عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے(تيسری جلد)
 

پانچواں حصہ
خلاصہ اور خاتمہ
سبئيہ ، دوران جاہليت سے بنی اميہ تک۔
سبئيہ ، بنی اميہ کے دوران۔
سبئيہ ، سيف بن عمر کے دوران۔
تاریخ ، ادیان اور عقائد کی کتابوں ميں عبدالله سبا و سبئيہ l
عبد الله بن سبائی کی عبدالله بن سبا سے تحریف ۔
جعل و تحریف کے محرکات ۔
گزشتہ مباحث کا خلاصہ ۔
اس حصہ کے مآخذ۔

سبيئہ دوران جاہليت سے بنی اميہ تک
ان السبيئية مرادفة للقحطانية و اليمانية
سبئيہ ، قحطانيہ اور یمانيہ کے ہم معنی تها اور قبيلہ پر دلالت کرتا تها
. مؤلف

سبئيہ اسلام سے پہلے
سبئيہ ، کافی پرانا اور سابقہ دار لفظ ہے، جو قبل از اسلام دوران جاہليت ميں عربوں
کی زبان پر رائج تها اور قبيلہ کی نسبت پر دلالت کرتاتها، یہ لفظ قحطانيہ کا مترادف اور ہم معنی
تها یہ دونوں لفط سبئيہ و قحطانيہ سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطاان کی نسبت پر دلالت
کرتے تهے، چونکہ ان کے باپ کا نام سبا تهاا س لئے انہيں سبائيہ یا سبئيہ کہتے ہيں اور
چونکہ ان کے جد کا نام قحطان تها اس لئے انہيں قحطانيہ کہتے ہيں چونکہ ان کا اصلی وطن
یمن تها اسلئے انہيں یمانی یا یمنيہ بهی کہتے تهے ۔ نتيجہ کے طور پر تينوں لفظ ایک ہی
قسم کے قبائل پر دلالت کرتے ہيں انکے مقابلہ ميں عدنانيہ ، نزاریہ، ومضریہ تهے مضر بن نزار
بن عدنان کے قبائل سے منسوب تهے اسماعيل ابن ابراہيم کی اولاد ميں سے تهے--- اور
اسی پر دلالت کرتے ہيں ۔
ان دونوں قبيلے دوسرے قبائل سے بهی عہد و پيمان قائم کرتے تهے اور انهيں وہ اپنا
ہم پيمان کہتے تهے اس طرح سبئيہ ، قحطانيہ اور یمانيہ ،کا نام نہ صرف سبا بن یشجب پر بلکہ
ان کے ہم پيمان قبائل جيسے قبيلہٴ ربيعہ پر بهی استعمال ہوتا تها ، اسی طرح “ عدنانيہ ”
مضریہ اور نزاریہ بهی مضر بن نزار قبائل اور ان کے ہم پيمانوں کے لئے استعمال ہوتا تها ۔

