سيف کے افسانہ ميں “ سبئيہ ” کے معنی
ان السبئيين اتباع عبدالله ابن سبا
سبئی ایک گروہ ہے جنہوں نے عبدالله بن سبا کے عقيدہ کی پيروی کی ہے .سيف بن عمر
افسانہٴ سبئيہ
لفط “ سبئيہ ” کی حالت زیاد بن ابيہ کے دور سے لے کر دوسری صدی ہجری کے اوائل
تک وہی تهی جسے ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بيان کيا ، یعنی یہ لفظ تنقيد او سرزنش کے
عنوان کے علاوہ کسی بهی دوسرے مذہبی و اعتقادی مفہوم ميں استعمال نہيں ہوتا تها اور وہ
بهی صرف کوفہ اور اسکے اطراف ميں ، یہاں تک کہ دوسری صدی ہجری کے اوائل ميں کوفہ کا
ایک باشندہ “ سيف بن عمر ، تميمی” نامی خاندان عدنان کے ایک شخص نے “ افسانہ سبئيہ
” جعل کيا اسی نے اپنے اعلی افسانہ ميں ‘ سبئيہ ” کے مفہوم اوردلالت کو قبيلہ کے نام
سے --- تحریف کرکے عبدالله بن سباکی پيرو ی کرنے والے ایک مذہبی فرقہ سے منسوب کيا -
--عبدالله بن سبا کو بهی ایک ایسے شخص کے قيافہ ميںپيش کيا ہے کہ پہلے یہودی اور اہل
یمن عثمان کی حکومت کے دوران اسلام قبول کيا ہے اور اس نے وصایت او ررجعت کاعقيدہ
ایجاد کيا ہے۔
سيف نے اپنے جعل کئے گئے اس افسانہ ميں کہا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد
نے اس افسانوی عبدالله بن سبا کی پيروی کی ہے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے
بعض خاص اصحاب جو علی ابن ابيطالب کے پيرو اور شيعہ تهے نے ، علی عليہ السلام کے
پيروکاروں کی ایک بڑی تعداد کے ساته اس کی روش اور طریقہ کا رکو اپنایا، عبدالله بن سبا کی
پيروی کرنے کی وجہ سے یہ سب لوگ “سبئيہ ” کہے جاتے ہيں ۔
سيف کے کہنے کے مطابق، عثمان کو قتل کرنے والے اور علی ابن ابيطالب عليہ
السلام کی بيعت کرنے والے بهی وہی “سبائی ” اور عبدالله بن سبا کے پيرو تهے ۔
بقول سيف یہی سبائی تهے جنہوں نے جنگ جمل ميںطرفين کے درميان انجام پانے
والی صلح کو جنگ و آتش کے شعلوں ميں بدل دیا اور علی عليہ السلام و عایشہ کے فوجيوں
کو آپس ميں ڻکرایا، ان تمام مطلب کو سيف نے اپنی کتاب“ الجمل و مسير علیّ عليہ السلام و
عائشة ” ميں ثبت و درج کيا ہے
یہ افسانہ دوسری صدی ہجری کے اوائل ميں سيف کے توسط سے جعل کيا گيا ہے
چونکہ اس افسانہ کا نقل کرنے والا تنہا سيف تها اسلئے اس نے اشاعت اور رواج پيدا نہيں کيا ،
یہاں تک کہ بزرگ مؤرخيں جيسے طبری ( وفات ٣١٠ هء) نے اس افسانہ کو سيف کی کتاب
سے نقل کرکے اپنی تاریخ ميںدرج کيا ہے تو اس کو بے مثال اشاعت اور شہرت ملی ۔
” سبئيہ ” کی تاریخ پيدائش ، شہرت اور جدید معنی:
عبدالله بن سبا اور گروہ “ سبئيہ ” کے بارے ميں سيف کے افسانہ کی شہرت اور رواج
پانے سے پہلے یہ لفط صرف قبائل سبئی پر دلالت کرتا تها جيسا کہ ہم نے اس مطلب کو
صحاح ششگانہ کے مؤلفين سے نقل کی گئی روایتوں ميںمشاہدہ کيا۔
زیاد بن ابيہ ، مختار اور ابوالعباس سفاح کے زمانے ميں یہ لفط صرف کوفہ ميں کبهی
قبائل سبئيہ --جو علی عليہ السلام کے شيعہ تهے --- سرزنش کے القا ب کے طور پر استعمال
ہوا ہے ليکن سيف کے افسانہ کو اشاعت ملنے کے بعد یہ جملہ ایک نئے مذہبی گروہ سے
منسوب ہوکر مشہور ہو اجس گروہ کا بانی عبد الله بن سبایہودی تها۔ اس تاریخ کے بعد اس لفظ
کا استعمال اپنے اصلی اور پہلے معنی جو قبائل سبائيہ سے منسوب تها اور اسکے دوسرے
معنی ميں کہ حکومت کے مخالفين کی سرزنش ميں استعمال ہوتا تها رفتہ رفتہ متروک اور
فراموش ہوا اور اسی جعلی مذہبی معنی ميں مخصوص ہو ااور اس معنی ميں شہرت پائی ١ اور
سيف نے اس حکم کو پہلے اپنے افسانہ ميں صرف ایک فرقہ کا نام رکها تها کہ علی ابن
ابيطالب عليہ السلام کی وصایت اور خلافت بلا فصل کے قائل تهے ليکن بعد ميں اپنے دوسرے
افسانوںميں جنہيں اسی جعلی
فرقہ اور گروہ کے بارے ميں گڑه ليا ہے ایک دوسرے معنی ميں تبدیل کرکے اس گروہ کيلئے
استعمال کيا ہے جو علی عليہ السلام کے بارے ميں آپ کی الوهيت اور خدائی کے قائل ہيں ۔
---------
١۔ اس تحقيق سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ‘ سبئيہ ” تين مرحلوں ميںتين مختلف معنی ميں استعمال ہوا ہے اس
اصلی معنی یمن کے ایک قبائل کا نام تها اس کا دوسر اور سياسی معنی حکومت زیاد ، ابن زیاد اور سفاح کے
دوران صرف کوفہ ميں رائج تها اور اس کا مذہبی معنی کہ ایک جدید مذہبی گروہ کا نام ہے سيف کے افسانہ کے
شائع ہونے کے بعد رائج ہوا اور اسی نا م سے مشہور ہے
اس تبدیلی او رتغيرکی تشریح
سيف بن عمرو دوسری صدی کے اوائل ميں کوفہ ميں ساکن تها اس نے اپنے افسانوں
