مختار آل محمد
پانچواں باب
جناب مختار کا جذبہٴ عقیدت
جناب مختار کا جذبہٴ عقیدت اور ان کے متعلق حضرات آئمہ طاہرین (ع)کے خیالات و تصورات کتب سیرو تواریخ اور احادیث واقوال آئمہ دیکھنے سے روز روشن کی طرح یہ امرواضح ہوجاتا ہے کہ حضرت مختار حضرات آلِ محمد سے پوری پوری محبت و الفت رکھتے تھے اور اہل بیت (ع) سے ان کا جذبہ عقیدت درجہ کمال پر فائز تھا وہ ان حضرات شراب محبت و مودت سے ہمہ وقت سرشار رہا کرتے تھے اور ان کے منہ سے جو الفاظ نکلتے تھے ان میں محبت کی بواور ان سے جو افعال سرزد ہوتے ان میں ان کی تاسی کی خو ہوتی تھی ۔ ولادت سے لے کر جوانی اور جوانی سے عہد شہادت تک کے واقعات پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے ۔ کہ انہوں نے کسی وقت بھی آل محمد کے خلاف کبھی کوئی نظریہ قائم نہیں کیا اور یہ عقیدہ اور مذہب کے لحاظ سے شیعہ کا مل تھے یہی وجہ ہے کہ کسی شیعہ عالم کو ان کی شیعیت میں کوئی شبہ نہیں ہوا تواریخ میں ہے کہ حضرت مختار حضرات آل محمد سے کمال محبت کی وجہ سے واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کیلئے سر سے کفن باندھ کر اٹھے اور بفضلہ تعالیٰ اس میں پورے طور پر کامیاب ہوئے۔ علامہ محمد ابراہیم لکھنوی لکھتے ہیں کہ حضرت مختار کمال جذبہ عقیدت کے ساتھ اٹھے اور ایک بادشاہ پرشکوہ کی شان سے دشمنوں کے قلع و قمع کرنے کی طرف متوجہ ہوکر اس درجہ پر فائز ہوگئے جس پر عرب و عجم میں سے کوئی فائز نہیں ہوا ۔ مختار کے جذبہ عقیدت اور حسن عقیدہ پر ایک عظیم شاہد بھی ہے اور وہ حضرت ابراہیم ابن مالک اشتر کی ذات ستودہ صفات کی کار مختار میں شرکت ہے جس کی آل محمد سے عقیدت اور مذہب شیعہ میں پختگی مہر نیمر وز سے بھی زیادہ روشن ہے (نورالابصار ص 12) اور چونکہ مختار نے کمال جذبہ کے ساتھ نہایت بے جگری سے واقعہ کربلا کا بدلہ لیا تھا ۔
اسی لیے اہل کوفہ پریشان حال لوگوں کے لیے ضرب المثل کے طور پر کہتے تھے کہ ان کے گھر میں مختار داخل ہوگئے ہیں (مجالس المومنین ص 356) اور چونکہ حضرت مختار نے دشمنان آل محمد کا قتل ابوعمرہ کیسان ، غلام حضرت امیرالمومنین (ع) کے ہاتھوں کرایا تھا اسی لیے جب کسی پر کوئی تباہی آتی تھی ۔ ضرب المثل کے طور پر اہل کوفہ کہا کرتے تھے دخل ابوعمرہ بیتہ اس کے گھر میں ابوعمرہ داخل ہوگیا ہے ۔ (دمعۃ ساکبہ ص 401) غرضیکہ حضرت مختار کا جذبہ عقیدت ایسا ہے جس پر حرف نہیں رکھا جاسکتا ۔علامہ حافظ عطا ء الدین حسام الواعظ رقمطراز ہیں بد انکہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی ازجملہ مخلصان اہل بیت بودمعلوم ہونا چاہیئے ۔کہ حضرت مختار پیغمبر اسلام (ص) کے اہل بیت (ع)اطہار کے مخلصوں میں سے ایک اہم مخلص تھے ۔(رو ضۃ المجاہدین ص3) اس خلوص کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے جسے تاریخ میں واقعہ موصل سے یاد کیا جاتا ہے علامہ مجلسی رقمطراز ہیں کہ جب حضرت مختار نے حضرت ابرہیم ابن مالک اشتر کو قتل ابن زیاد کے لیے موصل کی طرف روانہ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ روانہ ہوئے تو حضرت مختار ان کو رخصت کرنے کے لیے پیدل ان کے ساتھ ہوئے اور کافی دور تک گئے ۔حضرت ابراہیم نے راستہ میں حضرت مختار سے کہا ۔سوار شو خدا ترا رحمت کند مختار گفت مینحوا ہم ،ثواب من زیادہ با شد در مشایعت تو ومی خواہم کہ قد مہائے من گرد آلود شد در نصرت ویاری آلِ محمد کہ آپ پا پیادہ پیدل چل رہے ہیں بہتر ہے کہ آپ سوار ہو جائیں۔مختار نے جواب میں کہا کہ میں آپ کے ساتھ پیدل اس لیے چل رہا ہوں ۔تاکہ مجھے زیادہ ثواب مل سکے ۔اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میری قدم نصرت آل محمد کے سلسلہ میں گرد آلود ہوں ۔(جلاء العیون ص244وبحارالانوار جلد 10ص396) چونکہ ان کا جذبہ محبت کامل تھا اسی لیے محمد وآل محمد (ص) کوان پر پور ا پورا اعتماد تھا اور ان حضرات کے نظریات و تو جہات اور خیالات و تصورات ان کے بارے میں نہایت پاک اور پاکیزہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول کریم (ص)نے ان کی ولادت کی بشارت دی (نورالابصارص14)حضرت علی (ع)نے انہیں اپنی آغوش میں کھلایا (رجال کشی ص 84)حضرت امام حسن (ع) نے شہاد ت حضرت علی (ع) کے موقعہ پر ان کی مواسات قبول فرمائی ۔حضرت اما م حسین (ع) نے جنگ کربلا میں ان کا حوالہ دیا ۔(اسرار الشہادت ص571)حضرت امام زین العابدین (ع)نے ان کو دعائیں دیں ۔(رجال کشی ص۵۸)
