عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے(تيسری جلد)
 

جعل و تحریف کے محرکات
انها کانت تدمغ ائمة اهل البيت فی جميع العصور
یہ جعليات اور افسانے تمام زمانوں ميں شيعوں کو نقصان پہنچانے اور انهيں کچلنے کيلئے تهے۔مؤلف

اگر ہم تمدن اسلامی کے بعض مواقع کے بارے ميں ایجاد کی گئی تحریفات اور تغيرات
پر دقيق بحث و تحقيق کریں گے تو ہميںمعلوم ہوگا کہ ان تحریفا ت ميں سے بعض مؤلفين کی
غلطيوں کی وجہ سے وجود ميں آئی ہيں ان غلطيوں سے دوچار ہونے والے افراد ، انکی اشاعت
کرنے ميں شاید سياسی محرک یا خاندانی تعصب یا مذہبی تعصب کار فرما نہيں تها ۔
ليکن افسانہ عبدالله بن سبا اور سبئيہ کے جعل و نشر ميں عام طور پر ملوث افراد اور
خصوصی طورپر وقت کی حکومتيں مختلف عزائم اور محرکات رکهتی تهےں ، کيونکہ:
١ (افسانہ عبد الله بن سبا ، اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم پر ہونے والے
اعتراضات اور تنقيدوں پر پردہ پوشی کرتاہے اور انہيں ان اعتراضات سے پاک ، منزہ اور مبرا کرتا
ہے یہ ایک بہت نازک اور سياسی مطلب ہے جو تمام ادوار ميںلوگوں کے مختلف طبقات اور
صاحب قدرت اور حکومتوں کا پسندیدہ تها ۔
٢۔ یہ افسانہ اسلام کی ابتدائی صدیوں کے تمام تاریخی مظالم ، عيوب ، خطاؤں اور
گناہوں کو قبائل قحطان کی گردن پر ڈالتا ہے اور اس کے مقابلہ ميں تمام فضائل و تاریخی
کارناموں کو قبائل عدنان سے نسبت دیتا ہے چونکہ خاندان عباسی کے اواخر تک حکومتيں
قبيلہ قریش اور عدنانيوں ميں رہی ہيں ،یہ لوگ قحطانيوں اور سبائيوں سے عداوت اور شدید
مخالفت رکهتے تهے اس لئے انہوں نے اس افسانہ کی اشاعت اور ترویج ميں جو ان حکومتوں
کے حق ميں اور ان کے دشمنوں کے نقصانات ميں تها ۔ تمام قدرت اور پوری طاقت کے ساته ہر
ممکن کوشش کی ۔
٣۔ ان سب سے اہم یہ کہ یہ افسانہ خلفاء کی حکومت کے مخالفوں ---جو خاندان
عصمت کے شيعہ تهے ----پر کفر و الحاد د کا الزام لگا کر انہيں دین و مذہب سے خارج کرتا ہے
کيونکہ یہ لوگ خلفای عثمانی کے دور تک تمام ادوار ميں حتی آج تک وقت کی حکومتوں کے
مخالف تهے ۔ خود یہی افسانہ ہے جس نے گزشتہ زمانہ ميں وقت کی حکومتوں کيلئے شيعوں
پر حملہ کرنے کا راستہ ہموار کيا ہے اور شيعوں پر ہم قسم کے دباؤ ، مشکلات ، اور دشواریاں
ایجاد کرنے کيلئے حکومتوں کيلئے قوی سہار ااور مضبوط دستا ویز کا کام کياہوا ہے بالکل واضح
ہے کہ وقت کی حکومت اس قسم کی فرصت سے فائدہ اڻهانے کی پوری پوری کوشش کرتی
اور اس قسم کے وسيلہ کی تائيد و تثبيت کرنے کيلے پوری طاقت اور قدرت کو بروئے کار لائی
ہے۔
خود یہی محرک اور اس کے علاوہ دوسرے محرکات تهے جس نے اس افسانہ کو
وجودبخشانيز اس کو اشاعت اورشہرت دی اور اس سلسلے ميں علماء و محققين پر بحث و
تحقيق کے دروازے مسدودکردئيے یہاں تک خداوند عالم نے اس پر بحث و تحقيق کرنے کی
توفيق ہميں عنایت فرمائی ولله الحمد و المنة

