8- حضرت زید بن علی کی شخصیت اور احوال
تاریخ کی معتبر کتب میں تحریر ہے کہ حضرت زید بن علی بہت خوبصوت اور پر وقار شخصیت کے مالک تھے۔ آنکھیں بڑی اور سیاہ جبکہ ابرو کشیدہ جس سے آپ کی شخصیت دوسروں سے نمایاں نظر آتی تھی۔ بچپن ہی سے بہت ذہین اور لائق تھےآپ روحانی کمالات و معنوی جمالات کے ساتھ ساتھ شجاعت حیدر کرّار کے بھی وارث تھے۔علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاں پیدا ہوا ، شیرِ خدا معلوم ہوتا ہے.
زیدی سادات کا سلسلہ نصب اپنے جد بزرگوار حضرت زید شھید سے جا ملتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزندوں میں امام محمد باقر (ع) کے بعد سب سے زیادہ نمایاں حیثیت جناب زید شہید کی تھی ۔آپ بلند قامت، حسین اور پروقار شخصیت کے حامل انسان تھے۔انہوں نے اپنے والد گرامی اور بھائی کے زیر سایہ علم و معرفت کی منازل طے کیں۔تیرہ سال کی عمر میں قرآنی علوم میں دسترس حاصل کی اور "حلیف القرآن" کا لقب حاصل کیا۔ آپ نے دین مبین کی سر بلندی کے لیے حجاز ،شام اور عراق کا سفر کیا۔
یزید کے بعد امت امامیہ میں اتنا شعور پیدا ہوگیا تھا کہ جب اس کے بیٹے معاویہ بن یزید کو حکومت دی گئی تو اس نے صاف لفظوں میں یہ اعلان کردیا کہ خلافت روز اول سے غصبی ہے اور مجھے غصبی مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے جن لوگوں نے خلافت کو لے کر عیش کیا ہے وہی پر وردگار کی بارگاہ میں جواب دہ بھی ہوں گے ۔ میں جواب دہی کا ذمہ دار کیوں بنو یہ ہے واقعہ کربلا کا اثر کہ دنیا سمجھتی تھی کہ امام حسین (ع) فنا ہوگئے آل محمد (ص) کا نام مٹ گیا دین الہی بنی ہاشم کا کھیل تماشا بن گیا ۔ لیکن امام حسین (ع) نے آواز دی کہ سر کٹا کر بھی خلافت و حکومت کو اتنا رسو ا کردوں گا کہ بیٹا بھی باپ کی جگہ لینے کے لئے تیار نہ ہو اور گھر کا راز گھر ہی سے کھلے ۔ میں نہیں جانتا کہ یزید کا بیٹا کتنا نیک نیت تھا اور اس نے کس خلوص سے یہ اعلان کیا تھا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ شہادت امام حسین (ع) اس قدر پر اثر تھی کہ اس نے غیرت دار بیٹے کوباپ کی جگہ لینے سے انکار کرنے پر مجبور کردیا ۔
65 سے 86 ہجری تک عبدا لملک بن مروان کی حکومت رہی ۔ یہ شخص حکومت سے پہلے بڑا نمازی اور عبادت گزار تھا ۔ لیکن جس دن یہ خبر ملی کہ خلافت آپ کے حصے میں آگئی ہے ، فورا قرآن اٹھا کر بند کردیا اور آواز دی "ھذا فراق بینی و بینک " آج میرے اور تیرے درمیان جدائی ہوگئی ۔ اب خلافت قبضہ میں آگئی ہے ۔ اب قرآن کی ضرورت نہیں ہے ۔ علامہ اقبال کو اسی مقام پر مرثیہ پڑھنا پڑا ہے ۔
