حضرت معصومہ قم عليہا السلام کے معجزات
١۔ رقيہ امان پور پر تين ماہ سے فالج کے مرض مبتلا تهی ۔ ڈاکڻروں نے اسے جواب دے دیا
تها کہ ہم اس کا علاج نہيں کرسکتے ۔ رقيہ کا تعلق ماکو شہر سے ہے جو کہ آذر بایجان کے
مغرب ميں ترکی کی سرحد پر واقع ہے یہ نيک بخت لڑکی ٢٨ شعبان ١۴١۴ ء ه ميں دو مہلک
امراض ميں مبتلا ہوئی ۔
١۔ پيروں پر فالج گرا اور چلنے اور کهڑے ہونے سے معذور ہوگئی ۔
٢۔ کهانسی کا شدید حملہ ہوا جس سے سانس لينا بهی دشوار ہو گيا۔
والدین خوئی شہر کے اسپيشلسٹ ڈاکڻروں کے پاس لے گئے ۔ بہت سے ڻسٹ ہوئے
ميں مبتلا ہے ۔ مگرہم M.I.A ہوا اور ڈاکڻروں نے یہ تشخيص دیا کہ لڑکی C.T.SCAN تبریز ميں
علاج سے قاصر ہيں شوط شہر کے ایک مولانا حجة الاسلام شيخ احمد اسد نژاد ، جو کہ حوزہ
علميہ قم ميں مقيم تهے ، ان کے بهتيجے بهی ایسی ہی بيماری ميں مبتلا ہوچکے تهے
جنهيں تہران کے ڈاکڻروں اور اطباء کے پاس لے جایا گيا تها اور ڈاکڻروں نے ایک حد تک مرض کی
تشخيص کر دی تهی ۔
انهوں نے رقيہ کے چچا سے رابطہ قائم کيا اور کہا کہ رقيہ کو قم لے آوٴ وہاں سے ڈاکڻر
سمعی کے پاس تہران لے جائيں گے ۔ اس زمانے ميں رقيہ کے والدین فریضہ حج کی ادائےگی
کے سلسلے ميں مکہ معظمہ گئے ہوئے تهے ۔
قم کی روانگی کے لئے ٢/ ذی الحجہ روز جمعہ مقرر ہوا تا کہ سنيچر کی صبح کو تہران
پہنچ جائيں ۔ شب جمعہ ميں رقيہ نے ایک سعادت آفرین خواب دیکها کہ : “ سفر کا راستہ بدل
دو ۔ ” اس خواب نے ہميشہ کے لئے اسے ڈاکڻر سے بے نياز کردیا ۔خواب کا مختصر قصہ خود
رقيہ اس طرح بيان کرتی ہے ۔
جس جمعہ کی صبح کو قم کی طرف سفر کرنے کا پروگرام تها اسی شب ميں نے
خواب ميں سفيد گهوڑوں پر چند سفيد پوش خواتين کو اپنے گهر کی طرف سے گزر تے ہوئے
دیکها ان ميں سے ایک خاتون ميری جانب متوجہ ہوئيں اور فرمایا:
”بيڻی ميں معصومہ ہوں ،تمهارے مرض کا علاج ميرے پاس ہے ضروری نہيں ہے کہ تم
ڈاکڻر کے پاس جاؤ ۔ کل تم قم آؤ گی ۔ميرے پاس آجانا ۔شفایاب ہو جاؤگی ۔ اگر ڈاکڻر کے پاس
ہی جانا چاہتی ہو تو بعد ميں چلی جانا۔
جب رقيہ خواب سے بيدار ہوئی تو اس کی آنکهوں ميں اميد کی کرن صاف عيان تهی
خوشی سے سفر کے لئے تيار ہوگئی اس نے اپنے چچا و چچی سے خواب بيان کيا اور قم
پہنچنے کے لئے لمحے شمار کرنے لگی ۔ دوسری ذی الحجہ کی شب جمعہ رات ساڑهے تين
بجے وہ اپنے چچا اور چچی اور مولانا اسد نژاد کے بهائی کے ہمراہ --“شوط” سے قم کی طرف
روانہ ہوئی اور ساڑهے سات بجے شام کو قم پہنچ گئی۔ محلہ نيروگاہ ميں جناب اسد نژاد کے
گهر اپنے پہنچنے کی اطلاع کرادی اور اپنی پهوپهی ، ہاشم نژاد کے گهر چلی گئی ۔ نماز ظہر و
عصر پهوپهی کے گهر پر پڑهی ۔ مختصر عصرانہ کرنے کے بعد چچا چچی کے ساته ،حرم مطہر (
روضہ حضرت معصومہ) کی زیارت کے لئے گهر سے نکلنے سے قبل پهوپهی نے یہ کہاتها کہ
اس کی بيساکهيوں کو حرم ميں نہ لے جانا لہٰذا بيساکهيوں کو کار ہی ميں چهوڑ دیا اور چچا
