”سبئيہ” ،بنی اميہ کے دوران
اشتدت الخصومة بينها فی اخریات العهد الاموی
بنی اميہ کی حکومت کے اواخر ميںقبائل عدنان کی، قبائل سبائی سے خصومت انتہا کو
پہنچی تهی
۔مولف
امير المومنين کی شہادت کے بعد قریش نے گزشتہ کی نسبت زیادہ چوکس انداز ميں ا
سلامی ممالک اور مسلمانوں کی رهبری کی باگ ڈور دوبارہ اپنے ہاته ميں لی انصاراور سبئيوں
کو تمام امور سے بے دخل کيا ان کے ساته بے رحمانہ اور انتہائی سنگدلی سے برتاوٴ کيا بنی
اميہ کے منہ بولے بيڻے یعنی زیاد بن ابيہ ، اس کے بعد اسکے بيڻے ابن زیاد کے ذریعہ شہر
کوفہ کے تمام علاقے اور اطراف ميں قبائل سبئيہ کے بزرگان ، ہر شيعہ علی عليہ السلام کہ جو
غالباً سبئيہ سے تهے کو پکڑپکڑ کر انتہائی بے دردی سے قتل کيا جاتاتها ، پهانسی پر لڻکایا
جاتاتها زندہ دفنایا جاتا تها، اور ان کے گهروں کو ویران کيا جاتا تها ! اور
ان مظلوم اور ستم دیدہ مسلمانوں نے حسين ابن علی عليہ السلام کے یہاں پناہ لی !
ان سے مدد طلب کی اور بنی اميہ عدنانی ظالمانہ حکومت کے پنجوں سے اسلام و مسلمانوں
کو نجات دلانے کيلئے اڻه کهڑے ہوئے اس حالت ميں ا بن زیاد--- خاندان اميہ کے منہ بولے بيڻے
کافرزند ---فریب کاری اور دهوکہ سے کوفہ ميں داخل ہوا اور حالات پر کنڻرول حاصل کيا ۔ امام
حسين عليہ السلام کے نمائندہ اور سفير مسلم ابن عقيل کو گرفتار کرکے قبائل سبئيہ کے
سردار ہانی بن عروہ کے ہمراہ قتل کر دیا اس کے بعد قبائل عدنان کے سرداروں او بزرگوں
جيسے عمر سعد قرشی ، شبث بن ربعی تميمی ، شمر بن ذی الجوشن اور دیگر عدنانی
ظالموں کو اپنے گرد جمع کيا اور ایک بڑی فوج تشکيل دی۔ کوفہ کے تمام جنگجوؤں کو مختلف
راہوں سے قرشی خلافت کی فوج سے ملحق کيا وہ بهی اس طرح سے کہ کسی ميں ان کی
نصرت کی جرات نہ ہو سکے اور تاب مقاومت باقی نہ رہے تا کہ زیاد بن ابيہ کی علنی طور پر
مخالفت نہ کر سکے اور امام حسين عليہ السلام کے انقلاب کو تقویت بخشنے کيلئے کوشش
و فعاليت نہ کرسکے نتيجہ کے طور پر قرشی خلافت نے خاندان پيغمبر“ صلی الله عليہ و آلہ
وسلم” کو کربلا ميں اپنے اصحاب سميت خون ميں غلطان کرکے ان کے بے سر اجساد کو
ميدان ميں برہنہ چهوڑنے ميں کامياب ہوئے ۔
پہاں پر قبائل عدنان کی قبائل قحطان سبئی پر کاميابی عروج کو پہنچی۔
سبئيہ قيام مختار ميں
کربلا کے جانکاہ حادثہ اور یزید بن معاویہ کی ہلاکت کے بعد کوفيوں کے دل بيدار ہوئے
چونکہ امام حسين عليہ السلام کی نصرت کرنے ميں انہوںنے سخت کوتاہی کرکے کنارہ کشی
کی تهی ، اس لئے انہوں نے ذہنی طور پر احساس ندامت و پشيمانی محسوس کی اور ان
ميں سے “ توابين ” نام کی ایک فوج تشکيل پائی اس فوج نے ابن زیاد کی فوج سے جنگ کی
یہاں تک سب شہيد کئے گئے اس کے بعد سبائی قبائل مختار ثقفی کے گرد جمع ہوئے اور
حسين ابن علی عليہ السلام کی خونخواہی کيلئے اڻه کهڑے ہوئے ان کی کمانڈ ابراہيم بن
اشتر سبئی کررہے تهے ایک عظيم اور نسبتاًقوی فوج وجود ميں آگئی ابتداء ميں انہوںنے
عمربن سعد عدنانی ،شمر بن ذی الجوشن ضبابی اور قبائل عدنان کے بہت سے دوسرے افراد
جن کا امام حسين عليہ السلام کے قتل ميں مؤثر اقدام تها کو قتل کيا ، ان کے مقابلہ ميں
قبائل عدنان کے افراد مصعب بن زبير عدنانی کے گرد جمع ہوئے اور قبائل سبئی اور حسين
عليہ السلام کے خونخواہوں سے مقابلہ کيلئے آمادہ ہوگئے ان سے ایک سخت جنگ کی ا ور
