شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات
 

حرم مطہر کے دفاتر کے فون نمبر:۔
دفتر متولی محترم : ۶۔ ٧٧۴١۴٣۴
نمابر آستانہ: ٧٧۴١۴٣۵
دفتر معاون محترم : ٧٧١۴٣٧
امور بين الملل : ٧٧۴١۴۴١
مدیریت حرم: ٧٧۴٣٠۵٧
دفتر انتظامات صحن حرم : ٧٧۴١۴٨٧
مسجد اعظم: ٧٧۵۵٨٨٠
دفتر مدیر نظافت: ٧٧۴١۴٣٩
ميوزیم: ٧٧۴١۴٩١
کتب خانہ: ٧٧۴١۴۴٠
پيام آستانہ: ٢٩٢۴۴۴٨
دفترمجلہ کوثر: ٧٧٣۵۴٧٨
موٴسسہ زائر: ٢٠ ۔ ٩٣٧٣١۶
کتاب فروشی: ٧٧۴٢۵١٩
ہوڻل قم: ١۵ ۔ ٧٧١٩٨٠٨
ادارہ املاک: ٧٧۴١۴٨٩
معاونت فرہنگی: ٧٧٣۵٢٢۵

بعض قابل دید اماکن کا تعارف

بيت النور:۔
ميدان مير ( ۴۵ ميتری عمار یاسر) ميں ایک عزاخانہ اور مدرسہ ستيہ نامی واقع ہے جو حضرت فاطمہ معصومہ کی حيات طيبہ ميں موسی بن خزرج کا مکان تها ۔حضرت معصومہ نے اسی جگہ اپنی زندگی کے باقی پر برکت دن یاد خدا ميں بسر کيا۔

منزل امام خمينی:۔
یہ قابل دید جگہ محلہ یخچال قاضی خيابان معلم قم ميں واقع ہے ،یہ دو منزلہ عمارت تہہ خانہ پر مشتمل ہے عمارت کے جنوبی حصہ ميں صحن واقع ہے مکان کا نقشہ اس طرح ہے کہ وہاں واقع دو سيڑهيوں نے مکان کو دو اندرونی و بيرونی حصوں ميں تقسيم کر دیا ہے ۔ عمارت کے شرق ميں موجودہ کمرہ مراجع کرام و امام خمينی کے مخصوص جلسوں کے کام آتا تها ۔ عمارت کی ظاہری حالت دیکه کر اس بات کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمير اس قرن کے اوائل ميں ہوئی تهی۔
اس گهر کو امام خمينی نے ١٣٣۵ ء ه ش ميں خرادا اور ١٣۴۵ ئه ش تک آپ کا یہ گهر تها ليکن پہلوی حکومت نے جس وقت آپ کو در بدر کيا یہ گهر دفتر بن گيا۔
آج بهی یہ جگہ آپ کی یاد ميں باقی رکهی گئی ہے جہاں روز آنہ بہت سے لوگ دور دور سے اس کو دیکهنے کے لئے آتے ہيں۔

مدرسہ فيضيہ :۔
مدارس کی دنيا کا ایک مشہور ترین مدرسہ ہے تيرهویں قرن کے نصف اول ميں یہ مبارک مدرسہ مدرسہ آستانہ کا جاگزیں بنا۔
معتبر متون تاریخی کے مطابق یہ مدرسہ چهڻے قرن (ہجری قمری) کے اواسط ميں موجود تها ، دو طبقوں پر مشتمل یہ مدرسہ جس کے نيچے کے چاليس کمرے عصر قاچار سے تعلق رکهتے ہيں ۔ اوپری چاليس کمروں کی تعمير چودهویں قرن (ہجری قمری) ميں حضرت آیة الله العظمیٰ شيخ عبد الکریم حائری کی انتهک کوششوں کا نتيجہ ہے۔ مدرسہ کا سب پرانہ حصہ مدرسہ کے جنوبی ایوان ميں جو ٩٢٩ ئه ق خوبصورت کاشی کاری سے مزین تهے ۔مدرسہ حرم سے اتنا قریب ہے کہ حرم مطہر کے صحن عتيق کا دروازہ مدرسہ فيضيہ کی جانب سے ہے۔

