عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے(تيسری جلد)
 

گزشتہ مباحث کا خلاصہ
تاریخ ميں لفظ “ سبيہ ” کا ایک سرسری جایزہ
جو کچه ہم نے گزشتہ صفحات اورفصلوں ميں ابن سباا ور سبئيہ کے افسانہ کے بارے
ميں بيان کيا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے : زمان جاہليت سے دوران حکومت بنی اميہ تک لفظ
“ سبئيہ ” سبا بن یشجب و قبيلہٴ قحطان سے منسوب افراد پر دلالت کرتا تها ان افراد ميں سے
ایک “ عبدالله بن وهب سبائی ” تها جو فرقہ خوارج کا سردار تها ۔
ليکن قبائل عدناں اور قحطان کے درميان مدینہ وکوفہ ميں اختلاف و عداوت پيدا ہونے کے
بعد ، قبائل عدنان نے اس لفظ کے معنی کو تبدیل کرکے اسے قحطانيوں کی سرزنش کے طور
پر استعمال کيا اور اسے قبيلہ کی نسبت کے معنی سے قبائل قحطان اور ان کے طرفداروں کی
بد گوئی اور سرزنش کے معنی ميں تبدیل کيا یہ استعمال اور معنی ميں تغير بنی اميہ کی
حکومت کے دوران کوفہ ميں انجام پایا ۔
ليکن جب اسکے بعد سيف کا زمانہ آیا ، اور اس نے شدید خاندانی تعصب ، کفر اور
زندقہ کے محرکات کے پيش نظر افسانہٴ سبئيہ کو جعل کيااور اس افسانہ ميں لفظ سبيہ کو
قبيلہ کی نسبت کے معنی یا سرزنش کے معنی سے تبدیل کرکے ایک جدید مذہبی فرقہ کے
معنی ميں تحریف کيا اور اس مذہب کے بانی کو بهی عبدالله سبایمانی نام کے ایک شخص
سے پہچنوایا ۔
فرقہٴ سبئيہ کے بانی کے نام “ عبدالله سبا ” کو بهی سيف نے ایک خوارج کے گروہ کے
سرپرست “ عبدالله بن وهب ” کے نام سے لے کر اس ميں اس طرح تحریف کی ہے جيسا کہ
بلاذری ، اشعری ، اورمقریزی کے بيانات سے اس کا اشارہ ملتا ہے ۔
ی ا یہ کہ اس نے ایک افسانہ جعل کياہے اور اپنے افسانہ کيلئے ایک ہيرو خلق کيا ہے اور
اس ہيرو کيلئے بلا واسطہ “ عبدالله بن سبا’ ’ نام رکها ہے بغير ا سکے کہ اس نام کو کسی اور
نام سے ليا یا اقتباس کياہو۔
ب ہر صورت “ عبدالله ” کے سلسلہ ميں علی عليہ والسلام و عثمان کے زمانے ميں
زندگی کرنے والے عبدالله بن وهب سبائی کے علاوہ کوئی اور حقيقت نہيں ہے ۔
سيف کے افسانہ سبئيہ نے دوسری صدی ہجری اور تيسری صدی ہجری کے اوائل ميں
عراق کے شہروں ، جيسے : کوفہ ١ بصرہ، بغداد اور اس کے اطراف ميں شہرت پائی ۔ ان
شہروں ميں اسی افسانہ کے شہرت پانے کے بعد لفظ “ سبيئہ ” کا اصلی معنی ---وہی قبيلہ
قحطان وسبئی کا انتساب تها
---فراموش کيا گيا اور خاص طور پر خود سيف کے اپنے خيالات ميں جعل کئے گئے اسی جدید
مذہبی فرقہ کے معنی ميں استعمال ہوا۔ ليکن اسی زمانہ جب لفظ “سبئيہ ” کوفہ اور بصرے
ميں اس کے جدید معنی ميں منتشر ہوا تها، یمن، مصر اور اندلس ميں اپنے اصلی اورپہلے
معنی -- قبيلہٴ قحطان کے انتساب ---ميں استعمال ہوتا تها --- اس لحاظ سے دوسری صدی
ہجری اور تيسری صدی ہجری کے اوائل ميں لفط “ سبئيہ” دو مختلف اور الگ الگ معنی پر
دلالت کرتا تها اسلام کے مشرقی ممالک اور شہروںميں جدید مذہبی فرقہ کے معنی ميں اور
دوسرے شہروں اور ممالک ميںقبيلہ کی نسبت ميں ا ستعمال ہوتاتها ۔
اس کے بعد افسانہ “ سبئيہ ” زمانہ کے گزرنے کے ساته ساته عام لوگوں کی زبانوں اور
افواہوں کی شکل اختيار کر گيا اور گلی کوچوں کے لوگوں کے خرافات اوربيہودگيوں سے مخلوط
و ممزوج ہوگيا اس طرح اس ميں وسيع پيمانے پر تغيرات اور تبدیلياں رونما ہوئيں اور اس کے
نتيجہ ميں وہی معنی مذہبی فرقہ بهی ایک خرافات پر مشتمل معنی ميں تبدیل ہوگيا اور ان
لوگوں کے بارے ميں ا ستعمال ہونے لگا جو علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کرکے ان کی
الوہيت کے قائل تهے ۔
اس طرح افسانہ سبئی لفظ “ سبئيہ ” کے اپنے اصلی اور ابتدائی معنی یعنی قبيلہ
کينسبت ميں اسلامی معاشرے کے تمام ممالک اور شہروں ميں منتشر ہونے کے بعد مکمل
طورپر فراموشی کی نذرہو گيا اور اسی جدید مذہبی فرقہ کے معنی سے مخصوص ہو کر صرف
ان افرادکے بارے ميں استعمال ہونے لگا جوعلی عليہ السلام کی وصایت یاا لوہيت کے قائل ہيں۔

تاریخ ميں لفظ “ عبدالله سبا” کے نشيب و فراز
