افسانہ ٴ “ علی بادلوں ميں ایا ” کی حقيقت
اتاکم علیّ فی السحاب
اب علی عليہ السلام عمامہٴ سحاب سر پر رکه کر آپ کی طرف آئيں گے۔ رسول خدا
گزشتہ فصلوں ميں ہم نے افسانہٴ “علی بادلوں ميں ” کو بيان کيااور اس پر بحث و
تحقيق کی اور خلاصہ کے طور پر کہا: کہ اگرچہ یہ افسانہ جس صورت ميں ادیان و عقائد کی
کتابوںميں آیا ہے واقعی نہيں ہے ليکن افسانہ ایک تاریخی حقيقت سے سرچشمہ لے کر
تحریف ہوا ہے اور وہ یہ کہ:
پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے زمانہ ميں غالباً وسائل زندگی کے نام رکهے
جاتے تهے ، اور یہ روش پيغمبر کی زندگی ميں زیادہ مشاہدہ ہوتی تهی کنزل العمال ميں آیا
ہے کہ: پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی عادت یہ تهی : آپ جنگ ميں اپنااسلحہ ،سواری
،اشياء اور دوسری چيزوں کی نام گزاری فرماتے تهے ۔ ١
---------
) ٧٢ ۔ ٧٣ / ١۔ کنزل العمال طبع دوم ۔ حيدر آباد ( ج ٧
پ يغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی سيرت کی کتابوںميں آیا ہے کہ پيغمبر صلی الله
عليہ و آلہ وسلم کا دلدل نام کا ایک خچر تها اور عفير یا یعفور نام کا ایک گدها تها ،قصوا، جدعا و
عضباء نام کے چند اونٹ تهے ،
بتار ،مخدوم و رسوب و ذوالفقار نامی چند تلواریں تهی عقاب نامی ایک سياہ علم تها اور سحاب
نامی ایک عمامہ تها کہ جس کو مخصوص مواقع پر سر پر رکهتے تهے ۔ پيغمبر اسلام صلی الله
عليہ و آلہ وسلم فتح مکہ کے دن سياہ عمامہ سر پر رکه کر مکہ ميں داخل ہوئے ١
ا س سحاب نامی عمامہ کو کبهی علی عليہ السلام کے سر پر رکهتے تهے غدیر کے
دن اس عمامہ کو تاج گزاری کے طور پر علی عليہ السلام کے سر پر رکها گياتها علی عليہ
السلام اسی عمامہ کے ساته آتے تهے اور پيغمبر فرماتے تهے : “ جاءَ کم علی فی السحاب ”
یعنی علی عليہ السلام سحاب عمامہ ميں دے ۔ چونکہ سحاب کے معنی بادل رہےں اس لئے
اس خرافات پر مشتمل افسانہ کا سر چشمہ یہيں سے ليا گيا ہے اب ہم اس پر بحث و تحقيق
کرتے ہيں ۔
اہل سنت کی روایتوں ميں سحاب
ابن اثير کی “ نہایة ” ميں لفط سحاب کی تشریح ميں ایا ہے : پيغمبر صلی الله عليہ و
آلہ وسلم کے عمامہ کے نام سحاب تها ۔
” لسان العرب ” اور “ تاج العروس ” ميں ذکر ہواکہ : حدیث ميں وارد ہوا ہے کہ پيغمبر
اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے عمامہ کو سحاب کہتے تهے ، چونکہ سفيدی ميں وہ ایک
. سفيد بادل سے شباہت رکهتا تها 2
ذہبی کی “ تاریخ الاسلام ” ، قسطلانی کی “المواهب لدنيہ ” اور نبہانی کی “
انوارمحمدیہ ” ميں آیا ہے کہ : رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا سحاب نامی ایک عمامہ
تها اسے“ لاطی ” یعنی سر سے چپکی ہوئی ایک ڻوپی کے اورپر باندهتے تهے ۔
ت اریخ یعقوبی ميں آیا ہے کہ : رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا سحاب نامی ایک
سياہ عمامہ تها۔
سنن ابن ماجہ کے باب “ العمامة السوداء ” سنن نسائی کے باب “ لبس العمائم
السوداء ” سنن ابی داؤد کے باب “ العمائم ” ابن سعدکی طبقات ، مسند احمد حنبل ، بلاذری
کی “انساب الاشراف ” ذہبی کی “ تاریخ الاسلام ” اور تاریخ ابن کثير ميں جابر سے نقل ہے کہ
رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم فتح مکہ کے دن سياہ عمامہ سر پر رکهے ہوئے مکہ
ميں داخل ہوئے ۔
