شجره طیبه زیدی سادات مقیم شبه قاره هند
 

4- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم) کا خاندان
تمام حمد ہے اس خالق ازل کے لئے
سکون جھیل کو دیتا ہے جو کنول کے لیے
میں ان کے نام سے کرتا ہوں ابتداۓ کلام
وہ جن کے نام فرشتوں نے بھی سنبھل کے لیے
القریٰ، مکّہ کو آباد کرنے والے پیغمبرِ اکرم کے آبائے طاہرین عرب کے رئیس افراد تھے۔ یہ مقدّس گھرانہ عرب کا مقبول ترین اور رئیس گھرانہ تھا اور ان کے ذاتی تعلقات تاریخِ عالم میں اس وقت کی چار بڑی طاقتوں سے قائم تھے۔ ایک طرف قیصرِ روم تھا، دوسری طرف کسریٰ شاہِ فارس، تیسری طرف تُبعَانِ یمن اور چوتھی طرف حبشہ کے نجاشی۔ ان چار بڑی طاقتوں کے طفیلی بادشاہ بھی سیدنا عبدالمطلب کووسیلہ بنا کر حکومتیں لیتے تھے جن میں عراق کے منا ذرہ اور عرب و شام کے مشارفہ، حضرت کی خدمتگاری پر فخر کرتے تھے۔ تبُعانِ یمن کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیف بن ذی یزان کو یمن کی حکومت دلانے کا سہرا بھی سیدنا عبدالمُطّلِب کے سر ہے۔
سیّدنا سعد، جنہیں تاریخ ہاشم کے نام سے یاد کرتی ہے عرب کے رئیس الرّؤسا تھے۔ جب پورے عرب کو قحط نے بری طرح سے لپیٹ میں لے لیا اور بڑے بڑے رئیس دو وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے تو اس کڑے وقت میں روزانہ ہزاروں اُونٹ ذبح کر کے ان کے شوربے میں روٹیاں توڑ کر ڈال دیتے تھے اور لاکھوں قحط ذدہ افراد کو کھانا کھلاتے تھے اور انہیں ایک نئی زندگی عطا فرماتے تھے۔ اسی وقت عربوں نے آپ کو ’’ہاشم ‘‘ کا لقب دیا۔ ہاشم اس سخی کو کہتے ہیں جو اونٹ کے شوربے میں روٹیاں توڑ کر کھلائے۔اسی طرح یمن، شام اور حجاز میں اس خانوادے کی جائیدادیں اور ان کے متعلق صفحاتِتاریخ میں نقش وصیتیں وہ اہم دستاویزات ہیں جو دشمنانِ اسلام کا یہ مذموم پروپیگنڈا توڑ ڈالتی ہیں کہ سرورِ کائنات کے آبائے طاہرین مفلس و تنگدست اور غربت کا شکار رہے۔ یہ عظیم ہستیاں تو کائنات کو رزق تقسیم کرنے والی ہیں اور ان ہی کا صدقہ جملہ مخلوقات کو تقسیم کیا جاتا ہے۔رئیس ِبطحا سیدنا عمران بن عبدالمُطّلب المعروف حضرت ابوطالب کو ان دشمنان ِرسالت نے غربت کا شکار بیان کیا اور اسی غربت کے باعث مولائے کائنات ،اسدُ اللہ الغالب، علی ابن ابی طالب کو آغوشِ رسالت کے سپرد کرنے کا سبب قرار دیا اور "اَنا و عَلیِِِِ منِ نُورِ وَاحد" کی حدیثِ مبارکہ بھلا دی گئی۔ اگر سیدنا ابوطالب غریب تھے تو حضرت جعفر طیاراور بعد ازاں عبداللہ بن جعفر طیار کو منتقل ہونے والی شام ولبنان اور یمن کے باغات کی وراثت کہاں سے آگئی؟۔
عرش سے نور چلا اور حرم تک پہنچنا:
شان ِوحدت پہ نثار ، آبا ء و اجدادِرسول
عظمتوں کے کوہسار ، آباء و اجدادِ رسول
یہ خُدا کے برگزیدہ ، پاک ، پیارے ، عبد ہیں
ذی حشم او ر ذی وقار ، آباء واجداد رسول
خا نہ کعبہ کے متولّی رہے ہر دور میں
ہیں صفا مروہ کا ہار ، آباء واجداد رسول
آل ِ ابراہیم ہیں ، سیّد ، قریشی ، ہاشمی
