شہر قم ميں مشہو ر امام زادہ
شہر قم یوں تو ہميشہ سے شيعوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے ليکن حضرت فاطمہ
معصومہ (س) کی وفات کے بعد ائمہ طاہرین عليہم السلام کے چاہنے ولوں کا وطن بن گيا ۔ ائمہ
کی اولاد اور بزرگان دین کے حضور نے اس آسمان ولایت پر چار چاند لگا دیا ہے اس بات کا اندازہ
ائمہ کی کثير تعداد اولاد جو چار سو چوليس تک پہنچتی ہے بہتر طور پر لگایا جا سکتا ہے۔
اس مقام پر ہم بہتر سمجهتے ہيں کہ ان ميں سے بعض مشہور ہستيوں کی زیارت
گاہوں کا ایک اجمالی خاکہ قارئين کی خدمت ميں پيش کریں۔
١۔ امام زادہ احمد بن محمد حنفيہ کا مقبرہ ،بلوار ١۵ /خرداد پر واقع ہے۔
٢۔ امام زادہ شاہ سيد علی کی زیارت گاہ ،بلوار ١۵ /خرداد،ميدان شہيد صادقی پر واقع ہے۔
٣۔ چارامام زا دوں کا مقبرہ ( حسين اور ان کے فرزند حسن ، محمد اور محسن ) ایک ساته
بلوار ١۵ /خرداد ٢٠ /متری حائری پر واقع ہے۔
۴۔ امام زادہ شاہ احمد بن قاسم کی زیارت گاہ، خيابان سميہ ميدان معلم پر واقع ہے۔
۵۔ امام زادہ حمزہ کا مقبرہ، خيابان آیة الله طالقانی ميدان کہنہ کے روبرو واقع ہے۔
۶۔ امام زادگان چہل اختران ، خيابان آیة الله طالقانی پر واقع ہے۔
٧۔ امام زادہ موسیٰ مبرقع کا مقبرہ ، خيابان طالقانی ،چہل اختران ہی ميں واقع ہے۔
٨۔ امام زادہ علی موسیٰ الرضا کی زیارت گاہ نکوئی ہسپتال کے سامنے خيابان آیہ الله
طالقانی پر واقع ہے۔
٩۔ امام زادہ سيد سر بخش (اسماعيل) کی زیارت گاہ خيابان آیة الله طالقانی پر واقع ہے۔
١٠ ۔ امام زادہ ناصر الدین کا مقبرہ ،چہار راہ بازار،مسجد امام حسن عسکری کے سامنے
واقع ہے۔
١١ ۔ امام زادہ جمال و جعفر غریب کے مقبرے ،کاشان روڈ پر قبرستان بقيع سے پہلے واقع
ہے۔
١٢ ۔ امام زادہ سلطان محمد شریف کی زیارت گاہ خيابان انقلاب مسجد چہار مرداں کے
سامنے واقع ہے۔
١٣ ۔ امام زادہ علی ابن جعفر کا مقبرہ خيابان انقلاب ميدان امام حسين (س)،گلزار شہدا پر
واقع ہے۔
١۴ ۔ امام زادہ ابراہيم اور ان کے والد محترم محمد کا مقبرہ خيابان نيروی ہوائی(شاہ ابراہيم) پر
واقع ہے ۔
١۵ ۔ امام زادہ شاہ جعفر کی زیارت گاہ خيابان نيروی ہوائی (شاہ ابراہيم ) پر واقع ہے۔
١۶ ۔ امام زادہ سيد معصوم کی زیارت گاہ نيروگاہ کے آخر ميں پڻرول پمپ سے پہلے واقع ہے۔
١٧ ۔ امام زادہ سيد عبد الله ابيض ( قلعہ صدری ) کا مقبرہ خيابان نيروی ہوائی “ہائی وے روڈ
کے بعد” واقع ہے۔
١٨ ۔ امام زادہ سيد جمال الدین (شاہ جمال) کا مقبرہ خيابان اراک پر چيک پوسٹ سے پہلے
واقع ہے۔
١٩ ۔ امام زادہ احمد اور ان کے فرزند کا مقبرہ خيابان امام موسیٰ صدر ميدان الہادی پر واقع
ہے۔
٢٠ ۔ امام زادہ صفورا کی زیارت گاہ خيابان خاکفرج فلکہ الہادی پر واقع ہے۔
حوزہ علميہ کا اجمالی تعارف
