تاريخ كا تغير و تبدل
 

اب تك تاريخ كے دو اہم مسئلوں ميں سے ايك مسئلے پر گفتگو ہوئي ہے، يعني تاريخ كي ماہيت كے بارے ميں بات ہوئي ہے كہ آيا وہ مادي ہے يا غير مادى؟ دوسرا اہم مسئلہ انساني تاريخ كا تحول و تطور ہے ۔
ہم جانتے ہيں كہ انسان تنہا زندگي بسر نہيں كر سكتا، وہ ايك اجتماعى وجود ہے۔ انسان كے علاوہ بھي كچھ ايسے جاندار ہيں، جن كي زندگي كم و بيش اجتماعى ہے اور ايك دوسرے كے ساتھ مل جل كر زندگي بسر كرتے ہيں۔ ان كي زندگي آپس ميں تعاون و ہمكاري اور ذمہ داريوں كي تقسيم كے ذريعے كچھ منظم قواعد و ضوابط اور قوانين كے تحت بسر ہوتي ہے۔ سب جانتے ہيں كہ شہد كي مكھي اسي قسم كي جانداروں ميں سے ہے، ليكن انسان اور اس قسم كے جانداروں كي اجتماعى موجوديت ميں ايك بنيادي فرق پايا جاتا ہے اور وہ يہ كہ ان جانداروں كي اجتماعى زندگي ميں جمود يكسانيت پائي جاتي ہے، ان كے نظام حيات ميں كوئي تبديلي اور كوئي رد و بدل نہيں پايا جاتا، اگر موريس ميٹرلينگ كي تعبير كو صحيح سمجھا جائے تو كہا جائے گا كہ ان كے تمدن ميں كوئي جدت پسندي نہيں ۔
اس كے برخلاف انسان كي اجتماعى زندگي ميں تغير و تبدل رونما ہوتا رہتا ہے، بلكہ يہ زندگي شباب كي حامل ہے، يعني تدريجاً اس كي سرعت ميں اضافہ ہوتا رہتا ہے، لہٰذا انسان كي اجتماعى زندگي كي تاريخ ادوار ميں بٹي ہوئي ہے اور يہ ادوار مختلف نقطہ ہائے نظر ميں ايك دوسرے سے مختلف ہيں۔ مثلاً لوازم معيشت كے نقطہ نظر سے، صيد و شكار كا دور، كھيتي باڑي كا دور، صنعت كا دور، اقتصادي نظام كے نقطہ نظر سے: دور اشتراكى، دور غلامى، دور جاگيردارى، دور سرمايہ داري اور دور سوشلزم، سياسى نظام كے نقطہ نظر سے طوائف الملوكي كا دور، استبدادي دور، اريسٹو كريسي كا دور اور ڈيموكريسي كا دور، جنس كے نقطہ نظر سے عورت كي حاكميت كا دور، مرد كي حاكميت كا دور وغيرہ ۔
يہ تغير اور يہ انقلابي تبديلي باقي تمام اجتماعى جانوروں كي زندگي ميں كيوں نہيں پائي جاتى؟ اس تبديلي كا بنيادي عامل اور اس كا راز كيا ہے جس كے سبب انسان ايك معاشرتي دور سے دوسرے معاشرتي دور ميں جاتا ہے؟ بعبارت ديگر انسان كو آگے بڑھانے اور ترقي كي منزلوں پر گامزن كرنے والي وہ كون سي چيز ہے، جو حيوان ميں نہيں؟اور يہ ترقي اور پيشرفت كس صورت سے، كن قوانين كے تحت اور مروجہ اصطلاح ميں كس انداز كے ميكانزم سے رونما ہوتي ہے؟
البتہ يہاں تاريخ كے فلسفىوں كي طرف سے عام طور پر ايك سوال پيش ہوتا ہے اور وہ يہ كہ كيا پيش رفت اور تكامل كي واقعي كوئي حقيقت ہے؟ يعني كيا واقعي انسان كي معاشرتي زندگي ميں واقع ہونے والي تبديليوں كا تاريخي سلسلہ اپني غرض و غايت ميں پيش رفت اور تكامل كو لئے ہوئے ہے؟ تكامل كا معيار كيا ہے؟
بعض افراد ان تبديليوں كو پيش رفت اور تكامل نہيں سمجھتے اور اس كا تذكرہ انہوں نے اپني متعلقہ كتاب ميں بھي كيا ہے۔ 78