مسجد جامع:۔
شہر قم کی دو ایوانی مساجد ميں سے ایک ہے جو بشکل مربع و مستطيل تعمير ہوئی ہے اس کے گنبد خانوں کا باہم متوازن اتصال چهڻے قرن (ہجری قمری) سے تعلق رکهتا ہے۔
مسجد امام حسن عسکری کے بعد یہ مسجد قم کی سب سے قدیمی مسجد ہے متون تاریخی کے مطابق اس کے گنبد کی تعمير ۵٢٩ هء ق ميں ہوئی جو فتح علی شاہ کا زمانہ تها ۔ اس بات کی تصدیق مسجد کے کتيبوں سے ہوتی ہے ۔
ليکن مسجد کا جنوبی ایوان اور گنبد کی رنگ کاری کا تعلق صفوی دور سے ہے ۔ مسجد کا شمالی ایوان اور شرق و غرب ميں واقع شبستان عصر قاچار کے شاہکار ہيں ۔

مسجد امام حسن عسکری (س):۔
مرکز شہر ميں حرم کے ابتدائی سڑک رودخانہ کے پہلو ميں واقع ہے مسجد کافی وسيع ہے یہ مسجد امام حسن عسکری عليہ السلام سے منسوب ہے ۔ تيسرے قرن ہجری ميں امام حسن عسکری (س) کے وکيل نے امام کے حکم سے اس مسجد کی تعمير کروائی ، یہ مسجد عظيم خصوصيات کی حامل ہے اس مسجد ميں آیة الله محمد تقی خوانساری کا درس بهی ہوتا تها ، جس درس ميں امام خمينی و آیة الله اراکی جيسی شخصيت شرکت فرماتی تهيں۔
آج بهی اس عظيم الشان مسجد ميں مستقل نماز جماعت اور مذہبی پروگرام منعقد ہوتے ہيں ۔ ١٣٧٧ ئه ش سے اس مسجد ميں پهر سے تعميری کام شروع کيا گيا ہے دوسری زمين کا بهی مسجد ميں اضافہ کيا گيا ہے ۔ جس کی وجہ سے اب ہزاروں افراد ایک وقت ميں مسجد سے شرفياب ہو سکتے ہيں۔

حرم مطہر کا ميوزيم:۔
یہ ميوزیم روئے زمين کے عظيم خزانوں پر مشتمل ہے ميوزیم بننے سے پہلے وقف و ہدئے کی چيزوں کی خزانہ نامی جگہ پررکهی جاتی تهيں ليکن اشياء کی حفاظت نے متولی حضرات کی نظر ميوزیم کی طرف مبزول کرائی۔
اسی وجہ سے آبان ماہ (شمسی مہينہ ) ١٣١۴ ئه ش ميں ميوزیم بنایاگيا جو ١٣۴٣ ئه شمسی تک باقی رہا اس کے بعد ان تمام نایاب کم نظير آثارکی حرم ہی سے ملحق ایک عمارت ميں نمائش لگائی گئی یہاں تک کہ اس ١٣٧٠ ئه ش ميں ایک مخصوص عمارت ميوزیم کے لئے آمادہ کی گئی اس عمارت کے بعد ميوزیم کو ایک حيات نو حاصل ہو ئی ١٩ /تير ١٣٧٢ ئه ش سے اعلیٰ پيمانے پر ميوزیم کا آغاز ہوا اس جدید یہ عمارت کی مساحت ایک ہزار ميڻر بشکل مربع ہے دو طبقہ اس عمارت کو چند شعبوں ميں تقسيم کيا گيا ہے ایک شعبہ نمائش کا ہے ایک شعبہ کا تعلق ميوزیم کے دفتری امور سے ہے اسی عمارت ميں ایک شعبہ بنایا گيا ہے جس کا کام ميوزیم کی موجودہ اشياء کی ہر طرح سے حفاظت ہے یہ عمارت حرم مطہر سے ملحق ایک وسيع ميدان ميں واقع ہے جسے ميدان آستانہ کہا جاتا ہے۔

