16- عیسی (موتم الاشبال) بن زید
عیسی بن زید جو کہ موتم الاشبال کے لقب سے مشہور تھے۔ ان کی کنیت یحیی اور ابوالحسن تھی۔ وہ 109 ق کو شام میں پیدا ہوۓ۔ان کی ولادت کے بارے میں لکھا گیا کہ جب حضرت زید خلیفہ ہشام کے دور میں اپنی ذوجہ محترمہ جن کا نام سکن تھا اور ان کا تعلق نوبہ سے تھا ان کے ہمراہ مدینہ سے شام کے سفر پر جا رہے تھے راستے میں ایک عیسائی راہب کی عبادت گاہ کے نزدیک قیام کیا۔ اسی رات عیسی بن زید کی ولادت ہوئی۔ اتفاق سے ویہی دن حضرت عیسی عیلہ السلام کے ولادت کا تھا۔ اسی مناسبت سے آپ کا نام عیسی رکھا گیا۔ اسدور علماء کے مطابق آپ اپنے دور کے بڑے دانشمند،عظیم عالم، متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کے چند اشہار کا تذکرہ کتاب "معجم شعراء الطالبیین" میں ملتا ہے۔ان کا شمار روایان حدیث و فرامین معصومین میں ہوتا ہے جن کو انہوں نے حضرت امام جعفر صادق عیلہ السلام کی تربیت سے حاصل کیا۔ والد کی شہادت کے وقت وہ صرف بارہ سال کے تھے۔خلیفہ منصور عباسی کے شر سے محفوظ رہنے کے لۓ کو فہ میں گمنامی اور گوشہ نشینی کی زند گی بسسر کی یہاں تک کہ منصور کی موت کے بعد اور اس کے بیٹے مہدی اورپوتے ہادی عباسی کے دور میں گوشہ نشینی میں مختلف مشاغل میں گزر بسر کی۔تاکہ سقائ کا کام انجام دیا۔ آپ کی ذوجہ کا نام خدیجہ تھا جو علی بن عمر بن علی بن الحسین علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔
ابن علاّق صیرفی و دیگر ( حاضر ) ، و سوم صباح زعفرانی ، و چہارم حسن بن صالح آپ کے خاص اصحاب میں سے تھے ۔ آپ کی وفات کے بعد جبکہ حسن بن صالح بھی فوت ہو چکے تھے - صباح زعفرانی آپ کے بچوں احمد اور زید کو بغداد لے گئے ۔ صباح زعفرانی نے خلیفہ مہندی سے ان بچوں کے حق میں امان طلب کی۔ اس طرح ان بچوں دربار میں پیش کیا اور خلیفہ مہندی نے ان کی کفالت کی۔
خدمات ؛
شیخ طوسی نے بہت سی روایات اپنے رسالہ "تہذیب" میں عیسی بن زید سے نقل کیں ہیں بہت سی احادیث اور روایات ایسی ہیں جن کو حضرت امام جعفر صادق عیلہ السلام نے ان کو تعلیم فرمائی۔جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اولاد حضرت زید اپنے والد ماجد کی طرح امامت کے منسب اور عترت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ ان کا پورا احترام کرتے تھے اور احکامات کے سلسلے میں معصومین عیلہ السلام سے رجوع کرتے رہے۔
کنیت : (ابو یحیى)
لقب؛ (موتم الاشبال)
نازم به این شرف که ز آل پیغمبرم آنم که نی به ناخن شیر فلک کنم
دانند صاحبان بسیرت بهای من تب از هراس حربة من شیر شرزه ر
ثبت است مُهر خاص نبوّت فرزند ارشد اسدالله صفدرم
لعل ثمین زید شهید است گوهرم یاد از سلاح موتم الاشبال خنجرم
(کلیات فارسی آزاد، ص 185 )
