صلح حدییبہ
 
صلح حدیبیہ صلح حدیبیہ حصہ سوئم

اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمدللّٰہ الملک الحق المبین والصلٰوة والسلام علی سیدالمرسلین وآلہ والسلام سید المرسلین وآلہ وعترتہ واھلبیة الطیبین الطاھرین ولعنة اللّٰہ علی اعدائم اجمعین
اما بعد فقد قال سبحانہ وتعالی فی محکم کتاب المبین بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
عسی ان تحب شاء فھوکرھالکم وعسی ان تکرہ شیاء وھو خیرالکم وھواعلم بما لا تعلمون

سیرت پیغمبر اسلام کی نویں اور مجموعی اعتبار سے 106 تقریر ،صلح حدیبیہ کے حالات بیان کر رہے ہیں
اور کوشش یہ کی جائے گی کہ آج یہ ذکر مکمل ہو جائے کیونکہ آئندہ منگل کو ایک ہفتے کیلئے وقفہ آ جائے گ
کوشش یہی ہے کہ کم از کم واقعات تک کے حالات مکمل ہو جائے
قرآن کریم کی جس آیت کی تلاوت کی گئی وہ اگرچہ کہ عمومی آیت ہے یعنی خاص صلح حدیبیہ سے اس آیت کا تعلق نہیں ہے ایک عام اصول قرآن بتا رہا ہے کہ انسانی زندگی میں بار بار یاد رکھنے کے قابل ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ صلح حدیبیہ میں قرآن کا یہ اصول بہت نمایاں طور پر ہمارے سامنے آیا اور وہ یہ عسی ان تحب شیا ء فھو کرھا لکم بسا اوقات ایسا ہوتا ہے قرآن کہہ رہا ہے
عسی کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ تمہیں ایک چیز بہت پسند آ رہی ہے لیکن وہ چیز تمہارے حق میں نقصان دہ ہے وعسی ان تکرھا شیا فھو خیر لکم اور کبھی یہ ہو گا کہ تم کسی چیز کونا پسند کر رہے ہو تمہارا دل اسے قبول کرنے کو تیار نہیں مگر اسی میں تمہارے لئے خیر ہوتی ہے
واللہ اعلم بما لا تعلمون
اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے تمہارے بارے میں تم بھی اپنے بارے میں اتنا علم نہیں رکھتے
واللہ اعلم
اللہ زیادہ جاننے والا ہے کہ ایک انسان اپنی عام زندگی کے حالات و واقعات بھی مرضی پروردگار پر چھوڑ دے یہی مناسب ہے
اس اعتبار سے کہ ہو سکتا ہے کہ جس چیز کیلئے ہم کڑھتے جا رہے ہیں مستقبل میں اسی میں ہمارے لئے برائی ہو اور ہو سکتا ہے کہ ابھی جن حالات سے ہم گھبرا رہے ہیں بعد میں یہی ہمارے لئے بہتر قرار پا رہے ہیں
یہ انسانی زندگی کا اہم ترین اصول ہے جسے آدمی یہ سمجھ لے تو گویا وہ مومن کامل ہو گیا اس لئے کہ پیغمبر کی تعلیم ہی تھی اول العلم معرفة الجبار آخر العلم تفویض الامور الیہ علم کا آغاز ہوتا ہے کہ خدا کو پہچانیں اور علم کا اختتام اور انجام ہے کہ اپنے تمام کاموں کو اس کے سپرد کر دیں
خدا جس پر ہمیں رکھے ہم اسی پر راضی ہیں
یعنی مرضی مولیٰ از ہم اولیٰ جو ہمارے مولیٰ کی مرضی ہے وہ سب سے اولیٰ ہے جو ہمارے مولیٰ اور آقا کی مرضی ہے وہ سب سے بہتر ہے ہماری خواہشات ہماری تمنائیں دیکھیں دعا کی ممانعت نہیں اگر دعا کا نتیجہ نہ نکلے تو اس وقت سامنے آتا ہے کہ انسان مطمئن رہے کہ ہمارے پروردگار نے میری مصلحت کو دیکھ کر دعا کو قبول نہیں کی
سارا لشکر اسلام جن کی تعداد اس وقت ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی ایک مسئلہ پر متفق نظر آ رہا ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر جو حالات و واقعات پیش آئے اور جس انداز سے مسلمانوں کو طاقت اور غلبہ رکھنے کے باوجود جس طرح د ب کرصلح کرنا پڑی تو شاید دو یا تین افراد کے سوفیصدی مطمئن نظر نہ آئے
مسلمانوں کو اس میں توہین محسوس ہو رہی تھی احساس ذلت ہو رہا اور یہ خیال ان کے دلوں میں آ رہا ہے کہ ہماری یہ صلح ہمارے مسلمان بھائیوں کیلئے ظلم نہ بن جائے وہ مسلمان کہ جو مکہ کے اندر ہیں مگر وہی چیز جو عالم اسلام کو سب سے ناگوار واقعہ محسوس ہو رہا ہے اس کے بارے میں خدا کہہ رہا کہ انا فتحنا لک فتحا مبین
یہ کھلی ہوئی کامیابی ہے جو ہم نے آج تمہیں عطا کی اور اسی کے بارے میں کہ تمام مسلمانوں کو سب سے تکلیف دہ عمل محسوس ہو رہا ہے صادق آل محمد حضرت امام حضرت صادق(ع) کا ارشاد ہے یہ فرمان میں نے پچھلی مرتبہ بھی دہرای
ما کان قضیة اعظم برکة منھا
اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑا عظمت و برکت والا کوئی واقعہ پیغمبر کی زندگی میں کوئی نہ تھا ما کان فضیة اعظم برکة منھا برکت کے اعتبار سے نہیں اور یہی سبب کہ پھر قرآن سورہ فتح کہ یہ پورا سورہ ایسا ہے کہ ایک ایک آیت کو ذرا تفصیل کے ساتھ پڑھا جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ اس وقت مسلمان کتنے بددل نظر آ رہے تھے جیسے معصوم اسلام کا مبارک ترین واقعہ قرار دے جیسے قرآن اسی لڑائیوں میں سے جو پیغمبر کی زندگی میں ہوئیں سب سے بڑی کامیابی قرار دے لیکن اگر سورہ فتح پڑھ لیا جائے اسی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ مسلمان بد دل کتنے ہیں ناراض کتنے ہیں اختلاف کتنا زیادہ کر رہے ہیں
سورہ فتح آیتوں پر آیتیں ہیں موقع ملا تو اختتام میں اس کا تذکرہ ہو گا لیکن سبھی مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے سبھی مسلمانوں کو امید دلائی جا رہی ہے اس سورہ فتح میں جہاں صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے یہ تذکرہ ہو رہا ہے گھبراؤ نہیں عنقریب ہم تمہیں بہت بڑی کامیابی اور دینے والے ہیں جس میں کثرت کے ساتھ مال غنیمت تمہارے ہاتھ لگے گا
یعنی غزوہ خیبر اسی سورہ فتح کے اندر وہ آیت لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق خدا نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ یقیناخدا تمہیں مسجد الحرام میں داخل کرے گ
آمنین امن ساتھ محلقین روٴسکم سروں کو منڈوا کر او مقصرین یا تھوڑے سے بال کاٹ کر لاتخافون اس حالت میں کہ تم پر کوئی خوف نہیں ہو گ
فعلم مالم تعلموا بس اتنا ہے کہ اللہ وہ جانتا ہے کہ جو تم نہیں جانتے غزوہ خیبر کا تذکرہ کبھی مال غنیمت کی امید کبھی آئندہ سال مسجد الحرام میں خیروعافیت کے ساتھ آنے کا تذکرہ
اب اسی سورہ کے اندر وہ آیت بھی جس میں خدا نے صلح حدیبیہ کی ضمنی وجہ بتائی کہ لو لا رجال مومنون اگراس مکہ کے اندر ایسے مرد اور عورتیں نہ ہوتے جو مسلمان ہو چکے تھے تو شاید تمہیں لڑائی کی اجازت مل جاتی لیکن اگر تم جنگ کرو گے تو سب سے بڑا نقصان اس سورہ فتح کے اندر قرآن کہہ رہا ہے سب سے بڑا نقصان ان مردوں اور عورتوں کا ہو گا جو بیچارے اسلام لا کر مکہ میں پھسے ہوئے ہیں نکل نہیں سکتے تمہاری جنگ کے نتیجہ میں تمہیں نقصان ہو یا نہ ہو وہ بے چارے سب کے سب مارے جائیں گے اسی لئے قرآن نے کہا لو تزیلو لعزبنا الذین کفروا منھم عذابا الیما اگر یہ مرد اور عورتیں مسلمان کسی طرح سے مکہ سے نکل آئیں تو پھر تم دیکھنا ہم خود ان کافروں پر کتنا سخت عذاب نازل کرتے ہیں غرض یہ کہ مختلف انداز اور طریقے ہیں قرآن کو اتنا زیادہ مسلمانوں کے سامنے صفائی پیش کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی
اس لئے مسلمان دل سے صلح حدیبیہ پر راضی نہیں اور اس سے پہلے اور بعد میں بڑے بڑے واقعات ہو گئے اور جس میں بہت سے مسلمانوں نے اختلاف کیا رسول سے مگر اتنا لمبا صفائی کا بیان قرآن نے کہیں پیش نہیں کیا جیسے صلح حدیبیہ میں نظر آ رہا ہے اور خصوصاً یہ آخری آیت جو میں نے ابھی پڑھی ہے تو یاد رکھو اس لئے ہم جنگ سے روکنا چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح ان مسلمانوں کو نکالا جائے اور اگر وہ نکل آئیں تو تمہارے لڑنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ خدا خود اپنا عذاب نازل کر سکتا ہے یہاں پر ایک اور ضمنی مسئلہ حل ہو رہا ہے
کبھی کبھار جہاد اور قتال لازم ہو جانے کے باوجود صرف یہ خیال کرنا پڑ جاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری وجہ سے بے گناہ ایسے مسلمان کو نقصان پہنچ جائے جو بغیر اپنی خوشی کے مجبوری کی وجہ سے کافروں کے درمیان پھنسا ہو

یہ آیت سورة فتح کی آیت ہے اور بہت ہی اہم اس اعتبار سے کہ آج یہ پتہ چلا کہ صلح حدیبیہ میں پروردگار نے مصالحت کا حکم کیوں دیا جہاں یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے آ گئی کہ مسلمانوں نے مذاق اڑانے کی کوشش کی یہ جو جملہ ہے کہ معصوم جو تلوار چلاتا ہے یہ دیکھ کر تلوار چلاتا ہے کہ جسے قتل کیا جا رہا ہے کہ اس کے صلب میں ایسا تو نہیں ہے کہ کوئی مومن ہو قیامت تک اگر کوئی مومن پیدا ہونے والا ہے کئی روایتوں کے اندر اس کی تشریح آتی ہے صفین کی لڑائی کا یہ جملہ نہیں ہے کئی مقامات پر بھی معصوم نے یہ جملہ دہرایا کہ ہماری تلوار جب کسی پر چلتی ہے فقط اس کو نہیں دیکھتی کہ یہ خطاکار ہے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان کی نسل میں کسی مومن کا وجود تو نہیں پایا جا رہا اس کی وجہ سے کبھی کبھار اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے
ہاں اس پر بھی بعض مسلمانوں نے مذاق اڑانے کی کوشش کی اور فقہی مسئلے جن کا تعلق ہم سے ہے امام پر لگانے کی کوشش کی کہ جی اگر وہ واجب القتل ہے تو اس کے باپ کو نہیں دیکھنا ہے اگر یہ صلح حدیبیہ کیا آیت جس میں قرآن یہی آواز دے رہا ہے اگرچہ کفار مکہ مستحق عذاب ہیں لعذبنا الذین منھم عذابا الیمااے مسلمانو تم اپنی بات چھوڑو ہم ان پر خود عذاب کر دیں ہمیں تو ان مومن مردوں اور عورتوں کی وجہ سے چھوڑنا پڑ رہا ہے جو ان کے درمیان پائے جا رہے ہیں تو خیر یہ ایک ضمنی مسئلہ حل ہو رہا تھا اس لئے میں نے اس کا ذکر کر دی
آئیے اس تمہید کے بعد جس کی ضرورت ابھی تو نہیں لیکن جب یہ واقعات مکمل ہوں گے تو پھر ایک بار جائزہ لینا پڑے گ
اب واقعات کچھ اس طرح سے بیان ہو رہے ہیں
ذیقعدہ سن چھ ہجری کی تاریخوں میں حدیبیہ کی سرزمین پر موجود ہیں جو مکہ سے تقریباً 16 میل کے فاصلہ پر ہے
پیغمبر کا وہاں پر قیام ہے مکہ والوں کو یہ اطلاع بہت پہلے مل چکی تھی کہ پیغمبر کس انداز سے مدینہ سے نکلے ہیں اور حدیبیہ پہنچنے کے بعد کچھ اور ایسے حالات و واقعات سامنے آئے ہیں کہ مکہ والوں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اللہ کا رسول اس سال مکہ پر حملہ نہیں کرنا چاہا رہا کہ کم ظرف اور چھچھورے انسان کی پہچان ہوتی ہے کہ اگر اسے پتہ چل جائے کہ اس بار یہ حملہ نہیں کریں گے تو وہ اور زیادہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ یہ آدمی دب رہا ہے تو اور زیادہ سے دباتے چلو قریش کا انداز و طریقہ بالکل وہی چھچھوراپن کم ظرفی کی نشانی ہے وہ کس طرح ان حالات کی تصویر بیان کرتا ہے کہ اللہ کے رسول نے کہہ دیا کہ ہمیں جنگ تو نہیں کرنا اس دوران سفیروں کی آمدورفت ہونے لگی
قریش مکہ کے تین سفیر پچھلی تقریر تک ان کا بیان ہو گیا پہلا تو اس قبیلے کا آدمی جو اسلام سے پہلے بنی ہاشم کا دوست قبیلہ تھا قبیلہ بنی خزاع کا سردار اس کے بعد پھر قریش حبشی جس کی تشریح ہو چکی ہے کہ اس سے مراد افریقہ والے نہیں مکہ میں بھی ایک پہاڑ کا نام حبشی ہے اس کے پیچھے ان لوگوں کو جگہ دی گئی جنہیں خاص مکہ والے انہیں مدد کیلئے لے کر آئے ان کے سردار اویس کو بھیجا گی
پیغمبر نے اس سے کوئی بات ہی نہیں کہی بلکہ اس کے سامنے ہدیہ پیش کر دیا اونٹوں کا اور پھر آخر عروہ بن مسعود ثقفی جناب ام لیلیٰ کے دادا وہ کسی اور مسئلہ کو سلجھانے کیلئے مکہ میں آئے ہوئے تھے جس کی تفصیل آپ سن چکے ہیں ان کو تیسرا سفیر بنا کر بھیجا اور جب پیغمبر سے ان کی بات چیت مکمل ہوئی اور وہ واپس جانے لگے تو پیغمبر نے اپنی صحابیوں کوحکم دیااور کہا آؤ ہم سب وضو کر کے نماز پڑھیں اور موٴرخین کہتے ہیں کہ یہ وضو کر کے نماز ساتھ اس لئے ادا کی گئی کہ عروہ کو جواب تک آنے والے سفیروں سے سب سے بڑا سب سے اہم اور عزت والا سفیر تھا جس کا مقام و مرتبہ قریش مکہ سرداران عرب ابوسفیان وغیرہ سے کم نہیں تھا اگر یہ مکہ کے سردارتھے تو عروہ طائف کا بے تاج بادشاہ تھ
جس کا ذکر ہو چکا پیغمبر زبانی گفتگو کے بعد عملی تصویر بھی پیش کرنا چاہتے تھے اور وہ وہی جس کا جلدی جلدی بیان گزشتہ تقریر میں آیا مگر یہ جملے رہ گئے تھے پیغمبر نے عمداً یہ کہا مسلمانو آؤ ہم اس کے سامنے وضو کر کے نماز پڑھیں فقہ کا ایک مسئلہ اس سال ہمارا طریقہ یہ رہا مسائل الگ بیان نہیں ہوتے دوران تقریر جہاں مناسب مواقع آیا بیان کر دی
اب دو مسئلے آ گئے ریا اسلام میں حرام ہے کم از کم عبادت کی حد تک تو مبطل عبادت ہے یعنی کوئی بھی عمل اگر دنیا دکھاوے کیلئے کیا جائے وہ عمل باطل ہو جاتا ہے چاہے وضو ہو چاہے غسل ہو چاہے تیمم ہو چاہے نماز ہو چاہے روزہ ہو چاہے خمس ہو چاہے حج ہو عبادتوں میں جتنی عبادتیں ہیں ریا حرام ہے اور اس ریا کو ختم کرنے کیلئے نماز اور اس جیسی عبادتوں میں قربة الی اللہ کہا جاتا ے
قربة الی اللہ رٹا ہوا جملہ تو ہر ایک کو ہے مطلب کیا حکم خدا کی خاطر یعنی … کیلئے لوگوں کو دکھانے کیلئے یا اپنے کسی نفع و فائدے کیلئے فلاں عبادت انجام نہیں دے رہا بلکہ قربة الی اللہ صرف اور صرف حکم خدا کیلئے دیکھئے مذہب میں اہم ترین چیز یہ ٹکڑا ہے وہ لمبی چوڑی چیز میں وضو کرتا ہوں
واسطے دور ہونے حدث کے مباح ہونے نماز کے واجب قربة الی اللہ اس کا اہم ٹکڑا صرف آخری ہے قربة الی اللہہے یہی وجہ کہ جب امام خمینی اور آقا ئے خوئی کی توضیح المسائل میں وضو کے تمام مسائل اٹھا کر پڑھ ڈالئے یہ والی نیت ہی نہیں لکھی جو ہم کو بچپن سے رٹائی جاتی ہے صرف ایک مسئلہ آیا ہے کہ شرائط وضو میں ساتھ ہی شرط یہ ہے کہ وضو قربة کی نیت سے انجام دیا جائے یعنی حکم خدا کی خاطر پھر اب اس کے بعد علماء کہتے ہیں یہ بات طے ہو گئی مجتہدین کا فتویٰ ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لئے ہونا چاہئے تو دو تین مقامات ایسے آئے ہیں کہ جہاں اللہ کے لئے ہی عبادت کی جائے مگر لوگوں کو دکھا کر جنہیں سے ایک ہے مقام ترغیب و تشویق ایسی عبادت کر رہے ہیں کہ ہمیں ضرورت نہیں ہے لوگوں کے سامنے عبادت کی مگر صرف اس لئے کہ شاید اس سے ایسے لوگوں کو شوق و رغبت پیدا ہو جائے جو عام حالت میں تیار نہیں ہوتے یعنی امر بالمعروف نیکی کا حکم دودوسرا مقام رفع تہمت کیلئے اگر کسی پر الزام لگ جائے کسی عبادت کے بارے تہمت میں کہ یہ آدمی تارک عبادت ہے نماز نہیں پڑھتا خمس نہیں دیتا کنجوس بہت ہے کسی بھی گناہ کا الزام لگ جائے اب اسے اجازت کہ خالی یہ الزام ہٹانے کے لئے لوگوں کے سامنے کوئی کام کرے پھر ایک دو چیزیں بہت مشہور ہیں اس کے علاوہ بھی کسی مصلحت کے ساتھ عبادت کی اجازت مل سکتی ہے جب جو بات میں کہنے جا رہا ہوں کھل کر کہنا بھی نہیں چاہتا اگر اعتراض ہے تو سیرت رسول کا اصل مقصد حال واقعات سنانا نہیں یہ واقعات آج کل جو ہماری زندگی ہے اس سے کس طرح مطابقت کریں کسی نے یہ کہا کہ کیا ضرورت ہے
اچھی بھلی عبادت سالوں سے ہو رہی ہے اس کے بیچ میں کبھی یہ رفع تہمت کے دائرہ میں ہوا کرتا ہے کہ اگر کسی فرد پر یہ تہمت لگ جائے کہ یہ نمازی نہیں تو اس پر یہ حکم ہے کہ سب کے سامنے نماز پڑھو اور کبھی کسی گروہ کے بارے میں بھی یہ مسئلہ آ سکتا ہے کہ اگر کسی گروہ پر تہمت لگ جائے کہ یہ نمازی نہیں تو وہ سب کے سامنے نماز پڑھے اس کے علاوہ یہ تیسرے میں بھی آ سکتا ہے کہ پیغمبر حکم دے رہے ہیں کہ اے مسلمانو جلدی جلدی وضو کر کے نماز کیلئے کھڑے ہو جاؤ اس سے پہلے کہ عروہ یہاں سے چلا جائے یہ نماز عروہ کو دکھانا یہ وضو عروہ بن مسعودثقفی کو دکھانا ہے جیسے وضو و نماز اللہ کے لئے ہے مگر خاص اس موقع پر اس کو بھی دکھانا ہے چنانچہ پیغمبر عروہ سے زبانی بات چیت ختم کرنے کے بعد فی الفور وضو کا اہتمام کیا اور وضو کر کے نماز شروع کر دی عروہ اسے اس وقت نہ وضو سے کوئی دلچسپی ہے نہ نماز سے
بعد میں تو اسلام لا چکے اور بڑے بلند مقام پر پہنچے اس وقت کوئی دلچسپی نہیں مگر جاتے جاتے یہ منظر دیکھ رہے ہیں اور اس منظر نے اس پر وہی اثر کیا جس کی خاطر رسول نے مجمع عام میں اس عبادت کو انجام دیا اب مکہ پہنچ کر جو وہ رپورٹ دے رہا ہے پیغمبر سے اس کے جو مذاکرات ہوئے وہ بیان کئے اس کے بعد آخر میں اپنی طرف سے جو جملے شامل کر دیئے مگر اسے قریش مکہ میرا مشورہ یہی ہے کبھی محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں سے جنگ کی حماقت نہ کرنا اس لئے کہ ابھی ابھی میں دیکھ کر آیا ہوں اسے ایسے جانثار ساتھی ملے ہیں میں نے روم کے بادشاہ کو بھی دیکھا میں نے ایران کے بادشاہ کو دیکھا میں مصر کے حکمران کے دربار میں گیا میں نجاشی کے دربار میں حاضر ہوا مگر ایسے اطاعت گزار اور ایسے فرمانبردار مجھے کہیں نظر نہ آئے میری آنکھوں کے سامنے ان کے سردار نے وضو کیا اور اس کے وضو کے پانی کا ایک قطرہ زمین پر نہیں گرا اس لئے کہ بے چین و بے تاب ہو کر اس کے صحابی دوڑ پڑتے تھے اور اس کے وضو کے پانی کا ایک ایک قطرہ ان کیلئے باعث رحمت و برکت ہوتا تھا اور باعث ثواب اور پھر دو تین جملے اور جو پچھلی تقریر میں آ گئے تو پیغمبر نے جو عمداً جلدی جلدی وضو کروایا اور یہ منظر بھی اس کے ذہن میں نقش کرنا تھا اور یہ تاثر بھی اس کے ذہن میں بٹھانا تھا تاکہ وہ مکہ والوں کو رپورٹ دے سکے تو کبھی کبھار کسی پر ہیبت طاری کرنے کیلئے کبھی کبھار کسی کو حقیقت حال آگاہ کرنے کیلئے کوئی عمل جو گھر میں بھی چھپ کر سکتا ہے سے علی الاعلان انجام دیا جا سکتا ہے اس سے زیادہ کی وضاحت اصل موضوع کو نامکمل چھوڑ دے گ
