بارگاہ فاطمی (س) پر ایک نگاہ
حرم مطہر کا گنبد :
موسی بن الخزرج کے ایک حصيری سائبان بنانے کے بعد جو سب سے پہلا گنبد فاطمہ
معصومہ سلام الله عليہا کی تربت پاک پر برافراشتہ ہوا وہ برجی شکل کا ایک قبہ تها کہ جو
حضرت زینب بنت امام جواد عليہ السلام کے ہاتهوں اینٹ و پتهر اور چونے کے ذریعہ اواسط قرن
سوم ميں بنایا گيا ۔ زمانے کے گذر نے اور حضرت معصومہ عليہا سلام کے جوار ميں کچه علوی
خواتين کے دفن ہونے کے بعد اس گنبد کے پاس دوسرے دو گنبد بنائے گئے ۔ جس ميں تيسرا
گنبد مدفن حضرت زینب بنت امام محمد تقی عليہ السلام قرار پایا ۔ یہ تين گنبد ۴۴٧ هء تک باقی
تهے ۔ اسی سال مير ابولفضل عراقی ( وزیر طغرل کبير ) نے شيخ طوسی کے تشویق دلانے پر
ان تين گنبدوں کے بجائے ایک بلند و بالا گنبد بنایا جس کا داخلی قطر تقریبا ١١ اور اونچائی ١۴
ميڻر تهی ۔ اس گنبد کو نگين نقش و نگار اور کاشی کاری کرکے بنایا تها جس ميں ایوان اور
حجرے نہ تهے یہ گنبد تمام سادات کے قبور پر محيط تها ۔
٩٢۵ هئميں شاہ بيگی بيگم دختر شاہ اسماعيل کی ہمتوں سے اسی گنبد کی تجدید
بنا ہوئی جس ميں معرق کاشی استعمال ہوا اس ميں ایوان اور دو منارے نيز صحن ( عتيق ) بنایا
گيا ۔ گنبد کی خارجی سطح معرق کاشی سے آراستہ ہوئی ۔
یہ گنبد ١٢١٨ ه ء ميں زر نگار اینڻوں سے مزین کيا گيا ۔ جس ميں ١٢ / ہزار سنہری
اینڻيں استعمال کی گئيں ۔ اس گنبد کی بلندی سطح زمين سے ٣٢ اور چهت کی سطح سے
٢٨ ۔ اور اس کا قطر ١٢ ميڻر / ٣۵ ، اور اندر سے ۶۶ / ١۶ ميڻر تهی ۔ اس کا محيط باہر سے ۶
اور اس کی لمبائی ( لمبی گردن کی طرح ) ۶ ميڻر تهی ۔
چهت کی سطح سے نچلا حصہ نوے ٩٠ سينڻی ميڻر تک تراشے ہوئے اینڻوں سے اور
اس کے اوپر ایک ميڻر خشتی فيروزہ والی کاشی اس کے اوپر ( تمام دیوار ) سنہری اینڻوں سے
مزین ہے گنبد کے نچلے حصے پر ایک کتبہ جو فتح علی خان صبا کے اشعار ہيں جو خط
نستعليق ميں لکهے ہيں ۔ # ١
بارگاہ ملکوتی کریمہ اہل بيت عليہا سلام کے گنبد کا یہ ایک تاریخی خاکہ تها جو شروع
سے لے کر آج تک اسلامی ہنر اور معماری کا شاہکار ہے نيز عتبات عاليات کی عمارتوں ميں کم
نظير ہے
٢ ( حضرت کا مرقد : (
حضرت معصومہ سلام الله عليہا کا مرقد ( بقعہ مبارکہ کے در ميان ) بلندی کے اعتبار
١ ميڻر ہے ۔ جو بہترین نفيس و خوبصورت زرفام ( / ٢ در ٢٠ / ١١ اور طول و عرض ٩۵ / سے ٢٠
آغاز قرن ہفتم ) کاشيوں سے مزین ہے ۔
۴ ميڻر ہے ۔ جو / ۴ در ۴٠ / مرقد منور کے ارد گرد دو ميڻر دیوار اور طول و عرض تقریبا ٨٠
٩۵٠ ء ه ميں بنایا گيا ہے اور یہ مرقد معرق کاشی سے آراستہ ہے ۔ اس وقت یہ دیوار ایسی
ضریح ہے جس ميں چاندی پوش چهوڻی چهوڻی کهڑکياں ہيں ۔ # ٢
۶٠۵ ئه ميں امير مظفر احمد بن اسماعيل خاندان مظفر کے مورث اعلیٰ اس زمانے کے