گزشتہ کئی سالوں سے شہر قم دنيائے شيعيت کا علمی و ادبی مرکز بنا ہوا ہے ،قم
کی یہ مرکزی حيثيت مراجع تقليد و علماء دین و سطوع عاليہ کی طالب علموں کی وجہ سے
ہے۔
یہ طلاب ، طالب علمی کے زمانے سے ہی سے تاليف و تحقيق ميں مشغول رہتے ہيں ۔
یہی چيزیں سبب بنی کی سطح کے طلاب دین کا اس شہر ميں ہجوم ہے۔
اس عظيم الشان حوزہ علميہ کے سلسلے ميں ائمہ (س) کے نورانی کلام ملتے ہيں
،مصحف ناطق حضرت امام صادق (س) فرماتے ہيں : ایک زمانہ آئے گا جب قم سے علوم و ادب
کی کرنيں پهوڻيں گی جو مشرق ومغرب کو شامل ہوں گی ۔یہاں تک کہ دوسرے شہروں کے
لئے ایک نمونہ بن جائے گا اور اس روئے زمين پر ایسا کوئی نہ ہوگا جس تک قم کے علمی و
دینی فيوض نہ پہنچ سکے وہ وقت خدا کی حجت اور ہمارے قائم کے ظہور کا ہوگا۔ (بحار الانوار
) ،ج/ ۶٠ ص/ ٢١٣
معصوم کے قول ميں حوزہ علميہ قم کا ذکر سبب بنا کہ ہم اپنی اس کتاب ميں اس
حوزہ کی تاریخ کا اجمالی خاکہ قارئين کی خدمت ميں پيش کریں۔
شہر مقدس قم کی مذہبی و علمی کاوش اشعریوں کے زمانے کی طرف پلڻتا ہے یہ
ستم دیدہ افراد عراق کی ظالم و جابر حکومت سے پریشان ہو کر عش آل محمد ميں آگئے ۔
اس شہر ميں ہجرت کے بعد ان افراد نے یہاں تعميری کام کے علاوہ مذہب حقہ کی
ترویج ميں بهی پيش قدم رہے مذہبی کارواں کے مير کارواں عالم ، محدث عبد الله بن سعد
اشعری تهے جنهوں نے اس شہر کو آباد کرنے کے علاوہ اس زمين پر علمی و مذہبی مسائل
کے پودا بهی لگایا۔ اس کے آنے والے افراد جيسے زکریا بن آدم ، احمد بن اسحق قمی ، ابراہيم
بن ہاشم ، علی بن بابویہ (شيخ صدوق) وغيرہ نے اس پودے کے رشد و نمو کے لئے انتهک
سعی و کوشش کيں یہاں تک کہ یہ ننہا سا پودا توانا درخت ہو گيا ۔ اب نقل روایات کا سلسلہ
چل نکلا اس خلوص کے ساته یہ کام شروع کيا گيا تها کہ یہ بات مشہور ہو گئی کہ شہر قم کے
رجال حدیث مورد اطمينان ہيں۔
نقل حدیث کوئی آسان کام نہيں ہے اسی لئے علماء قم نے اس وادی ميں احتياط کا
دامن نہيں چهوڑا بغير فحص و جستجو کے کسی کی تائيد نہيں فرماتے تهے یہ لوگ اس
سلسلے ميں اس قدر سخت تهے کہ جو لوگ اس مورد ميں سادہ لوح یا سست عقيدہ تهے
انهيں اس شہر سے باہر کر دیا کرتے تهے ۔ دوسری طرف مرحوم ملاصدرا جيسے نادر الزمن
فلسفی اور حکيم کی اصفہان سے قم کی طرف ہجرت کی ۔ قم کی علم و حکمت کا یہ دوسرا
صفحہ ہے ۔ ان ولایت کے پروانوں کا اس شہر ميں یکے بعد دیگرے جمع ہونا جيسے حکيم فيض
کاشانی کا آنا اس شہر کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔
ان بزرگ ہستيوں کے آنے کے بعد اس شہر ميں باب العلم کی بيڻی کی چوکهٹ پر
فيضيہ نامی ایک مدرسہ کی سنگ بنياد رکهی گئی جس کے سبب قم کے شہریوں ميں فکری
