صلح حدییبہ
 
صلح حدییبہ حصہ ، چھارم
اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمدللّٰہ الملک الحق المبین والصلٰوة والسلام سیدالمرسلین وآلہ والسلام سید المرسلین وآلہ وعترتہ واھلبیة الطیبین الطاھرین ولعنة اللّٰہ علی اعدائم اجمعین
اما بعد فقد قال سبحانہ وتعالی فی محکم کتاب المبین بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق لتدخلن المسجد الحرام آمنین ان شاء اللہ
عددی اعتبار سے تقریر نمبر 107 موجودہ سال کی دسویں تقریر اور ذکر ہو رہا تھا صلح حدیبیہ کے نتائج کا اس بات پر یقیناً مجھے معذرت طلب کرنا چاہئے ہماری ماہ دسمبر کی پہلی گفتگو ہوئی تھی اس کے بعد
تقریر کے اعلان کے بغیر مسلسل تین ہفتوں کا وقفہ آ گیا بہرحال اس کی وجوہات جو بھی ہوں اس کے نتیجے میں یہ نقصان تو ہوا ہوگا بہت سی وہ باتیں جن کا آج کے موضوع سے براہ راست تعلق ہے ذہن سے نکل گئی ہوں گی اس لئے ابتداء میں تین یا چار منٹ سرسری طور پر واقعات کو دہرانا پڑے گ
بات یہ ہو رہی تھی کہ سن چھ ہجری میں اللہ کے رسول نے خواب دیکھا کہ پیغمبر اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ مسجد الحرام میں داخل ہو رہے ہیں خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور بعض روایتوں کے مطابق صفا اور مروہ کے درمیان دو پہاڑیوں کے درمیان سعی یعنی سات مرتبہ دوڑنے کا عمل انجام دے رہے ہیں اور اس اختتامی عمل یعنی سعی اور سر منڈوانے کا واجب عمل انجام دیاجارہاہے جیسے ہی یہ خواب مسلمانوں کو پتہ چلا وہ تمام مسلمان جن کا تعلق مکہ سے تھا اور جنہیں اپنے وطن کو چھوڑے چھ سال گزر گئے تھے ان کی بے چینی اور تڑپ بڑھ گئی کسی نہ کسی طرح ہمیں مکہ جانا ہے 1400 مسلمانوں کا لشکر پیغمبر اسلام کے ساتھ چلا مگر حدیبیہ کے مقام سے آگے اس لشکر کو بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کثرت کے ساتھ پیغمبر اسلام کی ذات سے معجزات لوگوں کے سامنے آئے حدیبیہ کے مقام پر روکے جانے کے بعد دونوں طرف سے قاصدوں کا تبادلہ شروع ہوایہاں کاپیغام وہاں اور وہاں کا پیغام یہاں لیکر آتے ہیں
اسی اثنا میں پیغمبر اسلام پر 50 تیر اندازوں نے حملہ بھی کرنا چاہا اور ان تمام واقعات کا اختتام یہاں پر ہوا قریش نے اپنے انتہائی سخت مزاج اور پختہ عمر کے سہیل بن عمر کو بھیجا اور مکمل اختیار دے کر بھیجا جس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ کا معاہدہ طے پایا اب یہ وہ معاہدہ جسے تقریباً تمام مسلمان جانتے ہیں ابتدا ہی سے اس کی شکل و صورت ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اس پر خوشی سے راضی نہیں ہے
ادھر سہیل بن عمر دو چیزوں کو محسوس کر چکا تھا نمبر1 اللہ کا رسول آج کے دن ہرصورت میں صلح چاہتا ہے اور کسی حالت میں بھی جنگ پر تیار نہیں نمبر2 بہرحال سہیل بن عمر کوئی عام آدمی نہیں ہے بہت ہی پرانا ڈپلومیٹ ہے مدبر ہے قریش کا مانا ہوا سردار ہے تو وہ یہ دوسری چیز کا بھی اندازہ کر چکا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات منتشر ہیں مسلمان غم و غصہ کی حالت ہیں ہیں اور وہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ اگر میں چاہوں تو قائد اور عوام کے درمیان اختلاف پیدا کر سکتا ہوں عام مسلمان راضی نہیں ان کے چہرے یہ بتا رہے ہیں کہ حدیبیہ کے مقام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ دل سے اس سے متفق نہیں اور دوسری جانب سہیل بن عمر کو یہ معلوم ہے آج دن وجہ کچھ بھی ہو یہ پیغمبر ہر صورت میں مصالحت چاہتا ہے جس کی تفصیلات گزشتہ تقریر میں بیان ہو چکی ہیں اور پوری کارروائی میں یہ نظر آ رہا ہے کہ ہر ہر مرحلہ پر سہیل بن عمر پیغمبر اور مسلمانوں کو دبانا چاہتا ہے اور ایسا دبانا چاہتا ہے کہ کوئی تعجب نہیں کہ مسلمانوں کی تلواریں خود رسول کے خلاف نکل آئیں
چنانچہ ہم نے دیکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم کے لکھے جانے پر اس کو اعتراض ہے اور اگر یہ اعتراض ایک لفظی اعتراض تھ
ان کے اس کے بدلے میں دو لفظ تجویز کیا باسم کلھم لفظ اللہ اس کے اندر بھی ہے صرف الفاظ کی ترتیب کا فرق ہے مقصد پیغمبر اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش ہے اس کے بعد ہم نے دیکھا پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ اختلاف پھر آپ نے دیکھا کہ ایک ایک شرط ایسی کہ ہر شرط پڑھنے کے بعد مسلمانوں کا خون کھولا جا رہا ہے وہ تمام شرائط بیان کی جا چکی ہیں مگر اس میں خصوصیت اس شرط کی ہے جیسے عام طور پر نظر انداز کر دیا جانا ہے
یہ والی شرط کہ آج کے بعد مکہ میں جتنے مسلمان ہیں انہیں کھل کر عبادتیں انجام دینے کا موقع دیا جائے گا صلح حدیبیہ کی باقی پانچ شرطیں مسلمانوں کے خلاف تھیں یہ ایک اہم ترین شرط تھی جو مسلمانوں کے حق میں تھی مگر چونکہ مخالف شرطوں کی تعداد زیادہ تھی اس لئے اس شرط پر عام طور پر لوگ توجہ نہیں دیتے پیغمبر اسلام کا ایک بڑا مقصد اس شرط سے حل ہو رہا ہے فی الحال سہیل بن عمر کا رویہ ہے اب جو پانچ شرطیں وہ رکھوا رہا ہے ایک کے بعد ایک سخت ہو تاکہ مسلمانوں کو یہ محسوس ہو کہ کوئی انہیں کوڑے مار رہا ہے اگر صلح کا معاہدہ ہجرت کی رات لکھا جاتا تو بات سمجھ میں آ جاتی کیونکہ مسلمان کمزور ہیں پھر اگر دب کر صلح کریں تو عقل تسلیم کرتی ہے مگر یہ معاہدہ لکھا گیا بدر کی فتح کے بعد احد کی فتح کے بعد خندق کی عظیم ترین کامیابیوں کے بعد اور اتنے بڑے لشکر اسلام کی موجودگی میں کہ اس سے پہلے کفار مکہ کو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا وہ مسلمانوں کی چھوٹی فوج کا مقابلہ کرتے رہے ہیں وہی کافر مسلمانوں کے اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر اتنا ضد پر اترے ہوئے ہیں یقیناً اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت اور بظاہر ہمیں یہی چیز نظر آتی ہے سہیل بن عمر یہ دیکھ رہا ہے کہ پیغمبر اسلام کی مجبوری ہے کہ معاذ اللہ میں یہ لفظ بہت ہی ناقابل شائستہ استعمال کر رہا ہوں سہیل بن عمر یہ دیکھ رہا ہے کہ رسول کی مجبوری یہ ہے کہ رسول نے صلح کرنا ہے اور مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ رسول کی مجبوری کو نہیں سمجھ رہے وہ اپنی طاقت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کا غصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے
یہاں تک کہ یہ معاہدہ مکمل ہوااہم اہم باتوں کو پھر دہرا لیا جائے دس سال تک یہ معاہدہ چلے گا اس دوران مسلمان اور کافر آپس میں جنگ نہیں کریں گے اس سال مسلمان اپنا عمرہ نامکمل چھوڑ کر چلے جائیں اگلے سال آ کر اپنا عمرہ مکمل کریں بغیر ہتھیار کے عرب میں ہتھیار کم ہیں مرد کا زیور زیادہ ہیں
اس کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہ آئے گ
عرب کے تمام قبیلوں کو یہ اجازت دی جاتی البتہ یہ والی شرط بھی مسلمانوں کے حق کی شرط ہے عرب کے تمام قبیلوں کو یہ اجازت ہے کہ وہ جس فریق کا ساتھ دینا چاہیں دیں مکہ کا رہنے والا مسلمان اگر مدینہ چلا گیا تو اسے واپس کیا جائے گا لیکن مدینہ کا رہنے والا اگر مکہ چلا گیا تو اسے واپس نہ کیا جائے گ
یہ تمام شرطیں مکمل ہو گئیں اور اس کے بعد وہ مشہور واقعہ پیش آیا جس کے بارے میں گزشتہ تقریر میں بھی میں نے عرض کیا تھا اسے بیان کروں تو مناسب محسوس نہیں ہو رہا کیونکہ اتنا مشہور واقعہ ہے اگر بیان نہ کروں تو واقعات کے درمیان خلا ہو جائے گ
ابھی تک سہیل بن عمر مسلمانوں کو پورا جوش اور غصہ دلانا چاہتا ہے اب لفظ کی بات نہ رہی عمل کی بات ہوگئی پھر وہ واقعہ ہو گیاابو جندل کی واپسی جب سارا ڈرافٹ تیار ہو گیا معاہدہ کی تحریر مکمل اہم ترین مرحلہ باقی ہے ہر معاہدہ بے کار ہے جب تک اس پر دستخط نہ ہوں ابھی پیغمبر اور سہیل بن عمر کو دستخط کرنا ہے زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ایک ایسا مسلمان جو سر سے پیر تک زخموں سے چور اپنے آپ کو آ کے پیغمبر کے قدموں میں گرا دیتا ہے اورایک مرتبہ چونک کر مسلمانوں نے دیکھا کہ کون آیا ہے؟ تمام مسلمانوں نے دیکھ لیاکہ ابوجندل ہے عین اس وقت پہنچا کہ ابھی دستخط نہیں ہوئے تو سب نے پہچان لیا کہ ابو جدل ہے اس کا اصل نام عاص ہے عاص بن سہیل بن جندل اسی امیراور امیر قریش کا بیٹا ابو جدل ہے جو چند مہینے پہلے اسلام قبول کر چکا ہے اس کا باپ اتنا بڑا دشمن اسلام تھا کہ آج قریش اسے اپنا نمائندہ بنا کر بھیج رہے ہیں اپنے بیٹے کے اسلام کو کیسے برداشت کر سکتا ہے اس دوران اس نے اپنے بیٹے پر دل کھول کر ظلم کئے زنجیروں اور بیڑیوں میں اس کو جکڑ کر رکھا اور گھر کے کمرے میں بطور قیدخانے محبوس کر دیا لیکن بعد میں حدیبیہ سے آ جانے کا موقع ملا اسی طرح واقعہ بڑا مشہور جلدی جلدی سے اسے مکمل کر دیا جائے ابھی تک اس کے جسموں پر زخموں کے نشانات باقی ہیں اور یہ نشانات کسی دشمن نے نہیں کسی گیر نے نہیں کسی غلام نے نہیں بلکہ حقیقی باپ اپنے بیٹے پر فقط دین اسلام دشمنی میں لگائے ہیں
وہ ایک مرتبہ اپنے آپ کو پیغمبر کے قدموں میں گرا دیتا ہے خوش رہے وہ جس نے مجھے کافروں کی قید سے رہائی دلوائی اور آپ تک پہنچایا آنے والا بڑی امیدیں لیکر آیا آنے والا اس یقین سے آیا کہ آج کے بعد میری تمام زحمتیں مکمل ہو گئیں اس کے پاس پہنچا ہوں جو ہر مخلوق کا ملجا اور جائے پناہ ہے مگر ایک پیغام یہاں ہمارے سامنے آ رہا ہے بعض اوقات معاشرے کے سوسائٹی کے اجتماع کے فائدے کیلئے افراد کو قربانی دینا پڑتی ہے
بعض اوقات اپنے جائز حق کو چھوڑنا پڑتا ہے
تاکہ سارا معاشرہ سکون کے ساتھ رہے
چھوٹے پیمانے پر اس کی مثال بے گناہ اور بے قصور بچہ جس کے والدین نے گناہ کیا لیکن فقط اس لئے کہ معاشرہ زنا جیسی خرابیوں سے محفوظ رہے اور اس بے گناہ بچے کو بھی اپنے چند مسلمہ حقوق سے دستبرداری اختیار کرنا پڑے گی
یہ پیش امام نہیں بن سکتا یہ مرجع تقلید نہیں بن سکتا اور بڑے پیمانے میں اس کی مثال انقلاب ایران اور اس سے پہلے صلح حدیبیہ میں ہمارے سامنے کہ معاشرے کی بہتری کے لئے دین کی خاطر فرد کے حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ابو جندل کا مسئلہ بھی یہ تھا کہ اب اس سے ایک اجتماع کی خاطر مزید قربانی دینا ہے
کیونکہ ایک طرف اسلام کہتا ہے کہ مظلوم کو پناہ دو مظلوم کی حمایت کرو مظلوموں کا ساتھ دو مظلوم کے معاملے میں خاموش رہنے والا غیر جانبدار نہیں ہے بلکہ ظالم کا دوست ہے تو اب صلح حدیبیہ کے واقعات کو دہرا لیا جائے
اللہ کا رسول ابو جندل کو دیکھتا ہے اور وہ ابو جندل جو درخواست کر رہا ہے التماس کر رہا ہے پیغمبر اسلام کے قدموں میں گرا ہوا ہے سہیل بن عمر فوراً اپنے بیٹے کو پہچان لیتا ہے پیغمبر اسلام مسلمانوں سے مخاطب ہیں یہ جملے ساری تاریخوں میں نہیں کچھ تاریخوں میں ہیں مسلمانوں کا بھائی آیا ہے ابو جندل جو دستخط کیلئے ہاتھ میں قلم پکڑ چکا ہے قلم کو واپس رکھتا ہے اور کہتا ہے خبردار میرا بیٹے کے بارے میں کوئی نہ بولے
پیغمبر اسلام نے اسے کہا کہ یہ مسلمان ہے ہمارا اسلامی بھائی ہے اس کو پناہ دینا ہمارا فرض ہے