کو اسی زمانہ ميں جعل کيا ہے اس جهوٹ اور افسانہ سازی ميں اس کا محرک درج ذیل دو
چيزی تهيں:
١۔ قبائل قحطانی یمنی سے س کا شدید تعصب کہ جو قبائل عدنانی کے مقابلہ ميں
تها اورخود بهی قبائل قحطانی سے منسوب تها۔
٢۔ زندیقی ، بے دینی اور اسلام سے عداوت رکهنے کی بنا پر تاریخ اسلام کو مشوش
اور درہم برہم کرنا۔
وضاحت :
علی ابن ابيطالب کے دوستدار او رشيعہ قبائل قحطانی یمنيوں پرمشتمل تهے ۔ یہ قبائل
بهی وہی سبئيہ ہيں کہ عدنانيوں کے مقابلے ميں قرار پائے تهے اور علی عليہ السلام کے
زمانہ سے بنی اميہ کی حکومت کے زمانہ تک ہميشہ دقت کی ظالم حکومتوں کے ساته کهلم
کهلا مخالفت کرتے تهے ۔
خاص کر خاندان اميہ کی حکومت کی ---سيف ذاتی طورپر اس حکومت کا حامی تها ---
عدنانيوں کے بالکل برعکس قبائل سبئی معتقد تهے کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم
نے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کو اپنا وصی معين فرمایا ہے یہ تهی کلی طور پر عدنانی
قبيلوں کے مقابلے ميں قحطانی یاسبائی قبيلوں کی اعتقادی خصوصيات اور سياسی موقعيت
دوسری طرف سيف بن عمر اپنے شدید خاندانی تعصب و عداوت اور زندیقی ہونے کی وجہ سے
قبائل سبئی قحطان کو لوگوں ميں منحرف خود غرض مرموز اور نادان کے طو رپر تعارف کراتا ہے
اور ایسے مسائل و موضوعات ميں ان کے عقيدہ کو بے اعتبار اور بے بنياد دکهاتا ہے ۔
سيف نے اسی مقصد کے پيش نظر عبدالله بن سبا کے افسانہ کو جعل کيا ہے اسے
صنعا کا باشندہ بتایا ہے اور کہاہے : علی عليہ السلام کی وصایت کا بانی اور سرچشمہ وہی
عبد لله بن سبا تها نہ پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم “سبئيہ ” یہ وہی گروہ ہے جو اس
عقيدہ ميں عبدالله بن سبا کی پيروی کرتے ہيں سيف نے افسانہ کو جعل کرنے کے بعد
مسلمانوں کے ذہن ميں انحراف و بدبينی ایجاد کی اوراپنے افسانہ ميں اکثر بزرگ اصحاب جو
علی عليہ السلام کے شيعہ تهے کو اپنے جعل کئے گئے تازہ مذہبی گروہ سے مربوط دکهایا اور
ابوذر ، عمار یاسر، حجر بن عدی ، صعصعہ بن صوحان عبدی ، مالک اشتر ، کميل بن زیاد ، عدی
بن حاتم ، محمد بن ابی بکر ، محمد بن ابی حذیفہ اور دیگر مشہور و معروف افراد کو اس گروہ
کے اعضاء اور سردار کے طور پر پيش کيا ہے۔
اگر خود سيف کے زمانہ ميں کوفہ ميںلفط “ سبئيہ ” کامعنی و مفہوم علی عليہ
السلام کی الوہيت اور خدائی ہوتا تو سيف ہرگز اسے نقل کرنے ميں کوتاہی نہيں کرتا اور اسے
اس صور ت ميں ضرورت ہی نہيں تهی تا کہ ایک نيا افسانہ گڑه کر علی عليہ السلام کے بارے
ميںپيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی وصيت کے موضوع ميں اپنے مد نظر افراد کی سرزنش
کرنے کيلئے سبائيوں کے عقيدہ ميں شامل کرتا ،کيونکہ علی عليہ السلام کی الوہيت کے
عقيدہ کا مسئلہ تنقيد اور سرزنش کے طورپر علی ابن ابيطالب کی خلافت و وصایت کے مسئلہ
کے مقابلے ميں بيشتر مؤثر اور کارگر ثابت ہوتا۔
یہاں پر یہ نکتہ بهی قابل ذکر ہے کہ ہم نے تيسری صدی ہجری کے اواخر تک کسی
کتاب ميں لفظ سبئيہ کے بارے ميں قبائل یمانی سے منسوب ہونے اور افسانہ عبدالله بن سبا
ميں ذکر کئے گئے معنی ----یعنی سبئيہ ایک ایساگروہ ہے جوعلی عليہ السلام کی وصایت و
خلاقت کے قائل ہيں ----کے علاوہ کوئی اور معنی نہيں پایا ۔
ليکن تيسری صدی کے اواخر او رچوتهی صدی کے اوائل کے بعدعلمائے ادیان و عقائد
کی ملل و نحل کے عنواں سے لکهی گئی کتابوں اور تاليفات ميں درج کيا گيا ہے کہ عبدالله بن
سبا اور اس کے پيرو ---جو سبئيہ کے نام سے معروف ہيں ---معتقد ہيں کہ علی عليہ السلام
قتل نہيں کئے گئے ہيں بلکہ وہ کبهی نہيں مریں گے وہ خد ارہيں ۔ اور حضرت نے عبد الله بن
سبا یا اس کے طرفداروں کو اسی عقيدہ کی وجہ سے آگ ميں جلادیا ۔
پ س جيسا کہ ملاحظہ فرمارہے ہيں سبئيہ کے مفہوم و معنی نے قبائل یمن سے تدریجاً
بعض افراد کيلئے سرزنش کے مفہوم ميں تغير دیا اور اس کے بعد ایک نئے مذہبی گروہ سے
منسوب معنی ميں تبدیل ہوا ہے کہ علی عليہ السلام کی وصایت و خلافت کے قائل ہيں پهر
ایک دوسرے مذہبی گروہ کے مفہوم ميں تبدیل ہو اکہ علی عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی
کے قائل ہيں اور اس کے بعد “ سبيئہ ” اور “ابن سبا ” کے سلسلہ ميں بہت سے افسانے پائے
گئے ہيں۔
جعل کا محرک اور ترویج کا عامل
دیکهنا چاہئے یہ تغير و تحول کيسے وجو د ميں آیا ہے ؟ یہ بے بنيا دمطالب کيوں گڑه
لئے گئے ہيں ؟ ! اور یہ مطالب مسلمانوں کی کتابو ں ميں کس طرح رواج پائے ہيں ؟!