مسجد جمکران:۔
حسن بن مثلہ بيان کرتے ہيں : سہ شنبہ بتاریخ ١٧ /رمضان المبارک ٢٩٣ هء آدهی رات گزر چکی تهی ميں اپنے غریب خانہ ميں محو خواب تها اسی اثنا مجهے ایک جماعت نے یہ کہہ کر اڻهایا کہ تمهيں امام زمانہ نے یاد کيا ہے۔ ميں خو کو آمادہ کرکے دروازہ پر پہنچا اور ان نورانی ہستيوں کو سلام کيا ان لوگوں نے ميرے سلام کا جواب دیا پهر ميں ان کے ہمراہ اس جگہ پر پہنچا جہاں آج مسجد جمکران واقع ہے۔
ميری نظر ایک تخت پر پہنچی جس پر نہایت نفيس قالين بچها ہوا تها اور اس پر دو نورانی شخصيت تشریف فرما تهيں۔ جن ميں ایک کی عمر مبارک تيس سال رہی ہوگی تکيہ سے ڻيک لگائے بيڻهے ہوئے تهے ، اسی پرنور شخصيت کے قریب ہی ایک سن رسيدہ نورانی شخصيت بهی تشریف فرما تهی جن کا سن مبارک تقریبا ۶٠ /سال رہا ہوگا ان بزرگ کے ہاتهوں ميں ایک کتاب تهی جسے وہ اس جوان کے سامنے پڑه رہے تهے۔ تخت کے اطراف ميں پروانوں کی طرح لوگوں کی ایک جماعت تهی جن کی تعداد ساڻه کے قریب رہی ہوگی۔ان ميں سے بعض سفيد اور بعض سبز لباس ميں یاد خدا ميں مصروف تهے۔
ان نورانی شخصيتوں ميں سے جن کا سن زیادہ تها یعنی حضرت خضر (س) نے مجهے بيڻهنے کے لئے کہا اور پهر امام وقت نے مجهے ميرے نام سے مخاطب کيا اور فرمایا: جاؤ اور حسن مسلم سے کہو کہ تم اس زمين پر جو بهی کام کرتے ہو وہ صحيح نہيں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمين پر کسی طرح کا کام کرنے کی اجازت نہيں ہے کيوں کہ اس زمين کو خدا وند عالم نے دوسری زمينوں پر فضيلت دی ہے۔
اس جگہ پر ایک مسجد بنائی جائے،حسن مسلم سے کہو کہ اگر ہمارے حکم کی تعميل نہ کی تو جس طرح دو جوان بيڻوں کا غم دیکها ہے اسی طرح پهر مشکلات کے ذریعہ خدا وند عالم انهيں آگاہ کرے گا۔
حسن بن مثلہ کہتے ہيں : ميں نے عرض کيا مولا کتنا اچها ہوتا اگر ميری بات پر آپ کی جانب سے کوئی تائيد ہوتی تاکہ اسے سچ ہونے کا یقين ہو جائے ۔ امام عليہ السلام نے فرمایا: تم سيد ابو الحسن الرضا ( یہ شہر قم کی بزرگ شخصيت ميں سے تهے ) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ وہ تمهارے ہمراہ جائيں۔ حسن مسلم سے ہمارا حق لے کر ایک مسجد بناؤ ۔پهر امام نے فرمایا: لوگوں سے کہو اس جگہ کا احترام کریں اور جب یہاں آئيں تو چار رکعت نماز مذکورہ طریقہ پر پڑهيں۔ دو رکعت نماز احترام مسجد مثل نماز صبح بجا لائيں جس کی ہر دو رکعت ميں سورہ “حمد” کے بعد سات مرتبہ سورہ “ قل هوالله احد” پڑهيں اور رکوع و سجود ميں ذکر رکوع اور سجود بهی سات مرتبہ پڑهيںاس کے نماز تمام کریں۔
پهر دو رکعت نماز صاحب الزمان (س) پڑهےں ،او رجب سورئہ حمد پڑه رہے ہوں اور“اِیَّاکَ نَعبُْدُ وَ اِیَّاکَ نَستَْعِينُْ” پر پہنچےںتو اسے ١٠٠ /مرتبہ پڑهيںاس کے بعد سورئہ حمد مکمل کرےں اور اس کے بعدسورہ “قل هو اللّٰہ احد” پڑهيں۔ دوسری رکعت بهی اسی طرح پڑهےں اور ہر رکوع و سجدہ ميں اس کا ذکر سا ت مرتبہ پڑهےں اور جب نماز تمام ہو جائے حمد پروردگار کرےں اور حضرت فاطمہ زہرا (س)کی تسبيح پڑهےں اور تسبيح پڑهنے کے بعد سر سجدہ ميں رکهےں اور ١٠٠ /مرتبہ محمد وآل محمد پر صلوات بهيجیں۔