سبئيہ ، اسلام کے بعد
اسلام کی پيدائش کے بعد ان دونوں قبيلوں کا، ایک ایک خاندان مدینہ ميں جمع ہوگيا
اور رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی قيادت و زعامت ميں پہلا اسلامی معاشرہ تشکيل
پایا ۔ سبائی یا قحطانی جو پہلے سے یمن سے آکر مدینہ ميںساکن ہوئے تهے ، انهيں انصار
کہا جاتا تها ۔ عدنانی بهی پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے مدینہ ہجرت کے بعد مکہ اور
دوسرے علاقوں سے مدینہ آئے تهے اور انهيں “ مہاجر ” کہا جاتاتها ، بعض اوقات ان دو گروہوں
کے درميان اختلافات اور جهگڑے بهی واقع ہوتے تهے ۔
پہلاجهگڑا اور اختلاف جو اسلام ميں ان دو گروہوں یعنی قحطانی کہ جو قبائل سبائيہ
سے تهے اور عدنانی ، یا دوسرے لفظوںميںمہاجر و انصار کے درميان واقع ہوا جنگ بنی
المصطلق ميں “ مریسيع ” کے پانی پر تها ۔ مہاجرین اور انصار کے ایک ایک کارگذار کے
مابينپانی کهينچنے پر اختلاف اور جهگڑا ہوگيا تو مہاجرین کے کار گزار نے بلند آواز ميں کہا: یا
للمهاجرین ! اے گروہ مہاجر مدد کرو ! اور انصار کے کارگذارنے بهی آواز بلندکی : یا للانصار ! اے
گروہ انصار! ميری نصرت کرو ! اس طرح انصار اور مہاجر کے دو گروہ آپ ميں نبرد آزما ہوئے اور
نزدیک تهاکہ ایک بڑا فتنہکهڑا ہو جائے اس موقع پر منافقين کے سردار عبدالله بن ابيہ اس فرصت
سے استفادہ کرتے ہوئے اختلافات کو ہوا دینے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتے
ہوئے بولا : اگر ہم مدینہ لوڻيں گے تو صاحبان اقتدار یعنی “ انصار ” ذليلوں یعنی مہاجرین کو
ذلت و خواری کے ساته مدینہ سے نکال باہر کریں گے ١رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے
اس موقع پر کوچ کرنے کا حکم دیا ۔ اور سب کو آگے بڑهادیایہاں تک کہ نمازکا وقت آگيا نماز
پڑهنے کے بعد بهی رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے روانہ ہونے کا حکم دیا رات کے
آخری حصہ تک چلتے رہے ۔ اس کے بعد جب پڑاؤ ڈالا تو تهکاوٹ کی وجہ سے سب سو گئے
صبح ہونے پر بهی آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے روانہ ہونے کا حکم دیا ۔ اسی طرح
چلتے رہے لهذا آنحضرت نے انهيں اس فتنہ کو پهر سے زندہ کرنے کی ہرگز فرصت نہيں دی
یہاں تک یہ لوگ مدینہ پہنچ گئے اور اس طرح آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی حکمت
عملی سے یہ فتنہ ختم ہوگيا۔
ان دو گروہوں کا دوسرا تصادم سقيفہ بنی ساعدہ ميں واقع ہوا جب پيغمبر خدا صلی الله عليہ
وآلہ و سلم نے رحلت فرمائی انصار سقيفہ بنی ساعدہ ميں جمع ہوئے تا کہ سعد بن عبادہ
انصاری سبائی کو پيغمبر کے خليفہ اور مسلمانوں کے قائد کے طورپر منتخب کریں مہاجرین
نے بهی اپنے آپ کو سقيفہ پہنچادیاا ور ان کے مقابلہ ميں محاذ آرائی کی اور ابوبکر کی خلافت
کو پيش کيا ،وہ اس نبرد اور جهگڑے ميں ان پر غالب ہوئے اور ابوبکر کو مسند
---------
١۔ یہ داستان سورہ منافقين یوں آئی ہے :
)٨/ >یقولون لئن رجعنا الی المدینہ ليخرجن الاعز منہا الاذل >۔ سورہٴ منافقين ۶٣

خلافت پر بڻهادیا اور خلافت کو قریش ميںثابت کردیا اور ۔ اس طرح ایک قریشی حکومت کی داغ
بيل ڈال دی اس تاریخ کے بعد انصار کو حکومت اور تمام سياسی و اجتماعی امور سے محروم
کرکے یا بہت کم اور استثنائی مواقع کے علاوہ نہ انهيںجنگوںميں سپہ سالاری کے عہدہ پر
فائز کرتے تهے اور نہ کسی صوبے کا گورنر حتی کسی شہر کے ڈپڻی کمشنر کا عہدہ بهی
انہيں نہيں سونپتے تهے ١