،چچی کے کندهوں پر سہارا دے کر رقيہ حرم ميں وارد ہوئی ۔ رقيہ زیارت پڑهنے لگی اور پوری
توجہ سے زیارت پڑهتی رہی چچا اور چچی اس کے ہمراہ رہے ۔ زیارت پڑهنے کے دوران رقيہ کو
ایک جانی پہچانی آوازسنائی دی --- یہ معصومہ قم کی آواز تهی جو کہ اس نے خواب ميں
سنی تهی ---- رقيہ کہتی ہے : ابهی ميں نے آدها زیارت نامہ ہی ختم کيا تها کہ ميرے کان
ميں وہی آواز آئی جو کہ ميں نے گزشتہ شب سنی تهی ۔ مجه سے کہا : “ اڻهو ! ميں نے
تمهيں شفاء دی ۔
ميں نے زیارت پڑهنے کا سلسلہ جاری رکها کہ دو بارہ وہی آواز سنائی دی رقيہ نے پورا
زیارت نامہ ختم کيا ۔تيسری بار پهر وہی دلنواز آواز ميرے کانوں ميں آئی ۔اڻهو! ميں نے تمهيں
شفا دے دی ہے ۔ رقيہ کی چچی نماز ميں مشغول تهيں ۔لہٰذا اپنی پهوپهی سے کہا: ميں
کهڑی ہونا چاہتی ہوں ۔ نہ بيڻی !گر پڑو گی تمهاری چچی نماز سے فارغ ہو جائيں تاکہ ہم دونوں
کے سہارے کهڑی ہو۔رقيہ اڻهتی ہے اور اپنے پيروںپر گهڑے ہوکر تيز ی سے ضریح مقدس کی
طرف بڑهتی ہے اور اشک مسرت کے ساته خاتون دوسرا کا شکریہ ادا کرتی ہے ۔
جن زائرین نے رقيہ کو تهوڑی دیر پہلے معذور دیکها تها انهوں نے جب اس کی یہ حالت
دیکهی تو اس کے چاروں طرف حلقہ کر ليا ایک ازدحام ہو گياچنانچہ رقيہ کی پهوپهی اور چچا و
چچی نے بڑی جانفشانی سے اسے ازدحام سے رہائی دلائی اور مسجد بالا سر ميں لے گئے
۔
یہ پر مسرت واقعہ حرم معصومہ ميں رات کے ساڻهے نوبجے رو نما ہوا ۔ چنانچہ زائروں اور
باشندوںنے اپنی آنکهوں سے دیکها کہ اب اس سعادت مند و نيک بخت کو بيساکهيوں کی
ضرورت نہيں رہی اب وہ اپنے پيروں پر کهڑی ہے ۔ اس وقت حرم کے نقارہ بجانے والے موجود
نہيں تهے لہٰذا نقارہ کی کيسٹ لاؤڈاسپيکر پر لگا دیا گياپهر دوسرے روز رسمی طور پر نقارے
بجائے گئے ۔
جب رقيہ کو ان کی پهوپهی کے گهر لے گئے اور عطر و گلاب اس کے چہرے پر ملا تو
معلوم ہوا کہ وہ کهانسی بهی ختم ہو گئی ہے ،۔ رقيہ کو پہلے نسخوں کے ساته تہران ميں
ڈاکڻر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اب رقيہ کو علاج کی ضرورت نہيں ہے ۔
٢۔ پروین محمدی ،تشنج اعصاب کے مرض ميں مبتلا ہوئی ۔بہت سے ڈاکڻروں سے علاج
کرایا ليکن فائدہ نہ ہوا ۔اہل خانہ کی زندگی بهی دوبهر ہو گئی ۔ ڈاکڻروں کے علاج سے مایوس
ہو کر ،کرمانشاہ سے امام رضا عليہ السلام کی زیارت کومشہد مقدس کی جانب روانہ ہوئے
جب رات دو بجے کے بعد قم پہنچے ایک مسافر خانہ ميں رات بسر کی صبح کو ٩بجے حرم
معصومہ کی زیارت سے شرف یاب ہوئے ۔ اس کی چادر کے ایک گوشے کو ضریح سے بانده دیا
اوردعائے توسل پڑهنے لگے ضریح کے کنارے اس مریضہ کو نيندآگئی ۔ چوں کہ پروین کو ایک
مدت سے نيند نہيں آئی تهی ، اس لئے اس کی ماں نے بيڻی کو سوتے ہوئے دیکها تو بہت
خوش ہوئی اور اشک مسرت و خلوص کے ساته دعا کرنے لگيں دل کی گہرائی سے کریمہ اہل
