 4 ص۶۵۳ قرة العین 143) اس کے بعد میرے تاریخی استنباط کے مطابق حضرت محمد حنفیہ(ع) حضرت مختار کو لے کر حضرت امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے تمام حالات بیان کیے اور حضرت رسول کریم (ص) کے خط کا حوالہ دیا ۔ حضرت مختار جو کہ خود بھی امام زین العابدین کی امامت کے قائل تھے۔ (معارف الملة الناجیة والناریہ ص 56 ) حضرت امام زین العابدین (ع) سے اجازت کے طالب ہوئے اور امام علیہ السلام نے انہیں اجازت دے دی لیکن چونکہ بنی امیہ کا دور تھا اور حضرت امام ہر لمحہ خطرہ محسوس کررہے تھے لہٰذا انہوں نے اس مسئلہ میں اپنے کو سامنے لانا مناسب نہیں سمجھا (نورالابصار ص 7) اسی بنا پر حضرت محمد حنفیہ(ع) کو اس واقعہ انتقام کا ولی امر بنادیا جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہے جب کہ مختار نے کوفہ میں علم انتقام بلند کیا اور پچاس افراد محمد حنفیہ(ع) کے پاس تصدیق حال کے لیے آئے اور انہوں نے حضرت امام زین العابدین (ع) کے پاس لے جاکر پیش کیا تھا اور امام (ع) نے فرمایا قد ولیتک ھذا لامرفاصنع ماشتمیں نے آپ کو اس واقعہ انتقام میں ولی امر اور مختار بنا دیا ہے ۔
آپ جوچاہیں کریں (ذوب النضار فی شرح الثار ابن نما ص 401) چنانچہ وہ لوگ وہاں سے پلٹے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کوفہ پہنچ کرکہا کہ ہمیں امام زین العابدین اور محمد حنفیہ(ع) نے اجازت انتقام دے دی ہے روایت کے عیون الفاظ یہ ہیں۔ قال لھم قوموابناالی امامی و امامکم علی بن الحسین علیھماالسلام دخل ودخلواعلیہ اخبرہ خیرھم الذی جاوٴا الیہ ولاجلہ قال یا عم لوان عبدا زبخیا تعصب لنا اھل البیت لوجب علی الناس موازرتہ ولقد ولیتک ھذا لامر فاصنع فاصنع ماشت فخر جواوقد سمعوا کلامہ وھم یقولون اَذِنَ لنازین العابدین علیہ السلام وَ محمد بن الحنفیہ(ع) (الخ دمعۃ ساکبہ ۴۰۸ وذوب النضار ص ۴۰۷ ) و محمد بن الحنفیة۔ (ترجمہ) "جب وہ لوگ حضرت محمد حنفیہ(ع) کے پاس پہنچے تو انہوں نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو اور ہمارے ساتھ حضرت امام زین العابدین کے پاس چلو جو ہمارے اور تمہارے امام ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ ان کی خدمت میں پہنچے اور ان سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت امام زین العابدین (ع) نے فرمایا کہ اے میرے چچا جہاں تک انتقام کا تعلق ہے میں یہ کہتا ہوں کہ اگر غلام زنگی بھی ہم اہلبیت کے بارے میں زیادتی کرے تو ہر مسلمان پر اس کا مواخذہ واجب ہے (اور اے چچا سنو !) میں نے اس کے بارے میں تم کو والی امر بنا دیا ہے اب تمہارا جوجی چاہے کرو یہ سن کر وہ لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے اور انہوں نے کوفہ پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں انتقام لینے کی اجازت حضرت امام زین العابدین اور حضرت محمد