ان پر غالب آگئے اور امام حسين عليہ السلام کے خونخواہوں کی رہبری کرنے والے مختار کو
قتل کيا ۔
ان تمام کشمکش اورنزاعی مدت ميں کوفہ و بصرہ پر زیاد بن ابيہ کی حکومت جس ميں
ایران بهی ان کی حکومت کے زیر اثرتها تمام مشرقی اسلامی ممالک سے خلفائے بنی اميہ
کی آخر ( ١٣٢ هء ہے) تک خلافت قرشی عدنانی اپنے مخالفوں سے ---جو خاندان پيغمبر صلی
اللهعليہ و آلہ وسلم کے ددستداران و شيعہ تهے --- دو اسلحہ سے جنگ لڑتے تهے جيساکہ
تمام جنگوںميں یہ رسم ہے کہ گرم اسلحہ کے علاوہ سردا سلحہ یعنی پروپيگنڈااور افترا
پردازی سے بهی استفادہ کرتے تهے اس نفسياتی جنگ ميں دربارِخلافت سے وابستہ تمام
شعراء، مقررین، قلم کار ، محدثين ، اور دانشور تمام شيعوں ، بالخصوص سبائيہ قبائل کے خلاف
منظم ہوگئے تهے دربار سے وابستہ یہ لوگ اس نفسياتی جنگ ميں مختارکے خلاف کہتے
تهے: “مختار ” نے وحی اور نبوت کا دعویٰ کيا ہے ’ اس پروپيگنڈا پر اتنا زور لگایا گيا کہ یہ افتراء
اس درجہ مشہورہوا کہ نسل در نسل نقل ہوتا رہا اور رواج پا گيا یہاں تک کہ بات زبان سے گزر کر
سرکار ی کتابوں اور دیگراسناد ميں درج ہو گئی اورمختار کے خلاف اس نفسياتی جنگ نے اس
کے حاميوں اور طرفداروں کو بهی اپنی لپيٹ ميںلے ليا ، جو اکثر سبئی تهے ١
سبئيہ بنی اميہ کے آخری ایام ميں
عدنانی او رسبئی قبائل کے در ميان یہ کشمکش اورڻکراؤ شروع شروع ميں مدینہ اور
کوفہ تک محدود تها ، بعد ميں یہ وسيع پيمانے پر پهيل کر تمام جگہوں تک پہنچ گيا ، یہاں تک
تمام شہروں اور علاقوں ميں ا ن دو قبيلوں کے درميان اختلاف اور کشمکش پيدا ہوگئی اس راہ
ميں کافی خون بہائے گئے انسان مارے گئے موافقين کے حق ميں اور مخالفين کی مذمت ميں
شعر و قصيدے کہے گئے یہ عداوت و دشمنی اور نفرت و بيزاری بنی اميہ کی حکومت کے
آخری ایام ميں شدید صورت اختيار کر کے عروج تک پہنچی گئی تهی۔
---------
١۔ چنانچہ گزشتہ فصل ميں شبث بن ربعی کی سعد بن حنفی کے ساته روایت ميں بيان ہوا کہ مختار سے پہلے
لفظ “ سئبہ ” سرزنش اور قبائل کی تعبير ميں ا ستعمال ہوتا تها ا س عنوان سے کہ وہ علی کے شيعہ تهے
جيساکہ داستان حجر ميں ا سکی وضاحت کی گئی ليکن مختار کی بغاوت کے بعد دشمن کی زبان پر “ سبئيہ ”
قبائل یمانيہ کے ان افراد کو کہتے تهے جو قبائل عدنانی سے جنگ و پيکارکر کرتے تهے اور مختار ثقفی پر ایمان
رکهتے تهے اس نام گزاری ميں بهی اشارہ اس کی طر ف تها کہ مختار نے نبوت کا دعوی کيا ہے اور ان افرد نے
اس کی دعوت کو قبول کيا ہے اور اس پر ایمان لایا ہے ليکن مختار اور اس کے پيرؤں کے بارے ميں یہ بات بهی ا
فتراء اور بہتان کے علاوہ کچه نہيں تهی ۔(
”سبئيہ ” ، سيف بن عمر کے دوران
حرّف سيف کلمة السبئية
جب سيف کا زمانہ آیا تولفظ “ سبئيہ ” کو تحریف کرکے اس کے اصلی معنی سے ایک دوسرے
معنی ميں تبدیل کردیا ۔مؤلف
بنی ا ميہ کے دورکے آخری ایام ميں عدنانيوں اور قحطانيوں کے اختلافات عروج پر پہنچ
چکے تهے۔ دونوں طرف کے ادیب اور شعراء اپنے قبائل کی مدح ميں ا ور دشمنی کی مذمت
وسرزنش ميں شعر و قصيدہ لکهتے تهے اسی زمانے ميں کوفہ ميںسيف بن عمر تميمی پيدا
ہوا ۔ اس نے تاریخ اسلام ميں دو بڑی کتابيں “ الرد و الفتوح ” اور “ الجمل و مسير علی و عائشہ
” لکهيں ۔ اس نے ان دونوں کتابوں کو گوناگوں تحریفات ، جعليات ، توہمات پرمشتمل روایتوں