بيت سے توسل کيا ۔
اچانک پروین کی ماں نے محسوس کيا کہ پورا حرم ایک غير معمولی عطر کی بو سے
معطر ہو گيا ہے اور پروین کی چادر کا ضریح سے بندها ہوا گوشہ کهل گيا ہے اس عطر آگين فضا
ميں پروین نے آنکهيں کهول دیں اور اپنی ماں سے کہا: اماں ! ميں بهوکی ہوں ۔ اس کی ماں
حيرت زدہ ضریح مقدس سے لپٹ گئی اور کریمہ اہل بيت کا شکریہ ادا کرنے کے بعد حرم مطہر
سے شادمان باہر نکلی ۔
٣۔ ابو فضل امير کوہی صوبہ صوبہ ساری مازندران کے باشندے ہيں انهوں نے حضرت
معصومہ کے ذریعہ اپنی شفا یابی کا معجزہ اس طرح بيان کيا ہے ۔ ميں تين سال قبل کمر درد
اور فالج ميں مبتلا ہوگيا تها ۔ اپنے علاج ميں تمام پونجی خرچ کردی تهی ليکن کوئی فائدہ نہيں
ہوا تها ۔ بالکل زمين گير ہوگيا تها ۔ قم مشہد اور تہران کے ہسپتالوں ميں مہينوں ایڈمٹ رہا مگر
کوئی نتيجہ حاصل نہ ہوا ۔ ہر جگہ سے مایوس ہوگيا تو ثامن الحجج حضرت امام رضا عليہ
السلام کے روضہ ميں پناہ لی اور امام سے شفا مانگی ليکن نصيب نہ ہوئی ۔
حضرت امام حسين عليہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر یعنی ٣/ شعبان کو
سارے شيعہ خوشياں منا رہے تهے اور ميرے خاندان والے رنجيدہ و محزون تهے ، ميں بهی اپنے
اہل خانہ کے ساته روضہ امام رضا عليہ السلام ميں داخل ہوا مگر صابر امام نے صبر سے کام ليا
۔ جب حرم سے باہر نکلا تو مولا کو مخاطب کر کے عرض کی مولا آپ تو غير مسلموں کو بهی
محروم نہيں کرتے ہيں ۔ مجه رو سياہ پر کيوں لطف نہيں فرماتے ؟ ميں تو آپ کا شيعہ اور آپ کا
ہمسایہ ہوں ۔ تہی دست اپنے گهر پلٹ آیا اور حضرت معصومہ سلام الله عليہا کی خدمت ميں
شرفيابی کا قصد کيا ۔ چنانچہ ۴/ شعبان المعظم شب ولادت حضرت ابولفضل عليہ السلام ميں ۔
ميں نے حضرت معصومہ سلام الله عليہا کو خواب ميں دیکها کہ ہمارے غریب خانہ پر تشریف
لائی ہيں ۔ ميں نے شفا مانگی تو فرمایا “ قم آجاوٴ ميں تمهيں شفا دونگی ” بيدار ہونے کے بعد
ميں نے اپنے خاندان والوں سے خواب بيان کيا ، ليکن کمزوری اور ناداری کی وجہ سے قم جانا
آسان نہيں تها اسی طرح کئی دن گزر گئے تو پهر ایک مرتبہ حضرت معصومہ سلام الله عليہا کو
خواب ميں دیکها کہ فرماتی ہيں : “ قم کيوں نہيں آتے ” ميں نے عرض کی اس حالت ميں کيوں
کر قم پہنچوں ؟ مجهے یہيں شفا عطا کردیجئے ۔ فرمایا : “ تم آوٴ ” بيدار ہونے کے بعد ميں نے
یہ طے کيا جس طرح بهی ہوگا قم جاوٴں گا اگر چہ تين سال کی طویل علالت کے سلسلے ميں
گهر کا سارا اثاثہ بک چکا تها اب قابل فروخت کوئی چيز باقی نہ تهی۔ کوکاکولا کی کچه
شيشياں تهيں انهيں فروخت کرکے بيڻے نے اسباب سفر فراہم کئے اپنے خسر معظم کی
معيت ميں ١۴ / شعبان ١۴١۵ ء ه ق کو دوشنبہ کی صبح ميں قم پہنچ کر حرم معصومہ سلام
الله عليہا ميں شرف یاب ہوا ۔
ضریح مقدس کے کنارے مجهے جگہ دی گئی اور ضریح سے بانده دیا گيا تضرع و زاری ،
