شجره طیبه زیدی سادات مقیم شبه قاره هند
 

11- حضرت زید بن علی کا دور اور قیام
اس وقت دمشق میں ہشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی . اس زمانہ سلطنت میں ملک میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہوچکا تھا . مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہورہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے تھے , ان میں نمایاں ہستی حضرت زید(رض) کی تھی جو امام زین العابدین علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے .ان کی عبادت زہد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شہرہ تھا . مستند اور مسلّم حافظ ُ قران تھے . بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آکر انھوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا . امام جعفر صادق علیہ السّلام کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالم بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ آپ زید(رض) کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید(رض) آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا ۔ خود ان کی ذات سے آپ کو انتہائی ہمدردی تھی . آپ نے مناسب طریقہ پر انھیں مصلحت اندیشی کی دعوت دی مگر اہل عراق کی ایک بڑی جماعت کے اقرار اطاعت و وفاداری نے جناب زیدکے اندر کامیابی کی توقعات پیدا کردیں.ہشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن عبدالملک پھر یزید بن ولید بن عبدالملک اس کے بعد ابراہیم بن ولید بن عبدالملک اور آخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا . جب سلطنت کی داخلی کمزوریاں قہر و غلبہ کی چولیں ہلا چکی ہوں تو قدرتی بات ہے کہ وہ لوگ جو اس حکومت کے مظالم کا مدتوں نشانہ رہ چکے ہوں اور جنھیں ان کے حقوق سے محروم کرکے صرف تشدد کا نشانہ بنایاگیا ہو وہ قفس کی کمزور تتلیوں کی طرح پھڑ پھڑانے کی کوشش کریں گے اور حکومت کے شکنجے کو ایک دم توڑ دینا چاہیں گے , سوائے ایسے بلند افراد کے جو جذبات کی پیروی سے بلند ہوں . عام طور پر اس طرح کی انتقامی کوششوں میں مصلحت اندیشی کادامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے کا امکان ہے مگر وہ انسانی فطرت کا ایک کمزور پہلو ہے جس سے خاص خاص افراد ہی مستثنیٰ ہوسکتے ہیں . بنی ہاشم میں عام طور پر سلطنت بنی امیہ کے اس آخری دور میں اسی لیے ایک حرکت اور غیر معمولی اضطراب پایا جارہا تھا . اس اضطراب سے بنی عباس نے فائدہ اٹھایا . انھوں نے آخری دور امویت میں پوشیدہ طریقے سے ممالکِ اسلامیہ میں ایک ایسی جماعت بنائی جس نے قسم کھائی تھی کہ ہم سلطنت کو بنی امیہ سے لے کر بنی ہاشم تک پہنچائیں گے جن کا وہ واقعی حق ہے . حالانکہ حق تو ان میں سے مخصوص ہستیوں ہی میں منحصر تھا جو خدا کی طرف سے نوع ُ انسانی کی رہبری اور سرداری کے حقدار بنا کر بھیجے گئے تھے یہ وہی جذبات سے بلند انسان تھے جو موقع کی سیاسی رفتار سے ہنگامی فوائد حاصل کرنا اپنا نصب العین نہ رکھتے تھے .
سلسلہ بنی ہاشم میں سے ان حضرات کی خاموشی قائم رہنے کے ساتھ اس ہمدردی کو جو عوام میں خاندان ہاشم کے ساتھ پائی جاتی تھی , بنی عباس نے اپنے لیے حصول ُ سلطنت کاذریعہ قرار دیا . حالانکہ انھوں نے سلطنت پانے کے ساتھ بنی ہاشم کے اصل حقداروں سے ویسا ہی یا اس سے زیادہ سخت سلوک کیا جو بنی امیہ ان کے ساتھ کرچکے تھے . بنی عباس میں سے سب سے پہلے محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے بنی امیہ کے خلاف تحریک شروع کی اور ایران میں مبلغین بھیجے جنھو ں نےمخفی طریقہ پر لوگوں سے بنی ہاشم کی وفاداری کاعہدوپیمان حاصل کیا . محمد بن علی کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم قائم مقام ہوئے .جناب زید(رض )اور ان کے صاحبزادے جناب یحییٰ (رض )کے دردناک واقعات شہادت سے بنی امیہ کے خلاف غم وغصہ میں اضافہ ہوگیا . اس سے بھی بنی عباس نے فائدہ اٹھایا اور ابو سلمہ خلال کے ذریعہ سے عراق میں بھی اپنے تاثرات قائم کرنے کا موقع ملا . رفتہ رفتہ اس جماعت کے حلقہ اثر میں اضافہ ہوتا گیا اور ابو مسلم خراسانی کی مدد سے عراق عجم کا پورا علاقہ قبضہ میں آ گیا اور بنی امیہ کی طرف سے حاکم کو وہاں سے فرار اختیار کرنا پڑا .