حضرت امام محمد باقر (ع)نے ان کی برائی کرنے سے روکا ۔حضرت امام جعفر صادق (ع) نے آپ پر نزول رحمت کی دعا فرمائی ۔(مجالس المومنین ص356)ان اشارات کی مختصر لفظوں میں تفصیل ملاحظہ ہو ۔ حضرت رسول کریم (ص) کی مختار کے متعلق بشارت تحریر کی جاچکی ہے کہ حضرت علی (ع) کا مختار کو گود میں لے کر پیار کرنا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر حوصلہ افزا کلمات اپنی زبان پر جاری فرمانا مرقوم ہو چکا۔حضرت امام حسن (ع)(ع)کے ساتھ جناب مختار نے جو مواسات کی اسے تاریخ کی روشنی میں ملاحظہ کیجئے۔کتاب چودہ ستارے سے ص201میں ہے کہ صفین کے سازشی فیصلہ حکمین کے بعد حضرت علی (ع)اس نتیجہ پر پہنچے کہ اب ایک فیصلہ کن حملہ کرنا چاہیئے ۔چنانچہ آپ نے تیار ی شروع فرمادی اور صفین ونہروان کے بعد ہی سے آپ اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔یہاں تک کہ حملہ کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔دس ہزار افسر امام حسین (ع) کو اور دس ہزار فوج کا سردار قیس ابن سعد کو اور دس ہزارکا ابو ایوب انصاری کو مقرر کیا۔ ابن خلدون کا بیان ہے کہ فوج کی جو مکمل فہرست تیار ہوئی اس میں چالیس ہزار آزمودہ کار سترہ ہزار رنگروٹ اور آٹھ ہزار مزودر پیشہ شامل تھے لیکن کوچ کا دن آنے سے پہلے ابن ملجم نے کام تمام کردیا ۔ مقدمہ نہج البلاغہ عبدالرزاق جلد 2 ص 704 میں ہے کہ فیصلہ تو ڈھونگ ہی تھا مگر صفین کی جنگ ختم ہوگئی اور معاویہ حتمی تبا ہی سے بچ گیا۔ اب امیرالمومنین نے کوفہ کا رخ کیا اور معاویہ پر آخری ضرب لگانے کی تیاریاں کرنے لگے ، ساٹھ ہزار فوج آراستہ ہوچکی تھی اور یلغار شروع ہی ہونے والی تھی کہ ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم نے دغا بازی سے حملہ کردیا ۔ حضرت امیرالمومنین شہید ہوگئے۔ ابن ملجم کی تلوار نے حضرت علی (ع) کا کام تمام نہیں کیا بلکہ پوری امت مسلمہ کو قتل کرڈالا تاریخ کا دھار ہی بدل ڈالا ابن ملجم کی تلوار نہ ہوتی تو خلافت منہاج نبوت پر استوار رہتی بہرحال امیرالمومنین 21 رمضان 40 ھ کو مسجد کوفہ میں شہید ہوگئے۔ حضرت امام حسین (ع) وغیرہ نے فرائض غسل و کفن سے سبکدوش حاصل کی ۔ حضرت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کا بیان ہے کہ دفن و کفن سے فراغت کے بعد حضرت امام حسن (ع) غریب خانہ پر تشریف لائے میں نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا اور ان کی پوری خدمت کی اس کے بعد سے ان کی تاحیات خدمت کرتا رہا اور ان کے بعد سے حضرت امام حسین کی خدمت گزاری کو فریضہ جانتا رہا۔ حضرت امام زین العابدین (ع) ، حضرت امام محمد باقر (ع)، حضرت امام جعفر صادق (ع) کے وہ ارشادات جوجناب مختار سے متعلق ہیں۔
انہیں علامہ ابوعمر و محمد بن عبدالعزیز الکشی کی کتاب الرجال میں ملاحظہ فرمائیے حضرت امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں جناب مختار نے سرابن زیاد اور عمر سعد بھیجا تو آپ نے سجدہ شکر ادا کیا اور کہا خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے دشمنوں سے بدلا لیا۔ وجزی اللہ المختار خیرا ً۔
خداوندعالم اس عمل کی مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کو جزائے خیر دے ۔ (ص 85) حضرت امام محمد باقر (ع) ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی زن ہاشمیہ نے اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کی اور نہ خضاب لگایا ہے جب تک مختار نے امام حسین کے قاتلوں کے سر نہیں بھیجے ۔ (84) علامہ سید نوراللہ شوشتری تحریر فرماتے ہیں کہ (لوگوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ) بعض لوگ حضرت مختار کی مذمت کرنے لگے تو چونکہ وہ زمانہ حضرت امام محمد باقر (ع) کا تھا اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے اس ارتکاب سے منع فرمایا اور کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ کہ مختار نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا ہمارے شیعوں کی بیواؤں کی تزویج کرائی اور بیت المال سے جوان کے دست تصرف میں تھا ۔ کافی مال بھیج کہ امداد کی منقول است کہ حضرت امام جعفر صادق برادر رحمت فرستاد ،مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے مختار کے کارناموں سے تاثر کی وجہ سے ان کے لیے رحمت کی دعا کی ہے۔ (مجالس المومنین ص 356) حضرت آقائے دربندی تحریر فرماتے ہیں کہ مرزبانی نے حضرت امام جعفر صادق (ع)سے روایت کی ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد سے پانچ حج ایسے گزر گئے تھے کہ بنی ہاشم کے گھروں میں دھواں نہیں اٹھا تھا اور نہ کسی عورت نے غم کے کپڑے اتارے تھے جب مختار نے عمر سعد اور ابن زیاد کا سر بھیجا تب گھر میں آگ بھی جلائی گئی اور غم کے کپڑے بھی اتارے گئے … فاطمہ بنت علی کا بیان ہے کہ جب تک مختار نے زیاد اور ابن سعد کا سر ہمارے پاس نہیں بھیجا ۔ ہم نے سرمہ نہیں لگایا اور سر میں تیل نہیں ڈالا ۔ (اسرارالشہادت ص 568طبع ایران 1286ھ) واضح ہوکہ رجال کشی اور بعض دیگر کتب میں بعض ایسی روایات بھی مندرج ہوگئی ہیں جن سے حضرت مختار کی مخالفت ظاہر ہوتی ہے یہ روایات ضعیف ہیں علامہ دربندی ارشاد فرماتے ہیں کہ ایسی روایات یا توتقیہ پر محمول ہیں یا ضعیف راویوں کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی چیزیں عامہ کے پروپیگنڈے سے بالکل اختراع کے طور پر آگئی ہیں یہ ہرگز قابل تسلیم نہیں ہیں (اسرار الشہادت ص 568) حجۃ الاسلام علامہ محمد ابراہیم مجتہد لکھنوی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مختار کے بارے میں ایسی جملہ عبارات و تحریرات اور روایات دشمنان آل محمد کی وجہ سے شہرت پاگئی ہیں ۔ مختار کا زمانہ بنی امیہ کے بادشاہوں کا عہد حکومت تھا جو محمد وآل محمد کے شیعوں کیلئے انتہائی خطرناک تھا مختار نے چونکہ بے شمار بنی امیہ اور ان کے حواریوں کو قتل کیا تھا اس لیے بنی امیہ کے ہواخواہوں نے ان کے خلاف ایسی چیزیں مشہور کردیں جو ان کے وثاقت اور ان کے وقار کو پامال کردیں اور ان سے یہ چیزیں بعید نہ تھیں کیوں کہ ان لوگوں نے ایسی حرکتیں امیرالمومنین جیسی شخصیت کے خلاف بھی کی ہیں ۔ (اور امام حسن (ع) کو بدنام کرنے کی ناکام سعی کی ہے) اور وہ روایات جو امام تک صحیح راستوں سے منتہی ہوتی ہیں وہ قطعی طور تقیہ پر محمول ہیں کیونکہ بنی امیہ سے ان حضرات کے خطرات ظاہر ہیں ایک روایت جو اس قسم کی ہے کہ حضرت امام زین العابدین (ع) نے 20 ہزار کا مرسلہ ہدیہ قبول فرمالیا۔پھر جب ایک لاکھ کا ہدیہ ارسال کیا تو آپ نے اسے پسند نہ فرمایا بلکہ مختار کے رسل و رسائل سے بھی اجتناب کیا یہ واضح کرتی ہے کہ امام (ع)نے حالات کی روشنی میں ایسا کیا تھا۔ (نورالابصار ص 7) میں کہتا ہوں کہ اگر ان کی نگاہ میں عمل مختار صحیح نہ ہوتا تو وہ پہلے ہی واپس فرما دیتے ، انہوں نے پہلے تسلیم کرلیا اور اس سے غربا کے پرورش کی ان کے مکانات کی مرمت کرائی اور اسے بیواؤں پر صرف کیا ، جیسا کہ حضرت امام محمد باقر (ع) کے ارشاد سے واضح ہے لیکن جب انہیں خطرہ محسوس ہوا تو وہ اس کے استعمال سے مجتنب ہوگئے۔ (رجال کشی ص 83)
علامہ مذکور تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختار کے دشمنوں نے ایسے ناپسندیدہ مطاعن اور مثالب سے انہیں مطعون کیا جو نظر مومنین سے انہیں گرادیں اور یہ بالکل ویسے کیا جیسے حضرت امیرالمومنین کے ساتھ کرچکے تھے ۔
جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ راہ راست سے بھٹک گئے اور انہوں نے اپنے کو ورطہ تباہی میں ڈال دیا ۔ (نورالابصار ص 13) علامہ شیخ جعفر بن محمد بن نما علیہ الرحمة تحریر فرماتے ہیں کہ معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علما کو الفاظ کے سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی نہ وہ روایات کو نقل کرتے ہوئے غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے ہیں لیکن اگر وہ مدح مختار میں اقوال آئمہ علیہم السلام پر غور کرتے تو انہیں یہ معلوم ہوجاتا کہ یہ ان سبقت کرنے والے مجاہدین میں داخل ہیں جن کی مدح خداوندعالم نے کتاب مبین میں کی ہے اور مختار کیلئے امام زین العابدین (ع) کی دعا دلیل ظاہر و روشن ہے کہ وہ حضرت کے نزدیک منتخب و نیکو کا ر افراد میں داخل تھے