---------
۴۵ ۔ ۴٩٢ اور سيرت کی دوسری کتابيں ۔ / ١۔ طبقات ابن سعد، طبع بيروت ج ١
2۔ ان دو دانشمندوں نے پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے سحاب نامی عمامہ کی نام گزاری کے سبب
کے بارے ميں غلطی کی ہے کيونکہ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا عمامہ سياہ بادل سے شباہت رکهتا تها
نہ سفيد بادل سے۔
رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اپنے “سحاب ”نامی عمامہ کو علی بن
ابيطالب عليہ السلام کے سر پر رکها ، چنانچہ ابن قيم جوزی اپنی کتاب “ زاد المعاد ” ميں اس
سے متعلق کہتا ہے : “ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا سحاب نامی ایک عمامہ تها
اس عمامہ کو علی ابن ابيطالب کے سر پر رکها وہ اس عمامہ کو ایک ڻوپی کے اوپر سے سر پر
باندهتے تهے ۔
کنز العمال ميں ابن عباس سے نقل کرتا ہے “ جب رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے
اپنے سحاب نامی عمامہ کو علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے سر پر رکها تو فرمایا: اے علی
! عمامہ عربوں کے نزدیک تاج کے مانند ہے ،یعنی : یہ تاج ہے جسے ميں نے تيرے سرپر
رکها ہے ” اور اس سلسلہ ميں جو روایت نقل کی گئی ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ
رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے علی عليہ السلام کے سر پر اپنے عمامہ باندهنے
کی روداد غدیر کے دن واقع ہوئی ہے اسی دن رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے علی
عليہ السلام کو بلا کر ان کے سر پر ایک عمامہ رکها اور اس کا ایک سرا ان کی پشت پر لڻکا
دیا۔
حموی ( وفات ٧٢٢ هء) نے ‘ فرائد السمطين ” ميں نقل کياہے کہ رسول خدا صلی الله
عليہ و آلہ وسلم نے اپنے سحاب نامی عمامہ کو علی ابن ابيطالب عليہ اسلام کے سر پر رکها
اور اس کے دو نوں سرے کو آگے اور پيچهے کی طرف لڻکادیا اس کے بعد فرمایا: اے علی !
ميری طرف آجاؤ ۔ علی عليہ السلام پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی طرف بڑهے پهر
آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایا: پيچهے کی طرف پلٹ جاؤعلی عليہ السلام پلٹ
گئے جب رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے علی عليہ السلام کو آگے اور پيچهے سے
دقت کے ساته مشاہدہ کرلياتو فرمایا ملائکہ اسی شکل و صورت ميںميرے پاس آتے ہيں“
ابن حجر ( وفات ٨۵٢ ئه) اپنی کتاب “ الاصابہ” ميں علی ابن ابيطالب عليہ السلام سے
روایت کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن
ميرے سر پر ایک سياہ عمامہ باندها، اسکا ایک گوشہ ميرے شانہ پر لڻکا ہوا تها ، کنزل العمال
ميں علی ابن ابيطالب عليہ السلام سے نقل کيا گيا ہے کہ : “ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ
وسلم نے غدیر کے دن ميرے سر پر ایک عمامہ باندها اور ا س کے ایک گوشہ کو ميری پشت
پر آویزاں کردیا ”۔
ا یک اور روایت ميں آیا ہے کہ حضرت نے فرمایا: “ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم
نے اس عمامہ کے دو کناروں کو ميرے دو شانوں پر آویزاں کيا اس کے بعد فرمایا: خداوند عالم
نے جنگ بدر و حنين ميں جب فرشتوں کو ميری مدد کيلئے بهيجا تو وہ اسی طرح سر پر عمامہ
رکهے ہوئے تهے۔