اس دور کے لوگوں نے آپ کو موتم الاشبال یعنی خونخوار شیر کے بچوں کو یتیم کرنے والا کا لقب دیا اس لقب کی وجہ یہ تھی کہ جب آپ جنگ بصرہ سے فارغ ہو کر کوفہ کی جانب روانہ ہوۓ تو راستے میں ایک خونخوار شیر نے آپ پر حملہ کر دیا۔ عیسی نے شجاعت علوی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ شیر کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور ہمیشہ کے لیے اس کا خاتمہ کر کے لوگوں کو اس کے خوف اور ظلم سے نجات دلائی۔ علاقے کے لوگوں نے اس خطرناک شیر کی ہلاکت کی خبر سن کر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا ہمارے آقا نے جرات سے خونخوار شیر کے بچوں کو یتیم کر دیا۔ آزاد ایک قصیده میں بیان کرتا ہے :
گرچه باشد موتم الاشبال عیسی جدّ من عیسی جان بخش شیرانم بامداد نفس
آپ نے فرمایا انا موتم الاشبال اس طرح اس دن کے بعد آپ کو اسی نام اور لقب سے یاد کیا جاتا رھا۔ یموت بن مزرع شاعر اہل بیت علیہ السلام اور اس طرح شمیطی جو ایک معروف شاعر امامیہ تھے اور جنہوں نے حضرت زید کے ساتھ قیام کیا تھا نے اپنے اشعار میں آپ کو اسی لقب سے یاد کیا۔
سن ظلم الامام للناس زید ان ظلم الامام ذوعقال
و بنو الشیخ و القتیل بفخ بعد یحیى و موتم الاشبال
اولاد:
روایت میں ہے کہ آپ کے چار بیٹے تھے۔
• حسن بن عیسی جو اپنے والد کی زندگی میں وفات پا گئے
• حسین بن عیسی جنہوں نے حسن بن صالح کی بیٹی سے شادی کی اور کوفہ میں زندگی گزاری۔ جن کے بیٹے زید ان کے بیٹے عیسی – ان کے بیٹے حسن تھے۔
• احمد (محمد ) بن عیسی چون (وفات 247ق) جو خلیفہ مہدی عباسی کے دور میں آخری وقت تک مدینے میں گوشہ نشین ر ہے ۔ ان کی والدہ کا نام خدیجہ تھا جو علی بن عمر بن علی بن الحسین علیہ السلام کی بیٹی تھیں. جن کے بیٹے علی کا مزار شہر ری تہران میں ہے -
• زید بن عیسی جو مدینے میں گوشہ نشین تھے انہیں ہارون رشید کے جاسوسوں نے گرفتار کر کے زندان ہارون میں ڈال دیا گیا ۔ انہوں نے تیس مرتبہ پیدل خانہ خدا کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ محمد اور علی ان کے بیٹوں میں شامل تھے۔ جب کہ علی کے بیٹے یحیی کا مزار شیراز کے نواع میں واقع ہے۔آپ کے بیٹے کےعلی بن احمد کے مطابق وہ کے خلیفہ متوکل کے دور میں 23 رمضان 247ھ کو بصرہ میں وفات پا گئے۔
آپ نے دشمنوں سے اپنی سیادت کو چھپایا ھوا تھا آپ سے ایک غیر سید نے دختر کا رشتہ طلب کیا تو آپ نے
جواب میں جو دعا فرمائی ۔۔۔۔۔ اس کا منظوم ترجمہ یہ ھے
اے خدا اے حافظِ آلِ محمدّ ربِ کل طخل ایمن سے مرا نخل سیادت کم نہیں
ہم مظاہر ہیں تری تقدیس اور تحریر تیری عظمت کی نمائندہ سیادت کی جبیں
وقف تسلیم و رضا رہنا ہماری فصل گل لذتِ آلام ، خاطر میں ہماری آنگبیں
آج ٹوٹا ہےمرے سر پر نیا کوہِ الم جس کو یہ میری سیادت اب اٹھا سکتی نہیں
ایک سید کی طرح رہنا مجھے دشوارہے تنگ ہے اب تو سیادت کیلئے تیری زمیں
مصلحت تھی وقت کی میرا یہ اخفائے نسب ہاتھ سے جاتا ہے ورنہ دامنِ دنیا و دیں