اگر مختار درست وصحیح راستے پر نہ ہوتے اور امام کے علم میں ہوتا کہ وہ اعتقادات میں حضرت کے مخالف میں تو ہرگز ایسی دعا نہ کرتے جوباب اجابت سے ٹکرائے نہ ایسی بات کہتے جو اچھی نہ سمجھی جائے اور حضرت کی دعاعبث و بیکار ہوجاتی حالانکہ یہ محقق ہے کہ امام کا دامن عبث کام سے پاکیزہ و پاک ہے ہم نے اس کتاب کے اثنا میں متعدد مقامات پر ایسے اقوال لکھے ہیں جن سے ان کی مدح ہوتی ہے اور برابھلا کہنے کی ممانعت پائی جاتی ہے وہ مدح و ثنا اور ممانعت ارباب علم و بصیرت کیلئے کافی و وافی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اعداء جناب مختار نے اس طرح کی حدیثیں صرف اس لیے گڑھی ہیں تاکہ شیعوں کے دل اس سے متنفرہوجائیں ۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ حضرت امیرالمومنین کے دشمنوں نے بہت سی برائیاں حضرت کی جانب منسوب کی ہیں جن کے سبب سے بہت سے لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گر گئے ۔اور ان کی محبت و الفت سے کنارہ کش ہوگئے لیکن جو لوگ حضرت کے سچے دوست تھے ان کی حالت وہمی چیزوں نے نہیں بدلی نہ وہ ان خواب پریشان سے گمراہ ہوئے جناب مختار کے ساتھ بھی دشمنوں نے وہی برتاؤ کیا جو برتاؤ ابوالائمہ حضرت امیرالمومنین (ع)سے کیا تھا ۔ (ذوب النضار شرح الثار ص 415 و دمعۃ ساکبہ ص 403 ) ابن نما علیہ رحمة نے جو کچھ فرمایا ہے نہایت مضبوط اور درست ہے اس لیے کہ جس شخص نے کوفہ میں دشمنان اہل بیت کو چن چن کر قتل کیا ہو ۔قاتلان امام حسین (ع) کو تہ تیغ کیا ہو ۔ان کے گھر کھدوادے ہوں ان کی لیے دسعت زمین کو تنگ کیا ۔بنی امیہ اور عبداللہ ابن زبیر کی حکومت کے ارکان متزلزل کر دئیے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے بدنام کرنے کی انہوں نے ہر امکانی سعی و کوشش کی ہو گی ۔اس لیے احادیث مذمت کسی طرح قابل اعتماد و وثوق نہیں ہو سکتے ۔ہمارے فرقے کے محققین و علما ء نے زبردست الفاظ میں ان کے مدح و ثنا کی ہے ۔جس سے ان کی عظمت وجلالت پر اچھی طرح روشنی پڑتی ہے ہم یہاں پر ان میں بعض اقوال کو نقل کرتے ہیں ۔ علامہ کبیر حضرت محقق اردبیلی حدیقہ الشیعہ میں فرماتے ہیں کہ جناب مختار کے حسن عقیدہ میں کلام کی گنجائش نہیں ہے ۔جناب علامہ حلی علیہ الرحمہ نے ان کو مقبول لوگوں میں شمار کیا ہے ۔امام محمد باقر (ع) نے ان کے لیے دعائے خیر کی ہے ۔
جناب مختار کے موثق و معتبر ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت سید الشہداء کی شان یہ ہے کہ لوگ صرف آپ کے غم میں گریہ وزاری کے سبب سے داخل جنت ہوں گے اور جہنم سے آزاد ہوں گے ۔اسی طرح وہ بھی جنتی ہوگا جو یہ تمنا کرے کہ کاش میں حضرت اور حضرت کے اصحاب کے ساتھ روز عاشور اہوتا اور شرف شہادت حاصل کرتا تو یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ مختار کے مانند انسان جہنم میں داخل ہو جنت ان پرحرام ہو ۔حالانکہ انہوں نے عمر سعد ،شمر بن ذی الجوشن، خولی اصبحی ،قیس ابن اشعث (ابن زیاد)اور ان کے مثل اعداء سید الشہداء (ع) کو قتل کیا ہے اس کے بعد علامہ ارد بیلی ختم و جزم ویقین کے ساتھ فرماتے ہیں کہ جناب مختار اور ان کے امثال پیش پرودگار درجات رفیعہ اور مراتب عالیہ کے مالک ہیں ۔علامہ احمد اردبیلی نے اپنی تحریر میں جو واقعہ کربلا میں شریک ہونے کی تمنا کرنے سے نجات پانے کی طرف ارشاد فرمایا ہے اس کے ذیل میں ایک اہم واقعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ : ایک روز بادشاہ عمر بن لیث اپنے لشکر کا جائزہ لے رہا تھا اور اس نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جس افسر کی فوج میں ایک ہزار چیدہ جوان ہو ں گے اس کو ایک سونے کا گرز عطا کروں گا ۔جب وہ جائزہ سے فارغ ہوا اور حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس نے ایک سو بیس طلائی گرز عطا کیے ہیں جب اس نے ایک سو بیس گرز کا لفظ سنا جس سے ایک لاکھ بیس ہزار فوج کے جوان ہوتے تھے ۔تو خود ازاسپ بزیر انداخت و سر بسجدہ نہاد اپنے کو گھوڑے سے گرا دیا اور سر کو سجدہ میں رکھ کر رونا شروع کیا اور اپنے منہ پر خاک ملنے لگا ۔اور اسی عالم میں اتنی دیر تک روتا رہا کہ بیہوش ہو گیا۔بالآخر جب ہوش آیا تو اس کے ایک مصاحب نے پوچھا جان پناہ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں۔حضور یہ تو خوشی کا موقعہ تھا اس وقت گریہ وزاری کیسی ؟بادشاہ نے کہا کہ جب میں نے یہ سنا کہ میری فوج میں ایک لاکھ بیس ہزار جوان ہیں ۔