بعض تاريخ كے سفر اور اس كي حركت كو ايك ضروري حركت سمجھتے ہيں، ان كا كہنا ہے كہ تاريخ ايك نقطے سے حركت كرتي ہے اور اپنے مخصوص مراحل كو طے كرنے كے بعد پھر، واپس اسي نقطے پر آجاتي ہے، جہاں سے وہ چلي تھى، يہي تاريخ كي ريت ہے كہ وہ اپنے آپ كو دہراتي ہے۔ مثلاً ايك تشدد پسندانہ قبائلي نظام شجاع اور صاحب ارادہ صحرائي لوگوں كے ذريعے وجود ميں آتا ہے۔ يہ حكومت اپني طبيعت كي بناء پر استكباريت اور ارسٹوكريسي ميں بدل جاتي ہے۔ استكباري حكومت ميں آمريت ايك عمومي انقلاب كو جنم ديتي ہے اور جمہوري نظام حكومت قائم ہوتا ہے ۔
جمہوري نظام ميں بے ضابطگى، بے سرپرستي اور آزادي ميں افراط ايك بار پھر قبائلي احساسات كے ساتھ ايك تشدد پسند استبدادي حكومت كے برسركار آنے كا سبب بنتا ہے ۔
ہم في الحال اس بحث ميں جانا نہيں چاہتے اور اسے كسي اور وقت كے لئے اٹھا ركھتے ہيں، ”اصل موضوع“ كي صورت كے بارے ميں اسي پر بنا ركھيں گے كہ مجموعي طور پر حركت اور سير تاريخ ميں پيش رفت ہے، البتہ يہ بتانا ضروري ہے كہ وہ تمام افراد جو تاريخ كے بارے ميں پيش رفت كے قائل ہيں، اس بات كا اعتراف كرتے ہيں كہ ايسا نہيں ہے كہ تمام معاشرے اپنے تمام حالات ميں اپنے ماضي سے بہتر ہوتے ہيں اور معاشرے ہميشہ بغير كسي وقفے كے ترقي كي طرف بڑھتے رہتے ہيں اور ان ميں انحطاط نہيں ہوتا۔
بلاشبہ معاشروں ميں توقف، انحطاط، پستى، دائيں يا بائيں جانب جھكاؤ اور بالآخر سقوط و زوال كا عمل ہوتا ہے، ليكن ہماري مراد يہ ہے كہ انساني معاشرے مجموعي طور پر بلندي كي راہوں كو طے كرتے ہيں۔
فلسفہ تاريخ كي كتابوں ميں اس مسئلہ كو كہ محرك تاريخ كيا ہے؟ اور وہ كون سي چيز ہے، جو تاريخ كو آگے بڑھاتي اور اجتماعى تبديلي كا باعث بنتي ہے؟ عام طور پر اس طرح پيش كيا گيا ہے كہ كس قدر غور و خوض كے بعد اس كي نادرستي سامنے آتي ہے، عام طور پر اس مسئلے كے بارے ميں جو نظريات پيش ہوئے ہيں، وہ يہ ہيں:

1۔ نسلي نظريہ
اس نظريہ كے مطابق بعض نسليں تاريخ كو آگے بڑھانے ميں بنيادي كردار كي حامل ہيں، بعض نسلوں ميں تمدن آفريني اور ثقافت آفريني كي صلاحيت ہوتي ہے اور بعض ميں نہيں ہوتى، بعض سائنس، فلسفہ، صفت، اخلاق اور فن وغيرہ كو جنم دينے كي صلاحيت ركھتي ہيں اور بعض فقط استعمال كرنے والي ہيں، تخليق كرنے والي نہيں۔ اس سے يہ نتيجہ حاصل ہوتا ہے كہ نسلوں ميں تقسيم كار كي ايك صورت ہوني چاہيے، وہ نسليں جو سياست، تعليم و تربيت، ثقافت، ہنر، فن اور صنعت ميں صاحب استعداد ہيں، انہيں چاہيے كہ وہ اسي طرح كے اعليٰ اور ظريف انساني امور كے ذمہ دار ہوں اور جن نسلوں ميں اس طرح كي صلاحيت موجود نہيں انہيں اس طرح كے كاموں سے باز ركھ كر ان كے ذمہ محنت اور مشقت والے جانوروں جيسے جسماني كام لگائے جانے چاہئيں، جن ميں فكر، ذوق اور نظريے كي ظرافت ضروري نہيں ہوتي۔ ارسطو كا نسلوں كے اختلاف كے بارے ميں يہي نظريہ تھا، اسي لئے وہ بعض نسلوں كو غلام بنانے اور بعض كو غلام بننے كا مستحق سمجھتا تھا۔
بعض لوگوں كا عقيدہ ہے كہ تاريخ كو آگے بڑھانے كا عمل خاص نسلوں سے انجام پاتا ہے، مثلاً جنوبي نسل پر شمالي نسل كو برتري حاصل ہے، يہ نسل اور نژزاد ہي تھى، جس نے تمدنوں كو آگے بڑھايا ہے، فرانس كا مشہور فلسفى كانٹ گوبينو جو آج سے تقريباً ايك صدي پہلے تين سال تك ايران ميں فرانس كے نائب سفير كي حيثيت سے رہا تھا، اسي نظريے كا حامي تھا۔