” عبد الله سبا ” چنانچہ گزشتہ صفحات ميں اشارہ کيا گيا ہے کہ ابتداء ميں اس لفظ
سے علی عليہ السلام کے زمانے ميںز ندگی کرنے والے اور خوارج کا سردار مقصود تها سيف
کے افسانہ سازی اور افسانہ “ سبئيہ” کی اشاعت کے بعد “ عبدلله بن وهب ” سبائی فراموش
ہوگيا اور لفظ “ عبد الله سبا” یمن سے آئے ہوئے ایک گمنام ، افسانوی اور یہودی شخص کے
بارے ميں استعمال ہونے لگا اسی کی روایتوں کے مطابق یہ شخص علی عليہ السلام کی
وصایت کا قائل تها،ليکن زمانے کے گزرنے کے ساته ساته افسانہ سبئيہ گوناگوں نشيب و فراز
سے دوچار ہواا ور اس افسانہ کے سورما عبدالله بن سبا نے بهی قدرتی طورپر توہماتی
اوراحساساتی روپ اختيار کر گيا اور علی عليہ السلام کی الوہيت کے معتقد فرقہٴ “ سبئيہ ” کو
جعل کرنے والے ایک خطرناک غالی اور انتہا پسند شخص کيلئے استعمال ہونے لگا ۔
---------
١۔ ابی مخنف عالم کوفی ( وفات ١۵٧ هء) کے یہاں ہم نے افسانہ ٴ سبئيہ کے بارے ميں سيف کی روایتوں ميں
سے ایک روایت پائی کہ اس کی مزید وضاحت کيلئے “ کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب ” کی جلد اول کے
مقدمہ کی طرف کی رجوع کيا جائے

یہ تغير اور تبدیلياں کبهی بعض روایات کے معنی کو سمجهنے ميں اشتباہ کا سبب
بنتی ہيں مثلاً: عبدالله اوراس کے بارے ميں روایتيں اور تاریخی روداد اور معصومين علی عليہ
السلام کی احادیث بعض اوقات لفظی غلطيوں کی وجہ سے سيف کے جعل کردہ “ عبدالله سبا
” دوم کے بارے ميں تاویل و تطبيق ہوا ہے اورا س طرح تاریخی وقائع و مطالب اور معصومين
عليہم السلام کی بعض احادیث ميں ممزوج ہوکر تاریخ و حدیث ميں قہری تحریف رونما ہوئی ہے
مؤرخين کی عدم دقت و تحقيق نہ کرنے کی وجہ سے یہ اشتباہ و تحریف جبری کا سلسلہ،
صدیوں تک رہاہے اور نتيجہ کے طور پر اس تحریف نے رفتہ رفتہ تاریخ ميں جڑ پکڑ کر حقيقت کا
روپ اختيار کرليا ہے یہ اشتباہ اور تحریف فقط ‘ عبدالله سبا ” اور “ سبئيہ ”سے مخصوس نہيں
ہے بلکہ اسلامی لغات ميں ا یسے ہزاروں دوسرے الفاظ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئے ہيں
اور علماء نے بهی ان کے بارے ميں کتابيں لکه کر ان پرتحقيق کی ہے ليکن اسکے باوجو
دایسے دوسرے تحریف شدہ الفاظ کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے جن کے بارے ميں غفلت
ہوئی ہے اور وہ ان علماء کے قلم سے چهوٹ کر ان کی کتابوں ميں درج نہيںہوئے ہيں نہ ہی ان
پر تحقيق کی گئی ہے ۔
دونوں تحریف ہيں ، ليکن یہ کہاں اور وہ کہاں؟
سيف کی تحریفات بهی صرف ان ہی دو لفظوں ‘ ‘ عبدالله بن سبا” اور “ سبئيہ’ تک
محدود نہيں ہيں بلکہ اس نے تاریخ اسلام ميں بہت سے الفاظ ميں تحریف و تبدیلی کی ہے
چنانچہ ہم نے اسکے بہت حصوں کو اپنی تاليفات ميں ذکر کيا ہے سيف کے علاوہ بهی بعض
دوسرے افراد نے اسلامی لغت ميں کچه تحریفات ایجاد کی ہيں ١ ليکن سيف کی تحریفات اور
جعليات دوسروں کی تحریفات و جعليات سے کافی فرق رکهتی ہيں اس طرح کہ شاید دوسرے
ایک لفظ با مطلب کو غلطی سے یا نادانستہ طور پر تحریف اس کے بعدابن جوزی اضافہ کرتے
ہوئے کہتا ہے : ان زندیقوں کا کام یہ تها کہ وہ روایات کو گڑهتے تهے اور انہيں علمائے حدیث
کی کتابوں ميںدرج کرتے تهے علماء بهی اس خيال سے کہ یہ احادیث ان کی اپنی ہيں ان سب
کو اپنی روایتوں کے ضمن ميں نقل کرتے تهے ۔
یا ایک حقيقت کو نہ سمجهتے ہوئےتبدیل کردیں ، ليکن سيف ہميشہ عمداً اور خاص محرک و
مقصد کے پيش نظر تحریف اور جعل کا کام انجام دیتا ہے اس خطرناک عمل سے اس کا مقصد ا
س صحيح تاریخ کو آلودہ کرکے اس کی بنيادوں کوکهوکهلاو متزلزل کرنا ہے ۔ اس ميں اس کا
محر ک زندیق ہونا اور شدید خاندانی تعصب ہے دوسرا تفاوت یہ ہے کہ: وہ خلفاء ، قدرتمندوں
کے نفع ميں اورعام لوگوں کی پسند کے مطابق تاریخ اسلام ميںتحریف اور جعل انجام دیتاہے ۔
اس طرح وہ تمام ادوار ميں اپنے افسانوں اور جهوٹ کو رونق بخشنے ميں کامياب ہوا ہے ۔ اسی
رویہ کو اختيار کرنے کی وجہ سے:
---------
٣٧ ۔ ٣٨ ميں کہتا ہے : ابن ابی العوجا ملحد ، حماد بن سلمہ کا منہ بولا / ١۔ ابن جوزی اپنی کتاب “ موضوعات ” ( ١
بيڻا اور تربيت یافتہ تها ۔ وہ جهوڻی احادیث گڑه ليتا تها ۔ انہيں چالاکی سے اور چوری چهپے حماد کی کتاب ميں
وارد کرتا تها جب کوفہ کے گورنر محمد بن سليمان نے اسے گرفتار کيا اور حکم دیاکہ اس کا سر قلم کيا جائے
اورجب اسے اپنی موت کے بارے ميں یقين پيدا ہوا تو صراحت سے کہا: خداکی قسم ميں نے چار ہزار حدیث خود
جعل کی ہيں اور انہيں آپ کے صحيح احادیث ميں ملا دیا ہے ۔

ا ولاً: سيف کی روایتوں نے صاحبان اقتدار اور وقت کی حکومتوں ميں رونق بازار اور
سرگرم طرفدارپيدا کئے اور لوگوںميں یہ روایتيں مورد استقبال قرار پاکر رواج اور اشاعت پاگئی
ہيں ۔
ثانياً : سبئيہ کے بارے ميں سيف کے جعليات علماء اور دانشوروں سے پوشيدہ اور
ناشناختہ رہے ہيں اس طرح اس کے دوسرے جعليات اور خيالی افسانے ،سيکڑوں اصحاب اور
حدیث کے راوی شعراء بهی ان علماء کی نظر ميں حقيقت اور صحيح صورت ميں رونما ہوئے ہيں۔

ابن سبا اور سبئيہ کے بارے ميں شيعوں کی روایتيں
عبدالله بن سبا اور سبئيہ کے نام پر جو روایتيں و مطالب اہل سنت کی کتابوں ميں ائی
ہيں ، ان کے بارے ميں جس طرح گزشتہ صفحات ميں بيان ہو ا ، پہلے سيف نے انہيں جعل کيا
ہے پهر افواہ کی صورت ميں لوگوں ميں پهيل گئی ہيں ان علماء اور مؤرخين نے بهی انہيں سيف
اور لوگوں کی افواہوں سے لے کر اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے ۔
ل يکن جو روایتيں اس بارے ميںشيعوں کے ائمہ اہل بيت“ عليہم السلام ” سے ہم تک
پہنچی ہيں اس سلسلے ميںہم پہلے یہ کہنا چاہتے ہيں کہ ہم پر دقيق علمی بحث و تحقيق
کے بعد ثابت ہوا ہے کہ تاریخ اسلام ميں قطعی طور پر کوئی شخص بنام عبدالله بن سبا اور
گروہ و فرقہ بنام “ سبئيہ ” حقيقت ميں وجودنہيں رکهتا تها ایک یا دو روایتوں ميں کسی غير
موجود کے بارے ميںنام آنے سے اسے موجودکانام نہيںدیا جا سکتا ہے اور ایکغير موجود کو
وجود نہيں بخش سکتا ہے اس بنا پر جو بهی روایت ائمہ اہل بيت عليہم السلام کے نام پر
عبدالله سبا کے بارے ميں شيعی کتابوں ميں ائی ہے ، اگر اس روایت ميں ذکر ہوئے مطالب
عبدالله بن وهب سبائی ---تاریخ اسلام ميںجس کا وجود تها اور امام علی عليہ السلام کے
زمانہ ميں زندگی بسر کرتا تها--- سے تطبيق کرتے ہيں تو ایسے مطالب کے صحيح اور حقيقی
ہونا کا احتمال ہے ، جيسے : ابن سبا کا امير المومنين کا آسمان کی طرف دعا کيلئے ہاته
اڻهانے پر اعتراض کی روایت یا عبدالله بن سباکو مسيب کے ذریعہ علی ابن ابيطالب عليہ
السلام کے حضور لانے کی روائداد یا اس روایت کے مانند کہ جس کہ بارے ميں کہا جاتا ہے کہ
علی ابن ابيطالب عبدالله بن سبا کی طرف سے مشکل ميں تهے ۔
اس قسم کی روایتيں جو عبدالله بن وهب سبائی کی زندگی اور روش سے تطبيق
کرتی ہيں سب صحيح اور حقيقی ہوسکتی ہيں۔
ليکن ہر وہ روایت جو عبدالله بن وهب کی زندگی اور روش سے تطبيق کرتی ہے وہ
صحيح اور حقيقی نہيں ہوسکتی اور وہ جهوٹ کے علاوہ کچه نہيں ہے کہ اسے گمنام ہاتهوں
نے جعل کرکے ائمہ اہل بيت سے جهوڻی نسبت دیدی ہے ، شيعہ کتابوں ميں انہيں درج کيا
گيا ہے تا کہ انہيں بيشتر اشاعت مل سکے اور عوامی سطح پر قابل قبول قرار پائيں ليکن “
عبدلله بن سبا ’ نامی شخص یا قعقاع اورا سی کے خلق کئے گئے دوسرے افراد کبهی صحيح
نہيں ہوسکتے ہيں۔
یہی وجہ ہے کہ ‘ سبئيہ” کے بارے ميں روایتوں کی شناخت کيلئے جو کلی قواعدا ور
معيار ہمارے ہاته آیا ہے وہ یہ ہے کہ ان روایتوں ميں سے جو بهی راوی قبيلہ قحطان ---جنہيں
سبئيہ بهی کہتے ہے---سے تطبيق کرے اس ميںصحيح اور واقعی ہونے کا امکان موجود ہے
ورنہ صحيح نہيں ہوسکتی ہے کيوں کہ قحطان کے علاوہ اسلام ميں سبئيہ نام کا کوئی فرقہ
وجود نہيں رکهتا تها تاکہ اس سے مربوط مطالب اور روایتيں صحيح ہوسکيں ۔
ان تمام تحقيقات اور جانچ پڑتال کے بعد کہ ہم نے حقائق کو جهوٹ اور کذب سے