سے بهر دیا ۔ اس نے دسيوں بلکہ سيکڑوں شعراء احادیث، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم
کے راوی ، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے اصحاب ، تابعين اسلامی جنگوں ،کے سورما
اور فاتح اور بہت سے دیگر افراد کو اپنے ذہن سے جعل کيا جن کا دنيا ميں در حقيقت کہيں
وجود ہی نہيںتها ۔ اس کے بعد ان ميں سے ہر ایک کی نام گزاری کرکے خاص عنوان دیا ، ان
کے نام پر داستانيں ، تاریخی وقائع ، کثير روایتيں، اشعاراورا حادیث جعل کيں ۔ ا ن تمام چيزوں
کو اسنے جعل کئے ہوئے نام و نشان اور خصوصيات کے ساته اپنی مذکورہ دو کتابو ں ميں درج
کيا ۔
دوسرا خطرناک کام جو سيف نے ان دو کتابوںميں انجام دیا وہ یہ تها کہ اس نے تمام
خوبيوں فضائل ، مجاہدتوں اور نيکيوں کو قبائل عدنان کے نام پر درج کيا اور تمام عيوب ، نواقص ،
برائياں ، اور مفاسد کو قبائل قحطان و سبئی سے نسبت دیدی انکے بارے ميں جتنا ممکن
ہوسکا دوسروں کی عيوب و نواقص کو بهی جعل کيا اہم ترین مطلب جو اس نے ان کی مذمت
او رسرزنش ميں جعل کياوہی ‘ ‘افسانہ سبئيہ ” تها کہ اس افسانہ ميں “ سبئيہ ” کو ایک
یہودی اور سياہ فام کنيز کے بيڻے عبدالله بن سباکے پيرو کے طور پر پہچنوایا ہے اسی طرح اس
نے لفط “سبئيہ ” کو اپنے اصلی مفہوم ---کہ قبيلہ کی نسبت کے طو پر قبائل سبائی اور ان
کے ہم پيمانوں کی سرزنش کے عنوان سے استعمال ہوتا تها ---سے تحریف کرکے ایک مذہبی
مفہوم ميں تبدیل کيا اور کہا: سبئيہ ایک منحرف مذہبی گروہ ہے جوگمنام اور منحرف یمانی
الاصل یہودی عبدالله بن سبا کے پيرو و معتقد ہيں ، اس کے بعد عصر عثمان اور امير المؤمنين
کے دور کے تمام جرم و جنایات کو ان کے سر پر تهونپ کر کہتا ہے کہ:اسی فرقہ سبئيہ کے
افراد تهے ۔جو ہميشہ حکومتوںسے عداوت اور مخالفت کرتے تهے ۔
ان کے بارے ميں طعنہ زنی اور عيب جوئی کرتے تهے لوگوں کوان کے خلاف اکساتے
تهے ، یہاں تک ان پر یہ تہمت بهی لگائی ہے کہ انہوں نے متحد ہوکر مسلمانوں کے خليفہ
عثمان کو مدینہ ميںقتل کيا اور عبد لله بن سبا سے منسوب اسی سبيئہ گروہ کو جنگ جمل
کے شعلے بهڑکانے کا بهی ذمہ دار ڻهہراتا ہے۔
سيف نے اپنے اس بيان سے قبائل عدنان کے بزرگوں اور سرداروں جن ميں سے خود
بهی ایک تهاکو ہر جرم ، خطا اور لغزش سے پاک و منزہ قرار دیا ہے اور سبئيہ کو جنگ جمل اور
اس ميں ہوئی برادر کشی کا ذمہ دار قرار دیا ہے سيف نے اپنی باتوں سے ان تمام فتنوں کو
ایجاد کرنے والے ، جسے: مروان ، سعيد ، وليد، معاویہ ، عبدالله بن سعد بن ابی سرح ،طلحہ ،
زبير ، عائشہ اور قبائل عدنان کے دسيوں دیگر افرادکو بے گناہ ثابت کيا ہے ، جنہوں نے علی
عليہ السلام کی عدل و انصاف پر مبنی اور تفریق سے عاری حکومت کے خلاف جنگ جمل
بهڑکائی ۔ اس طرح تمام جرائم و گناہ و ظلم و بربریت کو گروہ سبئيہ کے سر تهونپا ہے ۔ سيف
نے اپنے کام ميں اپنے وقت کے تمام ادیبوں اور مؤلفين خواہ وہ عدنانی ہوں یا قحطانی ، پر
سبقت حاصل کی ہے کيونکہ ان ميں ہر ایک ادیب یا شاعر تها جس نے اپنے قبيلہ کی مدح ميں
یا اپنے مد مقابل قبيلہ کی مذمت ميں کچه لکها یاکہا ہوگا ليکن سيف نے دسيوں شاعراور ادیب
جعل کئے ہيں کہ ان ميں سے ہر ایک نے اپنے قبيلہ کی مدح اور اپنے مد مقابل کی مذمت ميں
سخن آفرینی کی ہے۔
ا ن سب چيزوں سے اہم تر یہ کہ سيف اپنے افسانوں کو حقيقی رنگ و روپ دینے ميں