2۔ جغرافيائي نظريہ
اس نظريے كے مطابق طبيعي ماحول نے تمدن، ثقافت اور صنعت كو ايجاد كيا ہے، معتدل علاقوں ميں معتدل مزاج اور طاقت ور ذہن وجود ميں آتے ہيں۔ بو علي سينا نے كتاب قانون كي ابتداء ميں انسانوں كي احساسى، ذوقى اور فكرى شخصيت پر طبيعي ماحول كي تاثير كے بارے ميں بہت كچھ كہا ہے ۔
اس نظريے كي بنياد پر وہ چيز جو انسانوں كو تاريخ كي پيش رفت كے سلسلے ميں آمادہ كرتي ہے وہ نسل اور خون يعني عامل وراثت نہيں كہ ايك خاص نسل جس ماحول اور جس علاقے ميں بھي ہو تاريخ كو آگے بڑھانے والي ہو اور دوسري نسل اس كے برخلاف جس ماحول ميں ہو، اس طرح كي صلاحيت سے عاري ہو، بلكہ نسلوں كا اختلاف ماحول كے اختلاف كا نتيجہ ہے، نسلوں كي جگہ كي تبديلي سے ان كي صلاحيتيں بھي تبديل ہوجاتي ہيں۔ پس درحقيقت يہ خاص زمينيں اور خاص علاقے ہي ميں جو آگے بڑھانے والے اور جدت طراز ہوتے ہيں۔ سترھويں صدي كے فرانسيسي ماہر عمرانيات مانٹيسكو مشہور كتاب ”روح القوانين“ ميں اس نظريے كي حمايت كرتے ہيں ۔

3۔ بلند پايہ شخصيتوں سے متعلق نظريہ
اس نظريے كے مطابق تاريخ كو يعني تاريخي تبديليوں كو وہ سائنسي ہوں يا سياسى، فنى ہوں يا اخلاقى، اقتصادي ہوں يا كچھ اور، نابغہ افراد وجود ميں لاتے ہيں، انسانوں اور دوسرے جانداروں كے درميان فرق اس بات كا ہے كہ دوسرے جاندار علم حياتيات كي رو سے يعني طبيعي استعداد كي رو سے ايك درجہ ميں ہيں، ان انواع كے درميان كسي قسم كا كوئي فرق (كم از كم قابل اعتنا فرق) ديكھنے ميں نہيں آتا۔
اس كے برعكس انسانوں ميں استعداد كي يكسانيت نہيں اور ان ميں زمين سے آسمان تك كا فرق پايا جاتا ہے۔ نابغہ لوگ ہر معاشرے كے استثنائي افراد ہوتے ہيں۔ استثنائي افراد ہي عقل يا ذوق يا ارادے اور تخليقي صلاحيت كے اعتبار سے غير معمولي طاقت كے حامل ہوتے ہيں۔ ايسے افراد جس معاشرے ميں نمودار ہوتے ہيں، اسے علمى، فنى، اخلاقى، سياسى اور فوجي اعتبار سے بلندي عطا كرتے ہيں۔ اس نظريے كے اعتبار سے لوگوں كي اكثريت تقليدي ہوتي ہے، جو تخليقي صلاحيت سے عاري اور دوسروں كے افكار اور صنعتوں سے استفادہ كرنے والي ہوتي ہے ۔
ليكن ہميشہ كم و بيش ہر معاشرے ميں موجد، مخترع، پيش رو، خالق افكار اورخالق صنعت افراد كا ايك مختصر سا گروہ موجود ہوتا ہے، يہي وہ لوگ ہيں، جو تاريخ كو آگے بڑھا كر نئے مرحلے ميں داخل كرتے ہيں ۔
مشہور انگريزي فلسفى كارلائل جس نے مشہور كتاب ”بلند پايہ ہستياں“ (الابطال) لكھي اور جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اس كا آغاز كيا، اسي نظريے كا قائل ہے۔ كار لائل كے نظريے كے مطابق ہر قوم ميں ايك يا كئي شخصيتيں اس قوم كي پوري تاريخ كي غمازي كرتي ہيں اور زيادہ بہتر عبارت ميں ہر قوم كي تاريخ ايك يا كئي مايہ ناز ہستيوں كي شخصيت اور ذہانت كي تجلي گاہ ہوتي ہے، مثلاً تاريخ اسلام جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي شخصيت كي تجلي گاہ ہے، فرانس كي جديد تاريخ نپولين اور چند ديگر افراد كي اور روس كي حاليہ ساٹھ سالہ تاريخ لينن كي تجلي گاہ ہے۔