راز و نياز ، اور کمزوری کی وجہ سے مجهے نيند آگئی تو سبز نقاب اور سياہ چادر ميں ملبوس
حضرت معصومہ سلام الله عليہا کو خواب ميں دیکها کہ آپ (س) نے مجهے ایک پيالی چائے
عنایت کی ہے اور فرماتی ہيں اسے پيو اور اڻهو تم بيمار نہيں ہو ۔ بيدار ہونے کے بعد ميں نے
محسوس کيا کہ اب ميں بيمار نہيں ہوں ۔ ميں ضریح مقدس سے لپٹ گيا اور بہ آواز بلند کہا : “
معصومہ (س) نے مجهے شفا عطا کی ہے “
۴۔ روس ميں کميونزم کی شکست و ریخت کے بعد روس کے علاقہ آذربائيجان کے باشندوں
کے لئے ایران کا راستہ کهول دیا گيا ۔ اسلامی علوم کے فروغ اور اس کی نشر و اشاعت کے
پيش نظر حوزہ علميہ قم کے کچه ذمہ دار آذربائيجان گئے تا کہ وہاں سے مستعد جوانوں کو
منتخب کر کے حوزہ علميہ قم لائيں اور انهيں معارف اسلامی کی مناسب تعليم دے کر ان کے
وطن واپس کردیں تا کہ وہ شيعہ تذہيب و ثقافت کے اس خلاء کو پر کر سکيں جو کميونسٹ کے
تسلط کے زمانہ ميں واقع ہوگيا تها۔
نخجوان سے ایک نوجواں ، حمزہ قم آتا ہے ليکن حوزہ علميہ کے ذمہ داروں نے اس کا
داخلہ لينے سے اس لئے عذر خواہی کی کہ اس کی ایک آنکه خراب تهی ۔ ظاہر ہے کہ ایسے
مقرر و خطيب کی بات موٴثر ثابت نہيں ہوتی ہے ۔ حمزہ نے اصرار کيا کہ استعداد و لياقت کے
باوجود مجهے اس سعادت سے کيوں محروم کيا جارہا ہے ؟ ذمہ داران نے انسانی عواطف کی
بنا پر داخلہ کے شرائط کے بر خلاف سيکڑوں طلبہ کے ساته اس کا بهی انتخاب کر ليا ۔ تہران
ميں ان آذربائيجانی طلبہ کا پرتپاک استقبال کيا گيا ۔ اس پروگرام ميں ڻی وی کے افراد اس منظر
کو فلمانے کے لئے آئے تهے ۔ تصویر لينے والے نے کيمرہ کا رخ زیادہ تر حمزہ کی حد سے زیادہ
ابهری ہوئی آنکه کی طرف رکها ۔ جب حوزہ علميہ قم ميں ان آذربائيجانی طلبہ کو ایک مدرسہ
ميں جگہ دے دی گئی تو س پروگرام کی کيسٹ مدرسہ کے سرپرست کو دے دی گئی وہ
محفوظ رکهے ۔ مدرسہ کے سرپرست نے ایک دن وہ کيسٹ مدرسہ ميں دکهائی کہ جس ميں
حمزہ کی ابهری ہوئی ایک آنکه کا مضحکہ خيز منظر دیکه کر طلبہ کو بے ساختہ ہنسی آگئی ۔
اس ویدؤ کيسٹ کے دیکهنے کے بعد حمزہ کو اپنے کمتروری کامزید احساس ہوا زندگی
تلخ ہوگئی ۔حوزہ علميہ چهوڑ نے اور وطن لوڻنے کا عزم بالجزم کر ليا ، شکستہ دل اور اشکبار
آنکهوں سے معصومہ قم سے رخصت ہونے اور حرم کی آخری زیارت کے لئے گيا ۔ عرض کی : “
اے باب الحوائج کی بيڻی : ميں سيکڑوں فرسخ کی مسافت طے کرکے اس لئے یہاں آیا تها کہ
آپ کے زیر سایہ تعليم حاصل کروں اور مذہبی مبلغ بنوں ليکن ميںاس حقارت کو برداشت نہيں
کرسکتا لہٰذا ميرا وطن پلڻنا اور آپ کا ہمسائيگی سے محروم ہونا نا گزیر ہے ” ۔
حمزہ نے اپنادرد دل حضرت معصومہ سلام الله عليہا کی خدمت ميں بيان کيا اور ہميشہ
کے لئے خدا حافظ کہہ کر چل دیا ۔ جب حرم سے باہر نکلا تو اس کی ملاقات اپنے ایک ہم
کلاس سے ہوئی ۔ حمزہ نے اسے سلام کيا ۔ اس نے اجنبی کی طرح سلام کا جواب دیا ۔
