حجر بن عدی کی گرفتاری
والله لا حرصنّ علی قطع خيط رقبة
خدا کی قسم کوشش کرتا ہوں کہ اس کی گردن کی رگ کو کاٹ دوں . زیاد بن ابيہ
جيسا کہ ہم نے گزشتہ فصل ميں کہا کہ زیاد کے ماٴمور حجر کو گرفتار نہ کرسکے اور
نااميدی کی حالت ميں واپس آئے زیا دنے روداد کو جب اس حالت ميں دیکها تو حجر کی گرفتار
کيلئے دوسری راہ اختيار کی اور وہ یہ کہ : محمد بن اشعث کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا:
اے ابو ميثاء ! حجر جہاں بهی ہو اسے تمہيں تلاش کرنا ہوگا اور اسے تلاش کرکے ميرے حوالہ
کرنا ، ورنہ خدا کی قسم تيرے تمام درختوں کو کاٹ دوں گا ، تيرے گهر کو مسمار کردوں گا اور
تجهے ڻکڑے ڻکڑے کر ڈالوں گا ۔
ابن اشعث نے کہا: امير ! مجهے مہلت چاہئے ۔ زیاد نے کہا: اس کا م کوانجام دینے
کيلئے تجهے تين دن کی مہلت دیتا ہوں اگر تين دنوں کے اندر حجر کو لا سکے تو نجات پاؤ گے
ورنہ اپنے آپ کو مردوں ميں شمار کرنا اس کے بعد حکم دیا محمد بن اشعث ---جس کا رنگ
اڑگيا تها اور حالت بگڑ گئی تهی --- کو گهسيڻتے ہوئے زندان کی طرف لے گئے ۔ حجر بن یزید
کندی نے جب محمد کو اس حالت ميں دیکها تو زیاد کے پاس آکر کہا؛ امير ! ميں محمد کيلئے
ضمانت دیتاہوں اسے آزادکردو تا کہ حجر کو تلاش کرے کيونکہ اگر اسے زندان ميں ڈالنے کے
بجائے آزاد چهوڑ دو تا کہ پورے انہماک اور لگن کے ساته اس کام کو انجام دے ۔ زیاد نے کہا: کيا
تم اس کی ضمانت دوگے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ،ز یاد نے کہا: اے ابن یزید: باوجود اس کے کہ
تم ميرے نزدیک بلند مقام و منزلت کے حامل ہو اگر محمد بن اشعث ہمارے چنگل سے فرار کر
گيا تو تجهے موت کے حوالہ کرکے نابودکردوں گا ۔
حجر بن یزید نے کہا: محمد ہر گز مجهے ضمانت ميں پهنسا کر فرار نہيں کرے گا اس
کے بعد زیاد نے محمد کو آزاد کرنے کا حکم دیا پهر زیاد نے قيس بن یزید کو اپنے پاس بلایا جو
جيل ميں تها اور اسے کہا؛ قيس ! ميں جانتا ہوں کہ حجر کے رکاب ميں تيرا جنگ کرنا خاندانی
تعصب کی بناء پر تها نہ عقيدہ اور ہم فکری کی وجہ سے ميںنے تيری اس خطا اور گناہ کو
بخش دیا اور تجهے عفو کيا کيونکہ ميں نے جنگ جمل ميں معاویہ کے رکاب ميں تيری حسن
رائے اور جانفشانی کے بارے ميں سنا ہے ليکن تجهے آزاد نہيں کروں گا جب تک کہ اپنے بهائی
عمير کو ميرے پاس حاضر نہ کرو گے۔ قيس نے جواب دیا : انشاء الله جتنا جلد ممکن ہوسکا