عروہ تو گیا اس کی رپورٹ بھی پچھلی تقریر میں بیان ہو گئی چونکہ وقت کم تھا اور جملے رہ گئے تھے کہ پیغمبر نے عمداً اس کے سامنے وضو و نماز کا اہتمام کیا اس کی رپورٹ ایسی کہ اب قریش مکہ کو کوئی اور قاصد بھیجنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی اور یہ بھی آپ کو یاد ہو گا وہ جب آ رہا تھا تو قریش کا نمائندہ تھ
اور یہ بیان کر کے آیا تھا کہ میرا بھی وہ حشر نہ کرنا جو مجھ سے پہلے دو قاصدوں کا کیا تھا اس وجہ سے اور قریش پریشان تھے کہ کیا کیا جائے ادھر اللہ کے رسول نے دیکھا کہ وقت گزرا جا رہا ہے ایک طرف سے قریش کی جانب سے خاموشی چھا گئی تو پیغمبر اسلام کہ جیسے آج کل کی ڈپلومیسی کی زبان میں کہا جاتا ہے ڈیڈ لاک کو توڑنے کیلئے وہ جو ایک تعطل آ گیا اسے ختم کرنے کیلئے اب اپنا قاصد بھجوایا یہ پیغمبر اسلام کا دوسرا قاصد تھا سب سے پہلا قاصد رسول کا کون تھا وہی جو قریش کا نمائندہ بن کر آیا تھ
رسول نے اسی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیج دی
پھر اس کے بعد قریش کے دو اور نمائندے آ گئے اب پیغمبر اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں
خراج ابن امیہ بنی خزاعہ وہ قبیلہ جو حدیبیہ کا اصلی قبیلہ تھا ان کی زمین میں حدیبیہ کا کنواں آتا تھ
اس کو پیغمبر نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا جا کہ یہ معلوم تو کرو کہ قریش میں اتنی خاموشی کیوں چھا گئی ہے اللہ کا رسول ہر چیز جانتا ہے صرف واقعات کو آگے بڑھانے کیلئے اور پھر پیغمبر فقط اس لئے یہ آدمی میرا نمائندہ مان لیا جائے اپنی خاص سواری کا جانور اپنے خاص اونٹوں میں سے اونٹ پر بیٹھ کر تم جاؤ جس کا نام کتابوں میں درج ہے
تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ واقعی یہ نمائندہ رسول ہے
اب وہ چلا جس وقت وہ حرم کے قریب پہنچا قریش شروع سے جوش میں آئے ہوئے تھے پچھلی دفعہ یہ بیان ہو گیا ان کے مردوں ان کے بچوں عورتوں نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دینا وجہ یہ آ گئی تھی کہ ان کا امیج متاثر ہو جاتا تھ
خانہ کعبہ ان کے ہاتھ سے نکل جاتا تھا ایک مرتبہ جب خراج بن امیہ اونٹ پر بیٹھ کر آی
بیچارہ اس سے پہلے کہ اپنی زبان کھولے اور اپنی بات چیت شروع کرے قریش نے پہچان لیا کہ یہ کس اونٹ پر آ رہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کس کا نمائندہ ہے اچھا بہت سی چیزیں ہمارے آپ کیلئے سمجھنا مشکل ہے لیکن یاد رکھیئے اسلام سے پہلے عربوں کی جو چند خصوصیتیں بتائی گئی تھیں
حافظہ بڑا طاقتور ہوتا تھا جانوروں کی پہچان بہت زیادہ ہوتی تھی یعنی اپنے بچوں کو اس طرح نہیں پہچانتے تھے اپنے خاندان کو اس طرح نہیں پہچانتے تھے جس طرح ایک گھوڑے کا شجرہ نسب ان کو یاد ہو جاتا تھا اور اس کی نسل کو وہ دیکھ کر پہچان لیتے تھے اونٹ اور اونٹ کی نسل اگر کسی کو یہ تعجب ہو کہ اونٹ دیکھ کر کیسے پتہ چلا کہ یہ رسول کا اونٹ ہے اس لئے تعجب ہو گا کہ آج کے ماحول میں بیٹھ کر 1400 پہلے کے واقعات کو سمجھ رہے ہیں
قریش کے ہاں عربوں کے ہاں باقاعدہ اپنی نسل سے زیادہ جانوروں کی نسل کا خیال رکھا جاتا تھ
تو خیر پہچان لیا کہ یہ کون آیا ہے
اس سے پہلے کہ وہ قاصد رسول بے چارہ کوئی زبان کھولے اور کوئی بات چیت کرے قریش کے نوجوانوں کا ایک گروہ ٹوٹ پڑا پہلے اسے اونٹ سے اتارا اور اونٹ کی جانب متوجہ ہوئے کیونکہ اونٹ کے بارے میں تو پتہ ہے کہ یہ رسول کا اپنا اونٹ ہے اسی مقام پر اس کو نحر کر دیا ذبح کر دیا اونٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اس وقت یہ جوش و جذبہ کے عالم میں پھر اس کے بعد اس خراج کی جانب متوجہ ہوئے
پھر حبشی قبیلہ کے لوگ آگے بڑھ آئے جن کے بارے میں پچھلی دفعہ تفصیل آ چکی ہے ان کا ایک جملہ یہ تھا ہم تمہارا ساتھ صرف ان کے بارے میں دیں گے جو مکہ پر حملہ کریں لیکن جو سفارت کیلئے آ رہا ہے اس وقت ہمارا تمہارا معاہدہ ٹوٹ جائے گ
اس کاسردار ویسے بھی جلا بھنا بیٹھا یہ توہین آمیز انداز میں اسے رد کیا تھا پچھلی تقریر میں تو اب وہ آگے بڑھا اپنے سارے تیر اندازوں کو لے کر کہ اس نوجوان کو کوئی ہاتھ نہ لگائے یہ قاصد ہے ایلچی ہے اس کی جان کی حفاظت واجب ہے ہم حملہ آور کے خلاف تمہارے ساتھی ہیں اور جو مظلوم ہو گا اس کا ساتھ دیں گے اور اس کو بڑی مشکل سے بچا کے لے گئے
اللہ کے رسول کو یہ اطلاع پہنچ گئی کیونکہ یہ آدمی واپس پہنچ گیا رہتا تو اسی علاقہ میں ہے جہاں قافلہ اسلامی ٹھہرا ہوا ہے اب اطلاع مل گئی کہ یہ عالم ہے اب کیا کریں
پیغمبر اسلام تاریخ کا ایسا حساس حصہ آ رہا ہے
واقعات واقعات ہیں اور ساری اسلامی کتابوں میں درج ہیں لیکن ہمارے ملک کے حالات بھی ایسے ہیں کہ یہاں لوگ ہوش سے زیادہ جوش اور عقل سے زیادہ جذبات سے کام لیتے ہیں خصوصاً موجودہ حالات میں تو بہت سرسری مجھے آگے بڑھ جانا پڑے گا دوسرا قاصد جان بچا کے واپس آی
اب اللہ کے رسول کو تلاش ہے کسی ایسے آدمی کو بھیجا جائے کہ جس سے قریش سے حالات بھی ٹھیک ہوں اور یہ جملہ ہے جو میں بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن پیغمبر کا مقصد اور ایسا آدمی جس کے ہاتھ سے آج تک قریش کا کوئی آدمی نہ مارا گیا ہو قاتل اور خون کا بدلہ اور دشمنی نہ پھیل جائے
پیغمبر اسلام کو اب ایسا قاصد تیار کرنا ہے مگر اس دوران وہ مکہ کے نوجوان جو پیغمبر کے قاصد پر حملہ کر چکے تھے تو ایک طرح سے ان کو کامیابی ہوئی اونٹ بھی انہوں نے نحر کر دیا اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے پیغمبر کا قاصد ایک طرح سے جان بچا کے بھاگا جوش بڑھ گئے چھوٹی سی کامیابی آ جائے انہوں نے آپس میں ایک منصوبہ بنایا ہم لوگ رات اور صبح کا جو قریب ٹائم ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ گہری نیند کا وقت ہوتا ہے اس وقت اچانک حملہ کریں گے اور یہ قدم وہ اس طرح اٹھانا چاہتے تھے کہ ان کے بڑوں اور بزرگوں کو بھی پتہ نہ چلے چنانچہ 50 یا 80 یا40 یا 30 نوجوان تھے یہ چار روایتیں ہیں زیادہ معتبر 50 کا عدد
علما نے سمجھا ہے وہ راتوں رات اپنے گھروں سے نکل تنعیم پہاڑی پر چڑھ گئے اور یہ سارے واقعات ایسے ہیں آج بھی مکہ میں یہ نشانیاں ہیں مگر وہاں جانے والے نہ اتنی باتیں یاد کر کے جاتے ہیں اور نہ اتنی معلومات رکھ کر جاتے ہیں
تنعیم وہ مقام جو آج حضرت عائشہ کے نام پر ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہے ہر وہ آدمی جومکہ میں ایک دفعہ پہنچ جائے پھر اگر وہ مزید عمرے کرنا چاہے تو اسے کہیں دور دراز نہیں جانا پڑتا احرام پہننے کیلئے وہ خانہ کعبہ سے چھ میل دورتنعیم ایک جگہ ہے جسے مسجد شجرہ بھی کہتے ہیں مسجد عائشہ بھی کہتے ہیں میقات بھی کہتے ہیں وہاں کے ٹیکسی ڈرائیور یہ وہ جگہ ہے جہاں پر یہ تیر انداز چھپ کر بیٹھے تھے یعنی وہ جگہ عمرے کیلئے کیوں مشہور ہے اس لئے کہ مکہ سے باہر ہے
اب ان نوجوانوں نے راتوں رات مکہ چھوڑ دیا اپنے بزرگوں کو بھی نہیں بتای
اب نوجوانوں نے راتوں رات مکہ چھوڑ دیا اور اپنے والدین کو بھی نہیں بتایااور وہاں جا کے چھپ کر بیٹھ گئے اب صبح کا جو وقت آ رہا تھا ایک دم سے حدیبیہ کی طرف چلے 50 تیر انداز مگر جیسے ہی وہاں پہنچے وہ اندازہ کرنے میں غلطی کر گئے شاید ان کا خیال یہ تھا یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ بالکل غافل سو رہے ہوتے ہیں مگر پیغمبر کا زمانہ وہ عین نماز شب کا افضل ترین وقت اور نماز صبح کی تیاری کا وقت ہے وہ تو سب سے زیادہ مسلمان کی بیداری کا وقت تھا کافر کی غفلت کا وقت ہے وہ دوسری بات ہے یا آجکل کے مومن کی غفلت کا وقت ہو وہ دوسری بات ہے
لیکن پیغمبر کے زمانہ میں اس وقت ہر مسلمان جاگ رہا ہوتا تھا وہ اندازہ کر کے آئے ہوں گے اپنے ماحول کا کہ ہمارے ہاں صبح چار بجے تو سب سے گہری نیند آتی ہے اس وقت کوئی نہیں اٹھتا اور مسلمان اسی وقت اٹھتا ہے کیونکہ وہ رحمتوں کا نزول ہے برکتوں کا نزول ہے رزق کا نزول ہے اللہ کی نعمتوں اور اللہ کی نشانیوں کے ظہورکا نزول ہے سب مسلمان اس وقت عبادت کیلئے تیار ہو رہے تھے