واقعہ کربلا بخاطر رسید مجھے واقعہ کربلا یاد آگیا اور اس کا نقشہ آنکھوں میں پھر گیا اور یہ حسرت پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی اس روز لشکر سمیت کربلا میں موجود ہوتا اور یا تو کفار مسلمین کو تہس نہس کر دیتا اور اپنے آقا ومولا امام حسین پر قربان ہو جاتا۔جب بادشاہ کا انتقال ہو ا تو لوگوں نے اسے ایسی حالت میں خواب میں دیکھا۔کہ اس کے سر پر تاج مرصع ہے اور بر میں لباس فاخرہ اور حورو غلمان اس کے آگے پیچھے چکر لگا رہے ہیں کسی نے کہا اے بادشاہ مرنے کے بعدتجھ پر کیا گزری اس نے عالم خواب ہی میں جواب دیا کہ خداوند عالم نے میری اس تمنا کے عوض جو میں جائزہ لشکر کے دن کی تھی میرے سارے گناہان صغیرہ وکبیرہ بخش دیئے وہرگاہ بمجرد نیتی کہ بجہت نصرت امام شہید درد دل شخصے گذرد ونجات حاصل گردد نصرت سید الشہدا کی وجہ سے نجات ہو سکتی ہے تو مختار اور انہی کے مثل لوگوں کے نجات کیونکر نہ ہوگی یقین ہے کہ ایسے لوگوں کو بلند درجے اور عظیم مراتب حاصل ہوں گے ۔ (نورالابصار ص11طبع لکھنوء)
غرضیکہ حضرت مختار کی جلالت قدر کسی قسم کا شبہ نہیں وہ خدا اور رسول اور آئمہ طاہرین کی نظر میں ممدوح تھے۔یہی وجہ ہے کہ علما اہل تشیع میں سے ان کی کسی نے مخالفت نہیں کہ بلکہ تقریبا ً تمام کے تمام علماء ان کو اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔حضرت علامہ مجلسی کا بیان ہے کہ یہ علما ء کی نگاہ میں مشکورین میں سے تھے۔(بحارالانوارص398ج1) آقائے دربندی کا بیان ہے کہ اکثر اصحابنا علی انہ مشکور روزائرہ ماجور۔کہ اکثر اصحاب کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ حضرت مختار قابل تشکر ہیں اور ان کی زیارت کرنے والا ، اجر وثواب پائے گا آپ کا یہ بھی بیان ہے کہ ان المختار ابن ابی عبیدہ لا الثقفی مشکور عنہ اللہ وعزوجل وعند حججہ المعصومین (ع) ممدوح ہیں کہ حضرت مختار خدا وند عالم اور آئمہ معصومین (ع) کے نزدیک مشکور و ممدوح ہیں (اسرار الشہادت ص527)مختصر یہ کہ حضرت مختار کے خلاف جو بھی مشہور ہے وہ بنی امیہ کے پروپینگنڈے کا نتیجہ ہے (تنقیح المقال علامہ مامقانی )اور یہ عجیب بات ہے کہ جو پروپیگنڈا بنی امیہ نے کیا تھا ۔ان کے ماننے والے اسے اب بھی جلا دے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اموی پر ستاروں میں سے کسی ایک نے بھی حضرت مختار کی مدح نہیں کی اور اب یا اس عہد سے پہلے جتنے علما گذرے ہیں انہوں نے حضرت مختار کے خلاف ہی لکھا ہے۔ مثال کے لیے ملاحظہ ہو مولانا محمد ابو الحسن محدث مصنف فیض الباری شرح صحیح بخاری اپنی کتاب خیر المآل فی السما ء الرجال المسمیٰ بہ ترجمة الاکمال میں لکھتے ہیں کہ 1مختار بڑا ہی جھوٹا اتھا ، 2اس کے دل میں ہوس حکومت تھی ۔لیکن وہ امام حسین کے خون بہا کا ڈھونگ رچاتا تھا ،3اس سے بہت سے مخالف دین باتیں ظاہر ہوئیں ۔ محدث دہلوی شیخ عبد الحق لکھتے ہیں کہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کذاب تھا ۔(مشکوٰة شریف ص543طبع دہلی 1273ءء)شیخ اسلام امام بن تیمیہ لکھتے ہیں کہ مختار شیعی کذاب تھا ۔یزید بہت سے دوسرے حکمرانوں سے اچھا تھا وہ عراق کے امیر مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی سے کہیں اچھا تھا ۔
جس نے حضرت حسین(ع) کی حمایت کا علم بلند کیا اور ان کے قاتلوں سے انتقام لیا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ جبریل اس کے پاس آتے ہیں ۔(ترجمہ منہاج السنۃ حسین ویزید ص34طبع ہند پریس کلکۃ) مولوی عبد الشکور لکھنوی لکھتے ہیں ابن سبا کے بعد مختار نے بھی مشرکانہ تعلیم کے رواج دینے میں اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں بہت کام کیا اس نے پہلے نبوت کا پھر خدائی کا دعوے ٰ کیا۔ خاندانی تفرقہ کا فتنہ پیدا کرکے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرایا ۔اس نے واقعہ کربلا کو آلہ کار بنایا تھا ۔ (فتنہ ابن سبا ص67طبع ملتان) مولوی اکبر شادی نجیب آبادی زیر عنوان ملت اسلامیہ میں فتنوں کی ابتدا لکھتے ہیں کہ عبد اللہ ابن سبا کے بروز ثانی مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کی مشرکا نہ تعلیم اور کفر یہ دعاوی کو بھی جزو ایمان سمجھ لیاسلیمان بن صرد خزاعی ہاشمیوں اور شیعیان علی کو فراہم کرکے جنگ عین الورد میں ہزار ہامسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کر ا چکا تھا کہ مختار مذکور نے محمد بن حنیفہ برادر امام حسین اور عبد اللہ ابن عمر کو دھوکا دے کر کوفہ میں اپنی قبولیت اور رسوخ کے لیے راہ نکال لی ۔اور حضرت امام حسین (ع) کی شہادت اور حادثہ کربلا کے دلگداز واقعات وحسرت ناک تذکرہ کو آلہ کا ر بنا کر عبد اللہ بن سبا والے فتنہ خفة کو بیدار کرکے خاندانی امیتازات اور قبائلی عصبیتوں میں جان ڈال دی۔(رسالہ تجدید عہد ربوبیت نمبر ص9لاہور اپریل 1955ءء) علامہ شیخ محمد الخضری نے حضرت مختار کو فتنہ کبریٰ تحریر کیا ہے ۔(تاریخ الامم الاسلامیہ جلد 2ص213طبع مصر )علامہ جلال الدین سیوطی نے حضرت مختار کو المختار الکذاب اب لعنة اللہ تحریر کیا ہے (تاریخ الخلفاء ص149) علامہ سپھر کا شانی ا س کی تصدیق میں لکھتے ہیں کہ اہلسنت حضرت مختار کے کارنامہ عظیم کا طلب حکومت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں (ناسخ التوریخ جلد 2ص666) گر قلم درست غدار ے بود لا جرم منصور بردارے بود اس مشتے نمونہ ازخردار ے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اموی بادشاہوں اور ان کے پرستاروں نے حضرت مختار کو بد نام کیا ہے ۔