اسے تيرے حضورميں پيش کروں گا زیاد نے کہا: کوئی تيری ضمانت کرے تا کہ تجهے آزاد کردوں
قيس نے کہا: یہی حجر بن یزید مير اضامن ہے حجر بن یزید نے کہا: جی ہاں ، ميں قيس کی
ضمانت دیتاہو ، اس شرط پر کہ امير، ہمارے عمير کو امان دیدے اور اس کی طرف سے ان کی
جان و مال پر کوئی نقصان نہ پہنچے زیاد نے کہا: ميں نے عمير کو امان دی۔
قيس اور حجر گئے اور عمير کو زخمی بدن اور خون آلود حال ميں زیاد کے پاس لے آئے
اس نے حکم دیا کہ اس کی گردن پر ایک بهاری زنجير ڈالی دیں زنجير ڈال کرزیاد کے حکم کے
مطابق بعض ماٴمورین زنجير کو پکڑ کر اسے دیوار کی بلندی تک کهينچتے اورپهر زنجير کو چهوڑ
دیتے تهے کہ وہ زور سے زمين پر گرتا تها دوبارہ اسے دیوار کی بلندی تک کهينچتے تهے اور
زمين پر چهوڑتے تهے حجر بن یزید نے اعتراض کرتے ہوئے کہ؛ اے امير : کيا تم نے اسے امان
نہيں دیا ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ميںنے اس کے مال و جان کو امان دی ہے نہ اس کے بدن کو
۔ميںنہ خون بہاتا ہوں اور نہ اس کے مال سے کچه ليتا ہوں ، حجر نے کہا: وہ تو تيرے اس عمل
سے مرنے کے قرےب ہوجائے گا
اس کے بعد حاضرےن بزم ميں سے ےمنی جماعت نے اُڻه کر زیاد سے گفتگو کی اور
عمير کی آزادی کی درخواست کی ۔ زیاد نے کہا: اگر تم لوگ اس کی ضمانت کرو گے اوروعدہ
کرو گے کہ اگر اس نے پهر سے ہماری سياست اور حکومت کے خلافت کوئی کاروائی کی تو تم
لوگ تو خود اسے گرفتار کرکے ہمارے حوالہ کرو گے تو ميں اسے آزاد کردوں گا ۔ انہوں نے کہا:
جی ہاں ، اس تعہد و ضمانت کو قبول کرتے ہيں ۔ زیاد نے عمير کو آزاد کرنے کا حکم دیا ۔
حجر کا مخفی گاہ سے باہر آنا:
ا یک شب و روز تک ، حجر بن عدی، ربيعہ ازدی کے گهر ميں پناہ گزےن رہے اسی جگہ
پر حجر مطلع ہوئے کہ زیاد نے محمد بن اشعث سے تعہد ليا ہے کہ حجر کو اس کے حوالہ
کردے گا ورنہ اس کی ثروت پر قبضہ ، گهر کو مسمار اور خود اس کو ڻکڑے ڻکڑے کردے گاحجر
نے یہ خبر سننے کے بعد محمد بن اشعث کو پيغام بهيجا کہ تيرے بارے ميںاس ظالم اور ستم
گر کی باتوں کو ميں نے سنا ، ليکن پریشان نہ ہونا کيونکہ ميں خود تيرے پاس آجاؤں گا ليکن تم
بهی اپنے قبيلہ کے افراد کو جمع کرنا اور ان کے ہمراہ زیاد کے پاس جانا اور اس سے ميرے لئے
امان کی درخواست کرناتاکہ مجهے کسی قسم کی تکليف نہ پہنچائے اور مجهے معاویہ کے
پاس بهيج دے تا کہ ميرے بارے ميں خود وہ فيصلہ کرے ۔ جب یہ خبر محمد بن اشعث کو
پہنچی تو وہ اڻه کر حجر بن یزید، جریر بن عبد الله اور مالک اشتر کے بهتيجے عبدالله بن حارث
