
|
مصنف: مولانا نجم الحسن کراروی
پہلا باب
ناصر آل محمد
بجتا رہے گا بربط کردار تابہ حشر خاموش ہوبھی جائے اگر ساز زندگی حضرت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی نے اپنی زندگی میں جو ایمان افروز کارنامے کیے ہیں وہ تاریخی اہمیت کے لحاظ سے اپنی مثال نہیں رکھتے۔ان کا رناموں کا دو لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ آپ کمال عقیدت کے ساتھ محبت آل محمد کا جذبہ کامل سے کر اٹھے ۔واقعہ کربلا کے شرکا ء کثیر تعداد قتل کی اور خود سر سے گزر گئے ۔آپ کا عمل آپ کے کردار قرآن وحدیث کی روشنی میں رونما ہو کر سطح تاریخ پر ابھر ا اور اس نے ایسے گہرے نقوش چھوڑے جو شام ابد تک مٹانے سے نہ مٹیں گے۔دنیا میں ان کے سوا ایسی کوئی ہستی نہیں ۔جس نے شریکتہ الحسین حضرت زینب وام کلثوم علیہماالسلام کے دلوں سے رنج وغم کے ان نہ ہٹنے والے بادلوں کو کچھ نہ کچھ چھانٹ دیا ہو ۔جو واقعہ کربلا کو بچشم خود دیکھنے اور قید شام کی مصیبتوں کے جھیلنے اور بے پردگی کی تکلیف برداشت کرنے سے چھا گئے تھے ۔یہی وہ ہستی ہے جس نے سر ابن زیاد و ابن سعد وغیرہما بھیج کر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی پیشانی مبارک سجدہ شکر میں جھکادی ۔
ان کا دل اس طرح ٹھنڈا کیا کہ انہوں نے فرط مسرت سے ان مخدارت عصمت وطہارت کو جو محرم ۶۱ ھ سے ربیع الاول ۶۷ ھ تک غم کے لباس میں تھیں سر میں تیل ڈالنے آنکھوں میں سرمہ لگانے اور مناسب کپڑے بدلنے کا حکم دے کر ۹ ربیع الاوّل کو یومِ عید قرار دیا تاریخ شاہد ہے کہ حضرت محمد مصطفےٰ (ص) نے آپ کو ممدوح نگاہ سے دیکھا
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی آغوش میں کھلایا ۔
حضرت امام حسن علیہ السلام نے آپ کی مواسات قبول کی ۔
حضرت امام حسین (ع) نے یوم عاشور آپ کو یاد فرمایا ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے آپ کی مدح کی اور آپکے ہدایا قبول کئے۔
حضرت امام باقر (ع) نے آپ کے کارنامے کو سراہا ۔حضرت امام جعفر صادق (ع)نے آپ کو دعائیں دیں ۔ کون نہیں جانتا کہ ہر حیرت انگیز کارنامے میں قدرت کا ہاتھ ہوتا ہے مختار کی اس نے مدد کی جو واقعہ یحییٰ بن زکریا کے سلسلہ میں مدد کرتا رہا ۔مختار کی اس نے مدد کی جو اپنے وجود ظاہری سے قبل انبیاء کی مدد کرتا رہا(حدیث قدسی) مختار کی اس نے مدد کی ۔جس نے سلمان کو شیر سے بچایا ۔مختار کی اس نے مدد کی ۔جس نے حضرت رسول کریم کو کفار کے فتنہ پر دازیوں کے تاثر سے محفوظ ومصوٴن رکھا ۔ قدرت چاہتی تھی کہ واقعہ کربلا کا (فی الجملہ )دنیا میں بدلالے (تاریخ ابو الفداء جلد ۲ص۱۴۹)جس کی حیثیت عذاب کی ہو (مجالس المومنین )لہذا ا س نے اسباب فراہم کیے ۔