ورنہ جیسا کہ ہم نے اوپر تحریر کیا حضرت مختار خدااور رسول اور آئمہ طاہرین کے منظور نظر اور ان کی نگاہ میں مشکور د ممدوح تھے ۔
یہ بالکل درست اور قطعی طور پر اٹل ہے مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بعض علما بھی اس پروپیگنڈا سے متاثر ہو گئے ہیں۔
میرے نزدیک ان لوگوں کے اقوال نظر انداز کر دیئے کہ قابل ہیں اور انہیں بقول علامہ ابن نما معذور سمجھنا چاہیئے ۔

چھٹا باب
حضرت مختارعلما ء کرام کی نگاہ میں
حضرت مختار کے متعلق خداوندعالم ، حضرت محمد مصطفی (ص) اور حضرات معصومین (ع) کے نظریات کو پیش کرنے میں حضرات علماء کرام کے نظریات بھی ایک گونہ واضح ہوگئے ہیں لیکن ہم زیر عنوان بالا اس کی مزید وضاحت کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے ممدوح ہونے میں کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہ جائے۔ واضح ہوکہ ہمارے وہ علماء جن پر ہمارے مذہب حقہ اثنا عشریہ کی بنیادیں استوار ہوئی تھیں۔یعنی جن کا وجود بنیادی نقطہ نگاہ سے ہمارے مذہب میں عظیم سمجھا جاتا ہے ان میں سے تقریباً کل کے کل کی نظروں میں حضرت مختار کو اونچا مقام نصیب ہوا ہے میری نظر سے ہمارے کسی بڑے عالم کی ایک تحریر بھی ایسی نہیں گزری جس میں انہوں نے اپنا نظریہ مختار کے خلاف پیش کیا ہو یہ اور بات ہے کہ انہوں نے نقل قول یا نقل روایات اپنی کتابوں میں کی ہو یعنی ایسا تو ضرور ہے کہ روایات مدح وذم دونوں نقل کردی گئی ہیں لیکن اپنا ذاتی نظریہ کسی نے بھی مخالفت مختار میں نہیں پیش کیا بلکہ اکثر نے ایسا کیا ہے کہ مخالفت کی روایات کی تاویلات کی ہیں البتہ بعض علماء روایت حب شخین سے نجات کلی میں متوقف ہوگئے ہیں لیکن انہوں نے کارنامہ مختار میں ان کے نیک نیتی پر کسی قسم کا شبہ نہیں کیا میرے نزدیک روایت حب شخین تاویل شدہ ہے اور ان کے حسن عقیدہ میں گنجائش کلام نہیں ہے۔ علامہ شہید ثالث رحمة اللہ علیہ رقمطراز ہیں درحسن عقیدہ اودر شیعہ راسخنی نیست حضرت مختار کے حسن عقیدہ میں کسی شیعہ کو کلام و اعتراض کی گنجائش نہیں علامہ کا بیان ہے کہ حضرت علامہ حلی کے نزدیک حصرت مختار مقبول اصحاب میں تھے۔ (مجالس المومنین ص ۳۵۶) علامہ مجلسی کتاب خلاصة المقال فی علم الرجال کے ص 32 پر تحریر فرماتے ہیں کہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی ثقہ تھے ،
علامہ معاصر مولانا سعادت حسین مجتہد رقمطراز ہیں کہ علامہ مامقانی تنقیح القال کی جلد 3 میں حضرت مختار کے متعلق طویل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں تحقیق اس کی مقتضی ہے کہ ہم دو حیثیتوں سے بحث کریں پہلی یہ کہ جناب مختار کا عقیدہ اور مذہب کیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مسلمان بلکہ شیعہ امامی تھے اس پر شیعہ ، سنی دونوں کا اتفاق ہے میرے نزدیک امرحق یہ ہے کہ جانب مختار امامت حضرت زین العابدین (ع)کے قائل تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے حضرت امیرالمومنین (ع) سے یہ سنا تھا کہ اتنے ہزار اعوان و انصار بنی امیہ کو موت کے گھاٹ اتاردیں گے یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ کوئی سنی امیرالومنین (ع)کے لیے یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ آپ عواقب و انجام کو خداوندعالم کے اذن سے جانتے تھے یہ مخصوص عقیدہ مذہب شیعہ کا ہے اس لیے جناب مختار کا حتم و جزم ویقین سے یہ خبر دینا کہ میں کوفہ کا حاکم بنوں گا۔عبیداللہ ابن زیاد مجھے قتل نہیں کر سکتا ۔جب تک میں بنی امیہ کی مدد گار وں میں اتنی آدمیوں کو قتل نہ کردوں ۔اگر یہ مجھے قتل بھی کر دے گا تو خدا وند مجھے زندہ کر لے گا، یہ عقیدہ اہل سنت کے مذہب کے موافق نہیں ہے اور فرقہ حقہ مذہب امامیہ کے لیے مخصوص ہے اس لیے کہ آئمہ کے لیے قائل ہیں کہ وہ عواقب و انجام سے باخبر ہیں۔ جیسا کہ آئمہ کے حا لات کو دیکھنے کے بعد وجدان صحیح اس کو معلوم کر سکتا ہے۔ بلکہ حالات کے دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ آئمہ نے اپنے مخصوص اصحاب کو بھی بعض امور کے اسرار و رموز وانجام کو بتلا دیا تھا اور مطلع کر دیا تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے ۔