ا ن مطالب کی وضاحت ميں ہميں کہنا چاہئے کہ : سيف بن عمر نے افسانہ ٴ “ سبئيہ ”
اور دوسرے افسانوں کو جعل کرکے یہ چاہا ہے کہ اپنے قبائل کے سرداروں اور بزرگوں ---عدنان
جوہر دور ميں صاحب اقتدارا ور حکومت تهے --خلفائے راشدین سے لے کر امویوں تک سب کی
حمایت و دفاع کرے اور انہيں ان پر کئے گئے اعتراضات سے بری الذمہ قرار دے او اس کے
مقابلے ميں تمام برائيوں اور گناہوں کو قبائل قحطان سبئی کے افراد کے سر تهونپنے اور انهيں
دبانے جو عدنانيوں اور وقت کی حکومتوں کا مخالف محاذ تشکيل دیتے تهے سيف نے اس
طریقہ سے اپنے قبيلہ عدنان او ر صاحبان اقتدار و سطوت کی توجہ اور تائيد حاصل کی ہے اور
انهيں اپنی افسانہ سازی کے ذریعہ راضی او رخوشحال کياہے اور اپنے افسانوں کے ذریعہ
صاحب اقتدار و حکومت اصحاب کو دفاع و بچاؤ کا لباس زیب تن کيا ہے اس کے علاوہ اپنے
افسانوں کو اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی طرفداری کے زیور سے مزین کيا ہے ا
س طرح اسلام کی پہلی صدی کے مشاہير اور صاحب قدرت اصحاب پر کی جانے والی تنقيد اور
اعتراضات کا دفاع کيا ہے لهذااس روش کی وجہ سے اس کے افسانے ہر زمانے ميں عام لوگوں
ميں قابل قبول پسندیدہ قرار پائے ہيں اور قدرتی طور پر عوام کی طرف سے اپنے افسانوں کے
بارے ميں طرفداری اور حمایت حاصل کرنے ميں کامياب ہوا ہے
سيف نے ا س طرح اپنے افسانوں کی ترویج کی ضمانت فراہم کی ہے اور وقت کے
گزرنے کے ساته جعليات کی اشاعت کيلئے بنيادی تحفظ حاصل کرنے ميں بهی کامياب ہوا ہے۔
یہی سبب ہے کہ سيف کی کتاب ‘ ‘ جمل ” جس ميں افسانہ عبدالله بن سبا ہے ،
شائع ہونے کے بعد ہاتهوں ہاته منتشر ہوئی اور اس کے افسانے وسيع پيمانے پر نقل ہوئے اور
قلم بهی حرکت ميں آئے اور ان افسانوں کو اس کی کتاب سے نقل کرکے دوسری کتابوں ميں
درج کيا گيا اور اس کے بعد جو کچه افسانہ “ سبئيہ ” کے بارے ميں طبری جيسے مورخين نے
اپنی تاریخ کی کتابوں ميں درج کيا تها اسی کمی وبيشی کے بغيراسی صور ت ميں باقی رہا
اور بعد والی نسلوں تک منتقل ہوا۔
افسانہٴ سبئيہ ميں تغيرات
افسانہٴ عبدالله بن سبا جس صورت ميںلوگوں کی زبانوں پر رائج اور عام ہواتها وہ ایک
عاميانہ صورت کا افسانہ تها اس نے وقت کے گزرنے کے ساته ساته رفتہ رفتہ رشد و پروورش
پائی اور اپنے لئے ایک وسيع تر ین دائرہ کا آغاز کيا او ر اس ميں کافی تبدیلياں ہوگئيں یہاں تک
کہ افسانہٴ ابن سبا دو افسانوں کی صور ت اختيار کرگيا۔
پ ہلا: وہ افسانہ ، جسے سيف نے جعل کياتهاا ور کتابوں ميںدرج ہوچکا تها۔
دوسرا: وہ افسانہ جو سيف کے افسانہ ميں تغيرات ایجاد ہونے کے بعد لوگوں کی
زبانوں پر جاری تها یہ اس زمانے سے مربوط ہے کہ ملل و نحل کے علماء نے لوگوں کے عقائد و
مذاہب کے بارے ميں کتابيں لکهنا شروع کی تهيںيہ علما ء فرقوں اور مذہبی گروہوں کی تعداد
بيان کرنے ميں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے ميں بڑی دلچسپی رکهتے تهے اپنی کتابوں
ميں جو کچه مذہبی فرقوں کے بارے ميں لکهتے تهے ان کے مآخذ وہی ہوتے تهے جو ان کے
زمانہ کے عام لوگ تصور کرتے تهے عقيدوں کے بارے ميں جو کچه یہ مصنفين لوگوں سے
سنتے تهے ان گروہوں اور فرقوں کے حالات کی تشریح ميں حقائق کی صورت ميں ا ن ہی
مطالب کو اپنی کتابوںميں درج کرتے تهے اور اس طرح مذہبی گروہوں اور عقائد اسلام ميں
تحریف و نقليات کے بارے ميں کسی قسم کی تحقيق اور تجسس کئے بغير اضافہ کرتے تهے
اس کے بعد لغت کے مؤلفين ، جيسے: ابن قتيبہ ، ابن عبدربہ پيدا ہوئے اور ادب کی مختلف
فنون اور تاریخ پر کتابيں لکهيں ۔
ان مؤلفين نے مذہبی فرقوں کے بارے ميںعام لوگوں سے جمع کرکے ملل و نحل کی
کتابوں ميں درج کی گئی روایتوں کو نقل کرکے اپنی کتابوں ميں ثبت کيا ہے اور ان کی سند و
متن کے بارے ميں کسی قسم کی کوئی تحقيق نہيں کی ہے ۔
ا ن کے بعد والے مؤلفيں ، جيسے ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ نے مذکورہ کتابوں
سے ان مطالب کوکسی تحقيق و تصدیق کے بغيراپنی کتابوں ميںنقل کيا ہے اسی سليقہ اور
روش کے مطابق بعض مؤلفين نے سبيئہ کی داستان کو لوگوں کی زبانی سنی سنائی صورت
ميں حاصل کرکے اپنی کتابوںميں درج کيا ہے اور اس طرح یہ افسانے لوگوں کی زبان سے
کتابوںميں داخل ہوئے ہيں ا ور ایک کتاب سے دوسری کتا ب ميں منتقل ہوئے ہيں اس طرح
عبدالله بن سبا کا افسانہ جو ایک افسانہ تها رفتہ رفتہ دو افسانہ بن گيا:
پہلا: سيف کا افسانہ جو اپنی پہلی حالت ميں باقی ہے ۔
دوسرا: وہ افسانہ جو عام لوگوں کی زبانوں پرتها،وقت گزرنے کے ساته نقل و انتقال کی
تکرار سے تغير پيدا کرکے نشو نما پاچکا ہے اور افسانہ عبدالله بن سبا ميں اس تغير و تحول کے
نيتجہ ميں جو تبدیلياں رونما ہوئی ہيں ا س کے پيش نظر خود عبدالله ابن سبا بهی دو
شخصيتوں کے طور پر ابهرکرسامنے آیاہے اس طرح مؤلفين کے لئے غلط فہمی اور تشویش کا
سبب بنا ہے انشاء الله ہم اگلی فصل ميں اس پر روشنی ڈاليں گے۔
عبدلله ابن سبا کون ہے ؟
ولم نجد فی کتاب نسب عبدالله بن سباٴ
ہم نے ہزاروں کتابيں چهان ليں ليکن عبدالله بن سبا کے نسب کے بارے ميں کوئی نام و نشان
نہيں پایا۔
مؤلف
ہ م نے اپنے بيان کے آغاز ميں کہاہے کہ کتاب کے اس حصہ ميں تين لفظوں کے بارے
ميں تحقيق کریں گے:
”سبئيہ” ، “ عبدالله بن سبا ’ اور “ ابن سودا“
ہ م گذستہ فصلوں ميں “ سبئيہ ” کی حقيقت اور اس کلمہ کے معنی ميں مختلف ادوار
ميں تغير و تحول اور اس کے اصلی معنی سے سياسی معنی ميں اور سياسی معنی سے
مذہبی معنی ميں اسکی تحریف سے آگاہ ہوئے اب ہم اس فصل ميں عبدالله بن سباکی
حقيقت پر تحقيق کرنا چاہتے ہيں تاکہ اس افسانوی سورما کو اچهی طرح پہچان سکيں ۔
عبدالله بن سبا کا نسب ،پہلے مرحلہ کی کتابوں ميں:
لفط “ عبدالله بن سبا” چار لفظوں : “ عبد” ، “الله” ،“ ابن ”، و “ سبا” پر مشتمل ہے ۔ یہ
چاروں لفظ عربی زبان سے مخصوص ہيں۔ یہ ایک مضبوط دليل ہے کہ یہ باپ بيڻے یعنی ‘ ‘
عبدالله ” و “سبا” دونوں عرب ہيں ۔ اس افسانہ کو جعل کرنے والا یعنی سيف بن عمر بهی
عبدالله بن سبا کو واضح طورپر اہل صنعا (یمن) ہی بتاتاہے اور تمام مؤرخين اور مولفين نے ابن
سبا کی سرگرميوں اور نشاط کا دور عثمان بن عفان اور علی ابن ابيطالب عليہ السلام کا زمانہ
معين و محدود کياہے اس کيلئے جس سرگرمی اور فعاليت کے زمانے کا ذکر کيا گيا ہے وہ پہلی
صدی ہجری کی چوتهی دہائی سے بيشتر نہيں ہے اور عبدالله ابن سباکے بارے ميں جتنے
بهی افسانے اور داستانيں ملتی ہيں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کا معروف و
مشہور شخص تها۔
ان تين تمہيدات کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ عبدالله بن سبا ایک عرب اور ایک عرب کا بيڻا
تها اورپہلی صدی ہجری کی چوتهی دہائی کے دوران حضرت عثمان اورعلی عليہ السلام کے
زمانے ميں جزیرة العرب ميں زندگی گزارتا تها اور مسلمانوں کے سياسی اور دینی مسائل ميں
نمایاں سرگرمی انجام دیتا تها، اسی لئے وہ اس زمانے کا ایک معروف و مشہور شخص تها۔
یہاں پر ایک ناقابل حل مشکل پيش آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جزیرة العرب ميں اسلام کی
پہلی صدی ميں اموی خلافت کے زمانے تک کوئی ایسا عرب مرد تاریخ ميں نہيں ملتا ہے کہ
اس کا نام ، اس کے باپ کا نام ااور رہائش کی جگہ کا نام اور اس کی سرگرمياں معلوم ہوں ،
معروف و مشہور اور لوگوں کا فکری قائد بهی ہو ، ليکن اس کے جد اور شجرہ نسب نامعلوم ہو!
کيونکہ عرب اپنے شجرہ نسب کے تحفظ ميں اتنی غير معمولی سرگرمی اور دلچسپی دکهاتے
تهے کہ ان کی یہ سرگرمی غلو اور افراط کی حد تک بره گئی تهی ، یہاں تک کہ نہ صرف
افرادکے انساب کے بارے ميںخود دسيوں کتابيں تاليف کرچکے ہيں بلکہ اپنے گهوڑوں کے انساب
کے تحفظ کے سلسلے ميں بهی خاص توجہ رکهتے تهے کہ یہاں تک بعض دانشوروں نے
گهوڑوں کے شجرہٴ نسب کے بارے ميں کتابيں لکهی ہيں جيسے : ابن کلبی ( وفات ٢٠۴ هء)
گهوڑوں کے نسب کے بارے ميں اس کی کتاب “ انساب الخيل ” موجود ہے اس وقت اسلام کے
اس زمانے کی تاریخ ،تشریح ، انساب اورتمام فنون وادب کے بارے ميں ہزاروں جلد قلمی اور
مطبوع کتابيں ہمارے اختيار ميں ہيں اور ان کتابوں ميں سے کسی ایک ميں بهی عبدالله بن سبا
کے شجرہٴ نسب کے بارے ميں کوئی نام و نشان نہيں ملتا ہے ۔
پس عبدالله بن سباکون ہے ؟ اس کے جد کا نام کيا ہے ؟ اس کے آباء و اجداد کون ہيں
ان کا شجرہ نسب کس سے ملتا ہے ؟ اور وہ کس قبيلہ اور خاندان سے تعلق رکهتا تها؟
ا تنے علماء اور دانشوروں اور مؤلفين نے عبدالله بن سبا سے متعلق افسانوں اور
داستانوں کو درج کرنے ميں نمایاں اہتمام کيا ہے ليکن کيا وجہ ہے کہ اس کے باوجود مذکورہ
موضوع کے بارے ميں انہوںنے خاموشی اختيار کی ہے اورا س کے شجرہٴ نسب کے بارے ميں
کسی قسم کا اشارہ تک نہيں کيا ہے اور نہ اس کے بارے ميں کوئی مطلب لکها ہے ؟!
