13- زید بن علی اور مسئلہ امامت
زید ابن علی ابن الحسین امام محمد باقر علیہ السّلام کے بھائی ہیں اور صالح و محترم شخص ہیں۔ ہمارے ائمہ نے آپ کی اور آپ کے مجاہدانہ اقدام کی تعریف کی ہے۔ بلکہ آپ امام محمد باقر علیہ السّلام کی خلافت کے خواہاں تھے، یہ مسلم ہے کہ ہمارے ائمہ نے آپ کی تعریف و توصیف کی ہے اور آپ کو شہید کہا ہے۔ اور یہی ان کی عظمت کے لئے کافی ہےکہ:" مضیٰ واللہ شھیداً " وہ شہید ہوکر دنیا سے اٹھے ۔ آپ نے خود فرمایا کہ لوگوں کو بتادوں کہ میں بھی اس نکتہ سے غافل نہیں ہوں۔ وہ کہیں شبہ کا شکار نہ ہوں، میں بھی اس مسئلہ کو نہ صرف جانتا ہوں بلکہ اس کا اعتراف و اعتقاد بھی رکھتا ہوں۔ گفتگو کے آخری جملہ میں اسی مطلب کا اظہار ہے کہ میں پورے علم و ارادہ کے ساتھ نیز اپنے بھائی کے حکم سے جہاد کے لئے اٹھ رہاہوں۔ آپ نے خود فرمایا کہ میرے بھائی امام محمد باقر علیہ السّلام نے مدینہ میں مجھ سے فرمایا:" انی اقتل واصلب بالکناسۃ" کہ تمہیں قتل کیا جائےگا اور کانسۂ کوفہ پر سولی دی جائے گی۔" وان عندہ لصحیفۃ فیھا قتلی وصلبی" اور ان کے پاس ایک صحیفہ (کتاب) ہے جس میں میرے قتل کئے جانے اور دار پر چڑھائے جانے کا ذکر ہے۔ شیخ مفید اپنی کتاب ارشاد میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ حضرت زید کی امامت کے بارے میں اس طرح وضاحت فرمائی کیونکہ حضرت نے قیام کی دعوت کےوقت فرمایا تھا کہ میں یہ آل محمد کی خوشنودی کے لئے کر رہا ہوں اس لئے کچھ لوگ غلط فہمی سے آپ کو امام جان لیا جبکہ خود آپ نے خود اپنے بھائی امام باقر علیہ السّلام اور امام صادق علیہ السّلام کی امامت کا اعتراف او ر اقرار کیا تھا۔
آپ کی وفات کے بعد ایک مستقل فرقہ وجود میں آ گیا جو زیدیہ کہلایا ۔ آپ کے ماننے والے امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد امام محمد باقر علیہ السلام کی بجائے آپ کو امام مانتے ہیں۔ اس فرقہ کے ماننے والوں کی اب بھی کافی تعداد موجود ہے۔ یہ فرقہ خلافت کو بھی تسلیم کرتا ہے اور امامت کو بھی مانتا ہے۔ یہ حضرت زید بن علی بن حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب کے پیروکار ہیں۔ امام کے متعلق بھی ان کا نظریہ کا فی حد تک معتدل تھا۔ان کے نزدیک امامت منصوص بالوحی نہیں ہوتی بلکہ ہر فاطمی ،عالم،زاھد،بہادر،سخی اور حق کے راستہ میں جہاد کی قدرت رکھنے والاامام ہو سکتا ہے اگروہ مطالبہٴِ خلافت کے لیے سلاطین کے خلاف خروج کی اہلیت رکھتا ہو۔اس لحاظ سے ان کے ہاں امامت عملی چیز تھی سلبی نہیں۔خروج کے باب میں آپ کے بھائی محمد باقر اور کئی شیعہ آپ کے ہم خیال نہ تھے۔ امام باقر فرمایا کرتے تھے کہ تمھارے مذہب کی رُو سے تو تمھارے والد بھی امام نہیں کیونکہ انھوں نے کبھی خروج نہ کیا۔ زیدیہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اپنے ائمہ کو الوہیت یا رسالت کے منصب پر فائز کرتے تھے۔ تعدّدِخلفاء کے بارے میں زیدیہ کازاویہ نگاہ یہ تھا کہ دوالگ الگ ملکوں میں دوجداگانہ امام پائے جا سکتے ہیں۔جبکہ ایک ہی ملک میں دو خلفاء کاوجود ممکن نہیں۔ مرتکبِ کبائر کے بارے میں یہ اعتزالی ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ کبائر کا مرتکب اگر توبہ نہ کرے توابدی جہنمی ہے۔