حمزہ نے جب اس طالب علم کا نام لے کر آواز دی تو واپس آیا اور تعجب سے کہنے لگا حمزہ
آپ ہيں !!!؟
حمزہ کہتا ہے : جی ہاں ميں ہوں ! طالب علم کہتا ہے : تمهاری آنکه کا کيا ہو ا؟! اب
حمزہ متوجہ ہوا کہ معصومہ کے لطف سے اس کی آنکه صحيح ہو گئی ہے ۔ جب وہ آذر بائيجان
جائے گا تو اس کے ساته معصومہ کا معجزہ بهی ساته ہوگا ۔
فی الحال حمزہ حوزہ علميہ کا طالب علم ہے اور فراخ دلی سے محافل و مجالس ميں
شریک ہوتا ہے معيوب آنکه کے ثبوت کے لئے اس کے ہم کلاس طلبہ کے پاس ویڈیو کيسٹ اب
بهی موجود ہے ۔
۵۔ چاليس سال قبل احمد شيریں کلام نے حرم معصومہ ميں شفا پائی تهی ۔ احمد شيریں
کلام نے اپنے بهائی عباس شيریں کلام کو نظم و نثر ميں اپنی بيماری کی اطلاع دی تهی جس
کا خلاصہ یہ ہے ، عباس کہتا ہے :
١ ٣٣٢ ء ه ش ميں ميرے بهائی احمد شيریں کلام بيمار ہوگئے ۔ دوسرے دن ميں تہران
پہنچا تو دیکها کہ اس کی حا لت بہت نازک ہے ۔ عزیز و اقارب جمع ہيں ایک سيد دعا کر رہے ہيں
۔ چمچے سے پانی پلایا جا رہا ہے دوماہ کی مدت ميں ایک سے ایک ڈاکڻر و طبيب کا علاج کرایا
ليکن حالت روز بروز بگڑتی گئی ۔ اعزاو اقارب اس سے نا اميد ہوگئے اور تجہيز و تدفين کے
اسباب فراہم کرنے لگے ۔ ميں نے انهيں قم لے جانے کا ارادہ کرليا کار ميں لڻا کر کریمہ اہل بيت
کی بارگاہ کی طرف چل دئيے ۔ تقریباً نماز مغرب کے وقت قم پہنچے او راس شب توسل کيا ۔
شفائے کامل پائی ۔ ١٨ روز تک ہم نے انهيں قم ہی ميں رکها جشن مسرت منعقد کيا اور
شاعران مودت نے قصيدہ خوانی کی ١٨ روز بعد اپنے پيروں سے چل کر وہ صحيح و سالم تہران
گئے ۔
چونکہ وہ خود کو معصومہ کا ر ہين منت سمجهتے تهے اس لئے انهوں نے تہران ميں
قيام مناسب نہ سمجها اور قم ميں اقامت گزیں ہوگئے ۔
۶۔ جناب حاج شيخ اسماعيل سے ابطحی صاحب نے ایک داستان نقل کی ہے اور ان کی
توثيق کی ہے ۔ داستان یہ ہے:
شيخ اسماعيل کہتے ہيں جنگ کے زمانے ميں وطن ميں رہنا ميرے لئے مشکل ہو گيا ،
قم آیا ، آیت الله العظمیٰ گلپایگانی کی خدمت ميں پہنچا ۔ انهوں نے پوچها قيام کے قصد سے
آئے ہو ؟ یا واپسی کا ارادہ ہے ؟ ميں نے عرض کی جناب معصومہ کے جوار ميں رہنے کے قصد
سے آیا ہوں ليکن سر چهپانے کو گهر تو مل جائے تا کہ اہل و عيال کے لئے مشکل پيش نہ آئے
دوسری طرف ميرے پاس پيسہ بهی نہيں ہے ۔ البتہ حضرت بقية الله الاعظم عجل الله تعالیٰ
سے توسل کيا ہے ۔
آیت الله العظمیٰ گلپایگانی نے فرمایا :“حضرت بقية الله الاعظم ( ارواحنا فداہ ) حجت خدا
ہيں ۔ سارا عالم ان کے زیر فرمان ہے ليکن یہاں حضرت معصومہ کی حکومت ہے ۔ تم کریمہ اہل
بيت کی خدمت ميں آئے ہو ، حرم جاوٴ ۔ وہی سر چهپانے کی جگہ مرحمت کریں گی ۔
جناب شيخ اسماعيل کہتے ہيں : ميں حرم مطہر گيا ۔ معصومہ سے سر چهپانے کی
جگہ طلب کی ۔ حرم سے باہر نکلا تو ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس نے مجهے مناسب