جیسا کہ حبیب ابن مظاہر کو یہ مطلع کر دیا تھا کہ کر بلا میں کیا ہونے والا ہے۔ اور مثیم تمار کو یہ بتا دیا تھا کہ امیر المومنین پر کیا واقعات گزرنے والے ہیں ،بلکہ خود جناب مختار کو جناب مثیم تمار نے بتا دیا تھا کہ تم قید سے رہا ہو جاؤ گے اور امام حسین کے خون کا عوض لو گے ۔ بلکہ ان کے علاوہ بہت سی باتیں اصحاب آئمہ کو معلوم تھیں جو متواتر احادیث سے ثابت ہیں اور کتب و تواریخ ان سے بھری پڑی ہیں۔ جناب کے اس یقین سے کہ وہ بنی امیہ کے حمایت کرنے والوں میں سے اتنے ہزار افراد کو قتل کریں گے پتہ چلتا ہے کہ وہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اگر قتل بھی کر دیئے گئے تو خداوند عالم ان کو زندہ کرے گا ۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جناب مختار،مسلم ،موحد اور شیعہ امامی تھے ۔ بلکہ اقوی و اظہر یہ کہ وہ امامت امام زین العابدین وغیرہ(ع) کے قائل تھے ۔ علامہ ما مقانی فرماتے ہیں ۔کہ مختار کے حالات پر بحث کا دوسرا عنوان یہ ہے کہ آیا ان کی حکومت باطل تھی یا امام کی اجازت سے قائم ہوئی تھی ۔ ظاہر یہ ہے ، کہ انہوں نے امام کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد حکومت قائم کی تھی ۔ جیسا کہ علامہ ابن نما علیہ الرحمتہ نے اس طرح کی ایک روایت تحریر کی ہے علاوہ بریں آئمہ علیہم السلام ان کے افعال سے راضی تھے ۔ انہوں نے بنی امیہ اور ان کے مدد گاروں کو قتل کیا ،گرفتار کیا ، ان کے اموال لوٹے ۔ جیسا کہ اس کے طرف ان روایات میں اشارہ ہو چکا ہے ۔ جو ان کی مدح و ثنا ، ان کے افعال پر اظہار تشکر و امتنان ، جزاے خیر دئیے جانے کی دعا اور دعائے نزول رحمت پر دلالت پر کرتی ہیں۔ علامہ مامقانی نے ان تمام رویات کو نقل کیا ہے ۔اور آخر میں فرماتے ہیں کہ یہ تمام باتیں جو ہم نے ذکر کیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب مختار شیعہ امامی تھے ۔ان کی سلطنت امام کی اجازت سے قائم ہوئی تھی ۔بہر حال علامہ حلی نے جناب مختار کی روایت پر اعتماد کیا ہے ۔اسی سبب سے ان کو قسم اول کے راویوں میں شمار کیا ہے ۔ یہ بھی ان کے شیعہ ہونے کی دلیل ہے ۔اس لیے کہ جو شخص علامہ کے خلاصہ کا مطالعہ کرے۔اسے واضح ہو جائے گا ۔کہ قسم اول میں انہوں نے صرف شیعوں کو تحریر فرمایا ہے ۔ جناب علامہ ابن طاؤس علیہ الرحمہ نے بھی نص کر دی ہے کہ جناب مختار کی روایات پر عمل کیا جائے گا۔علامہ حائری اور علامہ ابن نما تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مختار امام زین العابدین کے قائل تھے ۔نیز محمدحنفیہ(ع) امام زین العابدین (ع)کی امامت پر ایمان رکھتے تھے ۔(معارف الملة الناجیہ والناریہ ص52وذوب النضار ضمیمہ بحار جلد ص 401طبع ایران )

حضرت مختار کے کردار پر غلط نگاہ
جیساکہ میں نے حضرات معصومین اور علماء کرام کے اقوال سے واضح و ثابت کر دیا کہ حضرت مختار کا کردار نہایت مستحسن اور قابل ستائش تھا ۔ان کی زندگی کے لمحات عقیدے کی خوشگواری میں گزرے پھر کھلے لفظوں میں کہتا ہوں کہ حضرت مختار نیک عقیدہ ،خوش کردار ،نیک نیت ،نیک چلن، بلند ہمت اور جملہ صفات حسنہ کے مالک تھے ۔نہایت افسوس ہے کہ بنی امیہ کے پرستاروں نے اس پاک باز اور نیک سرشت شخصیت کو بدنام کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا ہے۔ اس وقت میرے پیش نگاہ ایک رسالہ ہے جس کا نام ہے تجدید عہد ،جو زیرادارت غلام نبی انصاری ماہنامہ کی صورت میں لاہور سے نکلتا ہے ۔یہ پرچہ ربوبیت نمبر ہے ۔اس کی تاریخ اشاعت اپریل ۱۹۹۵ء ہے ۔اس میں حضرت مختار کے خلاف پوری زہر چکانی کی گئی ہے ۔اور ان کی مخالفت میں آئیں بائیں شائیں جو کچھ سمجھ میں آیا ہے لکھ مارا ہے ۔میں اس میں سے صرف چند جملے نقل کرتا ہوں۔

موٴلف مختار آل محمد (ص) کا دعویٰ