رشد و نمو ہوا شمع علم کے روشن ہونے کے بعدظاہر ہے کہ علم کے پروانوں کو کون روک سکتا
ہے ہر طرف سے علم کے دوست افراد پروانہ وار اس شہر کی طرف بڑهنے لگے۔
انصاف نہ ہوگا اگر ہم اس جگہ ميرزا قمی جيسے نادرالرمن کا ذکر نہ کریں آپ کی انتهک
کوششوں نے علمی مناروں کو کافی بلند کيا۔
قاچاریہ حکومت کی بهی اس شہر پر خاص توجہ رہی ہے ۔( یہ ایک ترک قبيلہ کا نام ہے
جس نے ایران ميں قاچاری حکومت قائم کی تهی) قاچاریہ حکومت کے آخری دور اور پہلوی
حکومت کے ابتدائی دور ميں حوزہ علميہ نجف اشرف اپنی دیرینہ اور طولانی تاریخ کے ساته
علم دین کے عاشقوں کے اجتماعی کا مرکز بن گيا۔اب علم دوست حضرات کی تمام توجہ اس
مقدس شہر کی جانب مبذول ہو گئی ۔ حوزہ علميہ قم ميں ایک خاموشی سی چها گئی تهی
۔ ليکن اس شہر ميں مقيم علماء طلاب وطلاب کرام مرکز علم سے کافی دور ہونے کے بعد بهی
بزرگوں کی اس یاد کو مڻنے نہ دیا درس و تدریس کے جلسوں سے علم و فضيلت کے چراغوں
کو روشن رکها۔یہ ادا خالق اکبر کو اس قدر پسند آئی کہ اس نے اراک سے طلوع ہونے والے ایک
آفتاب علم یعنی آیة الله العظمیٰ حاج شيخ عبد الکریم حائری کو ١٣٠٠ ئه ميں بهيج دیا ۔ آپ کے
علمی جلسوں نے شہر قم کو ایک بار پهر چراغاں کر دیا طالب علموں اور دانش مندوں کے
جسموں ميں ایک تازہ روح بهونگ دی۔
آپ نے ایک اساسی قدم اڻهایا اور یہ کہ مدرسہ فيضيہ کے بالکل بغل ميں مدرسہ
دارالشفا کی بنياد رکهی یہ اس دور کے جوان طلاب کرام کی خوش نصيبی کی ایک واضح
نشانی ہے۔ انهيں چند سالوں ميں حوزہ علميہ قم کا نام حوزہ علميہ نجف اشرف کے برابر لکها
جانے لگا۔
آیة الله العظمیٰ شيخ عبد الکریم حائری کی وفات کے بعد اس حوزہ کا دور زرین ختم ہوتا
نظر آنے لگا کيوں کہ ظلم و جور کے بادل پہلوی حکومت کی شکل ميں اس حوزہ کے سر پر
منڈلانے لگے ليکن بہت جلد حضرت معصومہ کے طفيل علماء ثلاث مرحوم آیة الله حجت ،مرحوم
آیة الله سيد محمد تقی خوانساری اور مرحوم آیة الله صدرکی شکل ميں ایک تيز آندهی نے ان
بادلوں کو چهانٹ دیا۔
١٣٢٢ ئه ميں حضرت آیة الله حاج آقای حسين طباطبائی بروجردی کی ہجرت اور آپ کے
عميق دروس اور اس دور کے فضلا کے تمدن و تہذیب کے سلسلے ميں کئے جانے والے
اساسی کام قم حوزہ کی طاقت ميں اضافہ تها ، دوسری طرف مرحوم آیة الله العظمیٰ حاج
سيد ابوالحسن اصفہانی کی وفات ( شہر نجف اشرف ميں) کے بعد عالم تشيع کا مرجع قم بن
گيا کيوں کہ آیة الله بروجردی قم ہی ميں مقيم تهے لہٰذا اب طلاب علوم دینيہ کا رخ نجف سے
قم کی جانب ہوا آپ کے بابرکت نے حوزہ علميہ قم کو حوزہ نجف اشرف کے ہم ردیف کر دیا ،
گرچہ آپ کی وفات کے بعد حوزہ علميہ قم ميں کافی نشيب و فراز آئے اور طلاب دین ایک مرتبہ
پهر نجف اشرف کی جانب ہجرت کرنے لگے مگر اب حوزہ علميہ قم کی جڑ یں کافی مضبوط ہو