چنانچہ یہ 50 تیر انداز جیسے ہی اتر کر آئے فوراً ہی پکڑے گئے اور خیموں تک ان کو پہنچا دیا گیا یہ تو ہوا واقعات کا ایک پہلو
علامہ مجلسی نے جابر بن عبداللہ انصاری کے حوالہ سے یہ لکھا بہرحال وہ تیرانداز تھے تلوار چلانے والے تو تھے نہیں کہ تلوار چلانے والوں کا مسئلہ یہ ہو گا جب تک وہ قریب نہ آ جائیں حملہ نہیں کر سکتے یہ تو دور سے بھی مسلمانوں کو اگر جاگتا دیکھ لیں تیر تو چلائے جا سکتے ہیں جابر نے کہا اس وقت پیغمبر نماز شب میں مصروف تھے اور جو پیغمبر کی عمومی دعا تھی کہ خدا کفر کا خاتمہ کرے کافروں کا خاتمہ کرے اسلام کو عزت دے
اعزا الاسلام واھلہ وہ دعا پیغمبر مانگ رہے تھے اس کی وجہ سے یہ تیر انداز اندھے ہو گئے ہم یہ دیکھ رہیں حملہ آو رہے ہیں مگر اس طرح کہ کوئی اندھا آدمی آ رہا ہو سامنے دشمن ہیں یعنی ہم لوگ ہم پر حملہ کرنے آ رہے ہیں مگر ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ان کو نظر ہی نہیں آ رہے چنانچہ بہت آسانی کے ساتھ ان کو پکڑ لیا گیا اور ہو سکتا ہے واقعتاً ایسا ہی واقعہ ہوا ہو کیونکہ حدیبیہ میں معجزات بہت کثرت کے ساتھ ملتے ہیں اور معجزات کی وجہ بھی پچھلی تقریر میں آ گئی کہ مسلمانوں کا ایمان مضبوط سے مضبوط ہوتا جائے تاکہ بعد میں کوئی شک نہ کرے تو خیر وہ سب کے سب پکڑے گئے سورہ مبارکہ فتح میں یہ واقعہ موجود ہے کہ یاد کرو وہ وقت جب حملہ کیا تھا مکہ شاید پورے قرآن میں لفظ مکہ ایک ہی جگہ آیا ببطن مکہ جب مکہ کی گھاٹی پر کافروں نے حملہ کیا اور ہم نے تمہیں بچایا یہی 50 تیر انداز ہیں بہرحال اللہ کا رسول جنگ نہیں چاہتا چنانچہ ایسے دشمن جن کو قتل کرنا یا سزا دینا بالکل ممکن تھا یا کم از کم ان کو پکڑ کر جیل میں ڈالا جا سکتا ہے تاکہ جب مذاکرات ہوں تو ان کو استعمال کیا جائے مگر اللہ کے رسول نے کہا ان کو رہا کر دو آزاد کرو ہم جنگ کرنے نہیں آئے ہیں اب اتنی بڑی نشانی اور آ گئی کہ پچاس نوجوان جو پکڑ لئے گئے اور بغیر کسی قسم کے تاوان اور معاوضہ کے پیغمبر نے انہیں چھوڑ دیا پھر بھی قریش مکہ وہی بات کہ کم ظرف اور چھچھورا انسان یہ دیکھتا ہے کہ فلاں آدمی میرے سامنے جھک رہا ہے تو جھکائے چلے جاؤ ادھر اللہ کے رسول نے دیکھا میرے دو قاصد گئے پھر یہ 50 نوجوان بھیجے ہیں مگر قریش ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں نہ حملہ کر رہے ہیں
اتنی ہمت نہیں نہ ہی مذاکرات کو آگے بڑھا رہے ہیں اب پیغمبر اپنے سارے قافلے کو دیکھنے کے بعد حضرت عمر کا انتخاب کیا کہ تم میرے قاصد بن کر جاؤ انہوں نے معذرت کر لی اے اللہ کے رسول میرا خاندان مکہ میں نہیں ہے وہاں اگر کوئی وقت آ گیا تو کون مجھے سہارا دے گ
بہتر ہے کہ آپ عثمان کو بھیج دیں ان کا خاندان یعنی بنو امیہ ہے وہ ہیں مکہ کے اندر چنانچہ ان کیلئے کوئی خطرہ نہ ہونے پائے پیغمبر اسلام نے یہ تجویز منظور کر لی اور حضرت عثمان غنی وجوہات کی بنا پر کہ ان کا خاندان نے بائیکاٹ نہیں کیا نکالا نہیں وہ مکہ میں موجود ہے ان کو کہا کہ تم جاؤ یہ چلے مکہ کی سرحد پر ابان بن سعید نامی مکہ کا ایک سردار مل گیا یہ وہ سردار ہے جو سب سے پہلے مسلمانوں کو دیکھ کر گیا ہے
قاصد بن کر نہیں آیا ویسے ہی وہاں سے گزر رہا تھا اس نے حضرت عثمان کو دیکھا پوچھا کہاں جا رہے ہو جواب دیا کہ مکہ جا رہا ہوں اس لئے کہ رسول معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مکہ کے حالات کیا ہیں لیکن اکیلا ہوں تنہا ہوں اس نے انہیں اپنا رقیب بنا لیا یعنی گھوڑے پر سوار کے پیچھے بیٹھنے والا کہا میرے ساتھ بیٹھ جاؤ اور تم میری پناہ میں ہو
عثمان کو لیکر مکہ پہنچا حرم میں جا کر اعلان کیا رسول کا قاصد میری پناہ کے اندر اگر کوئی اس پر ہاتھ اٹھائے گا گویا اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور حضرت عثمان مکہ کے اندر ٹھہر گئے اب ان کو یہاں پر صرف حالات دیکھنا ہیں اور معلوم کرنا ہے کہ قریش چاہتے کیا ہیں
پیغمبر اسلام بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ میں ہر صورت میں مصالحت چاہتا ہوں
تینوں قاصدوں کو جواب دے چکے ہیں اب بھیجا گیا حضرت عثمان کو کہ وہ اس چیز کو آگے بڑھائیں یہاں پر حضرت عثمان کے آنے سے اب پہلی مرتبہ قریش کوئی مصالحت کی بات سوچنے لگے اس لئے کہ اب تک جو قاصدوں نے جو رپورٹ دی اور تیر اندازوں نے جو اطلاعات دیں وہ بھی ایسی ہی تھیں اور اسی وجہ سے پہلے ہم کوئی جنگ جیت تو نہیں سکے اب پہلی دفعہ مصالحت کی کچھ باتیں ہونے لگیں لیکن پیغمبر کے اندازے سے یا یہ کہیے مسلمانوں کے اندازے سے حضرت عثمان کو صبح جا کے شام کو واپس آ جانا تھا تین دن گزر گئے واپس نہیں آئے اور یہ خبر پھیل گئی کہ شاید قریش مکہ نے بطور انتقام ان کو قتل کر دیا ہے بس اس وقت پیغمبر اسلام نے ایک درخت کے نیچے تمام لشکر اسلامی کو جمع کر کے بیعت لی ہمارے علماء اسلام نے لکھا ہے بیعت صرف ایک جملے پر لی گئی یہ پورا واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا اہم واقعہ ہے ملک کے حالات،کراچی کے حالات اور دشمنان اسلام کی سازشیں روک رہی ہیں کہ میں ان حالات میں نہ جاؤں صرف ایک جملہ پر بیعت ہوئی اگر جہاد کا کوئی وقت آ گیا تو تم میں سے موت کو دیکھ کر کوئی بھاگے گا نہیں یہ جملہ ہی غیرت مند انسانوں کیلئے بہت زیادہ ننگ و عار کا سبب بن سکتا ہے لیکن حکم تھا اللہ کے رسول نے جملے پر بیعت لے لی اور اس وقت قرآن کی آیت نازل ہوئی
لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرہ
اللہ ان لوگوں سے راضی ہوا جو درخت کے نیچے تمہارے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے صاحبان ایمان سے اللہ راضی ہوا یہ آیت نازل ہو گئی پورا یہ واقعہ بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے
مکتبہ تعمیر ادب نے ایک کتاب شائع کی ہے اور بہترین کتاب ہے بیعت رضوان اس نے پورے تمام ان پہلوؤں کو لیا ہے جو عالم اسلام میں اختلافات کا سبب بنتے ہیں یہ بیعت رضوان جو ہے اس سے بہت سے مسائل حل ہوئے ہیں
اب وقت ایسا نہیں ہے کہ میں اس تفصیل میں جاؤں جن لوگوں کو معلومات حاصل کرنا ہے واقعی اتنی اچھی کتاب ہے واپس آتے ہیں اپنے عنوان پر کہ بیعت لی گئی اور ان میں سے جو صاحبان ایمان تھے اللہ نے اپنی رضامندی کا اعلان کر دیا اور بیعت صرف ایک بات پر ہوئی کہ موت کو دیکھ کر تم موت کو دیکھ کربھاگو گے نہیں بیعت مکمل ہوئی
مسلمانوں کا جوش و خروش جاری کہ اتنے میں مکہ کی جانب سے حضرت عثمان آتے نظر آئے انہوں نے آ کر پیغمبر اسلام کو رپورٹ دی کہ اللہ کے رسول قریش مکہ اب مصالحت کیلئے تیار ہیں مگر ان کے صرف دو مسئلے ہیں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ قسم کھائی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اب یہ قسم ان کے راستہ میں رکاوٹ بن رہی ہے اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم نے آپ کو آنے دیا تو قریش سارے عرب میں ذلیل ہو کر رہ جائیں گے ان کی ناک کٹ جائے گی کہ تمہارا دشمن تمہارے شہر میں آیا بھی عبادت بھی کی چلا بھی گیا ہمارایہ احترام عزت و وقار ختم ہو کر رہ جائے گ
یہ ہے بڑا مسئلہ یہ وہ دو چیزیں ہیں کہ قریش تذبذب کے عالم میں ہیں مگر حضرت عثمان کہتے ہیں میں نے بات کی ہے ان کے نمائندے عنقریب اس مسئلہ پر بات چیت کیلئے آ رہے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد وہ نمائندے آ گئے اب یہاں ضمنی طور پر ایک بات اور نکل آئی
اسلام میں فال لینا اسے اچھا نہیں سمجھا گیا فال لینا استخارہ ہوتا ہے وہ تو ٹھیک ہے فال لینا کہ کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو کوئی پریشانی آئے گی یا کوا بولنے لگا یا آنکھ پھڑکنے لگی یا ہتھیلی میں کھجلی ہونے لگی اس قسم کی چیزیں اس فال لینے کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور مذمت بھی کی گئی ہے کہ فال لینا بہت برا ہے قرآن میں کافروں کے بارے میں کئی آیتیں ہیں جب وہ کسی رسول کو آتا دیکھتے تو جو اس سے فال نکالتے یہ آدمی معاذ اللہ ہمارے لئے منحوس ہے یا نہیں ہے اسلام میں ان چیزوں کی مذمت کی گئی ہے اور کہا ہے کہ فال کی کوئی حقیقت نہیں ہے انسان جب کسی پریشانی میں پھنس جاتا ہے تو وہ ذرا سی بات پر اس کے دل میں شگونی و بدشگونی ہونے لگتی ہے وہ خود بخود دل میں آنے والے وسوسے جو آدمی کے کنٹرول میں بھی نہیں ہوتے اس لئے کہا گیا ہے بچو فال لینے سے لیکن یہ خودبخود دل میں آ جاتی ہے اچھی چیز ہے یا بری اور یاد رکھئے یہ مسئلہ خالی ہمارا نہیں ہے ان لوگوں کا ہے جو بہت ہی عقلمند، ہوشیار اور وسیع النظر سمجھتے ہیں یورپ و امریکہ میں ہم سے زیادہ مسئلہ ہے گھوڑے کی نال دروازے پر لٹکائی جائے گی کیونکہ اس سے برکت نازل ہوتی ہے