جداکرنے ميں جو تلاش اور کوشش کی ہے اگر پهر بهی کوئی شخص ابن سبا ، سبئيہ اور
سيف کی دوسری جعليات و تحریفات کے بارے ميںجنہيں ہم نے اپنی اس کتاب ميںذکر کيا ہے
، اسے قبول کرنا پسند نہ کرے اور اس کے تمام منحرف انگيز اور خرافات پر مشتمل افسانوں پر
ایمان لانا چاہے تو اس کی مثال ان بوڑهی عورتوں کی جيسی ہے جو خرافات پر مشتمل
افسانوں پر اعتقاد رکهتی ہيں ۔
یہاں پر ہم سيف کے اپنے ذہن ميںجعل کئے گئے عبدالله بن سبا و سبئيہ اور دوسرے
افسانوی سورماؤں اور افسانوں کے بارے ميں اپنی بات کاخاتمہ کرتے ہيں اور بار گاہ الٰہی سے
دست بہ دعا ہيں کہ علماء کو یہ توفيق عنایت فرمائے تا کہ وہ اسلامی حقائق کو افسانوی اور
خرافات سے جلد از جلد جدا کریں ۔
والله ولی التوفيق وهو حسبناو نعم الوکيل

اس حصہ کے مآخذ
١۔ خمسون و مائة صحابی مختلق ، تيسرا مقدمہ ، طبع بغداد
٢۔ عبدالله بن سبا ، جلد اول ، حصہ سقيفہ
٣۔ نقش عائشہ جلد دوم ، عائشہ در دوران علی عليہ السلام
۵٢ ۔ ١۵٣١ ، حکومت علی کے دوران وقائع / ۴۔ تاریخ ابن اثير : ٢
۵۔ وقعة صفين : نصر بن مزاحم ١٢
۶۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر : ١۶٧
٧۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ٣٣
٨۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ٣۶


کتاب کے منابع و مآخذ کی فہرست
١۔ الآثار الباقيہ عن قرون الخالية :تاليف، ابو ریحان محمد بن احمد بيرونی خوارزمی( ٣۶٢ ۔
۴۴٠ ه) ( ٩٧٣ ۔ ١٠۴٨ ء) طبع لایپزیک ١٩٣٢ ءء۔
٢۔ الاحکام السلطانيہ: تاليف ، قاضی ابو یعلی محمد بن حسيں فراء حنبلی مشہور بہ
ماوردی ( ٣٨٠ ۔ ۴۵٨ ه)( ٩٩٠ ۔ ١٠۶۶ ء) تصحيح ، محمد حامد فقی ، طبع مصطفی حلبی (
١٣۵۶ ئه)۔
٣۔ الاخبار الطوال : تاليف ، ابو حنيفہ احمد بن داودبن ونند دینوری ، ( ۔ ٢٨٢ ه) ( ۔
٨٩۵ ء ) طبع وزارة الثقافة و الارشاد مصر، ( ١٩۶٠ ء(
۴۔ الاستيعاب فی معرفة الاصحاب : تاليف ابو عمر یوسف بن عبدالله مشہور بہ ابن عبد
البر نمری قرطبی اشعری ( ٣۶٨ __________۔ ۴۶٣ یا ۴۶٠ ه) ( ٩٧٩ ۔ ١٠٧١ م) طبعمصر ، سال ١٣۵٨ ه اور
طبع حيدر آباد، ١٣٣۶ ه(
۵۔ اسد الغابة ، تاليف ،عز الدین علی بن محمد بن محمد بن عبد الکریم شيبانی جزری
مشہور بہ ابن اثير ، ( ۵۵۵ یا ۵۵٠ ۔ ۶٣٠ ه) ( ١١۶٠ ۔ ١٢٣٢ ء) طبع قاهرہ ، سال ٢٣٨٠ ه ۔
۶۔ الاصابہ فی تمييز الصحابہ : تاليف ابو الفضل شهاب الدین احمد بن علی بن محمد
کنانی عسقلانی مصری شافعی معروف بہ ابن حجر ، ( ٧٧٣ ۔ ٨۵٢ ه ) ( ١٣٧٢ ۔ ١۴۴٩ م) طبع
مصر ١٣۵٨ ه۔
٧۔الاعلام : تاليف ، خير الدین مشہور بہ زرکلی ،معاصر ، طبع سال ١٣٧٣ ۔ ١٣٧٨ ه ) (
١٩۵۴ ۔ ١٩۵٩ ء)پریس کوستاتسوماس۔
٨۔ الاغانی : تاليف ابو الفرج علی بن حسين بن محمد بن موسی مروانی ( ٢۴٨ ۔ ٣۵۶
ه) ( ٨٩٧ ۔ ٩۶٧ ء ) طبع مصر ( ١٣٢٣ ءء(
٩۔ ا لامامة و السياسة یا تاریخ الخلفاء : تاليف ابن قتيبہ ابو محمد عبدا لله بن مسلم
دینوری ( ٢١٣ ۔ ٢٧۶ یا ٢٧١ ه) ( ٨٢٧ ۔ ٨٩٩ ء ) ۔اور چونکہ کچه لوگوں نے موٴلف کی جانب اس
کتاب کی استناد ميں شک کيا ہے اسی لئے ہم نے صرف کتاب سے نقل نہيں کيا ہے بلکہ
دوسری معتبر کتابوں ميں اس کی تائيد بهی ملی ہے۔
١٠ ۔ امتاع الاسماع : تاليف تقی الدین احمد بن علی بن عبدالقادر بن محمد شافعی
١٣۶٧ ۔ ١۴۴١ ء) طبع مصر پریس لجنة التاليف ( ١٩۴١ ءء)۔ )( مشہور بہ مقریزی ( ٧۶٩ ۔ ٨۴۵
١١ ۔ انساب الاشراف : تاليف بلاذری ابو جعفر احمد بن یحيی بن جابر بغدادی (وفات ٢٧٩
ءء ) ( ٨٩٢ ءء) ، طبع مصر دار المعارف مصر ١٩۵٩ ء(
١٢ ۔ ایضاح المکنون : کشف الظنون ملاحظہ ہو۔
١٣ ۔بخاری ، صحيح بخاری ملاحظہ ہو۔
١۴ ۔ البدء و التاریخ: تاليف ابو زید احمد بن سہل بلخی ( ٢٣۵ ۔ ٣٢٢ ه) ( ٨۴٩ ۔ ٩٣۴ ء )
طبع پيرس ( ١٩٠١ ۔ ١٩٠٣ ء ) البتہ کچه علماء محمد بن طاهر مقدسی ( ۴۴٨ ۔ ۵٠٧ ه ) ( ١٠۵۶ ۔
١١١٣ ء) کو کتاب کا مؤلف جانتے ہيں ۔
١۵ ۔ تاج العروس فی شرح القاموس : تاليف محمد بن محمد بن محمد مقلب بہ مرتضی
واسطی زبيدی حنفی ( ١١۴۵ ۔ ١٢٠۵ ه ) ( ١٧٣٢ ۔ ١٧٩١ ء ) طبع اول۔