ہم جو دسيوں سال سے مختلف اسلامی موضوعات کے بارے ميں مدارک و مآخذ کے
سلسلہ ميں تحقيق و تفتيش کررہے ہيں ، تا بہ حال اس سوال کا جواب کہيں نہيں پایااور عبد
الله بن سبا کا اس موضوع کے بارے ميں کہيں کوئی نام و نشان نہيں ملا ہے ۔
عبدالله بن سبا کون تها؟
ابن قتيبہ ( وفات ٢٧۶ ء ه) کی کتاب ‘ الامامة و السياسة ” ميں آیا ہے:
فقام حجر بن عدی و عمر بن الحمق الخزاعی و عبدالله بن وهب الراسبی علی علیّ
فاسئلوہ عن ابی بکر و عمر ” ١
اور ثقفی -( وفات ٢٧٣ هء) اپنی کتاب “ الغارات” ميں لکهتا ہے :
---------
١۴٢ / ١۔ الامامة و السياسة ج ١
دخل عمرو بن الحمق و حبة العرنی و الحارث بن الاعور و عبدالله بن سباٴ علی امير المؤمنين بعد
ما افتتحت مصر و ہو مغموم حزین فقالوا لہ: بين لنا ما قولک فی ابی بکر و عمر ” ٢
ان دو کتابں ميں آیا ہے کہ امير المؤمنين کے چند اصحاب حضرت کے پاس گئے اور
حضرت ابوبکرو عمر کے بارے ميں سوال کيا ، کتاب الامامة و السياسة ميں ان افراد ميں عبدالله
وهب راسبی کا ذکر کيا ہے اور ثقفی کی کتاب “ غارات” ميں عبدالله بن سباکا نام ليا گيا ہے کہ
ظاہر ميں آپس ميں اختلاف رکهتے ہيں اور اس اختلاف کو بلاذری ( وفات ٢٧٩ هء) نے انساب
الاشراف ميں جعل کيا ہے اس نے داستان کو یوں نقل کيا ہے:
حجر بن عدی الکندی و عمرو بن الحمق الخزاعی و حبة بن جوین الجبلی ثم العرنی و
عبدالله بن وهب الهمدانی و هوابن سباٴ فاسئلوہ عن بی ابی بکر و عمر ” ١
بلاذری اسی داستان کو بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : اور عبدالله بن وهب وہی ابن سبا ہے
اس بنا پر عبدالله بن سبا، عبد الله بن وهب ہے ۔
سعد بن عبدالله اشعث ( وفات ٣٠٠ هء یا ٣٠١ هء) نے اپنی کتاب “ المقالات و الفرق”
ميں یہی بات بيان کی ہے جہاں پر غالی اورانتہا پسند گروہوں کے بارے ميں کہتا ہے : “ غلو
__________کرنے والوںميںپہلا گروہ جس نے افراط اور انتہا پسندی کا راستہ اختيار کيا اسے سبئيہ کہتے
ہيں وہ عبدالله بن سبا کے پيرو ہيں کہ جو عبدالله بن وهب راسبی ہے“
مزید کہتا ہے : مذکورہ غالی گروہوں ميں سے ایک “ سبيئہ ” ہے اوروہ عبدالله بن
سباکے پيرو ہيں ابن ماکولا ( وفات ۴٧۵ هء) اپنی کتاب “ الاکمال” ميں لفظ “ سبئی ” کے ضمن
ميں سبائيوں کی تعداد کے بارے ميںلکهتا ہے کہ :“سبائيوں ” ميں سے ایک عبدا لله بن وهب
سبئی ، رئيس خوارج ہے “ ذهبی ( وفات ٧۴٨ ئه اپنی کتاب “المشتبہ ” ميں لفط سبئی کے
ضمن ميں کہتا ہے : “ عبدالله بن وهب سبئی خوارج کا رئيس اور سرپرستتها “
ذہبی اپنی دوسری کتاب “ العبر” ميں جہاں پر ٣٨ هء کے حوادث بيان کرتا ہے کہتا ہے : “
اس سال علی عليہ السلام اور خوارج کے درميان جنگ نہروان چهڑ گئی اور اسی جنگ ميں
خوارج کا رئيس و سردار عبدالله بن وهب سبائی قتل ہوا ۔
ابن حجر ( وفات ٨۵٢ هء )اپنی کتاب ‘ تبصير المتنبہ ” ميں کہتا ہے : “ سبائی ایک گروہ
ہے ان ميں عبدالله بن وهب سبائی سرداراور سرپرست خوارج ہے“
---------
)٣٠٢ / ٢۔ الغارات ، ثقفی ، انتشارات انجمن آثار ملی نمبر ١١۴ ( ج ١
٢٨٣ ) طبع مؤسسہ اعلمی بيروت ١٣٩۴ ئه۔ / ١۔ انساب الاشراف ج ٢
مقریزی ( وفات ٨۴٨ ئه) اپنی کتاب “ الخطط” ميں کہتا ہے :“علی ابن ابيطالب عليہ
السلام کے زمانے ميں “ عبدالله بن وهب بن سبا” معروف بہ “ ابن السوداء سبئی ” نے بغاوت
کی اور اس عقيدہ کو وجود ميںلایا کہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے اپنے بعد علی
ابن ابيطالب عليہ السلا م کو وصی وجانشين مقرر کيا اور انهيں امامت کيلئے معين فرمایا ہے اور
پهر اس عبدالله بن سبا نے پيغمبر ا و ر علی عليہ السلام کی رجعت کا عقيدہ بهی
مسلمانوں ميں ایجاد کرکے یوں کہا: علی ابن ابيطالب عليہ السلام زندہ ہيں اور خدا کا ایک جزء
ان ميں حلول کرگيا ہے اور اسی “ ابن سبا” سے غالی ، انتہا پسند اور رافضيوں کے مختلف
گروہ وجود ميں آئے ”۔
عبدالله بن سبا وہی عبدالله بن وهب ہے:
گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے مطالب کے پيش نظر یہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر یہ
