6- سادات کی ہندوستان آمد سے پاکستان ہجرت تک
سلاطین و شاھان وقت کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اور دین مبین محمد و آل محمد کی تبلیغ و سر بلندی کے لیے اس خاندان کے اجداد نے سر زمین عراق کو خیر باد کہا یہ خاندان پہلے ایران میں جا کر آباد ہوا وہاں سے ہجرت کرتے ہوۓ زاہدان اور افغانستان کے راستے عہدغزنوی میں ہندوستان میں آ کر آباد ہوا ۔اس خاندان کے اجداد سب سے پہلے اچ شریف میں آباد ہوۓ پھر اس خاندان نے اچ شریف اور وادی مہران سے نقل مکانی کر کے برست ضلع کرنال میں سکونت اختیار کی۔ پٹیالہ سے تقریباً ۵۲ کلومیٹر جنوب مغرب میں دریائے گھگر کے دائیں طرف نظر آئے گا۔ سامانہ ہندوستان میں خلافت عباسیہ کی حدود سے باہر پہلی مسلمان نوآبادی تھی جسے بنی فاطمہؑ نے تیسری یا چوتھی صدی عیسوی میں آباد کیا تھا۔ ساداتِ بنی فاطمہؑ نے تیسری صدی ہجری کے اواخر یا چوتھی صدی کے اوائل میں سامانہ میں قدم رکھا تھا۔ پھر جونہی انہوں نے اپنی عزت اور جان و مال کو محفوظ محسوس کیا، قدرتی طور پر اپنے عقائد کی اشاعت و ادائیگی زیادہ آزادی و تندہی سے انجام دینے میں مشغول ہوگئے۔ برصغیر کے ہندو حکمران سادات بنی فاطمہؑ کے لئے ان نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے مقابلے میں نیک دل اور خدا ترس ثابت ہوئے جنہوں نے محمد رسول اللہ کی نسل کو منقطع کرنے کے لئے کوئی حیلہ اور وسیلہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اگرچہ ان پناہ گزینوں کا ہندوستانی حکمرانوں سے رسمی طور پر پناہ مانگنا ، ان حکمرانوں کا مصیبت و ابتلاءمیں گھرے ہوئے ساداتِ کرام کا استقبال کرنا اور پناہ کے لئے کسی رسمی حکم نامہ کے اجراءکے تاریخی شواہد میسر نہیں آسکے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ پناہ گزین کرئہ ارض پر اُس عہد کی سب سے وسیع اور طاقت ور حکومت کی نظر میں باغی اور دشمن تصور کئے جاتے تھے۔ ایسے لوگوں کو پناہ دینا عظیم الشان عباسی سلطنت کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ سامانہ کے علاقے کے مقامی حکمرانوں کی توبات ہی کیا، پورے ہندوستان کے حکمران مل کر بھی عباسیوں کی طاقت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔
تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے واقف ہیں کہ ہمسائے میں چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستوں کو ہڑپ کرنے کے لئے طاقت ور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں مگر اسے قدرت کاکرشمہ کہنا چاہئے کہ عین اسی زمانے میں جب ساداتِ بنی فاطمہؑ سامانہ پہنچی، عباسی سلطنت میں داخلی خلفشار رونما ہورہا تھا۔ عین اسی زمانے میں ان کی عظیم الشان اور طاقت ور سلطنت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی تھی۔ بس اسی داخلی انتشار نے ہمارے بزرگوں کو ان ظالم و جابر حکمرانوں کی دسترس سے محفوظ رکھا اور اللہ نے کافر حکمرانوں کے دل میں مسلمان حکمرانوں کے ستائے ہوئے خاندانِ رسالت کے دربدر خاک بسر خانماں بربار شریف و نجیب افراد کے لئے اپنی حکمت بالغہ سے وہ اسباب پیدا کردیئے جن کی بدولت مسلمان بتدریج ہندو معاشرے میں تبلیغِ اسلام کی راہیں ہموار کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