بزرگ ترین استاد کاشی نے محمد بن ابو طاہر کاشی قمی کو مرقد مطہر پر رنگا رنگ کاشيوں
کے لگانے پر بر انگيختہ کيا ۔ وہ آڻه سال تک اس کام ميں مشغول رہے ۔ آخر کار ۶١٣ ئه ميں
کاشی کاری تمام ہوئی ٩۶۵ ئه ميں شاہ طہماسب صفوی نے سابق مرقد کے ارد گرد اینڻوں
کی ایک ضریح بنوائی جو ہفت رنگ کاشيوں سے آراستہ تهی جس ميں نقش و نگار کے ساته
ساته معرق کتبے بهی تهے نيز اس کے اطراف ميں دریچے بهی کهولے گئے تهے تا کہ مرقد
کی زیارت بهی ہو سکے اور زائرین اپنی نذریں بهی مرقد کے اندر ڈال سکيں ۔ # ٣ اس کے بعد
مذکورہ شاہ کے حکم سے سفيد و شفاف فولاد سے اسی اینڻوں والی ضریح کے آگے ایک
١٠ تهی ۔ جس ميں / ۴،اور بلندی ٢ / ٢۵ ،اور چوڑائی ٧٣ / ضریح بنائی گئی جس کی لمبائی ١٠۵
٢٠ مضلع کهڑکياں تهيں ١٢٣٠ ہجری ميں فتح علی شاہ نے اس ضریح کو نقرہ پوش کر دیا تها
جو طول زمان سے فرسودہ ہو گئی تهی لہٰذا ١٢٨٠ ہجری ميں اس زمانے کے متولی کے حکم
سے ضریح کی شکل بدل دی گئی اور موجودہ ضریح کو ( مخصوص ہنری ظرائف و شاہکار کے
ساته ) اس کی جگہ پر نصب کيا گيا جو آج تک حضرت فاطمہ معصومہ عليہا السلام کی نورانی
تربت پر جلوہ فگن ہے ۔ # ۴
--------------
١۔تربت پاکان ج/ ١ص/ ۵۶ وص/ ۵٠ موٴلف مدرس طباطبائی
٢۔گنجينہ آثار قم ج/ ١ص/ ۴١۶
۴ ۔ مدرک سابق ص/ ۴٧۵
٣ (حرم مطہر کے ایوان (
ايوان طلائی
ایوان طلاء اور اس کے بغل ميں دو چهوڻے چهوڻے ایوان روضہ مقدسہ کے شمال ميں
واقع ہيں ۔ جنهيں ٩٢۵ هء ميں گنبد کی تجدید بنا صحن عتيق اور گلدستون کے بناتے وقت شاہ
٩٨ ميڻر اور / اسماعيل صفوی کے زمانے ميںبنایاگيا۔ یہ ایوان طول وعرض کے اعتبار سے ٧٠
١ ميڻر کی / بلندی کے لحاظ سے چودہ ميڻر ہے ۔ دیوار کا نچلا حصہ ( تين طرف سے ) ٨٠
بلندی تک آڻه گوشہ فيروزے والے کاشی کے چهوڻے چهوڻے ڻکڑوں سے آراستہ ہے اس کے
درميان کتهئی رنگ کے چهوڻے چهوڻے ڻکڑے ہيں جو کاشی کے حاشئے کو ( لاجوردی نقش و
نگار ) چاروں طرف سے گهيرے ہيں ان کے اوپر ایک کتبہ ہے جس کا ایک سوم سفيد لاجوردی
زمين ميں ایوان کے کے ارد گرد دکهائی دیتا ہے جس کا متن نورانی حدیث “ الا و من مات علی
حب آل محمد مات شہيدا ” تا آخر حدیث ۔
اس کتبے کے بعد ایوان کادو ميڻر کے بلندی تک معرق کاشيوں سے آراستہ ہے جو عہد
صفوی کے آغاز کا شاہکار ہے ۔ اس کے بعد ہر طرف کتبہ دکهائی دیتا ہے اور اس کے اوپر ایوان
کی چهت زرفام اینڻوں سے مزین ہے ۔ # ٢
دوسرے دو ايوان
ایوان طلا کے دونوں طرف ایوان ہيں ۔ جن کی بلندی دس اور چوڑائی دو اور دو نوں طرف
کا فاصلہ پانچ ميڻر ہے ۔ یہ صفوی دور کی عمارتيں ہيں اس کا سارا جسم ایوان طلا کی طرح
معرق کاشيوں سے آراستہ ہے ۔
ايوان آئينہ
رواق مطہر کے شرقی جانب بهی ایوان طلا کی طرح ایک بلند و بالا ایوان ہے جس کی
٨٧ ميڻر ہے آئينہ کاری کی وجہ سے ایوان آئينہ کے نام سے مشہور ہے ۔ /٧ ، لمبائی چوڑائی ٩