عبدالله کون ہے ؟ اس کا شجرہ نسب کہاں اور کس شخص تک پہنچتا ہے ؟ اور اس کی داستان
کيا تهی ؟
جو کچه تحقيق او ر جانچ پڑتال کے بعد ان سوالوں کے جواب ميں کہاجاسکتاہے وہ یہ
ہے کہ:
وہ عبدالله بن وهب بن راسب بن مالک بن ميدعان بن مالک بن نصر الازدبن غوث بن بنت
مالک بن زید بن کہلان بن سبا ہے ۔چونکہ اس کا نسب راسب ، ازد اور سبا تک پہنچتا ہے اسے
سبائی و ازدی و راسبی کہا جاتا ہے:
عربی زبان ميںخاندان کی طرف نسبت دینا باپ سے نسبت دینے سے مترادف ہے
کہتے ہيں : بنی ہاشم و بنی اميہ ہاشم کے بيڻے اور ا ميہ کے بيڻے یہاں پر قبيلہ کے تمام
افرادکو خاندان سے نسبت دی گئی ہےکبهی ایک نامور شخص کو خاندان سے نسبت دیتے
ہيںجيسے پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کو کہتے ہيں “ ابن ہاشم” بجائے ا سکے کہ
کہيں ابن عبدالله اور آنحضرت کو اپنے باپ سے نسبت دیتے ۔
اسی قاعدہ کے مطابق عبدالله بن وهب سبائی کو اپنے خاندان سے نسبت دیکر ابن
سبا کہا ہے علمائے نسب شناس کا مقصود ابن سبا بهی یہی ہے کہ عبدالله بن وهب کے
بارے ميںذکرکيا ہے اب ہم تحقيق کریں گے کہ یہ عبدالله بن وهب راسبی سبائی جسے ابن
سبا کہاگيا ہے کون تها ؟
یہ عبدالله سبائی “ ذی الثفنات ”یعنی گهڻے دارکا لقب پایا ہے کيونکہ کثرت سجود کی
وجہ سے اس کے ہاته اور زانو پر اونڻوں کے زانوں پر گهڻوں کے مانند گهڻے پڑگئے تهے ۔
یہ عبدالله سبائی علی ابن ابيطالب کی جنگوںميںحضرت عليہ السلام کی رکاب ميں
تها جب جنگ صفين ميں حکميت کی رودا دپيش آئی اور خوارج کے بعض افراد نے علی عليہ
السلام سے مخالفت کی اور ان کے مقابلہ ميں محاذ آرائی کی ، عبدالله بهی ان کے ساته تها
اس شخص کے دل ميں علی عليہ السلام کے خلاف اس قدر بغض و عداوت تهی کہ حضرت کو
منکر خداجانتا تها ، اور خوارج کے دوسرے افراد نے اس کے گهر ميں اجتماع کيا اور اس نے ان
ميں ایک تقریر کی اور انہيں پرہيز گاری اور ترک دنيا کی حوصلہ افزائی کی اور آخرت کيلئے
تلاش کرنے کيلئے ترغيب دیتے ہوئے کہا: بهائيوں ! جتنا جلد ممکن ہوسکے اس وادی ، سے
جہا ںظالم رہتے ہيں چلے جائيں اور دیہات اور کوہستانوں یا دوسرے شہروں ميں زندگی کریں
ان گمراہ کنندہ بدعتوں سے انکار کریں تو بہتر ہے ١ ان لوگوں نے ٣٧ هء ميں اسی عبدالله کی
بيعت کی اور اسے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے خليفہ کے طور پر اپنا قائد و سرپرست
منتخب کيا اور اس کے بعد ایک ایک کرکے چوری چهپے کوفہ سے باہر نکلے امام نے جب حالات
کو یوں پایا تو اپنے سپاہيوں کے ہمرا ہ ان کا پيچها کيا اور دریائے نہروان سے پہلے ہی ان تک
پہنچے اور ان سے جنگ کی، اس جنگ ميں عبدلله بن وهب سبائی راسبی ، ہانی بن زیاد
خصفی اور زیاد بن خصفہ کے ہاتهوں قتل کيا گيا۔
ت مام افراد جو عبدالله بن وهب کے ساته تهے قتل ہوئے صرف معدود چند افراد جن کی
تعداد دس افراد سے زیادہ نہ تهی اس معرکہ سے زندہ بچ نکلے ۔
یہ تها وہ عبدالله سبا جو عصر امام ميں تها ،صحيح تاریخ نے اس زمانے ميں اس کے
علاوہ کسی اور کو اس نام و نشان سے نہيں جاناہے اورنہہی کوئی نشان دہی کی ہے ١
آخری نتيجہ
جو کچه عبدالله بن سباکے تعارف اور شناخت ميں کہا گيا ہے جو بهی روایت حادثہ یا
داستان عبدالله کے نام سے نقل ہوئی ہے اگر اس عبدالله بن وهب سبائی سے تطبيق کرتی
ہے تو اس کے واقع اور صحيح ہونے کا امکان ہے اور اگر اسکی تاریخ اور زندگی سے تطبيق نہ
کرے تو اس قسم کی روایت اور داستان کا وجود نہيں ہے بلکہغلط اور جعلی ہے اوراس کی
حقيقت ایک افسانہٴ سے زیادہ نہيں ہوسکتی کيونکہ اس زمانے ميں عبدالله بن وهب کے علاوہ
کوئی دوسرا عبدالله بن سبا وجود نہيں رکهتا تها اور یہ عبدالله وهب سبئی بهی امام علی عليہ
السلام کی وصایت اور امامت کے عقيدہ کا بانی نہيں تها اورنہ اس کا موجد تها اور نہ علی عليہ
السلام کی الوہيت اور خدائی کا بانی تها ، بلکہ وہ صرف خوارج کا سرپرست و سردار تها جس
نے حضرت علی عليہ السلام سے جنگ کی ۔
ا س لحاظ سے نہ تو جو سيف نے اس کے بارے ميں مطالب لکهے ہيں اور مؤرخين نے
انہيں
---------