کنز ل العمال ميں نقل ہوئی ایک دوسری روایت ميں یوں آیا ہے : رسول خدا صلی الله
عليہ و آلہ وسلم نے اپنے ہاته سے عمامہ کو علی عليہ اسلام کے سر پر رکها اور عمامہ کے دو
گوشوں کو سر کے پيچهے اور آگے لڻکا دیا اس کے بعد فرمایا: پيچهے مڑو تو علی عليہ السلام
پيچهے مڑگئے ۔ اس کے بعد رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اصحاب کی طرف رخ
کرکے کہا: فرشتوں کے تاج بهی ایسے ہی ہوتے ہيں ۔ علی عليہ السلام ،رسول خدا صلی الله
عليہ و آلہ وسلم کے سحاب نامی عمامہ کو سر پر رکه کر لوگوںميں آتے تهے اور لوگ کہتے
تهے : “ جاء علی فی السحاب ” علی پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے سحاب نامی
مخصوص عمامہ کے ساته آگئے ہيں۔
غزالی ( وفا ۵٢٠ هء ) کہتا ہے: رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا سحاب نامی
ایک عمامہ تهااسے آپ نے علی عليہ السلام کو بخش دیا ، بعض اوقات ؛علی اسی عمامہ ميں
تشریف لاتے تهے تو رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم فرماتے تهے :“ اتاکم علی فی
السحاب “
صفدی ( وفات ٧۶۴ ئه) کہتا ہے: رسول خدا کی ایک کالی عبا اور سحاب نامی ایک
عمامہ تها آپ نے اسے علی کو بخش دیا جب کبهی آپ علی کو وہ عمامہ سر پر
رکهے ہوئے دیکهتے تهے تو فرماتے تهے : “اتاکم علی فی السحاب ” علی عمامہ سحاب سر پر
رکه کرآئے ہيں“
علی ابن برہان الدین شافعی حلبی ( وفات ١٠۴٢ ئه ) “سيرہٴ حلبيہ ” ميں کہتا ہے :
رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا سحاب نامی ایک عمامہ تها آپ نے اسے علی ابن
ابيطالب عليہ السلام کے سر پرر کها ، جب کبهی علی اس عمامہ کو سر پر رکهے ہوئے
آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی خدمت ميںحاضر ہوتے تهے تو رسول خدا صلی الله عليہ
و آلہ وسلم فرماتے تهے: “ اتاکم علی فی السحاب” یعنی علی ميرے مخصوص عمامہ
سحاب کو سر پر رکهے ہوئے آرہے ہيں ۔
ن بہانی اپنی کتاب “ وسائل الوصول الی شمائل الرسول ” ميں کہتا ہے: رسول خدا صلی
الله عليہ و آلہ وسلم کا سحاب نامی ایک عمامہ تها ، اسے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کو
بخش دیا ،تها جب کبهی علی اس عمامہ کے ساته باہر آتے تهے تورسول خدا صلی الله عليہ و
آلہ وسلم فرماتے تهے : “ اتاکم علی فی السحاب“
یہ ان روایتوں کا ایک نمونہ تها جو پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی طر ف سے
علی عليہ السلام کو اپنا عمامہ بخشنے اور علی فی السحاب کے صحيح معنی کے بارے ميں
اہل سنت کی حدیث ، سيرت اور لغت کی کتابوں ميں ائی ہيں ۔ اسی قسم کی احادیث
شيعوں کی کتابوںميں بهی نقل ہوئی ہيں ان کے چند نمونے بهی یہاں پر پيش کرتے ہيں:
شيعہ روایتوں ميں سحاب
اسماعيل ١ ابن امام موسی بن جعفر عليہ السلام ، کتاب “ جعفریات ” ميں اپنے آبا و اجداد
امير المؤمنين سے نقل کرتے ہےں کہ: حضرت فرماتے تهے : رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ
وسلم کا سحاب نامی ایک عمامہ تها ان ہی روایتوں کو مرحوم نوری ( وفات ١٣٢٠ هء) نے اپنی
کتاب المستدرک کی کتاب صلاة باب “استحباب التعمم و کيفيتہ ” ميں نقل کيا ہے ۔
کلينی( وفات ٣٢٩ ئه) نے اپنی کتاب کافی “ کتاب الزی و التجميل باب القلانس ” ميں
امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہےں کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم یمنی
سفيد ، اور مضری ڻوپياں استعمال فرماتے تهے اور سحاب نامی ایک عمامہ بهی رکهتے تهے ۔
ان روایتوں کو مرحوم فيض ( وفات ١٠٩١ هء) نے اپنی کتاب “وافی ، باب “ القلانس” ميں
اور مرحوم محمد حسن حر عاملی ( وفات ١١٠۴ ئه) نے کتاب وسائل کی “ کتاب الصلاة ، باب ما
یحتسب من القلانس ” ميں درج کيا ہے ۔
رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے جنگ خندق ميں اپناسحاب نامی عمامہ کو
علی کے سر پر باندها
مرحوم فضل بن حسن طبری ( وفات ۵۴٨ هء) مجمع البيان ميں تفسير سورہ احزاب ميں
جنگ احزاب کی بحث کے دوران کہتے ہےں : جنگ خندق ميںجب امير المؤمنين عليہ السلام
عمرو ابن عبدود سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہونا چاہتے تهے تو رسول خدا صلی الله عليہ و
آلہ وسلم نے “ ذات الفصول ” نامی اپنی ذرہ انہيں پہنادی “ ذو الفقار ” نامی اپنی تلوار انکے
ہاته ميں دیدی اور “سحاب” نامی اپنا عمامہ ان کے سے سر پر باندها اور اسی روایت کو
مرحوم مجلسی( وفات ١١١١ هء) نے بحار الانوار کی چهڻی جلد ميں ، نوری نے مستدرک
الوسائل “ استحباب التعمم اور ابواب احکام الملابس فی غير الصلاة ” ميں اور مرحوم قمی (
وفات ١٣۵٩ هء) نے سفينة البحار ميں مادہٴ عم کے ذیل ميں طبرسی سے نقل کيا ہے حسن
بن فضل طبرسی نے بهی اپنی کتاب ‘ مکارم الاخلاق ” کے باب “مکارم اخلاق النبی صلی الله
عليہ و آلہ وسلم ” ميں نقل کيا ہے ۔
رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا ایک مخصوص عمامہ تها اسے “ سحاب ” کہتے
تهے کبهی آپ اسے اپنے سر پر باندهتے تهے اورکبهی اسی عمامہ کو علی عليہ السلام کے
سر پر رکهتے اور جب بهی علی اس عمامہ کے ساته باہر آتے تهے تو رسول خدا صلی الله عليہ
و آلہ وسلم فرماتے تهے : “ اتاکم علی فی السحاب ” اس وقت علی ‘ سحاب ” ميں تمہاری
طرف آرہے ہيں آپ کا مقصود اس تاریخی جملہ ميں “ سحاب ”سے وہی مخصوص عمامہ تها
جسے آپ نے خود علی کو بخش دیا تها ۔
ا س روایت کو مجلسی نے بحار کی چهڻی جلد ميں اور قمی نے سفينة البحار ميں مادہ
“سحاب” کے ذیل ميں ذکر کيا ہے۔
مرحوم کلينی نے اپنی کتاب “ کافی” کے “ باب عمائم ” ميں امام صادق عليہ السلام
سے یوں نقل کيا ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے علی عليہ السلام
کے سر پر ایک عمامہ رکها عمامہ کے ایک طرف کو سامنے اوردوسرے طرف کو چار انگليوں کی
لمبائی ميں سے کم تر پيچهے کی جانب لڻکا دیا، اس کے بعد فرمایا: اے علی عليہ السلام :
---------
١۔اسماعيل امام سوسی بن جعفر عليہ السلام کی فرزند ہيں نجاشی اپنی رجال ميں اور شيخ طوسی اپنی
فہرست ميں ٣۴ ۔ ٣٣ پر کہتے ہيں: اسماعيل مصر ميں سکونتپذیر تهے اور بہت سی کتاب کے مؤلف ہےں ان کی
روایتوں کو کلی طور پر اپنے آباو اجداد طاہرین سے نقل کی ہے ان ميں سے متن ميںذکر ہوئی دو روایتيں بهی ہيں
نجاشی اور طوسی کا مقصود اسماعيل کی وہی کتابيںہيںجسے علمائے حدیث ان کو “ جعفریات ”
اورکبهی“اشعشيات ” کا نام دیا ہے ان روایتوں کے راوی کے طور پر ابو علی محمد بن اشعث کو نسبت دیتے ہيں
٢٩١ ) اور صاحب الذریعہ نے / اسماعيل کے حالات پر مرحوم نوری نے اپنی مستدرک کے خاتمہ پر فائدہ دوم ( ٣
١٠٩ ۔ ١١١ ميں درج کيا ہے ۔ / اپنی کتاب ٢