کامياب ہوا،اس نے اپنے جعل کئے ہوئے شاعروں کے نام پر کہے اشعار اوراپنے جعل کئے ہوئے
جعلی اصحاب کے نام فتح و معجزہ اور حدیث گڑه کر ان کو تاریخی حوادث اور اشخاص کی
صورت ميں پيش کيا ہے ، اور اس طرح اپنے تمام افسانوں کو دوسری صدی ہجری سے آج تک
مسلمانوں ميں تاریخ لکهنے کے نام پر بے مثال رواج دیا اس نے اپنے تمام چهوڻے بڑے افسانوں
کيلئے روایتوں کے مانند سند مآخذ جعل کرکے اپنے جعلی راویوں سے روایت نقل کی ہے ۔
سيف کی سبقت حاصل کرنے کا ایک سبب یہ بهی ہے کہ وہ لفظ سبيئہ کو قبيلہ کی
نسبت اور قبائل یمانی اور ان کے ہم پيمانوں کی سرزنش کے معنی و مفہوم سے ایک نئے
مذہبی معنی ميں تحریف کرنا اور خوارج کے سردار عبدالله بن وہب سبائی و عبدالله بن سبا
یہودی ميں تبدیل کرکے اسے سبائيوں کے نئے مذہبی فرقہ “ سبئيہ ” کا بانی بتانےميں کامياب
ہوا ہے!!
حقيقت ميں سيف نے افسانہ “ سبئيہ ’ کو تاریخ کے عنوان سے جعل کيا ہے ، ایک
موذی شخص کو اس افسانہ کا ہيرو بنایا ہے اور اس کا نام عبدالله بن سبا رکها ہے اس کے بعد
اس کو چالاکی او رخاص مہارت سے تاریخ کے بازار ميں پيش کيا ہے پهریہ افسانہ تاریخ لکهنے
والوں کے مزاج کے مطابق قابل قبول قرار پایا ہے اس وجہ سے “ افسانہٴ سبئيہ ” نے خلاف
توقع اشاعت اورشہرت پائی اس افسانہ کے خيالی ہيرو عبدالله سبا نے بهی کافی شہرت
حاصل کی جس کے نتيجہ ميں عبدالله بن وهب فراموشی کا شکار ہوگياجبکہ علی عليہ
السلام کے دوران لفط سبئی اسی عبدالله بن وهب سبائی سے منسوب تها کہ جو فرقہٴ
خوارج کا رئيس تها سيف کے افسانہ کو اشاعت ملنے کے بعد یہ لفظ اپنے اصلی معنی سے
تحریف ہوکر ایک تازہ پيدا شدہ مذہبی فرقہ ميں ا ستعمال ہوا ہے جس کا بانی بقول سيف عبدا
لله سبا نامی ایک یہودی تها ،اس جدید معنی ميں اس لفظ نے شہرت پائی، اورعبد الله بن
وهب سبائی بهی عبدالله سبائی یہودی ميں تبدیل ہوگےا اس تاریخ کے بعد رفتہ رفتہ لفط “
سبئيہ ” کا قبيلہ سے نسبت کے طورپر استعمال ہونا متروک ہوگےا،
خاص طورپر عراق کے شہروں اور عراق کے گرد و نواح شہروں اور افسانہٴ عبدالله بن
سبا اور فرقہ سبائيہ کی پيدائش کی جگہميں اس کا اصلی معنی ميں استعمال مکمل طور پر
فراموشی کی نظرہوگيا یہاں تک کہ ہم نے اپنے مطالعات ميں اس کے بعد کسی کو نہيںدیکها
جو ان شہروں ميں سبا بن یشجب سبئی سے منسوب ہواہو ليکن یمن، مصر اور اندلس ميں
دوسری اور تيسری صدی ہجری ميں کبهی یہ لفط اسی اصلی معنی ميں استعمال ہوتا تها ،
بعض افراد جو فرقہٴ “ سبئيہ ”’ کے بانی عبدالله بن سبا سے اصلا کوئی ربط نہيں رکهتے تهے
سبا بن یشجب اور قبيلہ قحطان سے منسوب ہونے کے سبب سبئيہ کہے جاتے تهے صحاح
کی کتابوں کے مولفين نے بهی حدیث ميں ان سبئی افراد کوبعنوان حدیث کے قابل اعتماد
راویوں کے طورپر ذکر کيا ہے ليکن بعد ميں ان شہروں ميں بهی زمانہ کے گزرنے کے ساته
سبئيہ کا استعمال بعنوان قبيلہ بالکل نابود ہوگيا اور اس طرح اس لفظ نے تمام شہروں اور اقطاع
عالم ميں ایک مذہبی فرقہکے نام سے شہر ت پائی ہم اگلی فصل ميں اسی کی وضاحت
کریں گے ۔
تاریخ ، ادیان اور عقائد کی کتابوں ميں عبدالله بن سبا
هم الذین یقولون ان عليّاً فی السحاب وان الرعد صوتہ و البرق سوطہ
گروہ سبائيہ معتقد ہيں کہ علی“ عليہ السلام ”بادلوں ميں ہيں اور رعد ان کی آواز اور برق ان کا
تازیانہ ہے . علمائے ادیان و عقائد .