سلسلہ بنی ہاشم میں سے ان حضرات کی خاموشی قائم رہنے کے ساتھ اس ہمدردی کو جو عوام میں خاندان ہاشم کے ساتھ پائی جاتی تھی , بنی عباس نے اپنے لیے حصول ُ سلطنت کاذریعہ قرار دیا . حالانکہ انھوں نے سلطنت پانے کے ساتھ بنی ہاشم کے اصل حقداروں سے ویسا ہی یا اس سے زیادہ سخت سلوک کیا جو بنی امیہ ان کے ساتھ کرچکے تھے . 631ھ میں ابو عبداللہ سفاح بنی عباس کے پہلے خلیفہ کا انتقال ہوگیا . جس کے بعداس کا بھائی ابو جعفر منصور تخت ُ خلافت پر بیٹھا جو منصور دوانقی کے نام سے مشہور ہے . سادات پر مظالم یہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ بنی عباس نے ان ہمدردیوں سے جو عوام کو بنی فاطمہ کے ساتھ تھیں ناجائز فائدہ اٹھایا تھا اور انھوں نے دنیا کو یہ دھوکا دیا تھا کہ ہم اہلبیتِ رسول کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے ہیں چنانچہ انھوں نے رضائے الِ محمد ہی کے نام پر لوگوں کو آپنی نصرت وحمایت پر امادہ کیاتھا اور اسی کو آپنانعرئہ جنگ قرار دیا تھا . اس لیے انھیں برسر اقتدار انے کے بعد اور بنی امیہ کو تباہ کرنے کے بعد سب سے بڑا اندیشہ یہ تھا کہ کہیں ہمارایہ فریب دنیا پر کھل نہ جائے اور تحریک پیدا نہ ہوجائے کہ خلافت بنی عباس کی بجائے بنی فاطمہ کے سپرد ہونا چاہیے , جو حقیقت میں الِ رسول ہیں . ابو سلمہ خلال بنی فاطمہ کے ہمدردوں میںسے تھے اس لیے یہ خطرہ تھا کہ وہ اس تحریک کی حمایت نہ کرے , لہذا سب سے پہلے ابو سلمہ کو راستے سے ہٹا یا گیا وہ باوجود ان احسانات کے جو بنی عباس سے کرچکا تھا سفاح ہی کے زمانے میں تشدد بنا اور تلوار کے گھاٹ اتارا گیا . ایران میں ابو مسلم خراسانی کااثر تھا , منصور نے انتہائی مکاری اور غداری کے ساتھ اس کی زندگی کا بھی خاتمہ کردیا اب اسے آپنی من مانی کاروائیوں میںکسی بااثر اور صاحبِ اقتدار شخصیت کی مزاحمت کا اندیشہ نہ تھالٰہذا اس کا ظلم وستم کا رخ سادات بنی فاطمہ کی طرف مڑ گیا . مولانا شبلی سیر ت نعمان میں لکھتے ہیں .»صرف بد گمانی پر منصور نے سادات علویئین کی بیخ کنی شروع کردی . جو لوگ ان میں ممتاز تھے ان کے ساتھ بے رحمیاں کی گئیں .محمد ابن ابراہیم کہ حسن وجمال میںیگانہ روز گار تھے اور اسی وجہ سے دیب ج کہلاتے تھے زندہ دیواروں میں چنوادیئے گئے . ان بے رحمیوں کی ایک داستان ہے جس کے بیان کرنے کو بڑا سخت دل چاہیے .