تیرہ نمبر کوئی لینے کو تیار نہیں ہوت
ہوائی جہاز میں 13 نمبر کی کوئی سیٹ نہیں ہوتی بلڈنگ میں 13 نمبر کی کوئی منزل نہیں ہوتی ہم سے زیادہ وہ لوگ اس کے اندر پھنسے ہوئے ہیں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ہے یہ شیطانی خیال بھی ہے اور انسانی مزاج بھی ایسا ہے کہ انسان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا چاہتا ہے ایک طرف اسلام نے منع بھی کیا ہے دوسری طرف کہا وسوسہ ہے پیدا ہو کر رہے گ
معصوم حدیث ہے اور ایسی حدیث کہ آقائے خوئی نے فتویٰ بھی دیا ہے کچھ تو واجب کفارے ہوتے ہیں روزہ جان بوجھ کر کھول دیا واجب کفارہ منت توڑ دی اس کا کفارہ واجب اسی طرح عورت نے کسی میت پر سر کے بال نوچے اور چہرے سے خون نکالا امام خمینی کے نزدیک کفارہ واجب ہے
احتیاط واجب کی بنا پر اور کچھ کفارے مستحب ہیں سنت ہیں ان میں سے ایک کفارہ آقائے خوئی لکھتے ہیں یہ کہ اگر انسان کسی چیز سے فال لے یعنی جس چیز سے انسان کے دل میں وسوسہ پڑ رہا ہے اسی کام کو کر ڈالو خدا پر توکل کر کے اس بدشگونی کا کفارہ بھی یہی ہے دل میں آ گیا کہ اس سے کوئی نقصان ہے تو اب اس کام کو ضرور کرنا ہے
اس لئے کہ نقصان اور فائدہ اللہ دینے والا ہے یہ بلی اور کوے اور کتے میں نہ نفع ہے نہ نقصان تو وسوسہ جو پیدا ہوا ہے اس کا علاج یہ بتایا گیا ہے اب اگر انسان دس پندرہ مرتبہ یہ سلسلہ شروع کرے تو وہ خود بخود ختم ہو جائے گ
اگر جان بوجھ کر وہی کام کرتا ہے جس سے دل کہتا ہے کہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے بدشگونی آ رہی ہے میں آج نوجوانوں کو علاج بتاتا ہوں ان کے مسئلہ کا کہ جو 15 سے 20 سال سب کو سامنا کرنا پڑتا ہے ایک دم سے بہت سے وسوسے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں بہت دیندار مذہبی گھرانے کا نوجوان دس گیارہ سال کی عمر سے عبادتیں کر رہا مسئلہ مسائل جانتا ہے لیکن سترہ سال کے قریب مسئلہ آتا ہے
خدا ہے بھی یا نہیں امامت قیامت توحید پورے عقائد کے بارے میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا دنیابھر کے خیالات اور یہاں ایک غلطی کرتے ہیں لوگ بہت زیادہ دبانے کی کوشش کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اور زیادہ ابھر کر یہ چیزیں آ جاتی ہیں
اس کا علاج جو بتایا گیا ہے وہ یہی ہے خیال جو آ رہا ہے وسوسہ کی حد تک تو آنے دیں آنے دیں یہاں تک کہ ایک وقت میں خود ہی آنا بند ہو جائیں گے بالکل اسی طرح کہ روزے کے عالم میں جو لوگ بچتے ہیں تھوک پینے سے بار بار تھوکنے سے اور تھوک پیدا ہو گئی نگل لینے سے مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا یہی اسلام نے فال اور بدشگونی کیلئے کفارہ بتایا ہے جس چیز کے بارے میں بدشگونی ہو رہی ہو آپ جان بوجھ کر اس کام کو کر لو اب اللہ گر توکل کر کے یہ خیال دل میں کر کے کہ نفع و نقصان کا مالک خدا ہے اور ساتھ میں امام نے ایک بات اور کہی ہے وہ یہ کہ کبھی بھی کسی چیز سے بری فال لو ہی نہیں ہمیشہ اچھی بات زبان سے نکال جو کہ ہمارے بزرگ سکھاتے تھے
یعنی ہمیشہ الٹا سوچو یہ تو کہا جاتا ہے کہ خواب میں موت نظر آئے تو سمجھو زندہ رہنا ہے
فال میں بھی الٹا نکالو یعنی بری بات سے اچھے نتیجے نکالو اور فال کا الٹا کام ہی کر ڈالو اللہ پر بھروسہ کر کے دوسرا علاج یہ ہے کہ جس چیز سے بھی بدفالی کا امکان ہو اس کا ہمیشہ اچھا خیال نکالو اور اس میں بھی صلح حدیبیہ کو پیش کیا جاتا ہے وہ یہ کہ جس وقت حضرت عثمان سے رپورٹ پیش کی کہ قریش مکہ کے یہ دو مسئلے ہیں اور ان کے نمائندے قریب آنے والے ہیں مذاکرات کیلئے تو ایک مرتبہ سامنے سے سہیل بن عمر آتا ہوا نظر آیاان کا لقب خطیب العرب ہے عرب کا بہترین خطیب بہترین خطابت کا مالک اور مزاج میں بڑا سخت اس کے بارے میں مشہور ہے اس کا مزاج بڑا سخت ہے کسی کے بارے میں جھکتا نہیں ہے اپنی بات پیچھے نہیں ہونے دیتا اپنی آن پر اپنی اولاد کو قربان کر دیتا ہے یہ مشہور ہے اس کے بارے میں اور جس زمانے کا یہ واقعہ ہے کہ اس کا سگا بیٹا اسلام لا چکا ہے اور باپ اپنے بیٹے کو قید کر رہا ہے کوڑے مار رہا ہے ظلم و ستم کر رہا ہے یعنی اتنا سخت ہے یہ مزاج کے اندر اولاد بھائی بہن کسی چیز کا خیال نہیں بس جو ہماری بات ہے وہ سب کو ماننا پڑے گی اتنا سخت آدمی آ رہا ہے اس کو بھیجنے کا مقصد بھی یہ آگے کے واقعات میں ابو جندل کے بیٹے کو منع کیا گیا کہ ہم واپس نہیں جائیں گے
دیکھیں اس آدمی نے مذاکرات توڑ دے اتنا سخت قریش نے اسے بھیجا ہی اس لئے کہ کسی سخت ترین آدمی کو بھیجو مشہور ہے قریش کے پاس کہ محمد جادوگر ہے عام سے آدمی کو بھیجو گے تو وہ محمد کا ہی کلمہ پڑھتا ہوا آ جائے گا سخت ترین آدمی کو چھانٹ کر بھیجو جو برابر سے مقابلہ کرے رسول سے اسی وجہ سے سہیل کو بھیجا گیا اب سوچو کہ کتنا سخت آدمی آ رہا ہے دور سے مسلمانوں نے دیکھا وہ اس کو جانتے ہیں تو وہ سمجھ گئے کہ اگر معاملہ بن بھی رہا ہے تو بگڑ جائے گا ایسا ہی آدمی آیا ہے جو مسلمانوں سے خار کھا کر بیٹھا ہے اچھا یہ بدر میں قید بھی ہو چکا ہے وہ بھی اس کو غم ہو گا اس کا بیٹا مسلمان ہو گیا ہے پہلے ہی کافی دشمن تھا اب سے دو اور چیزیں اکٹھی ہو گئیں اب دیکھنے والوں نے اندازہ لگا لیا کہ اب معاملہ بگڑ جائے گا مگر جب پیغمبر اسلام نے اس کو دیکھا تو کہا سہل امرنا سہیل سے پیغمبر نے فال نکال لیا سہل یعنی سہل یعنی اب ہمارا کام آسان ہو گی
یہ وہی چیز تھی کہ سارے مسلمان پریشان ہو گئے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ بگڑ گی
پیغمبر وہ جو ایک اصول بتا رہے ہیں کہ علماء نے اس کو کوڈ کیا ہے اگر کبھی بھی کوئی خرابی سامنے آ رہی ہے ہمیشہ اچھی فال نکالو کام ٹھیک ہو جائے گا اللہ پر بھروسہ کرو
سہیل کو دیکھ کر کہا سہل امرنا آج ہمارا معاملہ حل ہو گی
بہرحال یہ معلوم تھا کہ یہ آدمی اتنا سخت ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سختی پر پہنچ جائے کہ جو قریش بھی کو منظور نہیں دو آدمی بھیجے بطور مددگار یہ تین آدمی پیغمبر کے پاس آئے اب پیغمبر سے بات چیت شروع ہوئی سارے مذاکرات اور ڈائیلاگ بیان کرنا تو بڑا مشکل ہے اور اس کی ضرورت بھی نہیں کوئی خاص محسوس نہیں کر رہا ہوں خلاصہ اس بات چیت کے بعد جو بات طے پا گئی یہ جو قریش کے دو بڑے مسئلے ہیں ہم قسم کھا چکے ہیں کہ اس سال مسلمانوں کو مکہ میں نہیں آنے دیں گے اور ہماری ناک کٹنے کا مسئلہ ہے اس وقت عزت و آبرو کا مسئلہ ہے اب اس کا حل یہی نکالا گیا چلو تمہاری قسم بھی صحیح رہے تمہاری عزت و آبرو بھی ختم نہ ہو ہم اس سال واپس چلے جاتے ہیں آئندہ سال آ جائیں گے تو تمہاری قسم سے اس کا تعلق نہیں اور کہنے کیلئے بھی ہو جائے گا کہ دیکھا ہم نے مسلمانوں کو نہیں آنے دیا سب سے پہلے تو یہ دو مسئلے تھے قریش کے انہیں پیغمبر نے حل کیا اچھا یہ سارے مذاکرات کسی بند کمرے میں نہیں ہو رہے تھے
یہ مذاکرات ان مسلمانوں کے سامنے ہو رہے ہیں کہ جواب تک کے واقعات کو پیش آ چکے ہیں آخر قریش نے ہم کو سمجھ کیا رکھا ہے ہم طاقت والے ہم تین دفعہ قریش کو مار چکے ہیں آج ہمارا لشکر اتنا بڑا ہے ہم کیوں دب کر چلے جائیں تو پہلے ہی سے مسلمان غصے میں ہیں ان کے سامنے یہ مذاکرات ہو رہے ہیں جس کی ایک پیکچر یہ تھی کہ پیغمبر جھکتے جا رہے ہیں اور سہیل بن عمر سر پر چڑھتا جا رہا ہے
مگریہ جو پیغمبر کا مصالحانہ طریقہ ہے
جذبات ہمیشہ قابو میں رکھنا جوش کے بدلے ہوش سے کام لینا اور حال سے زیادہ مستقبل کی فکر کرنا تو اس وقت ہم جو قدم اٹھا رہے ہیں فی الحال فائدہ بھی ہو جائے تو آگے چل کر اس کا نقصان کیا ہو گا دیکھنا ہے کیونکہ یہی اصول جو ابھی میں نے کہا صلح حدیبیہ پیغام یہ ہے کہ حال سے زیادہ مستقبل کا خیال رکھو یہی اصول فوج کے بارے میں آتا ہے ہمارے سامنے جو ہمارا دسواں امام حضر ت نقی علیہ السلام اپنے مکان میں قبر کو تیار رکھتے اور جب کسی نے پوچھا قبر کس لئے تو کہتے دنیا میں جو کام کرو پہلے اپنے آپ سے پوچھو کہ اس کا فائدہ قبر میں ہے یا اس کا نقصان ہے