تاریخ ميں عبدالله سباکی متضاد تصویریں
سيف نے افسانہ عبدالله سبا وسبئيہ کو جعل کرکے اپنی کتابوں ميں تاریخی حوادث
کے طور پر ثبت کيا ہے ، اس کے بعد طبری اور دوسرے مورخين نے اس کی دو کتابوں سے اس
افسانہ اور سيف کے دوسرے افسانوں کو نقل کرکے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے خاص کر
افسانہٴ سبئيہ کو مسلمانوں ميں پہلے سے زیادہ منتشر کيا اس افسانہ کے منتشر ہونے کے
بعد لفظ “ سبئيہ ” تمام نقاط ميں اور تمام لوگوں کی زبانوں پر عبدالله بن سبا کے ماننے والوں
کيلئے استعمال ہوا اور اس معنی ميں خصوصيت پيدا کر گيا اس کے بعدا س کااپنے اصلی معنی
ميں ---کہ قبيلہ قحطان اور سبا بن یشجب سے منسوب ہونا --- استعمال متروک ہوگيا ہے۔
ل يکن بعد ميں سبئی کا مفہوم اس معنی سے بهی تغير پيدا کرگيا اور اس ميں ا یک
تبدیلی آگئی اور یہ لفظ مختلف صورتيں اختيار کرگيا اس کا جعل کرنے والا بهی متعدد قيافوں اور
عنوانوں سے ظاہر ہوا ، مثلاً : دوسری صدی ہجر ی کے اوائل ميںسيف کی نظر ميں “ سبئی ”
اس کو کہا جاتا تها جو علی عليہ السلام کی وصایت کا معتقد ہو ليکن تيسری صدی کے اواخر
ميں ‘ سبئی ” اس کو کہتے تهے جو علی عليہ السلام کی الوہيت کا معتقد ہو اسی طرح
عبدالله بن سبا سيف کی نظر اور اسکے زمانے ميں وہی ابن سودا تهاليکن پانچویں صدی ہجری
کے اوائل ميں عبدالله بن سبا ، ابن سودا کے علاوہ کسی اور شخصيت کی حيثيت
سےپہچاناگيا بلکہ یہ الگ الگ دو افراد پہچانے گئے کہ ہر ایک اپنی خاص شخصيت کا مالک تها
اور وہ افکار و عقائد بهی ایک دوسرے سے جدا رکهتے تهے کلی طور پر جو مطالب پانچویں
صدی ہجری کے اوائل ميں عبدالله سبا کے بارے ميں ذکر ہوئے ہيں ان سے یوں استفادہ کيا
جاسکتا ہے عبدالله سبا چنداشخاص تهے، اور ہر ایک کےلئے اپنی مخصوص داستان تهی:
اول: عبدالله بن وهب سبائی جو علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے زمانے ميں زندگی کرتا
تها وہ خوارج گروہ کا سردار تها ليکن علماء کی ایک مخصوص تعداد کے علاوہ اسے کوئی نہيں
جانتا ۔
دوم: وہ عبدالله بن سبا جو ابن سودا کے نام سے مشہور تها سيف کے کہنے کے مطابق یہ
عبد الله سبا فرقہ “ سبائيہ ” کا بانی کہ جو علی عليہ السلام کی رجعت اور وصایت کا معتقد
تها اس نے اکثر اسلامی ممالک اور شہروںميں فتنے اور بغاوتيں برپا کی ہيں ، لوگوں کو
گورنروں اور حکمرانوں کے خلاف اکساتا تها نتيجہ کے طورپر سبائی مختلف شہروںسے مدینہ
کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پر جمع ہونے کے بعد مسلمانوں کے خليفہ عثمان کو قتل کر ڈالا
یہ وہی تهے جنہوں نے جنگ جمل کی آگ بهڑکا ئی اور مسلمانوں ميں ایک زبردست قتل عام
کرایا ۔
سوم : عبدالله سبائی ، غالی ، انتہا پسند تيسرا عبدالله سبا ہے وہ فرقہٴ سبئيہ کا
بانی تها جو علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کرکے انکی الوہيت کا قائل ہوا تها ۔
پہلا عبدالله سبائی حقيقت ميں وجود رکهتا تها اور علی ابن ابيطالب کے زمانہ ميں
زندگی بسر کرتا تها اپنے حقيقی روپ ميں کم و بيش تاریخ کی کتابوں ميں درج ہو اہے دوسرا
عبدلله بن سبا وہ ہے جسے بنی اميہ کی حکومت کے اواخر ميں سيف کے طاقتور ہاتهوں سے
جعل کيا گيا ہے اس کی زندگی کے بارے ميں روایتيں اسی صورت ميں تاریخ کی کتابوں ميں
ہيں جيسے سيف نے اسے جعل کياہے ۔