حنفیہ(ع) نے دے دی ہے۔" الغرض حضرت محمد حنفیہ(ع) حضرت امام زین العابدین (ع) سے ولایت امر حاصل کرنے کے بعد اپنے دولت کدہ پرواپس آئے اور انہوں نے حضرت مختار کو چالیس اعیان واشراف کوفہ کے نام خطوط حمایت لکھ کردئیے جن میں ایک خط حضرت ابراہیم ابن مالک اشتر کے نام کا بھی تھا یہ وہی خطوط ہیں جنہیں مختار نے کوفہ پہنچ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ (رو ضۃ الصفا جلد 3 ص 78) حجۃ الاسلام مولانا محمد ابراہیم مجتہد کی تحریر سے مستفاد ہوتا ہے کہ حضرت مختار حضرت امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں پیش ہوئے اور چونکہ خاندان رسالت کی نمایاں حمایت کیے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا۔ اس لیے حضرت محمد حنفیہ(ع) کو پیش پیش رکھا۔ (نورالابصار ص 6) عالم اہل سنت علامہ عبداللہ ابن محمد لکھتے ہیں کہ حضرت محمد حنفیہ(ع) نے اپنا دستخطی فرمان دے کر حضرت مختار کو کوفہ کی طرف روانہ کردیا ۔ اور اس میں یہ بھی لکھا کہ مختار میری طرف سے مازون اور ولی امر ہیں ان کی حمایت واطاعت کرو۔ (قرة العین ص 146) غرضیکہ حضرت امام زین العابدین (ع) نے حضرت مختار کو بالواسطہ اجازت دی اور وہ انتقامی مہم کے لیے کوفہ کو روانہ ہوگئے ۔ حضرت امام زین العابدین اپنے اصحاب سے اکثر اس کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بہت جلد مختار کامیاب ہوکر ابن زیاد اور عمر سعد وغیرہ ہما کا سرمیرے پاس بھیجیں گے ۔ (جلاء العیون علامہ مجلسی ص 248) یہ امر بھولنا نہیں چاہیے کہ حضرت مختار ابھی مکہ ہی میں تھے کہ یزید بن معاویہ کا انتقال ہوگیا اور ابن زبیر کی حکومت نے جڑ پکڑ لی اور اس کی حکومت حجاز ، بصرہ اور کوفہ میں مستقر و قائم ہوگئی۔ خبر انتقال یزید کے بعد حضرت مختار اپنی روانگی سے پہلے عبداللہ ابن زبیر کے پاس گئے۔ ان کے جانے کا مطلب یہ تھا کہ اس سے مل کر اس کا رخ دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ اس کے خیالات کیا ہیں ، حضرت مختار جب عبداللہ ابن زبیر سے ملے تو اسے بالکل بدلا ہوا پایا ۔ حکومت کے وسیع ہوجانے سے ابن زبیر اپنے وعدہ سے بھی پھر گیا اور انتقام خون حسین (ع) کا جو نعرہ لگاتا تھا اسے بھی بھلا بیٹھا ۔ حضرت مختار کو اس کا یہ رویہ سخت ناگوار ہوا اور آپ نے دل میں ٹھان لی کہ میں اس کے خلاف بھی خروج کروں گا۔ (نورالابصار ص 85) علامہ معاصر مولانا سید ظفر حسن لکھتے ہیں کہ یزید اور ابن زبیر کی کشمکش میں 63 ھ ئتمام ہوا اور 64ء کا آغاز ہونے لگا اس مدت میں ابن زبیر کی حکومت مکہ و مدینہ سے بڑھ کر یمن اور حضرموت تک جاپہنچی تھی ۔ کوفہ میں بھی اس کے اثرات کی برقی رودوڑنی لگی تھی ۔ یزید گھبرا اٹھا ابن زبیر بڑے توڑ جوڑ کے آدمی تھے ۔ انہوں نے بنی امیہ کے تمام حکمرانوں کو جویزید کے معین کیے ہوئے تھے ۔ مکہ اور مدینہ دونوں سے نکال باہر کیا اور خود ملکی انتظام کی باگ اپنے ہاتھ میں تھام لی اب تو یزید کے غیظ و غضب کی کوئی انتہا نہ رہی اس نے مسلم بن عقبہ اور حصین بن نمیر کی ماتحتی میں د س ہزار فوج مکہ و مدینہ کی طرف روانہ کی اور یہ تاکید کردی کہ پہلے حتی الامکان تین روز مدینے کو خوب لوٹا جائے ۔ پھر مکہ پر چڑھانی کی جائے یہ جرار لشکر منزلیں مارتا مدینہ میں داخل ہوگیا مسلم بن عقبہ نے بیعت کی بہت کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی ادھر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ یزید نے ابن زیاد کو مکہ کی مہم پر بھیجنا چاہا وہ راضی نہ ہوا اور صاف صاف کہہ دیا کہ میرے لیے قتل حسین (ع) کا گناہ کافی ہے اس پر اہل مکہ کے قتل کا گناہ اضافہ کرنا نہیں چاہتا اس انکار سے یزید کا خطرہ اور بڑھ گیا اس نے مسلم بن عقبہ کو ایک خط اور بھیج کر یہ تاکید کی کہ مدینہ پہنچے تو امام زین العابدین (ع) سے کوئی تعرض نہ کرے ۔ بلکہ ان کی تعظیم و تکریم کا پورا لحاظ رکھے کیونکہ اس فساد میں ان کا ہاتھ نہیں۔ مسلم بن عقبہ تو اپنا ایمان جاہ و منصب کی قرباں گاہ پر پہلے ہی بھینٹ چڑھا چکاتھا اس کو مدینہ کی غارت گری میں کیا تامل ہوسکتا تھا وہ آندھی کی طرح حجاز میں آیا اور جنگ کا آغاز کرکے مدینہ رسول کے امن وا مان کو اپنے عسکری گرد و غبار میں لپیٹ لیا ۔ یہ لڑائی واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے ۔
28 ذی الحجہ 64 ھ سے اس کا آغاز ہوا تھا پہلے تو اہل مدینہ نے بڑی دلیری سے فوج شام کا مقابلہ کیا لیکن جب ان کا سردار عبداللہ بن مطیع بھاگ کھڑا ہوا تو سب کے قدم بھی میدان سے اکھڑگئے ابن عقبہ مدینہ میں داخل ہوا اور حکم یزید کے مطابق تین دن متواتر قتل عام کرتا رہا نوبت یہ پہنچی کہ تمام اصحاب رسول گھروں سے نکل کر پہاڑوں اور جنگلوں میں جاچھپے تاہم سات سوبزرگان قریش جن میں قاریان قران کی ایک بڑی تعداد شامل تھی قتل کیے گئے اور عام طور پر … مدینہ کی عورتوں کے ساتھ زنا کیا گیا جن کے بطن سے نوسوزنا زاد ے پیدا ہوئے دس ہزار غلام تلوار کے گھاٹ اتارے گئے جو لوگ بچ رہے تھے مسلم بن عقبہ نے ان سے یہ کہہ کر بیعت لی کہ ہم یزید کے غلام ہیں جس نے یہ کہنا پسند نہ کیا قتل کر ڈالا گیا… مدینہ کی مہم سرکرتے ہی مسلم بن عقبہ بیمار ہوگیا اور اس کا مرض روز بروز بڑھنے لگا یزید کے حکم کے مطابق اس نے مکہ کی مہم ابن نمیر کے سپرد کردی اور یہ تاکید کردی کہ خانہ کعبہ کی حرمت کا کوئی خیال نہ کیا جائے اور جس طرح بنے وہاں کے لوگوں پرقبضہ کیا جائے امیروقت کی اطاعت خانہ کعبہ کی حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔ (العیاذ باللہ) مسلم بن عقبہ مرگیا اور ابن نمیر نے پوری تیاری کے ساتھ مکہ پر دھاوا کیا ۔