١۔ ابن حزم کہتا ہے : عبدالله بن وهب المعروف “ ذو الثفنات ” پہلا شخص تها جس نے جنگ نہروان ميں خوارج کی
باگ ڈور سنبهالی اور اسی جنگ ميں قتل ہو اجبکہ اس سے قبل نيک تابعين ميں شمار ہوتا تها ، بدانجامی سے
) خدا کی پناہ ( جمہرة الانساب ٣٨۶
١۔ وہی عبدالله ابن وه ب سبئی ہے کہ لفط “ وهب ” کے حذف کرنے اور “ سبئی ” کی یا کے الف ميں تغير پيدا
کرنے سے عبدالله بن سبا ميں تحریف ہوگيا ہے ورنہ کوئی بهی “ عبدالله بن سبا ” جيسا تاریخ و عقائد کی کتابوں
ميں وجود نہيں رکهتا ہے اس تحریف کی کيفيت اگلے صفحات ميںملاحظہ فرمائيں گے ۔
اس سے نقل کيا ہے صحيح اور درست ہے اور نہ توملل و نحل کی کتابيں لکهنے والوں نے اس
کے بارے ميں جو کچه لکها ہے کوئی بنياد اور حقيقت رکهتا ہے جی ہاں اس درميان ميں جو
بعض روایتيں اور اس عبدالله کے بارے ميں شيعہ کتابوں ميں ذکر ہوئی ہيں صحيح ہوسکتی ہيں،
جيسے یہ روایت کہ: ابن سبا نے دعا کے وقت آسمان کی طرف ہاته اڻهانے پر امير المؤمنين
عليہ السلام سے ا عتراض کيا اور اس موضوع کو روح توحيد اور یکتاپرستی کے مخالف جانا“
ایک اور دوسری روایت کہ جس ميں کہتا ہے : ابن سبا کو ---اس سے سنے گئے بيان
کے سلسلے ميں ---امام کے پاس لایا گيا حضر ت نے اس کی بات کی تائيد و تصدیق کی اور
پهر اسے آزادکردیا“
یہ تها اس کا خلاصہ جو عبدالله بن سبااور اسکے بارے ميں نقل کی گئی داستانوں کی
تحقيق اور حوادث و وقائع کے موازنہ سے حاصل ہوا ہے اب دیکهنا چاہئے کہ “ ابن السوداء ” کون
ہے اور کيا معنی رکهتا ہے ؟
ابن سودا کون ہے اور کيا معنی رکهتا ہے ؟
و لاتنابزوا بالاٴلقاب
برے القاب سے ایک دوسرے کی سرزنش نہ کرو قرآن کریم
ہم نے کہاکہ اس حصہ ميں تين الفاظ :“ سبيئہ” ،“ عبدالله بن سبا ”اور “ ابن السوداء ”
پربحث کریں گے ۔ گزشتہ دو فصلوں ميں ہم نے“‘ عبدالله بن سبا ” اور “سبئہ” پر تحقيق کی ،اب
ہم اس فصل ميں “ ابن اسودا” کے بارے ميں بحث کریں گے -۔
ل فظ “ابن سوداء” علم اور کسی خاص شخص کا نام نہيں ہے بلکہ یہ لفط سرزنش ،کے
عنوان سے لقب اورعيب جوئی کی تعبير ميںہے جس کسی کی ماں سياہ فام کنيزہوتی تهی
اسے سرزنش کے موقع پر “ ابن السوداء ”یعنی سياہ فام عورت کا بيڻا ، کہتے تهے ا ور اس
لفظ کے استعمال سے ملامت اور عيب جوئی ہوتی تهی ، چنانچہ :
ابن حبيب ( وفات ٢۴۵ هء) نے اپنی کتاب “ المحبر ” ميں (حبشی عورتوں کے بيڻے ) کے باب
ميں ۵٩ (انسڻه ) ایسے افراکا نام ذکرکيا ہے ، جن کی مائيں حبشی تهيں ، من جملہ خليفہٴ
دوم کے والد “ خطاب” کو بهی انهيں ميںشمار کيا ہے اورا س کے بارے ميں کہتا ہے: خطاب بن
نفيل کی والدہ “‘حية ” جابر بن حبيب فہمی کی کنيز تهی اور کہا گيا ہے کہ ایک دن ثابت بن
قيس شماس انصاری نے مذاق اور عيب جوئی کے طور پر عمر بن خطاب سے کہا: “ یا ابن
السوداء”یعنی اے سياہ فام عورت کے بيڻے! یہاں پر خداوند عالم نے اس آیت کو نازل فرمایا:
>ولا تلمزوا انفسکم و لا تنابزوابالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان <
آپس ميں ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ہی برے القاب سے یاد کرو اس لئے کہ ایمان کے
بعد فسقبرا نام ہے ۔
قدیم عربی لغت کی تاریخ ميں لفظ “ ابن السوداء” کا مفہوم و مدلول یہی معنی تها کہ
جو بيان ہوا ۔ خود سيف نے بهی اپنے افسانہ کے سورما یعنی عبدالله بن سبا کو “ ابن السودا ”
نام دیا ہے ، اس کامقصود بهی سرزنش اور برے القاب کے علاوہ کچه نہيں تها، مثلاً لوگوں کا
عثمان کو قتل کرنے کيلئے جانے کی روداد بيان کرتے ہوئے کہتا ہے:
عبدالله بن سبا یہودی مذہب اہل صنعا کا ایک شخص تهااس کی ماں ایک سياہ فام کنيز
تهی اس نے عثمان کے زمانہ ميں اسلام قبول کي
ب عض روایتوں ميں اسے “ عبدالله بن السوداء ” اور بعض دوسری روایتوں ميں “ ابن
السوداء” سے توصيف اور تعارف کراتا ہے ليکن زمانہ کے گزرنے کے ساته ساته اس افسانہ ميں
تغيرات پيدا ہوئے ہيں یہاں تک کہ پانچویں صدی ہجری کے اوائل کا زمانہ آپہنچا اس زمانہ تک
عبدالقاہر بغدادی ابن سبا اور ابن سوداء کو دو شخص تصور کرتا تها اور ان ميں سے ہر ایک
