شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات
 

قم کی تاريخ:
تاریخی شواہد کی روشنی ميں شہر قم اسلام سے پہلے ایران کے آباد شہروںميں شمار کيا جاتاہے ۔اور اس شہرکی پہلی بنيادکی نسبت بادشاہ “ تہمورث پيشدادی ” کی طرف دی گئی ہے ۔ اور اسی کے مقابلے ميں بہت سے موٴرخين نے اس شہر کو اول قرن ہجری کے شہروں ميں شمار کيا ہے۔ لہٰذا اس قول ميں کچه حقيقت پائی جاتی ہے۔ قم کا علاقہ چوں کہ ایک لق و دق بے آب و گياہ صحراء سے متصل ہے ،اس لئے اس شہر کی آب و ہوا بہت اچهی نہيں ہے بعض صاحبان علم کا کہنا ہے کہ خداوند عالم نے اس مقدس شہر کو ظالم و جابر حکام سے محفوظ رکهنے کے لئے یہاں کی آب و ہوا کو مرغوب نہيں بنایا ۔ چنانچہ قم ميں کبهی کسی ظالم و جابر نے رہائش اختيار نہيں کی ہے ۔
موجودہ قم آج جہاں آباد ہے ماضی بعيد ميں وہاں آباد نہيں تها کسی منصوبہ کی تحت نہيں بسا تها بلکہ سر سبز علاقہ اور مجمع البحرین ہونے کی وجہ سے صحرانشين اور چرواہوں نے مستقل رہایش کے لئے گهر بنا لئے تهے ان گهروں کو “کومہ ” کہتے تهے ۔یہی لفظ کومہ “ کثرت استعمال سے “کم” ہوگيا پهر جب اسے معرب کےا گياتو “ قم ” بن گيا ایک شيعہ روایت ميں ہے کہ رسول خدا معراج پر تشریف لے گئے تو اس مقدس شہر کی سرزمين پر ابليس ملعون کو دوزانو اور افسوس کی حالت ميں بيڻهے ہوئے دیکهاتوآپ نے فرما یا “قم یاملعون ” اے ملعون یہاں سے اڻه جا ۔ اس لئے اس شہر کو قم کہا جانے لگا۔
بعض حضرات قم کو قدیم شہروں ميں شمار کرتے ہيں اور اسے آثار قدیمہ ميں سے ایک قدیم اثر سمجهتے ہيں نيز شواہد و قرائن کے ذریعہ استدلال بهی کرتے ہيں مثلا قمی زعفران کا تذکرہ بعض ان کتابوں ميں ملتا ہے کہ جو عہد ساسانی سے مربوط ہيں ۔ نيز شاہنامہ فردوسی ميں ٢٣ ء ه کے حوادث ميں قم کا ذکر بهی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہ قم اور ساوہ بادشاہ “ تہمورث پيشدادی ” کے ہاتهوں بنا ہے ۔
ليکن حقيقت تو یہ ہے کہ یہ تمام دليليں مدعا کو ثابت نہيں کرتيں کيونکہ عہد ساسانی ميں قم کی جغرافيائی و طبيعی حالت ایسی نہ تهی کہ وہاں شہر بنایا جا تا بلکہ ایسا شہر تہمورث کے ہاتهوں بنا یا جا نا ایک قدیم افسانہ ہے جس کی کوئی تاریخی اہميت نہيں ہے علاوہ ازیں شاہنامہ فردوسی ميں ٢٣ ء ه کے حوادث ميں قم کا ذکر اس بات کی دليل نہيں ہے کہ اس دور ميں بهی یہ زمين اسی نام سے موسوم تهی کيونکہ فردوسی نے اپنے اشعار ميں محل فتوحات کے نام اس زمانے کے شہرت یافتہ و معروف ناموں سے یاد کيا ہے نہ کہ وہ نام کہ جو زمان فتوحات ميں موجود تهے ۔ اسناد تاریخ اور فتوحات ایران کہ جو خليفہ مسلمين کے ہاتهوں ہوئی اس ميں سرزمين قم کو بنام “ شق ثميرة ” یاد کيا گيا ہے ۔ اس بنا پر شہر قم بهی نجف اشرف ، کربلامعلی ، مشہد مقدس کی طرح ان شہروں ميں شمار ہوتا ہے جو اسلام ميں ظاہر ہوئے ہيں ایسی صورت ميں اس کے اسباب وجود کو مذہبی و سياسی رخ سے دیکهنا ہوگا ۔
زمانہ انقلاب اہل قم نے ١٩ /دی ماہ ١٣۵۶ ئه ش شاہ کے خلاف قيام کرکے اس شہر کے لئے سند افتخار حاصل کيا ہے۔ایران عراق جنگ ميں اس شہر نے تقریبا ۵٢٠٠ شہيد دیئے ہيں اور تقریبا ٧۶٠٠ جانباز وںنے جنگ ميں شرکت کرکے اس شہر کا سر بلندکر دیا ہے۔اور آج بهی رہبر انقلاب حضرت آیت الله خامنہ ای اندرونی اور بيرونی دشمنوں کے مقابل ميں ایک سيسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کهڑے ہوئے ہيں اور خدا وند عالم کے لطف و کرم کے اميد وار ہيں کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے زمينہ ہموار ہو جائے انشاء الله۔
قم کے بارے ميں زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کی طرف مراجعہ فرمائيں۔
١۔تاریخ قم ۔ انتشارات زائر
٢۔ تربيت پاکان ۔ انتشارات زائر
٣۔ فروغی از کوثر۔ انتشارات زائر
۴۔ کریمہ اہلبيت ،انتشارات حاذق
۵۔تاریخ مذہبی قم ۔ انتشارات زائر
۶۔حضرت معصومہ فاطمہ دوم ۔ انتشارات علامہ

صوبہ قم کا مختصرجغرابيائی خاکہ
صوبہ قم کا رقبہ حدودا ١١٢٣٨ کلو ميڻر مربع ہے ۔ یہ صوبہ ایران کے مرکز ميں واقع ہے ۔
اس کے شمال ميں صوبہ تہران ، مشرق ميں صوبہ سمنان ، جنوب ميں صوبہ اصفہان اور مغرب ميں صوبہ مرکزی (اراک) واقع ہے۔
سمندر کی سطح سے اس شہر کا ارتفاع تقریبا ٩٢٨ ميڻر ہے ۔ اس صوبہ کا بلند ترین نقطہ مناطق کوہستانی ہے (کوہ وليجا) کہ تقریبا ٣٣٣٠ ميڻر بلند ہے اور پست ترین نقطہ دریاچہ نمک ہے کہ حدودا ٧٠٠ ميڻر نيچا ہے۔
شہر قم کی آبادی تقریبا دس لاکه ہے ۔