چوتهی فصل
چندافسانوں کی حقيقت
علی“ عليہ السلام” بادلوں ميں ہيں کا افسانہ۔
علی“ عليہ السلام’ بادلوں ميں ہيںنيزدوسرے افسانوں کی تحقيق۔
علی“ عليہ السلام’ بادلوں ميں ہيں کی حقيقت ۔
اس حصہ کے مآخذ۔
افسانہ علی عليہ السلام بادلوں ميں ہيں!
قالت السبئية انَّ علياً لم یمت و انہ فی السحاب
سبئيہ کہتے ہيں : علی نہيں مرے ہيں بلکہ وہ بادلوں ميں ہيں ۔
علماء ادیان و عقائد
اس کتاب کی گزشتہ بحثوں ميں ہم نے اس بے حساب نا قابل تعداد جهوٹ کی
نشاندہی کی جسے گزشتہ کئی صدیوں کے دوران علماء اور مؤرخين نے مسلمانوں ميں
پهيلانے کے سلسلے ميں کوشش کی ہے ۔ ہم نے خداکی مدد سے ان جهوٹ کے ضعيف اور
بے بنيادہونے کو واضح کيا اور اس کی حقيقت سے پردہ اڻهایا ہے جيسے : ارتداد کی جنگوں
ميں قتل عام ، فتوحات اسلامی ميں نقل ہوئے تعجب آور جهوٹ ، مسخرہ آميز خرافات ، شعر ،
معجزے ، شہروں کے نام، راوی اور دیگر مطالب اور بے بنيا د روایتوں کو اسی کتاب کی پہلی اور
دوسری جلد ميں ذکرکرکے ان پر ایک ایک کرکے بحث کی اور اس سلسلہ ميں اپنی تحقيق اور
نظریات کو محققين کی خدمت ميں پيش کيا ۔
اب ہم کتا ب کے اس حصہ ميں بهی چندایسے جهوٹ پر بحث وتحقيق کریں گے جو
عقائد ، نظریات (ملل و نحل)اور دیگر کتابوںميں “ جاء علی فی السحاب ” یعنی علی “عليہ
السلام” بادل ميں آئے کے عنوا ن سے تحقيق درج ہوئی ہے ۔ انشاء الله جو کچه اس سلسلہ
ميں لکها گيا ہے ہم اسے ضعيف اور بے بنياد ثابت کرکے اس کی حقيقت کو واضح اور روشن
کریں گے اور اسی موضوع کے ساته اس کتاب کے مباحث کو خاتمہ بخشيں گے اور اگلی فصل
ميں اس قسم کے اکاذب پر مشتمل روایتوں کو بيان کریں گے اور ان پربحث و تحقيق کو اگلی
فصلوں ميں بيان کریں گے ۔
” جاء علی فی السحاب کے بارے ميں اخبار راور روایتيں “
مسلم نيشاپوری ( وفات ٢۶١ هء ) اپنی کتاب صحيح ميں ایک روایت کے ضمن ميں نقل
کرتے ہيں : رافضی عقيدہ رکهتے ہيں کہ علی “عليہ السلام” بادلوں ميں ہيں اور کہتے ہيں کہ
ہم دنيا کی اصلاح کرنے کيلئے ظہور کرنے والے آپ کے فرزند سے اس وقت تک نہيں مليںگے
جب تک کہ خود علی ابن ابيطالب عليہ السلام آسمان اور بادلوں سے آواز نہيںدیں گے اور ہميں
ان کی نصرت کيلئے بلائيں اور ان کی رکاب ميں انقلاب بر پا کرنے کا حکم نہيں دیدیں گے“
اشعری -( وفات ٣٠١ ) اپنی کتاب المقالات ميں لکهتا ہے “ ایک گروہ کے لو گ اس پر
اعتقاد رکهتے ہيں کہ علی بادلوں کے بيچ ہےں“
ابو الحسن اشعری ( وفات ٣٣٠ هء) بهی اپنی کتاب “مقالات الاسلاميين” ميں سبئيہ کا
عقيدہ بيان کرتے ہوئے کہتا ہے اور یہ یعنی “ سبئيہ ” رعد کی آواز سنتے وقت کہتے ہيں:
السلام عليک یا امير المؤمنين
ابو الحسن ملطی ( وفات ٣٣٧ هء) کہتا ہے : سبئيوں کا دوسرا گروہ یہ عقيدہ رکهتا ہے
