شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات
 

ایران کی طرف روانگی
ابهی آپ کی عمر دس سال ہی تهی کہ آپ کے والد ماجد کو ہارون رشيد نے قيد خانہ ميں زہر جفا سے شہيد کر دیا اور معصومہ کے قلب پر غم کے پہاڑ ڻوٹ پڑے ۔ صرف امام رضا عليہ السلام ہی سے آپ کو سہارا تها کےونکہ امام رضا (س) ہی آپ (س)کے حقيقی (یعنی دونوں ایک ماںاور باپ سے ) بهائی تهے # ١ اور پدر بزرگوار کی شہادت کے بعد حجت خدا ،امت کے مددگار اور مظلوم کے حامی تهے ليکن ان پر بهی ہارو ن رشيد کی نگرانی تهی۔ ہارون رشيد کی موت کے بعد اس کے بيڻے مامون نے بهی وہی راستہ اختيار کيا جو کہ اس کے باپ تها ۔ چنانچہ اس نے آڻهویں امام کو اہل بيت سے جدا کيا ظاہرا احترام کے ساته خراسان بلاليا۔حضرت معصومہ(س) نے تقریبا ایک سال تک داغ جدائی برداشت کيا ۔اس کے بعد صبر نہ ہو سکا لہٰذا بهائی سے ملاقات کی غرض سے “مرو ”کی طرف روانہ ہوئيں ۔ظا ہر ہے کہ جس با فضيلت آغوش عصمت ميں اس خاتون نے تربيت پا ئی تهی اور جس کی تربيت امام موسی کاظم (س)و امام رضا (س)عليہ السلام نے کی تهی وہ دین وار ساتهيوں کے بغير مدینہ سے “مرو”کا قصد نہيں کر سکتی تهيں ۔آپ کے بهائی بهتيجے سب ہی ایران کے سفر کے لئے تيار تهے ۔ان کی ہمراہی ميں آپ نے اپنے بهائی سے ملاقات کی خاطر پر خطر سفر کا ارادہ کر ليا ۔
اس سفر ميں حضرت معصومہ (س)کے پانچ بهائی :فضل ،جعفر ،ہادی ،قاسم ،زید اور کچه غلام اور کنيزیں آپ کے ہمراہ تهيں ۔اس زمانہ کے سفر کی دشواریوں کو برداشت کرتے ہوئے آپ “ساوہ”پہنچيں ۔
آج تو شہر ساوہ کے باشندے سب ہی شيعہ اور خاندان عصمت و طہارت کے شيدا ئی ہيں ليکن اس زمانہ ميں سخت ترین دشمن تهے ۔لہٰذا جب حضرت معصومہ (س)کا قافلہ “ساوہ ”پہنچا تو “اہل ساوہ”نے ان پر حملہ کردیا اور شدید جنگ ہوئی ۔اور آپ کے بهائی بهتيجے سب ہی شہيد ہو گئے ۔حضرت معصومہ (س) نے اپنے ٣٢ بهائی بهتيجوں کو خون ميں غرق دیکها تو اس غم ميں عليل ہو گئيں ۔ # ٢
--------------
١۔ دلائل الاماميہ ،ص/ ٣٠٩
٢۔ریاض الانسان ،ص/ ١۶٠ منقول از کریمہ اہل بيت ،ص/ ١٧۵
قم کی طرف روانگی
اہل قم ہميشہ خاندان عصمت و طہارت کے دوستدار و محب رہے ہيں ۔انهوں نے ولایت امير المومنين عليہ السلام کے ساته اسلام قبول کيا تها اور فدک غصب کرنے والوں کی کبهی اطاعت نہيں کی تهی ۔ان لوگوں نے جب اس دل خراش فاجعہ کی خبر سنی تو وہ “ساوہ” گئے اور حضرت معصومہ (س) کو بڑے احترام کے ساته قم لے آئے ٢٣ /ربيع الاول ٢٠١ هء کو آپ قم ميں وارد ہوئيں۔
موسیٰ بن خزرج قم ميں خاندان اشعری کے سردار ، خود ناقہ کی مہار تهامے ہوئے تهے اور بہت سے لوگ کجاوہ کے ارد گرد چل رہے تهے ۔ یہاں تک کہ آپ کی سواری اس جگہ بيڻه گئی جسے ميدان مير کہا جاتا ہے اور موسیٰ بن خزرج کو آپ کی سترہ دن کی ميزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
قم کی عورتيں جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے جاتی اور آپ کو آپ کے بهائيوں کا پر سہ دیتی تهيں ۔ موسیٰ بن خزرج کے گهر کو آپ کی سترہ روزہ مہمانی کے احترام ميں مدرسہ بنا دیا گيا جو کہ “مدرسہ سيدہ ” کے نام سے موسوم ہوا ۔مدرسہ کے داخل ہونے والے دروازہ کے پاس ہی آپ کی محراب عبادت ہے جس کو آج تک بيت النور کہا جاتا ہے۔