ہر ستم سہہ کر رہا میں حاملِ حمد و ثنا قتل ھونا سہہ چکا ہوں اپنے ہی اجداد کا
آج کی تازہ قیامت میں اٹھا سکتا نہیں اس سیادت کو چھپانے کی قیامت الاماں
میری غیرت اور حمیت کی بھی کچھ تدبیر کر تیری رحمت ہیں اگرچہ اس جہاں میں بیٹیاں
غیرت کس طرح کر لے گوارا اے خدا غیر کی نظروں میں آئیں ، آہ سید زادیاں
خواستگاری مجھ سے بیٹی کیلئے کرتے ہیں غیر اک قیامت ہیں یہ خالق بے خبر گستاخیاں
تجھ کو اس بنت محمدّ کے تقدس کی قسم توڑ دے بنت نبیّ کی زندگی کی چوڑیاں
ختم کر دے میری بیٹی کی حیاتِ پر الم توڑ دے سانسوں کے رشتے کی الجھتی رسیاں
تو بلا لے میری لخت دل کو جنت کی طرف اک نبیّ زادے کی غیرت کا نہ لے تو امتحاں
تھی ابھی لب پر دعا عرشِ خدا تھرا گیا اس نبیّ زادی کے رخ پر موت کا رنگ آ گی
وفات ؛
عیسی وراق نے محمّد بن محمّد نوفلی اور انہوں نے اپنے والد اور چچا سے روایت کی ہے کہ عیسی جنگ باخمری کے بعد آپ نے ایک مدت گمنامی کی زندگی گزار نے کے بعد خلیفہ مہدی عباسی کے دور میں 169 ھ ق کو ساٹھ سال کی عمر میں فوت ہوۓ۔
شجره مبارکه خاندان نوربخش
سید حَبیب و الشَریف النَسب حضرت السَید میران بیگ بن حَضرت سَید سَرخوش بیگ بن حضرت شاه امام قلی خان بن حضرت سید (آتش بخش) معروف به آتش بیگ بن سید جلیل و الطاهر عارف بالله حضرت سید مُحمد بیگ مشهور به نوربخش بن حضرت سید شاه ابراهیم معروف به شاه ویسقلی بن سید سلطان بن سید عیسی بن سید قنبر شاهو بن سید خضر بن سید نورالدین بن سید صدرالدین بن سید عمرویه بن سید ابی العباس احمد بن سید عیسی مُوتم الاشبال بن سید یحیی بن سید الحُسین ذی الدمعه بن حضرت سید زید الشهید بالکوفه بن حضرت الامام زین العابدین (ع) علی بن الحُسین (ع) بن علی بن ابی الطالب عَلیهم السلام
17- یحییٰ بن زید شہید
زید شہید ابن علی نے مولا علی مشکل کشا ، شیر خدا کی پڑپوتی سیدہ ریطہ دختر سیدنا ابو ہاشم عبداللہ فرزند حضرت محمد حنیفہ بن امام علی سے عقد فرمایا اور "صاحبِ سیف و قلم"سیدنا یحییٰ بن زید ، 107ہجری میں پیدا ہوئے ۔ آپ روحانی کمالات و معنوی جمالات کے ساتھ ساتھ شجاعت حیدر کرّار کے بھی وارث تھے۔ایران کا شہر تنکا بن جو کہ بعدمیں صوبہ گیلان کا حصہ بن گیا اور جس کی حدود چالوس تک جا ملتی ہیں وہاں دوسری صدی ہجری کے آغاز تک یہاں کے لوگوں کا مذہب زرتشتی تھا۔ عرب خلفاء عمر بن العلاء (145-157 ھ) کے دور میں لوگ اسلام کی طرف مائل ہوۓ اورسیدنا یحییٰ بن زید نے مذہب حقہ کی ترویج کی ۔صفوی (شاه عباس اول) حکومت کے دور میں جو زید یہ فرقہ کی طرف مائل تھے امامیہ کی طرف راغب ہوۓ۔
اولاد :
ان کے بیٹوں میں علی اور عمر تھے – علی کے بیٹے اسمعیل جب کہ عمر کے بیٹے محمد اور ان کے بیٹے حسین اور قاسم تھے۔ مشہور صوفی گیسو دراز یا دراز گیسو جن کی اولاد سے تھے۔