دیوار کے نيچے ایک ميڻر کی بلندی تک سنگ مرمر ہے جس کا ہر حصہ پتهر کے ایک ڻکڑے سے
آراستہ ہے اور اس کے اوپر سارے حصے ميں چهت تک آئينہ کاری ہے ۔
ایوان کے بيچ ميں ایک سنگ مرمر کا کتبہ ہے جس کی چوڑائی تقریباً ٣٠ سينڻی ميڻر
ہے جس پر آیہ شریفہ “ الله نور السموات و الارض ۔۔۔ ” منقوش ہے ۔ شرقی رواق کے در ميان
ایک چهوڻا سا ایوان ہے جو اصلی ایوان کی طرح مزین ہے جس کے صدر دروازے پر حدیث شریف
“ من زار قبر عمتی بقم فلہ الجنة ” کالے حروف سے خط نستعليق ميں دیکهی جاسکتی ہے ۔
یہ شگفت انگيز ہنری مجموعہ قاجاری دور کے ارزشمند ہنر کا شاہکار ہے ۔ ( جو استاد حسن
معمار قمی کے ہاتهوں تشکيل پایا تها ) جو صحن نو کے ساته ميرزا علی اصغر خان صدر اعظم
کے دستور پر بنا تها ۔ # ٣
--------------
٢۔ تربت پاکان ج / ١ ، ص / ۶٢
٣ ۔ تربت پاکان ج / ١ ، ص / ٢٩
۴ ( صحن عتيق کے منارے (
) ١٧ / صحن عتيق ميں بر فراز ایوان طلا دو رفيع و بلند منارے ہيں جن کی بلندی ۴٠
١ ہے ۔ منارے کی کاشی پيچ و خم کے ساته مزین ہے / چهت کی سطح سے ) اور قطر ۵٠
جس کے در ميان اسماء مبارک “ الله ” “ محمد ” “ علی ” بخوبی پهڑے جاسکتے ہيں منارے کے
بالائی حصے کو تين ردیف ميں رکها گيا ہے جس کے نيچے بخط سفيد کتبہ ہے جس پر آیہ
شریفہ “ ان اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی ” ( غربی منارے ميں ) “ یا ایها الذین آمنو صلوا
عليہ و سلمو تسليما ” ( شرقی منارے ميں ) مرقوم ہے ۔
یہ منارہ محمد حسين خان شاہسون شہاب ملک حاکم قم کے حکم سے ١٢٨۵ ء ه ميں
بنایا گيا ہے جس کا قبہ ١٣٠١ ء ہجری ميں طلا کاری کيا گيا ہے ۔
ايوان آئينہ کے منارے
بر فراز پایہ ایوان دو منارے ہيں جن ميں سے ہر ایک چهت کی سطح سے ٢٨ ، ميڻر اور
٣ ميڻر ہے یہ آستانے کی بلند ترین عمارت ہے ۔ یہ منارہ سطح بام سے تين ميڻر / گهرائی ٣٠
٢ ميڻر تک / اور آڻه متساوی الاضلاع پهر آدها ميڻر تزئين پهر ایک ميڻر لمبا ہے ۔ اس کے بعد ۵
بارہ برجستہ گوشے ہيں اور تمام کے بعد ( لکڑی کے منارے کے نيچے ) ایک استوانہ ہے جس
پر ایک کتبہ ہے اس کی چوڑائی تقریباً ایک ميڻر ہے ان مناروں ميں سے ایک کے کتبے کا متن یہ
ہے : “ لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظيم ” ۔ اور دوسری طرف : “ سبحان الله و الحمد لله و لا
الہ الا الله و الله اکبر ” ہے ۔ پهر ایک بلند عمارت ہے جس کی چوڑائی تقریبا ایک ميڻر ہے اس کے
اوپر ایک چوبی منارہ ہے جس کا قبہ موجود ہے دونوں منارے اوپر سے نيچے تک گرہی کاشی
سے مزین ہيں جن کے در ميان خداوند عالم کے نام دیکهے جاسکتے ہيں ۔ # ١
--------------
١ ۔ آیة الله العظمیٰ فاضل لنکرانی
۶ ( حرم مطہر کی مسجدیں (
مسجد بالاسر
مسجد بالا سر حرم مطہر کے وسيعترین علاقوں ميں شمار ہوتی ہے ۔ جہاں عمومی