4۔ اقتصادي نظريے
اس نظريے كے مطابق تاريخ كا محرك اقتصاد ہے، ہر قوم كا تاريخي اور اجتماعى پہلو جو ثقافتي جہت سے ہو چاہے مذہبي و سياسى جہت سے، فوجي ہو يا پھر اجتماعى، اس معاشرے كے پيداواري طريقہ كار اور پيداواري روابط كي عكاسي كرتا ہے۔ معاشرے يا قوم كي اقتصادي بنياد ميں تبديلي دراصل اس قوم يا اس معاشرے كو حركت ديتي ہے اور اسے آگے لے جاتي ہے۔ يہ مايہ ناز لوگ جن كا تذكرہ اس سے قبل كے نظريہ ميں ہو چكا ہے، معاشرے كي اجتماعى، سياسى اور اقتصادي ضرورتوں كے مظاہر كے علاوہ كچھ نہيں ہيں۔ يہ ضروريںپيداواري آلات ميں تبديلي كے باعث پيدا ہوتي ہيں۔ كارل ماركس بلكہ مجموعي طور پر تمام كاركسٹ اور كہيں كہيں غير ماركسٹ بھي اس نظريے كے حامي ہيں۔ ميرے خيال ميں دور حاضر كا يہ سب سے مقبول نظريہ ہے ۔

5۔ الٰہي نظريہ
اس نظريے كے مطابق جو كچھ بھي زمين پر رونما ہوتا ہے، ايك آسماني امر ہے، جو حكمت بالغہ كے مطابق عمل ميں آتا ہے۔ تاريخ كے تحولات و تغيرات اللہ كي حكمت بالغہ اور اس كي حكيمانہ مشيت كي جلوہ گاہ ہيں ۔
پس جو چيز تاريخ كو آگے بڑھاتي ہے اور اس ميں تبديلي لاتي ہے، وہ ارادہ الٰہي ہے۔ تاريخ اللہ كے مقدس ارادے كا پلے گراؤنڈ ہے۔ مشہور پادري اور مورخ ”بوسوئہ“ جو ”لوئي پانزوہم“ كامعلم بھي تھا، اس نظريے كا حامي ہے ۔
يہ وہ نظريات ہيں، جنہيں عام طور پر فلسفہ تاريخ كي كتابوں نے حركت تاريخ كے عوامل كے عنوان سے پيش كيا ہے ۔
ہمارے خيال ميں يہ گفتگو كس طرح بھي درست نہيں، اس ميں ايك طرح كا ”خلط مبحث“ ہوا ہے۔ ان ميں سے بيش تر نظريات تاريخ كي اس علت محرك سے تعلق نہيں ركھتے، جس كي تلاش ميں ہم سرگرداں ہيں۔ مثلاً نسل سے متعلق نظريہ ايك عمرانياتي نظريہ ہے اور اس پر اس رخ سے بحث ہو سكتي ہے كہ كيا انساني نسليں موروثي عوامل كے اعتبار سے ايك انداز كي صلاحيت ركھتي ہيں اور ہم سطح ہيں كہ نہيں، اگر ہم سطح ہيں تو پھر تمام نسليں ايك ہي انداز سے تاريخ كي حركت ميں شريك ہيں يا كم ازكم شريك ہوسكتي ہيں اور اگر ہم سطح نہيں ہيں، تو پھر كچھ ہي نسليں تاريخ كو آگے بڑھانے ميں حصہ دار ہيں يا ہو سكتي ہيں۔ اس اعتبار سے يہ مسئلہ صحيح ہے، ليكن فلسفہ تاريخ كا راز پھر بھي مجہول رہ جاتا ہے۔ بالفرض ہم يہ مان ليں كہ صرف ايك ہي نسل كے ہاتھوں تاريخي تحول و تغير ہوتا ہے، تو پھر بھي مشكل كے حل ہونے كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں پڑتا اور مشكل جوں كي توں رہتي ہے جبكہ ہم اس كے بھي قائل ہوجاتے ہيں كہ تاريخ كے تحول و تغير ميں تمام انسانوں كا عمل دخل ہے كيونكہ يہ معلوم نہيں ہوتا كہ آخر كس بناء پر انسان يا انسان كي كسي نسل كي زندگي تبديل ہوتي رہتي ہے اور حيوان كي زندگي ميں ہر تغير و تحول نہيں ہے۔ وہ راز كہاں چھپا ہوا ہے؟ يہ بات تحرك تاريخ كے راز سے پردہ نہيں اٹھاتي كہ تاريخ كو ايك نسل نے انقلاب سے ہمكنار كيا يا تمام نسلوں نے؟