حضرت زید کے بعد آپ کے بیٹے حضرت یحییٰ کی بیعت کی گئی۔حضرت یحییٰ ٰ نے بھی 125ھء میں خروج کیا پھر جب آپ مقتول ہوئے تو بعد میں عبداللہ ابن حسن کے دونوں بیٹوں محمد اورابراہیم کی بیعت کی گئی۔عبداللہ بن حسن امام ابوحنیفہ کے محترم استاد تھے۔پھر ابراہیم نے عراق میں خروج کیا اور محمد نے مدینہ میں اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ کو عراق میں اور امام مالک کومدینہ میں بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔اگرچہ یہ فرقہ آج تک یمن میں موجود چلاآرہا ہے مگرخلیفہ ابوجعفر منصور کے دور میں زیرِعتاب آنے کی وجہ سے یہ فرقہ کمزور پڑ گیااور دوسرے شیعہ اس پر غالب آگئے اس لیے یہ اپنی خصوصیات کھو بیٹھے۔یہ مفضول کی امامت کے عقیدہ سے منحرف ہو گئے اور ان روافض میں شمار ہونے لگے اس سے ان کی عظیم خصوصیت جاتی رہی۔انتشار کا شکار ہونے سے یہ دو فرقوں میں بٹ گئے۔
1۔متقدمین جو روافض میں شمار نہیں ہوتے اور شیخین کی امامت کے قائل ہیں۔
2۔متا خرین جورافضی ہیں اور شیخین کی امامت کو تسلیم نہیں کرتے۔
14- حسینییت کی عالمی تحریکیں
امام حسین کی شہادت کے بعد ہمارے دیگر ائمہ نے بھی اپنے زمانے کی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ،مقتضائے وقت کے مطابق اپنی جد وجہد جاری رکھی ۔البتہ ائمہ کے فرزندوں اور ان کے شیعوں نے مسلح جد و جہد سے بھی دریغ نہیں کیا ، چنانچہ جن لوگوں نے حکام جور اور ظالم حکومتوں کے خلاف مسلح انقلاب بپا کئے ہیں ان کے اسماء اور سَنِ انقلاب کو اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں :
15- یمن کے زیدیہ اور تحریک یمن
یمن کے زیدیہ متقدمین زیدیہ سے بہت قریب ہیں اور وہی عقائد رکھتے ہیں۔ 2004 میں یمنیوں پر کئی بڑے حملے ہوئے اور شیعیان یمن وسائل نہ ہونے کے باوجود دارالحکومت صنعا تک پیش قدمی کرکے جنرل علی عبداللہ صالح کے لئے خطرہ بن گئے تو وہ قطر کی ثالثی سے اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوا ۔ یمن جزیرہ نمائے عرب کے انتہائی جنوب میں واقع ہے؛ یہ ملک شمال کی جانب سعودی عرب اور عمان کا ہمسایہ ہے اور مغرب کی جانب سے بحر احمر کے ساحل پر واقع ہے اور اس کے سمندر پار پڑوسی سومالیہ اور ایتھوپیا ہیں جب کہ جنوب اور مغرب کی جانب سے بحر ہند کے کنارے واقع ہے۔ اس ملک کے باشندے حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ہیں اور یہ ملک صدر اول سے ہی تشیع کی ترقی و ترویج کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور یہاں کے عوام اہل بیت علیہم السلام ولایت اور امامت کی پیروی کے حوالے سے مشہور ہیں۔
صوبہ صعدہ یمن کے شمال میں واقع ہے اور سعودی سرحد پر واقع ہے؛ یہ ایک کوہستانی علاقہ ہے جو دارالحکومت صنعا سے 243 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس صوبے کی آبادی کی اکثریت زیدی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔یمن 1990 تک شمالی اور جنوبی یمن کی صورت میں دو حصوں میں بٹا رہا اور 1990 میں شمالی اور جنوبی یمن متحد ہوئے اور 12 سال تک شمالی یمن کی صدارت کے عہدے پر براجماں رہنے والے جنرل علی عبداللہ صالح یمن کی تعمیر و ترقی کا نعرہ لگا کر متحدہ یمن کا تا حیات صدر بن بیٹھا۔ اس زمانے سے یمن میں ترقی کا عمل تو درکنار، یہ ملک متعدد بحرانوں سے دوچار رہا اور بڑی طاقتوں نے جنرل صالح کو بارہا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا مگر کبھی یمن کی دستگیری کے لئے کسی نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا اور جنرل صالح عرب ممالک ممالک کے مالدار حکام کے ساتھ بیٹھ کرکے عیاشی کے مزے لوٹ کر اپنی مملکت ویراں میں بھی بادشاہوں کی سی زندگی گذارتا رہا مگر اس کی خوشیاں عرب کانفرنس ہالوں اور صنعا کے صدارتی محل کی چار دیواری تک محدود رہیں۔ یمن میں کوئی بھی سنجیدہ ترقیاتی منصوبہ نافذ نہیں ہوا اور ملک روز بروز غریب سے غریب تر ہوتا گیا اور یمنی آمر نے شمالی اور جنوبی یمن کے شافعی اور شیعہ باشندوں کو حقوق سے محروم کرکے صنعا اور اس کے نواح کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی مگر صنعا بھی یمن ہی کا شہر تھا اور غربت ملک پر غالب تھی چنانچہ صنعا کا چہرہ بھی تبدیل ہونے سے قاصر رہا۔
یمن کی 42 فیصد آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے اور اہل تشیع زیدی، اسماعیلی اور اثناعشری مکاتب میں بٹے ہوئے ہیں۔ اہل تشیع کی اکثریت زیدیوں پر مشتمل ہے۔اہل تشیع کو خاص طور پر بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور متحدہ یمن کی تشکیل کے بعد ان کے مسائل و مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً:
• شیعیان یمن اپنے دینی مدارس کی تعمیر اور اپنے مذہب کے مطابق تعلیم و تربیت کا حق نہیں رکھتے۔
• شیعیان یمن کو ہر بہانے سے گرفتار کرکے اذیت خانوں میں منتقل کیا جاتا ہے اور ان کے علماء کو قسم قسم کے آزار و اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
• اہل تشیع، خاص طور پر علمائے شیعہ کو عید غدیر اور دیگر دینی مراسمات منانے سے زبردستی روکا جاتا ہے
• اہل تشیع کے مقدسات کی سرکاری طور پر توہین کی جاتی ہے اور نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ اور دینی و فقہی احکام کے رسالے علی الاعلان نذر آتش کئے جاتے ہیں۔
• اہل تشیع کو اذیت و آزار پہنچانے، ان کے مقدسات کی توہین کرنے اور انہیں دینی اعمال و عبادات سے روکنے کے عمل میں یمنی آمریت ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔
شیعیان یمن کی اکثریت زیدیوں پر مشتمل ہے اور زیدی مذہب شیعہ، حنفی، اور معتزلی افکار کا آمیزہ ہے لیکن زیدیوں کی فقہ کے 90 فیصد تک مسائل اثنی عشری ـ جعفری فقہ کے ساتھ مشترک ہیں۔زیدی پنجتن آل عبا علیہم السلام کی عصمت، امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت بلافصل، امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کی امامت اور آخر الزمان کے نجات دہندہ حضرت امام زمانہ (عج) پر راسخ ایمان و عقیدہ رکھتے ہیں۔ یمن کی کل آبادی تقریبا دو کروڑ کے لگ بھگ ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی سنی مسلمانوں کے شافعی مذہب کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور دوسرے درجے پر زیدی شیعہ ہیں جن کی آبادی 25 فیصد ہے جبکہ اثنی عشری شیعیان اہل بیت (ع) مذہبی اقلیت ہیں جو محرومیت کے لحاظ سے پہلے رتبے پر ہیں۔ شیعیان اثنی عشری صوبہ صعدہ اور دارالحکومت صنعا میں سکونت پذیر ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اثنی عشری معاشرتی محرومیوں کے باوجود علمی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں اور یمن کے اکثر علماء، دانشوروں، اساتذہ، اور اطباء و مہندسین (انجنئیرز) کا تعلق اثناعشری مکتب سے ہے اور سرکاری یونیورسٹیوں کے اکثر اساتذہ بھی اثنا عشری ہیں۔
یمن کے اہل تشیع میں سے پچاس لاکھ سادات ہیں جو مجموعی طور پر 200 خاندانوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد حسنی سادات اور 10 فیصد حسینی سادات ہیں۔الحوثی گروہ زیدیوں پر مشتمل ہے جو شمالی یمن کے صوبہ صعدہ میں سکونت پذیر ہیں؛ یہ لوگ بدرالدین حوثی سے منسوب ہیں اور حوثی کے نام سے مشہور۔ حوثی گروہ 1980 کی دہائی میں تشکیل پایا ہے اور اب تک اپنے حقوق کے حصول کی خاطر چھ مرتبہ تباہ کن حملوں کا نشانہ بنا ہیں۔حوثی گروہ دینی و سیاسی سرگرمیوں سے محرومی، زیدیوں کے عقائد اور ان کی تہذیب کے خاتمے کی سرکاری کوششوں سمیت یمنی آمر کی جانب سے صوبہ صعدہ میں تعمیر و ترقی کے عمل کی مخالفت پر معترض ہے۔
جنرل علی عبداللہ صالح 12 سال تک شمالی یمن کا صدر تھا اور 1990 میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد سے اب تک (19 سال کے عرصے سے) متحدہ یمن کا صدر ہے۔ صدر کو ملک کی تعمیر و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس نے چند سال قبل امریکہ اور سعودی بادشاہت کے ساتھ بعض قراردادیں منعقد کی ہیں جس کے بعد اس نے اعلان کیا کہ حوثی گروہ کی سرکوبی کے لئے فوجی کاروائی کے لئے بھی تیار ہیں اور وہ صعدہ میں حوثیوں کو کچل دیں گے۔ویسے تو جنرل علی عبداللہ صالح کا دعوی ہے کہ وہ خود زیدی شیعہ ہے مگر اس کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بعثی ہے شیعہ ور سنی سب کو یکساں طور پر کچل ڈالنے پر مصر نظر آتا ہے اور اس کا بھی کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ جنرل صالح کی پوری کوشش رہی ہے کہ شمالی یمن میں سماجی ڈھانچہ تبدیل کرکے شیعہ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردے۔انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی اثناعشری مکتب کے پیروکاروں کی آبادی میں بہت اضافہ ہوا اور اس زمانے کے بعد زیدی اور اثنی عشری اہل تشیع کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم و دائم ہے اور "وحدت شیعیان جزیرہ" نامی تنظیم زیدی اور اثنی عشری اہل تشیع کی سرگرمیوں کو ہماہنگ کرتی ہے اور اتحاد کی حفاظت کرتی ہے۔ زیدیوں کا عقیدہ ہے کہ ہر زمانے میں حکومت کا حق صرف حسنی اور حسینی سادات کا ہے اور ان کے سوا کوئی بھی حاکم غاصب تصور کیا جاتا ہے۔ یمن کے اہل تشیع کے پاس ذرائع ابلاغ تک رسائی کے وسائل بھی نہیں ہیں اور ریڈیو ایران کی عربی سروس ان کو بیرونی دنیا سے باخبر رکھتی ہے اور وہ اتنی بڑی آبادی کے باوجود عید غدیر اور محرم الحرام کے
حضرت زید بن علی کی اولاد
* 1- حسین بن زید (ذوالدمعہ یا ذی العبرہ)
* 2- محمد بن زید
* 3 - عیسی بن زید (موتم الاشبال)
* 4- یحیی بن زید (سیف ُ الاسلام)
|