گهر کا سراغ بتایا ، ایک لاکه چاليس ہزار تومان ميں گهر کی بات ہوگئی ۔
آیت الله العظمیٰ گلپایگانی کی خدمت ميں پہنچا اور واقعہ سنایا تو انهوں نے تيس ہزار
تومان عنایت کئے اور کہا کہ کسی اور سے قرض لے لو ۔ ميں دوبارہ حضرت معصومہ کی خدمت
ميں شرفياب ہوا اور عرض کی : بی بی ! کسی ایسے شخص کی طرف ميری راہنمائی
کردیجئے جو مجهے قرض دیدے ! اس درخواست کے بعد ميں حرم سے باہر آیا تو وسط صحن
ميں ميری ملاقات ایک آشنا سے ہوئی انهوں نے پوچها خيریت تو ہے ۔ نصيب دشمنان ميں آپ
کو محزون دیکه رہا ہوں ميں نے واقعہ سنایا ۔ انهوں نے کہا کہ ميں آپ کو قرض دیتا ہوں اسی دن
پيسہ کا انتظام ہوگيا ۔ اس نے مجهے قرض دےدےا ۔ ميں نے گهر لے ليا ۔ جس دن ميں نے
قرض ادا کرنے کا وعدہ کيا تها وہ دن بهی آگيا اور ميری جيب ميں پيسہ نہيں تها ۔ ميں پهر
حضرت معصومہ کی خدمت ميں شرفياب ہوا اور عرض کی اے خاتون ! دوسری بار ميں یہاں خود
نہيں آیا ہوں ، مجهے بهيجا گيا ہے ۔ آج قرض کی ادائےگی کا دن ہے ۔ کسی ایسے آدمی کو
بهيج دیجئے جو مجهے پيسہ ہبہ کردے ۔
ميں حرم سے باہر آیا تو صحن ميں ایک جانے پہچانے آدمی سے ملاقات ہوئی اس نے
بهی یہی کہا خيریت تو ہے ۔ ميں آپ کو رنجيدہ و محزون دیکه رہا ہوں ميں نے واقعہ کی تفصيل
بتائی تو انهوں نے پوچها آپ کو کتنا پيسہ چاہئے ميں نے کہا تقریباً ٩٠ ہزار تومان ۔ اس نے نوے
ہزار تومان مجهے ہبہ کردیئے ۔ ميں نے وعدہ کے مطابق قرض ادا کيا اور ہميشہ کے لئے آرام
ہوگيا ۔
٧۔ کریمہ اہل بيت کے موٴلف نے اپنے ایک معتبر و معتمد دوست سے نقل کيا ہے کہ انهوں
نے کہا : ميری طالب علمی کا ابتدائی زمانہ تها ۔ ميری چچا زاد بہن “خرم درہ ” ميں ساکن
تهی خدا نے متعدد بار اسے اولاد عطا کی ليکن سب مرگئے ۔ کوئی باقی نہ بچا ۔ معصومہ قم
کی زیارت کے لئے قم آئی ميں اس زمانے ميں دارالشفاء ميں رہتا تها ۔ ميری چچا زاد بہن نے
اپنی آپ بيتی مجه سے بيان کی اور بہت روئی ميں نے کہا : آپ اس وقت قم ميں ہيں ۔ یہ حرم
اہل بيت ہے اور یہی کریمہ اہل بيت ہيں ۔ باب الحوائج کی لخت جگر ہيں ان ہی سے اولاد زندہ
رہنے کی دعا کيجئے ۔
انهوں نے پوچها : ميں معصومہ سے کس طرح توسل کروں ؟ چونکہ ميری طالب علمی
کا ابتدائی زمانہ تها ، ميری سمجه ميں کوئی بات نہيں آئی ۔ ميں نے کہا آپ ایک دن روزہ
رکهيں اور افطار کئے بغير حرم معصومہ ميں جا کر دعا کریں ۔ چنانچہ انهوں نے روزہ رکها اور
افطار کئے بغير حرم ميں پہنچيں اور دختر باب الحوائج سے اپنی حاجت طلب کی اور رات بهر
وہيں دعا اور راز و نياز ميں مشغول رہيں ۔چوں کہ روزہ رکها تها اور گریہ و زاری کی وجہ سے
تهک گئی تهيں اس لئے نيند آگئی تو خواب ميں ایک معظمہ کو دیکها کہ تشریف لائی ہيں اور
کپڑے ميں لپيٹ کر لڑکا مجهے دیا ہے ۔ خواب سے بيدار ہوئی تو خوشی خوشی گهر آئی اور