سہیل بن عمر نے کہا اے محمد یہ وقت ہے دیکھنے کا کہ معاہدے کے بارے میں تم کتنے سنجیدہ ہو ابھی ابھی یہ معاہدہ طے پایا ہے کہ مکہ کا کوئی آدمی آئے تو مدینہ میں اسے پناہ نہیں دی جائے گی اللہ کے رسول نے بالکل صحیح بات کی کہا اگر معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے دستخط ہو جاتے تو تمہاری بات صحیح تھی مگر ابھی دستخط نہیں ہوئے
سہیل بن عمر کہتا ہے اگر ایسی بات ہے تو یہ معاہدہ اپنے پاس رکھو ہم کوئی معاہدہ کرنے کو تیار نہیں کون سہیل بن عمر اتنا سخت اور اکڑ کر بول رہا ہے لیکن اسے پتہ ہے کہ مکہ اتنا طاقتور نہیں کہ 1500 مسلمانوں کا مقابلہ کر سکے جو کہ 313 مسلمانوں کے سامنے شکست کھا چکا ہے تو 1500 کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے کہ پھر اس کا بڑھ بڑھ کر یہ بولنا کہ اگر میرے بیٹے کی واپسی پر دخل اندازی کی جائے گی اور قانونی نکتہ پیش کیا جائے گا تو رکھو یہ معاہدہ میں اس پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ وہ محسوس کر چکا ہے وہ بھانپ چکا ہے کہ اللہ کا رسول ہر صورت میں صلح نامہ چاہتا ہے جنگ کیلئے قطعاً تیار نہیں ہے ورنہ سہیل بن عمر کا یہ انداز نہ ہوتا جب پیغمبر اسلام نے اس کو سنا تو روایت یہ ہے کہ اس طرح سے اس سے درخواست کی نہ اس کے ساتھ قریش مکہ نے دو اور آدمی بھیجے ان سب کو رحم آ گیا ان سب کے دل میں ہمدردی پیدا ہو گئی انہوں نے اپنے ہاتھ سے ابو جندل کو پکڑا اور مسلمانوں کے حصہ میں لے گئے کہ رکھو مسلمانوں تم اسے اپنے پاس ہم لوگ آپس میں یہ معاملہ طے کر لیں گے کہ سہیل بن عمر اپنے دو ساتھیوں سے لڑ پڑا میں لیڈر بنا کر بھیجا گیا ہوں تم بھی واپس چلے جاؤ یہ معاہدہ نہیں ہو گا اگر میرا بیٹا میرے حوالے نہیں کیا گیا پیغمبر اسلام ظاہری اعتبار سے جتنی کوشش کر سکتے تھے تو کر لی تو آخر میں پیغمبر نے سہیل بن عمر کو دیکھا ابو جندل کو دیکھا اور کہا اے ابو جندل جیسا تمہارا باپ کہہ رہا ہے اس کو مان لو اور واپس چلے جاؤ تو ایک مرتبہ اس نے ان زنجیروں اور بیڑیوں کو کھول کھول کر اپنے زخم اور نمایاں کرنا شروع کر دیئے مسلمانوں کا غصہ جو شروع سے ہی بڑھتا چلا آ رہا تھا جب سے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے یہ شروع ہوا ہے اب تو یہ عروج پر پہنچ چکا ہے مگر پیغمبر اسلام یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے پھر بھی اس کے بعد کہتے ہیں اے سہیل پھر بھی چلے جاؤ اس لئے کہ اللہ تمہاری حفاظت کرے گا اور تمہارے بچنے کا کوئی راستہ نکال دے گا تو پیغمبر اسلام نے اتنی خوشخبری اس کو سنائی اور ایک مرتبہ ابو جندل بڑھا اور اپنے باپ کی جانب بڑھنے لگ
اب یہ بھی تاریخوں میں لکھا ہے اس وقت مسلمانوں میں سے ایک دو آگے بڑھے اور ابو جندل کے پاس پہنچ کر اسے اکسانا چاہا کہ وہ پیغمبر اسلام کی مخالفت کرے اور کہا تم اس وقت آزاد ہو کیوں پیغمبر کی بات مانتے ہو تلوار اٹھاؤ کسی کی اور اپنے باپ کو قتل کر دو تو ابو جندل جواب دینے لگے گو کہ پیغمبر مجھے جواب دے چکے ہیں اب مجھے قید گوارا ہے اب مجھے زخم کھانا گوارا ہے اب مجھے اپنے باپ کے ہاتھوں سے یہ مارپیٹ برداشت ہے
لیکن میں رسول کی مخالفت نہیں کر سکتا یہ کہ بیٹے نے اپنے آپ کو باپ کے حوالے کیا اور آج کی تقریر کا یہ نکتہ جو شروع سے میں بار بار دہرا رہا ہوں
سہیل بن عمر تمام مسلمانوں کے سامنے یہ دیکھ رہا ہے کہ مسلمان ابو جندل کی کتنی حمایت کر رہے ہیں اب سارے مسلمانوں کے سامنے ابو جندل اس طرح سے مارنا شروع کرتا ہے کہ زخموں سے دوبارہ خون جاری ہو جاتا ہے مگر پیغمبر اسلام بالکل خاموش ہیں یہ ظلم ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں مظلوم کو ظالم کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ رہے ہیں اور یہ درس دے رہے ہیں کہ جب دین اور اسلام کی مصلحت اسی میں ہوتی ہے کبھی ظالم کے سامنے خاموشی بھی اختیار کرنا پڑتی ہے
ابو جندل کا واقعہ مکمل ہوا جیسے بھی سہیل بن عمر نے اسے پکڑا پکڑ کر اپنے غلام کے حوالے کیا واپس آیا معاہدے کے دونوں کاغذوں پر دستخط کئے اس معاہدے کی دو کاپیاں تیار کی گئیں ایک پیغمبر اسلام کے حوالے کی گئی ایک ابو جندل اپنے ساتھ لے گی
صلح حدیبیہ کا واقعہ مکمل ہو گیا لیکن آگے فقہی اور شرعی مسئلہ سامنے آ گی
یہ مسلمان عام کپڑوں میں نہیں احرام میں آئے ہیں اور احرام کا مطلب ہے کہ عبادت شروع ہو گئی اور عبادتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب انسان عبادت شروع کر دے تو اپنی مرضی سے ختم نہیں کر سکتا ایک دفعہ عبادت شروع ہو جائے تو اس کے ختم کرنے کا ایک طریقہ کار ہے ہم نے واجب نماز شروع کر دی ایک دفعہ اللہ اکبر کہہ دیں ویسے ہم بااختیار رہیں
ظہرین کی نماز کا وقت مثلاً 12-30 بجے آتا ہے 5-45 بجغے قضا ہو جاتی ہے چاہے 2-45 یا 3-45 بجے جب چاہیں تکبیرة الاحرام مگر جب ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ دیا نماز واجب شروع کر دی اب اپنی مرضی سے اس کو نہیں توڑ سکتے سے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گ
واجب عبادتوں کو شروع کرنے کے بعد بیچ میں چھوڑنے کی اجازت نہیں جب تک کہ کوئی شرعی جواز نہ آ جائے جان کو خطرہ ہو جائے گھر میں آگ لگ جائے یا کوئی ایسا مسئلہ اب مسلمان احرام پہن کے عمرہ کیلئے نکل چکے ہیں احرام پہننے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت شروع ہو گئی لیکن عبادت کو مکمل نہیں کرنے دیا جا رہا ہو سکتا ہے کہ کون صاحب ایک فقہی مسئلہ کو میرے سامنے پیش کر دے اور کہہ دے مولانا آپ نے غلط مثال دی ہے واقعہ تو ٹھیک ہے مثال غلط دی ہے