تیسری صدی میں حکمرانوں کے مظالم بنی فاطمہ ؑ پر پہلے کی نسبت کہیں زیادہ شدت اختیار کرگئے تھے۔ اضطرابی کیفیت میں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق خروج بھی کئے گئے۔ ساداتِ اکرام جان کی حفاظت کے لئے اطرافِ عالم میں پناہ گزیں بھی ہوئے۔ بنی فاطمہؑ کے ستم رسیدہ افراد کے ایک گروہ کے ساتھ خلافت کی حدود سے باہر آکر سرہندجیسے سرسبز و شاداب علاقہ میں پناہ گزیں ہوئے۔ ان کی دلچسپیاں صرف دینِ اسلام کی سربلندی، اشاعتِ رموزِ قرآن و علومِ آل محمدؑ اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کی حد تک تھیں۔ علاقائی ہندو حکمرانوں نے ان کے کردار اور عزائم کے مدِ نظر ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ان کو مذہبی آزادی اور اپنے عقیدے کے مطابق امن و امان سے زندگی بسر کرنے دی۔ یہ اللہ کی ایک خاص مشیت تھی کہ یہ چھوٹے چھوٹے رجواڑے دنیا کی عظیم ترین حکومت کے مفروضہ باغیوں کو پناہ دینے میں ذرا بھی متردد نہیں ہوئے۔ ورنہ شمالی ہند تو کیا پورے ہندوستان کے حکمران بھی مل کر عباسی حکومت کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ امن و امان کی فضا میں اس بستی کی اہمیت بڑھتی گئی۔ سو ڈیڑھ سو سال بعد جب سلطان محمود غزنوی نے اس علاقہ کو سلطنتِ غزنی میں شامل کیا تو یہ دینِ اسلام کی نشرو اشاعت اور علومِ آلِ محمدؑ کی درس و تدریس کا اہم مرکز تھا۔
چنانچہ سید ابوالفراح واسطی کے فرزندانِ ارجمند سامانہ اور لدھیانہ کے ہی گردو نواح میں سکونت پذیر ہوئے تھے ۔ چار میں سے تین بستیاں تو صفحہ ہستی پر موجود نہیں البتہ سامانہ سے تقریباً تیس میل کے فاصلے پر چھت کی بستی موجودہ بنوڑ سے متصل 1947 تک قائم تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ چھت میں کوئی سادات آباد نہیں تھے بلکہ اس سے دو ڈیڑھ میل کے فاصلے پر بنوڑ میں سادات کی بہت بڑی آبادی تھی۔ اس سے قریباً دوسو سال بعد شہاب الدین غوری، ترا وڑی کے میدان میں پرتھوی راج چوہان کے ٹڈی دل لشکر کو شکست دے کر سامانہ میں آرام کی غرض سے کچھ عرصہ مقیم رہا۔ (بحوالہ کیمبرج ہسٹری آف انڈیا، جلد سوئم)
مغلیہ دو ر کے اواخر تک یہ ایک اہم فوج دار کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر گوروگوبند کے دو بچوں کے قتل میں سامانہ کے فوج دار کا ہاتھ بتایا جاتا تھا۔ جس کے بدلے میں بندہ بیراگی سنگھ سردار نے ۹۰۱۱ءمیں سامانہ کو تاخت و تاراج کرڈالا۔ مکانوں اور املاک کو نذر آتش کیا۔ بحوالہ ”ہسٹری آف سکھ ریلجن“ سامانہ کے دس ہزار سادات اور مغل معززین کو قتل کیا گیا۔ اس اندھے اور سفاکانہ قتل عام کے بعد سامانہ ایک درمیانے درجے کا قصبہ رہ گیا۔ جلیل القدر فرزند حسین بن زید کی نسل سے ایک سلسلہ صدیوں سامانہ میں بود و باش رکھنے کے بعد امروہہ ضلع مرادآباد منتقل ہوگیا اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔ یہ خاندان نقوی سادات میں ایسا گھل مل گیا کہ امروہوی کہلانے لگا۔ سامانہ کے بزرگوں کے بیان کے مطابق اس خاندان کی نقلِ مکانی کا سبب سکھوں کا بغض و کینہ اور ناروا سلوک تھا اس لئے کہ سکھوں نے بندہ بیراگی سنگھ کو آلہ کار بنا کر فتنہ وفساد برپا کیا۔ اورسامانہ پر قبرستان کی جانب سے چڑھائی شروع کی۔ یہ تائید غیبی کا کرشمہ تھا کہ سکھوں نے قبروں کی طرف سے کثیر فوجوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا جس کا ان کے دلوں پر ایسا خوف طاری ہواکہ انھیں بھاگتے ہی بنی۔ اگلے روز سکھوں نے اپنے تائب ہونے کا اعلان کردیا۔ اس واقعہ کے بعد سید واصل علی اور سید فرزند علی پسران سید ابوالخیر نے ” سامانہ“ کو خیرباد کہا اور امروہہ میں جاکر آباد ہوگئے۔ لدھیانہ اور امروہہ بھی شرفاءوسادات کی بستی ہے۔