یہ نہیں دیکھو دنیا میں اس کا فائدہ ہے یا نقصان قبر اس لئے کہ ہر کام سے پہلے قبر کو چیک کرو اس میں کیا نقصان ہے کیا فائدہ ہے بچے کو سکول میں داخل کرانا ہے بڑا اچھا سکول ہے چار ہزار ماہانہ کا خرچہ تمام سہولیات اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں اس کا فائدہ ہے یا نقصان بہترین نوکری مل رہی ہے سہولت ہی سہولت مگر قبر میں فائدہ ہے یا نقصان جو کام بھی کرنا ہے حال کو نہیں دیکھنا مستقبل کو دیکھنا ہے
اپنی مستقبل جو قبر وہی جو فوج کا اصول ہے
صلح حدیبیہ کا اصول یہ نہ دیکھو کہ ابھی تمہیں جھکنا پڑ رہا ہے ایسا نہ ہو کہ ابھی تو تم سینہ تان کے چلو اور بعد میں تمہیں جھکنا پڑے اس سے بہتر یہ ہے کہ ابھی جھک جاؤ بعد میں سب کچھ تمہارے ہاتھ میں آ جائے گا جو جو شرطیں قریش نے رکھوائیں وہ آ کر پوری کرتے گئے وہ آج فریقین بڑے تکبر کے ساتھ گھوم رہے تھے ہم کامیاب ہو گئے
ہر بات ہم نے مان لی لیکن بعد میں انہوں نے مسلمانوں کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر بات کر رہے ہیں یہ شرط واپس لے لو اب ہمیں نہیں چاہئے
حال اور مستقبل دونوں میں بہت فرق ہے
آج اللہ کا رسول ایسے مذاکرات کر رہا ہے جس میں تمام مسلمان یہ دیکھ رہے ہیں کہ فی الحال ہمیں نقصان ہے مگر پیغمبر وعدہ کر رہا ہے آج میری بات مانو مستقبل میں تمہیں فائدہ ہو گ
اگر اس اصل کو اپنی پوری زندگی میں لے کر آئیں کہ اللہ ک رسول اور اللہ کی طرف سے مقرر کئے ہوئے امام ان پر اتنا بھروسہ کرو کہ اگر وہ آپ سے کچھ کہیں جس میں ابھی نقصان ہو رہا ہو اتنا بھروسہ کر لو کہ مستقبل میں ضرور فائدہ ہو گ
اور اتنا فائدہ ہو گا کہ آج کا نقصان نقصان ہی نہ رہے گ
بس یہی صلح حدیبیہ کا پیغام صلح حدیبیہ کا پیغام یہ نہیں سوچا کہ مسلمانوں پر ہنسی اڑائیں کچھ مسلمانوں پر شک کریں کچھ مسلمانوں کا مذاق اڑائیں پھر وہی طریقہ خود اختیار کر لیں اگر وہاں شک ہو رہا تھا لوگوں کو تو کیسی صلح ہو رہی تھی کیسے بیٹی کا پردہ کرا لیں شادی کیسے ہو گی کیسے داڑھی رکھ لیں… گزارہ کیسے ہو گا کیسے … کی نوکری چھوڑ دیں کیسے اپنے بچوں کو اسے سکول میں داخل نہ کرائیں یہ زندگی کیسے گزرے گی اتنا شک نہ سہی تو تھوڑا سا شک تو ہمارے پاس بھی ہے تو پیغام صلح حدیبیہ یہ ہے رسالت و امامت جو حکم دے دے چاہے اس میں کچھ نقصان ہی ہو مان لیں اگر صلح حدیبیہ کی مثال کو سامنے رکھے اور یقین کے ساتھ اس پر عمل کر لو ہمارا آج کا نقصان بعد میں ہمیشہ ہمیشہ کا فائدہ آج تم کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کو دیکھنے کا جو پیغمبر پر مطمئن نہیں تھے اور تمہاری اپنی حالت کہ امام کی بات پر اطمینان نہیں آ رہا کہ یہ نقصان ہی نقصان ہے
اور ان پر اعتراض کر رہے ہو تو یہ وہی اعتراض ہے جسے مولیٰ نے کہ
رب قاری القرآن و القران یلعنہ کتنے ہی تلاوت قرآن کرنے والے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن پلٹ کر انہیں پر لعنت کرتا ہے تو وہ جو کہتے ہیں لعنة اللہ علی الکاذبین وہ مثال ہماری نہ بن جائے میں اطمینان کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ صلح حدیبیہ کو اس حوالہ سے چاہے آپ نے کم سنا اور کم پڑھا ہمارے بزرگ علماء کرام نے ساری باتیں پہنچائیں ہیں میں تو انہیں کی باتوں سے آپ کے سامنے پیش آنے والا مگر یہ بات ضرور یاد رکھئے گا کہ ہماری قوم بعض بڑی بڑی باتوں کو بھول جاتی ہے
یعنی جو بھول جاتے ہیں جس پر ہم آج اعتراض کر رہے ہیں وہی چیز آج ہم میں بھی پائی جاتی ہے
ابھی شہادت کی راتیں گزری ہیں ساری قوم کوستی رہی کہ وہ لوگ کیسے تھے جنہوں نے رسول کی بیٹی کو ان کا حق نہیں دیا آخر ان کی حالت یہ ہے کہ رسول کی بیٹی کا حق دبا کر بیٹھے ہیں ارے سنا یہ وہ لوگ کیسے تھے
پیغمبر صلح کر رہے ہیں وہ ماننے کو تیار نہیں انہوں نے شاید ایک حکم نہیں مانا اور ہم نے چوبیس گھنٹے میں کوئی بھی حکم نہیں مانا اور ان کو کوس رہے ہیں پہلے اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہو گا صلح حدیبیہ کا یہ پیغام ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھئے گ
پیغام کیا ہے رسالت کے حکم کے آگے کیوں نہیں ہے ہر نقصان کو برداشت کر کے بھی سر جھکا دے تو یہ پکا مومن ہے حدیبیہ والا اگر رسالت کے حکم کے سننے کے بعد اگر، مگر لیکن یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا بات ٹھیک ہے مگر آج کون عمل کر سکتا ہے اس قسم کے جملوں والا مجرموں کی صف میں کھڑا نظر آئے گ
اب حالت یہ ہو گئی کہ سہیل بن عمر اعتراض پر اعتراض کر رہا ہے اور پیغمبر اس کی بات کو مانتے جا رہے ہیں تو آخر میں پتہ چلا کہ ان چھ شرطوں میں سے تین شرطیں ایسی نظر آئیں کہ دو شرطیں ایسی ہیں جو سراسر مسلمانوں کے نقصان میں ہیں سب سے پہلی شرط کہ اس سال مسلمان واپس چلے جائیں اگلے سال آنے کی اجازت ہے
مگر وہ بھی دو شرطوں کے ساتھ صرف تین دن کیلئے مکہ میں رہیں گے اس سے زیادہ نہیں اور ان تین دن میں کوئی ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لائیں گے سوائے ان ہتھیاروں کے جو مسافر کیلئے لازم ہیں اب مسافر نے جانا ہے اب چور بھی ہیں ڈاکو بھی ہیں سفر میں جو ہتھیار ضروری ہیں ان کے علاوہ کچھ نہیں لائیں گے
اور وہ ہتھیار بھی جو سفر کیلئے ضروری ہیں جیسے ہی مکہ کی سرحد میں داخل ہوں گے محلوں میں چھپا دیئے جائیں گے
اس سال واپس جاؤ آئندہ سال آؤ مگر دونوں شرطوں کے ساتھ سامان پر بھی پابندی ہے اور ٹائم پر بھی پابندی لگا رہے ہیں تین دن سے زیادہ اجازت نہیں ہے کوئی ہتھیار نہیں لا سکتے مگر سفر کے
مسلمانوں کو بڑی کھل رہی ہے بہت اذیت ہو رہی ہے
کھلم کھلا یہ شرط بے آبرو اور بے عزتی کا سودا بن رہا ہے
سرحد پر آ گئے ہیں اور واپس چلے جائیں
دوسری شرط جو مانی گئی کہ اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ چلا جاتا ہے تو مکہ والے اسے واپس نہیں کریں گے لیکن اگر کوئی مکہ سے مدینہ آ جاتا ہے تو مدینہ والے یعنی رسول کی ذمہ داری ہے کہ اسے واپس کر دے
واپس کر دیں یا اس کو لوٹا دیں یہ دو ایک الگ الفاظ میں ان کی وجہ سے بعد کے واقعات میں تبدیلی آئے گی
شرط یہ رکھی گئی دیکھئے جب معاہدہ ہوتا ہے تو الفاظ کی اہمیت بہت زیادہ ہے کوئی مسلمان مکہ جائے گا تو مکہ والے اسے روک لیں گے لیکن مکہ سے کوئی مدینہ آیا تو واجب ہے رسول پر کہ وہ اسے واپس کر دے
اچھا اس میں دو چیزیں آ گئیں ایک جولفظ آیا واپس کر دیں یہ نہیں آیا کہ واپس پہنچا دیں
اگر آیا مسلم یہ لفظ نہیں آیا مسلمان مسلم مرد کو کہتے ہیں مسلمہ نہیں آیا ان لفظوں کے بعد میں دو بڑے واقعات بن گئے بڑے دلچسپ خیر یہ دو شرطیں اس کے بعد تیسری یہ کہ عرب کے قبیلوں کو اجازت اور اختیار وہ جس کے ساتھ چاہے مل سکتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا چوتھی شرط یہی وہ معاہدہ اب دس کیلئے ہے اب دس سال تک آپس میں کوئی جنگ نہیں ہو گی اگر کسی ایک مقام پر ساری شرطیں موجود نہیں الگ الگ کتابوں میں کسی میں دو ہیں کسی میں تین ہیں کسی میں چار ہیں پانچویں شرط یہ اس کے بعد کافروں کا مال بھی قابل احترام ہو جائے گا اور مسلمانوں کا مال بھی چھٹی شرط یہ بڑی اچھی شرط یہ بڑی اہم شرط اس پر بہت کم توجہ دی لوگوں نے لیکن یہ وہ شرط ہے جس کے بہرحال مسلمانوں کو Favour دی
وہ یہ ہے کہ آج کے بعد سے مکہ میں کسی مسلمان کی عبادت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اپنے اسلام کو ظاہر کر دے اس کے جان و مال کو تحفظ حاصل تھا یہی وہ شرط کہ عام طور پر جسے نہ پڑھا جاتا ہے نہ لکھا جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کچھ کتابوں میں ہے اور کچھ میں ہے بھی نہیں ہمارے علماء کرام چاہے وہ شیخ مفید ہوں چاہے علامہ طبرسی ہوں چاہے علامہ مجلسی ہوں سب نے اس چھٹی شرط کو لکھا ہے یہ معاہدہ مکمل ہوا بس جس وقت یہ معاہدہ مکمل ہوا ابھی اس سے پہلے کہ اس پر دستخط کئے جائیں دو واقعات پیش آ گئے جو صلح حدیبیہ کا مشہور ترین واقعہ ہے یعنی کسی کو اور کچھ معلوم ہو یا نہ ہو یہ معلوم ہے ابو جندل کا واقعہ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر واقعہ نہ پڑھوں تو بہرحال ایک سو چھ تقاریر میں کمی آ جائے گی اور اگر پڑھوں تو آپ کا سنا ہوا واقعہ ہے