مجلسيں ، نماز جماعت بر قرار ہوتی ہے صفوی دور ميں یہ علاقہ چوڑائی ميں ۶ ، اور لمبائی
ميں ٣۵ ، ميڻر آستانہ کے مہمانسرا ميں شمار ہوتا تها ۔ قاجاری دور ميں تقی خان حسام
الملک فرزند فتح شاہ کی طرف سے اس عمارت کی نو سازی ہوئی اور بصورت مسجد اس ميں
دو گنبد بنائے گئے جس کا شمار آستانے کے بزرگترین علاقوں ميں ہوا ۔
١٣٣٨ ء ه ميں جو مسجد کے غربی حصے ميں زمين تهی اس کو ملانے سے اس کی
مساحت ١۴ در ۴٨ ميڻر ہوگئی جو تين محکم اینڻوں کے ٣ در ٢ ميڻر ستون پر استوار ہے ۔
یہ بنائے مقدس اپنی جگہ اسی طرح برقرار تهی ليکن جب مسجد اعظم ایک خاص
وسعت و زیبائی کے ساته بنائی گئی تو چونکہ مسجد بالا سر کی قدیمی عمارت مسجد اعظم
اور حرم مطہر کے درميان خوشنما نہيں تهی لہٰذا متولی وقت آقائے سيد ابو الفضل توليت نے
اس کے نو سازی کا اقدام کيا ۔ قدیم عمارت کو زمين کی سطح سے ہڻا دیا گيا اور اس کی جگہ
پر ایک بلند و بالا عمارت ١۴ در ۴٨ ميڻر ( بدون ستون ) معماری کی بے شمار خصوصيات کے
ساته بنائی گئی جو آج حرم مطہر کی خوبصورت و عمدہ عمارت ميں شمار ہوتی ہے ۔
مسجد طباطبائی
مسجد طباطبائی کی گنبد پچاس ستونی ہے جو قدیم زمانے ميں صحن کی جگہ روضہ
مطہر کے جنوبی حصے ميں بنائی گئی ہے یہ گنبد بيچ ميں چوڑائی کے اعتبار سے ١٧ ، اور
بلندی کے لحاظ سے ١٧ ميڻر ہے ۔ جس کی مساحت ميں اضافہ ہونے کی وجہ سے اس کے
٢۴ ميڻر ہے ۔ اس مسجد ميں بشکل مثلث رواق ہيں جس کے نچلے / ٢۴ در ٢٠ / اطراف ٨٠
٣ کی / حصے ١۵ /ميڻر ہےں ۔ اس کے گنبد کو اینڻوں کی بنياد پر ٢ در ٢ ، ميڻر کے قطر ٣٠
بلندی ميں بنایا گيا ہے ۔ پهر تمام بنيادوں کو نيچے سے تراشا گيا اور ستونوں کے چاروں گوشے
سے ایک ستون ( بہت اچهے مسالے کی مدد سے جس ميں سيمنٹ ، چهڑ ، لوہا و غيرہ
مخلوط تها ) اوپر لایا گيا پهر اندر سے ان چاروں ستونوں کو یکجا کر دیا گيا ۔ اور اس طرح یہ
عظيم گنبد ٣٢ سے ۴٠ ۔ ستونوں پر بر قرار ہوا ان ستونوں کے اوپر جن پر سيمنٹ تهی مشينوں
سے تراشے ہوئے سنگ مر مر چوڑائی ميں دس اور بلندی ميں پچاس سينڻی ميڻر تک مزین
کئے گئے ۔ اس طرح سب کے سب ستون سنگ مر مر کے لباس سے مزین ہو گئے اور اس
گنبد کے ستونوں کے نيچے مدرجی شکل ميں بُرُنز ( ایک فلز جو سونے کی طرح ہوتا ہے ) سے
صيقل کرکے اس کی زیبائی ميں ایسا اضافہ کيا گيا کہ اس ميں چار چاند لگ گئے ۔
اس بلند گنبد کے ستونوں کی تعداد رواق اور اطراف کے ستونوں کو ملا کر پچاس
ستونوں تک پہنچتی ہے ۔ اس بلند و بالا اور با عظمت مسجد کے بانی حجة الاسلام جناب
محمد طباطبائی فرزند آیة الله حسين قمی ہيں ۔ اس عمارت ميں تقریباً ١٠ سال صرف ہوئے ۔ (
١٣۶٠ ء ه سے لے کر ١٣٧٠ ء ه تک (
اس مکان مقدس کے شمال غربی علاقے ميں بزرگ علماء و شہدا کی قبریں ہيں مثلا