سيف کی دوسری تحریفات اور جعليات
سيف کی جعليات و تحریفات صرف افسانہ عبدالله بن سبا تک ہی محدود نہيں تهيں
بلکہ اس سے پہلے اشارہ کئے گئے محرکات کے علاوہ اپنے الحاد اور زندقہ کے محرکات کے
پيش نظر بهی فراوان افسانے جعل کئے ہيں اور ان افسانو ں کيلئے سورما بهی خلق کئے ہيں
جن کی تحقيق کيلئے ہم نے کئی کتابيں جيسے : “خمسون و ماٴة صحابی مختلق ”یعنی “ایک
سو پچاس جعلی اصحاب” “ رواة مختلقون ” یعنی “جعلی راوی ” اور “ عبدالله بن سبا’ ’تاليف
کی ان کتابوں ميں ضمنی طو رپر ان سوالات کا جواب بهی آیا ہے کہ:
یہ تاریخ اسلام ميں یہ تحریفات ، تبدیلياں اور جعليات کيوں اور کيسے وجود ميں آئے
ہيں؟!
تاریخ اور حدیث کے علماء نے اس کے مقابلہ ميں کيوں بالکل خاموشی اختيار کی ہے
اور گزشتہ کئی صدیوں کے دوران اس سلسلہ ميں کسی قسم کی تحقيق اورجانچ پڑتال نہيں
کی گئی ہے ؟!اس کے علاوہ ہم نے کتاب “ عبد الله بن سبا” ١ کی فصل “ تحریف و تبدیل ”
ميں اس بات کی طرف اشارہ
کيا ہے کہ سيف بن عمر نے امير المؤمنين حضرت علی عليہ السلام کے قاتل عبدالرحمان ابن
ملجم کے نام کو کيسے خالد بن ملجم ميں تحریف کرکے اسے علی عليہ السلام کے بارے
ميںغلو کرنے والے فرقہ “ سبئيہ ” کی ایک بزرگ شخصيت دکها یا ہے اس کے علاوہ پيغمبر
صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے مشہور صحابی “ خزیمة بن ثابت انصاری ” کو کيسے دو
اشخاص : ایک “ ذو الشہادتين ” کے نام سے اور دوسرے کو “غير ذو الشہادتين ”کے نام سے
پيش کيا ہے اسی طرح “ سماک بن خرشہ انصاری ” کو دو اشخاص دکهائے ہيں ایک معروف بہ
ابو دجانہ اور دوسرا غير ابودجانہ ، اور عبدالله بن سباکو بهی دو اشخاص دکهانے ميں کامياب ہوا
ہے ایک ابن وهب سبائی جو علی عليہ السلام کی خلافت کے دوران گروہ خوارج کا سردار تها
اور دوسرا ابن سبا جس کا حقيقت ميں کوئی وجود ہی نہيں تها اوراس نے کسی ماں سے
جنم ہی نہيں ليا تها بلکہ یہ سيف کے ذہن کی پيدا وار تها اس لحاظ سے تاریخ اسلام ميں جعل
، تحریف او رتخليق سيف کی باضابطہ ہنر مندی اور معمول کے مطابق پيشہ تها اور اس ميں
کسی قسم کے چون و چرا اور تعجب و حيرت کی بالکل گنجائش نہيں ہے پهر بهی ان تحریفات
و جعليات کے مقابلہ ميں علماء کی خاموشی تازہ نہيں تهی اور افسانہٴ عبدالله بن سبا سے
ہی مخصوص نہيں تهی کہ جو ایک فرد محقق کيلئے بُعد اور ناقابل قبول اور ناقابل حل دکهائی
دے ۔
---------
١۔ اس کتاب کی جلد دوم فارسی ترجمہ ١٩٢ و ٢٠۴ ملاحظہ ہو۔