وفات حسرت آیات
حضرت معصومہ نے غم اور بيماری کی حالت ميں موسیٰ بن خزرج کے گهرميں ١٧ روز عبادت کی اور ١٠ ربيع الثانی ٢٠ ١ هء کو بهائی کی ملاقات کی مشتاق بہن نے بهائی کی ملاقات سے اپنی آنکهوں کو ڻهنڈاکيئے بغير عالم غربت ميں وفات پائی آپ کے وفات سے قم ماتم کدہ بن گيا ۔
اہل قم نے آپ کے مقدس جنازہ کہ تشييع ميں شرکت کی اور شہر سے باہر اس جگہ کہ جہاں آج حرم ہے آپ کو سپرد خاک کرنے کے لئے لے گئے ۔جب قبر تيار ہوگئی تو لوگوں ميں اس بات پر بحث ہونے لگی کہ آپ کو قبر ميں کون اتارے ضعيف العمر اور پرہيزگار “قادر”نام کے ایک شخص پر سب متفق ہوگئے ۔کسی کو بهيجا کے ان کو بابلان سے لے آئے ۔ قادر کے پہنچنے سے قبل خدا نے دو نقاب پوش سواروں کو بهيج دیا، ان ميں سے ایک قبر ميں داخل ہوااور دوسرے نے جنازہ اڻهاکر دیا۔وہ دونوں دفن کے مراسم بعد کسی کسی سے گفتگو کئے بغير اپنے گهوڑں پر سوار ہوئے اور آنکهو ں سے اوجهل ہوگئے # ١ سيرت ائمہ کا قاری اچهی طرح جانتا ہے کہ وہ دو نقاب پوس حضرت امام علی رضا عليہ السلام اور آپ کے فرزند امام محمد تقی عليہ السلام تهے جو کہ معصومہ (س) کے کفن و دفن ميں شرکت کے لئے با عجاز خراسان سے قم تشریف لائے تهے ۔

حرم حضرت معصومہ عليہا السلام
دفن کے بعد آپ کی قبر پر موسیٰ بن خزرج نے چڻائی کا ایک سائبان ڈال دیا ۔ اس کے بعد زینب بنت امام محمد تقی عليہ السلام نے پختہ گنبد بنوادیا ۔ ۴١٣ هء ميں حرم مطہر پر کاشی کا نفيس رنگ کيا گيا ۔ ۵٢٩ هء ميں نيا گنبد بنایا ، ۵٩٢ هء ميں گنبد کی تجدید ہوئی ۔ ١٢١٨ هء ميں گنبد پر سونے کا غلاف چڑهایا گيا کہ جس ميں سونے کی ١٢٠٠٠ اینڻيں لگيں ۔ ١٢٧۵ ئه ميں چاندی کی ضریح بنائی گئی ۔ ١٢٠٣ هء ميں نيا صحن بنایا گيا۔