وطن چلی گئی ۔ اس توسل کے بعد خدا نے انهيں تين بيڻے عطا کئے ۔ تينوں زندہ ہيں اور بڑے
ہوگئے ہيں ۔ خود ميری چچا زاد بہن بهی زندہ ہيں “ خرم درہ ” ميں زندگی بسر کر رہی ہيں ۔
٨۔ ایک مداح اہل بيت بيان کرتا ہے : اہل قم ميں سے ایک دیندار حضرت معصومہ (س)کی
زیارت کے لئے آرہے تهے ان کے ایک دوست نے کہا : حضرت معصومہ (س) کی خدمت ميں ميرا
سلام عرض کيجئے گا اور ميری فلاں حاجت روائی کے لئے دعا کيجئے وہ موٴمن حرم آیا ، زیارت
پڑهی ۔ اپنے دوست کی طرف سے سلام عرض کی اور خاتون دوسرا کی خدمت ميں اس کی
حاجت بهی پيش کی ۔ جب یہ موٴمن رات کو سوگيا تو خواب ميں حضرت معصومہ کو دیکها کہ
فرما رہی ہيں : ہم نے تمهارے دوست کی حاجت پوری کردی ہے ليکن وہ چاليس دن سے
ہمارے یہاں نہيں آیا ہے ۔
٩۔ حرم مطہر کے ایک معتبر خادم سيد محمد رضوی مرحوم سے متواتر سند کے ساته
منقول ہے کہ : ميں نے ایک شب خواب ميں حضرت معصومہ کو دیکها کہ آپ فرمارہی ہيں : اڻهو
گلدستوں اور مناروں کے چراغ روشن کرو ۔ ميں نے گهڑی دیکهی تو دیکها کہ صبح کی اذان ميں
۴ گهنڻے باقی ہيں ۔ ميں دوبارہ سوگيا ۔ پهر ميں نے وہی خواب دیکها کہ آپ فرمارہی ہيں : کيا
ميں نے چراغ روشن کرنے کے لئے نہيں کہا تها؟ اڻهو ! گلدستوں کے چراغ روشن کرو ۔ ميں
اپنی جگہ سے اڻها ، دیکها کہ شدید برف باری ہوئی ہے ۔ ساری فضا سفيد پوش تهی ۔ شدید
سردی ہو رہی تهی ۔ جب کہ پہلے دن مطلع بالکل صاف تها ۔ ميں صحن حرم ميں کهڑا تها ۔ ميں
نے زائروں کی ایک جماعت دیکهی جو یہ گفتگو کررہے تهے “معصومہ کا ہم جتنا بهی شکریہ ادا
کریں کم ہے ۔ اگر تهوڑی دیر اور چراغ روشن نہ ہوتے ہم سردی سے ہلاک ہوجاتے ۔ بعد ميں
معلوم ہوا کہ وہ لوگ شدید برف باری کی بناء پر راستہ سے بهڻک گئے تهے اور بيابان ميں یہ
نہيں سمجه پا رہے تهے کہ کيا کریں جب حرم کے چراغ روشن ہوئے تو شہر کی سمت کا علم
ہوا اور وہ لوگ شہر پہنچے اور شدید سردی سے رہائی پائے ۔
١٠ ۔ شيخ حاج حسن علی تہرانی مرحوم کے سلسلے ميں رونما ہونے والا معجزہ شيخ
/ علی مرحوم آیت الله مروارید کے پر نا نا ہيں لہٰذا بہتر ہے کہ ان ہی کی زبانی سنا جائے ۔ ٢٣
ذیقعدہ ١۴١۴ ء ه کو ہم امام رضا عليہ السلام کی زیارت کے لئے شرف یاب ہوئے کچه لوگوں
کے ہمراہ آیت الله مروارید کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور داستان کو ان سے سنا ۔ داستان کچه
اس طرح ہے :
حاج حسن علی تہرانی بن حاج محمود تاجر تبریزی اپنے زمانہ کے عالم ، ميرزا شيرازی
کے شاگرد اور اس عہد کے نمایاں استاد تهے ۔ جب ميرزا نماز جماعت کے لئے نہيں آتے تهے
تو وہی نماز جماعت بهی کراتے تهے اور متقی و نيکو کار و پرہيزگار لوگ ان کی اقتداء کرتے تهے
۔ ميرزا ئے شيرازی کے انتقال کے دوسال بعد وہ تہران لوٹ آئے ۔ کچه دنوں کے بعد مشہد
تشریف لے گئے ۔ مسجد گوہر شاد ميں نماز جماعت پڑهانے لگے ۔ جو شخص کسی کی اقتداء