کہ علی عليہ السلام نہيں مرے ہيں ا وروہ بادلوں کے بيچ ميں ہيں جب بادلوں کا ایک سفيد
،شفاف اور نورانی ڻکڑا آسمان پر نمودار ہوتا ہے اور رعد و برق ایجاد کرتا ہے تو اس گروہ کے لوگ
کهڑے ہوتے ہيں اور دعا و مناجات کرتے ہيں اور کہتے ہيں کہ : وہ علی عليہ السلام تهے جنهوں
نے ہمارے سروں کے اوپر سے عبور کياہے“
بغدادی ( وفات ۴١٩ هء )اپنی کتاب “ الفرق بين الفرق ” ميں کہتا ہے : بعض “ سبئيہ ”
خيال کرتے ہيں کہ علی عليہ السلام بادلوں کے بيچ ميں ہيں اور رعد اس کی آواز اور تازیانہ ہے
اگر اس گروہ کا کوئی ایک فرد رعد کی آواز سنتا ہے تو وہ کہتا ہے السلام عليک یا امير المؤمنين
اور ایک شاعر سے نقل کيا ہے کہ اس گروہ سے دوری اختيار کرنے کے بارے ميں یہ شعر کہا
ہے:
و من قوم اذا ذکروا علياً
یردون السَّلام علی السحاب
ی عنی :ميں ا س فرقہ سے بيزاری اور دوری چاہتا ہو جو علی عليہ السلام کو یاد کرکے
بادلوں کو سلام کرتے ہيں“
ابن حزم ( وفات ۴۵۶ هء ) کتاب ‘ ‘ الفصل ” ميں کہتا ہے : سبئيہ جو عبدالله بن سبا
حميری یہودی کے پيرو ہيں ، علی عليہ السلام کے بارے ميں معتقد ہيں کہ وہ بادلوں کے
بيچ ميں ہے“
البدا و التاریخ کا مؤلف کہتا ہے: “سبئيہ” جنہيں طيارہ بهی کہتے ہيںوہ عقيدہ رکهتے
ہيں کہ وہ نہيں مریں گے ان کا مرنا اس طرح سے ہے کہ ان کی روح کا رات کی تاریکی ميں
پرواز کرنا ، اور یہ گروہ یہ بهی عقيدہ رکهتا ہے کہ علی نہيں مرے ہيں اور وہ بادلوں کے بيچ
ميں ہيں اس لئےجب یہ لوگ رعد کی آواز سنتے ہيں تو کہتے ہيں علی غضبناک ہو گئے ہيں“
اسفرائينی ( وفات ۴٧١ هء) “ سبئيہ ” کے بارے ميں کہتا ہے اور اس گروہ کے بعض
لوگ کہتے ہيں کہ علی عليہ السلام بادلوں ميں رہےں رعد ان کی آواز اور برق ان کا تازیانہ ہے
جب یہ لوگ رعد کو سنتے ہيں تو کہتے ہيں “ السلام عليک یا امير لمؤمنين ” اس کے بعد
اسفرائينی نے وہی شعرذکرکيا ہے جو پہلے بيان ہوا۔
عثمان بن عبدالله عراقی حنفی ( وفات تقریباً ۵٠٠ هء) کتاب“الفرق المتفرقہ” ميں کہتا
ہے : “سحابيہ ” ایک گروہ ہے جو یہ عقيدہ رکهتا ہے کہ علی عليہ السلام ہر بادل کے ساته
ہوتے ہيں ان کی گواہی سے عقدے بند ہوتے ہيں یہاں تک کہتا ہے : وہ اعتقاد رکهتے ہيں کہ
علی نہيں مرے ہيں ، وہ جلدی ہی واپس لوڻنے والے ہيں اور اپنے دشمنوں سے انتقام ليں گے“
سبائيہ کی تعریف ميں کہتا ہے : سبائيہ ایک گروہ ہے جو عبدالله بن سباسے منسوب
ہے وہ اعتقاد رکهتا ہے کہ علی عليہ السلام زندہ ہيں اور نہيں مرے ہيں وہ ہر بادل کے ساته
چکر لگاتے رہتے ہيں، رعد ان کی آواز ہے ، جلدی ہی واپس لوٹ کر اپنے دشمنوں سے انتقام
ليں گے“
اسی طرح عثمان حنفی نے مذکورہ کتاب ميں مذہبی فرقوں ميں فرقہ سحابيہ کا بهی
اضافہ کيا ہے ۔
شہرستانی ( وفات ۵۴٨ هء) سبئيہ اور غلو کرنے والے گروہ کے بارے ميں کہتا ہے وہ