سیّد محمّد ابن سیّد علی ابن سید مصطفی (جد رئیسی) ابن سید احمد ابن میر حیدر(جد رئیسی و میرحیدری و بنی کریمی و میرکریمی ) ابن نصراللہ ( جد قسمت اعظم طائفہ) ابن میرکریم (جد ل طائفہ موجود )ابن سّید علی ابن میرکریم ابن سیّد علی ابن سیّد عظیم ابن سّید میرکریم (مدفون در کُرم حیدرآباد) ابن سیّد علی (وی نقطہ اتصّال سادات میرکریم و گیسودراز یا درازگیسو و فرزند یوسف و یوسف نیز فرزند سّید علی) ابن محّمد ابن یوسف ابن حسین ابن محّمد ابن علی ابن حمزہ ابن داوود ابن زید ابن جندی ابن حسین ابن فدان ابن محّمد الاکبر ابن عمرو ابن یحیی ابن ذی الدمعہ (یحیی ابن زید مدفون در گنبد کاووس) ابن زید ابن زین العابدین(ع) ابن الحسین (ع) ابن علی(ع) و فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) .
لقب
علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاںپیدا ہوا ، شیرِ خدا معلوم ہوتا ہے.سیدنا یحییٰ بن زید نے اپنی انتہائی مختصر زندگی اہداف اسلامی کے دفاع اور دشمنان دین خدا کے ظلم و ستم گری کے خلاف نبردآزما رہتے گزار دی اور اپنے عظیم الشان والد کے نقش قدم اپناتے ہوئے شہادت پائی۔ آپ اہل علم میں’’ سیف ُ الاسلام‘‘ کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ حضرت یحییٰ بن زید کی دلیری اور بہادری کے باعث اموی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئیں اورعمالِ حکومت جو تمام سلطنت میں خیانت ،خونریزی اور اموالِ مسلمین ہتھیانے کے ماہر تھے آپ کے وجود سے خوف کھانے لگے۔
شہادت
آپ نے دشمنانِ اسلام ، بنی امیہ کی حکومت کی بنیادیں متزلزل کر دیں۔ حیدری خون، قصرِ سفیانیت فتح کرنے لگا۔ آپ نینوا سے مدائن اور مدائن سے خراسان تشریف لے گئے۔ قیام ِخراسان کے دوران آپ نے کچھ دلیرانہ معرکوں کے بعد اپنے اثر ورسوخ قائم کر لیا اور حضور نبی کریم کے افکار و سیرتِ عالیہ کو اہل خراسان میں پھیلانا شروع کیا۔
اہل خراسان مین آپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر دشمنان اسلام اور منافقین کو آپ کا وجود مسعود سنگین ترین خطرہ محسوس ہوا اور اس خطرے کے پیش نظر والیء ہرات، نصر بن سیاراور والیء خراسان سلم بن احو ذمازنی نے آپ پر حملہ کر دیا۔ آپ کے جانثار ساتھی داد شجاعت دیتے شہید ہوتے گئے اور بالاآخر بروز جمعہ، 125ہجری اپنے دادا سیدنا امام عالیمقام، امام حسین کے وقتِ شہادت، بوقت عصر خراسان اور ہرات کے درمیان واقع جو ز جان میں، کنپٹی پر تیر لگنے کے باعث آپ کی شہادت ہو گئی۔ حضرت زید شہادت سے قبل بار بار یہ شعر پڑھتے تھے،
" ہم اپنی جانوں کو ہیچ سمجھتے ہیں اور جنگ کے روز جانوں کو ہیچ سمجھنا ہی ان کے حق کا پورا کرنا ہے"