اکتوبر 1947ءمیں دونوں آزاد ہونے والے ملکوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح پر ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں طے پایا گیا تھا کہ پاکستانی پنجاب سے ہندوؤں اور سکھوں کو بھارت لے جایا جائے گا۔ اسی طرح بھارتی پنجاب اور اس کی ہندو سکھ ریاستوں یعنی بھارت کے موجودہ صوبہ پنجاب ، ہریانہ اور ہماچل پردیش سے مسلمان مکمل طور پر نقل مکانی کرکے پاکستان چلے جائیں گے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ سے کچھ ہی کم تھی ۔یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مشرقی پنجاب کے بارہ اضلاع اور ریاستوں میں تقسیم ہندوستان کے وقت مسلمانوں کی تعداد ۴۴ فی صد کے قریب تھی جبکہ اس وقت کے اعدادو شمار کے مطابق سکھ 8 تا 10 فی صد تھے اور باقی افراد ہندوتھے یادوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ سکھ درندوں نے وہ کون سا ظلم تھا جس کا انہیں موقع ملا ہو اور انہوں نے نہ کیا ہو۔ اس معرکہ میں ان کے خاندان کے بہت سے گمنام افراد شہید ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو شہداءکے ساتھ محشور فرمائے۔ستلج سے لے کر دِلی تک کے وسیع و عریض صوبہ سر ہند کا دارالخلافہ تو شہر سرہند ہی تھا ۔ ڈاکٹر گوپال سنگھ ہمارے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہم وطن بھی تھے اور ہم عصر بھی، انہوں نے اپنی بڑی شہرئہ آفاق کتاب ”دی ہسٹری آف سکھ ریلیجن“ میں تحریر کیا ہے کہ ”دس ہزار معزز سید اور مغل قتل کئے گئے تھے۔“ چنانچہ مقتول عوام الناس کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ رہی ہوگی۔
7- حضرت زید شہید کے اجداد کی مختصر تاریخ
مرا بہ تیغ ستم کشت و گفت از ناز چراغ دودۂ زید شهید روشن شد
حضرت زید شہید بن سجاد علیہ السلام کے والدین
امام سجاد علیہ السلام (علی بن الحسین، جن کے القاب زین العابدین اور سجاد تھے) چوتھے امام ہیں۔ آپ تیسرے امام (امام حسین علیہ السلام) کے فرزند تھے اور ایرانی بادشاہ یزد جرد کی بیٹی شھر بانو کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ آپ، امام سوم کے اکیلے فرزند تھے جو کربلا میں زندہ بچ گئے تھے ۔ آپ بھی اپنے والد کے ساتھ کربلا میں تشریف لائے تھے لیکن چونکہ سخت بیمار تھے اور ہتھیار اٹھانے اور جنگ میں شرکت کرنے کی طاقت نھیں رکھتے تھے اسی لئے جہاد اور شھادت سے معزور رہ گئے تھے اور حرم کے قیدیوں کے ساتھ شام بھیج دئیے گئے۔