کے گهر گيا اور ان سب کو اپنے ساته لے کر زیاد کے پاس گيا اور اس کے ساته حجر بن عدی
کے بارے ميں گفتگو کی اور حجر کو امان دینے اور اسے معاویہ کے پاس بهيجنے کی درخواست
کی ۔ زیادنے ان کی درخواست منظور کی اور حجر ابن عدی کو امان دی ۔
ا نہوں نے بهی حجر بن عدی کو اطلاع دیدی کہ زیاد نے تيری درخواست منظورکرلی ہے
اور تجهے امان دیا ہے اب تم اپنی مخفی گاہ سے باہر آسکتے ہو،اور زیاد سے ملاقات کرسکتے
ہو حجر بن عدی بهی ربيعہ کے گهر سے باہر آگئے اور دار الامارہ ميں گئے حجر پر زیاد کی نظر
پڑتے ہی زیادنے کہا:
مرحبا ہو تم پر اے عبدالرحمان ، جنگ کے دنوں ميں جنگ و خونریزی اور صلح و آرام کے
دنوں ميں بهی جنگ و خونریزی ؟ علی اهلها تجنی براقش ١ حجر نے زیاد کے جواب ميں کہا:
ميں نے نہ اطاعت سے انکار کيا ہے اور نہ جماعت سے دوری اختيار کی ہے بلکہ ميں اپنی
سابقہ بيعت معاویہ پر قائم ہوں ۔
زیاد نے کہا: هيئات ، هيئات ، ! بعيد ہے اے حجر ! تم ایک ہاته سے تهپڑ مارتے ہو اور
دوسرے ہاته سے نوازش کرتے ہو تم چاہتے ہو کہ جب ہم تم پر کامياب ہوں تو اس وقت تجه
سے راضی ہوجائيں ! خدا کی قسم نہيں!
حجر نے کہا: کيا تم نے مجهے امان نہيں دی ہے تاکہ معاویہ کے پاس جاؤں اور جس
طرح وہ چاہے ميرے ساته برتاؤ کرے ؟
---------------
١۔کہتے ہيں ایک عرب قبيلہ کے کتے کا نام ‘ براقش” تها ، ایک رات کو اس کتے نے گهوڑوں کے چلنے کی آواز
سنی اور بهونکا ۔ان گهوڑوں پر ڈاکو سوار تهے اس کتے کی آواز پر اس قبيلہ کے گهر شناسائی کرکے اس پر شب
خون مارا اور تمام ثروت کو لے بهاگے اس روز کے بعد عربوں ميں یہ جملہ ضرب المثل بنا ہے : “ علی اهلها جنت
براقش” یہ ضرب المثل اس وقت کہتے ہيں جب کوئی خود اپنے کام پر یاقبيلہ پر ظلم کرتا ہے براقش کتے نے اپنے
ہی مالک پر ظلم کيا ۔
زیاد نے کہا: کيوں نہيں ، ميں نے ہی تجهے امان دی ہے اس کے بعد ماٴمورین کی طرف
رخ کرکے بولا : اسے زندان لے جاؤ جب حجر زندان کی طرف روانہ ہو ئے زیاد نے کہا :خدا کی
قسم اگر اسے امان نہ دیا ہوتا تو یہيں پر ا س کا سر قلم کردیتا اور خدا کی قسم آرزو رکهتا ہوں
کہ اس کا انتقام لے کر اس کی زندگی کاخاتمہ کرکے رکهدوں ۔ حجر نے بهی زندان کی طرف
جاتے ہوئے بلند آواز ميںکہا: خدایا ! تو شاہد رہنا ميں اپنی بيعت اور عہد و پيمان پر باقی ہوں
ميں نے اسے نہيں توڑا ہے اور نہ اسے توڑنے کا ارادہ رکهتا ہوں ! لوگو! سن لو!