مجھے مسرت ہے کہ دنیائے اسلام میں ابن سباء کے وجود سے سب سے پہلے میں نے اپنی مورخانہ سوجھ بوجھ اور تحقیق کے ذریعہ سے انکار کیا تھا ۔ اب اس کے بعد بڑے بڑے علماء یہی کچھ کہہ رہے ہیں ۱۹۳۷ ء میں میں نے عبداللہ ابن سبا کی حقیقت کے زیر عنوان الواعظ لکھنو میں ایک مسلسل مضمون لکھا تھا جس کی آخری قسط میں تحریرکیا تھا کہ ابن سبا ایک فرضی نام ہے اور واقعہ جمل و صفین پر پردہ ڈالنے کیلئے سطح دہرپر نمایاں کیا گیا ہے ۔
الخ اس بیان کا حوالہ میرے مضمون سعد و نحس مطبوعہ اخبار شیعہ مورخہ۸ نومبر ۱۹۴۵ء میں موجود ہے۔ عالم اہل سنت علامہ ڈاکٹر طہ حسین جو مصر کے اساطین علم میں سے ہیں تحریر فرماتے ہیں کہ ابن سبا بالکل فرضی اور من گھڑت چیز ہے اور جب فرقہ شیعہ اور دیگر اسلامی فرقوں میں جھگڑے چل رہے تھے تو اس وقت اسے جنم دیا گیا شیعوں کے دشمنوں کا مقصد یہ تھا کہ شیعوں کے اصول مذہب میں یہودی عنصر داخل کردیا جائے۔ یہ سب کچھ بڑی چالبازی اور مکروفریب کی صورتیں تھیں ۔
محض شیعوں کو زچ کرنے کیلئے امویوں اور عباسیوں کے دور حکومت میں شیعوں کے دشمنوں نے عبداللہ ابن سباء کے معاملہ میں بہت مبالغہ آمیزی سے کام لیا اس کے حالات بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیے اس سے ایک فائدہ تو یہ تھا کہ حضرت عثمان اور آن کے عمال حکومت کی طرف سے جن خرابیوں کی نسبت دی جاتی ہے اور ناپسندیدہ باتیں جو ان کے متعلق مشہور ہیں کو سن کر لوگ شک و شبہ میں پڑجائیں دوسرا فائدہ یہ کہ علی (ع) اور ان کے شیعہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہوں نہ معلوم شیعوں کے دشمنوں نے شیعوں پر کتنے الزاما ت لگائے اور نہ جانے شیعوں نے کتنی غلط باتیں اپنے دشمنوں کی طرف عثمان وغیرہ کے معاملہ میں منسوب کیں۔ (الفتنۃ الکبری جلد 1 ص 132 طبع مصر) اس ضمن میں ایک مشہور قصہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جسے بعد میں آنے والے راویوں نے بہت اہمیت دی ہے اور خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے یہاں تک کہ بہت سے قدیم وجدید موٴرخین نے اس قصہ کو حضرت عثمان کے خلاف رونما ہونے والی بغادت کا سرچشمہ قرار دے لیا ہے جو مسلمانوں میں ایک ایسے افتراق کا باعث ہوئی کہ تاحال مٹ نہیں سکا۔ یہ قصہ عبداللہ ابن سباء ہے جو عربی دنیا میں ابن السودا کے نام سے مشہور ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو لوگ ابن سبا کے معاملہ کو اس حد تک اہمیت دیتے ہیں وہ نہ صرف اپنے آپ پر بلکہ تاریخ پر بھی شدید ظلم کرتے ہیں اس سلسلہ میں سب سے پہلی غور طلب چیز یہ ہے کہ ان تمام اہم ماخذمیں جو حضرت عثمان کے خلاف رونما ہونے والی شورش پر روشنی ڈالتے ہیں ہمیں ا بن سبا کا ذکر ہی نہیں ملتا مثلاً ابن سعد نے جہاں خلافت عثمان اور ان کے خلاف بغاوت کا حال رقم کیا ہے وہاں ابن سبا کا کوئی تذکرہ نہیں کیا
اسی طرح بلاذری نے بھی انساب الاشراف میں اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا… ابن سبا کی یہ داستان طبری نے سیف بن عمر کی روایت سے بیان کی ہے اور معلوم یہی ہوتا ہے کہ مابعد کے جملہ مورخین نے اس روایت کو طبری ہی سے لیا ہے ۔ (الفتنۃ الکبری ص۲۸۲ ، ۲۸۵ طبع لاہور) عالم اہل تشیع ، ملت جعفریہ کے عظیم محقق حضرت حجۃ الاسلام علامہ شیخ محمد حسنین آل کاشف العظاء (نجف اشرف) تحریر فرماتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ عبداللہ ا بن سبا ء مجنوں عامری اور ابوہلال وغیرہ داستان سراوں کے خیالی ہیرو ہیں اموی اور عباسی سلطنتوں کے وسطی دور میں عیش وعشرت اور لہو و لعب کو اتنا فروغ حاصل ہوگیا تھا کہ فسانہ گوئی ، محل نشینوں اور آرام طلبوں کا جزو زندگی بن گئی چنانچہ اس قسم کی کہانیاں بھی ڈھل گئیں۔ (اصل الشیعہ واصولہا ص 25) مختصر یہ کہ ابن سبا کا افسانہ موٴرخ طبری نے سب سے پہلے سیف بن عمر کے حوالے سے نقل کیا ہے اور سیف بن عمرراوی کے متعلق علماء علم رجال کا اتفاق ہے کہ یہ گمنام اور مجہول الحال لوگوں سے روایت کرتا ہے ۔ یہ ضعیف روایات بیان کرتا ہے ۔ متروکہ احادیث گڑھا کرتا ہے۔ ساقط الروایت ہے،۔ من گڑھت حدیثیں معتبر لوگوں کی طرف منسوب کرکے بیان کرتا ہے ۔ اس کی اکثر روایات ناقابل قبول ، وضعی اور پراز کفر و زندقہ ہوتی ہیں (فہرست ابن ندیم ص 137 میزان الاعتدال ج 1ص 438 تہذیب الترہیب جلد 4 ص 95 ) وغیرہ ، بنا برین اس کے بیان اور اس کی روایت کی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ میں کہتا ہوں کہ صاحب تجدید عہد نے حضرت مختار کے کردار کی عمارت جس بنیاد پر قائم کی تھی اس کا وجود ہی نہ تھا لہٰذا ان کی قرضی تعمیر منہدم ہوکے رہ گئی۔