اس وقت دمشق میں ہشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی . اس زمانہ سلطنت میں ملک میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہوچکا تھا . مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہورہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے تھے , ان میں نمایاں ہستی حضرت زید(رض) کی تھی جو امام زین العابدین علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے .ان کی عبادت زہد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شہرہ تھا . مستند اور مسلّم حافظ ُ قران تھے . بنی امیہ کے مظالم سے تنگ اکر انھوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا . امام جعفر صادق علیہ السّلام کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالم بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ آپ زید(رض) کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید(رض) آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا مگر آپ کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ یہ اقدام کسی مفید نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا . اس لیے عملی طور پرآپ ان کاساتھ دینامناسب نہ سمجھتے تھے مگر یہ واقعہ ہوتے ہوئے بھی خود ان کی ذات سے آپ کو انتہائی ہمدردی تھی . آپ نے مناسب طریقہ پر انھیں مصلحت اندیشی کی دعوت دی مگر اہل عراق کی ایک بڑی جماعت کے اقرار اطاعت ووفاداری نے جناب زید(رض) اندر کامیابی کی توقعات پیدا کردیں اور آخر 120ھ میں شام کی ظالم فوج سے تین روز تک بہادری کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد شہید ہوئے . دشمن کا جذبہِ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہونے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالاگیا اور سر کو جدا کرکے ہشام کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا اور لاش کو دروازہ کوفہ پر سولی دے دی گئی اور کئی برس تک اسی طرح آویزاں رکھا گیا . جناب زید(رض ) کی شہادت کے ایک سال بعد ان کے بیٹے یحیٰی ابن زید علیہ السّلام بھی شہید ہوگئے .یقیناً ان حالات کا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے دل پر گہرا اثر پڑ رہا تھا . مگر آپ نے جذبات سے بلند رہ کر ان فرائض کو ادا کیا جو قدرت کی جانب سے آپ کے سپرد تھے اور آپ نے شریعت اور معارف اسلامی کی نشر و اشاعت میں نمایاں کام انجام دیا اور مسلسل اس کام میں مشغول رہے بنی امیہ کی حکومت کا آخری دور ہنگاموں اور سیاسی کشمکشوں کا مرکز بن گیا تھا . جس کے نتیجے میں تیزی کے ساتھ حکومتوں میں تبدیلیاں ہورہی تھیں اور اسی لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام کو بہت سی دنیوی سلطنتوں کے دور سے گزرنا پڑا . ہشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن عبدالملک پھر یزید بن ولید بن عبدالملک اس کے بعد ابراہیم بن ولید بن عبدالملک اور آخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا .
مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہورہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے تھے , ان میں نمایاں ہستی حضرت زید کی تھی جو امام زین العابدین علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے .ان کی عبادت زہد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شہرہ تھا . مستند اور مسلّم حافظ ُ قران تھے . بنی امیہ کے مظالم سے تنگ اکر انھوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا . امام جعفر صادق علیہ السّلام کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالم بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ آپ زید(رض) کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید(رض) آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا مگر آپ کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ یہ اقدام کسی مفید نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا . اس لیے عملی طور پرآپ ان کاساتھ دینامناسب نہ سمجھتے تھے مگر یہ واقعہ ہوتے ہوئے بھی خود ان کی ذات سے آپ کو انتہائی ہمدردی تھی .