اس وقت اس سرد ہوا ميں حجر کے سر پر صرف ایک ڻوپی تهی ، اسے دس دن کيلئے جيل
بهيج د یا گيا۔
حجر کے ساتهيوں کی گرفتاری
اس مدت کے دوران زیاد نے حجر کے ساتهيوں کو پکڑنے کے علاوہ کوئی کام نہيں کيا ۔
عمرو بن حمق اور رفاعہ بن شدا دجو حجر کے خاص ساتهی تهے نے کوفہ سے فرار کيا اور
عراق کے موصل پہنچے اور وہاں پر ایک پہاڑ کے درميان مخفی ہوگئے اور ایک جگہ کو اپنے لئے
پناہ گاہ قرار دیا ، جب علاقہ کے چودهری کو اطلاع ملی کہ دو ناشناس افراد پہاڑوں ميںایک غار
ميں مخفی ہوئے ہيں وہ ان کے بارے ميں شک ميں پڑگيا اور چند لوگوں کے ہمراہ انکی طرف
بڑها ، جب کوہ کے دامن پر پہنچے تو وہ دونوں پہاڑ کے درميان سے باہر نکلے عمر بن حمق
سن رسيدہ ہونے کی وجہ سے بہت تهک چکا تها اوراب اس ميں فرار کی ہمت باقی نہيں رہی
تهی اس لئے اس نے فرار اور مقابلہ کرنے پر ہتهيار ڈالنے کو ہی ترجيح دےا ليکن رفاعہ عمرکے
لحاظ سے جوان اور جسم کے لحاظ سے قوی اور طاقتور تها وہ گهوڑے پر سوار ہوا تا کہ عمرو
بن حمق کا دفاع کرے اور اسے گرفتار ہونے سے بچالے عمرو نے اسے کہا : رفاعہ ! تيری جنگ
اور مقابلہ کا کوئی فائدہ نہيںہے اگر ہوسکے تو اپنے آپ کو ہلاکت سے بچالو اور اپنی جان کا
تحفظ کرلو رفاعہ نے ان پر حملہ کيا اور ان کی صف کو توڑ کر بهاگنے اور اپنے آپ کو نجات دینے
ميںکامياب ہوگيا ليکن عمرو بن حمق پکڑا گيا اس سے پوچها گيا کہ تم کون ہو ؟ اس نے جواب
ميں کہا: ميںوہ ہوں ، اگر مجهے آزاد کرو گے تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر قتل کرو گے تو
تمہارے لئے گراں تمام ہوگااس نے صرف اسی جملہ پر اکتفا کيا اوراپنا تعارف کرانے سے اجتناب
کيا لہذاا سے موصل کے حاکم عبدالرحمان بن عبد الله ثقفی معروف بہ ابن ام حکم ---معاویہ
کے بهانجے ---کے پاس بهيجا عبدالرحمان نے عمرو کو پہچان ليا اس نے معاویہ کو ایک خط ميں
اس کے فرار کرنے اور پکڑے جانے کی روئداد لکهی اور اس کے بارے ميں اپنا وظےفہ درےا فت
کےا۔
معاویہ نے خط کے جواب ميں لکها : عمرو بن حمق نے اپنے اعتراف کے مطابق عثمان
کے بدن پر برچهی کے نو ضربيں لگائےں ہم اس سے تجاوز کرنانہيں چاہتے لہذا جس طرح اس
نے عثمان کے بدن پر نو ضرب لگائی ہيں اسی طرح تم بهی اس کے بدن پر برچهی سے نو
ضرب لگاوٴ۔
عبدالرحما ن نے عمرو کے بارے ميں معاویہ کے حکم پر عمل کيا پہلی یا دوسری بار جب
اس کے بدن پر برچهی کی ضرب لگائی گئی تو اس نے جان دیدی ۔
عمرو بن حمق کون ہے ؟
عمرو بن حمق رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے اصحاب ميں سے تهے صلح
حدیبيہ کے بعد آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوکر صحابی رسول