پيچهے مڑو ! علی عليہ السلام پيچهے مڑگئے ، اس کے بعد فرمایا: اے علی ! سامنے کی
طرف مڑو پهر رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے آگے اور پيچهے سے علی عليہ السلام
کے قيافہ او رہيکل پر ایک نظر ڈالی ، پهر فرمایا: فرشتوں کے تاج بهی ایسے ہی ہيں ۔
دوسری روایت کو مرحوم فيض نے اپنی کتاب “ وافی ”کے باب العمائم ميں اور حر
عاملی نے اپنی کتاب “وسائل ”کے باب “ استحباب العمامة ” ميں ا ور مجلسی نے بهی بحار
الانوار کی نویں جلد ميں درج کياہے ۔
ا ن روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اس عمل
کو علی عليہ السلام کے بارے ميں کئی بار انجام دیا ہے ایک بار جنگ خندق ميں جيسا کہ
اس کی روایت بيان کی گئی ، دوسری با غدیر خم کے دن جيسا کہ علی بن طاؤس ( وفات
۶۶۶ ئه) کتاب “ امان الاخطار ” ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے صحابی عبدالله بن
بشر ١ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہيں:
رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی عليہ السلام کو اپنے پاس بلایا
اور اپنے ہاته سے ان کے سر پر ایک عمامہ رکها اس عمامہ کا ایک سرا ان کے شانہ پر لڻکادیا ،
اس کے بعد فرمایا: خداوند عالم نے جنگ حنين ميںميری مدد کيلئے کئی فرشتے کہ جن کے
سر پر علی عليہ السلام کے عمامہ کے مانندعمامے تهے اوروہ ہمارے اور مشرکين کے درميان
(دیوار) کے مانند حائل ہو گئے اس طرح مشرکين کے سپاہيوں کيلئے رکاوٹ بنے ۔
بحرانی ( وفات ١١٩٧ هء) نے کتاب “ غایة المراد ” کے سولہویں باب ميں حموینی کی
٧۴ روایتوں کو اہل سنت کی روایتوں کے ضمن ميں درج کيا ہے ۔
کلينی اپنی کتاب “ کافی ” کتاب “ کتاب نu1575 الحجة باب ما عندالائمة من سلاح الرسول و
متاعہ ” ميں یوں نقل کرتے ہيں کہ : رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اپنے مرض الموت
ميں اپنی ذرہ ، علم ، لباس ، ذو الفقار ، ڈهال اور سحاب علی کو بخش دیا ۔ علل الشرائع
ميں بهی اسی مضمون کی ایک روایت ذکر ہوئی ہے۔
خلاصہ اور نتيجہ:
ان روایتوں سے جو سنی اور شيعہ کتابوں ميں کثرت سے پائی جاتی ہيں “ سحاب”
اور جاء علی فی السحاب کے معنی مکمل طورپر واضح اورروشن ہوجاتے ہيں کہ “ سحاب سے ۔
---------
١۔عبدالله بن بشر اہل حمس ميں سے ہے بغوی “معجم الصحابہ ”ميں عبدالله کا نام ذکر کرکے کہتا ہے یحيیٰ بن
حمزہ نے عبيدہ حمسی سے اور اس نے عبدالله سے نقل کيا ہے کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے
علی عليہ السلام کے سر پر ایک سياہ عمامہ رکها اس کے ایک طرف کو سامنے یا سر کے پيچهے آویزان کيا پهر
سے وہ علی عليہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے غدیر
٢۴٧ ۔ / کے دن اپنے ہاته سے ایک سياہ عمامہ ميرے سر پر رکها ” شرح حال نمبر ۴۵۶۶ اصابہ : ٢
مراد بادل نہيں ہے بلکہ اس سے مراد پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا ایک خصوصی
عمامہ ہے جس کا نام سحاب تها اور آپ نے اسے علی بن ابيطالب عليہ السلام کو بخش دیا
تها ۔علی عليہ السلام بهی کبهی اسے اپنے سرپر باندهتے تهے جملہ “جاء علی فی السحاب
”سے مقصود بهی ےہی حقيقت ہے کہ علی عليہ السلام پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ
وسلم کے مخصوص عمامہ کو سر پر رکه کر آتے تهے