ل يکن تيسرا عبدالله بن سبا ، جو تيسری صدی ہجری ميں پيدا ہوا ہے اس کے بارے ميں
روایتيں دن بہ دن وسيع سے وسيع تر ہوتی گئی ہيں اور اسکے بارے ميں مختلف داستانيں و
مطالب مفصل طورپر نقل کئے گئے ہيں کہ تاریخ ، رجال او رمخصوصاً ادیان و عقائد کی کتابيں ان
سے بهری پڑی ہيں ۔
ایک مختصر بحث و تحقيق کے پيش نظر شاید اس روداد کی علت اور راز یہ ہو کہ عبدالله
بن وهب سبائی یا پہلا عبدالله چونکہ حقيقت ميں وجود رکهتا تها اس کے بارے ميں سر گزشت
اور روایتيں جس طرح موجود تهيں اسی طرح تاریخ ميں آگئی ہيں اور اسی مقدار کے ساته
اختتام کو پہنچی ہيں ليکن دوسرا عبدالله بن سبا ، چونکہ اس کو خلق کرنے والا سيف بن عمر
ہے اس لئے اس نے اس افسانہ کو حسب پسند اپنے خيال ميں تجسم کرکے جعل کيا ہے اس
کے بعد اسے اپنی کتاب ميں درج کيا ہے اور بعد والے مؤرخين نے بهی اسی جعل کردہ افسانہ
کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوںميں درج کياہے اس لحاظ سے ان دو عبد الله بن سبا کے
بارے ميں اخبار رو روایتوں ميں زمانہ اور صدیاں گزرنے کے باوجو دکوئی خاص فرق نہيں آیا ہے ۔
ليکن ، تيسرا عبدالله سبا چونکہ مؤرخين اور ادیان و عقائد کے علماء نے اس کے بارے
ميں روایتوں اور داستانوں کو عام لوگوں اور گلی کوچوں سے ليا ہے اور عام لوگوں کی جعليات
ميں بهی ہر زمانے ميں تبدیلياں رونما ہوتی ہيں ۔ اس لئے تيسرے عبدالله بن سبا کے افسانہ
ميں زمانے کے گزرنے کے ساته ساته وسعت پيدا ہوکر تغيرات آگئے ہيں تيسری صدی ہجری
کے آواخر سے نویںصدی ہجری تک کتابوں ميں عبدالله بن سبا کی شناخت یوں کرائی گئی ہے؛
ا لف ) عبدالله سبا وہی ہے جو علی عليہ السلام کی خلافت کيلئے بيعت کے اختتام پر
حضرت کی تقریر کے بعد اڻها اور بولا: “ یاعلی ! تم کائنات کے خالق ہو اور رزق پانے والوں کو
رزق دینے والے ہو !” امام عليہ السلام اس کے اس بيان سے بے چين ہوئے اور اسے مدینہ
سے مدائن جلا وطن کيا اس کے بعد ان کے حکم کے مطابق ان کے ‘ سبئيہ ” نامی گيارہ
ماننے والوں کو گرفتار کرکے آگ ميںجلادیا ، ان گيارہ افراد کی قبریں اسی سرزمين صحرا ميں
معروف ہيں ۔
ب) عبدالله بن سبا ، وہی ہے جس نے امام علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کيا ہے
اور انہيںپناہ خدا تصور کيا، لوگوں کو اپنے اس باطل عقيدہ کی طرف دعوت دی ،ایک گروہ نے
اس کی اس دعوت کو قبول کيا ،علی عليہ السلام نے بهی اس گروہ ميں سے بعض افراد کو
آگ کے دو گڑهوں ميں ڈال کرجلا دیا یہاں پر بعض شعراء نے کہاہے:
لترم بی الحوادث حيث شاءَ ت
اذا لم ترم فی الحضرتين
یعنی : حوادث روزگار ہميں جس خطرناک عذاب ميں ڈال دےں،ہميں اس کی کوئی پرواہ
نہيں ہے مگر ہميں علی عليہ السلام آگ کے ان دو گڑهوں ميں نہ ڈالےں ۔
علی عليہ السلام نے جب ابن سبا کے اس غلو و انحراف کا مشاہدہ کيا تو اسے مدائن
ميں جلاوطن کردیا وہ علی عليہ السلام کی رحلت کی خبر سننے تک مدائن ميں تها ،اس خبر
کو سننے کے بعد اس نے کہا: علی عليہ السلام نہيں مرے ہےں ، جو مرگيا ہے وہ علی عليہ
السلام نہيں تهے بلکہ شيطان تها ، جو علی عليہ السلام کے روپ ميں ظاہر ہوا تها کيوں کہ
علی عليہ السلام نہيں مرےں گے بلکہ انهوںنے عيسیٰ کے مانند آسمانوں کی طرف پرواز کی
ہے اور ایک دن زمين پر اترکر دشمنوں سے انتقام ليں گے!
