بسم الله الرحمن الرحیم
کتاب شریف : شجره طیبه زیدی سادات مقیم شبه قاره هند
مولف : دکتر سکندر عباس زیدی
زبان : اردو
سال تالیف : 2012
ماخذ:zaidi.persianblog.ir
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات
اِنَاّ اَعطَینٰکَ الکوَثَر فَصِلّ لِرَبّکَ وَ انحرَ اِّنَ شَائِنئَکَ ھُوَالاَبتَرُ۔

مؤ لف و مرتب : ڈاکٹر سکندر عباس زیدی
سال تالیف : 2012 ء

انتساب :
والدمرحوم سید منظور حسین زیدی کے نام جن کی علمی تربیت اور اخلاص نے زندگی کے ہر موڑ اور امتحان میں میری رہنمائی فرمائی۔

1- مقدمہ
زیدی سادات اور ان کی اولاد کا تذکرہ و شجرہ جدید تقاضوں اور جانی پہچانی زبان میں حاضر ہے تاکہ نئی پود او ر آنے والی نسلوں کو تقسیم ہندوستان سے قبل صدیوں سے آباد ”زیدی سادات“ کے بزرگوں، ان کی طرزِ معاشرت اور ماضی کے مزارات کی پہچان میں دشواری محسوس نہ ہو ۔ حسب نسب اور آبا واجداد کے حالات قلمبند کرنے کا رواج صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ آج کے جمہوری دور میں اگرچہ حسب و نسب کی بات کرنے کا چنداں رواج نہیں رہا ۔مگر پھر بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو رشتہ داری کرتے وقت حسب نسب کی نجابت کو مادی امتیازات پر ترجیح دیتے ہیں۔ گردشِ شام و سحر کے ساتھ ساتھ انسانی افکار اور انسانی قدروں کی اہمیت کے احساسات میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اکثر پرانی قدریں جدید ناموں کے ساتھ پھر رواج پکڑتی رہتی ہیں۔معلوم نہیں مستقبل کے انسان کی کیا فکر ہو، اس کی ثقافتی ضروریات کیا ہوں، اس کے مذہبی رجحانات اسے کس طرف لئے جا رہے ہوں۔ لہٰذا یہی بہتر تصور کیا جاتا ہے کہ ہم بزرگوں کے طریقہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے نسب نامہ کو جدید اضافوں کے ساتھ تدوین کرکے آنے والی نسلوں کے حوالے کرجائیں تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں اور مزید اضافوں کے ساتھ اپنی اولاد کے لئے ورثہ چھوڑیں، یا پھر اسے ایک بے کار اور "پدرم سلطان بود ۔ تراچہ ۔ " کے مترادف سمجھتے ہوئے دریا برد کردیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہمیں یہ فیصلہ ان پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
یہاں ایک اہم بات کا تذکرہ بھی کرتا چلوں اور وہ یہ کہ میں گذشتہ ایک دہائی سے ایران میں آباد ہوں اور لدہانہ ہماری تین چار صدیوں کے ماضی کا امین ہے اور اسی اعتبار سے ہماری آئندہ نسلوں کے لئے سنگ میل کا درجّہ رکھتا ہے۔ یہ تذکرہ اور شجرہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آئندہ دس بیس سال بعد لدہانہ سے ہجرت کیا ہوا کوئی ذی روح باقی نہیں رہے گا ۔ایسی صورت میں کون ہماری نئی نسلوں کو ان کے ماضی اور بزرگوں سے روشناس کرائے گا؟
حصولِ تعلیم، معاشی ترقی، سماجی خوشحالی اور اعلیٰ معیار کی زندگی کی خواہش اگر اخلاق واقدار کی حدود میں ہو تو شرف انسانی میں اضافے کاذریعہ ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کا کردار اس کے خاندانی خون سے عبارت ہوتا ہے ماضی میں بھی ان حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے جن افراد اور اقوام نے ترقی کا زینہ طے کیا وہ ہمارے لئے مثال کا درجہ پاگئے۔ آج بھی ہم میں سے جو لوگ ان حدود کا لحاظ پاس رکھ کرروبہ ترقی ہونے کے خواہش مند ہیں وہی اپنے اگلوں کے حقیقی وارث ہیں۔ ہم جو ایک تاریخی ماضی کے حامل لوگ ہیں، کس لئے اپنے ماضی پر شرمندہ ہوسکتے ہیں؟ ہم جو خیر البشر کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایسے پاکیزہ نشانوں کی نشاندہی کردینا چاہتے ہیں کہ اس برق رفتار اور تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں نئے آنے والے بھی اس حقیقت سے آگاہ رہیں کہ وہ کون ہیں؟ اور اب ان کےکیا فرائض ہیں؟
گوطرز بیاں میرا کوئی شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
میں سمجھتا ہوں کہ بزرگوں کے صرف نام ہی جاننا کافی نہیں بلکہ ان کے افکار اور کردار سے بھی واقفیت ضروری ہے تاکہ انہیں مشعلِ راہ بنا کر اپنی راہیں متعین کرنے میں آسانی ہوجائے۔ چنانچہ جہاں تک ممکن ہوسکا میں نے اس عہد کے سیاسی ، معاشی اور مذہبی حالات کا کھوج لگا کر انہیں درج کیا ہے۔ اس لئے کہ یہی تینوں عناصر مل کرتہذیب و تمدن کو عام طور پر تخلیق کرتے ہیں اور ان سے بالواسطہ اندازِ فکر اور کردار متاثر ہوتے ہیں۔ بلاشبہ کچھ شخصیات تاریخ ساز ہوتی ہیں ۔ اس پس منظر کے پیشِ نظر میں نے ساداتِ امروہہ، ساداتِ بارہہ، ساداتِ آگرہ و نواحِ آگرہ ، ساداتِ نواز پورہ ، ساداتِ سامانہ کے خاندانی حالات اور شجروں کے علاوہ سیرت اور مستند تاریخی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ میں کس حد تک اپنی کوشش میں کامیاب ہوا ہوں اس بات کا بہترین فیصلہ تذکرہ پڑھنے اور شجرہ جات کا مطالعہ کرنے والے افراد ہی بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔شجرے کی تکمیل کے لیے معاونت پر سب احباب اورشخصیات خاص طور پر چچا اعجاز ، دلشاد بھائی اور محمد بھائی کے علاوہ خاندان کے دیگر احباب کا دلی مشکور ہوں کہ انہوں نے میری اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا او راپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر خاندان کے تاریخی اور ازدواجی حوالوں کو معّین کرنے میں میری معاونت فرمائی۔ میں ان تمام احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں، جنہوں نے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کے کوائف مجھے مہیا کئے۔ جنہوں نے مختلف اوقات میں مجھے ضروری معلومات بہم پہنچائیں اور عمدہ مشوروں سے نواز کر میری حوصلہ افزائی کی۔ جس کے لئے میں ہمیشہ ان کا شکر گزار بھی ہوں اور بارگاہ الٰہی میں ان کے لئے سراپا دعا بھی۔ میری قارئین سے التماس ہے کہ ہمارے زیدی خاندان کے مرحومین کی مغفرت اور ایصال ثواب کے لئے ایک دفعہ سورۃ الحمد اور تین مرتبہ سورۃ توحید کی تلاوت فرما کر مرحومین ان کی ارواح کو بخش دئیں ۔ شکریه
تصویر ادھوری ہے ابھی کاوشِ ناکام
لفظوں میں خیالات کے پیکر نہیں آئے