خلافت عثمان کے دوران
مسلمانوں کے حالات ميں اسی طرح حوادث پيدا ہوتے گئے اور زمانہ اسی طرح آگے
بڑهتا گيا ، یہاں تک کہ عثمان کا زمانہ آگيا۔ اس زمانہ ميں کام اور حکومت کے حالات بالکل
دگرگوں ہوگئے قریش کی حکومت اور اقتدار بدل کر خاندان بنی اميہ ميں منحصر ہوگئی ۔ اموی
خاندان کے اراکين اور ان کے ہم پيمان قبائل نے تمام کليدی عہدوں پر قبضہ جماليا۔ یہ لوگ مصر،
شام ، کوفہ ، بصرہ ، مکہ ، مدینہ اور یمن کے علاوہ اسلامی ممالک کے وسيع علاقوں کے
گورنر اور حکمراں بن گئے اور اس طرح ان شہروں اور اسلامی مراکز ميں مطلق العنان اور غير
مشروط حکمرانی اور فرمانروائی پر فائز ہوئے ۔خاندان اموی کی طرف سے مسلمانوں کے حالات
پر مسلط ہونے کے بعد اذیت و آزار اور ظلم و بربریت کا آغازہو ااور اسلامی شہروں اور تمام نقاط
ميںقساوت بے رحمی کا برتاؤ کرنے لگے ۔ مسلمانوں کے مال و جان پر حد سے زیادہ تجاوز
ہونے لگا ۔ ظلم و خيانت اورغنڈہ گردی انتہا کو پہنچ گئی یہاںتک کہ بنی اميہ کے خود سراور
ظالم گورنروں اور فرمانرواؤں کے ظلم و ستم نے مسلمانون کے ناک ميں دم کر دیا اس موقع پر
قریش کی نامور شخصيتوں ،جيسے ام المؤمنين عائشہ ، طلحہ ، زبير ، عمرو عاص اور دوسرے
لوگوں نے عوام کی رہبری اور قيادت کی باگ ڈور سنبهالی اور بنی اميہ کے خلاف بغاوت کی ،
اور تمام اطراف سے مدینہ کی طرف لوگآنے لگے آخرکاراموی خليفہ عثمان کو مدینہ ميں ان کے
گهر ميں قتل کر دیا گيا عثمان کے قتل ہونے کے نتيجہ ميں ، بنی اميہ کے درميان ---جوکہ خود
قریش تهے -- قریش کے دوسرے خاندانوں کے ساته سخت اختلافات پيدا ہوگيا ، اس طرح
مسلمانوں پر قریش کا تسلط کم ہوا ، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد پہلی
بار مسلمان اپنے اختيارات کے مالک بنے اور حکومت کی باگ ڈور قریش سے چهيننے ميں
کامياب ہوئے ۔ یہ وہ وقت تها کہ مسلمانوں نے کسی رکاوٹ کے بغير ایک دل اور ایک زبان ہوکر
علی عليہ السلام کی طرف رخ کيا اور پوری دلچسپی اور محبت سے انهيںمسلمانوں پر
حکومت کرنے کيلئے منتخب کيا۔ انتہائی اصرار کے ساته متفقہ طور پر ان کی بيعت کی اور
حکومت کی باگ ڈور انکے لائق اور باصلاحيت ہاتهوں ميں سونپ دی۔
علی عليہ السلام نے اپنی حکومت کو اسلامی قوانين کی بنيادوں پر استوار کيا۔ عام
مسلمانوں ميں برادری نيز مساوات اوربرابری کے منشور کا اعلان ہوا، ان پر عدل و انصاف کی
حکومت کی ، بيت المال کو ان کے درميان یکسان اور مساوی طور پر تقسيم کيا۔ انصار کے لائق
اور شائستہ افراد کو -- جنہيں گزشتہ حکومتوں ميں محروم کياگيا تها---
---------
١۔ چنانچہ ابو بکر ، عمر اور عثمان کے دوران امراء اور سپہ سالاروں کے بارے ميں تحقيق کرنے سے یہ حقيقت
واضح اور روشن ہوتی ہے۔