پانچ جعلی اصحاب
یاددہانی کے طور پر سيف کے سورماؤں کو تخليق کرنے کے کارنامے اور ان کارناموں کے
نمونے پيش کرنے کے لئے یہا ںپر مناسب ہے درج ذیل پانچ افسانوی اصحاب کی طرف اشارہ
کریں۔

١۔ قعقاع بن عمر و بن مالک تميمی اسيدی:
سيف نے اسے ایک زبردست اور الہام
شدہ شاعر، پيغمبر کا صحابی اور لشکر اسلام کے کمانڈر کی حيثيت سے پہچنوایا ہے سنی
اور شيعہ علماء نے بهی اس کی زندگی کے حالات پر تفصيل سے روشنی ڈالی ہے ہم نے
بهی اپنی کتاب“ ١۵٠ جعلی اصحاب ” ميں ١۴٠ صفحات پر اس کے افسانہ پر بحث و تحقيق کی
ہے ۔

٢۔ عاصم بن عمر و، قعقاع کا بهائی
٣۔ نافع بن سود بن قطبة بن مالک تميمی اسيدی ،قعقاع کا چچيرا بهائی ۔
۴۔زیاد بن حنظلہ تميمی
۵۔ طاہر بن ابی ہالہ خدیجہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی بيوی کا بيڻا ۔
اس قسم کے افسانوی افراد بہت زیاد ہيں جنہيں سيف نے اپنے تصوراور خيال ميںخلق
کياہے ا ور انہيں بعنوان : راوی ،شاعر ،صحابی یا جنگی سورما وغيرہ کی صورت ميں پيش
کياہے ۔ اسلامی تمدن کی حسب ذیل شيعہ و سنی کتابوں ميں ان کا ذکر آیا ہے:

اہل سنت علماء کی کتابيں
١۔ سيف بن عمر تميمی ( وفات تقریباً ١٧٠ هء) نے اپنی دو کتابوں :“الجمل ’‘ اور “الفتوح ” ميں۔
٢۔ طبری ( وفات ٣١٠ هء) نے اپنی “تاریخ” ميں ۔
٣۔ بغوی ( وفات ٣١٧ هء) نے اپنی“ معجم الصحابہ” ميں
۴۔ رازی ( وفات ٣٢٧ هء) نے اپنی “الجرح و التعدیل ”ميں
۵۔ ابن سکن ( وفات ٣۵٣ هف) نے اپنی “حروف الصحابہ” ميں ۔
۶۔ اصفہانی ( وفات ٣۵۶ هء) نے اپنی “اغانی ”ميں
٧۔ مرزبانی (وفات ٣٧۴ هء) نے اپنی “ معجم الشعراء ” ميں
٨۔ دار قطنی ( وفات ٣٨۵ هء) نے اپنی کتاب “ المؤتلف و المختلف ” ميں
٩۔ ابو نعيم ( وفات ۴٣٠ هء) نے اپنی “تاریخ اصفہان” ميں
١٠ ۔ ابن عبد البر (وفات ۴٣٠ هء) نے اپنی“ استيعاب” ميں۔
١١ ۔ابن ماکولا ( وفات ۴٧۵ هء) نے “الاکمال ”ميں ۔
١٢ ۔ ابن بدرون ( وفات ۵۶٠ هء) نے“ شرح قصيدہ ابن عبدون” ميں
١٣ ۔ ابن عساکر ( وفات ۵٧١ هء) نے اپنی “تاریخ دمشق ”ميں
١۴ ۔ حموی وفات ( ۶٢۶ ئه) نے “ معجم البلدان ”ميں ۔
١۶ ۔ ابن اثير (وفات ۶٣٠ ئه ) نے “الکامل التاریخ” ميں
١٧ ۔ابن اثير (وفات ۶٣٠ ئه ) نے “اسد الغابہ” ميں ۔
١٨ ۔ ذہبی ( وفات ٧۴٨ ئة نے “النبلاء” ميں ۔
١٩ ۔ ذہبی ( وفات ٧۴٨ ئة نے “تجرید الاسماء الصحابہ” ميں
٢٠ ۔ ابن کثير ( وفات ٧٧٠ هء) اپنی“ تاریخ ”ميں
٢٠ ۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ ئه) نے اپنی“ تاریخ” ميں
٢١ ۔ حميری ( وفات ٨٢۶ هء) نے اپنی“ روض المعطار” ميں ۔ اس کتاب کی تاریخ تاليف
٨٢۶ ئه ہے۔
٢٢ ۔ ابن حجر ( ٨۵٢ ئه) نے اپنی “اصابہ” ميں ۔
٢٣ ۔ ابن بدان ( وفات ١٣۴۶ ئه) نے اپنی“ تہذیب تاریخ ابن عساکر” ميں ۔