ج) عبدالله سبا وہی ہے جس نے کہا: علی خدا ہےں اور ميں ان کا پيغمبر ہوں علی
عليہ السلام نے اسے گرفتار کرکے جيل ميںڈال دیا ۔ عبدالله بن سبا تين دن رات تک اسی
زندان ميںرہا ،اس مدت کے دوران اس سے درخواست کرتے تهے کہ توبہ کرے اور اپنے باطل
عقيدہ کو چهوڑدے ،ليکن اس نے توبہ نہيں کی ،علی عليہ السلام نے اسے جلادیا اس روداد
کے بارے ميں علی نے یہ شعرپڑها :
لما رایت الامر منکرا اوقدت ناری و دعوت قنبراً
” جب ميں نے ناشائستہ عمل دیکها، اپنی آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلایا“
د) عبدالله بن سبا وہی تها جب امام علی بن ابيطالب عليہ السلام نے اسکے سامنے
آسمان کی طرف ہاته اڻهائے تو اس نے امام پر اعتراض کيا اورکہا؛ کيا خدائے تعالیٰ ہر جگہ پر
نہيں ہے؟!! کيوں دعا کے وقت اپنے ہاته کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہو ؟
ه ) عبدالله بن سبا وہی ہے جو اپنے ماننے والوں کے ہمراہ امام کی خدمت ميں آ کر
کہنے لگا: اے علی عليہ السلام تم خدا ہو ! علی عليہ السلام نے بهی ان کی کفر آميز باتوں
کے جرم ميں ان سب کو آگ ميں جلادیا ،ان کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے وقت وہ کہتے تهے
:اب ہميں یقين ہوگيا کہ علی عليہ السلام ہی خدا ہےں ، کيونکہ خدا کے علاوہ کوئی اور کسی
کو آگ سے معذّب نہيں کرتا ہے!
ز) عبدالله بن سبا پہلا شخص تها جس نے ابوبکر، عمر، عثمان، اورپيغمبر صلی الله عليہ
و آلہ وسلم کے تمام اصحاب کی مذمت و سرزنش کی اور ان سے بيزاری کی ، مسيب بن
نجيہ نے اسے گرفتار کيا اور گهسيڻتے ہوئے امام کے پاس لے آیا ،حضرت نے پہلے ابو بکر و
عمر کی ثنا خوانی کی اور ان کااحترام کيا، اس کے بعد فرمایا: جو بهی مجهے ان سے
برتروافضل جانے گا ميں اس پر افتراء کی حد جاری کروں گا ، اس کے بعد اسے مدائن جلا وطن
کردیا۔
ح) عبدالله بن سبا ، وہی تها کہ علی کو مرنے کے بعد بهی زندہ جانتا تها جب وہ مدائن
ميں جلاوطنی کے دن گزاررہاتهااور اس سے علی عليہ السلام کی رحلت کی خبر دی گئی ،تو
اس نے اس خبر کو قبول نہيں کيا جس نے یہ خبر دی تهی اسے کہا: اے دشمن خدا ! خدا کی
قسم تو جهوٹ بول رہاہے ،اگر علی عليہ السلام کے سر کی کهوپڑی بهی ميرے سامنے لاؤ
گے اور ستر عادل مومن گواہی دیں گے کہ علی عليہ السلام وفات کرگئے ہيں پهر بهی ميں
تيری بات کی تصدیق نہيں کروں گا کيونکہ ميں جانتاہوں کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نہيں
مریں گے اور نہ قتل کئے جائيں گے یہاں تک کہ پوری دنيا پر حکمرانی کریں گے،اس کے بعد
عبدالله بن سبا اسی دن اپنے ساتهيوں کے ہمرا ہ مدائن سے کوفہ کی طرف روانہ ہوگيا وہ
علی کے گهر کے دروازے پر پہنچے دوروازہ پر کهڑے ہو کر جس طرح کسی زندہ انسان سے
گهر ميں داخل ہونے کی اجازت چاہتے ہيں علی عليہ السلام سے اجازت طلب کی ،امام کے
خاندان والوں نے ان کی رحلت کی خبر دی ، انہوںنے علی کی وفات کو قبول نہيں کيا اورا مام
کی رحلت کے بارے ميں امام کے اہل بيت عليہم السلام کی بات کو ماننے سے انکار کيا اور
اسے جهوٹ کہا:
یہ تها ان مطالب کا ایک خلاصہ جو تيسرے عبدالله سبا کے بارے ميں کہے گئے ہيں اور
اسکی زندگی کے حالات اورعقيدہ کے طور پر کتابوںميں ثبت ہوکر رائج ہوئے ہيں اسی کے بارے
ميںمزید کہا گيا ہے: عبدالله بن سبا وہی ابن سودا ہے یعنی ایک سياہ فام کنيز کا بيڻا ، اس