واجبات کے اندر بیچ میں عمل توڑنے کو حرام قرار دیا ہے لیکن سنت عبادتوں میں تو اجازت ہے سنت نماز ایک رکعت پڑھی چھوڑ سکتے آپ سنت روزہ کو رکھنے کے بعد توڑ سکتے ہیں تو بات ٹھیک ہے کہ سنت عبادتوں میں بیچ میں توڑا جا سکتا ہے اور عمرہ واجب نہیں ہے عمرہ مستحب ہے تو جواب یہ ہے کہ کچھ منت عبادتیں بھی ایسی ہیں کہ جن کا حکم واجب جیسا ہے نمبر1 اعتکاف مسجد میں بیٹھ کر تین دن عبادت کرنا اعتکاف سنت عبادت ہے جب تک کہ کوئی منت نہ مانی جائے اب اگر سنت اعتکاف کر لیا تو اس کو مکمل کرنا پڑے گا بیچ میں نہیں چھوڑ سکتے عمرہ میں بھی گو کہ سنت عبادت ہے ایک دفعہ احرام پہن لیں اب اسے مکمل کرنا واجب ہو جائے گا تمام سنتوں عبادتوں سے ہٹ کر اعتکاف اور عمرہ کا مسئلہ الگ ہے اعتکاف میں بھی دو دن کے بعد عمرہ میں تو شروع سے ہی ایک مرتبہ شروع ہو گئے تو بیچ میں چھوڑنے کا حق نہیں عمرہ احرام سے شروع ہوتا ہے ان کے بعد تین واجب اور ہوتے ہیں خانہ کعبہ کا طواف دو رکعت نماز صفا و مروہ کے درمیان سعی اور پھر آخر میں سر کو منڈوا کر احرام اتارا جاتا ہے عین اس وقت قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں اور قیامت تک مسئلہ حل ہوا کہ اگر کوئی آدمی عمرہ شروع کر دے مگر بیماری کی وجہ سے مکمل نہ کر پائے یا حکومت کی سختی کی وجہ سے عمرہ نہ کر پائے
ادھر پیغمبر سہیل بن عمر کو رخصت کر کے مسلمانوں کی طرف آئے لشکر اسلامی انتہائی غصہ کے عالم میں بیٹھا ہے
پیغمبر نے ابو جندل کے واقعہ کے بعد کہا اے مسلمانو عمرہ تو ہم نہیں کر سکتے چنانچہ اپنا سر منڈوا لو اور اپنا احرام اتار دو مسلمان ٹس سے مس نہیں اتنا شاک پہنچا ہے مسلمانوں کو جیسے آدمی بیہوشی کے عالم میں ہو جیسے آدمی شدید غفلت کے عالم میں ہو آنکھیں کھلی ہیں مگر دماغ کسی چیز کو سمجھنے کو تیار نہیں ہیں دوبارہ پیغمبر نے یہی حکم دہرایا پھر بھی کسی پر اثر نہیں ہو
اور تیسری مرتبہ پیغمبر انتہائی غم کے عالم میں اپنے خیمے میں داخل ہوئے
پیغمبر اسلام کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب کسی سفر پر جاتے ہیں تو اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کو لیکر جاتے ہیں اس سفر میں پیغمبر اسلام کی وہ بیوی پیغمبر کے ساتھ تھی ایمان و تقدس میں حضرت خدیجہ کے بعد سب سے عظیم ہیں حضرت ام سلمیٰ پیغمبر اپنے خیمے میں داخل ہوئے حضرت ام سلمیٰ نے محسوس کیا کہ پیغمبر کے چہرے پر اس وقت غم کے آثار ہیں
اللہ کے رسول کیا بات ہے خیریت تو ہے کہا اے ام سلمیٰ یہ مسئلہ پیش آ گیا ہے اس وقت ام سلمیٰ نے ایک مشورہ دیا جسے اکثر میں دروس میں بیان کرتا رہتا ہوں کہ تمام مورخین اسلام متفق ہیں کہ کسی عورت کی جانب سے سیرت رسول میں آنے والا یہ بہترین مشورہ ہے سارے مسلمان آپ کے مخالف نہیں اس وقت غم کی وجہ سے یہ لوگ کوئی چیز سمجھنے کے قابل نہیں ہیں آپ زبان سے انہیں کچھ نہ کہیں آپ عملاً اپنا سر منڈوائیے جانور کو ذبح کریں اور احرام اتار دیں
بہرحال یہ عبادت گزار ہیں آپ کو دیکھ کر یہ آپ کی نقل کریں گے پیغمبر اسلام کو یہ مشورہ پسند آیا خیمے سے نکل کر اسی ڈیڑھ ہزار مسلمانوں کے درمیان گئے حجام کو بلوایا گیا اور سر منڈوانے کا حکم دیا پیغمبر اسلام کے سر کے بال اتارے گئے اور پھر جب پیغمبر قربانی کا جانور ساتھ لے کر آئے ہیں ذبح کیا گیا اور پیغمبر احرام اتار کر لباس پہن لیا یہ منظر جو دیکھا جا رہا ہے اب ڈیڑھ ہزار کے مجمع میں حرکت کے آثار پیدا ہوئے اور انہوں نے پیغمبر اسلام کی سنت کی نقل کی یہاں پر چھوٹی چھوٹی باتوں کی وضاحت ہے پہلی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں پر پیغمبر اسلام کا موئے مبارک ہے اور محفوظ ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ جہاں جہاں شہرت ہے کہ پیغمبر کے بال ہیں تو وہ صحیح ہے بعض جگہیں غلط بھی ہیں لیکن بعض لوگ جو اس بات پر اعتراض کرتے ہیں وہ اعتراض غلط ہے کہ پیغمبر یا امام کا جسم بالکل محفوظ رہتا ہے
تو کوئی دانت، بال یا ہڈی کا کہیں پہنچنا ہی ناممکن یہ اعتراض کر کے ان تمام زیارتوں کو رد کیا جاتا ہے یہ اعتراض غلط ہے اس لئے کہ پیغمبر نے جو عمرہ اور حج کے دوران سر منڈوایا وہ بال مسلمانوں نے بطور تبرک آپس میں تقسیم کئے ہیں اور نسل بعد از نسل یہ بال مختلف علاقوں تک پہنچ گئے ہیں یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں پیغمبر کے موئے مبارک کی زیارت کا دعویٰ کرتے ہیں ہماری مسجد یا درگاہ میں موئے مبارک ہے
ممکن ہے صحیح نہ ہو لیکن یہ دعویٰ کہ پیغمبر کا موئے مبارک کسی کو مل ہی نہیں سکتا تاریخ بتاتی ہے کہ واقعتاً حج و عمرہ کے بعد بال تقسیم ہوئے سب سے پہلے صلح حدیبیہ کا واقعہ سب سے آخری حج الوداع کا واقعہ کہ جہاں پیغمبر نے سر منڈوایا اس کی وضاحت آ گئی تو میں نے کر دی اور دوسری بات اسی سلسلہ میں ایک اور دوسری بات ایک اور یہ بھی ایک فقہی مسئلہ ہے حج اور عمرہ ایک عظیم عبادت ہے جس نے خود حج و عمرہ نہ کیا ہو اس کی سمجھ میں یہ مسئلہ نہیں آتا اور اسے یہ مشکل ترین عبادت محسوس ہونے لگتی ہے اور اس کے مسائل بوجھل ترین مسئلے لگتے ہیں اور جو کوئی حج و عمرہ کر کے آ گیا البتہ صحیح طریقہ سے تو اسے اتنی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے ان عبادتوں سے تو ایسے بعض اوقات نماز و روزہ سے آسان یہ مسائل محسوس ہوتے ہیں تو ایسا ہی ایک مسئلہ کہ جب کوئی آدمی عمرہ پر جاتا ہے تو مردوں کو اسلام نے اجازت دی ہے کہ چاہے تو پورا سر منڈواؤ اور چاہے تو تھوڑے سے بال کاٹ لو