حق نُما ، حق کی پکار ، آباء واجداد رسول
یہ ذبیح ُاللہ کے لخت ِجگر ، پیارے نبی
ہاجرہ کا ہیں سنگھار ، آباء واجداد رسول
پاک صلبوں ، پاک پشتوں اور پاک ارحام سے
گزرے احمد بار بار ، آباء و اجداد ِ رسول
یہ ابو طالب و عبدالمُطَّلِب کا خانداں
یہ ہیں عبداللہ کا پیار ، آباء واجداد رسول
جن کا ہر اِک نامور شخص ِ عظیم المرتبت
ہے مقرّبِ کردگار ، آباء واجداد ِ رسول
مقدّس جبینوں، پاکیزہ اصلاب، پاک ارحام سے ہوتا نورِ محمدی، "اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِین" کے مصداق اجدادِ اطہار کو خراجِ عقیدت دیتا، جبینِ عبدالمُطّلب کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ نصف نور سیدنا عبداللہ اور نصف سیدنا ابوطالب کو منتقل ہوا۔ سےّسیدناعبداللہ، سےّسیدناابو طالب عمران بن عبدالمُطّلِب سے پانچ برس صغیر السن تھے اور 545عیسوی میں دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کی والدہ معظمہ سیدہ فاطمہ بنتِ عمروبن عائذبن عمران بن مخزوم تھیں۔سیدنا عبداللہ کے متعلق کتب ِتاریخ کے الفاظ ہیں،۔۔۔" آپ نہایت متین، سنجیدہ و شریف طبیعت کے انسان تھے اور نہ صرف جلالتِ نسب بلکہ مکارمِ اخلاق کی وجہ سے تمام جو انانِ قریش میں امتیاز کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ محاسن ِاخلاق اور شمائل مطبوع میں منفرد تھے۔ حرکات موزوں اور لطف و گفتار میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے"۔آپ کے فدیہ میں سیّدنا عبدالمُطّلب نے سو اونٹ قربان کئے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فخرِ موجودات نے فرمایا، " انا اِبنُ الذ ّبِیحَین " میں دو ذبیحوں، یعنی سیّدنا اسمٰعیل ذبیح ُ اللہ اور جناب عبداللہ ذبیح ُ اللہ کا بیٹا ہوں۔عربی زبان میں تثنیہ کا صیغہ برابری کے لئے استعما ل ہوتاہے۔ فرمان ِرسالت کی روشنی میں حضرت عبداللہ ذبیح ُ اللہ کا مقام و مرتبہ ملاحظہ فرمائیے۔

مرج البحرین :
بحکم ِایزدی سیّدنا عبداللہ کا عقد مبارک بنی زہرہ کے سردار، حضرت وہب بن عبد مناف کی دختر سیّدہ آمنہ سے ہوا۔ اس ذی وقار تقریب کے متعلق طبقات ابن سعد کے الفاظ ہیں،
’’ سیدہ آمنہ بنت وہب اپنے چچا وہیب ابن عبد مناف ابن زہرہ ابن کلاب کی کفالت میں تھیں۔ حضرت عبدالمطلب حضرت عبداللہ کو لے کر بنی زہرہ کی قیام گاہ پر گئے اور حضرت آمنہ کا خطبہ نکاح اپنے صاحبزادے عبداللہ پدر جناب رسالتمآب سے پڑھا اور آمنہ کو عبداللہ سے بیاہ دیا اور وہیب کی بیٹی ہالہ سے خود خطبہ نکاح پڑھ کر شادی کر لی اور یہ دونوں نکاح ایک ہی مجلس میں بیک وقت واقع ہوئے۔
جناب ہالہ کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے ہاں حضرت حمزہ پیدا ہوئے۔

دُرِ ّ یتیم:
حضرت آمنہ سےعقد مبارک کے آٹھ ماہ بعد ایک قافلہ تجارت کیساتھ واپس آتے ہوئے حضرت عبداللہ مدینہ کے قریب علیل ہوئے اور داعیِ اجل کو لبیک کہا ۔ وقت انتقال آپ کی عمر مبارک 25 برس تھی۔ سیّدناعبداللہ کی جواں سال موت نے بنی ہاشم کے گھرانے میں کہرام برپا کر دیا۔ سیّدنا عبدالمُطّلب کو پیرانہ سالی میں اپنے جوان، عزیز از جان صاحبزادے کی موت کا شدید صدمہ برداشت کرنا پڑا جس کے باعث آپ کی آنکھوں کی دنیا تاریک ہو گئی۔

حضرت آمنہ کا مرثیہ:
سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا نے اس المناک موقع پر جو مرثیہ کہا اس کے چند اشعار کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔
1۔ فرزندِہاشم کی وفات کے باعث کنارہ بطحاکا نام و نشان تک مٹ گیا۔ نوحہ و بکا و گریہ و غوغا کے غیر متمیّز شور میں باہر نکل کے وہ ایک لحد کے مجاور ہو گئے۔
2۔ موت نے انہیں دعوت دی اور انہوں نے وہ دعوت قبول کر لی۔ انسانوں میں کسی ایک کو بھی موت نے ایسا نہ چھوڑا جو فرزندِہاشم جیسا ہوتا۔
3۔ شب میں ان کاتابوت اٹھا کے چلے تو ان کے ساتھیوں نے انبوہ میں تابوتِ اقدس کو دست بدست کیا۔
اگر آپ فوت ہو گئے تو آپ کے آثارِ خیر تو زندہ ہیں۔ آپ نہایت درجہ فیاض اور بہت رحم دل تھے۔
ھاشم بن عبد مناف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پر دادا تھے۔ ان کی اولاد قریش کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم کے نام سے مشہور ہے۔ ان کا اصل نام عمرو تھا۔ ھاشم اس لیے نام ہوا کیونکہ وہ مکہ کے زائرین کی تواضع ایک خاص عربی شوربہ سے کرتے تھے جسے ھشم کہا جاتا ہے۔ یہ لقب اس وقت ملا جب ایک قحط کے دوران انہوں نے یہی شوربہ اہلِ مکہ کو کھلایا۔ آپ اولادِ اسمٰعیل علیہ السلام سے تھے۔ مکہ کے مشہور تاجر تھے اور نہایت معزز تھے۔ انہوں نے قریش کے تجارتی قافلے شروع کروائے اور ان کے لیے بازنطینی سلطنت کے ساتھ معاہدے کیے جن کے تحت قریش بازنطینی سلطنت کے تحت آنے والے ممالک میں بغیر محصول ادا کیے تجارت کر سکتے تھے اور تجارتی قافلے لے جا سکتے تھے۔ یہی معاہدے وہ حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ بھی کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا تمام قریش کو بے انتہا فائدہ ہوا اور ان کے قافلے شام، حبشہ، ترکی اور یمن میں جانے لگے۔ آپ دینِ حنیف (دینِ ابراہیمی) پر قائم تھے اور بت پرستی نہیں کرتے تھے۔
سیرت ابن ھشام کے مطابق آپ کی اولاد اس طرح تھی:
اسد ابن ھاشم (بنو اسد کے جد۔ حضرت علی علیہ السلام کی والدہ کے جد)
ابو سیفی ابن ھاشم
عبدالمطلب ابن ھاشم (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کے دادا)
ندلہ ابن ھاشم
الشفا بنت ھاشم
خالدہ بنت ھاشم
رقیہ بنت ھاشم
جنۃ بنت ھاشم
ضائفہ بنت ھاشم
جب سرکار دو جہاں دنیا میں ظاہر ہوئے تو سیّدہ آمنہ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور انتہائی ادب و احترام سے عرض کیا کہ " نو مولود کا اسمِ گرامی احمد ہے" سیدنا احمد کو آپ کے محترم چچا سیّدنا ابوطالب کی آغوش میں دیا گیا تو آپ نے کمال ِمحبت سے دیکھتے ہوئے فرمایا۔" میرا بھتیجا محمدہے" یہ اسمِ گرامی ذات قدرت کو اتنا پسند آیا کہ اسے کلمئہ اسلام بنا دیا گیا۔ حضرت عبدالمُطّلب جب عالمِ فنا سے دارالبقا تشریف لے کر جانے لگے تو عزیز از جان یتیم پوتے کی کفالت و حفاظت کی فکر دامن گیر ہوئی۔کافی غور و فکر کے بعددوشِ ابوطالب کا انتخاب ہوا اور انہیں ہدایت فرمائی۔