١۶ ۔ الکامل فی التاریخ معروف بہ تاریخ ابن اثير : تاليف ابن اثير صاحب اسد الغابہ
طبع قاهر ہ ١٣۴٧ ۔ ١٣۵۶ ه ، ایضاً طبع قاهرہ ، ١٢٩٠ ۔ ١٣٠٣ ه
١٧ ۔ العبرمعروف بہ تاریخ ابن خلدون : تاليف ابو زید عبدالرحمن بن محمد بن خلدون
مالکی شبيلی مغربی حضرمی ( ٧٣٢ ۔ ٧٠٨ ه ) ( ١٣٣٢ ۔ ١۴٠۶ ء ) پریس مطبعة النهضہ مصر (
١٣۵۵ ه(
١٨ ۔ نزهة النواظر معروف بہ تاریخ ابن شحنہ : تاليف محمد بن محمد بن محمد مشہور بہ
ابن شحنہ حنفی ( ٧۴٩ ۔ ٨١۵ ه) ( ١٣۴٨ ۔ ١۴١٢ ء) طبع قاهرہ ( ١٢٩٠ ۔ ١٣٠٣ ه ) ۔
١٩ ۔ تاریخ مدینة دمشق ، معروف بہ تاریخ ابن عساکر: تاليف ابو القاسم علی بن حسين
بن هبة الله دمشقی مشہور بہ ابن عساکر ( ۴٩٩ ۔ ۵٧١ ه) ( ١١٠۵ ۔ ١١٧۶ ء ) جلد ا و ٢ طبع
مجمع علمی دمشق۔
٢٠ ۔ البدایة و النهایة ، مشہور بہ تاریخ ابن کثير: تاليف عماد الدین ابو الفداء اسماعيل بن
عمرو بن کثير قرشی دمشقی بصری ، شافعی ( ٧٠٠ یا ٧٠١ ۔ ٧٧۴ ه ( ١٣٠١ ۔ ١٣٧٣ ء ) طبع
مطبعہ السعادة ۔
٢١ ۔ المختصر فی اخبار البشر ،مشہور بہ تاریخ ابوالفداء : تاليف عماد الدین اسماعيل بن
علی بن محمود شافعی مشہور بہ ابو الفداء صاحب حماة ( ۶٧٢ ۔ ٧٣٢ ه ) ( ١٢٧٣ ۔ ١٣٣١ ء(
٢٢ ۔ تاریخ الادب العربی : تاليف: نيکلسن ، طبع کمبریج
٢٣ ۔ تاریخ الاسلام الکبير: تاليف شمس الدین ابو عبدالله محمد بن احمد بن عثمان بن
قایماز ترکمانی مصری شافعی مشہور بہ ذهبی ۶٧٣ ۔ ٧۴٨ ه ) ( ١٢٧۴ ۔ ١٣۴٨ ء ) طبع قاهرہ (
١٣۶٧ ه(
٢۴ ۔ تاریخ الاسلام السياسی ،طبع اول مصر تاليف ڈاکڻر حسن ابراہيم حسن ( پی ، ایچ ،
ڈی ، فلسفہ و اخلاق (
٢۵ ۔ تاریخ الکبير بخاری: تاليف ابو عبد بالله محمد بن اسماعيل بن ابراہيم ( ١٩۴ ۔ ٢۵۶ ه )
٨١٠ ۔ ٨٧٠ ء ) طبع حيدر آبار ١٣۶١ ه۔اس کتاب ميں مولف نے موثق اور ضعيف راویوں کو جمع )
کيا ہے۔
٢۶ ۔ تاریخ بغداد :تاليف احمد بن علی بن ثابت ، مشہور بہ خطيب بغدادی ( ٣٩٢ یا ٣٩١ ۔
۴۶٣ ه) ( ١٠٠٢ ۔ ١٠٧١ ء ) طبع مصر۔
٢٧ ۔ تاریخ الخميس : تاليف شيخ حسين بن محمد بن حسن دیار بکری مالکی ( وفات
) ٩۶۶
٢٨ ۔ تاریخ الخلفاء ،معروف بہ تاریخ سيوطی : تاليف جلال الدین عبدالرحمن ابو بکر ناصر
الدین محمد شافعی مشہور بہ سيوطی ( ٨۴٩ ۔ ٩١١ ه) ١۴۴۵ ۔ ١۵٠۵ طبع مصر ١٣۵١ ء
٢٩ ۔ تاریخ الامم و الملوک مشہور بہ تاریخ طبری: تاليف ابو جعفرمحمد بن جریر ابن یزید
٢٢۴ ۔ ٣١٠١ ه ) ( ٨٣٩ ۔ ٩٢٣ ه ) طبع لدن ، پریس حسينيہ مصر ( ١٣٢۴ ه ( طبری ٠
٣٠ ۔ تاریخ یعقوبی : تاليف احمد بن ابی یعقوب اسحاق بن جعفر اخباری مشہور بہ
یعقوبی و ابن واضح (وفات ٢۴٨ ۔ه)( ٨٩٧ ) طبع نجف ( ١٣۵٨ ) طبع دار صادر بيروت، سال
١٣٧٩ ه( )
٣١ ۔ تجرید اسماء الصحابہ : تاليف ذهبی صاحب تاریخ اسلام ، طبع حيدر آباد ( ١٣۴٢ ه(
٣٢ ۔ تذکرہٴ خواص الامة معروف بہ تذکرہٴ سبط ابن جوزی: تاليف ابو مظفر شمس الدین
یوسف بن قزاوغلی بن عبدالله بغدادی حنفی مشہور بہ سبط ابن جوزی( ۵٨١ یا ۵٨٢ ۔ ۶۵۴ ه)
١١٨۵ ۔ ١٢۵۶ ء) طبع نجف سال ١٣۶٩ ه۔
٣٣ ۔ تلخيص مستدرک حاکم: تاليف ذهبی صاحب تاریخ الاسلام ، طبع حيدر آبا ( ١٣۴٢ ه(
٣۴ ۔ تلخيص معالم دار الهجرة : تاليف زین الدین ابو بکر بن حسين بن عمر مراغی ٧٢٧ یا
٧٢٩ ۔ ٨١۶ ه ( ١٣٢٧ ۔ ١۴١۴ ء ) طبع سال ١٣٧۴ ه تحقيق محمد عبدالجواد اصمعی۔
٣۵ ۔ التمهيد : تاليف ابو بکر محمد بن طيب بن محمد بصری اشعری مشہور بہ باقلانی (
٣٣٨ ۔ ۴٠٣ ه) ٩۵٠ ۔ ١٠١٣ ء ۔
٣۶ ۔ التمهيد و البيان فی مقتل الشہيد عثمان : تاليف ابو عبدا لله محمد بن یحيی بن
محمد اشعری مالکی اندلسی مشہورر بہ ابن ابوبکر ( ۶٧۴ ۔ ٧۴١ ه ) ١٢٧۵ ۔ ١٣۴٠ م(
٣٧ ۔ التنبيہ و الاشراف : تاليف ابو الحسن علی بن الحسين شافعی ( ٣۴۵ ئيا ٣۴۶ هء
٩۵۶ ءء طبع مصر تصحيح صاوی
۴٨ ۔ تہذیب تاریخ ابن عساکر : تاليف عبدالقادر بن احمد بن بدران ١٣۶۶ هء ٩٢٧ ءء طبع
اول دمشق ١٣٢٩ ه۔
٣٩ ۔ تہذیب التہذیب : تاليف ابن حجرمعروف بہ صاحب اصابہٴ ، طبع حيدر آباد ( ١٣٢۵ ۔
١٣٢٧ ه(
۴٠ ۔ تيسير الوصول الی جامع الاصول : تاليف وجيہ الدین ابو عبدالله عبدالرحمن بن علی