چوں خلافت رشتہ از قرآن گیخت حریت را زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا توحریت و آزادی کے کام و دہن میں سوائے زہر کے کچھ نہ رہ گیا ۔ میں عرض کروں گا حضرت علامہ !! ابھی کتنے دن گذرے ہیں جب خلافت نے عترت سے کنارہ کشی کی تھی اتنی جلدی قرآن بھی ہاتھ سے نکل گیا ۔ اب آپ نے دیکھ لیا کہ قرآن و عترت میں کتنا اتحاد ہے کہ جس سے عترت الگ ہوجاتی ہے اس سے قرآن بھی الگ ہوجاتا ہے ۔
یزید کے بعد ہشام بن عبد الملک بادشاہ ہوا اس کا دور حکومت 105 ہجری سے 125 ہجری تک 20 سال قائم رہا اور جس قدر ظلم کا امکان تھا آل محمد (ص) پر ظلم کیا گیا ۔ جناب زید بن علی بن الحسین (ع) کی شہادت اسی کے دور کا المیہ ہے ۔ جناب زید امام زین العابدین (ع) کے فرزند تھے ۔ ان کی والدہ کا نام حوریہ تھا جنھیں جناب مختار نے امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ زید نے ہشام کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ۔ ابو حنیفہ نے ان کا ساتھ دیا ۔ اور ان کی حمایت میں فتوی دیا لیکن ہشام نے انھیں امام بنا کر توڑ لیا اور زید کا یہ عالم ہوگیا کہ چالیس ہزار کی فوج میدان جنگ تک صرف 88نفر رہ گئی ۔
جناب زید شہید ہوگئے اور ظالموں نے ان سر کاٹ کر ہشام کے پاس دمشق بھیج دیا ۔ وہاں یہ سر صدر دروازے پر معلق رہا ۔ اس کے بعد لاش کو سولی دی گئی اور پھر سولی سے اتار کر در کوفہ پر لٹکا دیا گیا ۔ اور چار برس تک مظالم کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔ یہاں تک کہ لاش کو نذر آتش کردیا گیا - دنیا کہتی ہے کہ واقعہ کربلا میں اتنے مظالم نہیں ہوئے ۔ لشکر یزید بھی تو انسان ہی تھا انسان انسان پر اتنا ظلم نہیں کرسکتا لیکن میں کہوں گا کہ کربلا کی بات تو چھوڑئیے ۔ یہ کربلا کے بعد کاواقعہ ہے ۔ جب سارے عالم اسلام کے احتجاج کے بعد اتنا بڑا ظلم ہوسکتا ہے تو پوری دنیا ئے اسلام کی بیعت کے بعد کیا نہیں ہوسکتا ۔
ولادت با سعادت
آپ سیّد السّاجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پرہیز گار اور متقی فرزند ارجمند تھے۔ حضرت زید بن علی کی ولادت باسعادت امام زین العابدین علیہ السلام کے بیت الشرف واقع مدینہ منورہ میں ہوئی۔ ان کی تاریخ ولادت پرمختلف مورخین کے درمیان اختلاف راۓ موجود ہے ۔ مشہور محقق ابن عساکر نے ان کی تاریخ ولادت 78 ہجری جبکہ ایک اور مورخ محلی ان کی تاریخ ولادت 75 ہجری لکھتے ہیں۔چند مورخین کے مطابق ان کی تاریخ ولادت 80 ہجری بنتی ہے۔ ابن عساکر نے اپنی کتاب تھذیب تاریخ دمشق الکبیر کی جلد 6 کے صفحہ 18 پر لکھا کہ آپ کی شھادت 42 سال کی عمر میں سن 120ق میں ہوئی اس حساب سے آپ کا سال ولادت با سعادت 78ھ ہی بنتا ہے۔ لیکن شیخ مفید اپنی کتاب مسارالشیعتہ میں ان کا سال شھادت اول ماہ صفر 121ھ لکھا۔ مشہور کتاب مسند امام زید جو کہ حضرت زید بن علی کی شرح احوال کے بارے میں ہے اس میں آپ کا سال ولادت با سعادت 76 ھ جبکہ سال شھادت 122ھ د رج ہے۔اس طرح آپ کی عمر 46 سال بنتی اور زیدی سادات اس کو درست تسلیم کرتے ہیں اور یہی تاریخ قرین قیاس ہے۔