عبدالله بن سبا کے پيرو ہيں اور خيال کرتے ہيں کہ علی زندہ ہيں اور خدا کا ایک جزء ان
ميںحلول کرگيا ہے لہذا انهيں موت نہيں آ سکتی ہے اور وہ بادلوںميں آتے ہےں رعد ان کی آواز
ہے اور برق ان کی مسکراہٹ ہے وہ مستقبل ميں زمين پر اتریں گے اور زمين کو عدل و انصاف
سے بهردےں گے جبکہ ظلم و ستم سے لبریز ہوگی ۔
سمعانی ( وفات ۵۶٢ هء) اپنی کتاب “ الانساب ” ميں سبائی کے بارے ميں وضاحت
کرتے ہوئے کہا ہے : یہ عبدالله بن سبا وہی ہے جس نے علی عليہ السلام سے کہا تم خدا ہو
یہاں تک کہ علی نے اسے مدائن جلا وطن کردیا عبدالله بن سبا کے پيرو خيال کرتے ہيں کہ
علی ( عليہ السلام) بادلوں کے بيچ ميں رہےں رعد ان کی آواز اور برق ان کا تازیانہ ہے اس لئے
شاعر کہتا ہے :
ومن قوم اذا ذکروا عليا یصلون الصلاة علی السحاب
ی عنی : ميں اس گروہ سے بيزاری اور دوری چاہتا ہوں جو علی عليہ السلام کو یاد کرتے
وقت بادلوں پر صلوات بهيجتا ہے“
ابن ابی الحدید ( وفات ۶۵۵ هء )نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ٢٧ کی تشریح ميںتفصيل
سے گفتگو کرنے کے بعد کہتا ہے: وہ کہتے ہی کہ علی عليہ السلام نہيں مرے ہيں اور آسمان
ميں رہتے ہيں رعد ان کی آواز اور برق ان کا تازیانہ ہے جب وہ رعد کی آواز سنتے ہيں تو کہتے
ہيں : السلام عليک یا امير المؤمنين۔
مقریزی ( وفات ٨۴۵ هء) “ خطط” ميں روافض کے بيان ميں کہتا ہے :“ روافض کاپانچواں
گروہ یہی سبائی ہے کہ عبد الله بن سباکا پيرو ہے ابن سبا وہی شخص ہے کہ جس نے علی
بن ابيطالب عليہ السلام کے سامنے کہا؛ تم خدا ہو اس کا اعتقاد یہ تها کہ علی عليہ السلام
قتل نہيںہوئے ہيں بلکہ زندہ ہےں اور بادلوں کے بيچ ميں رہتے ہيں ،رعد ان کی آواز اور برق ان
کاتازیانہ ہے یہ وہی ہے جو مستقبل ميں زمين پر اتریں گے ابن سبا کو خدا رسواکرے!
مقریزی نے ا ن ہی مطالب کو “ ذکر الحال فی عقائد اهل الاسلام ’ ميں بهی تکرار کيا
ہے ۔
بعد والے مؤلفين اور مصنفين نے ان کے لکهے گئے مطالب اور نوشتوں کو اپنی کتابوں
ميں نقل کيا ہے جيسے : فرید وجدی ( وفات ١٣٧٣ هء) نے دائرة المعارف ميں لفط عبدالله بن
سبا کے ضمن ميں بغدادی کے الفاظ و بيان کو کتاب “ الفرق بين الفرق ” ميں من و عن درج کيا
ہے ۔
اس طرح بستانی ( وفات ١٣٠٠ هء) اپنی دائرة المعارف ميں بعض گزشتہ مؤلفين ---جن
کا گزشتہ صفحات ميں ذکر ہو ا ہے ---کے مطالب کو نقل کرتا ہے ۔
یہ تها بعض علماء و مؤرخين کا افسانہ “ علی ابرکے بيچ ميں ہے ” کے بارے ميں یبان
انشاء الله اگلی فصل ميں آئے گااور ہم اس کی تحقيق کریں گے ۔
”علی بادلوں ميں رہےں ” کے افسانہ کی تحقيق
کانت للنبی عمامة تسمی بالسحاب عممها عليا
پيغمبر اکرم کا ایک سحاب نامی عمامہ تها اسے علی عليہ السلام کے سر پر رکها۔ علمائے
حدیث.