مختار کے دل میں اہل بیت رسول کی زبردست محبت جاگزین کی ۔اور وہ صرف جذبہ انتقام لے کر میدان میں بصورت عذاب الہیٰ آئے ۔اور کامیابی حاصل کرنے کے فوراً بعد جاں بحق تسلیم ہو گئے اور انہیں حصول مقصد کے بعد زیادہ دن حکومت کرنا نصیب نہیں ہوا۔ ابو مخنف بن لوط ابن یحییٰ خزاعی کا بیان ہے ۔کہ حضرت مختار کو جس قدر کا میابی نصیب ہوئی وہ توفیق الہیٰ سے ہوئی (کنز الانساب وبحر المصائب ص۱۴طبع بمبئی ۱۳۰۲ ء) اور ان کا یہ کام نہایت نیک تھا جس کے نتیجہ میں وہ شہید ہوئے ۔(تاریخ ابو الفداء جلد۲ ص۱۴۹)۔ اسے نہ بھولناچاہیئے کہ حضرت امام حسین (ع) کے خون کا بدلہ عام انسانی ہاتھوں سے ناممکن ہے کیونکہ امام حسین (ع) کے خون کی قیمت عقلا ً چند نجس انسانوں کے قتل سے ادا نہیں ہو سکتی خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ یزید جیسا ظالم قتل نہ کیا جاسکا ہو اس کے لیے تو ضرورت ہے کہ اصل شرکا ء قتل کے ساتھ ساتھ ان کے فعل پر راضی رہنے والے بھی جو قیامت تک پیدا ہوں گے سب کے سب قتل کیے جائیں اور جہنم میں داخل ہوں ۔ من قتل مومنا متعمدافجزاء جھنم خالد فیھا یوں کہ یہ مسلمات سے ہے کہ العامل بالظلم والمعین علیہ والراضی بہ شرکا ئظلم کرنے والے ظلم کی مدد کرنے والے اور اس کے فعل پر راضی ہو نے والے سب برابر کے شریک ہیں (نوالابصار امام اہلنست علامہ شبلنجی ص۱۴۸طبع مصر) اسی لیے زیارت امام حسین نے فرمایا گیا ہے کہ لعن اللہ من قتلک وشارک فی دمک واعان علیک ولعن اللہ من بلغہ ذلک فرضی بہ خدا اس پر لعنت کر جس سے تجھے قتل کیا اور اس پر لعنت کرے جو تیرے خون میں شریک ہوا اور اس پر لعنت کرے جس نے تیرے خلاف دشمن کی مدد کی اور اس پر لعنت جسے تیرے قتل کی خبر ہو اور اس پر راضی رہے ۔(تحفہ الزائر علامہ مجلسی طبع ایران ۱۲۶۱ ء )یہ ظاہرہے کہ یزید سرشت دنیا کے ہر عہد میں رہے اور اب بھی ہیں اور قیامت تک رہیں گے ۔ یک حسینے نیست تاگر دد شہید ورنہ بسیار اندر در عالم یزید میں کہتا ہوں کہ دریں صورت جبکہ حسینی خون بہا اور انتقام انسانی دسترس سے باہر ہے ایک سوال پیدا ہو تاہے اور وہ یہ ہے کہ :۔ حضرت مختار کے قتل کرنے اور ان کے کارناموں کو کیا کہا جائے گا ؟ اسکا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ حضرت مختار نے واقعہ کربلا کے ان شرکاء کو جو دستیاب ہو سکے ۔ان کے فعل وعمل اور کردار کا عملی بدلا دیا ہے نہ یہ کہ خون حسین کا بدلا لیا ہے ۔ حضرت امام حسن عسکری (ع) بحوالہ حضرت رسول کریم وحضرت علی علیہ ا لسلام بطور پیشگوئی ارشاد فرماتے ہیں کہ یسلطہ اللہ علیھم للانتقام بما کانوا یفسقون اللہ تعالی انکے فسق وفجور کا انتقام لینے کے لیے حضرت مختار کو ان پر مسلط کرے گا (آثار حیدری ترجمہ تفسیر امام حسن عسکری ص۴۸۱طبع لاہور)