حضرت زید بن علی کے القابات
• شہید
• حلیف القرآن
• زیدالازیاد
• عالم آل محمّد
• فقیہ اہلبیت
حضرت زید بن علی شہید ( رح) کی زوجہ محترمہ
حضرت ریطہ بنت محمدحنفیہ
زیدابن علی نے مولا علی مشکلکشا ، شیر خدا کی پڑپوتی سیدہ ریطہ دختر سیدنا ابو ہاشم عبداللہ فرزند حضرت محمد حنیفہ بن امام علی سے عقد فرمایا ۔ اس طرح ان کا سلسلہ تین واسطوں سے حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ حضرت ابو ہاشم کا شمار اپنے دور کے نامور بزرگوں میں ہوتا تھا۔وہ سادات علوی اور حضرت علی علیہ السلام کی اولاد تھے ۔سلمان بن عبدالملک مروان کے حکم سے آپ کو بیدر دی سے شہید کیا گیا۔ حضرت ریطہ کا شمار خاندان ہاشمی کی معزز اورمحترم خواتین میں ہوتا ہے۔ ان کی شہادت کوفہ کے ظالم اور جابر حاکم یوسف بن عمر کے ناپاک ہاتھوں سے ہوئی۔اس ظالم حاکم نے حکم دیا تھا کہ حضرت زید کی ذوجہ محترمہ پر کوڑے برساۓ جائیں۔تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ اس قدر کوڑے لگاۓ گۓ کہ آپ کا جسم مبارک زخموں سے لہو لہان ہو گیا ۔اس طرح اس شدید زخمی حالت میں ان کو کوفہ شہر سے باہر پھینک آنے کا حکم دیا گیا ۔ یوں خاندان بنی ہاشم کی یہ بہادر اور نڈر خاتون اپنےاجداد اور شوہر نامدارحضرت زید بن علی شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ دین حق کی بقا کے لۓ شہادت کے رتبہ پر فائز ہوئیں۔
حضرت علی |
امام حسین |
محمد حنفیه |
امام سجاد |
عبدالله |
زید شہید |
ریطہ بی بی |
حضرت یحیی |
شہادت
اس دوران کئی بارعلوی سادات نے اپنے اپنے زمانے کی حکومتوں کے ظلم و ستم اوردباؤ کے خلاف تحریکیں شروع کیں لیکن ان کو ھر بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور آخر کار اس راہ میں اپنی جان کی بازی لگاتے رھے۔ اس وقت کی حکومتوں نے ان کے جان ومال کو پامال کرنے میں کوئی کسر اٹھانھیں رکھی تھی ۔ قابل ذکر ہے کہ سنہ 61 ھ ق کے واقعہ کربلا کے بعد مسلمانوں میں حق پسندی کا جذبہ بیدار ہوا ۔وہ بنی امیّہ کی ظالم اور فاسق و فاجر حکومت کے خلاف جد و جہد کے لئے بے تاب رہتے تھے اور جہاں انہیں کوئی رہبر ملتا تھا حکومت کے خلاف تحریک شروع کردیتے تھے ۔چنانچہ اس جانگداز واقعے کے بعد متعدد انقلابی تحریکیں سامنے آئیں جن میں صرد خزاعی کی قیادت میں توابین کی تحریک اور امیر مختار کی قیادت میں خون حسین علیہ السلام کے انتقام کی تحریک کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ان تمام انقلابی تحریکوں کا مقصد بنی امیہ کی ظالم حکومت کا خاتمہ کرنا تھا ۔ انہوں نے بنی امیہ کے ظلم وستم کا مقابلہ کرنے اور انقلاب امام حسین علیہ السلام کے ثمرات کے تحفظ کے لئے بنی امیہ کی حکومت کے خلاف تحریک کو جاری رکھا ۔ تاریخ میں رقم ہے کہ جب دوران جنگ زید بن علی کہ پیشانی پر تیر لگا ۔