اس لئے بس یہی ہو سکتا ہے کہ بس جلدی جلدی پڑھ لیا جائے مگر دو واقعہ سے پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ ہے یہ معاہدہ زبانی طور پر طے پا گیا چھ شرطوں کے ساتھ اب اسے کاغذ پر لکھنا ہے
کئی مرتبہ میں نے یہ حدیث مختلف مجالس میں پڑھی کہ معصوم بھی کہتے ہیں کہ چھ آدمی ایسے ہیں جن کی دعا خدا قبول نہیں کرتا کون خدا جس کا اپنا وعدہ ہے ادعونی استجب لکم نے وعدہ کیا ہے دعائیں مانگو میں قبول کروں گ
مگر بات یہ ہے کہ ان سے خدا وعدہ ہی پورا نہیں کرتا کیونکہ خدا نے ان سے وعدہ ہی نہیں کیا اور پانچ فعل جو کسی کو قرضہ دے اور بغیر کسی تحریر و گواہی اور بعد میں قرضہ نہ ملے اب یہ کہئے کوئی بات نہیں میں نے معاف کیا دوسری بات ہے لیکن یہ کہ وہ اللہ کا دروازہ پکڑ لے غلطی میں نے کی ہے تو میرا قرضہ واپس دلوا دے اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جب میں نے پہلے سے طریقہ کار بتا دیا تو اس کی پابندی کیوں نہیں کی یہ اسلام میں ایک چیز ہے لوگوں پر بھروسہ بہت اچھی چیز ہے لیکن ہر وہ معاملہ جو بعد میں اختلاف کا سبب بن سکتا ہے اسے تحریری صورت دے دو اور گواہوں کے سامنے رکھ دو
دیکھیں آج ہمارا یہ معاشرہ بہت بڑے گناہ میں مبتلا ہے مگر ایسا گناہ کہ کسی طرح سے وہ سلجھ بھی نہیں پا رہ
وہ ہے میراث کا مسئلہ اس نظام سے ہمارے گھروں کا انتظام چلتا ہے کہ خصوصاً باپ کے انتقال کے بعد پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس طرح مسئلہ حل کیا جائے بیٹے کماتے ہیں تنخواہیں ایک جگہ دے دیتے ہیں بیٹے دکان پر بیٹھتے ہیں اب اس میں پتہ نہیں کہ بیٹوں کا پیسہ لگتا باپ کا پیسہ لگتا ہے اسے پاٹنر مانیں اسے نوکر مانیں اس پر توجہ نہیں کی جاتی جب باپ کا انتقال ہوتا ہے مسئلہ آ جاتا ہے ایک کہتا ہے میں برابر دکان پر بیٹھا ہوں میرا حق زیادہ ہونا چاہئے
دوسرا کہتا ہے وہ باپ کی دکان تھی ہر چیز برابر تقسیم ہو گی بات یہ نہیں ہے کہ ایک غلط کہہ رہا ہے یا صحیح کہہ رہا ہے بات یہ ہے واقعتاً مسئلہ حل بھی نہیں ہو پاتا ہو سکتا ہے یہ صحیح کہہ رہا ہو ہو سکتا ہے وہ صحیح کہہ رہا ہو یہ سارے ہمارے جو مسئلے ہیں تو باپ اور بیٹے کے درمیان بھی بہترین راستہ یہی ہے وہ بات جو صلح حدیبیہ کہہ رہی ہے باپ کو برا لگے یا بیٹے کو برا لگے مگر مستقبل میں پرابلم نہ ہو باپ اور بیٹے کے درمیان بھی ساری چیزیں طے کر دی ہیں یا پھر انسان اتنا وسیع القلب ہو کہ وہ کہے مجھے کچھ چاہیے ہی نہیں یہ باپ بیٹے کا مسئلہ ہے ٹھیک ہے مجھے میراث نہیں ملی تو مجھے کچھ نہیں چاہئے اگر قرضہ نہیں ملا مجھے کچھ نہیں چاہئے میرا حق کسی نے دبا لیا کوئی بات نہیں مجھے نہیں چاہئے یا اتنا وسیع القلب ہو تو ٹھیک لیکن اگر لینا ہے اور ملتا بھی نہیں تو یہ وہ مسئلہ ہے جہاں خدا بھی مدد نہیں کرت
اسی لئے صلح حدیبیہ کاغذ پر آیا کاغذ پر بھی اس طرح کہ دو دفعہ لکھا گیا فوٹو کاپی مشین تو تھی نہیں کہ دو کاپیاں نکل آئیں دو مرتبہ لکھا گیا دونوں پر ایک طرف رسول کے دستخط ایک طرف سہیل بن عمر کے دستخط ایک کاپی رسول کے پاس دوسری سہیل بن عمر کو دی گئی اس انداز سے کام ہوا پیغمبر اسلام نے جب یہ باتیں شرط کے طور پر طے پا گئیں اب اسے کاغذ پر لا رہے ہیں اس وقت پیغمبر نے علی کو بلایا اور کہا کہ تمہیں یہ تحریر دے رہا ہوں باقی سب مسلمان تو غم و غصے کی اس کیفیت میں ہیں کہ ان کو ہوش ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے وہ ایک ایک چیز پر رسول سے بحث کر رہے تھے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور دونوں میں سے ایک پارٹی کے اپنے آدمی اس پر بحث کر رہے ہیں کتنی پوزیشن نازک اور کمزور ہو جاتی ہے
مذاکرات کی جو میز ہوتی ہے اگر سامنے والی پارٹی کو پتہ چل جائے کہ جس سے ہم مذاکرات کر رہے ہیں اس کے اپنے آدمی اس کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں اور مجمع عام میں یہ ساری بحث ہو رہی ہے مگر اللہ کا رسول ان سب کے باوجود شرائط کو نہیں بدل رہا حتیٰ کہ یہ کسی نے کہہ دیا یہ کیا شرط ہے کہ اگر مسلمان مدینہ میں آئے گا تو واپس کر دیا جائے گا اور ہمارا آدمی وہاں جائے گا تو وہ واپس نہیں کریں گے تو پیغمبر اسلام نے اگر اس کا جواب دیا کہ اگر کوئی ہمارے پاس آ گیا مکہ سے ہم اسے واپس کر دیں گے اس لئے کہ ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اس کی حفاظت کرنے والا اللہ ہے یعنی کوئی گارنٹی دے سکتا ہے کہ اگر مدینہ میں آ گیا تو محفوظ ہو گیا وفات آنا ہے تو یہاں بھی آ جائے گی اور اگر ہمارا آدمی مکہ میں چلا گیا ہمیں ضرورت ہی نہیں اس کے پیچھے جانے کی اس نے ہم سے بہتر ان کو سمجھا ہے تو وہاں جانے پر تیار ہو گیا ہے یہ پیغمبر کا جواب بالکل سخت جواب ہے
اب کس کس کو کہا ان کے نام تو میں نہیں لیتا بس اس طرح پیغمبر نے سب کو خاموش کرایا مگر لوگ خاموش نہیں ہو رہے
جنہیں بولنا ہے بے چین ہیں پریشان ہیں اور مطمئن صرف چند ہی نظر آتے ہیں جو صرف کہ رسول کہہ رہے ہیں ہم نے صرف اس کو سننا ہے اور اطاعت کرنا ہے ان میں جو نمایاں خصوصیات نظر آتی ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں ہر آدمی کا ایک مزاج بن جاتا ہے جسے غصہ آ رہے تو وہ ہر جگہ غصہ کرے گا کبھی ایسا موقع آتا ہے کہ ہمیں لڑنے بھڑنے والا آدمی درکار ہوتا ہے ہمیں ضرورت پڑ جاتی ہے حج کے قافلوں پر بس ڈرائیور سے لڑنا اب لڑنا بھی ایک طریقہ کار ہے ایسے تو لڑ بھی نہیں سکتے یہ بھی اسلام ہے کہ قوہ غصہ بالکل صفر بھی نہیں ہونی چاہئے اس کی بھی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح جو ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں ان کا مزاج ہی یہ بن جاتا ہے کہ ہر جگہ پر وہ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر اسلام کا دشمن بھی آ جائے تو انہیں نہی عن المنکر کی ہمت نہیں ہوتی کبھی ان کی سخت ترین ضرورت پڑتی ہے جب مذاکرات کرنا ہوں پیار و محبت سے کسی کو سمجھانا ہو میرے مولا کی خصوصیت یہ بتائی گئی علی کی خصوصیت بتائی گئی کہ علی کا اپنا کوئی مزاج ہی نہیں تھا جہاں جو مرضی پروردگار تھی وہاں وہ ہی علی کا عمل تھا ایک طرف بہت مسلمان اتنے ٹھنڈے تھے کہ جب میدان جنگ میں لڑنے کا وقت آتا تھا تو لڑا نہیں جاتا تھا اور کچھ اتنے گرم تھے کہ صلح حدیبیہ کے وقت ٹھنڈے ہونے کا وقت تھا ان سے ٹھنڈا نہیں ہوا جا رہا تھ
ایک طرف علی ہیں جب تلوار چلانے کا وقت آتا ہے تو وہی صاحب ذوالفقار ہیں اور جب صلح کا وقت آتا ہے تو وہی کاتب صلح حدیبیہ ہیں ہر جگہ جہاں مرضی رسول خدا ہے وہ اسی طرح تیار ہیں اور یہ اس طرح کا مزاج ہونا علی کا افتخار ہے کہ جب تلوار کا وقت آیا تو تلوار ملی اور جب قلم کا وقت آیا تو رسول نے قلم دی اور علی کے مزاج میں کوئی فوق نہ پڑ

اسی لئے پتہ چلتا ہے کہ صلح حدیبیہ میں مذاکرات کی میز پر صرف علی و نبی نظر آ رہے ہیں باقی سب نیچے بیٹھے ہیں خواہ صدموں غصہ یا جوش یعنی مزاج کے تابع ہیں
پیغمبر لکھواتے جا رہے ہیں علی لکھتے جا رہے ہیں یہ بھی بہت مشہور واقعہ ہے کہ اس وقت لکھنا شروع کیا گیا شروع میں ہی دو رکاوٹیں آ گئی
مولا نے خود کچھ نہیں لکھا کہا کہ رسول جو خود زبان سے بولیں گے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہذا ما قال علیہ رسول اللہ … من القریش
یہ وہ ہے کہ جس پر صلح کی ہے رسول نے اور قریش کے سرداروں نے اب جب بسم اللہ کی ہوئی تو مسئلہ آ گی
سہیل بن عمر نے کہا یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کیا ہوتا ہے ہم اللہ کو تو جانتے ہیں یہ رحمن و رحیم کون ہے اس کو ہم نہیں جانتے وہی لکھو جس کو ہم جانتے ہیں باقی کاٹ دو پیغمبر مان گئے ادھر مسلمانوں کو غصہ آ گیا کہ آج رسول کو معاذ اللہ ہو کیا گیا ہے
اتنا جھکتے جا رہے ہیں کہ بسم اللہ کی آیت کو بدل دیا علی سے کہا چلو کاٹ دو جو سہیل کہہ رہا وہی لکھ دو مگر ایک بات یاد رکھئے کہ اگر سہیل کہتا کہ اللہ کا نام نہ لاؤ بسم لات لکھو بسم منات لکھو وہ بات عقائد کی تھی وہاں پیغمبر اصرار کرتے اور کبھی اس بات کو قبول نہ کرتے لیکن یہاں پر ابھی جو بات ہے وہ صرف لفظ کی ہے
تو یہاں یہ رسول نے بتا دیا کہ جب مصالحت کئے جاؤ کبھی کاروبار کی ضرورت پڑتی ہے کبھی میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آتی ہے تو اگر اصولوں پر جھگڑا ہو تو قبول نہ کریں لیکن اگر لفظی جھگڑا ہو تو مومن کی نشانی یہی ہے کہ وہ لفظی جھگڑے میں نہیں پڑت