’’ دیکھو! اِن کی حفاظت کرنا۔انہوں نے نہ باپ کا لطف دیکھا ہے نہ ماں کی مامتا۔یہ آپ کے جگر کی مانند ہیں۔میں نے اپنی تمام اولاد میں آپ کا انتخاب کیا ہے۔اِس لئے کہ آپ اِن کے والد کے حقیقی بھائی ہیں۔
سیدنا ابو طالب نے پدر بزرگوار کی ہدایت پر عمل کرنے کا عہد فرمایا،جس پر حضرت عبدالمُطّلب نے فرمایا، ’’اب موت آسان ہو گئی‘‘۔
یہ عظیم المرتبت سعادت حضرت عبدالمطلب کے بعد سیدنا ابو طالب کو نصیب ہوئی۔حضرت ابو طالب کو ٍ ٍذمہ داری سونپنے کے بعد سیدنا عبدالمُطّلب کی زبانِ اقدس سے یہ اشعار وارد ہوئے۔
1۔ میں نے ابوطالب جیسے تجربہ کار و دانا کو وصی بنایاہے۔
2۔ اُن کے صاحبزادے کا جو مجھے انتہائی عزیز و محبوب تھااور اب جن کے واپس آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
سیدنا عبدالمُطّلب،قریش کے سردار کی حیثیت سے صنعا،یمن گئے اور سیف بن زوالیظن کو اس کی تخت نشینی کی مبارکباد دی۔یمن سے واپسی کے چند ہی دن بعد 579 ء میں 140برس کی عمر مبارک میں آپ نے مکّہ معظمہ میں انتقال فرمایا اور اپنے آبائی قبرستان ’’ حجون‘‘ میں دفن کئے گئے جو ’’جنت المُعلّٰی ‘‘ ہے۔
حضرت عبدالمُطّلب خاندانی وجاہت و عظمت کا نشان،امارت و صولت کا مرکز،زمزم و کعبہ کے متولی،غارِحرا کے عابد،عظمتِ رسالت کے محافظ،مصیبت زدوں کے غمگسار،اپاہجوں کے مددگار، شرافت کا نشان،مجیب الدعوٰۃ، قبولیتِ دعا کا ذریعہ،لواء کے مالک،اللہ رب العزّت کی وحدانیت کے داعی، مُبَلِّغ،قائدِملّت و حاکمِ وقت تھے۔

ُُنورِرسالت اورآغوشِ ابوطالب:
حضرت عبدالمُطّلب کے انتقالِ پرملال کے بعدنورِرسالت کی حفاظت کے لئے سےسیدناابو طالب کمربستہ ہوگئے اور ہر محاز پر کفّارِ مکہ اور جہلائِ عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔حضور نبی کریم کو اپنی اولاد سے بڑھ کر شفقت و پیار دیا اور بچپن ہی سے اپنے صاحبزادوں سیدنا طالب و عقیل او رجعفروعلی کو ناموسِ رسالت پر مر مٹنے اور کٹ جانے کا سبق دیا۔قریش میں حصارِ رسالت کے لئے شعبِ ابی طالب سے کون واقف نہیں جب اس دوران اپنے پیارے مصطفی کے بستر پر علی مرتضٰی شیرِخُدا اور جعفرطیار کو ُسلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے ابو طالب کے علاوہ اور کون ہیں۔حضرت ابو طالب اور آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسدسلام اللہ علیہانے حضور نبی کریم کی اسطرح حفاظت و غمگساری فرمائی کہ آپ ان مقدس ہستیوں کو یاد کر کے اکثرآبدیدہ ہو جاتے اور اِن کے لئے دعا فرماتے تھے۔حضرت فاطمہ بنتِ اسد کی وفات پر حضور نبی کریم نے اپنا کرتہ مبارک آپ کے کفن کے لئے بھیجااور ان کی قبرِاقدس میں لیٹ گئے اور گریہ زاری فرمائی۔تاریخ گواہ ہے ، جب بھی اسلام نازک دور سے گزرا ہے اولادِ ابوطالب نے اپنا خُون مبارک دے کر اس کی آبیاری فرمائی ہے۔حضرت ابوطالب پہلے نعت گو ہیں او ر ’’دیوانِ ابوطالب‘‘ حمد و نعت سے لبریز ہے۔آپ فرمایا کرتے تھے،