کے باوجود معروف یہ ہے ابن سبااور ابن السوداء دوا فراد اور الگ الگ دوشخصيتيں ہيں ۔
اور کہا گيا ہے کہ : دوسرا عبدالله بن سباحير ہ کے یہودیوں ميں سے تها ، اس نے
علی عليہ السلام اور اس کی اولاد کے بارے ميں تاٴویلات کرکے مسلمانوں کے دین کو فاسد و
منحرف کرنا چاہا تا کہ مسلمان علی عليہ السلام اور ان کے فرزندوں کے بارے ميں وہی اعتقاد
پيدا کریں جو عيسائی حضرات عيسیٰ کے بارے ميں رکهتے ہيں اس کے علاوہ وہ کوفہ کے
لوگوں پرریاست اور سرپرستی کرنا چاہتا تها ۔ اس لئے اس نے کوفہ کے لوگوںميں افواہ پهيلائی
کہ توریت ميں آیا ہے “ ہر پيغمبر کا ایک وصی ہے اور علی عليہ السلام بهی محمد خاتم النبيين
صلی اللهعليہ و آلہ وسلم کے وصی ہيں ” لوگوں نے یہ بات اس سے سن کر علی عليہ السلام
کو پہنچا دی کہ ابن سوداء آپ کے دوستدا روں اور چاہنے والوں ميں سے ہے ، علی( عليہ
السلام )نے اس کا کافی احترام کرتے اور اسے اپنے منبر کے نيچے بڻهاتے تهے ليکن جس دن
علی عليہ السلام کے بارے ميں عبدالله کا غلو ظاہر ہواا ور حضرت تک پہنچا تو حضرت نے اس کو
قتل کرنے کا فيصلہ کيا، ليکن چونکہ حضرت اس کے ماننے والوں کے فساد و بغاوت سے ڈر گئے
اس لئے اس کے قتل سے منصرف ہوئے اور عبدالله بن سبا کو مدائن جلاوطن کيا جب اس نے
مدائن ميں گروہ رافضہ سبيئہ کو کفر و بے دینی ميں شدیدترین اور منحرف ترین افراد پایا تووہ ان
کے ساته جاملا ۔
گروہ سبئيہ جن کا بانی یہی تيسرا عبدالله سبا تها،کہتے تهے :
علی عليہ السلام بادلوں ميں ہے ، رعد اس کی آواز اور برق اس کا تازیانہ ہے اور جب
بهی رعد کی آواز ان کے کانوں تک پہنچتی ہے اس کے مقابلے ميں کهڑے ہوکر تعظيم و احترام
کے ساته کہتے ہيں :
السلام عليک یا امير المؤمنين
یہ گروہ سبئيہ وہی ہيں جو کہتے ہيں : امام علی ابن ابيطالب وہی مہدی موعود ہيں کہ
دنيا اس کے انتظار ميں ہے
وہ تناسخ کا اعتقاد رکهتے ہيں اور کہتے ہيں : ائمہ اہل بيت عليہم السلام خداکا جزء
ہيں ۔
وہ کہتے ہيں : ‘ خدا کے ایک جز ء نے علی عليہ السلام ميں حلول کيا ہے“
وہ کہتے ہيں : “ ہمارے ہاته ميں جو قرآن ہے وہ حقيقی قرآن کے نو حصوں ميں سے ایک
حصہ ہے کہ اس کا پورا علم علی عليہ السلام کے پاس ہے۔
وہ “ ناووسيہ ” سے متحد ہيں اور کہتے ہيں : جعفر بن محمد عليہما السلام تمام
تعاليم اور احکام دین کے عالم ہيں۔
انہوں نے ہی مختار کو نبوت کا دعویٰ کرنے پر مجبور کيا ۔
یہ وہی فرقہ “ طيارہ ” ہے جو کہ کہتے ہيں : ان کی موت ان کی روح کا عالم بالا کی
طرف پرواز کے علاوہ کچه نہيں ہے ،مزید کہتے ہيں : روح القدس عيسیٰ سے محمد ميں منتقل
ہوا ہے اور محمد سے علی ميں اور ان سے حسن و حسين عليہما السلام ميں اور ان سے
دیگر ائمہ ميںجو ان کی اولاد ہيں ۔
وہ اسی عمر ابن حرث کندی کے اصحاب ہيں جس نے اپنے ماننے والوں کو دن رات کے
اندر سترہ ( ١٧ ) نمازیں واجب کيں کہ ہر نمازپندرہ رکعت کی تهی یہ گروہ اعتقاد رکهتاتهاکہ علی
نہيں مرے ہيں بلکہ اپنی مخلوق سے ناراض ہو کرکے ان سے غائب ہوگئے ہيں اور ایک دن ظہور
کریں گے وہ ، وہی خشبيہ فرقہ ہے جو مختار کا ماننے والا ہے ۔ وہ ، وہی گروہ ممطورہ ہيں ۔
ا سی طرح وہ دوسرے دسيوں گروہ ہيں !جو تيسرے عبدالله بن سبا کے پيرو گروہ “
سبئيہ” کے بارے ميں نقل ہوئے ہيں ۔
ہم نے جعل کئے گئے فرقہ سبائی کے بارے ميں ان بيہودگيوں ، بہتانوں ، ملاوڻوں اور
تحریفات کو دیکها ۔ اگلی فصلوں ميں ان کے بانی عبدلله سبائی پر بحث و تحقيق کریں گے ۔
|