بننے کی سعادت حاصل کی ۔ آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے کثےر تعداد ميں احادیث
یاد کےں جب عمرو نے آنحضرت صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی خدمت ميں ایک گلاس پانی
پيش کيا آنحضرت نے اس کيلئے یوں دعا کی:
خدایا : اسے جوانی سے بہرہ مند فرما :اللهم امتعہ بشبابہ“
لہذا اسی ( ٨٠ )سال کی عمرميں بهی اُن کے چہرے پر جوانی کا نشاط نمایاں تها ،
حتی اس کے سر و صورت کا ایک بال بهی سفيد نہيں ہوا تها۔
وہ ان افراد ميں سے ہيں جنہوں نے عثمان کے خلاف بغاوت ميں شرکت کی عمرو بن
حمق عثمان کے مظالم سے مقابلہ کرنے کيلئے کچه لوگوں کے ساته مدینہ کی طرف روانہ
ہوئے ان چار افراد ميں سے ایک ہيں جو عثمان کے گهر ميں داخل ہوئے ۔ ١ وہ امير المؤمنين
علی عليہ السلام کے نزدیک ترین اصحاب ميں سے تهے علی عليہ السلام کی تمام جنگوں
جنگ جمل، صفين اور نہروان ميںعلی کی رکاب ميں شرکت کی ہے زیاد بن ابيہ سے ڈر کے
مارے کوفہ سے بهاگ کر موصل فرار کر گئے موصل کے حاکم نے معاویہ کے حکم سے ان کا
سر قلم کرکے معاویہ کے پاس بهيجدیا ۔
مؤرخين نے کہا ہے : اسلام ميں جو پہلا سر شہر بہ شہر لے جایا گيا عمرو بن حمق کا
کڻا ہوا سر تها ۔
جب اس کے سر کو معاویہ کے پاس لایا گيا اس نے حکم دیا اس کے سر کو اس کی
بيوی ( آمنہ بنت شرید ) جو معاویہ کے حکم سے ایک مدت سے شام کے زندان ميں تهی کے
پاس لے جائيں عمرو کے کڻے ہوئے سر کوزندان ميں اسکی بيوی کی آغوش ميں پهينک دیا
گيا آمنہ اپنے شوہر کا کڻا سر دیکه کر مضطرب اور وحشت زدہ ہوئی اس کے بعد کڻے ہوئے سر
کو آغوش ميں لے کر اپنے ہاته کو اپنے شوہر کی پيشانی پر رکها اسکے ہونڻوں کو چوما اور پهر
کہا: “ ایک طولانی مدت تک اس نے مجه سے جدا کردیا اور آج اس کا کڻا سر ميرے لئے تحفہ
کے طورپر لائے ہو آفرین ہو اس تحفہ پر
---------------
١۔ عثمان کے قتل ميں کن لوگوں نے براہ راست اقدام کيا اسکے بارے ميں مورخين ميں اختلاف ہے بعض کہتے ہيں
محمد ابن ابی بکر نے ہاته ميں لئے ہوئے نيزہ سے ضرب لگائی اور اسے قتل کيا ليکن کچه لوگ کہتے ہيں کہ
محمد بن ابوبکر اسکے گهر ميں داخل ہوئے ليکن سودان بن حمران نامی ایک شخص نے اسے قتل کيا کچه لوگ
کہتے ہيں کہ محمد بن ابی بکر عثمان کی داڑهی کو پکڑ کرکهيچاجس پر عثمان نے کہا: ایک ایسے ریش کو کهينچ
رہے ہو کہ تيرا باپ اس کا احترام کرتا تها اور تيرا باپ تيرے اس کام سے راضی نہيں ہوگا محمد نے جب عثمان کا یہ
جذباتی کلام سنا تو چهوڑ کر اس گهرکے سے باہرنکل گئے۔
مرحبا اس ہدیہ پر ١ عمرو بن حمق ۵٠ هء ميں شہيد ہوئے ٢
حجر بن عدی اور ان کے ساتهيوں کا قتل
اللّٰهم انما نستعدےک علی امتن