چکی تهيں لہٰذا کوئی خاص اثر نہ پڑا۔
پہلوی حکومت کے خلاف امام خمينی کے قيام اور ١۵ /خرداد ، ١٣۴١ هء ش ميں طلاب اور
عام لوگوں کا قتل عام حکومت کی طرف سے حوزہ پر اثر انداز ہوا۔علم دوست حضرات اس
پرآشوب ماحول ميں بهی اپنے ہدف سے دور نہ ہوئے تهے بلکہ ذمہ داری بڑه گئی تهی یہاں تک
کہ ١٣۵٧ ئه ش ميں امام خمينی کی عاقلانہ رہبری کے ساته انقلاب اسلامی کامياب ہو ا حوزہ
علميہ کی رونق ميں بهی کافی اضافہ ہوا۔
انقلاب اسلامی کے بعد عراق کی بعثی حکومت نے ایران پر ایک دیر پا جنگ لاد دی اور
حوزہ علميہ نجف پر ظلم و بربریت کا پہاڑ توڑ ا ۔ بعثی حکومت نے حوزہ علميہ نجف کے بلند
مرتبہ علماء کو شہيد کيا ، قيد خانوں ميں رکهاان کو شکنجہ دیااورکچه کو شہر بدر کياگيا ۔
ایسے ماحول ميں حوزہ علميہ قم نے ان علمی ہستيوں کو اپنے جوار ميں پناہ دی جس کے
نتيجہ ميں آج بهی اس ملکوتی شہر ميں علماء و فقہا کی ایک کثير تعداد موجود ہے حال حاضر
ميں تقریبا ساڻه ہزار و دانشمند حضرات درس و تدریس ميں مشغول ہيں۔
مراجع کرام کی زعامت اور ایک خاص نصاب جس ميں زیادہ تر کام خاص علوم پر ہو رہا ہے
جو ایک روشن مستقبل کی نوید دے رہے ہيں۔اس شہر مقدس ميں مدارس کی تعداد تقریبا
پچاس تک پہنچتی ہے۔
ان علمی مدارس کے علاوہ آج حوزہ علميہ قم ميں بہت زیادہ تعداد ميں تحقيقی ادارہ
بهی ہيں یہ ادارے خود ایک مستقل علمی دریا ہيں ۔حوزہ علميہ قم کے یہ تمام امتيازات حضرت
فاطمہ معصومہ کے برکتی وجود سے ہيں۔اور اس سلسلے ميں غير معمولی کوشش انقلاب
اسلامی اس اس کے قائد امام خمينی کی ہيں اور آج اس انقلاب اسلامی کے ناخدا رہبر معظم
حضرت آیة الله العظمیٰ سيد علی خامنہ ای دامت برکاتہ ہيں۔
آخر ميں ہم موت کی آغوش ميں سونے والے بزرگان کے علو درجات اور موجودہ حضرات
کی توفيقات ميں اضافہ کی دعا کرتے ہيں ۔
مرکز جہانی علوم اسلامی
انقلاب اسلامی کے بعد دنيا بهر سے علوم اسلاميہ کے دوستداران کسب علوم کی
خاطر اس مقدس شہر کی جانب عازم سفر ہوئے ۔ حوزہ علميہ قم کا یہ شعبہ رہبر معظم کی
نظارت ميں مرکز جہانی علوم اسلامی کے نام سے تاٴسيس ہوا۔ الحمد لله آج تقریبا دس ہزار
طلاب دنيا کے نوے ملک سے آکر اس مرکز کے زیر نظر حصول تعليم اور تحقيق ميں مشغول
ہيں۔
جامعة الزہراء (س)
انقلاب اسلامی کے ابتدائی دور ہی سے خواتين کے اسلامی علوم و معارف کے
تحصيلی اشتياق کو دیکهتے ہوئے قم کے حوزہ علميہ نے ایک شعبہ خواتين سے مخصوص “
جامعة الزہراء” کے نام سے تاٴسيس کيا یہ پہلا قدم تها اس سلسلے کا ۔ مگر اس کے بعد اس
جيسے بہت سے مدارس وجود ميں آئے۔
حال حاضر ميں بيس ہزار طالبات موجود ہيں جن ميں ایرانی و غير ایرانی دونوں ہيں جو
اس مدارس ميں علمی مدارج طے کر رہی ہيں۔
|