برادران اہل سنت کے ہاں سر منڈوانا لازم ہے اسی لئے وہ اس آدمی کو حیرت سے دیکھتے ہیں جو عمرہ پر گیا ہو اور بغیر سر منڈوائے آ گیا ہو تو یقین نہیں آتا ہے اس نے عمرہ کیا ہے ہماری فقہ میں دونوں چیزوں کی اجازت ہے یا پورا سر منڈواؤ اسے حلق کہتے ہیں یا تھوڑے سے بال منڈواؤ جسے تقصیر کہتے ہیں وہی تقصیر جو غلطی اور گناہ کے معنوں میں استعمال ہوتاہے البتہ یہ مردوں کیلئے ہے
خواتین کیلئے تو بہرحال سر منڈوانا حرام ہے انہیں تو تھوڑے سے بال ہی کٹوانا پڑتے ہیں
عام حالات میں بالکل یہ اجازت ہے چاہے سر منڈواوٴ چاہے بال کٹواوٴ حج ہے جس سر مندوانا پڑتا ہے اس میں بھی آقای خوئی کہتے ہیں وہا ں بھی اجازت ہے چاہے سر منڈواوٴ یا بال کٹواوٴ خیر اس میں بھی شک نہیں عمرہ کے دوران البتہ سر منڈوانے کا ثواب زیادہ ہے لیکن صلح حدیبیہ میں یہ مسئلہ ثو اب کا نہیں بلکہ ایمان کا بن گیا اس طرح سے کہ پیغمبر نے سر منڈوایا یہ خاص صلح حدیبیہ کی بات ہے اور وہ مسلمان جو پیغمبر پر پورا یقین رکھتے ہیں فقط اس غم کی وجہ سے خاموش تھے انہوں نے پیغمبر کی پوری نقل کی پورا سر منڈوایا لیکن وہ مسلمان جو اس مسئلہ پر اختلاف رکھتے تھے تو وہ سر منڈوانے پر تیار نہیں تھے اب اگر صاف انکار کر دیتے تو صاف الگ ہو جاتے اور نمایاں ہو جاتے تو انہوں نے فقہی مسئلہ سے فائدہ اٹھایا کہ تھوڑے سے بال بھی کاٹے جا سکتے ہیں تو انہوں نے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام اتار دیا یعنی کہنے کو ہو گیا کہ جیسا باقی مسلمانوں نے کیا وہ ہم نے بھی کیا یہی وجہ کہ جب سارے مسلمان احرام اتار دیئے
اب کچھ لوگوں کے سر منڈھے ہوئے ہیں اور کچھ کے بال کٹے ہوئے ہیں جب اس حالت میں یہ لشکر پلٹا تو پیغمبر اسلام نے پورے لشکر کو دیکھ کر یہ کہا رحم اللہ علی المحلقین اللہ رحمت نازل کرے جنہوں نے سر منڈوایا ہے کسی کونے سے آواز آئی اللہ کے رسول جنہوں نے تھوڑے سے بال کاٹے ہیں ان کے بارے میں پیغمبر نے بھی اسی بات کو دہرایا رحم اللہ علی المحلقین خدا رحمت نازل کرے سر منڈوانے والوں پر اب جنہوں نے تھوڑے سے بال کاٹے ہیں پھر ذرا بے چین اللہ کے رسول اور بال کاٹنے والے پیغمبر نے پھر وہی اپنا جملہ دہرایا تو تھوڑے سے بال کاٹنے والے تڑپ کے آگے بڑھے تو پھر پیغمبر نے کہا اور بال کاٹنے والوں پر بھی پھر کسی نے پوچھا اللہ کے رسول آپ نے بال منڈوانے کا اتنا زیادہ اور بال کٹوانے والوں کا اتنا کم تذکرہ اور وہ بھی ایسے جیسے کسی کا دل رکھنے کیلئے بات کی جا رہی ہے تو پیغمبر کا جواب یہی تھا کہ سر انہوں نے منڈوایا جنہیں میری نبوت و رسالت میں ذرا بھی شک نہیں اور بال انہوں نے کٹوائے جنہیں نبوت و رسالت پر شک ہے اور دوسروں کو دھوکہ دینے کی خاطر بال کٹوائے ہیں یہ صلح حدیبیہ کا بہت خاص واقعہ ہے لیکن اس کا اطلاق آج کل نہیں ہوتا وہ خاص حکم تھا اب اختیار ہے تھوڑے سے بال کٹوائے یا سر منڈوائے
خیر ہم واقعات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے اس عمل کے پیچھے حضرت ام سلمیٰ کا مشورہ ہے تمام مسلمانوں کو عام کپڑوں میں لے آی
اب پیغمبر نے کہا کہ ہمیں واپس جانا ہے اس موقع پر میں وہ جملہ دھرا دوں کہ جو میں گزشتہ تقریر میں کہہ چکا ہوں عین اس وقت ایک شخص آگے بڑھا اے اللہ کے رسول کیا آپ نے مدینہ میں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم لوگ خانہ کعبہ میں گئے طواف کیا سعی کی پیغمبر نے کہا ہاں یہ میں نے کہا تھا کہ اللہ کے رسول وہ بات پوری نہیں ہوئی
پیغمبر نے کہا میں نے یہ تو نہیں کہا کہ اس سال ہم طواف کریں گے یاد رکھو پروردگار اپنے وعدہ پورا کرے گا اور اب یہ قافلہ کچھ دور چلا کہ جبرائیل امین قرآن کریم کا سورہ نمبر 48 سورہ فتح لیکر نازل ہو گئے جس کا پہلا ہی جملہ یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم انا فتحنا لک فتحا مبین
اے مسلمانوں یہ واپسی پر سورہ نازل ہوا ہے اے مسلمانو آج ہم نے تمہیں کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے پھر آگے چل کر وہ آیت جو ہماری آج کی تقریر کا سرنامہ کلام بنی ہے لقد صدق اللہ رسولہ رویة بالحق یاد رکھو اللہ اپنے رسول کے خواب کو سچا دکھائے گ
لتد خلن فی المسجد الحرام امنین انشاء اللہ اور تم امن سے خانہ کعبہ میں داخل ہو گے اب یہ دو وعدے قرآن کر رہا ہے اب یہ وعدہ کسی طرح پورے ہوئے آگے چل کر آئے گا پھر ایک مرتبہ اس جملے کو دہرا دیا جائے کہ قرآن واپسی کے سفر پر پہلی آیت یہ نازل کر رہا ہے کہ انا فتحنا لک فتحا مبینا خالی یہ نہیں کہا کہ ہم نے تمہیں فتح دی فتح مبین دی کھلی ہوئی فتح
بدر کی لڑائی کے بعد یہ لفظ نہیں آیا احد کی لڑائی کے بعد یہ لفظ نہیں آیا خندق کی لڑائی کے بعد یہ لفظ نہیں آی
خیر کے معرکہ کے بعد یہ لفظ نہیں آئے گا مگر صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ لفظ آیا ہے
امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں ما کان قصیة ما اعظمھا ببرکة منہا ہاں اسلام میں صلح حدیبیہ سے زیادہ برکت والا کوئی واقعہ نہیں ہے برکتیں ہی برکتیں اس واقعہ میں اُن سب سے کچھ کا تذکرہ ضروری ہے مگر اس سے پہلے صرف اتنی سی بات ایک مرتبہ مسلمانوں کا لشکر مدینہ پہنچ گیا اور شیخ طوسی شیخ طبرسی سید قطب الدین راوندی اور ابن شہر آشوب اور اس کے علاوہ شیعہ سنی تقریبا تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ صرف اور صرف 20 دن پیغمبر مدینہ میں رہے اکیسواں دن آیا صلح حدیبیہ سے لشکر واپس آی
صرف بیس دن قیام رہا اکیسویں دن پیغمبر مدینہ سے خیبر کی جانب چلے اور خیبر کے حالات آ گئے اسی لئے صلح حدیبیہ کا ایک بڑا تعلق خیبر کے واقعہ سے بھی ہے میں نے پہلے بھی عرض کیا آج پھر بھی دہراؤں گا اسی دوران ایک واقعہ اور پیش آیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں الفاظ کی کتنی اہمیت ہے