١۵٣٨ یا ١۵٣٧ ء ) ، ١۴۶١ ) بن محمد مشہور بہ ابن الدیبع شيبانی زبيدی شافع ۔ ( ٨۶۶ ۔ ٩۴۴
طبع مصر ،سال ١٣۴۶ ه
۴١ ۔ الجرح و التعدیل : تاليف ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم بن محمد ( ٢۴٠ ۔ ۴٢٧ ه)
٨۵۴ ۔ ٩٣٨ ء ء) طبع حيدرآباد سال ١٣٧٢ ه )
۴٢ ۔ الحضارة الاسلامية : تاليف مشتخبرشناس آدم متن ترجمہ بہ عربی بقلم عبدالهادی
ابوربدہ طبع دوم پریس لجنة التاليف و الترجمہ و النشر قاهرہ ، سال ١٣۶۶ هء۔
۴٣ ۔ خصائص : خصائص الکبری : تاليف سيوطی صاحب تاریخ الخلفاء ، طبع حيدرآباد
١٣١٩ هء۔
۴۴ ۔ خلاصة تہذیب الکمال فی اسماء الرجال : تاليف صفی الدین احمد بن عبدالله خزرجی
انصاری ( ٩٠٠ وفات ٩٢٣ ئه کے بعد) ( ١۴٩۵ ۔ ١۵١٧ ء ) کتاب کی تاليف کا سال ٩٢٣ ه تها
طبع قاهرہ ١٣٢٣
۴۵ ۔ خطط مقریزی: تاليف صاحب امتاع الاسماع ،طبع مصر۔
۴۶ ۔ دائرة المعارف الاسلاميہ: تاليف ، مشرق شناس، هوڻسمان ویشنگ،آرنالڈ وبرونسال
، ہيفن ، و شادہ ، وباسہ ، ہارڻمان، جيب ، انسائکلوپيڈیا اصل ميں انگلش ، جرمنی اور
فرانسيسی زبان ميں تاليف کی گئی ہے اور اس کے بعد مصری اساتذہ محمد ثابت اور احمد
شنتاوی ، ابراہيم زکی خورشيد اور عبدالحميد یونس نے اکتوبر ١٩٣٣ ءء سے اس کا عربی زبان
ترجمہ شروع کيا ، ہم نے اس کتاب کا انگلش ایڈیشن ملاحظہ کيا ہے۔
۴٧ ۔ دائرة المعارف القرن العشرین مشہور بہ دائرة المعارف فرید وجدی: تاليف محمد فرید
مصطفی وجدی ( ١٢٩٢ ۔ ١٣٧٣ ه ) ( ١٨٧۵ ۔ ١٩۵۴ م) طبع اول مصر۔
۴٨ ۔ دلائل النبوة : تاليف حافظ ابو نعيم احمد بن عبدالله اصفہانی ( ٣٣۶ یا ٣٣۴ ۔ ۴٣٠ ه )
٩۴٣ ۔ ١٠٣٨ ) طبع حيدر آباد ( ١٣٢٠ ه(
۴٩ ۔ الدولة العربية و سقوطها: تاليف یوليوس و لهاوزن ، ترجمہ عربی بہ قلم ڈاکڻر یوسف
العش طبع مطعة الجامة السوریة دمشق ( ١٣٧۶ ۔ ٩۵۶ ءء(
۵٠ ۔ الذریعة الی تصانيف الشيعة : تاليف شيخ محمد محسن الطهرانی ( حاج شيخ آغا
بزرگ تہرانی) طبع اول نجف ، طهران
۵١ ۔ ذیل کشف الظنون : تاليف صاحب هدیة ، طبع استنبول ( ١٣۶۴ ه ١٣۴۵ ء(
۵٢ ۔روضة الصفا:تاليف مير خواند محمد بن خاوند شاہ بن محمود شافعی( وفات ٩٠٣ ه )
١۴٩٧ ء( )
۵٣ ۔ الریاض النضرة : تاليف احمد بن عبدالله بن محمد شافعی مشہور بہ محب الدیں
طبری ( ۶١٠ یا ۶١۴ یا ۶١۵ ۔ ۶٩۶ ه ) ( ١٢١٨ ۔ ١٢٩۵ ء(
۵۴ ۔ السقيفة و فدک ، معروف بہ سقيفة جوہری : تاليف ابو بکر احمد بن عبدالعزیز جوہری
، ١٠٩ / بحار ميں ج ٨
۵۵ ۔ السنة و الشيعة : تاليف سيد محمد رشيد رضا ابن علی بن رضا قلمونی مصری
بغدای الاصل ( ١٣٨٢ ۔ ١٣۵۴ ه ) ( ١٨۶۵ ۔ ١٩٣۵ ء(
۵۶ ۔ سنن ابن ماجہ: تاليف ابو عبدالله محمد بن یزید بن عبدالله بن ماجہ قزوینی ( ٢٠٩ ۔
٢٧٣ ه ) ( ٨٢۴ ۔ ٨٨٧ م ) چاپ قاهرہ ( ١٣٧٣ ه ) تصحيح محمد فؤاد عبدالباقی۔
۵٧ ۔ سنن ابو داود سجستانی : تاليف سليمان بن اشعث بن اسحاق بن بشير بن شداد
ازدی حنبلی جوکہ حفاظ حدیث تها ، ( ٢٠٢ ۔ ٢٧۵ ه ) ٨١٧ ۔ ٨٨٩ ء ) طبع لکهنو ( ١٣٢١ ه(
۵٨ ۔ صحيح ترمذی معروف بہ سنن ترمذی : تاليف محمد بں عيسی بن سورة سلمی (
٢١٠ ۔ ٢٧٩ ه ) ، ( ٨٢۵ ۔ ٨٩٢ ه ) طبع بولاق ١٢٩٢ ۔ و طبع المطبعة المصریة ( ١٣۵٠ ۔ ١٣۵٢ ه(
۵٩ ۔ سنن دارمی : تاليف ابو محمد عبدالله بن الرحمن دارمی ( ١٨١ ۔ ٢۵۵ ه) ( ٧٩٧ ۔ ٨۶٩
ء ) طبع مطبعہ اعتدال دمشق شام سال ١٣۴٩ ۔
۶٠ ۔ السيادة العربية و الشيعة و الاسرائيليات : تاليف مشرق شناس فان فلوڻن ، عربی
ترجمہ ڈاکڻر حسن ابراہيم حسن کے قلم سے طبع اول مصر سال ١٩٣۴ ءء۔
۶١ ۔ السيرة الحلبية : انسان العيون فی سيرة الامين و الماٴمون : تاليف علی بن برهان
الدین حلبی شافعی ( ٩٨۴ ۔ ١٠۴۴ ه ) ( ١۵۶٧ ۔ ١۶٣۵ ء ) طبع مصر ( ١٣۵٣ ه(
۶٢ ۔ السيرة النبویة : تاليف احمد بن زینی دحلان مکی شافعی ( ١٢٣١ ۔ ١٣٠۴ ه ) (
١٨١۶ ۔ ١٨٨۶ ء) ، تاریخ تاليف ( ١٢٧٨ ه (
۶٣ ۔ شذرات الذهب : تاليف عبدالحی بن احمد بن محمد دمشقی حنبلی مشہور بہ ابن
١٠٨٩ ه) ( ١۶٢٣ ۔ ١۶٧٩ ء) طبع مصر سال ١٣۵٠ ۔ ١٣۵١ ه( ، العماد ( ١٠٣٣