شيعہ علماء کی کتابيں
بعض شيعہ علماء ١ اور مؤرخين نے اہل سنت کی کتابو ںپر اعتماد کی وجہ سے ان ہی
افسانوی افراد کے نام اور ان کی رواتيوں اور داستانوں ١ کو اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے ،
جيسے:
١۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ هء) اس کے اپنی کتابوں ميں درج کئے بعض مطالب ميں
سے بعض کو اپنی کتاب “ وقعة الصفين ” ميں نقل کيا ہے ۔
٢۔ شيخ طوسی ( وفات ۴۶٠ ) نے اپنی “ رجال ميں ۔
٣۔ قہبائی نے “ مجمع الرجال ” ميں ١٠١۶ ئه ميں ا س کی تاليف سے فارغ ہو اہے ۔
۴۔ اردبيلی ( وفات ١١٠١ هء) نے “ جامع الرواة ميں۔
---------
١۔ علمائے شيعہ نے فقہ کے علاوہ تمام موضوعات جيسے : تفسير ، سيرت پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ،
رجال اور تاریخ ميں علمائے سنی سے کثرت سے نقل کيا ہے ۔

۵۔ مامقانی ( وفات ١٣۵٢ ئه) نے “ تنقيح المقال ”ميں ۔
۶۔ سيد عبدالحسين شر ف ا لدین ( ١٣٧٧ هء) نے “الفصول المہمة”ميں
٧۔ تستری “معاصر قاموس الرجال” ميں

نتيجہ
اس بحث و گفتگو سے جو نتيجہ حاصل کيا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ : تاریخ اسلام ميں
پيدا ہوئے یہ تمام جعليات ، تحریفات اور اختلافات علماء ، اور مؤلفيں کيلئے پوشيدہ اور ناشناختہ
رہے ہيں اسلئے انہوں نے تحقيق و تجسس کے بغير ان جعلی افراد اور ان کی جهوڻی افسانوی
داستانوں اور روایتوں کواپنی کتابوں ميں درج کيا ہے اوریہی امر اس بات کی علامت ہے کہ
عبدالله بن سبا کا افسانہ بهی مؤرخين اور مؤلفين
اور علم رجال و ادیان کے علماء سے پوشيدہ اور غير معروف رہ گيا ہے ۔