قیام کے مقاصد
زید بن علی تاریخ قیام کی تاریخ منگل کی رات اول صفر سال ۱۲۱ قمری تھی. تاریخ طبری اور دوسرے مورخین کے مطابق کوفہ کے ۴۰ ہزار افراد نے ان کےہاتھ پر بیعت کی تھی جبکہ صرف ۲۱۸ افراد جنگ کے وقت آپ کے ہمراہ تھے۔حضر ت زید نے بڑی جوانمردی سے جنگ کی۔
• خاندان پیامبر اور آن کی اولاد پر حکوت وقت کے ظلم ستم کے خلاف
• انتقام خون شہیدان کربلا کے لیے
• خدا ا و ر پیامبر کے احکامات کی ترویج کے لیے
• امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، و اصلاح وضع جامع مسلمین کے لیے
• حکومت اسلامی کے قیام کے لیے

12- حضرت زید شہید سے وابستہ شخصیات اور شاگرد
امام زادوں اور سادات کی بڑی تعداد کے علاوہ مندرجہ ذیل شخصیات ہر اچھے اور برے وقت میں آپ کے ساتھ رہیں۔
ابوحنیفہ جو فقہ حنفیہ کے امام بھی ہیں نے دو سال سے زیادہ عرصہ تک کوفہ میں آپ کی شاگردی اختیار کی اور اسلامی معارف اور علوم حاصل کیے۔
عبداللّہ بن شبرمہ بن طفیل. جو کہ اس دو ر کے مشہور قاضی ،شاعر ،عالم اور محدث بھی تھے۔
اعمش سلیمان بن مہران کوفی کاہلی. کہ اس دو ر کے مشہور بزرگان شیعہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
سلیمان بن خالد. جو کہ امام صادق علیہ السّلام کی اجازت سے ان کے ساتھ شامل جہاد ہوۓ۔
منصور بن معتمر. علامہ حلی کے بقول وہ اصحاب امام باقر میں سے تھے جو آپ کے ساتھ شامل ہوۓ۔
مسعد بن کدام. وہ راویان حدیث میں سے تھے ۔
یزید بن ابی زیاد. وہ عالم، فاضل ا ور محدثین میں سے تھے جو آپ کے ہر موقع پر ساتھ رہے۔
قیس بن ربیع. جو دانشمند شخصیت کے حامل تھے۔
ابوحصین، عثمان بن عاصم
حجاج بن دینار. جو آپ کے ساتھ شامل رہے ۔
ہارون بن سعد عجلی کوفی. وہ کوفہ عالم، فاضل بزرگان میں سے تھے۔
11. محمّد بن عبدالرحمن.
زبید بن حارث بن عبدالکریم امامی. فاضل ا ور محدثین میں سے تھے جو آپ کے ہر موقع پر ساتھ رہے۔
ہلال بن خباب. فاضل قاضی ا ور محدثین میں سے تھے جو آپ کے ہر موقع پر ساتھ رہے۔
ابوہاشم زمانی. ان کا نام یحیی بن دینار تھا۔
ہاشم بن زید. وہ بزرگان شیعہ‌ اور اہل سنت میں سے تھے۔
سلمہ بن کہیل. جو دانشمند شخصیت کے حامل تھے۔
عبدہ بن کثیر جرمی. جو کہ عراق کے دانشمندوں میں سے تھے۔
حسن بن سعد.
سفیان ثوری.
یحیی بن دینار واسطی-

حضرت زید شہید کے شاگرد
یحیی بن زید
محمّد بن مسلم (بزرگان اسلام)
ابی حمہ ثمالی (اسلام کے بڑے مفکر)
محمّد بن بکیر (اسلام کے بڑے مفکر)
ابن شہاب زہری
شعبہ بن حجاج
ابوحنیفہ (جو ایک مدت تک شاگرد مکتب علمی امام باقر و امام صادق رہے اور دو سال تک زید بن علی کی شاگردی اختیار کی)
سلمہ بن کہیل
یزید بن ابی زیاد
ہارون بن سعید عجلی
ابو ہاشم بن رمانی
حجاج بن دینار
آدم بن عبداللّہ خثعمی
اسحاق بن سالم
بسام بن صیرفی
راشد بن سعد
زیاد بن علاقہ
عبداللّہ بن عمرو بن معاویہ

خاندان بنو ہاشم کی شاگرد شخصیات
ابراہیم بن حسن مثنی
حسن مثلث
حسین بن علی بن الحسین الشہید
عبیداللّہ بن محمّد بن عمر بن علی بن ابی طالب (علیہ السلام)
عبداللّہ بن محمّد بن عمر بن علی