ميں نماز نہيں پڑهتا تها وہ ان کی اقتداء ميں نماز پڑهنے لگا ۔ بہت سے فضلاء آپ کے درس ميں
شریک ہوتے تهے ۔ ١۴ / رمضان ١٣٢۵ ء ه کو مشہد ميں وفات پائی ۔
آپ کے بهائی ميرزا حاج حسين علی ناصر الدین شاہ کے دربار ميں تهے ۔ شاہ کے
لباس ان ہی کی نگرانی ميں سلتے تهے ۔ ایک روز حاج حسين مرحوم زیارت امام رضا عليہ
السلام پڑهنے ميں مشغول تهے کہ لوگوں نے آپ کو بهائی کے انتقال کی خبر دی ۔ آپ نے بہت
گریہ کيا اور امام رضا عليہ السلام سے دعا کی ۔ ميرے بهائی دربار ميں تهے یقينا ان کی گردن
پر بہت سے حقوق و مظالم ہوں گے آپ ان کی شفاعت فرما دیجئے ۔
تہران سے بڑی شان و شوکت کے ساته ان کا جنازہ قم لایا گيا اور ضریح معصومہ کا
طواف کرانے کے بعد -صحن حرم ميں سپرد خاک کر دیا گيا۔ اسی شب ایک متقی عالم دین نے
خواب ميں دیکها کہ لوگ تہران سے قم کی طرف ایک جنازہ لا رہے ہيں اور عذاب کے فرشتے
راستہ ميں اس پر عذاب کر رہے ہيں ۔جب جنازہ صحن مطہر ميں پہنچا تو عذاب کے فرشتے
دروازہ حرم پر ہی ڻهہر گئے اور معصومہ کے احترام ميں صحن مطہر ميں داخل نہ ہوئے اس وقت
حرم مطہر سے ایک معظمہ نکلی اور عذاب کے فرشتوں سے فرمایا: ان کے بهائی نے ميرے
بهائی سے ان کی شفاعت طلب کی ہے اور بهائی نے مجهے سے ان کی شفاعت کی ہے ۔
لہٰذا تم پلٹ جاؤ ۔ اور وہ اطاعتکرتے ہوئے پلٹ گئے ۔
واضح رہے معصومہ کے اتنے ہی معجزات نہيں ہيں بلکہ ہم نے بے شمار معجزات ميں
سے دس ہی منتخب کئے ہيں تاکہ کتاب کا حجم زیادہ نہ ہو جائے ۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام الله عليہا شعراء کی زبانی
تاریخ کی رہ گزر ميں مکتب امامت و ولایت کی ترویج اور فضائل و مناقب اہلبيت عصمت و
طہارت کے نشر ميں اسلامی شاعروں کا ایک اچها کردار رہا ہے ۔ جن کے حکمت آموز اشعار نے
ہميشہ عاشقان خاندان نبوت و رسالت کے قلوب کو جلا بخشی ہے اور ایک زندہ جاوید سند کی
حيثيت سے مکتب لالہ زار علوی اور بے کراں دریائے فضائل اہلبيت عليہم السلام کو اجاگر کر
کے دنيا کے سامنے پيش کيا ہے ۔
اسی رہ گزر ميں کریمہ اہل بيت عليہم السلام کی عظمت نے ان منادیا ن حق شعراء کو
بارگاہ ملکوتی حضرت معصومہ عليہا السلام ميں عرض ادب پيش کرنے پر مجبور کردیا اور اس
طرح وہ پر معنیٰ اشعار و قصائد کہنے کے لئے آمادہ ہوگئے ۔
زبان فارسی ميں تو ان اشعار کی تعداد بے حد و حساب ہے ہے کہ اگر بطور مستقل اس
پر کام کيا جائے تو ایک دیوان ہوجائے گا ۔ ليکن مولف محترم نے چند برگزیدہ اشعار کو کتاب ميں
جمع فرمایا ہے اور اسے ایک فصل قرار دیا ہے ۔
واضح ہے کے اردو داں افراد کے لئے یہ شعری مجموعہ سود مند نہ ہوگا لہٰذا یہ طے پایا
کہ ان اشعار کی جگہ اردو زبان کے شعراء کے اشعار پيش کئے جائيں ۔ ليکن افسوس ہے کہ
اس سلسلے ميں ہميں قدیم شعراء کے اشعار دستياب نہ ہو سکے بلکہ جہاں تک حقير کی
معلومات ہے ہمارے قدیم مشعراء نے اس موضوع پر طبع آزمائی نہيں فرمائی ہے ۔
|