سیّد السّاجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عدل گستر حکومت کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے شہرمدینہ میں ، گلستان محمدی کے ایک اور گل سرسبد ہستی کی خوشبوؤں سے مشام ایمان و یقین معطر ہو گئے بوستان علوی میں ایک ایسا پھول کھلا کہ جس کی مہک سے نہ صرف زمین بلکہ آسمان والوں کےقلوب بھی تر و تازہ ہو گئے ۔ اور فرشتوں نے عشق و ارادت کے نغمے گنگنانے شروع کردئے اور ارض و سما سے درود و صلوات کے نعرے بلند ہونے لگے ۔ جی ہاں ! ایک معتبر روایت کے مطابق 15 جمادی الاولی سنہ 38 ہجری کو کاشانۂ زہراء سلام اللّہ علیہا میں ان کےنور نظرامام حسین علیہ السلام کو خداوند لم یلد و لم یولد نے وہ چاند سا بیٹا عطا کیا کہ اس کی روشنی سے عرب و عجم کے تمام گوشۂ و کنار روشن و منور ہوگئے ۔ عالم انوار سے عالم ہستی میں فرزند رسول امام زین العابدین علیہ السلام کی آمد کے یہ شب و روز تمام محبان اہلبیت رسول کو مبارک ہوں ۔ بلبل بوستان امامت ،سید سجاد امام زین العابدین علیہ السلام عشق و محبت سے سرشار اسی آشیانہ آدمیت و انسانیت میں جلوہ بار ہوئے تھے کہ جس کےمکینوں کی شان میں سورۂ ہل اتی نازل ہوا ۔ جن کا آیہ تطہیر نے قصیدہ پڑھا آیہ مودت نے مسلمانوں پر محبت واجب کی اور آیہ ولایت نے امامت و حقانیت کی تصدیق کردی باپ مولائے متقیان ، مشکل کشائے عالم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرزند ، سید و سردار جوانان بہشت ، سبط رسول الثقلین ، فاتح کربلا، حضرت امام حسین علیہ السلام تو ماں قدیم تہذیب و تمدن کےگہوارے ، ساسانی ایران کےآخری بادشاہ یزد گرد سوم کی بیٹی حضرت شہر بانو، جنہوں نے اپنی عفت و پاکدامنی کےسبب خانۂ عصمت و امامت میں وہ مقام حاصل کرلیا کہ ایک امام کی بہو ایک امام بیوی اورایک امام کی ماں بن کر پوری دنیا کےلئے مایہ افتخار بن گئیں ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کا اصلی نام علی تھا، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام فرزندوں کے نام اپنے والد کے نام پر علی ہی رکھے تھے ، امام زین العابدین علیہ السلام کی کنیت ابوالحسن اور ابو محمد تھی القاب زین العابدین ، سیدالساجدین ، سید سجاد ، زکی اور امین معروف ہیں ۔ ولادت کے چند دنوں بعد ہی ماں کے سایہ سے محروم ہوگئے اور غالبا اپنی خالہ، جناب محمد ابن ابی بکر کی زوجہ محترمہ ،گیہان بانو کی آغوش میں پرورش پائی جنہوں نے گورنر کی حیثیت سے مصر جاتے وقت شامی لشکر کے ہاتھوں اپنے شوہر محمدابن ابی بکر کی شہادت کے بعد بظاہر دوسری شادی کرنا گوارہ نہیں کی اور بھانجے کو ہی اپنے بچوں کی طرح پالا اوربڑا کیا۔ امام سجاد ابھی 2 سال کے تھے کہ آپ کے دادا علی ابن ابی طالب شہید کردئے گئے آپ نے 12 سال کی عمر تک امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام دو نوں کے فیوضات سے استفادہ کیا لیکن سنہ 50 ھجری میں امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنےباپ کے ساتھ دس سال سکوت میں گزارے اورسنہ 61 ھجری میں کربلا کےخونیں معرکہ میں بہ نفس نفیس شرکت کی اور کربلا کی تحریک کو 35 سال تک اپنےکندھوں پر اٹھائے رکھا اور اسلام کےالہی پیغامات کی سخت ترین مراحل میں حفاظت و پاسبانی کا فریضہ انجام دیا۔ غالبا´سنہ 57 ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صاحبزادی جناب فاطمہ سلام اللّہ علیہا سے آپ کی شادی ہوئی اور تاریخ اسلام میں ایک بار پھر ”مرج البحرین یلتقیان“ کا نظارہ پیش کرتے ہوئے علی ثانی اور فاطمۂ ثانی کے پاکیزہ رشتے کے نتیجہ میں رسول اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں فرزند حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کے صلب سے پانچویں امام ، امام محمد باقر علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام کی آغوش کی زینت قرار پائے چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام بھی واقعہ کربلامیں تقریبا چار سال کے موجود تھے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام کےایک اور فرزند جناب زید شہید ہیں ، جو بڑے ہی با فضیلت تھے اور سنہ 121 ہجری میں امویوں کے ہاتھوں کوفے میں شہید ہوئے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کا35 سالہ دور نہایت ہی گھٹن اور اذیت کا دوررہا ہےاس دورمیں یزید شقی کے بعد حکومت مروان اور آل مروان کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی حجاج ابن یوسف کے ہاتھوں آپ کے بےشمار دوستوں اور چاہنے والوں کوشہید کیاگیا ۔ یکے بعد دیگرے خلفائے بنی امیہ کے چھ حکمراں بر سر اقتدار اہل ابھی سیاست نے مذہب کو لوگوں کی زندگی سے دورکر دینے کی کوشش کی ، ایسے میں امام سجاد علیہ السلام نے اپنی بیداری کےلئے دعااور اشک کو اسلام وقرآن کی حفاظت و پاسبانی کاوسیلہ قراردیا اور دعا سے قلوب اور اشک سے آنکھوں کو تسخیر کیا ۔ صحیفہ سجادیہ دعاؤں کا شاہکار اور”عزاداری امام حسین“ آپ کے اشکوں کی یادگار ہے ۔ علمائے اسلام کامتفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا کی سب سے عظیم کتاب ، کلام اللّہ یعنی قرآن مجید اور لسان اللّہ کی تخلیق ، نہج البلاغہ کے بعد، صحیفۂ سجادیہ الہی حقائق و معارف کا سب سے زیادہ قیمتی خزانہ ہے اسی لئے بعض اسلامی دانشوروں نے اس کو اخت القرآن ، انجیل اہلبیت علیہم السلام اور زبور آل محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب عطا کیا ہے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک اور قیمتی یادگار آپ کا رسالہ حقوق ہے جس میں آپ نے انسانوں کے ایک دوسرے پر مختلف حقوق و فرائض ذکر کئے ہیں ۔ ہم اپنی اس مختصر گفتگو کو امام علیہ السلام کے اسی رسالہ حقوق کےچند جملوں پرختم کرتے ہیں ۔ امام فرماتے ہیں : ”آپ کے ساتھی اور دوست کا آپ پر یہ حق ہےکہ آپ اس پراحسان اور حسن سلوک سے کام لیں اوراگر ایسا نہ کر سکیں تواس کے حق میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں جہاں تک ممکن ہو اس کی دوستی میں کوتاہی نہ برتیں اس کے خیر خواہ و پشت پناہ رہیں اور رحمت و شفقت کا چشمہ بنے رہیں مشکل و عذاب کا باعث نہ بنیں“ ۔
قید کا زمانہ گزارنے کے بعد یزید کے حکم سے عوامی مخالفت کو نرم کرنے کے لئے آپ کو احترام کے ساتھ مدینے بھیج دیا گیا تھا مگر دوبارہ آپ کو اموی خلیفہ عبد الملک کے حکم سے پا بہ زنجیر مدینہ سے شام لایا گیا لیکن کچھ عرصے بعد پھر مدینے تشریف لے آئے۔امام چھارم مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اپنے گھر میں گوشہ نشین ھو گئے اور اپنے گھر کے دروازے تمام لوگوں پر بند کرکے خدا کی عبادت میں مشغول ھوگئے اور اپنے خاص شیعوں مثلاً ابوحمزہ ثمالی، ابو خالد کابلی اور ایسے ھی چند دوسرے افراد کے سوا کسی اور سے نھیں ملتے تھے۔ البتہ یہ خاص لوگ اپنے امام سے جو تعلیمات حاصل کرتے تھے آپ کے پیروکاروں تک پھنچا دیتے تھے اور اس طرح مذہب شیعہ روز بروز ترقی کرتا گیا جس کے بیشتر اثرات پانچویں امام کے زمانے میں رونما ھوئے۔ چوتھے امام کی دعاؤں کا مجموعہ ”صحیفہ سجادیہ “ کے نام سے مشہور ہے یہ ستاون دعاؤں پر مشتمل ہے جن میں بہت ہی عمیق اور اسرار و معارف الہی پوشیدہ ہیں ۔اسی ”مجموعے کو زبور آل محمد“ بھی کھا جاتا ھے۔ امام چھارم کو پینتیس سال کی امامت کے بعد بعض احادیث کے مطابق اموی خلیفہ ھشام بن عبد الملک کی ایما پر ولید بن عبد الملک نے زھر دیدیا تھا اور آپ ۹۵ ھ میں شھادت پا گئے تھے۔