اسی بناء پر مختار نے فرمایا ہے کہ اگر میں ایک لاکھ آدمیوں کو بھی امام حسین کے ایک قطرہ خون کے عوض قتل کرنا چاہوں تب بھی اس کا بدلا نہیں ہو سکتا ۔(تاریخ طبری جلد ۴ص۶۵۷)مختار کا مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے اس کا مزہ وقت موعود سے پہلے دنیا میں میرے ہاتھوں سے چکھ لیں انہیں یہ پتہ چل جائے کہ کسی کو جو تکلیف پہنچائی جاتی ہے اس کا اثر ستم رسیدہ پر کیونکر پہنچتا ہے اور کیسے صدمہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جس نے کربلا میں جو کچھ کیا تھا اس کواسی طرح کابدلا دیا ہے جس نے تیرمارا تھا اسے تیر مارا جس نے تلوار لگائی تھی اسے تلوار لگائی ۔جس نے لاش کو پامال کیا تھا اس کی لاش پامال کی ۔مطلب یہ ہے کہ شہدا کربلا کے خون کا بدلا بدستور باقی ہے جو قیامت میں حضرت حجت علیہ السلام کے ہاتھوں لیا جائے گا جس کے نتیجہ میں اصل ونسل کو قتل کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔(مجمع البحرین ص۲۷۶اسرار الشہادت ص۵۸۱) کارنامہ مختار کے سلسلہ میں اجازت امام کا تذکرہ بھی آتا ہے ۔میرے نزدیک حضرت مختار نے جس نیت وارادہ اور جس جذبہ وعقیدت سے قاتلان حسین کو قتل کیا ہے وہ اجازت کا محتاج نہیں کیونکہ اس کا تعلق حس روحی احساس دماغی اور جذبہ قلبی سے ہے ۔جو فطرةًاجازت کا پابند نہیں ہوا کرتا ۔نالہ پابند نے نہیں ہوتا ۔ تاہم یہ مسلم ہے کہ حضرت مختار نے کھلی ہوئی اجازت کی سعی کی تھی جو نصیب نہیں ہو سکی (مروج الذہب مسعودی برحاشیہ کامل جلد ۶ ص۱۵۵) لیکن پھر بھی انہوں نے جو کچھ کیا وہ غیر ممدوح نہیں ہے (تاریخ ابو الفداء جلد ۲ص۱۴۹ )کیونکہ علما کا اتفاق ہے کہ حضرت مختار اطاعت گذار بادشاہ کی طرح اٹھے اور انہوں نے دشمنان خدا کی طرف لمبے ہاتھ بڑھائے اور ان کی ان ہڈیوں کو جو فسق وفجو رسے بنی تھیں ۔بھوسہ بھوسہ کر دیا اور ان کے ان اعضاء جوارح کو جس کی نشوونما شراب سے ہوئی تھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وحازالی فضلیة لم یرق الی شعات نزفیھا عربی ولا عجمی واحمذ منقبة لم یسبقہ الیہاہاشمی۔مختار نے وہ فضلیت حاصل کر لی جس کی عظیم بلندی کو نہ کوئی عربی پہنچ سکاؤ کوئی غیر عربی اور وہ سبقت حاصل کرلی جس کی طرف کسی ہاشمی سے بھی سبقت نہیں ہو سکی (ذوب النفنارص۴۰۱ء) یہی وجہ ہے کہ ان سے رسول خدا فاطمہ زہرا اور آئمہ ھدی خوش ہیں۔ (ساکبہ ص۴۱۱)اس کے متعلق میرا کہنا ہے کہ صریحی اجازت ثابت ہو یا نہ ہو لیکن امام معصوم کی عدم رضا ہر گز ہر گز ثابت نہیں ہے ۔کما ینطق کتا بنا ھذا بالحق۔
|
|