دشمن کا جذبہِ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہونے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالاگیا اور سر کو جدا کرکے ہشام کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا اور لاش کو دروازہ کوفہ پر سولی دے دی گئی اور کئی برس تک اسی طرح آویزاں رکھا گیا . اہل خراسان کے ہاں ایک سال تک جو بچہ پیدا ہوتا اس کا نام یحیٰی یا زید رکھا جاتا۔ بلا شبہ یہ سیف الاسلام، سیدنا یحےیٰ بن زید شہید کا امت مسلمہ پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے ا پنے باپ دادا کے نورانی تبرکات و ملفوظات کو عام فرمایا اور ان کی خاطر صرف اٹھارہ برس کی عمر میں شہید ہو کر سولی چڑھا دئیے گئے۔
آپ نے صرف اٹھارہ برس حیات دنیا پائی اور ان اٹھارہ برسوں میں کمالاتِ سیادت کے وہ جواہر صفحات تاریخ کی نظر کئے کہ مؤرخ ان کے بدل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بعد شہادت آپ کے جسد اطہر کو سولی پہ چڑھا دیا گیا اور سر اقدس کاٹ کر ولید بن یزید بن عبدالملک بن مروان کے پاس دمشق بھیج دیا گیا۔ آپ کا سر اقدس، سر حسین کی مانند دمشق کے بازاروں سے ہوتا مدینہ پہنچا جہاں آپ کی مقدس والدہ معظمہ کی گود اطہر میں پھینک دیا گیا۔ ام المصائب کی وارث نے آپ کے سر اقدس کو جنت البقیع میں دفن کیا۔
آپ کا تن اقدس کئی سال سولی پہ رہا اور اس میں ذرہ بھر بھی تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ ابو مسلم خراسانی نے آپ کو سولی سے اتار کر غسل و کفن دیا اور آپکے بے سر بدن کو نہایت احترام سے سپرد لحد کر دیا۔ آپ کے بدن اطہر سے کئی سال گزرنے کے بعد بھی خوشبوئے مصطفی آتی تھی جو آج بھی آپ کے روضئہ اطہر کی زیارت کرنے والے عارفین محسوس کرتے ہیں ۔ آپ کی نورانی بارگاہ مستجاب الد عوات ہے اور ایران کے شہر، مشہد مقدس سے نصف گھنٹے کی مسافت پر گاؤں ’’مےٰامی شریف ‘‘ میں جلوہ نما ہے۔ انوارِ سجّادیہ و زیدیہ کی یہ درگاہ ہزاروں زائرین کا مرکز ہے اور جگرگوشہ زین العابدین کا بے سر بدن انوارِ الٰہیہ کے نزول کا منبع ہے۔
خدمات
آپ اہل علم میں’’ سیف ُ الاسلام‘‘ کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔سیف ُالاسلام ،حضرت یحییٰ بن زید کی دلیری اور بہادری کے باعث اموی حکمرانوںکی نیندیں حرام ہو گئیں اورعمالِ حکومت جو تمام سلطنت میں خیانت ،خونریزی اور اموالِ مسلمین ہتھیانے کے ماہر تھے آپ کے وجود سے خوف کھانے لگے۔ آپ نے دشمنانِ اسلام ، بنی امیہ کی حکومت کی بنیادیں متزلزل کر دیں۔ حیدری خون، قصرِ سفیانیت فتح کرنے لگا۔ آپ نینوا سے مدائن اور مدائن سے خراسان تشریف لے گئے۔ قیامِخراسان کے دوران آپ نے کچھ دلیرانہ معرکوں کے بعد اپنے اثر ورسوخ قائم کر لیا اور حضور نبی کریم کے افکار و سیرتِ عالیہ کو اہل خراسان میں پھیلانا شروع کیا۔شریعت محمدی کی روح اور حقیقی اسلام کی ترویج واشاعت کی وجہ سے اس دور کے ظالم و جابر حکمرانوں نے خاندان اہلیبت پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ر کھا ۔ سانحہ کربلا کے بعد بنو ہاشم ایک عرصہ تک اس کش مکش سے الگ رہے۔ امام سجاد علیہ السلام جنہوں نے کربلا کے لرزہ خیز واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ اس آرزو سے قطعاً لا تعلق رہے ۔