اہم عہدوں پر فائز کيا اور انہيں مختلف شہروں اور اسلامی مراکز ميں گورنروں اور حکمرانوں کے
طور پرمنصوب کيا ۔ مثلا : عثمان بن حنيف کو بصرہ ميں ، اس کے بهائی سہل کو مدینہ ميں،
قيس بن سعد بن عبادہ کو مصر ميں ، شام کی طرف مسافرت کے دوران کوفہ ميں اپنی جگہ پر
ابو مسعود انصاری کو اور مالک اشر سبئی کو جزیرة اور اس کے اطراف ميں بعنوان حکمراں اور
گورنر منتخب فرمایا ١
حکومت کی اس روش سے“علی عليہ السلام” نے قریش کی گزشتہ حکومتوں کی
تمام اجارہ داری کو منسوخ کرکے رکه دیا۔
یہی وجہ تهے کہ قریش نے علی عليہ السلام کی سياست کو پسند نہيں کيا اور ان
کے خلاف ایک وسيع پيمانہ پر بغاوت کا سلسلہ شروع کردیا یہاں تک کہ جنگِ جمل و صفين کو
برپا کيا ، اسی لئے علی عليہ السلام ہميشہ قریش سے شکایت کرتے تهے اور ان کے بارے
ميں ان کا دل شکوہ شکایتوں سے بهرا ہواتها حضرت کبهی قریش کے بارے ميں شکوؤں کو
زبان پر جاری فرماتے تهے اور ان کی عادلانہ روش کے مقابلہ ميں قریش کے سخت رد عمل پر
صراحت کے ساته بيزاری اور نفرت کا اظہار کرتے تهے :
ایک ایسا درد مند ،جس کے زبان کهولنے سے در و دیوار ماتم کریں
نہج البلاغہ ميں آیا ہے کہ علی عليہ السلام قریش کی شکایت کرتے ہوئے فرماتے تهے:
” خداوندا! ميں قریش اور اُن کے شریک جرم افراد کے خلاف تيری بارگاہ ميں شکایت کرتا ہوں
کيوں کہ انہوں نے قطع رحم کيا ہے اور ہماری بزرگی اور مقام و منزلت کو حقير بنایا ہے حکومت
کے معاملہ ميں جو مجه سے مخصوص تهی ميرے خلاف بغاوت کی اور بالاتفاق ہميں اُس سے
محروم کيا اور مجه سے کہا کہ ہوشيا رہوجاؤ ! حق یہ ہے کہ اسے لے لو اور حق یہ ہے کہ اسے
چهوڑ دو ۔ وہ دعویٰ کرتے تهے کہ ميرے حق کے حدود کو معين کریں ۔ تجهے قریش سے کيا
کام؟ خدا کی قسم جس طرح ميں ا ن کے کفر کے دوران ان سے لڑتا تها آج بهی --چونکہ
انہوںنے فتنہ و فساد کو اپنایا ہے-- ان سے جنگ کروں گا اس دن ميںہی تها جس نے ان سے
جنگ کی اور آج بهی ميںہی ہوں جو ان سے جنگ کررہا ہوں ۔
اپنے بهائی عقيل کے نام ایک خط کے ضمن ميں لکها ہے :
قریش کو ، ان کے حملوں اور گمراہی کی راہ ميں اور وادی شقاوت و سرکشی ميں ان کے نمود
و نام کو چهوڑدو ،انهيں حيرت وپریشانی کی وادی ميں چهوڑ دو ! قریش نے ميرے خلاف جنگ
---------
١۔ابن اثير اپنی تاریخ ميں جلد ٣ صفحہ نمبر ٣٣۴ امير المؤمنين کے گورنر کے عنوان کے ذیل ميں کہتا ہے: مدینہ ميں
علی(ع) کا گورنر ابوایوب انصاری اور بعض مورخين کے عقيدہ کے مطابق سہل بن حنيف تها۔

کرنے ميں اتفاق کيا ہے اسی طرح کہ اس سے پہلے پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم
کے خلاف جنگ کرنے ميں شریک جرم ہوئے تهے ۔ قریش مجه پر کئے ظلم جس کی سزا وہ
ضرور پائيں گے قریش نے ہمارے ساته قطع رحم کيا ہے حکومت کے ميرے پيدائشی حق کو
مجه سے چهين ليا ہے ۔