چاہے وہ فقہی مسائل ہوں یا سیاسی چاہے وہ آپس میں معاہدے ہوں تو جب پیغمبر مدینہ واپس پہنچے تو عقبہ بن ابی معید مکہ میں بہت بڑا دشمن اسلام اور کافر اس کی بیٹی ام کلثوم جو مسلمان ہو چکی تھی مگر اپنے آپ کو بوسیدہ کئے ہوئے موقع پا کر وہ مکہ سے مدینہ آئی اور پیغمبر اسلام کی خدمت میں آ کر پناہ طلب کی اور پیغمبر نے اسے پناہ دے دی اِسی دوران اس کے دونوں بھائی ولید اور عمار مدینہ پہنچ گئے اور پیغمبر اسلام سے اس حوالہ سے گفتگو شروع کی اے عبداللہ کے بیٹے ہمیں یہ پتہ ہے کہ آپ کبھی دھوکہ نہیں کرتے غدر نہیں کرتے معاہدے کو توڑتے نہیں ہیں وعدہ خلافی نہیں کرتے یہ رسول ہی کا تو واقعہ ہے کہ اگر مکہ میں کسی نے وعدہ لیا ہے یہاں انتظار کرو میں آتا ہوں اور وہ بھول گیا اور تین دن کے بعد وہاں سے گزرا تو دیکھا کہ پیغمبر وہیں پر تشریف فرما ہیں اور اس سے کہا کہ مرتے دم تک میں یہیں بیٹھا رہتا اتنا وعدے کا خیال رکھنے والے جیسے مکہ والے صادق و امین کہا کرتے اس حوالہ سے بات کی کہ ہماری بہن آپ کے پاس آتی ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان معاہدہ ہوا ہے مکہ سے جو بھی آئے گا اسے واپس کیا جائے گ
پیغمبر نے جواب دیا کہ معاہدے میں مرد کا لفظ آیا ہے مومن جو مومن ہو گا وہ واپس کیا جائے گ
یہ مومن نہیں ہے مومنہ ہے اور عورت کا تذکرہ معاہدے میں نہیں ہے اس وقت بعض مسلمان بھی ذرا پریشان ہوئے جسے آجکل بھی جب کوئی فقہی مسئلہ بیان کرتے ہیں تو لوگ یہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو الفاظ سے کھیلنا ہے اگر آپ بنک میں پیسہ رکھیں کہ اگر نیت یہ کہ آپ نہیں مانگیں گے تو وہ نہیں دیتے اگر دے دیں گے تو لے لیں گے کی نیت ہو تو حلال ہے اور اگر یہ نیت نہ ہو تو حرام ہے
اس لئے آقائی خوئی نے کہا انعامی بانڈ اس نیت سے خریدا تو حرام اور اگر اس نیت سے خریداکہ انعام نکل آیا دے دیں گے تو لے لیں گے نہیں دیں گے تو ہم جھگڑا نہیں کریں گے اس صورت میں پرائز بانڈ کا خریدنا حلال ہے عام لوگ یہ کہتے ہیں یہ کیا بات ہوئی سود ہے تو ہر صورت میں حرام ہونا چاہئے یہ کیا کہ یہ نیت کر لیں تو حلال وہ نیت کر لیں تو حرام یہ سب معاذاللہ مولویوں کے چکر ہیں
اللہ کے رسول کی زندگی میں بھی یہ واقعہ پیش آ چکا ہے کہ پیغمبر نے کہا معاہدے میں لفظ مومن آ چکا ہے مومنہ نہیں آیامسلم لکھا ہے مسلمہ نہیں لکھا یعنی مرد کیلئے آیا ہے عورت کیلئے یہ لفظ استعمال نہیں ہو
عورتوں کو واپس کرنے کے بعد ہم نے کوئی معاہدہ نہیں کی
وہ کفار مکہ تو چلے گئے لیکن بعض مسلمانوں کے دلوں میں شک پیدا ہو گیا یہ پیغمبر نے کہا ارشاد فرما دیا معاہدے کے اندر لفظ کوئی بھی تھا مقصد کو یہی تھا کہ مکہ والے کو واپس کیا جائے گ
یہ مرد و عورت کا کیا چکر ہے قرآن مجید کا سورہ ممتحنہ نازل ہوا بسم اللہ الرحمن الرحیم یا ایھا الذین آمنو اذا جاء کم المومنات المہاجراتجب تمہارے پاس مومنہ عورتیں آئیں چار لفظوں کے بعد قرآن کہہ رہا ہے لا ترجو ھن الی الکفار خبردار انہیں کافروں کے پاس واپس نہ کرنا پیغمبر کے عمل کی قرآن کریم نے تصدیق کر دی اور اس تصدیق کے بعد اس مسئلے کو بھی واضح کر دیا کہ احکام دین میں الفاظ کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے
لفظ ضرور توجہ کے ساتھ سنا کریں ورنہ مسئلہ کہیں کا کہیں پہنچ جائے گ
اچھا آپ کو یاد ہو گا ایسے دو واقعات پیش آئے ایک صلح حدیبیہ کے مقام پر اور دوسرا مدینہ پہنچنے پر پیش آیا جس کی وجہ سے میں نے اسے دہرا دی
اب اللہ کا رسول خیبر کیلئے روانہ ہوا خیبر کے حالات واقعات آئندہ کی تقریر میں
اب پیغمبر مدینہ سے چلے اور مدینہ واپس آ گئے صلح حدیبیہ پر دستخط کر کے واپس آئے واپسی کے سفر پر قرآن یہ بھی سنا چکا ہے کہ یہ فتح مبین ہے اب سرسری طور پر دیکھنا ہے کہ صلح حدیبیہ کے کیا فوائد حاصل ہوئے ویسے تو علما نے پوری پوری کتابیں لکھ دی ہیں لیکن مختصراً تین چار باتیں
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں مکہ میں جو مسلمان اب تک تھے ان کیلئے کھل کر اپنے ایمان کو ظاہر کرنا اور اپنے اعمال کو انجام دینا ممکن ہو گیا مکہ کے مسلمانوں کیلئے صلح حدیبیہ اتنی بڑی برکت بن کر آ گیا کہ خود قرآن کے سورہ فتح کے آخر میں مکہ کے بوڑھے مرد و عورتیں جو مسلمان ہیں ان کا بھی خیال کرو
فقط اپنے آپ کو نہ دیکھو طاقتور ہیں کافروں کو شکست دے سکتے ہیں ان کمزوروں کا بھی خیال کرنا ہے کمزوروں کیلئے کہ واقعہ اور آیت بہت بڑی رحمت بن کر آیا دوسرا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا جسے آج ہم روس میں دیکھ رہے ہیں ایک آئرن کرٹن یا آئینی پردہ پڑا ہے اسلام پر کفر مکہ نے تمام کافروں کو مسلمانوں سے قریب ہونے سے روکا ہوا ہے
خصوصاً یہ کہہ کر کہ جو وہاں گیا ہمارا دشمن ہے اور عرب کے لوگ قریش کی دشمنی مول لینے کو تیار نہیں ایک خانہ کعبہ کی وجہ سے اور ایک یہ کہ قریش ایک بڑی طاقت بنتے جاتے ہیں
اب اس معاہدے کی نتیجہ میں فرق یہ پڑا کہ جو چاہے جس کا ساتھ دے سکتا ہے چنانچہ کثرت کے ساتھ قبائل کو پیغمبر کے پاس آنے کا موقع ملا یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے حدیبیہ کی سرزمین پر جو قبیلہ رہتا تھا بنی خزاع جن کے تعلقات پیغمبر کے پڑدادا بنی ہاشم سے تھے ان کی ہمدردی مسلمانوں کے ساتھ تھی آج تک وہ مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے پائے لیکن جیسے ہی معاہدے پر دستخط ہوئے کھڑے کھڑے ہی انہوں نے کھل کر اعلان کیا کہ آج سے ہم مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں
یہ بالکل مکہ کے پڑوس میں رہتے ہیں ایسے بہت سے قبائل تھے جو مسلمانوں کی طاقت بنے
تیسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس معاہدے کے بعد مکہ سے جو مسلمان ہجرت کر کے آئے ہیں بہرحال ان کا پورا خاندان تو ہے مکہ میں آپس میں ملنے کیلئے وہ تڑپ تو رہے ہیں اب آمدورفت کا موقع مل گیا مکہ کے لوگ مدینہ جاتے ہیں مدینہ کے لوگ مکہ جاتے ہیں ایک دوسرے کو تحفے بھجواتے ہیں بہرحال ایک دوسرے کے قریب تو آئے ورنہ اس سے پہلے تک قریش والوں نے کسی کافر کو مسلمانوں کے قریب نہیں آنے دی
یہ جادوگر ہیں یہ شاعر ہیں ان کے پاس جن آتے ہیں اس قسم کی باتیں کرتے تھے
اب قریب تو آئے آنے جانے کا اثر تو ہو
انہوں نے مسلمانوں کی شرافت دیکھی تقدس دیکھا تقویٰ دیکھا چوتھا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام کو اسلام پھیلانے کا موقع مل گیا اب تک قریش یکے بعد دیگرے حملوں پہ حملے کر کے اتنا موقع ہی نہ دیا تھا کہ پیغمبر دنیا کے دوسرے علاقوں کی جانب متوجہ ہوتے اس صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں بڑا فائدہ یہ ہو گیا چنانچہ اس کے بعد مصر حبشہ ایران روم سارے خطوط جا رہے ہیں
پانچواں بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قریش کے بعد اسلام کا دوسرا بڑا دشمن یہودیت کا مذہب تھا ابھی تک قریش اور یہودی ہر جگہ ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے
صلح حدیبیہ تک آ کے پیغمبر نے اس اتحاد کو توڑ دیا اب ان کا مقابلہ کرنا آسان ہوا اسی لئے پیغمبر نے 20 دن انتظار کیا اور فوراً خیبر پر حملہ کر دیا یعنی پیغمبر کو تو معلوم تھا کہ معاہدہ دو سال چلے گا کیونکہ یہ خطرہ تو رہتا ہے کہ دوسرا فریق اسی کو توڑ دے
اس لئے پیغمبر یہ چاہتے تھے کہ معاہدہ ٹوٹنے سے پہلے کم از کم یہودیت کا تو خاتمہ ہو جائے اور یہ چوتھا اور پانچواں فائدہ بہت بڑا ہے، تبلیغ کا موقع ملا یہودیت کی کمر توڑنے کا موقع ملا اس لئے پیغمبر نے جتنا جلد ممکن ہو خیبر پر حملہ کر دیا اور یہ 20 دن بھی جو ٹھہرے تھے اس لئے کہ جو لوگ صلح حدیبیہ میں نہیں گئے تھے انہیں بھی ساتھ ملایا جائے ایک بڑا لشکر تیار کر کے حملہ کیا جائے یہ بھی ایک بہت بڑا فائدہ تھ
اس کے بعد ایک اور اہم بات سامنے آئی جیسے آپ چھٹا فائدہ بھی کہہ سکتے ہیں اور قرآن کے اس وعدے کی تکمیل میں اردو میں ایک شعر مشہور ہے عموماً شعر و شاعری کا سہارا نہیں لیتا مگر اسی موقع پر یہ مصرعہ بہت ٹھیک ہے کہ لو آپ اپنے دام میں صیار آ گیا یہ شق جو مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ سخت تھی کہ مکہ میں جو مسلمان آ گیا واپس نہ ہو گ
وہی شرط قریش کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک گیا قریش بہت زیادہ پریشان ہوئے اور یہ وہ شرط ہے جس پر مسلمان بہت زیادہ ناراض ہوئے کہ اللہ کے رسول یہ کیسی شرط کہ ہمارا مظلوم بھائی مکہ سے ہمارے پاس پناہ لینے آئے اور ہم کہہ دیں واپس چلے جاؤ یہی شرط بظاہر اسلام کی ذلت اور قریش کی فتح تھی یہی شرط قریش کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک گئی اس شرط پر آ کر درخواست کی اللہ کے رسول باقی معاہدہ رکھیں اسی شرط کو کاٹ دیں
اسی میں ایک بہت اہم درس ہمارے لئے ہے اسلام ہمارے لئے ذمہ داری قرار دیتا ہے تبلیغ امر بالمعروف نہی عن المنکر اللہ کا پیغام پہنچانا یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب ایک آدمی کے پاس سہولتیں اور وسائل ہوں تو وہ تبلیغ کر سکتا ہے لیکن ایک مجبور اور بے کس آدمی کیا تبلیغ کرے گا صلح حدیبیہ نے بتایا کہ یہ بات غلط ہے یہی صلح حدیبیہ کا ایک قیدی جسے اس کا باپ لے گیا تھا جا کر اپنے قیدخانے میں بند کیا اب اس کیلئے باہر کا ایک آدمی نگران رکھا کیونکہ اپنوں کو رکھ کر وہ گھبرا گیا تھا کہ سارے ہی مسلمان نہ ہو جائیں اور باہر کا آدمی زیادہ سخت ہو گا نرمی کم کرے گ
اب ابو جندل پر مظالم ہوتے غیر اس لئے مقرر کئے کہ نرمی نہ ہو ابو جندل بھی اس طرح نہیں کہ رسول نے ہماری مدد نہیں کی اب قید کا زمانہ ہے ہم صبر کرتے ہیں ایسا صبر اسلام کو نہیں چاہئے جس میں تحرک نہ ہو اب اسی قیدخانہ میں تبلیغ شروع کر دی البتہ آہستہ آہستہ نتیجہ کیا ہوا کہ وہ محافظ خود مسلمان ہو گیا یہ خبر جیسے ہی سہیل بن عمر کو ملی اس نے خود کو ایک مرتبہ قید میں ڈال دیا یہ سردار مکہ ہے دوسرا آدمی لیکر آیا ہے پہلے ایک مبلغ تھا اب مبلغ دو ہیں وہ ایک ہے پھر ایک اور آدمی لایا گیا اس طرح انہوں نے قید میں ستر آدمیوں کو مسلمان کر دیا ستر آدمی ایک مظلوم قیدی ابو جندل کی تبلیغ سے مسلمان ہو گئے جو مکہ کے سخت ترین کافر تھے اور پھر ایک دن موقع پا کر رات کی تاریکی میں قیدخانہ توڑ کر نکل پڑے یہ تو ان کو پتہ ہے کہ مدینہ تو یہ جا نہیں سکتے اللہ کا رسول جو مدینہ جاتا ہے اسے واپس پلٹادیتا ہے ان کوطلاع ملی کہ سمندر کے کنارے ایسے ہی مسلمانوں کی ایک بستی بنی ہے جو بھی مکہ سے نکلتا ہے ذوالمرہ کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے وہیں پناہ لیتا ہے وہ بھی کیسے بنا صلح حدیبیہ کے بعد یہ تو ابو جندل کا واقعہ ہے ایک مسلمان ہے عتوہ بن عمیر وہ اپنی کنیت سے زیادہ مشہور ہے
ابو عمیرہ وہ مکہ سے بھاگ کر مدینہ پہنچ گیا یہ صلح حدیبیہ کے فوراً بعد کا واقعہ ہے اسے یہ بھی علم تھا کہ مکہ سے عورتیں مدینہ گئیں انہیں نہیں بھیجا گیا یہ پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا مگر اس کے ساتھ ساتھ قریش کے دو نمائندے بھی آ گئے کیونکہ اس کے فرار کی اطلاع مکہ والوں کو مل گئی تھی ایک غلام اور ایک بنی عامر کا نوجوان اور خط لکھ کر بھیجا جاؤ اور رسول کو یہ خط دے دین