امت پر احسانِ عظیم:
متوکل ابن ہارون کا کہنا ہے کہ میں نے امامزادہ یحییٰ بن زید سے خراسان میں ملاقات کی اور سلام عرض کیا۔ آپ نے پوچھا۔ "تم کہاں سے آرہے ہو؟"میں نے کہا حج سے واپس آرہا ہوں۔ آپ نے اپنے اعزا، چچا زاد بھائیوں کے حالات دریافت کئے جو مدینہ منورہ میں تھے اور بہت دیر تک چھٹے تاجدار امامت سیدنا امام جعفر صادق کے حالات دریافت فرماتے رہے۔آپ نے عنقریب اپنے شہید ہو جانے کے متعلق بیان فرمایا:
اللہ جس بات کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس بات کو چاہتا ہے نقش کر دیتا ہے اور اس کے پاس لوح محفوظ ہے۔
پھر فرمایا،
’’ اے متوکل ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے ذریعے اس دین کو تقویت پہنچائی اور ہمارے حصے میں علم اور تلوار آئی ہے‘‘۔
آپ نے زمین میں آنکھیں گاڑ دیں اور پھر سر اٹھایا اور فرمایا،
’’علم سے تو ہم سب ہی بہرہ مند ہیں۔ کیا تم نے میرے ابن عم حضرت امام جعفر صادق کے افادات لکھے ہیں؟‘‘۔
میں نے عرض کیا،جی ہاں۔ فرمایا،’’۔ جو کچھ لکھا ہے مجھے دکھاؤ ‘‘۔میں نے مختلف علوم کے سلسلے میں حضرت کے ارشادات دکھائے اور ایک دعا بھی دکھائی جو حضرت نے مجھے لکھوائی تھی اور فرمایا تھا کہ میرے والد بزر گوار محمد ابن علی الباقرنے مجھے لکھوائی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ دعا میرے والد علی بن الحسین کی ادعیہ ’’ صحیفہ کاملہ‘‘ میں سے ہے۔
یحییٰ نے اسے آخر تک دیکھا اور فرمایا،
" میں تمہیں دعاؤں کا ایک صحیفہ دکھاؤں گا جو میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد بزرگوار سے یاد کی تھیں اور مجھے میرے والد نے ان کے محفوظ رکھنے کی ہدایت کی تھی کہ نا اہل لوگوں سے انہیں پوشیدہ رکھوں‘‘۔
متوکل نے اُٹھ کر آپ کے سرِ اقدس کو بوسہ دیا اور عرض کیا۔ "خدا کی قسم!اے فرزندِرسول ،میں آپ کی دوستی و اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ وہ میری زندگی اور میرے مرنے کے بعد آپ کی محبت و دوستی کی وجہ سے سعادت و نیک بختی بخشے‘‘۔
اس کے بعد سے ایک صندوقچہ طلب کیا اور اس میں سے ایک مقفّل و سربمہر صحیفہ نکالا۔ اس مہر کو دیکھا تو اسے بوسہ دیا اور گر یہ فرمایا۔ پھر اس کی مہر توڑی ، قفل کھولا اور صحیفہ کو پھیلا کر اپنی آنکھوں سے لگایا اور چہرے پر ملا اور فرمایا:
’’اے متوکل! خدا کی قسم! اگر میں شہید نہ کیا جاتا اور سولی پہ نہ لٹکایا جاتا تو میں ہرگز یہ صحیفہ تمہارے حوالے نہ کرتا ۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ علمی ذخیرہ بنی امیہ کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے چھپا ڈالیں اور اپنے خزانوں میں صرف اپنے لئے ذخیرہ کر لیں۔ لہذا تم اسے اپنے پاس رکھو اور میری جگہ اس کی حفاظت کر واور منتظر رہنا اور اس صحیفہ کو اپنے پاس امانت رکھنا اور جب اللہ میرا اور اس قوم کا جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے، کر دے تو اسے میرے چچا زاد بھائیوں محمد و ابراہیم کے پاس پہنچا دینا کیونکہ وہی میرے بعد اس سلسلے میں میرے قائمقام ہیں۔