سبئيہ علی کے دوران
علی عليہ السلام کے زمانے کی تاریخ سے جو کچه معلوم ہوتا ہے--- جس کا ایک
اجمالی خاکہ ان صفحات ميں پيش کيا گيا --- وہ یہ ہے کہ : عدنانی قریش نے پيغمبر صلی
اللهعليہ و آلہ وسلم کے بعد علی ابن ابيطالب عليہ السلام سے دشمنی اور مخالفت مول لی
اور ان کے خلاف متحد ہوکر اسلامی حکومت سے انهيں الگ کردیا جب حضرت لوگوں کی
حمایت سے خلافت پر پہنچے تو اس وقت بهی وہی قریش تهے جنہوں نے ان کے خلاف فتنے
او ر بغاوتيں کيں ليکن تمام حساس اور نازک مواقع پر قبائل سبئيہ --- کہ وہی قحطانی قبائل ہيں
-- کے تمام دوست و مجاہدین ان کی رکاب ميں تهے۔ خاص کر قبائل سبائی کے سرکردہ
اشخاص ، جيسے : مالک اشتر ہمدانی سبئی ١ عبدا لله بدیل خزاعی سبئی ، حجر بن عدی
کندی سبئی ،قيس بن سعد بن عبادہٴ سبئی انصاری اور قبائل سبئيہ کے بعض دیگر سردار جو
علی عليہ السلام کے یار و غمخوار تهے،ان کے محکم اور ثابت قدم طرفداروں کے گروہ کو
تشکيل دیتے تهے ١ ليکن جنگ صفين اور حکميت اشعری کی روداد کے بعد اہل کوفہ و بصرہ
کے عربوں نے جنکی اکثریت علی کے ماننے والوں کی تهی ، علی عليہ السلام کو حکميت
کے نتيجہ کو قبول کرنے پر کافر سے تعبير کيا اور اس سبب سے اپنے آپ کو بهی کافرجانا اور
کہا: ہم نے توبہ کيا اورکفر سے پهر اسلام کی طرف لوڻے ، اس کے بعد انہوں نے تمام
مسلمانوں حتی خود علی عليہ السلام کی بهی تکفير کی انکے اور تمام مسلمانوں کے خلاف
بغاوت کرکے ان پر تلوار کهينچی۔اس طرح اسلام ميں ایک گروہ کی ریاست و قيادت کی “
عبدالله بن وهب سبائی ” نے ذمّہ داری لی تهی انہوں نے نہروان ميں امام سے جنگ کی ،
عبدالله بن وهب سبائی اس جنگ ميں قتل کيا گيا ، اس کے بعد انہيں خوارج ميں سے ایک
شخص کے ہاتهوں امير المؤمنين عليہ السلام محراب عبادت ميں شہيد ہوئے، علی “عليہ
السلام” کی شہادت کے بعد تاریخ کا صفحہ پلٹ گيا اور قبائل سئبيہ ميں ایک دوسر ی حالت
پيدا ہوگئی جس کی اگلی فصل ميں وضاحت کی جائے گی ۔
---------
٢۶ ميں لکهتا ہے : جس دن اسلام کاظہور ہوا قبيلہٴ ہمدان کے افراد اسلامی ممالک / ١۔ ابن خلدوں اپنی تاریخ ٢
ميں پهيل گئے اور ان ميں ایک گروہ یمن ميں رہا صحابہ کے درميان اختلاف او رکشمکش پيدا ہونے کے بعد قبيلہ
ہمدان شيعہ ا ور علی عليہ السلام کے دوستدار تهے یہاں تک علی عليہا لسلام نے ان کے بارے ميں یہ شعر کہا
ہے : ولو کنت بوا باً لابواب جنة لقلت لهمدانی ادخلی بسلام .. یعنی اگر ميں بہشت کا چوکيدار ہوں گا تو قبيلہ
ہمدانی کے افراد سے کہوں گا کہ سلامت کے ساته بہشت ميں داخل ہوجاؤ۔)
١۔ معاویہ شام ميں سکونت کرنے والے قبائل سبئيہ کے بعض گروہ کو عثمان کی خونخواہی کے بہانہ سے باقی
قبائل سبئيہ سے جدا کرنے ميں کامياب ہوا اور خاص کر انہيں اپنی طرف مائل کردیا یہ گروہ اس زمانہ سے خلفائے
بنی مروان تک وقت کے حکام کے پاس خاص حيثيت کے مالک ہوا کرتے تهے ليکن اس دوران کے بعد قبائل قحطانی
و عدنانيوں کے درميان عمومی سطح پر شدیداختلافات رونما ہواجس کے نتيجہ ميں مروانی ، اموی حکومت گر گئی
اور بنی عباسيوںنے حکومت کی باگ ڈو ر پر قبضہ کيا کتاب صفين تاليف نصر بن مزاحم ، مقدمہ سوم کتاب “ ١۵٠
جعلی اصحاب ” ملاحظہ ہوں