نام و نسب
اسم گرامی : علی ابن الحسین (ع)
لقب : زین العابدین
کنیت : ابو محمد
والد کا نام : حسین (ع)
والدہ کانام : شھر بانو شاہ زناں
تاریخ ولادت : ۵ / شعبان دوسری روایت کے مطابق ۷/ شعبان ۳۸ھء
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : ۳۵/ سال
عمر : ۵۷/ سال
تاریخ شھادت : ۲۵/محرم ۹۵ھ
شھادت کا سبب: ھشام ابن عبد الملک نے زھر دیکر شھید کی
مزار مقدس : مدینہ منورہ ،جنت البقیع
اولاد کی تعداد : ۱۱/ بیٹے اور ۴/ بیٹیاں
بیٹوں کے نام : (۱) محمد باقر(ع) (۲) عبد اللہ (۳) حسن (۴) حسین (۵) زید (۶) عمرو(۷) حسین اصغر (۸) عبد الرحمن (۹) سلیمان (۱۰) علی (۱۱) محمد اصغر
بیٹیوں کے نام : (۱) خدیجہ (۲) فاطمہ (۳) علیا (۴) ام کلثوم
انگوٹھی کے نگینے کا نقش : ”حسبی اللہ لکلّ ھمٍ“
ولادت :
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن تھے جب۱۵جمادی الثانی ۳۸ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی ولادت ھوئی. آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور سارے خاندان کے لوگ اس مولود کو دیکھ کر بھت خوش ھوئے اور شاید علی علیہ السّلام ھی نے پوتے میں اپنے خدوخال دیکھ کر اس کانام اپنے نام پر علی رکھاتھا .
تربیت:
حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کا ابھی دوبرس کاسن تھا جب آپ کے دادا حضرت امیر علیہ السّلام کاسایہ سر سے اٹھ گیا. امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سایہ میں پروان چڑھے . بارہ برس کی عمر تھی جب امام حسن علیہ السّلام کی وفات ھوئی . اب امامت کی ذمہ داریاںآپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سے متعلق تھیں .شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جھاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارہے تھے . یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پھنچ کر جوانی کی حدوں میں قدم رکھ رھےتھے ۔
شادی:
اسی زمانہ میں جب کہ امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررھے تھے حضرت نے اپنے فرزند سید سجاد علیہ السّلام کی شادی اپنی بھتیجی یعنی حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی کے ساتھ کردی جن کے بطن سے امام محمدباقر علیہ السّلام کی ولادت ھوئی اور اس طرح امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بعد کے لئے سلسلۂ امامت کے باقی رھنے کاسامان خود اپنی زندگی میں فراھم کردیا .
صحیفہ کا ملہ سجّادیہ :