چلو اللہ ہی کا نام ہے تم کہتے ہو تو تمہارے طریقہ سے لکھ دیا اس کے بعد دوسرا مسئلہ آیا جس کو ہر ایک جانتا ہے ہذا ما صلح محمد رسول اللہ و صلح من القریش پھر وہی اعتراض اے عبداللہ کے بیٹے یہ رسول اللہ کیا چیز اگر ہم تمہیں رسول مان ہی لیں تو پھر اس ساری جنگ کا کیا فائدہ یہ سب رکاوٹ یہ صلح حدیبیہ سب کچھ ختم ہو جائے گ
آخر تمہیں اپنے باپ کا نام لکھنے پر کیوں اعتراض ہے محمد بن عبداللہ اب یہ مسئلہ کہ پیغمبر کی ذمہ داری اور ہے اور علی کی ذمہ داری اور ہے یاد رکھیں یہ بہت اہم اسلامی مسئلہ ہے کبھی ہماری ذمہ داری کچھ اور ہوتی ہے لیڈر کی ذمہ داری کچھ اور ہوتی ہے آپ کو چاہے معلوم ہو کہ سلمان رشدی کا مسئلہ جب کھڑا ہوا تھا تو امام خمینی کے فتویٰ کے بعد یہ کوئی نیا فتویٰ نہیں تھ
چودہ سو سال سے عام شیعہ سنی حنفی حنبلی سب اس پر متفق تھے
نبی کی توہین کرنے والا واجب القتل ہے
اور نبی کی توہین کرنے والا ایسا واجب القتل ہے ہمارے اعتبار سے کہ اس کیلئے عدالت مجتبہ سے نہیں پوچھنا باقی اگر کوئی گناہ کر چکا ہے مثلا زنا واجب القتل ہو گا ہمیں اختیار نہیں کہ اس کو سزا دیں ہم پکڑ کر لے جائیں گے ہمیں سزا دی جائے گی لیکن شاتم نبی کو برا کہنے والا کو حکم ہے جس کو موقع ملے اس کو مار دو اتنا پکا مسئلہ ہے مگر یورپ میں بعض ایسے علماء ہیں جنہیں سعودی عرب کی جانب سے تنخواہ ملتی ہے ٹیلی ویژن پر آ کر کہا یہ فتویٰ غلط ہے اور دلیل یہ پیش کی کہ دو چار رسول کے زمانے کے مجرم خود رسول کے سامنے آئے تو رسول نے انہیں قتل نہیں کیا اب نبی کے سامنے آئیے تو نبی اس کو معاف کر دے یہ اور مسئلہ ہے اور ہمارے سامنے آئے تو ہم اس کو معاف نہیں کر سکتے ہماری ذمہ داری الگ نبی کی ذمہ داری الگ علی اکبر کا قاتل سید سجاد کے سامنے آئے تو سید سجاد چھوڑ بھی سکتے ہیں قتل بھی کر سکتے ہیں ہمارے سامنے آئے ہمیں یہ اختیار نہیں ہم کو تو اسے قتل کرنا ہی ہے
یہ معاملہ ہر جگہ ہے جب جس کا اپنا کوئی معاملہ ہو تو شریعت اسے اجازت دیتی ہے
دوسروں کی ذمہ داری بدل جاتی ہے
رسول خود رسول اللہ کٹوا سکتے ہیں مگر علی کی ذمہ داری ہے کہ وہ رسول اللہ نہیں کاٹ سکتے اسی وجہ سے رسول نے علی کی معاذ اللہ مذمت نہیں کی
اس کے مقابلے میں کچھ اور واقعات ہیں کہ کچھ اور لوگوں نے پیغمبر کا حکم نہیں مانا تو پیغمبر کتنے ناراض ہوئے کیسے اٹھا دیا کیسے غیض و غضب میں آ گئے یہ وہ مسئلہ ہے فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ جس میں نبی کی ذمہ داری الگ تھی علی کی ذمہ داری الگ تھی
سلمان رشدی علی کے سامنے آئے تو علی قتل کرنا پڑے گا اور نبی کے سامنے آئے تو نبی کی مرضی یہ ان کا اپنا مجرم ہے چاہیں تو قتل کریں چاہے تو قتل نہ کریں لیکن ہمارے ہاتھ میں اختیار نہیں ہے
خیر میرے مولا نے قلم رکھ دی
رسول نے اعتراض نہیں کیا کاغذ اٹھایا جہاں رسول اللہ لکھا تھا کاٹ کر اپنے والد کا نام لکھ دیا ضمنی طور پر یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ رسول نے وہ لفظ کاٹا بھی اور لکھا بھی کاٹنے کا مطلب ہے کہ رسول نے پڑھا ہو گا اور لکھنے کا مطلب ہے کہ رسول پڑھنا لکھنا جانتے تھے
ایک مثال دیتا ہوں چینی اخبار کا ایک ورق آ جائے تو اس میں ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا نام کیا ہے
بس نبی کا کاٹنا اور لکھنا یہ دلیل ہے اس بات کی کتاب کو پڑھنا لکھنا آتا تھ
سن لیں نبی کا ایک جملہ اے علی مجھ پر جو گزری ہے آپ پر نہیں جو میں نے کیا ہے وہ ہمیں کرنا ہو گا آؤ کامل بن … کی تاریخ میں دونوں متفق کہ وہ وقت آ گیا جب صین کی لڑائی نیزوں پر قرآن بلند ہونا ہے پر ختم ہوئی اور دومة الجندل کے مقام پر حاکم شام اور مولا کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا حاکم شام کی جانب سے عمر بن عاص اور مولا کی جانب سے عبداللہ بن علی راقم تھے وہاں پر جو معاہدہ لکھا گیا پہلا جملہ تو جو تھا ٹھیک بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا گیا
ہذا ما تحکم ما علیہ علی امیر المومنین یہ وہ فیصلہ جو علی امیر المومنین ہیں ان کے درمیان اور حاکم شام کے درمیان پھر بالکل یہی اعتراض عمر بن عاص نے کیا امیر المومنین کیا چیز اگر ہم اس کو امیر المومنین مان لیں تو ہمارا جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا پھر ہمیں جھگڑا کرنے کا اختیار ہی نہیں
امیر المومنین سے مصالحت نہیں ہوتی امیر المومنین کی اطاعت کی جاتی ہے تو جناب ہم اس لفظ کو نہیں مانیں گے اس وقت عبداللہ بن رافع نے کہا یا امیر المومنین میرے لئے کیسے ممکن ہے کہ جو آپ کو اپنا امیر مانتا ہوں آپ کو امیر کاٹ دوں علی نے کہا لاؤ یہ کاغذ مجھے دو وہاں پر اس کو برا نہیں کہا تم میرے کاتب ہو اور خاص میرے نہیں بیت المال کے کاتب ہو
تمہارا کام یہ ہے کہ کاغذ لاؤ اور علی بن ابو طالب کو دیا اور پھر ایک مرتبہ کہا اللہ اکبر ہذا السنة سنة رسول اللہ آج میں رسول کی سنت پر چلا اور یہ وہی چیز ہے جس کی خبر مجھے خدا کے رسول نے دی تھی
بس ایک بات کہہ کر اپنے موضوع پر آتا ہوں بظاہر یہ دونوں آدمی ہمیں پسند نہیں آ سکتے جو علی کو امیر المومنین نہ مانے جو رسول اللہ کو رسول اللہ نہ مانے سہیل بن عمر بھی غلطی کر رہا حاکم شام کا نمائندہ بھی غلطی کر رہا ہے لیکن ایک حد تک انہیں شاباش دینے کو دل چاہتا ہے کہ رسول نہیں مانا تو نہیں مانا کہہ دیا اگر رسول مانیں تو ان کا حکم ماننا پڑتا ہے
عمر بن عاص نے کہہ دیا اس لئے امیر المومنین کٹوا رہا ہوں اگر علی کو امیر المومنین مان لیا جو مصالحت نہیں اطاعت کی ضرورت ہے
تعجب ہے آج کے مومن پر امیر المومنین بھی مانتا ہے اور پھر علی پر اپنا حکم بھی چلاتا ہے رسول کو رسول اللہ مانتا ہے پھر رسول کے آگے اپنی مرضی چلاتا ہے کہا کہ کون جی شریعت کی پابندی کر سکتا ہے یہ کوئی کرنے کی باتیں ہیں شادی بیاہ میں تو وہی جو رسمیں ہیں دودھ پلایا جا رہا ہے تو … جاتا رہے گ
چاول پھیکے جاتے ہیں تو پھیکے جاتے رہیں گے رسول رسول اللہ بھی ہے علی امیر المومنین بھی ہے لیکن حکم ان کا نہیں چلے گ
ان مسلمانوں سے تو وہ بہتر بات تو صحیح کی کہ اگر علی کو امیر المومنین مانیں رسول کو رسول اللہ مانیں تو ان کی بات ہی مانتا ہوں اعتراض کا حق ختم
یہ نکتہ ذہن میں رکھیں ان کا یہ اعتراض صحیح اعتراض ہے کہ اگر ان کو امیر المومنین مانتا تو سمعنا و اطعنا کی منزل پر آنا پڑے گ
فائدہ ہو نقصان ہو
اولاد کو قربان کرنا پڑے گا شاید ہمارے ہاں بات اتنی واضح نہیں ہے امام خمینی جب آئے تو کتنی باتیں چل رہی ہیں امام خمینی کو یہ کرنا چاہئے یہ کرنا چاہئے
یہ نہیں کرنا چاہئے
ایک پیغام یہ ہے اگر امیر المومنین کسی کو مانتا ہے تو پورا ماننا پڑے گا رسول اللہ ماننا ہے تو صلح نہیں ہو سکتی
بغاوت نہیں ہو سکتی مشورہ نہیں ہو سکت
ابھی دستخط ہونا باقی تھے ابو جندل آ گئے اب اتنا وقت نہیں کہ ابو جندل حالات بتائے جائیں یہ پھر بیان کئے جائیں گے لیکن بس اتنی سی بات معاہدہ ہو گیا ہے لیکن دستخط نہیں ہوئے
پیغمبر نے ابو جندل سے کہا چلے جاؤ پھر ایک جملہ کہا میں نے سارے مسلمانوں کا ایک فائدہ اور خیال کیا کبھی اجتماع کے فائدہ کیلئے فرد کو قربانی دینا پڑتی ہے پورے ماحول کو بچانے کیلئے دو چار آدمیوں کو قربان ہونا پڑتا ہے لیکن عام مسلمان جو تھے تو ڑے غصہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے مسئلہ پر ان کا غصہ اور بڑھ گی
محمد رسول اللہ کے مسئلہ پر تو غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا کتنا ہم کو دبایا جائے کتنا ہم کو معاذ اللہ ذلیل و بے عزت کیا جائے
یہ جملے تھے مسلمانوں میں اور ابو جندل کو دیکھ کر رسول بھی روئے اور مسلمان بھی روئے کیونکہ اس نے مسلمانوں کے پاس آ کر برقعہ اٹھایا اور اپنے زخم دکھائے کہا میرے جسم پر جتنے زخم ہیں ہر روز میرا باپ مجھے مارتا ہے اور اپنے غلاموں سے پٹوا رہا ہے
کیا تم ایک مظلوم مسلمان کی مدد کو تیار نہیں اور جملہ ہر مسلمان تو مسلمان اللہ کا رسول زارو قطار رو رہا ہے ابو جندل کو دیکھ کر مگر کہہ رہا ہے
تمہارے ایک کی وجہ سے سارے مسلمانوں کا فائدہ ہو رہا ہے
پس یہی وہ اصول ہے جس کی بنا پر رسول کی بیٹیاں کوڑے کھاتی رہیں رسول چپ رہے اور علی کی بیٹیاں قید بنا لی جاتی رہیں اور علی خاموش رہے
مصائب