اسي طرح جغرافيائي نظريہ بھي اپني جگہ عمرانياتي علوم كے ايك سفيد مسئلے سے مربوط ہے اور وہ يہ كہ يہ ماحول انسان كي عقلى، فكرى، ذوقى اور جسماني ترقي ميں موثر ہے۔ كوئي ماحول انسان كو حيوان كي حد ميں يا اس كے قريب ركھتا ہے، ليكن كوئي اور ماحول حيوان سے انسان كے فاصلے كو زيادہ ركھتا ہے۔ اس نظريے كے مطابق تاريخ صرف بعض ممالك اور بعض مناطق ميں تحرك ركھتي ہے اور دوسرے مناطق اور دوسرے ماحول ميں ثابت، يكساں اور حيوانات كي سرگزشت كي طرح رہي ہے، ليكن اصلي سوال اپني جگہ باقي ہے كہ مثلاً شہد كي مكھي يا باقي تمام اجتماعى زندگي بسر كرنے والے جاندار نيز انہي مناطق اور انہي ممالك ميں فاقد تحرك تاريخ ہيں۔ پس وہ اصلي عامل جو دو قسم كے ان جانداروں ميں اختلاف كا اصلي سبب بنتا ہے اور ان ميں سے ايك ثابت اور دوسرا ہميشہ ايك مرحلے سے دوسرے ميں منتقل ہوتا رہتا ہے، كيا ہے؟ان سب سے زيادہ بے ربط، الٰہي نظريہ ہے، مگر كيا صرف تاريخ ہي وہ واحد چيز ہے، جو جلوہ گاہ مشيت الٰہي ہے؟ تمام دنيا آغاز سے انجام تك اپنے تمام اسباب، علل، موجبات اور موانع كے ساتھ جلوہ گاہ مشيت ايزدي ہے۔ مشيت الٰہي دنيا كے تمام اسباب و علل كے ساتھ مساوي رشتے كي حامل ہے، جس طرح انسان كي انقلابات بھري زندگي جلوہ گاہ مشيت الٰہي ہے، اسي طرح شہد كي مكھي كي ثابت اور يكساں زندگي بھي جلوہ گاہ مشيت الٰہي ہے۔ پس گفتگو اس امر ميں ہے كہ مشيت الٰہي نے انسان كي زندگي كو كس نظام كے ساتھ خلق كيا ہے؟
انسان ميں كيا راز ركھ ديا ہے كہ اس كي زندگي متحول و متغير ہے جبكہ ديگر جانداروں كي زندگي اس راز سے خالي ہے۔
تاريخ كا اقتصادي نظريہ بھي فنى اور اصولي پہلو سے خالي ہے، يعني اصولي صورت ميں اسے پيش نہيں كيا گيا، تاريخ كے اقتصادي نظريہ كو جس صورت ميں پيش كيا گيا ہے، اس سے فقط تاريخ كي ماہيت اور ہويت واضح ہوتي ہے كہ وہ مادي اور معاشي ہے اور باقي تمام پہلو اس تاريخي جوہر كے عوارض كي حيثيت ركھتے ہيں، يہ نظريہ واضح كرتا ہے كہ اگر معاشرے كي اقتصادي بنياد ميں تبديلي رونما ہو تو لازمي طور پر معاشرے كے باقي تمام امور تبديلي سے دوچار ہوں گے، ليكن يہ سب باتيں ”اگر“ ہيں، اصلي بات پھر بھي اپني جگہ رہ جاتي ہے اور وہ يہ كہ ہم يہ فرض كرتے ہيں كہ اقتصاد معاشرے كي اصل بنياد ہے اور ”اگر“ اس اصل بنياد ميں تبديلي رونما ہو، تو تمام معاشرہ بدل جائے گا ليكن كيوں اور كس عامل كي كن عوامل كے تحت بنياد ميں تبديلي آئے گى؟ اور اس سے بنياد پر قائم عمارت متغير ہوگي ۔ بعبارت ديگر اقتصاد كا بنياد ہونا اس كے متحرك ہونے اور حركت ركھنے كے لئے كافي نہيں ہے ۔
ہاں، اگر اس نظريے كے حامل افراد اس عقيدے كے بجائے اقتصاد كو جو (بقول ان كے) معاشروں كي اصل بنياد اور اس پر قائم عمارت كے مسئلے كو پيش كريں اور كہيں كہ عامل محرك تاريخ اصل بنياد كي دوسمتوں (پيداواري آلات اور پيداواري روابط) كا تضاد ہے، تو پھر مسئلہ صحيح صورت ميں پيش ہوتا ہے، اس ميں كوئي شك نہيں كہ ”اقتصاد محرك تاريخ ہے“ كے مسئلے كو پيش كرنے والے كا اصلي مقصد يہي ہے كہ تمام تحريكات كا اصلي سبب اندروني تضادات ہيں اور پيداواري آلات اور پيداواري روابط كے درميان داخلي تضاد محرك تاريخ ہے، ليكن ہماري گفتگو پيش كرنے والے كي مراد ما في الضمير سے متعلق نہيں بلكہ صحيح طور پر پيش كرنے سے متعلق ہے ۔