آئمہ اہلِ بیتِ اطہار کے چوتھے تاجدار ، سیدنا و مولانا و مرشدنا، حضرت امام علی زین العابدین کی دعاؤں کے مقدس و متبرک مجموعے کو ’’صحیفہ کاملہ سجادیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مجموعہ عوام کی مشکلات، تکالیف اور شدائدِامورِ دنیا میں مدد گار ہے اور خواص کی تحقیق و جستجو، سلوک الیٰ اللہ اور تلاشِ حق میں مرشدِ کامل اور رہبر و راہنما ہے۔اسلام دشمن عناصر کے زہریلے ہتھکنڈے جب عقیدہ توحید مجروح کرنے لگے ،تو وارثِ اسلام حضرت امام زین العابدین کی رقت انگیز ، درد بھری، عاجزی و انکساری سے لبریز دعاؤں نے شانِ وحدت بیان کر کے ان مکروہ عزائم کو خاک میں ملا دیا۔عصر حاضر کے مادہ پرستی کے سیلاب میں جب کہ گمراہ کن عقائد، رنگ برنگے افکارا ور نت نئے فتنے سرا ٹھا رہے ہیں، اس نورانی دعاؤں کی کتاب ک
ہر گھر میں ہونا اشد ضروری ہے۔ افکارِ امام زین العابدین کی روشنی میں عقیدۂ توحید کو سمجھنا واجب ایمانی ہے۔
تیرا سجدہ تری مسجد ترا کعبہ سجاد ہر عبادت میں ہے روشن ترا چہرا سجاد
اک طرف عظمت توریت و زبور و انجیل اک طرف تیری دعاؤں کا صحیفہ سجاد
سو صحیفے ترے خطبے کے تقدس پہ نثار تونے کوفے میں بھی بدلا نہیں لہجہ سجاد
سب کے سب ہیں ترے کنبے کی جلالت پر گواہ سنگ اسود ہو صفا ہو کہ ہو مروہ سجاد
سر کے بل چلتا ہے کعبہ ترے پیچھے پیچھے تیرا ہر نقش قدم ایک مصلی سجاد
کہکشاں ہے کہ ترے پاؤں سے لپٹی ہوئی دھول چاند ہے یا ترے ناخن کا تراشاسجاد
سحرو شام ترے گیسو و رخسار کا عکس اور سورج ہے ترا نقش کف پا سجاد
جس کو مل جائے ترے ہاتھوں کا دھون مولا کیا کرے گا وہ زمانے کا خزانہ سجاد
پائی اسلام نے آکر ترے دامن میں پناہ تونے قرآں پہ کیا دھوپ میں سایہ سجاد
پھر تصور میں مرے آگئے تیرے آنسو پھر سمندر مجھے لگنے لگا قطرہ سجاد
بار وہ تونے اٹھا یا جو کسی سے نہ اٹھا ہے رسولوں سے بڑا تیرا کلیجہ سجاد
صبر شبیر سے آگے ترے دل کی ہمت عصر عاشور سے آگے ترا رستہ سجاد
وہاں ایوب بھی ہوتے تو جگر پھٹ جاتا جہاں آیا نہ ترے رخ پہ پسینہ سجاد
میرے احساس کی دولت بھی ترے درد کی بھیک یہ میرا خطۂ جاں تیرا علاقہ سجاد
تیری زنجیر کی نسبت سے قوی ہیں مرے ہاتھ طوق منت سے ہے گردن میں اجالا سجاد
فرزدق نہیں نیر ہوں مگر تیرا ہوں بس اسی ناز پہ لکھتا ہوں قصیدہ سجاد
حضرت زید بن علی کی والدہ
حضرت زید بن علی کی والدہ کے نام کے بارے میں مختلف مور خین کی مختلف آراء ہے۔کچھ نے ان کا نام غزالہ لکھا اور کچھ ان کا نام "جیّد "یا "جیدا " لکھتے ہیں۔ کچھ محققین انکو "حیدان" جبکہ خود امام سجاد علیہ السلام انکو "حوراء" کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ ایک نیک اور پرہیز گار خاتون تھیں ۔ان خصوصیات کی و جہ سے مختار بن ابی عبید ۀ ثقفی نے ان کا انتخاب امام سجاد علیہ السلام کے لیے کیا تھا۔ امام سجاد علیہ السلام سے ان کی اولاد میں تین بیٹے زید ،عمر، علی اور ایک بیٹی خدیجہ شامل تھی ۔ حضرت زید بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق پیغمبر اکرم کے چوتھے جانشین و تاجدار امامت حضرت امام علی ابن الحسین زین العابدین نے 68ھ میں سندھ کی شہزادی سیدہ ھریہ سے عقد فرمایا جن سے آپ کے جلیل القدر فرزند حضرت سیدنا زید ابن علی تشریف لائے جو مؤرخین میں زید شہید کے نام سے معروف ہیں اور جن کی نسل زیدی سادات کہلاتی ہے۔ اس کے باعث سر زمین سندھ امام سجّاد کا سسرال اور مولائے کائنات کا سمدھیا نہ ہونے کا بھی اعزاز رکھتی ہے اور یہ دھرتی زیدی سادات عظام کا ننھیال بھی ہے۔ اسی شہزادی نے آستا نۀ امامت میں تین پھول اور بھی مہکائے جن کے اسمائے گرامی سیدنا حسن بن علی، سیدنا حسین بن علی اور سیدنا علی ابن علی ہیں۔
|