ليکن تحریف کرنے والے اور انتقام جو افراد ، خاص کر شيعوں کے دشمنوں نے اس حقيقت سے
ناجائز فائدہ اڻها کر اس ميں شعوری یا غير شعوری طور پر تحریف کی ہے اور سحاب کو بادل کے
معنی ميں استعمال کرکے اس تاریخی جملہ: جاء علی عليہ السلام فی السحاب کو علی بادل
ميں ہےں کے معنی سے تشریح کی ہے ۔ اس طرح مضحکہ خيز اور خرافات پر مشتمل “ افسانہ
علی ابر ميں ” کو وجود ميں لایا ہے اور کئی افراد کو ا س افسانہ کے ذریعہ مورد الزام قرار دیا
ہے جس کی وضاحت گزشتہ فصل اور اگلی فصل ميں ہم اہل ملل ونحل کی افسانہ پر دازی
کے ایک اور نمونہ کے ضمن ميں تحقيق کریں گے ۔
افسانہٴ ‘ ‘ خدا کے ایک جزء نے علی عليہ السلام ميں حلول کيا ہے“
شہرستانی نے کتاب “ ملل و نحل ” ميں فرقہ سبائيہ اور عبدالله بن سبا کے اس اعتقاد
کے بارے ميں کہا علی (عليہ السلام )نہيں مرے ہےں کيونکہ ان ميں خدا کاایک جز ء حلول
کرگيا ہے : اور اس پر کچه نہيں ہوتا ہے ! کو بيان کرتے ہوئے سبائيوں کے بارے ميں کہتاہے:
وہ معتقد ہيں کہ خداکا ایک جزء علی (عليہ السلام )کے بعد ائمہ کے اندر حلول کر گيا
ہے ا ور یہ ایسا مطلب ہے جسے اصحاب جانتے تهے اگر چہ وہ ابن سبا کے مقصود کے خلاف
کہتے تهے ، یہ عمر ابن خطاب تها کہ جس نے علی عليہ السلام کے بارے ميں کہا --- جب
علی عليہ السلام نے ایک شخص کوحرم ميں ایک آنکه کا کانا کردیاتو اس کے بعد اس کے پاس
شکایت لے گئے تو --- ميں کيا کہہ سکتا ہوں خدا کے اس ہاته کے بارے ميں جس نے خدا کے
حرم ميں کسی کی آنکه نکال لی ہو؟ عمر نے اس پر خدا کا نام دیا ہے اس بنا پر کہ جو کچه وہ
ان کے بارے ميں جانتا تها ١
ا بن ابی الحدید( وفات ۶۵۵ هء) یا ۶۵۶ ئه) نے اس مطلب کو یوں بيان کيا ہے “ بعض افراد
نے ایک کمزور شبہہ کو دستاویز بنادیا ہے جيسے عمر کی اس بات پر جب علی عليہ السلام
نے کسی کو حرم ميں بے
---------
١۔عبدالله بن سبا کے عقيدہ کو بيان کرتے ہوئے کہاگيا ہے: زعم ان عليا یمت ، ففيہ الجزء الالہی ، ولا یجوز ان
یستولی عليہ انما اظهر عبدالله بن سباٴ هذہ المقالة بعد انتقال علی عليہ السلام و اجتمعت عليہ جماعة و هم
اول فرقة قالت بالتوقف ، والغيبة و الرجعة و قالت بتناسخ الجزء الالہی فی الائمہ بعد علی عليہ السلام و هذا
المعنی ممّا کان یعرفہ اصحابہ و ان کانوا علی خلاف مراد۔ هذا عمر بن الخطاب کان یقول فيہ حين فقاٴ عين واحد فی
الرحم و رفعت القصة اليہ : ما ذا اقول فی ید الله فقائت عينا فی حرم الله فاطلق عمر اسم الالهية عليہ لما عرف منہ
٢) فصل تعریف فرقة سبائيہ کے حاشيہ کی طرف رجوع کيا جائے ۔( / ذالک کتاب “ ملل و نحل ” ج ١١
احترامی اور بے دینی کرنے کے جرم ميں اس کو ایک آنکه سے کانا کردیا تها ، تو عمر نے کہا
تها: ميں خدا کے اس ہاته کے بارے ميں کيا کہوں جس نے خدا کے حرم ميں کسی کی آنکه
نکال لی ہو؟ ١
ا بن ابی الحدید نے اپنا مآخذ ذکر نہيں کيا ہے شاید اسی شہرستان کی ملل ونحل سے
نقل کيا ہوگا ۔و ہ توایک افسانہ ہے جسے نقل کيا گيا ہے اور اس افسانہ کی حقيقت وہی ہے
جسے محب الدین طبری نے الریاض النضرة ميںيوں درج کيا ہے : عمر طواف کعبہ ميں مشغول
تهے اور علی عليہ السلام بهی ان کے آگے آگے طواف ميں مشغول تهے اچانک ایک شخص نے
عمر سے شکایت کی ، یا امير المؤمنين ! علی “عليہ السلام ”اور ميرے سلسلے ميں انصاف
کرو!
