قم کے دستی صنعت اور سوغات
فرش ابريشم
ہاته کی بنی ہوئی قالين ابریشم ایران کے نفيس ترین صناع دستی ميں شمار ہوتا
ہے۔اس کے رنگ آميزی اور نقشہ کے اعتبار سے اصل ایرانی طرز پر ہوتا ہے اور کيفيت کے اعتبار
سے درجہ یک شمار کيا جاتا ہے۔اس کے بنانے والی اکثر عورتيں ہوتی ہيں۔
مڻی کی بنی ہوئی اشيائ
یہ دستی ہنر اباو اجداد سے چلا آرہا ہے ، اس شہر کا یہ تاریخی پيشہ ہے ۔داخل ملک
اور بيرون ملک قم کی مڻی کے ظروف بهی بہت ہی مشہور ہيں اور اس کے خاص طرفدار ہيں۔
کاشی کاری
یہ اسلامی ہنر بہت ہی زیبا و خوشنما ہيں دیکهنے والوں کو اپنی طرف جذب کر ليتے
ہيں ۔ کاشی کاری کا کام بہت ہی استادانہ کام ہے جس کو قم کے ہنر منداسلامی طرز پر
خوبصورت انداز ميں خاک و گل کی صورت ميں لوگوں کے سامنے پيش کرتے ہيں۔
لکڑی کے اشياء پر نقش و نگار
مختلف قسم کے ميز ،کرسی اور لکڑی کی دوسری چيزوں بہترین و خوبصورت نقش و
نگار بنانا قم کے ماہرین استاد کے ذریعہ انجام پاتا ہے ۔اور یہ اشياء یورپ اور ایشيا کے مختلف
ممالک سے آرڈر پر بنایا جاتا ہے اس کے بعد اسپورٹ کيا جاتا ہے۔
سوہان (سوہن حلوہ(
سوہان قم کی بہترین ميڻهائيوں ميں شمار کيا جاتا ہے ۔ اس مڻهائی کو دنيا کے تمام
لوگ پسند کرتے ہيں ۔اس ميڻهائی کے اجزا ميدا ، شکر ،روغن ،پستہ ،بادام اور زعفران ہے ۔
قم کی فضيلت
امام جعفر صادق عليہ السلام کا ارشاد ہے:
”ان لعلیٰ قم ملکا یرفوف عليها بجناحيہ لا یرید ها جبار بسوء الا اذا بہ الله کذوب الملح فی الماء
“
قم کے اوپر ایک فرشتہ اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہے جو جابر و ظالم بهی قم کے بارے ميں
برا ارادہ کرتا ہے خدا اسے ایسے ہی پگهلا دیتا ہے جسے پانی ميں نمک گهل جاتا ہے ۔ (بحار
)۶٠/ الانوار،ج/ ٢١٧
”اذا اصابتکم بلية وعناء فعليکم بقم فانهاماوی الفاطميين و مستراح المومنين و سياتی زمان
ینفراولياء نا و محبونا عناویبعدون منا و ذالک مصلحة لهم لکن لا یعرفوا بولایتنا یحقنوا بذالک وما
لهم و اموالهم وما اراد احدبقم و اهلها سو الا آلہ اللّٰہ ابعدہ من رحمتہ“ -
جب تم پر کوئی مصيبت آئے تو قم پہچ جا و کيو نکہ وہ فاطميوںکے لئے پناہ گاہ اور
مومنين کے لئے پر سکون ہے ۔ عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ ہمارے دوستدار ہم سے کنارہ
کشی کرےں گے ۔ہم سے دور ہو جائيںگے ، کہ اسی ميں ان کی مصلحت ہے تاکہ وہ ہماری
ولایت کے قائلےن کی حيثيت سے نہ پہچانے جائيں اور اس طرح وہ اپنی جان و مال کی
حفاظت کر سکيں ۔ اور جو بهی قم اور اس کے باشندوں کے لئے برا چاہے گا خدا اسے ذليل
)۶٠/ کرے گا اور اپنی رحمت سے دور کر دے گا۔(بحار الانوار،ج/ ٢١۵
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”سلام الله علیٰ اهل قم سقی اللّٰہ بلادهم الغيث وینزل عليهم البرکات ویبدل الله سيئاتهم
حسنات هم اهل رکوع و سجود و قيام و قعود، هم الفقهاء العلماء الفهماء هم اهل الدرایة و
الروایة و حسن العبادة“
قم والوں پر خدا کا سلام ہو ، خدا وند عالم ان کے شہروںکو بارش سے سيراب کرتاہے
اور ان پر برکات نازل کرتاہے اور ان کی برائيوں کو حسنات سے بدلتا ہے یہ لوگ اہل رکوع وسجود
وقعوداور قيام ہيں ۔یہ لوگ فقہا ،علماء اور بافہم ہيں ، یہ لوگ صاحبان حقایق وروایت ہيں اور
اچهی عبادت کرنے والے ہيں ۔
)۶٠/ )بحار الانوار،ج/ ٢١٧
امام موسیٰ کاظم عليہ السلام کا ارشاد ہے:
”رجل من اهل قم یدع الناس الیٰ الحق یجتمع معہ قوم کزبر الحدید لا تزلهم الریاح
العواصف ولا یکلون من الحرب ولا یجبنون و علی الله یتوکلون والعاقبة للمتقين“
”قم والوں ميں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف بلائے گا ایک گروہ اس کے
پاس جمع ہو جائيں گے جو فولاد کی مانند ہوں گے انهيں تيز ہوائيں متزلزل نہيں کر سکے گا ،