ابن زبیر مقابلہ کیلئے نکلے ۔ بازار کا ر زار گرم ہوا منذر ابن زبیر مارا گیا اور فوج شام نے غلبہ پاکر اہل مکہ کو شکست دی ابن زبیر روپوش ہوگئے ۔ ابن نمیر نے فوج کو حکم دیا کہ منجنیقوں سے کعبہ پر پتھر برساؤ چنانچہ پتھروں کی بارش سے بہت سے شہر ی زخمی ہوئے سارا شہر محاصرہ میں تھا جس کا سلسلہ ماہ صفر سے آخر ربیع الاول تک قائم رہا۔
جب اہل شام پتھر برساتے برساتے تھک گئے تو انہوں نے منجنیقوں سے گندھک اور روئی میں آگ لگا کر پھینکنی شروع کی جس سے خانہ کعبہ کے پردے جل اٹھے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں نذآتش ہوئیں۔ ابھی محاصرہ اٹھنے نہ پایا تھا کہ دمشق میں یزید لعین واصل جہنم ہوا مکہ میں خبر پہنچی تو ابن نمیر کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اب اسے ٹھہرنا دشوار ہوگیا چلتے وقت ابن زبیر کو کعبہ میں بلا کر کہا یزید تو مرگیا میں اپنے تمام لشکر کے ساتھ اس شرط پر تمہاری بیعت کرسکتا ہوں کہ ہمارے ساتھ دمشق چلے چلو وہاں ہم تمہیں تخت پر بیٹھا دیں گے۔اس نے کہا جب تک مکہ اور مدینہ والوں کے خون کا کل اہل شام سے بدلہ نہ لے لوں گا کوئی کام نہ کروں گا ابن نمیر ابن زبیر کی کج فہمی کو سمجھ گیا کہنے لگا کہ جو شخص تجھ کو صاحب عقل و ہوش سمجھے وہ خود بیوقوف ہے میں تجھے نیک صلاح دیتا ہوں اور تو مجھے دھمکاتا ہے۔ یزید کے مرنے سے ابن زبیر کے سرپرآئی بلاٹل گئی اس نے شکست خوردہ فوج کو پھر جمع کیا اور وہ شہر مکہ پر پھر بدستور قابض ہوگیا ۔ مدینہ والوں نے ابن عقبہ کے معین کیے ہوئے حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا۔ ابن زبیر نے یہاں بھی قبضہ کرلیا ۔
اب بھلا ایسی صورت میں جب کہ ابن زبیر کا عروج بڑھ رہا تھا وہ حضرت مختار کی کیا پروا کرتا ۔
بالآخر انہوں نے حضرت مختار کی طرف سے بے رخی کی حضرت مختار اس کی روش سے سخت بددل ہوگئے مختار کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ ابن زبیر نے حکومت حاصل کرنے کے بعد خون حسین کے بدلہ لینے کا خیال مطلقاً ترک کردیا۔ موٴرخ ہروی کا بیان ہے کہ حضرت مختار نے ابن زبیر سے عہد وپیمان کرلیا تھا اور ان کا پورا ساتھ دے رہے تھے ۔ جب اس پر مصیبت آئی یہ اس کی مدد کرتے تھے چنانچہ جب عمر بن زبیر جو عبداللہ ابن زبیر کا بھائی تھا اپنے بھائی سے لڑنے کیلئے مکہ پر حملہ آور ہوا تو مختار کمر جدواجتہاد بستہ درجنگ سعی بسیار نمووتاعمر گرفتار گشت مختار نے کمال سعی و کوشش سے اس کا مقابلہ کیا اور اس درجہ اس سے جنگ کی کہ عمر گرفتار ہوگیا اسی طرح جب حصین ابن نمیر نے حکم یزید سے مکہ کا محاصرہ کیا تو مختار نے دفع لشکر شام میں کمال جرأت سے دادِ مردانگی دی اور جب یزید فوت ہوگیا اور ابن زبیر کی حکومت حجاز کوفہ بصرہ تک پہنچ گئی تو اس نے ان سے بے التفاتی شروع کی اور اپنے تمام وعدوں سے وہ پھر گیا اس کے طرز عمل سے مختار سخت بددل ہو گئے اور ابن زبیر کے خلاف بھی خروج کا تہیہ کرکے مکہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ (رو ضۃ الصفا ج 3 ص 75)