۶۴ ۔ شرح ابن ابی الحدید : تاليف عزالدین ابو حامد عبدالحميد بن هبة الله محمد مدائنی
معتزلی مشہور بہ ا بن ابی الحدید ( ۵٨۶ ۔ ۶۵۵ ه ) ( ١١٩٠ ۔ ١٢۵٧ ء ) طبع اول مصر مطبعہ
الحلبی مصر و طبع دوم تحقيق ابوالفضل ابراہيم ( ١٩۵٩ ۔ ١٩۶٣ ء) ۴۶ و چاپ سنگی ایران۔
۶۵ ۔ صحيح بخاری : تاليف صاحب کتاب مشہور بہ تاریخ بخاری ، طبع مصر ( ١٣٢٧ ء(
۶۶ ۔ صحيح ترمذی : سنن ترمذی
٢٠ ۶٧ ۔ صحيح مسلم : تاليف ابو الحسين مسلم بن حجاج قشيری نيشاپوری ( ٢٠۶ ی ۴
۔ ٢۶١ ه ) ( ٨١٠ ۔ ٨٧۵ ء ) طبع مصر سال ١٣٣۴ ه۔
۶٨ ۔ صفة الصفوة : تاليف ابی الفرج عبدالرحمان بن علی بن محمد بکری حنبلی مشہور
بہ ابن جوزی ( ۵١٠ ۔ ۵٩٧ ه ) ( ١١١۶ ۔ ١٢٠١ ) طبع حيدر آباد ( ١٣۵٧ ه(
۶٩ ۔ کتاب الصفين : تاليف نصر بن مزاحم بن سيار منقری کوفی ( ٢١٢ ه ) ( ٨٢٧ ء ) طبع
مصر۔ ٧٠ ۔ طبری: تاریخ طبری
٧١ ۔ طبقات ابن سعد: کتاب طبقات صحابہ و تابعين : تاليف ابو عبدالله محمد بن سعد بن
منيع زهری بصری ( ١۶٨ ۔ ٢٣٠ ه ) ( ٧٨۴ ۔ ٨۴۵ ء) طبع بيروت ١٣٧۶ ۔ ١٣٧٧ ه ) طبع لنڈن۔
٧٢ ۔ طبقات شافعيہ کبری: تاليف : تاج الدین عبدالوهاب بن علی بن عبدالکافی شافعی
مشہور بہ سبکی ( ٧٢٧ یا ٧٢٨ ۔ ٧١١ ه ) ( ١٣٢٧ ۔ ١٣٧٠ ء ) طبع اول مصر پریس حسينيہ سال
١٣٢۴ ه ۔
٧٣ ۔ عایشہ و سياست : تاليف سعيد افغانی ( معاصر ) طبع قاهرہ ، پریس لجنة التاليف
و النشر (سال ١٩۴٧ ء )۔
٧۴ ۔ العقد الفرید: تاليف شہاب الدین احمد بن محمد بن عبد ربہ اندلسی مروانی مالکی (
٣٢٨ ه ) ( ٨۶٠ ۔ ٩۴٠ ء ) طبع مصر ( ١٣٧٢ ه( ) ٢۴۶
٧۵ ۔ عقيدة الشيعہ : تاليف دوایٹ ،م، دونولڈسن ، عربی ترجمہ عبدالمطلب ، طبع پریس
سعادت قاہرہ ( ١٣۶۵ ۔ ١٩۴۵ ء(
٧۶ ۔ عيون الاثر: تاليف، فتح الدین ابوالفتح محمد بن محمد بن محمد بن عبدالله شافعی
١٢٧٣ م) پریس - ۶٧١ ه/ ١٣٣۴ - یعمری اندلسی اشبيلی مصری مشہور بہ ابن سيد الناس ( ٧٣۴
قدسی قاہرہ ١٣۵۶ ه
، ٧٧ ۔ فتوح البلدان: تاليف بلاذری صاحب انساب الاشراف ، طبع مصر، سال ١٣١٩
٧٨ ۔ فجر الاسلام : تاليف احمد امين مصری ( ١٢٩۵ ۔ ١٣٧٣ ه ) ( ١٨٧٨ ۔ ١٩۵۴ ء)، طبع
لجنة التاليف و النشر قاہرہ ، ١٩۶۴ ۔
٧٩ ۔ فہرست ابن ندیم ، فوز العلوم : تاليف ابوا لفرج محمد بن اسحاق بن ابی یعقوب ندیم
معتزلی ( ۴٣٨ ه ) ( ١٠۴٧ ء ) طبع مصر ١٣۴٨ ۔
٨٠ ۔ القاموس ، القاموس المحيط : تاليف ، مجد الدین ابو طاهر محمد بن یعقوب بن محمد
شيرازی شافعی مشہور بہ فيروز آبادی ( ٧٢٩ ۔ ٧١٧ ه ) ( ١٣٢٩ ۔ ١۴١۴ ء ) طبع ، مصر ، ( ١٣۵٣
۔ ١٣۵۴ ه(
٨١ ۔ کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون : تاليف حاجی خليفہ مصطفی بن عبدالله
١۶٠٩ ۔ ١۶۵٧ ء) طبع اسڻنبول ( ١٣۶٠ ۔ ١٣۶٢ ه( ) ( مشہور بہ کاتب حلبی ( ١٠١٧ ۔ ١٠۶٧
٨٢ ۔ کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال : تاليف علاء الدین علی بن حسام الدین
عبدالملک بن قاضخان مشہور بہ متقی ہندی ( ٨٨۵ ۔ ٩٧۵ ه ( ١۴٨٠ ۔ ١۵۶٧ ء ) سال ٩۵٧ ه ،
طبع حيدر آباد ( ١٣١٣ ه(
٨٣ ۔ اللئالی المصنوعة فی الاحادیث الموضوعة : تاليف سيوطی صاحب تاریخ الخلفاء ،
٨۴ ۔ اللباب فی تہذیب الانساب : تاليف ابن اثير صاحب تاریخ ابن اثير ، طبع قدسی، سال
١٣۵٧ ه
٨۵ ۔ لسان الميزان : تاليف ابن حجر صاحب اصابہٴ طبع حيدر آباد ، ( ١٣٢٩ ه(
٨۶ ۔ مروج الذهب: تاليف مسعودی صاحب التنبيہ و الاشراف ، طبع مصر ( ١٣۴۶ ه(
٨٧ ۔ کتاب المستدرک علی الصححين : بخاری و مسلم، تاليف ابو عبدالله محمد بن عبدالله
بن محمد نيشاپوری ( ٣٢١ ۔ ۴٠۵ ه ) ( ٩٣٣ ۔ ١٠١۴ ء ) طبع حيدرا آباد ( ١٣٣۴ ء(
٨٨ ۔ مسند احمد ، تاليف : ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل شيبانی مروزی ( ١۶۴ ۔
٢۴١ ه (
٨٩ ۔ مسند طيالسی : تاليف سليمان بن داود بن جارود طيالسی ( ١٣٣ ۔ ٢٠۴ یا ٢٠٣ ه )
٧۵١ ۔ ٨٢٠ ء ) طبع حيدر آباد ( ١٣٢١ ه( )
٩٠ ۔ معجم الادباء : تاليف ابوعبدالله یاقوت بن عبدالله حموی رومی بغدادی ( ۵٧۴ ۔
۶٢۶ ه)( ١١٧٨ ۔ ١٢٢٩ ء ) طبع دمشق مطبعہ الترقی ،سال ١٣٧۶ ه۔