اور اس وقت حضرت نے اس طرح فرمایا : “فَمَن صَلاّ هٰا فَکَاٴَ نَّما صَلیّٰ فِی البَْيتِْ العَْتِيق“َ جس نے بهی یہ دو رکعت نماز پڑهی گویا اس نے خانہ کعبہ ميں نماز پڑهی ہے۔ حسن بن مثلہ کہتے ہيں : جب امام کا بيان ختم ہو اتو مجه سے فرمایا: اب جاؤ ابهی ميں آپ کی خدمت سے رخصت ہو رہا تها کہ مجهے پهر صدا دی اور کہا: ایک بکری جس کی نشانياں یہ ہيں اسے جعفر کاشانی کے گلہ سے خرید نا اور کل شب جو ١٨ /رمضان ہے اسے اسی مکان پر لاکر ذبح کرنا ۔ اس کا گوشت بيماروں کے درميان تقسيم کرنا تاکہ خدا وند عالم انهيں شفا عطا فرمائے۔
امام (س) کا بيان سننے کے بعد جيوں ہی ميں چلا امام نے پهر فرمایا:ميں سات ( یا ستّردن) اسی جگہ ہوں۔
گهر لوڻنے کے بعد صبح کے انتظار نے مجهے سونے نہ دیا ، صبح کے پہلے ہی پہر ميں اپنے دوست “ علی المنذر ” کے گهر پہنچا اور اسے پورے واقعہ سے آگاہ کيا پهر اپنے دوست کے ہمراہ اسی جگہ پر پہنچا جہاں کل رات مجهے لے جایا گيا تها ۔ خدا کی قسم جس طرح سے امام نے گزشتہ رات فرمایا تها ، اس زمين کے چاروں طرف زنجير اور کيلوںلگا ہوا دیکها۔
ميں بہت تيزی کے ساته شہر قم سيد ابو الحسن الرضا کے گهر کی طرف چل پڑا ان کے دولت کدے پر پہنچ کر دروازے پر موجود افراد سے ميںنے اپنا تعارف کرایا تو ان لوگوں نے کہا تمهارا انتظار تو سيد ابو الحسن الرضا صبح سے کر رہے ہيں ۔ گهر ميں داخل ہونے کے بعد ميں نے سلام کيا ۔ سيد ابو الحسن الرضا نے ميرا والہانہ استقبال کيا اور اس سے پہلے کہ ميں کچه عرض کروں وہ گویا ہوئے حسن مثلہ ميں نے کل رات ميں خواب ميں دیکها کہ کوئی مجه سے کہہ رہا ہے حسن بن مثلہ نامی ایک شخص جمکران سے تمهارے پاس آئے گا اس کی بات پر بهروسہ کرنا کيوں کہ وہ جو کچه کہے گا وہ ميری بات ہے اس کی باتوں کو نظر انداز نہ کرنا۔
بتاؤ بات کيا ہے ۔ حسن بن مثلہ کہتے ہيں ميں نے پورا واقعہ تفصيل کے ساته ان کی خدمت ميں بيان کيا واقعہ تمام ہونے کے بعد بلافاصلہ گهوڑے آمادہ کئے گئے اور ہم دونوں جمکران کی طرف نکل پڑے وہاں پہنچے تو جعفر کاشانی نامی گلہ بان پہلے ہی سے موجود تها ہم اس بکری کی طرف لپکے جس کی نشاندہی امام (س) نے کی تهی اسے پکڑنے کے بعد جعفر کاشانی کے پاس آئے اس نے بکری دیکه کر کہا کہ اس سے پہلے ميں نے اس بکری کو کبهی نہيں دیکها صبح سے ميں اسے پکڑنا چاہ رہا تها ليکن یہ ميری گرفت ميں نہ آسکی جب کہ آپ حضرات نے اسے بآسانی پکڑ ليا۔
حسن بن مثلہ کہتے ہيں کہ بکری لے کر ميں اسی جگہ پر پہنچے جہاں کل رات بتایا گيا تها اسے اسی جگہ ذبح کيا اور اس کے گوشت کو مریضوں کے درميان تقسيم کيا پهر اس جگہ پر لکڑی کی ایک مسجد بنائی ۔ سيد ابو الحسن الرضا نے زنجيروں کو جمع کيا اور اسے اپنے گهر لے جا کر ایک صندوق ميں بند کر دیا ۔ جس کسی مریض نے اپنے کو اس زنجير سے مس کيا خدا وند عالم نے اسے شفا عطا فرمائی ۔ سيد ابو الحسن الرضا کی وفات کے بعد جب اس صندوق کا قفل کهولا گيا تو وہاں کيلوں اور زنجيروں کا نشان تک نہ ملا۔( نجم الثاقب( اس عظيم الشان مسجد ميں آج ہزاروں عقيدت مند سر نياز خم کرکے کاسہ گدائی پر کرتے ہيں۔
مسجد کی عمارت گزشتہ کئی صدیوں سے بدلتی رہی اور آج اس مسجد کا شمار ایران کی بڑی مساجد ميں ہوتا ہے ۔ شمع ولایت کے پروانے ہر ہفتہ جمع ہو کر شمع حيات کے ظہور کی دعا مانگتے ہيں۔
مسجد جمکران دو بہاڑیوں کے درميان قم و کاشان کے راستے ميں واقع ہے ۔ ١٣٧٩ ئه ش ميںآیة الله وافی، رہبر معظم انقلاب اسلامی کے حکم سے مسجد کے اولين متولی اور نگراں بنائے گئے۔