آیة الله ربانی شيرازی ، شہيد ربانی املشی ، شہيد محمد منتظری ، شہيد آیة الله قدوسی ،
شہيد محلاتی جس نے اس مکان مقدس کی معنویات ميں اور اضافہ کردیا ۔
مسجد اعظم
”لمسجد اسس علی التقوی من اول یوم احق ان تقوم فيہ “
با عظمت دینی آثار ميں سے ایک عظيم اثر مسجد اعظم ہے جو عالم تشيع علی
الاطلاق مرجع تقليد آیة الله العظمیٰ بروجردی قدس سرہ کی بلند ہمتی کا ثمرہ ہے ۔ یہ مسجد
حضرت فاطمہ معصومہ سلام الله عليہا کے حرم کے نزدیک زائروں کی آسانی کے لئے بنائی
گئی ہے ۔ یہ بلند و بالا عمارت آستانہ رفيع فاطمی کے کنارے ایک فرد فرید مسجد ہے ۔
--------------
١ ۔ آیة الله العظمیٰ فاضل لنکرانی
١١ / ذیقعدہ ١٣٧٣ ء ہجری روز ولادت با سعادت حضرت علی بن موسیٰ الرضا عليہما
السلام کو ایک خاص جاہ و حشم کے ساته اس مسجد کی بنياد رکهی گئی ۔
مسجد کا معماری خاکہ :
مسجد کی مجموعی مساحت تقریبا ١٢٠٠ مربع ميڻر ہے ۔ پوری عمارت محکم مسالوں (
جس ميں سيمنٹ چهوڻے چهوڻے پتهر ، لوہے کے چهڑ و غيرہ استعمال کئے گئے ہيں ) سے
بنائی گئی لہٰذایہ مسجد از نظر استحکام اسلامی عمارتوں ميں کم نظير شمار ہوتی ہے ۔
مسجد ميںچار شبستان ( حال ) ہيں جس ميں گنبد کے نيچے والے شبستان کی مساحت ۴٠
مربع ميڻر اور اس کے دونوں طرف ہر شبستان کی مساحت ٩٠ مربع ميڻر ہے ۔ نيز مسجد کے
شمالی حصے ميں گهڑی کے نيچے ایک شبستان ہے جس کی مساحت ٣٠٠ مربع ميڻر ہے ۔
تمام شبستانوں کی چهتوں کی بلندی اس کی سطح سے تقریبا ١٠ ميڻر ہے ۔ مسجد کے
غربی حصے ميں بيت الخلاء اور مسجد کا وضو خانہ ہے نيز خادموں کے لئے ایک حال بنام “
آسائشگاہ ” ہے ۔ اسی طرح مسجد کے غربی حصے ميں ایک لائبریری بنائی گئی ہے ۔ جس
ميں دو حال ہيں ۔ ایک مطالعہ کے لئے اور دوسرا حال کتابوں کا مخزن ہے ۔ لائبریری ميں داخل
ہونے کا راستہ مسجد اعظم ميں داخل ہونے والی راہرو سے ہے ۔
اس مسجد ميں ایک بڑا سا صحن ہے جس ميں وارد ہو نے کے متعدد دروازے ہيں ۔ صحن
ميں ایک خوبصورت حوض ہے جس نے اس مکان مقدس کو خوش منظر بنا دیا ہے ۔ مسجد
اسلامی معماری کی روش پر بنی ہے ۔
اس مسجد ميں ایک بڑا سا گنبد ہے جس کا قطر ٣٠ مربع ميڻر اور بلندی سطح بام سے
١۵ مربع ميڻر ہے اور شبستان سے اس کی بلندی ٣۵ مربع ميڻر ہے اس کے بلند وبالا گلدستے
سطح بام سے ٢۵ مربع ميڻر اور سطح زمين سے ۴۵ مربع ميڻر ہيں اسی طرح گهنڻی بجنے
والی خوبصورت گهڑی پر ایک چهوڻا سے گنبد ہے جو چاروں طرف سے دکهائی دیتا ہے یہ
مسجد تزین اور کاشی کاری کے اعتبار سے آخری صدی ميں اسلامی ہنر کا ایک عظيم نمونہ
شمار ہوتی ہے۔
اب یہ مقدس مکان محققين کی تحصيل کے لئے ایک مناسب ترین مکان ہوگيا ہے کيونکہ
ایام تحصيلی ميں اکثر و بيشتر مراجع تقليد اسی مقدس مکان ميں درس دیتے ہيں اور طلاب و