’’میرے بھتیجے!یہ کفُارِ مکہ ہر گز آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے،یہاں تک کہ مجھے مٹی میں دفن کر دیں اور میری قبر سے گزر کر آئیں‘‘۔
کفاّرِ مکہ نے منصوبہ سازی کی ۔ابوطالب کے جانے کاانتظار کرتے ہیں،جب ابوطالب دنیا سے جائیں گے تو محمد جانیں اور ہم۔ابو طالب دنیا سے چلے گئے۔کفارِ مکہ اکٹھے ہو کر شمعِ رسالت گُل کرنے آئے۔پیغمبرِاکرم نے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ قرار دیا۔کفار مکہ کے حملے روکنے کے لئے ابوطالب کے صاحبزادے علی مرتضیٰ شیرِخدا،جعفرطیار،عقیل اور طالب نے حصارِ رسالت کر لیا۔کفار کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ابو طالب کے جلیل القدربیٹے علی نے اسلام کو اپنے یدُاللّٰہی بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔دعوتِ ذوالعشیرہ سے لے کر بدر و احد،خندق و خیبر،اور فتحِ مکہ کے معرکے ابوطالب کے لختِ جگرنے سر کر لئے۔کفارِ مکہ مزیدانتظار میں پڑ گئے۔ابو طالب کا بیٹا معاملات الجھا رہا ہے۔انتظار کرو، ایک دن یہ بھی دنیا سے جائے گا۔پیغامِ محمدجانے اور ہم۔ابو طالب کا صاحبزادہ شہید ہو کر شہادت کو سرُخرو کر گیا۔ کفارِمکہ اکٹھے ہوئے۔شمعِ رسالت گُل کرنے کا منصوبہ بنا۔ابوطالب کا پوتا اسلام کا محافظ بن کر سامنے آیا۔
اے مؤرخ، وقت کے مغرور کرداروں سے پوچھ
پوچھ، تاریخِ عرب کے سب ستمگاروں سے پوچھ
کربلا کی ٹوٹتی ، بے لو چ تلواروں سے پوچھ
شام کی گلیوں سے،چوراہوںسے، بازاروں سے پوچھ
ذرّیت کس کی یزیدی حوصلوں پہ چھا گئی
کس کی پوتی ، ظلم و استبداد سے ٹکرا گئی
جس نے بخشی تھی تجھے توقیرِ عرفاں ، یاد کر
اے بنی آدم ، ابو طالب کے احساں ، یاد کر
جب سے کلمہ اسلام رائج ہے اور جب تک رہے گا تا قیامت " محمدُ رَسول اللہ" اور " اللّٰھُمَ صَلِّ علیٰ سیّدنا و مولانا محمد" پڑھنے والوں کا اجر و ثواب سیّدنا ابوطالب کی بارگاہِ اقدس میں پیش ہوتا رہے گا۔

1) اولاد:
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد کی تعداد سات جن میں تین بیٹے اورچار بیٹیاں ہیں جن کے نام ذیل میں دیے جاتے ہیں :

بیٹے :
القاسم رضی اللہ تعالی عنہ ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ، ابراھیم رضی اللہ تعالی عنہ

بیٹیاں :
1 – بی بی زینب رضی اللہ تعالی عنہا
-2 بی بی رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا
- 3 بی بی ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا
4 - بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا
حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام اولاد ان کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی۔