عمر نے کہا؛ علی“ عليہ السلام” نے کيا کيا ہے ؟
اس نے کہا : اس نے ميری آنکه پر ایک تهپڑ مارا ہے ۔
عمروہيں پر ڻهہرگئے یہاں تک کہ علی“ عليہ السلام” بهی طواف کرتے ہوئے وہاں
پہنچے ان سے پوچها اے ابو الحسن کيا اس شخص کی آنکه پر تم نے تهپڑ مارا ہے ؟!
علی نے کہا: جی ہاں،یا امير المؤمنين ۔
عمر نے کہا: کيوں؟
علی “عليہ السلام” نے کہا: اسلئے کہ ميں نے اسے دیکها کہ طواف کی حالت ميں
مؤمنين کی عورتوں پر بری نگاہ سے دیکه رہاتها ۔
عمر نے کہا؛ احسنت یا ابا الحسن ! یہ تهی اس داستان کی حقيقت ، کتاب ملل و نحل
ميں اس قسم کی اشتباہات اور خطائيں بہت زیادہ ہيںليکن ہم اس کتاب ميں حقائق کی تحریف
کو دکهانے کيلئے ان ہی چند افسانوں کی تحقيق پر اکتفا کرتے ہيں اس کے بعد گزشتہ بحثوں
کا ایک خلاصہ پيش کریں گے ۔
---------
)۴٢۶ / ١۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ( ج ١
چوتهے حصہ کے مآخذ و منابع
الف: افسانہٴ “علی ابر ميں ہے” کے مآخذ
١۔ المقالات و الفرق تاليف سعد بن عبدا لله اشعری، ص ٢٧
٨۵ / ٢۔ مقالات الاسلاميين ابو الحسن اشعری ١
٣۔ التنبہ و الراد ابو الحسن ملطی ، ص ٢۵
۴۔ الفرق بين الفرق بغدادی ، تحقيق محمد محی الدین مدنی ، طبع قاہرہ،
ص ٢٣٣
١٨۶/ ۵۔ الفصل ابن حزم، طبع اول، : ۴
١٢٩/ ۶۔ البداء و التاریخ : ۵
٧۔ التفسير فی الدین: ا سفرائينی : ص ١٠٨
٨۔ الملل و النحل ،شہرستانی : تحقيق عبدالعزیز طبع دارا لاتحاد مصر ١٣٨٧ ئه :
١٧۴ /١
٩۔ الانساب، سمعانی : ل غت سبئی کے ذیل ميں ۔
١٠ ۔ شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، خطبہ ٢٧ کی شرح ميں
١١ ۔ التعریفات ، جرجانی : ص ١٠٣
١٢ ۔ مقدمہ ابن خلدون : ص ١٩٨
١٧۵ و ١٧٢ ۔ / ١٣ ۔ خطط ، مقریزی ، طبع نيل مصر : ١٣٢۴ هء : ۶
١۴ ۔ دائرة المعارف ، فرید وجدی ، لغت “ سبئيہ ” کے ذیل ميں
١۵ ۔ دائرة المعارف ، بستانی ، لغت عبدالله بن سبا ميں
ب : سحاب’ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے عمامہ کا نام ہے:
اہل سنت کی کتابوں سے اس روایت کے مآخذ:
١۔ نہایة ابن اثير ، لغت سحاب ميں ۔
٢۔ لسان العرب ، ابن منظور ، لغت سحاب ميں
٣۔ تاج العروس ، زبيدی ، لغت سحاب ميں
۴٢٨ ۔ ۴٢٧ / ۴۔ مواهب الدنيہ ، قسطلانی : ١
۵۔ انوار المحمدیہ ، نبہانی : ص ٢۵١
ج : پ يغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے عمامہٴ “ سحاب ” علی عليہ السلام کے