عبد الله سبائی کی عبدالله بن سبا سے تحریف
ليس غریبا من سيف هذا الدس و التحریف و الاختلاق
سيف جيسے شخص سے اس قسم کی ملاوٹ ، تحریف اور جعل بعيد اور تعجب آور نہيں ہے ۔
مؤلف
ہم نے گزشتہ فصل ميں کہا کہ اسلامی لغات ميں عبدالله بن سبا تين مختلف چہروں،
قيافوں اور شخصيات ميں پایا جاتاہے اور ہر قيافہ وشخصيت کيلئے مخصوص روایتيں اور داستانيں
نقل کی گئی ہيں خاص کر تيسرے عبدالله سبا کيلئے بڑی مفصل روایتيں اور داستانيں درج کی
گئی ہيں ۔
مذکورہ تين عبدالله بن سبا ميں سے صرف پہلا عبدالله بن وهب سبائی وجود رکهتا تها
باقی افسانہ کے علاوہ کچه نہيں تهے ۔
عبدالله بن وهب سبائی جو حقيقت ميں وجود رکهتا تها کی داستان کا خلاصہ یوں ہے:
وہ علی عليہ السلام کے زمانے ميں زندگی بسرکرتا تها اور پہلے حضرت کے طرفداروں
ميں سے تها ليکن اس نے جنگ صفين ميں حَکَميت کے بارے ميںعلی عليہ السلام پر اعتراض
کيا اور اس کے بعد اس کی علی سے عداوت اور مخالفت شروع ہوگئی ا س کے ہم فکر علی
کے بعض مخالفين اس سے جا ملے اور اجتماعی طور پر حضرت علی عليہ السلام کے خلاف
---------
١۔ مصنف کی کتاب “ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ” اس افسانوی صحابی کے حالات ملاحظہ ہوں ۔

بغاوت کی اور جنگ نہروان کو وجود ميں لانے کا سبب بنا عبدالله اس جنگ ميں مارا گيا بعد کے
ادوار ميں ابن عبدالله بن وهب سبائی ایک مرموز اور افسانوی یہودی عبدالله بن سبائی ميں
تبدیل ہواا ور “ سبئيہ نامی ” ایک جدید مذہبی فرقہ کے بانی کے طور پر پہچانا گيا ۔
یہ عبدالله سباء دوم تحریف شدہ افسانوی بهی پہلے سيف کے وسط سے وصایت علی
عليہ السلام کے معتقد فرقہ “ سبئيہ ” کا بانی معرفی کيا گيا اس کے بعد زمانہ کے گزرنے کے
ساته ساته لوگوں کی زبانوں پر افواہوں کے ذریعہ تغيرات اور تبدیلياں پيدا کرتے ہوئے ‘ سبيئہ ”
نام ایک فرقہ غالی ---جو علی عليہ السلام کی الوہيت کا قائل تها-- کے بانی کے طور پرنمایاں
ہوا س کے بارے ميں روایتوں اور داستانوں ميں بهی دن بہ د ن وسعت پيدا ہوتی گئی اور ا س
طرح فرقہ سبئيہ کا افسانہ وجود ميں اگيا۔
کئی ایسے لوگ بهی پيدا ہوئے جنہوں نے ان افسانوں کےلئے اسناد و مآخذ جعل کئے
جيساکہ ہم نے گزشتہ فصلوںميںمشاہدہ کيا کہ افسانہ نسناس کيلئے کس طرح محکم اور
مضبوط اسناد جعل کئے گئے تهے۔
اگر سوال کيا جائے کہ : یہ سب تحریف اور جعل و افسانے کيسے انجام پائے ہيں اور
گزشتہ کئی صدیوں کے دوران اکثر علماء و مؤرخين سے پوشيدہ رہے ہيں ! اس کا جواب یہ ہے
کہ تاریخ اسلام ميں مسئلہ تحریف لفظ عبدالله یا “سبئيہ ” سے مخصوص نہيں ہے کہ جدید
اور ناقابل یقين ہو اور بعيد نظر آئے، بلکہ تاریخ اسلام ميں اس قسم کی تحریفات اورتغيرات کثرت
سے ملتے ہيں ،یہاں تک کہ بعض علماء نے اس سلسلہ ميں مستقل کتابيں لکهی ہيں کہ ہم
یہاں پر اپنی بات کے شاہد کے طور پر اس فہرست کے چند نمونے درج کرتے ہيں:
١۔ ابو احمد عسکری ( وفات ٣٨٢ هء) نے شرح ما یقع فيہ التصحيف و التحریف ١ نام
کی ایک کتاب لکهی ہے ۔
ابو احمد عسکری اس کتاب کے مقدمہ ميں کہتا ہے : ميں اس کتاب ميں ایسے الفاط
اور کلمات کا ذکر کرتا ہوں جن ميںمشابہت لفظی کی وجہ سے ان کے معنی ميں تحریف و
تغيرات ہوئے ہيں ۔
مزید کہتا ہے : ميںنے اس سے پہلے تحریف شدہ الفاظ کے بارے ميں جن کا تشخيص
دینا مشکل تها ایک بڑی اور جامع کتاب تاليف کی تا کہ اسسلسلہ ميں علمائے حدیث کی
مشکلات حل ہوجائيں ۔ اس کتاب ميں راویوں، اصحاب ، تابعين ، اور دیگر افراد کے نام جن ميں
اشتباہ اور تحریف واقع ہوئی ہے ذکر کئے ہيں ليکن اس کے بعد علما ء نے مجه سے مطالبہ کيا
کہ جن تحریفات کے بارے ميں حدیث کے علماء کو احتياج ہے انکو ان تحریفات سے جدا کردوں
جن کی ادب اور تاریخ کے علماء کو احتياج ہے ميں نے ا ن کی درخواست قبول کرتے ہوئے ان دو
حصوں کو جدا کياا ور ہر حصہ کو ایک
---------
١۔یعنی جس ميں تحریف و تغير واقع ہو ا ہے اس کی تشریح۔ اس کتاب کا ایک نسخہ تحقيق عبدا لعزیز احمد ،طبع
مصطفی ، ٣٨٣ هء مؤلف کے پاس موجود ہے ۔