خداوندا ! ہم اپنی ملت سے، کوفہ شام کے بظاہر ان مسلمانوں سے تيری بارگاہ ميں شکایت
کرتے ہيں! . حجر ابن عدی
طبری کہتا ہے : زیاد بن ابيہ نے حجر ابن عدی کے ساتهيوں کو گرفتار کرنے کی
زبردست کوشش کی ان ميں سے ہراےک کسی نہ کسی طرف فرار کرتا رہا جہاں کہيں بهی
ان ميں سے کسی کو پایا گرفتار کرليتا تها ۔
صيفی کی گرفتاری
طبری کہتا ہے : قيس بن عباد شيبانی، زیاد کے پاس گيا اور کہا : ہمارے قبيلہ ميں
صيفی بن فسےل نامی خاندان ہمام کا ایک شخص ہے وہ حجر بن عدی کے ساتهيوں ميںایک
بزرگ شخصيت ، وہ تيرے شدید مخالفوں ميں سے ہے، زیاد نے ایک مامور کو بهيجا اور صيفی
کو لایا گيا زیاد نے اس سے مخاطب ہوکر کہا: اے دشمن خدا ! ابو تراب کے بارے ميںتيرا عقيدہ
کيا ہے ؟اس نے کہا: ميں ابو تراب کو نہيں جانتا ہوں زیاد نے کہا: تم اسے اچهی طرح جانتے ہو
! صيفی نے کہا: نہيں ، ميں ابو تراب کو نہيں جانتا ہوں! زیاد نے کہا: کيا تم علی ابن ابيطالب
عليہ السلام کو نہيں جانتے ہو ؟ اس نے کہا: کيوں نہيں ؟ زیاد نے کہا:وہی تو ابو تراب ہيں !
صيفی نے کہا؛ نہيں ، وہ ابو الحسن اور ابو الحسين ہيں ۔ زیاد کی پليس افسر نے صيفی کو
دهمکی دیتے ہوئے کہا: کہ امير کہتا ہے وہ ا بو تراب ہيںاور تم کہتے ہو نہيں ؟ صيفی نے کہا:
اگر امير جهوٹ کہے تو کيا مجهے بهی اس کے جهوٹ کی تائيد کرنی چاہئے اور اسکے باطل اور
بے بنياد مطالب پر گواہی دوں ؟! زیاد نے کہا: صيفی ! یہ بهی ایک دوسرا گناہ ہے ۔ حکم دیا ایک
عصا لائيں ، اس کے بعد صيفی سے مخاطب ہوکر بولا : تم علی عليہ السلام کے بارے ميں کيا
کہتے ہو؟ صيفی نے کہا: بہترین بات جو ایک بندہٴ خدا کيلئے زبان پر جاری کرسکتا ہوں وہی
علی عليہ السلام کے بارے ميں کہوں گا زیاد نے حکم دیا کہ عصا سے اس کی گردن پر اس
قدر ماریں تا کہ زمين پر گرجائے ۔ ظالموں نے ایسا ہی کيا ۔ زیاد نے کہا: اسے چهوڑ دو اس کے
بعد سوال کيا: اب بتاؤ علی عليہ السلام کے بارے ميںکيا کہتے ہو؟ صيفی نے کہا: خدا کی
قسم اگر مجهے چاقو سے ڻکڑے ڻکڑے کر دوتو علی عليہ السلام کے بارے ميں اس کے علاوہ
کچه نہيں سُن پاؤ گے ۔ زیاد نے کہا: علی پر لعنت کرو ورنہ تيرا سر قلم کردوں گا ۔ صيفی نے
---------------
١۔ غير قالية و مقلية
٢۔ ہم نے عمرو بن حمق کی زندگی کے حالات کو “ استيعاب ” ، اسد الغابہ اور اصابہ سے نقل کيا ہے ليکن اس
کے کڻے سر کو اس کی بيوی کے پاس بهيجنے کی روایت کو صرف اسد الغابہ سے نقل کيا ہے ۔
کہا: خدا کی قسم اگر ميرے سر کو تن سے جدا کردو گے تب بهی ميری زبان پر علی
عليہ السلام پر لعنت جاری نہيں ہوگی اب اگر چاہتے ہو تو ميرا سر قلم کردو کہ ميں راہ خدا