٩١ ۔ معجم البلدان : تاليف یاقوت حموی معروف کہ صاحب معجم الادباء طبع یورپ و طبع
بيروت ( ١٣٧۴ ۔ ١٣٧۶ ه(
٩٢ ۔ معجم المولفين : تاليف عمر رضا کحالہ ( معاصر) طبع مطبعہ الترقی بدمشق ، (
١٣٧۶ ۔ ١٣٨١ ه) ( ١٩۵٧ ۔ ١٩۶١ ء(
٩٣ ۔ مقاتل الطالبين : تاليف ابوالفرج معروف بہ صاحب اغانی طبع قاهرہ ، ( ١٣٢٣ ه(
٩۴ ۔ مقدمہٴ ابن خلدون : تاليف ابن خلدون صاحب تاریخ ابن خلدون ، طبع مطبعہ النہضة
قاهرہ ( ١٣۵۵ ه(
٩۵ ۔ الملل و النحل : تاليف شہرستانی ابو الفتح محمد بن عبدا لکریم بن احمد اشعری (
۵۴٨ یا ۵۴٩ ه) ( ١٠٧۵ ۔ ١١۵٣ ء( ، ۴۶٧ یا ۴٧٩
٩۶ ۔ منتخب کنز ل العمال : تاليف علاء الدین هندی ، طبع اول مصر ۔
٩٧ ۔ الموفقيات: تاليف زبير بن بکار بن عبدالله بن مصعب بن ثابت بن عبدالله بن زبير( ١٧٢
۔ ٢۵۶ ه) ( ٧٨٩ ۔ ٨٧٠ ء) ہم نے اس کتاب سے نقل کرنے ميں شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید
پر اعتماد کيا ہے۔
٩٨ ۔ ميزان الاعتدال : تاليف ذهبی صاحب تاریخ اسلام ، طبع لکهنو ( ١٣٠۶ ه(
٩٩ ۔ سيرة اعلام النبلاء : تاليف ذهبی معروف بہ صاحب تاریخ اسلام طبع اول قاہرہ پریس
دار المعارف ( ١٩۵٧ ه(
١٠٠ ۔نسب قریش : تاليف ابو عبدالله مصعب بن الزبيری ( ١۵۶ ۔ ٢٣۶ ه ) ( ٧٧٣ ۔ ٨۵١ ء ) از
انتشارات مشرق شناس ، الف ،ليفی ، برنسال طبع ( دار المعارف(
١٠ ۔نہج البلاغہ ، تاليف شریف رضی محمد بن حسين بن موسیٰ ( جوحضرت موسی ١
بن جعفر عليہ السلام کی پاک و پاکيزہ دریت ميں ہيں) ( ٣۵٩ ۔ ۴٠۶ ه ) ( ٩٧٠ ۔ ١٠١۵ ء) طبع
مصر شرح محمد عبدہ۔
١٠٢ ۔ ہدیہ۔ ہدیة العارفين الی اسما ء المؤلفين، تاليف اسماعيل پاشا ابن محمد امين بن
مير سليم بغدادی، ( ١٩٣٩ م) ( ١٩٢٠ م) طبع اسلامبول ( ١٣۶۴ ۔ ١٣۶۶ ه)۔
١٠٣ ۔ وفيات ، (وفيات الاعيان ): تاليف احمد بن محمد بن ابراهيم بر مکی اربلی شافعی
مشہور بہ ابن خلکان ، طبع پریس النهضة مصر ( ١٣۶٧ ه)۔
ضميمہٴ فہرست مآخذ
١۔ جمہرة الانساب: تاليف ، هشام بن محمد بن سائب معروف بہ ابو منذر ( وفات ٢٠۴ ه)
یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے کہجس کی پہلی جلد قبيلہٴ عدنان کی نسب کے بارے ميں
اور دوسری جلد قبيلہٴ قحطان کے نسب کے بارے ميں ہے ۔ اس کتاب کی زیراکس(عکس) آیة
الله نجفی مرعشی کی لائبریری ميں موجود ہے اور ہم نے اسی سے استفادہ کيا ہے۔
٢۔ “التاریخ ” : تاليف ابن الخياط ، خليفہ ، ابو عمر ، ملقب بہ شباب عصفری (وفات ٢۴٠
هء) اور اس کتاب کی تحقيق ، ضياء عمر نے ١٣٨۶ هء ميں انجام دیکر طبع آداب ،جو کہ
مطبوعات نجف ميں سے ایک ہے۔
٣۔ “الفتوح ” :تاليف ابن اعثم ، ابو محمد احمد بن اعثم کوفی وفات ٣١۴ هء) اوریہ کتاب
١٣٨٨ ه کو حيدر آباد ، ہندوستان ميں طبع ہوئی ہے
۴۔“ جمہرة انساب العرب ”:تاليف ابن حزم، ابو محمد علی بن احمد فرزند سعيد بن حزم
اندلسی (وفات ۴۵۶ ه) اس کتاب کی تحقيق عبدالسلام نے کی ہے اور ١٣٨٢ هء کو دار
المعارف مصر ميں طبع ہوئی ہے ، اسی مولف کی دوسری کتاب “ الفصل فی الملل و الاهواء و
النحل” ہے جو کہ طبع تمدن ١٣٣٢ ه کو شائع ہو چکی ہے۔
۵۔ “لسان الميزان ” ، “تقریب التهذیب”: تاليف ابن حجر احمد بن علی عسقلانی ، (وفات
٨۵٢ هء) کی یہ دو کتابيں ہمارے مآخذ ميں شامل ہے ۔ لسان الميزان طبع حيدر آباد ، ١٣٢٩ ه،
اور تقریب کی تحقيق عبدالوهاب عبد الطليف ، طبع دار الکتب العربيہ ،قاہرہ ١٣٨٠ ه ۔
مؤلف کی تيسری کتاب “فتح الباری ”“ شرح صحيح بخاری” طبع مصطفی البانی الحلبی
، مصر سال ١٣٧٨ ہے۔
۶۔ مؤلف نے اپنے قلم سے لکهی ہوئی دوسری کتابوں سے بهی استفادہ کيا ہے۔
١۔ احادیث ام المؤمنين عایشہ ، طبع تهران ١٣٨٠ ه۔
٢۔ عبدالله بن سبا جلد ١، طبع بيروت ١٣٨٨ ه۔
٣۔ خمسون و ماٴة صحابی مختلق جلد ا ،طبع دوم بغداد ١٣٨٩ ه
٧۔ اجناس گلدزیہر ، ولادت ١٨۵٠ ء ، وفات ١٩٢١ ء ، اس کی کتاب “ تاریخ التصور
العقيدتی و التشریعی فی الدین الاسلامی ” جس کا عربی ترجمہ “ محمد یوسف اور علی
حسن عبدالقادر و عبد العزیز عبدالحق ” نے کيا ہے اور دار الکتب الحدیثہ ، مصر نے اس کو شائع
کيا ہے۔__