گزشتہ فصل ميں ہم نے داستان“ علی بادل ميں ہےں ” کے بارے ميں بعض روایتوں کو
نقل کيا ، اب ہم اس فصل ميں ان روایتوں پر بحث و تحقيق کرتے ہيں:
پہلے ہميں ان بزرگ اور نامور علماء اور مؤلفين سے پوچهنا چاہئے کہ اپنی کتابوں ميں
درج کی گئی ان ضد و نقيض روایتوں کو نقل کرتے وقت کيا انهوں نے اپنی فکر و عقل کا
استعمال نہيں کيا؟!
کيا وہ اس نکتہ کی طرف متوجہ نہيں ہيں کہ سبئيہ کے عقيدہ کے مطابق امام کائنات
کا خدا ہے جيسا کہ سعد اشعری نے نقل کياہے جرجانی و مقریزی کے نقل کے مطابق بقول
ابن سبا علی در حققيت خدا ہے ابن ابی الحدیدکے بيان کے مطابق ابن سبا خود امام سے کہتا
تها: تم خدا ہوا ور ابن سبا کے پيرو اس عقيدہ پر اصرار کرتے تهے یہاں تک خود امير المؤمنين
عليہ السلام نے ان تمام افرادکویا ان ميں سے بعض کو متعدد روایتوں کی نقل کے مطابق جلا
دیا ہے ۔
اگر امام علی عليہ السلام کے بارے ميں ابن سبا کے پيرؤں کا عقيدہ یہی تها تو وہ
کسی طرح اسے بادلوں ميںڈهونڈتے ہوئے “ السلام عليک یا امير المؤمنين ” کہہ کر درود
بهيجتے اور امير المؤمنين کہہ کر خطاب کرتے تهے ؟!
کيا ان کے عقيدہ کے مطابق علی عليہ السلام کائنات کاخدا ہے یا امير المومنين ؟! ميں
یہ سمجهنے سے قاصر ہوں کہ ان دانشوروں اور محققين نے کيوں اپنے بيان ميں موجود اس
واضح وروشن تناقض کی طرف توجہ نہيں کی ہے اور ان کذب بيانيوں کی تصدیق و تائيد کی ہے
؟! یہاں تک کہ بعض محققين نے ان عقائد کی تردید بهی کی ہے اور اس مطلب کے نص ميں
استدلال پيش کياہے کہ یہ عقيدہ بنيادی طور پر جهوٹ ہے ۔ جيسے بغدادی اپنی ‘ الفرق بين
الفرق ” ميں کہتا ہے: ہم اس عقيدہ کے طرفداروں سے کہتے ہيں کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ رعد
علی کی آواز اور برق ان کا تازیانہ ہے کيسے درست اور صحيح ہوسکتا ہے؟! جبکہ اسلام اور
علی عليہ السلام کی پيدائش سے قبل اسی رعد کی آواز کو لوگ سنتے تهے اور وہی بجلی
آسمان پر دکهائی دیتی تهی اس کے علاوہ اسلام سے پہلے والے فلاسفروں نے اپنی
کتابوںميں رعد و برق کے بارے ميں بحث کی ہے اور ان کے علل و عوامل پر اختلا ف نظر کيا ہ ے
ابن حزم اس گروہ کی تردید ميں اپنی کتاب ‘ الفصل ” ميں کہتا ہے: کاش ميں جانتا کہ
وہ ان بادلوں ميں سے کس بادل ميں ہے جبکہ بادل کے ڻکڑے زمين و آسمان کے درميان کثير
تعداد ميں موجود ہيں !! ان بزرگ علماء نے اس جهوٹ اور خرافات کو اپنی کتابوں ميں لکه کر ان
کی تائيد کی ہے۔
یہ جهوٹ اور توہمات پر مشمل افسانے کبهی صرف جعل کئے گئے ہيں اور کبهی ایک
تاریخی حقيقت ميں مسخ ،تحریف یا ناجائز تفسير کرکے وجود ميںلائے گئے ہيں ۔
|