سر پر باندها۔
۶٠ / ١۔ کنزا لعمال : متقی هندی : ۴
٢/ ٢۔ الریاض النضرة ، محب الدین طبری ، طبع دار التاليف مصر: ١٣٧٢ هء ،: ٢٩٨
د: ا س خبر کے مآخذ کہ کبهی علی عليہ السلام اسی عمامہ کے ساته نکلتے تهے اور
رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم فرماتے تهے : “ علی سحاب ميں آئے ہےں“
١۔ وسائل الوصول الی شمائل الرسول : نبہانی : ٧٠
٢۔ السيرة النبی “ صلی الله عليہ و آلہ وسلم ” ، برہاں الدین حلبی ، پریس
٣٧٩ / مصطفی محمد ، قاہرہ : ٣
ه: سحاب کے بارے ميں شيعوں کی کتابوں کے مآخذ:
سحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے عمامہ کانام ہے:
٢١٣ ۔ / ١۔ مستدرک الوسائل ، نوری: ١
۴۶١ ۔ ۴۶٢ / ٢۔ فروع کافی ، کلينی ، ۶
٣۔ وافی ،فيض کاشانی جلد ١١ : ص ١٠١
٢٨۵ / ۴۔ وسائل الشعيہ ، شيخ حر عاملی : ١
و: جنگ خندق ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے عمامہ “ سحاب ” کو علی
عليہ السلام کے سر پر باندها:
٣۴٣ / ١۔ مجمع البيان، طبرسی ، طبع صيدا، ٧
۵٢٩ / ٢۔ بحار الانوار ،مجلسی : ۶
٢١٣ / ٣۔ مستدرک ، نوری : ١
٢٧٩ لفظ “عم ” ميں / ۴۔ سفينة البحار ، قمی ، ٢
ز: کبهی علی عليہ السلام عمامہ “ سحاب” کو سر پر رکهتے تهے اور رسول خدا صلی الله
عليہ و آلہ وسلم فرماتے تهے، علی عليہ السلام عمامہ سحاب کے ساته تمہاری طرف آگئے۔
١۔ مکارم الاخلاق طبرسی : ٢١
١۵۵ / ٢۔ بحار الانوار ، مجلسی ، ۶
۶٠۴ لغت سحاب کے ذیل ميں / ٣۔ سفينة البحار ، قمی : ١
ح: رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ و سلم نے عمامہ ‘ ‘سحاب ” کو ایک خاص کيفيت کے
ساته علی عليہ السلام کے سر پر رکها:
١۔ کتاب “ کافی ” ، کلينی،
٢۔ کتاب وافی فيض کاشانی باب العمائم ميں
٣۔ وسائل ، حر عاملی : اباب استحباب التعمم
۶١۵ / ۴۔ بحارا لانوار ، مجلسی : ٩
٢٧٩ / ۵۔ سفينة البحار، قمی : ٢
ط: رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے عمامہ “ سحاب ” سے کئی بار علی عليہ
السلام کی تاج پوشی کی ہے:
١۔ امان الاخطار ، علی بن طاؤس
٢۔ وسائل ، شيخ حر عاملی، باب التعلم
ی : رسول اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے عمامہ “ سحاب ” کو اپنے مرض الموت ميں علی
عليہ السلام کوہبہ کيا:
٢٣۶ / ١۔ کافی ، کلينی ، ١
٢۔ غایة المرام ، سيد ہاشم بحرانی ، ص ٨٧
٣۔ مقدمة ابن خلدون ، تيسرا اڈیشن بيروت ، ١٩٠٠ ءء ، ص ١٩٨
|