فضلاء کی کثير تعداد ان کے علمی فيوض سے بہرہ مند ہوتی ہيں ۔ اسی طرح مختلف مذہبی
پروگرام جو مسجد کی شان ہے بڑی شان و شوکت کے ساته برپا ہوتے ہيں ۔
٧ ( حرم مطہر کے صحن نو ( اتابکی ( (
صحن نو ایک وسيع و خوش منظر و قابل دید بنا ہے جس نے اپنی خاص معنویت کے
ذریعہ بارگاہ فاطمی کی جلالت و عظمت ميں اضافہ کردیا ہے یہ خوبصورت صحن چار ایوانوں
شمالی جنوبی شرقی غربی پر مشتمل ہے ۔ اس کا شمالی ایوان آستانے کے ميدان کی طرف
سے وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ اور جنوبی ایوان خيابان موزہ ( ميوزیم روڈ ) سے وارد ہونے کا
راستہ ہے ۔ اور شرقی ایوان خيابان ارم ( ارم روڈ ) سے وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ ان تمام ایوانوں
ميں ہنری و معماری کے ظریف آثار ہر فنکار وہنر شناس کی نگاہوں کو اپنی طرف کهينچ ليتے
ہيں۔
وہيں غربی ایوان طلا ہے جو صحن نو سے روضہ مقدسہ ميں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔
ان با جلالت ایوانوں ( خصوصا ایوان آئينہ ) کے وجود اور صحن مطہر کے وسط ميں بيضوی شکل
کے حوض ( جس کی اپنی خاص خصوصيت ہے ) نے اس مقدس مکان کی زیبائی ميں چار چاند
لگا دیا ۔
یہ صحن مرزا علی اصغر خان صدر اعظم کے آثار ميں ہے ۔ جس کا تعميری کام ٨/ سال
کے طویل عرصے تک چلا۔ ( ١٢٩۵ ه سے ١٣٠٣ ه ) اس صحن ميں بہت سارے علماء کی
قبریں ہيں ۔ مثلا مشروطيت کے زمانے ميں شہيد ہونے والے بزرگوار آیة الله شيخ فضل الله نور
شہيد آیة الله مفتح ، بزرگ عالم شيعہ قطب الدین راوندی ۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام الله عليہا کے زائروں کے لئے سزاوار ہے کہ ان راہ امامت و
ولایت کے فداکاروں کی زیارت سے مشرف ہوں اوران کی زیارت سے کبهی غافل نہ ہوں ۔
صحن عتيق ( صحن قديم(
صحن عتيق جو روضہ مبارکہ کے شمال ميں واقع ہے وہ ایک سب سے پہلی عمارت ہے
جو قبہ مبارکہ پر بنائی گئی ہے۔
اس صحن کو تين خوبصورت ایوان اپنے گهيرے ميں لئے ہوئے ہيں ایک وہ با عظمت ایوان
جو جنوب ميں واقع ہے جو وہی ایوان طلا ہے جو روضہ مطہر سے صحن ميں وارد ہونے کا راستہ
ہے ۔ ایوان غربی جو صحن سے مسجد اعظم ميں وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ مشرقی دالان صحن
عتيق سے صحن نو ميں وارد ہونے کا راستہ ہے ، یہ صحن چهوڻا ہونے کے باوجود باجلالت
ایوانوں اور متعدد حجروں کی وجہ سے ایک خاص خوبصورتی کا حامل ہے ۔
اس صحن اور اس کے اطراف کے ایوانوں کو شاہ بيگی بيگم دختر شاہ اسماعيل صفوی
نے ٩٢۵ هء ميں بنوایا تها۔
یہ آستانہ مقدسہ حضرت معصومہ عليہا السلام کے ہنری و معماری آثار کا ایک مختصر
خاکہ تها ۔ اسلامی ہنری مندوں کے لئے مناسب ہے کہ اس بلند و بالا عمارت کو جس ميں
ہنرکے خزانے پوشيدہ ہيں نزدیک سے دیکهيں اور اس کے موجد وں کو داد وتحسين سے نوازیں۔
|