مستقل کتاب کی صورت ميں تاليف کرکے دو الگ کتابيں آمادہ کيں ۔ ان ميں سے ایک ميں
حدیث کے راویوں کے ناموں ميں تحریف درج ہے اور دوسرے ميں ادیبوں اور مؤرخين کی ضرورت
کے مطابق تحریف شدہ نام ہيں ۔
ابو احمد عسکری نے اس کتاب ميں بزرگ علماء جيسے: خليل ، جاحظ، اور سجستانی
، کی غلطيوں کے بارے ميں ایک مستقل باب لکها ہے اس طرح انساب ميں ہوئی غلطيوں کو
ایک الگ باب ميں ذکر کيا ہے۔
ابو احمد عسکری کے علاو دوسرے دانشوروں نے بهی اس موضوع پر کتابيں تاليف کی
ہيں : جيسے:
١۔ ابن حبيب ( وفات ٢۴۵ هء) نے قبائل و انساب کے بارے ميں مشابہ ناموں پر ایک کتاب
لکهی ہے ۔
٢۔ ابن ترکمان ( وفات ٧۴٩ هء ) نے بهی قبائل و انساب کے ناموں کے بارے ميں ایک
کتاب تاليف کی ہے ۔
٣۔ آمدی ( وفات ٣٧٠ هء) نے شعراء کے مشابہ ناموں پر ایک کتاب لکهی ہے ۔
۴۔ دار قطنی ( وفات ٣٨۵ هء) حدیث کے راویوں کے مشابہ ناموں کے بارے ميں کتاب
لکهی ہے ۔
۵۔ ابن الفرضی ( وفات ۴٠٣ هء (
۶۔ عبدا لغنی ( وفات ۴٠٩ هء(
٧۔ابن طحان الخضرمی ( وفات ۴١۴ هء (
مذکورہ تين دانشوروں نے مشابہ نام ، القاب ،اور کنيت کے بارے ميں یہ کتابيں لکهی
ہيں ۔
٧۔ ابن ماکولا ( وفات ۴٧٨ ئه )نے “ اکمال ” نامی کتاب مشابہ نام ، القاب اور
کنيت کے بارے ميں لکهی ہے یہ معروف اور جامع تریں کتاب ہے ١
اسی طرح ایک دوسرے سے مشابہ نسبتوں کے بارے ميں بعض علماء اور مؤلفين نے
چندکتابيں تاليف کی ہيں کہ ا نميں سے چند اشخاص کے نام حسب ذیل ہيں:
مالينی ( وفات ۴١٢ هء(
زمخشری ( وفات ۵۴٨ هء(
---------
١۔ اس کتاب کی چه جلدیں طبع حيدر آباد سال ١٣٨١ ئمؤلف کے کتابخانہ ميںموجود ہيں کہ حرف “ع” تک پہنچتا
ہے ضرور چند جلدیں اور بهی ہوں گی ۔