نابغہ شخصيتوں سے متعلق نظريہ درست ہو يا نادرست براہ راست فلسفہ تاريخ سے يعني عامل محرك تاريخ سے مربوط ہے۔ تاہم تاريخ كو حركت ميں لانے والي طاقت كے بارے ميں يہاں تك ہميں دو نظريے حاصل ہوئے، ايك نابغہ شخصيتوں سے متعلق نظريہ جو تاريخ كومخلوق افراد جانتا ہے اور يہ نظريہ درحقيقت اس بات كا مدعي ہے كہ معاشرے كي اكثريت خلاقيت اور ترقي كي صلاحيتوں سے عاري ہے اور اگر پورا معاشرہ ايسا ہو، تو انقلاب اور پيش رفت كا سوال ہي باقي نہيں رہتا، ليكن معاشرے ميں خداداد صلاحيتوں كي مالك ايك اقليت ہوتي ہے، جو تخليق كرتي ہے، منصوبے بناتي ہے، عزم اور ہمت سے كام ليتي ہے، سخت جدوجہد كرتي ہے، عام لوگوں كو اپنے پيچھے ساتھ لاتي ہے اور اس طرح تبديلياں واقع ہوتي ہيں۔ يہ بلند پايہ لوگ صرف طبيعي اور موروثي استثنائي واقعات كا معلول ہوتے ہيں۔اجتماعي حالات اور معاشرے كي مادي ضرورتيں ان كي تخليق ميں كوئي كردار ادا نہيں كرتيں ۔
دوسرا معاشرے كي اصل بنياد اور اس پر قائم عمارت ميں تضاد كا نظريہ ہي ہے، جو محركيت اقتصاد كي ايك صحيح تعبير ہے اور جس كے بارے ميں ہم پہلے اشارہ كر چكے ہيں ۔

تيسرا نظريہ فطرت
انسان كے كچھ خصائص ہيں، جن كي وجہ سے وہ ايك كمال پذير اجتماعى زندگي ركھتا ہے۔ ان ميں سے ايك خصوصيت اور ايك صلاحيت تجربات حاصل كرنا اور ان كي حفاظت كرنا ہے۔وہ جو كچھ اپنے تجربات سے حاصل كرتا ہے، اسے محفوظ كرتا ہے اور آئندہ تجربات كي بنياد بناتا ہے ۔
اس كي دوسري صلاحيت يا دوسري استعداد قلم اور بيان سے علم كا حصو ل ہے۔ وہ دوسرے كے تجربات اور اكتسابات كو زبان اور اسے زيادہ بہتر مرحلے ميں تحرير سے اپنے آپ ميں منتقل كرتا ہے، نسلوں كے تجربات، مكالمات اور تحريروں كے ذريعے دوسري نسلوں تك پہنچتے اور جمع ہوتے رہتے ہيں، يہي وجہ ہے كہ قرآن نے نعمت بيان، نعمت قلم اور لكھنے كو بڑي اہميت دي ہے۔
الرحمن علم القرآن خلق الانسان علمہ البيان. (سورہ رحمن، آيات۔1 تا4)
”انتہائي مہربان خدا نے قرآن كي تعليم دى، انسان كو خلق كيا اور اسے بيان كرنا سكھايا ۔“
اقرا باسم ربك الذي خلق، خلق الانسان من علق اقراء و ربك الاكرم الذي علم بالقلم. (سورہ علق، آيات، 1 تا 4)
”پڑھو اپنے رب كے نام سے جس نے پيدا كيا، جمے ہوئے خون سے انسان كو خلق كيا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار ہي سب سے زيادہ كريم ہے، جس نے قلم كے ذريعے تعليم دي ۔“
انسان كي تيسري خصوصيت اس كي عقل و خلاقيت ہے۔ انسان اپني اس مرموز قوت سے تخليق و اختراع كرتا ہے، وہ مظہر خلاقيت الٰہي ہے۔ اس كي چوتھي خصوصيت جدت پسندي كي سمت اس كا فطري اور ذاتي لگاؤ ہے، يعني انسان ميں خلاقيت اور اختراع، صرف استعداد كي صورت ميں نہيں ہے كہ وہ چاہے اور ضرورت محسوس كرے، تو تخليق و ايجاد پر توجہ دے بلكہ خلاقيت اور نئي چيز كي ايجاد كا رجحان اس ميں بالذات ركھ ديا گيا ہے ۔