لوگ ان کو ایک گھر میں اٹھا لے گئے اور انھوں نے وفات پائی اس طرح صفر 121 ھ کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند حضرت زید شہید ہوئے ۔ تاریخ ابن الوردی میں ہے کہ عراق کے والی یوسف بن عمر ثقفی نے زید شہید کا دھڑ سولی پر چڑھا دیا دشمن کا جذبہِ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہونے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالاگیا اور سر کو جدا کرکے ہشام بن عبد الملک کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا ۔ایک روایت کے مطابق ہشام نے سر زید شہید دس ہزار درہم انعام کے طور پر دیۓ اور لاش کو دروازہ کوفہ پر سولی پر آویزاں رکھا گیا . تاریخ خمیس میں ہے کہ جب زید شہید کا برہنہ جسم دار پر چڑھا یا گیا تو مکڑی نے جالا لگا کر ان کی شرم گاہ کو چھپادیا۔ اس کے بعد لاش کوسولی سے اتار کر آگ میں جلا دیا گیا اور راکھ کو ھوا میں اڑا دیا گیا- جناب زید شہید کی شہادت کے ایک سال بعد ان کے بیٹے یحیٰی ابن زید بھی شہید ہوگئے ۔ اصابہ ابن حجر عسقلانی میں بروایت کوکبی سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ حکیم بن عیاش کلبی آپ لوگوں کو ہجو کیا کرتا ہے ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تجھ کو اس کا کچھ کلام یاد ہو بیان کر۔ اس نے دوشعر سنائے ( جن کا حاصل مقصود یہ ہے کہ) ہم نے زید کو شاخ درخت خرمہ پر سولی دیدی حالانکہ ہم نے نہیں دیکھا۔
مقبرہ :
روایات میں ہے کہ ہشام بن عبدالمالک کے حکم پر آپ کا سر مبارک تن سے جدا کیا گیا جب آپ کے سرمبارک کو آپ کے ساتھیوں کے سروں کے ہمراہ پہلے شام اور شام سے مدینہ لایا جا رہا تھا تو مدینہ کے راستے میں اردن میں حجاز اور شام کو متصل کرنے والی قدیم سلطنتی شاہراہ پر واقع موتہ کے شمال میں 22 کلو میٹر کے فاصلے پر قدیم شہر رومی میں واقع قصبہ میں جناب زید شہید کا سر مبارک کےدفن کا مقام ہے جس کا نام" ربہ" ہے جہاں حجاز اور شام کو متصل کرنے والی قدیم سلطنتی شاہراہ گزرتی ہے۔ مزار پر نصب ایک پتھر کی تختی پر کندہ تھا کہ یہ قبر مبارک زید بن علی علیہ السلام بن حسین علیہ السلام بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ہے جسے بندہ حقیر سلمان قانونی نے تعمیر کیا۔ یہ پتھر کی سل اب تک شہداء موتہ کے مزارات کے میوزیم میں موجود ہے۔ اس روایت کی مقامی افراد اب تلک تصدیق کرتے ہیں۔ معتبر تواریخ بھی اس بات کی تائیدکرتی ہیں کہ آپ کا سر مبارک مدینہ پہچنے سے پہلے دفن ہوا۔ ان سروں کے دفن ہونے کےبعد یہ مقام مسلمانوں کے مبارک قبرستان میں تبدیل ہو گیا۔جہاں اب بہت سی شخصیات دفن ہیں۔ مصدقہ حوالوں کے مطابق فاطمی حکومت کے عہد میں یہاں روضہ تعمیر کیا گیا اور جس کی تجدید عثمانی حکومت کے سلطان سلیمان قانونی نے کی۔
|
|