متوکل نے وہ صحیفہ لے لیا اور جب سیف الاسلام ،سےّدنا یحییٰ بن زید شہید کر دئیے گئے تو مدینہ پہنچ کر عالم اسلام کی پہلی یونیورسٹی کے چانسلر سےّدنا امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یحےیٰ کا تمام واقعہ بیان کیا۔ حضرت امام جعفر صادق بہت دیر تک روتے رہے اور یحییٰ کے واقعات سن کر انتہائی غمگین ہوئے اور فرمایا،
’’خدا رحمت نازل کر ے میرے ابن عم پر اور انہیں ،ان کے آباء واجداد کے ساتھ رکھے، وہ صحیفہ کہاں ہے ؟‘‘۔
متوکل نے پیش کیا۔ آپ نے اسے کھولا اور فرمایا،
’’ خدا کی قسم ! یہ میرے چچا زید کی تحریر ہے اور میرے دادا علی ابن الحسین کی دعائیں ہیں‘‘۔ پھر آپ نے اپنے فرزند اسمٰعیل سے فرمایا کہ جا کر وہ دعائیں لے کر آئیں جن کی حفاظت و نگہداشت کی میں نے ہدایت کی تھی۔ امامزادہ اسمٰعیل گئے اور ایک صحیفہ لائے جو بالکل ویسا ہی تھا جیسا سےّدنا یحےیٰ بن زیدنے دیا تھا۔
حضرت امام جعفر صادق نے اس صحیفہ کو بوسہ دیا، اپنی آنکھوں سے لگایا اور فرمایا:۔
"یہ میرے والد بزرگوار کا خط ہے جسے میرے سامنے میرے دادا علی ابن الحسین زین العابدین نے لکھوایا تھا‘‘۔
متوکل نے عرض کی، "اے فرزند رسول! اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس صحیفہ کا زید و یحےیٰ کے صحیفے سے موازنہ کر لوں‘‘۔
حضرت نے اجازت دی اور فرمایا کہ میں تمہیں اس کا اہل پاتا ہوں۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ دونوں صحیفے ایک ہی ہیں اور ایک حرف بھی دونوں کا ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔حضرت امام جعفر صادق نے وہ دعائیں متوکل ابن ہارون کو لکھوا دیں اور انہیں نشر کرنے اور پھیلانے کا حکم دیا۔ ان دعاؤں کی تعداد پچھتر (75) تھی۔
السلام اے یحییٰ ابنِ زید، دیں کے پاسباں السلام اے مصطفی و مرتضٰی کی کہکشاں
السلام اے فاطمہ زھرا کے دل کے ترجماں السلام اے زین العابدین کے جری جواں
السلام اے زید کے لختِ جگر، ریطہ کی جاں السلام اے آلِ پیغمبر کے میر کارواں
السلام اے دین کی تلوار ، نگہبانِ قرآں السلام اے حق کے نگہدار ، اے صاحبقراں
السلام اے کشتہء راہِ صداقت السلام السلام عبّاس کے پیرِ طریقت السلام
بلا شبہ یہ سیف الاسلام، سیدنا یحییٰ بن زید شہید کا امت مسلمہ پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے ا پنے باپ دادا کے نورانی تبرکات و ملفوظات کو عام فرمایا اور ان کی خاطر صرف اٹھارہ برس کی عمر میں شہید ہو کر سولی چڑھا دئیے گئے۔
مزار :
یحیی ابن زید گنبد کاووس میں مدفون ہیں۔
|