کيلئے خاص سرگرميوں اور تحریکوں کا ذکر کيا ہے پهر اس نے کہا ہے : “ یہ دو شخص بعض
اوقات ایک دوسرے کا تعاون بهی کرتے تهے ” جی ہاں ابن سبا کی داستان اور افسانہ نے
زمانہ گزرنے کے ساته ساته اس د رجہ نشو ونما پایا کہ اسکی شخصيت بهی دوگناہوگئی اس
کی مزید وضاحت اور گزشتہ بحثوں کی تکميل کے لئے ان بحثوں کے خلاصہ کو ہم ضروری
اضافات کے ساته اگلی فصل ميں بيان کریں گے ۔
تيسرے حصہ کے منابع و مآخذ
ا یک: سبئی کی سبا بن یشعب سے نسبت:
٢٨٢ لفظ سبٴی کے ضمن ميں ۔ / ١۔ انساب سمعانی : صفحہ : ٢
۵٣٢ ۔ / ٢۔ الاکمال ، تاليف ابن ماکولا: ۴
٣۔ تبصير المتنبہ ، ابن حجر : ٧١۵
٣٢٩- ۴۔ جمہرة انساب العرب ،ابن حزم : ص ٣٣٠
١٠ و ١۵ ۔ /٢ ، ٨٧١ ، ٧٠ ، ١٨ / ۵۔ تاریخ ابن خلدون : ١
دو: سبئی راویوں کے حالات کی تشریح
١۔ انساب سمعانی : لفظ “ سبئی ” کے ضمن ميں ۔
٢۔ الاکما ،ابن ماکولا : لفظ “ سبئی ” کے ضمن ميں ۔
١٩۴ و / ٣۔ ابوهبيرہ کی زندگی کے حالات کی تشریح : کتاب جرح و تعدیل : ٢
۴۵٨ و تفسير المتنبہ : ٧١۵ / تقریب التہذیب : ١
٢١ ، اسد الغابہ : / ۵٠ و استيعاب ، حاشيہ الاصابہ ٣ / ۴۔ شرح عمارہ ، تقریب : ٢
۵٠٨ / ۵١ ، الاصابہ : ٢ /۴
٢٠۵ / ۵۔ شرح حال حنش ، التقریب : ١
١١١ / ۶۔شرح حال سعد سبئی : الاصابہ : ١
تين:۔ : حجر اور گواہوں کی داستان کے بارے ميں زیاد کا خط
١٣١ ۔ ١٣۶ / ١۔ تاریخ طبری : ٢
۴٠٣ ۔ ۴٠۴ ۔ / ٢۔ تاریخ ابن اثير : ٣
چار:۔حجر بن عدی کے حالات کی تشریح ان کتابوں ميں ہے:
١۵١ ۔ ١۵۶ پيغمبر کے اصحابميں علی ابن ابيطالب (ع) / ١۔ طبقات ، ابن سعد ؛ ۶
کے راویوں کے بارے ميں
۴۶٨ / ٢۔ مستدرک حاکم : ٣
١٣۴ ۔ ١٣۵ شرح حال نمبر : ۵۴٨ / ٣۔ استيعاب ، طبع حيدر آباد : ١
٣٨۵ ۔ ٣٨۶ / ۴۔ اسد الغابہ : ١
٣٠۵ ۔ ٣٠٨ ،شرح حال نمبر : ٣١۴ ۔ / ۵۔ سير النبلاء ،ذہبی : ٣
٢٧۶/ ۶۔ تاریخ الاسلام ، ذہبی : ٢
۵٠ / ٧۔ تاریخ ابن اثير: ٨
٣١۵ / ٨۔ اصابہ : ١
پ انچ:۔ حجر کی بغاوت کی داستان
١١١ ۔ ١۴٩ / ١۔ تاریخ طبری: ٢
۴٠٣ ۔ ۴٠۴ / ٢۔ تاریخ ابن اثير : ٣
چه: عمرو بن حمق کے حالات
۴۴٠ ۔شرح حال نمبر : ١٩٢٣ / ١۔استيعاب : ٢
١٠٠ ۔ ١٠١ / ٢۔ اسد الغابہ : ۴
۵٢۶ ۔ شرح حال نمبر : ۵٨٣٠ / ٣۔ اصابہ : ٢
١۵ ۔ / ۴۔ طبقات ، ابن سعد: ۶
سات : دوران مختار ميں سبئيہ ، طبری ميں شبث اور سعر کی گفتگو
آڻه: سبئہ : دوران خلفائے عباسی اور سفاح کی تقریر
٢٩ ۔ ٣٠ / ١۔ طبری : ٣
٣١٢ ۔ ٣١۶ / ٢۔ ابن اثير: ۵
نو: سيف کا افسانہ
ا سی کتاب کی جلد اوں کے حصہٴپر عبدالله بن سبا کے افسانہ کاسرچشمہ
دس : عبدالله سبا وہی عبدالله بن وهب سبئی ہے ۔
١۔ مقالات اشعری : ص ٢٠
٢۔ اکمال ابن ماکولا، لفظ سبئی کے ضمن ميں
٣۔ انصاب سمعانی ،لفظ سبئی کے ضمن ميں
۴۔ المشتبہ ، ذہبی : ص ٣۴۶
١٨٣ / ۵۔ العبر ، ذہبی : ٢
۶۔ تفسير المتنبہ ، ابن حجر : ٧١۵ ۔
١٨٢ ۔ / ٧۔ خطط ، مقریری ۴
٨۔ انساب ابن حزم ميں عبدالله بن سبا کا نسب ، ص ٣٨۶
٩۔ عبدالله بن سبا کا “ ذی الثفنات ” لقب پانا:
٣٨۵ / ٣٣٨٢ ،جمہرہ ابن حزم : ٣ / طبری : ١
٩١ شرح ہال نمبر : / ١٠ ۔ عبدالله بن وهب کے سجدوں کی کثرت، اصابہ : ٣
۶٣۶١
٢٨٩ / ١١ ۔ عبدالله بن وهب کا خوارج سے تعاون کی داستان : تاریخ ابن کثير ٧
١٢ ۔ عبدالله بن وهب کی علی ابن ابيطالب عليہ السلام سے عداوت:
٢٨۶ / ٣٣٨٢ ، ابن اثير : ٣ / طبری : ١
١٣ ۔ خوارجکے در ميان عبدالله بن وهب کی خلافت کی روداد:
جمہرة الانساب ، ابن حزم / ٣٨۶ بنی ميدعان کے انساب کے بيان ميں؟
١٩١ / ١۴ ۔ عبد الله بن وهب کے قاتل: تاریخ ابن اثير، ٣
١۵ ۔ نہروان ميں خوارج کے مقتوليں کی تعداد:
٢٩١ ، اور دیگر تاریخ کی کتابوں ميں ۔ / تاریخ یعقوبی : ٢
گيارہ: عبدالله ابن سوداء کے بارے ميں مطالب
١۔ عبدالله بن سودا ایک حبشی سياہ فام عورت کا بيڻا تها:
کتاب المحبر، ابن حبيب : ص ٣٠۶
٢۔ ابن سوداء کے بارے ميں سيف کی روایات
٢٩۴٢ / ت اریخ طبری : ١
٣۔ سيف کی روایتوں ميں عبدالله ابن سودا کا نام:
٢٩۴۴ / ت اریخ طبری : ١
۴۔ سيف کی روایتوں ميں ابن سودا کانام :
،٢٩۵۴ ، ٣٨۵٨ ۔ و ١٨۵٩ ۔ ٢٩٢٢ ، و ٢٩٢٨ / ت اریخ طبری : ١
،٣١۶۵ ، ٣١۶٣ ،٣٠٢٧
|