تجربوں كا تحفظ اور ان كي نگہداشت علاوہ از ايں ايك دوسرے كو تجربات منتقل كرنے كي صلاحيت نيز تخليق و ايجادات اور ان كي طرف انسان كا ذاتي لگاؤ، وہ طاقتيں ہيں، جو اسے ہميشہ آگے كي سمت بڑھاتي رہي ہيں۔ حيوانات ميں نہ تو تجربوں كے تحفظ كي صلاحيت ہے اور نہ ہي وہ اپنے اكتسابات يا ادراكات كو ايك دوسرے تك پہنچا سكتے ہيں۔ 79
نہ ان ميں تخليق و ابتكار كي صلاحيت ہے جو قوہ عقليہ كي خاصيت ہے اور نہ جدت پسندي كا شديد رجحان ہے، يہي وجہ ہے كہ حيوان جہاں تھا وہيں رہتا ہے اور انسان آگے نكل جاتا ہے۔ اب ہم ان نظريات كو تنقيدي نگاہ سے ديكھنا چاہيں گے۔

تاريخ ميں شخصيت كا كردار
بعض لوگوں كا دعويٰ ہے كہ ”تاريخ نابغہ اور عام حد كے درميان جنگ سے عبارت ہے، يعني ہميشہ عام اور متوسط آدمي اس حالت كے حامي ہوتے ہيں، جس سے ان كو انسيت ہوتي ہے اور نابغہ يا اعليٰ صلاحيتوں كے مالك افراد موجود حالت كو بہتر ميں بدلنے كے خواہاں ہوتے ہيں ۔“
كارلائل كہتا ہے كہ تاريخ اعليٰ صلاحيتوں كے مالك اور ممتاز افراد سے شروع ہوتي ہے۔ يہ نظريہ دراصل دو مفروضوں پر مبني ہے۔
ايك يہ كہ معاشرہ طبيعت اور حيثيت سے عاري ہے۔ افراد سے معاشرے كي تركيب حقيقي تركيب نہيں ہے۔ افراد سب ايك دوسرے سے الگ ہيں۔ ايك دوسرے سے تاثير و تاثر حاصل كرنے سے ايك ايسا حقيقي مركب اور ايك ايسي اجتماعى روح وجود ميں نہيں آسكتى، جو اپني كوئي حيثيت، طبيعت اور خصوصي قوانين ركھتي ہو، پس افراد ہيں اور ان كي انفرادي نفسيات اور بس۔ كسي معاشرے ميں افراد كا ايك دوسرے سے جداگانہ بنيادوں پر رابطہ بالكل جنگل كے درختوں كا سا رابطہ ہے، معاشرتي واقعات انفرادي اور جزوي واقعات كا مجموعہ ہوتے ہيں، اس كے علاوہ كچھ نہيں۔ اس اعتبار سے معاشرے ميں رونما ہونے والے ”اتفاقات“ اور ”واقعات“ زيادہ تر جزوي اسباب كے حامل ہوتے ہيں، كلي اور عمومي اسباب كے نہيں ۔
دوسرا مفروضہ يہ ہے كہ انسان مختلف اور متفاوت صورتوں ميں پيدا ہوئے ہيں اور باوجود اس كے كہ وہ عام طورپر ثقافتي وجود اور باصلاح فلاسفہ حيوان ناطق ہيں، پھر بھي زيادہ تر انسان خلاقيت، نو آوري اور تخليق سے عاري ہوتے ہيں۔ ان كي اكثريت ثقافت اور تمدن كو برتنے والي ہوتي ہے، پيدا كرنے والي نہيں۔ حيوانات كے ساتھ ان كا فرق يہ ہے كہ حيوانات برتنے والے بھي نہيں بن سكتے ۔ اس اكثريت كا مزاج تقليدى، روايتي اور شخصيت پرستي پر مبني ہوتا ہے ۔
انسانوں كي بہت كم تعداد بلند پايہ ، نابغہ، عام اور متوسط حد سے بالاتر مستقل الفكر، مخترع، موجد اور مضبوط ارادے كي مالك ہوتي ہے، يہ لوگ معاشرے كي اكثريت سے جدا ہوتے ہيں، گويا يہ”كسي اور آداب اور آب و خاك اور كسي اور شہر و دريا كے لوگ ہيں۔“ اگر اس طرح كے سائنسى، فلسفى، ذوقى، سياسى، اجتماعى، اخلاقى، ہنري اور فنى ماہرين كا وجود نہ ہو، تو انسانيت اسي منزل پر رہتي جہاں پر پہلے تھي اور اس سے ايك قدم بھي آگے نہ بڑھتي ۔