حازمی ( وفات ۵٨۴ هء(
ا بن باطيش ( وفات ۶۴٠ هء(
فرضی ( وفات ٧٠٠ ئه(
ذہبی ( وفات ٧٣٨ هء (
ابن حجر ( وفات ٨۵٢ ه(
ان علماء کے بعد ، دوسرے مؤلفين نے جو کچه گزشتہ علماء سے چهوٹ گيا تها اور ان
کی کتابوںميں نہيں آیا تهایا ان کتابوںميں کوئی غلطی رہ گئی تهی۔ ان کے بارے ميں مستقل
کتابيں تتمہ اور ضميمہ کے طورپرلکهی ہيں چنانچہ مندرجہ ذیل اشخاص نے عبد الغنی کی
کتاب پر تتمہ لکها هے ۔
مستغفری ( وفات ۴٣۶ ئه) “ الزیادات “
خطيب ( وفات ۴۶٣ هء) “الموتنف“
ا بن نقطہ -( وفات ۶٢٩ هء نے بهی “ مستدرک ” نامی ایک کتاب کو ابن ماکولا کی “
اکمال ” پر تتمہ کے طور پر لکها ہے ۔
ابن نقطہ کی کتاب پر بهی درج ذیل مؤلفين نے ضميمے لکهے ہيں ۔
حافظ منصور ( وفت ۶٧٧ هء(
ابن صابونی (وفات ۶٨٠ ئه(
مغلطای ( وفات ٧۶٢ هء(
ابن ناصر الدین ( وفات ٨۴٢ ئه) نے بهی ایک کتاب بنام ‘ الاعلام بما فی مشتبہ
الذهبی من الاوهام ” ذہبی کی کتاب پر ضميمہ لکها ہے ۔
ل يکن مذکورہ دانشوروں ، مؤلفين اور علماء کے علاوہ ہر دوسرے مؤلفين ١ اور علماء
جو مشابہ نام ،
---------
١۔ مانند خطيب کہ اس نے اس سلسلے ميں “ موضح اوهام الجمع وا لتفریق’ نامی ایک کتاب تاليف کی ہے اس کا
تين جلدوں پر مشتمل ایک نسخہ مؤلف کے پاس موجود ہے اور مانند ناصر الدین کہ اس نے “ مشتبہ ذهبی ” نام
کی ایک کتاب تاليف کی ہے دوسرے علماء نے بهی اس موضوع پر کتابيںلکهی ہيں اس قسم کی کتابوں کی
بيشتر اطلاع حاصل کرنے کيلئے “ مصحح اکمال ” طبع حيدر آباد کے مقدمہ کی طرف رجوع کيا جائے ۔

الفاظ ، اور تحریفات کے بارے ميں کوشش و تلاش اور تحقيق انجام دی ہے اس کے باوجو
داسلامی لغات ميں فراوان تحریف شدہ الفاظ و نامو ں کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ان تمام دانشوروں
سے چهوٹ گئے ہيں اگر ان کی جمع آوری کی جائے تو ایک بڑی اور ضخيم کتاب تشکيل پائے
گی اس سلسلہ ميں کيا خوب کہا گيا ہے : کم ترک الاول للآخر ، گزشتگان نے نہ جانے کتنے
کام انجام نہيں دئے ہيں انہيں مستقبل ميں آنے والوں کيلئے چهوڑا ہے تاکہ وہ انجام دیں ۔