وہ جنگ سے نہيں اکتائيں گے ، وہ صرف خداپر توکل کریں گے ،آخر کار متقين کا مياب ہوں گے۔(
) بحار الانوار ج/ ۶٠ ص/ ٢١۶
قم اور اہل قم کی فضيلت ميں رسول اکرم اور ائمہ معصومين (س) سے بہت سی روایات
وارد ہوئی ہيں ۔ امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (س) نے فرمایا:
”الا ان اللّٰہ حرما وهو مکة الا ان لرسول اللّٰہ حرما وهو مدینة الا ان لا مير المومنين حرما وهو
الکوفة الا ان حرمی و حرم ولدی من بعدی قم الا ان قم کوفة صغيرة الا ان للجنہ ثمانية ابواب ثلثة
منها الیٰ قم تقبض فيها امراة هی من ولدی و اسماها فاطمة بنت موسیٰ یدخل شفاعتها
شعتی الجنة باجمعهم“
آگاہ ہو جاؤ خدا کا ایک حرم ہے اور وہ ہے مکہ اور رسول اسلام کا حرم مدینہ ہے اور حضرت علی
کا حرم کوفہ (نجف) ہے ميرا اور ميری اولاد کا حرم قم ہے ۔قم چهوڻا کوفہ (نجف) ہے۔ جنت کے
آڻه دروازے ہيں جن ميں سے تين دروازے قم طرف کهلتے ہيں ميری اولاد ميں سے ایک خاتون
فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر قم ميں وفات پائے گی کہ جس کی شفاعت سے ميرے تمام
شيعہ جنت ميں داخل ہوں گے۔
آپ کا ارشاد ہے:
”اذا عمت البلدان الفتن ولبلایا فعليکم یقم وهو اليها و نواحيها فان لبلابامدفوع عنها“
جب شہروں ميں ميں فتنے پهيل جائيں تو تم قم اور اس کے اطراف و اکناف ميں پناہ لينا
کيوں کہ قم سے بلا کا گزر نہيں ہوگا۔
امام رضا عليہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”للجنة ثمانية ابواب فثلث منها الیٰ اهل قم فطوبیٰ لهم ثم طوبیٰ لهم“
جنت کے آڻه دروازے ہيں ان ميں سے تين اہل قم کی طرف کهلتے ہيں خوش نصيب ہيں وہ
درحقيقت وہ خوش نصيب ہيں ۔
قم کی فضيلت و قداست کے سلسلہ ميں متواتر روایات وارد ہوئی ہيں چنانچہ قم کو
عش و حرم اہل بيت سے تعبير کيا گيا ہے ۔
امام جعفر صادق عليہ السلام کا ارشاد ہے:
”تربة قم مقدسة واهلها مناونحن منهم ۔لا یرید هم جبارا لا عجلت عقوبة مالم یخونوا اخوانهم فاذا
فعلوا ذالک سلط الله عليهم جبابرة سوا ما انهم انصار قائمنا و دعاة حقن ” # ١
قم کی خاک مقدس و مطہر ہے اس کے باشندے ہم ميں سے ہيں جو ظالم و جابر ان
کی طرف بڑهنے کا ارادہ کرتا ہے اس کی گوش مالی ميں عجلت ہو جاتی ہے ۔ اس لئے ہو تا
ہے کہ مومن اپنے بهائيوں سے خيانت نہيں کرتے ہيں ۔ اور جب خيانت کریں گے تو خدا ان پر
برے ظالموں کو مسلط کرے گا ۔ واضح رہے قم والے ہمارے قائم کے ناصر و مددگار اور ہمارے حق
کے مبلغ ہيں۔
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے فرمایا:
”اللّٰهم اعصمهم من کل فتنہ و بخهم من کل هلکة“
اے الله انهيں ہر فتنے سے محفوظ رکه اور ہر خطرے سے بچالے۔ # ٢
قم عش آل محمدوماسیٰ شيعتهم ولکن سيهلک جماعة من شبابهم بمعصية ابائهم والا
ستحقاف والسخية بکبرائهم و مشائخهم مع ذالک یدفع الله عنهم الشرالاعادی وکل سوء“
قم آل محمد کا گهر ہے اور ان کی پيروی کرنے وا لوں کی پناہ گاہ ہے ۔ليکن کچه جوان اپنے
بزرگوں کی نافرمانی ، مسخرہ بازی اور بزگوں کی تعظيم نہ کرنے کی پاداش ميں ہلاک ہوں گے۔
اس کے باوجود خدا انهيں دشمنوں کے شر سے بچائے گا اور ان سے ہر برائی کو دوررکهے گا ۔
٣#
--------------
١ ۔بحار الانوار ،ج/ ۶ص/ ٢١٨ ، سفينة البحار ج/ ٢ص/ ۴۴٧
٢۔ تاریخ قم ص/ ٩٣ منقول از کریمہ اہل بيت(س)
٣۔ بحار الانوار ج/ ۶٠ ،ص/ ٢١۴ ۔سفينة البحار ج/ ٢ص/ ۴۴۶ ،تاریخ قم ص/ ٩٨ منقول از حضرت
فاطمہ معصومہ قم
آپ (س)ہی کا ارشاد ہے:
”اهل خراسان اعلا منا واهل قم انصا رنا واهل الکوفہ اوتادنا واهل هذا السوادمنا ونحن منهم
۔”# ١
اہل خراسان ہمارے سرخيل ہيں ، قم والے ہمارے انصارومعين ہيں اور کوفہ والے ہمارے پشت پناہ
ہيں۔
--------------
١۔ تاریخ قم ص/ ٩٨
|