ہماري نظرميں يہ دونوں مفروضے مہمل ہيں، پہلا مفروضہ اس اعتبار سے بے معني ہے كہ ہم ”معاشرے“ كي بحث ميں پہلے يہ ثابت كر چكے ہيں كہ معاشرے كي اپني ايك حيثيت، طبيعت، قانون اور روايت ہے اور وہ انہي كلي روايات پر قائم ہے اور يہ روايات خود اپني ذات ميں اسے آگے بڑھانے اور تكامل بخشنے والي ہيں۔ پس اس مفروضے كو الگ كر كے ہميں يہ ديكھنا ہوگا كہ باوجود اس كے كہ معاشرہ حيثيت، طبيعت اور روايت سے ہمكنار ہے اور اپني روش كے مطابق اپنا عمل جاري ركھتا ہے۔ فرد كي شخصيت اس ميں كوئي كردار ادا كر سكتي ہے يا نہيں؟ اس موضوع پر ہم پھر كبھي گفتگو كريں گے، اب ہم دوسرے مفروضے كي طرف آتے ہيں۔ اس ميں كوئي شك نہيں كہ انسان كو مختلف صلاحيتوں كے ساتھ خلق كيا گيا ہے، ليكن يہ بات بھي درست نہيں كہ صرف بلند پايہ اور نابغہ لوگ ہي تخليقي صلاحيت كے حامل ہوتے ہيں اور تقريباً باقي تمام لوگ تہذيب و تمدن كے محض صارفين ہوتے ہيں۔ دنيا كے تمام افراد ميں كم و بيش خلاقيت اور نو آوري كي صلاحيت پائي جاتي ہے اور اسي لئے اگر تمام افراد نہيں، تو كم از كم ان كي اكثريت تخليق، توليدي اور نو آوري ميں حصہ لے سكتي ہے، اب يہ اور بات ہے كہ ان كي كوششيں نابغہ افراد كے مقابل ميں بہت كم اور ناچيز ہوں ۔
”تاريخ كو نابغہ شخصيتيں بناتي ہيں“ والے نظريہ كے بالكل برعكس ايك اور نظريہ ہے، جو يہ كہتا ہے كہ تاريخ شخصيتوں كو وجود ميں لاتي ہے، شخصيتيں تاريخ كو نہيں۔ يعني عيني اجتماعى ضرورتيں ہيں، جو شخصيتوں كو پيدا كرتي ہيں ۔
مونٹيسكو كہتا ہے: ”بڑي شخصيتيں اور عظيم واقعات زيادہ وسيع اور زيادہ طويل واقعات كے نتائج اور ان كي نشانياں ہيں ۔“
ہيگل كہتا ہے: ”عظيم ہستياں تاريخ كي خالق نہيں دايہ ہوتي ہيں۔ عظيم لوگ ”عامل“ نہيں ”علامت“ ہوتے ہيں۔ بعض لوگ جو ”ڈوركم“ كي طرح ”اصالۃ الجمعي“ كے قائل ہيں اور اس بات پر اعتقاد ركھتے ہيں كہ تمام افراد بطور مطلق اپني كوئي شخصيت نہيں ركھتے بلكہ وہ اپني تمام شخصيت كو معاشرے سے ليتے ہيں۔ افراد اور شخصيتيں سوائے اجتماعى روح كے مظہر يا بقول محمود شبستري سوائے اجتماعى روح كے روشن دان كي جاليوں كے كچھ بھي نہيں ۔“
وہ لوگ جو ماركس كي طرح علاوہ بر ايں كہ انسان كي عمرانيات پر مبني علوم كو اس كے اجتماعى كاموں سے قرار ديتے ہيں، اسے اجتماعى شعور پر مقدم بھي جانتے ہيں، يعني افراد كے شعور كو اجتماعى و مادي ضرورتوں كے مظاہر ميں سے شمار كرتے ہيں، ان كي نظر ميں شخصيتيں، معاشرے كي مادي اور اقتصادي ضرورتوں كے مظاہر ہيں۔ مادي ضرورتيں ۔۔۔ (انتہائي افسوس ہے كہ استاد مطہري شہيد رحمۃ اللہ عليہ كا مسودہ يہيں پر آكر ختم ہوجاتا ہے۔ صاف ظاہر ہے كہ ابھي وہ اس كے بارے ميں اور بھي كچھ لكھنا چاہتے تھے، ليكن وقت نے انہيں مہلت نہ دي ۔)

--------------------------------------------------------------------------------

78.ملاحظہ فرمائى: ”تاريخ كيا ہے؟ “، ترجمہ فارسى: حسن كامشاد، اسي طرح ويل ڈيورنٹ كي تاليف ”تاريخ كے دروس“ اور ”لذات فلسفہ“ ، ص2، 312.
79. بعض حيوانات ميں سائنسي تجربات كي بنياد پر نہيں بلكہ روز مرہ كے واقعات كي سطح پر ادراك كي منتقلي پائي جاتي ہے، جيسا كہ چيونٹي كے بارے ميں كہا جاتا ہے اور قرآن ميں ارشاد ملتا ہے: ”قالت نملۃ يا يھا النمل ادخلوا امساكنكم لا يحطمنكم سليمان وجنودہ وھم لا يشعرون“ .سورہ نمل:18.