پیغمبر نے خط کو پڑھا لکھا تھا کہ معاہدے کے مطابق ہمارے بندے کو ان نمائندوں کے ساتھ بھیج دیں ابو عمیر کہنے لگا یا رسول اللہ وہ مجھ پر بڑا ظلم کریں گے
پیغمبر نے کہا معاہدہ کے مطابق تمہیں جانا خدا کوئی سبب بنا دے گا اس پر توکل کرو یہ کہہ کر وہ ان کے ساتھ چل پڑا ابھی دو کوس ہی گئے تھے کہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے جیسے تمام حج و عمرہ پر جانے والے افراد جانتے ہیں یہ ایک گڑھا تھا جہاں پر آج کل مسجد شجرہ بنا دی گئی ہے
وہاں پر باتوں ہی باتوں میں اس نے اس قریش جوان کی تعریف کی کیسی تلوار ہے عربوں میں یہ ایسے ہے جیسے کسی عورت کے زیورات کی تعریف کر دی جائے وہ نوجوان بھی اپنی تلوار کی خصوصیات بتانے لگا اتنے میں ابو عمیر نے کہا ذرا اتنی صفات کی حامی تلوار کو مجھے دکھا اب باتوں ہی باتوں میں جب اس نے یہ تلوار دکھائی تو اگلے ہی لمحے اس کی گردن اڑ گئی
مکہ کا کافر ہے ویسے ہی واجب القتل ہے اب دیکھیں ایسا ماحول او عمیر نے بنا دیا کہ کون مجھ سے کیا کہہ رہا ہے تلوار دی تو مارا گیابڑی تیزی کے ساتھ بھاگ کر مدینہ آیا وآتے ہی شکوہ کیا وہ آدمی ہمارے ساتھ مکہ نہیں گیا راستہ میں میرے سردار کو قتل کردیا ہے اب مجھے بھی مارنا چاہتا ہے اتنے میں ابو عمیر بھی آ گئے اور کہنے لگا یا رسول اللہ آپ نے معاہدے کی پاسداری کی ہے
آپ نے مجھے روانہ کیا اوراب یہ ان کی کمزوری ہے کہ وہ مجھ پر قابو نہیں پا سکے میں اپنی طاقت پر ان سے جان چھڑا سکا اب میں آزاد ہوں معاہدے میں یہ نہیں ہے کہ آپ مکہ پہنچا کر آئیں آزادی میں نے خود حا صل کی ہے اب میں آزاد ہوں آپ مجھے مکہ نہ بھیجیں لیکن پیغمبر نے کہا کہ میں تمہیں مدینہ میں نہیں رکھ سکتااب اس نے کہا کہ میں جارہا ہوں مکہ جا نہیں سکتا مدینہ والے اس کو رکھنے کو تیا ر نہیں آخر مجبوری کے عالم میں ساحل سمندر کے قریب جا کر رہنے لگا ادھر مکہ میں بہت سے مسلمان تھے چوبیس گھنٹے تو کوئی کسی کی نگرانی نہیں کر سکتا اب جب انہیں اطلاع ملتی کہ ابو عمیر نے سمندر کے کنارے قیام کیا ہے اب اصل مسئلہ کیا تھا کہ مکہ کے مسلمان کہاں جائیں مکہ میں رہ نہیں سکتے مدینہ قبول نہیں کرت
اب ایک تیسری جگہ بنی رفتہ رفتہ یہ اس تیسری جگہ پہنچنے لگے اور عموماً اس جگہ جانے والے مرد ہوں گے عورتوں کو تو مدینہ میں پناہ مل جاتی
بوڑھے مردوہاں تک جانے کاتصور نہیں کرسکتے خلاصہ سارے طاقتور مرد وہاں پر جمع ہوگئے ابو جندل نے جب قید کو توڑا تو وہ بھی اپنے ستر آدامیوں کو لیکر وہاں پہنچ گئے سب طاقتور نوجوان اور یہ وہ راستہ تھا جہاں سے تجارتی قافلے گزرتے تھے یہ بات اس سے پہلے کئی مرتبہ بیان ہوئی قریش چونکہ کعبہ کے متولی ہیں اس لئے عرب کے ڈاکو بھی ان پر حملہ نہیں کرتے تھے
یہ بہت بڑا ان پر فضل تھا جیسے قرآن نے ان کیلئے بیان کیا ہے رحلة الشتاة السیف ہم نے گرمی و سردی میں تمہارے قافلوں کو بچای
لیکن یہ جو نئے مسلمان ہوئے ہیں انہیں تو پتہ ہے کہ قریش کا کوئی احترام نہیں ہے چنانچہ وہ لوگ قریش کے قافلوں پر حملہ کرنے لگے قریش جناب اسماعیل سے لیکر آج تک کبھی بھی اس امتحان میں نہیں پڑے کہ کوئی ان کے تجارتی قافلوں پر حملہ کر دے اب کے قافلے لٹنے لگے یہ ان کیلئے بہت بڑا مسئلہ بن گیا کہ ان پر حملہ کیسے کریں کیونکہ وہ روایتی فوج نہیں ہے بہتر یہ ہے کہ یہ مدینہ چلے جائیں کیونکہ یہ ابھی آزاد ہیں اللہ کا رسول کبھی ڈاکہ زنی کو پسند نہیں کرے گا یہ مدینہ پہنچ جائیں ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گ
چنانچہ پیغمبر کے پاس قریش کا ایک وفد ہاتھ جوڑتا ہوا گیا اے عبداللہ کے بیٹے وہ جو صلح حدیبیہ کی ایک شرط ہے اسے ہم حذف کرتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کو آپ مدینہ میں رکھیں اور بیشک باندھ کر رکھیں ہمارا مسئلہ حل ہوجائے گااب قریش کو پورا معاہدہ قبول ہے سوائے اس شرط کے سب سے مشکل شرط جو مسلمانوں کو لگی وہی شرط اچھی بن گئی پیغمبر نے کہا اگر تمہاری خوشی ہے تو میں راضی ہوں پھر پیغمبر نے خط لکھ کر اس بستی کی طرف روانہ کیا اور لکھا کہ تم اپنے سارے ساتھیوں کو لے کر مدینہ میں آ جائیں اب یہ یاد رکھیں کہ وہ جو تین سو آدمی ہیں اپنی خوشی سے نہیں ہیں کون ایسا مسلمان ہو گا کہ پیغمبر کا زمانہ اور اپنے آپ کو پیغمبر کی زیارت سے محروم رکھے وہ مجبوری سے رہ رہے ہیں کہ رسول ہمیں لینے کو تیار نہیں اب جیسے ہی خط وہاں پہنچا وہاں تو گویا عید ہو گئی ابو عصیر جو سردار ہیں اس بستی کے جو سب سے پہلے آنے والے ہیں حالت نزاع میں ہیں ابو جندل ان کے نائب ہیں ابو عصیر کے پاس آئے اور کہا مبارک ہو اللہ کے رسول نے خود خط لکھ کر ہمیں بلوایا ہے ابو عصیرنے یہ سنا آنکھیں کھولیں سبحان اللہ ،الحمد للہ ساری زندگی کی محنتیں آج مبارک ہو پروردگار نے میری محنتوں کو قبول کیاپیغمبر کا خط میرے نام آرہا ہے اب ابو جندل مجھ میں تو اتنی سکت نہیں کہ پیغمبر تک پہنچ سکوں میرا سلام پہنچا دینا بس کم از کم اتنی سعادت مجھے د ے دو اتنا کرو کہ یہ خط میرے سینے پر رکھو تاکہ جب آنکھیں بند ہوں تو پیغمبر کا دعوت نامہ میرے ساتھ ہو ابو جندل نے جھک کر سینے پر رکھا جونہی خط سینے پر رکھا روح پرواز کر گئی ابو جندل نے وہیں دفن کیا اور ایک چھوٹی سی مسجد وہاں پر بنا دی جس کے بعد ابو جندل ان مسلمانوں کو لیکر مدینہ آئے اور پیغمبر اسلام کو سارا واقعہ سنایا یہ چھٹا بہت بڑا فائدہ مکمل ہو گیا