ميں خوشنود ہوں ليکن تمہارا انجام بدبختی کے سواکچه نہيں ہے زیاد نے کہا: بعد ميں اس کا
سر قلم کرنا ۔ اس کے بعد کہا: اس کو زنجيروں ميں جکڑ کر زندان بهيجدو۔
عبدالله بن خليفہ کی گرفتاری:
اسکے بعد زیاد نے بکير بن حمران احمری کو اس کے چند ساتهيوں کے ہمراہ حکم دیا
کہ عبدا لله بن خليفہ --- جو قبيلہ طی سے تها --- کو گرفتار کریں ، عبدا لله بن خليفہ وہ شخص
تها جس نے حجر بن عدی کی بغاوت ميںا س کا تعاون کيا تها ۔ بکير اور اس کے ساتهی عبدا
لله بن خليفہ کو ڈهونڈنے نکلے اور اسے عدی بن حاتم کی مسجد ميں پایا اسے وہاں سے باہر
لائے چونکہ وہ اسے زیاد کے پاس لے جانا چاہتے تهے ۔ عبدالله چونکہ ایک با عزت با وقارشخص
تهے اس لئے انهوں نے زیاد کے پاس جانے سے انکار کيا نتيجہ کے طور پر اس کے اورماٴمورین
کے درميان جهڑپ ہوئی ماٴمورین نے اس کے سر پرضرب لگائی اور لکڑی اور پتهر سے انهيں
زخمی کردیا یہاں تک کہ وہ زمين پر گرگئے ۔ اس کی بہن “ ميثاء ” نے قبيلہ طی کے افرادکی
طرف فریاد بلند کرتے ہوئے کہا: اے قبيلہٴ طی ! کيا ابن خليفہ جو تمہاری زبان ، نيزہ و سنان ہے
دشمن کے ہاته ميں دےدوگے ؟ ! جب “ ميثاء ” کی آواز بلند ہوئی ابن زیاد کا ماٴمور احمری (
غير عرب ) ڈر گيا کہ کہيں اس کی گرفتاری اس کے قبيلہ کے افراد کے مشتعل ہونے کا سبب
نہ بنے اور اس کے قبيلہ کے افراد اس کی مدد کيلئے اڻه کهڑے ہوجائيں اور اسے قتل کر ڈاليں
لہذا س نے ابن خليفہ کو اپنے حال پر چهوڑ کر فرار کرگيا ۔ قبيلہٴ طی کی چند عورتيں جمع
ہوئيں اور ابن خليفہ کو ایک گهر ميں لے گئيں احمری بهی زیاد کے پاس پہنچا اورکہا: قبيلہٴ طی
کے لوگ ميرے خلاف جمع ہوئے ہيں چونکہ ميرے ہمراہ ان سے مقابلہ کرنے کيلئے مناسب
تعداد ميںا فراد نہيں تهے اس لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔
زیاد نے کسی کو قبيلہ طی کے سردار عدی بن حاتم طائی کے پاس بهيج دیا جو
مسجد ميں تها اسے گرفتارکرکے کہا تمہيں عبدا لله ابن خليفہ کو جو ---تمہارے قبيلہ کا ہے ---
ہمارے ےہاں پيش کرنا چاہئے عدی نے کہا؛ جسے ان لوگوں نے قتل کيا ہے اسے ميں کيسے
تيرے پاس پيش کروں گا ؟ زیاد نے کہا: اسے لانا پڑے گا تا کہ یہ معلوم ہوجائے کہ وہ مرگيا ہے
یازندہ ہے عدی نے دوبارہ کہا کہ ميں نہيں جانتا ہوں وہ کہاں اور کس حالت ميں ہے ؟ زیاد نے
حکم دیا کہ عدی بن حاتم کو جيل بهيج دیاجائے عدی کی گرفتاری پر کوفہ کے لوگوں ميں بے
چينی پهيلی خاص کر قبائل “ یمنی ” قبيلہ “ مضر ” اور ربيعہ نے شدید رد عمل کا اظہار کےاان
قبائل کے سردار زیاد کے پاس آگئے اور عدی کے بارے ميں اس سےگفتگو کی اور اس کی
آزادی کا مطالبہ کيا ۔
دوسری طرف سے خود عبد الله بن خليفہ نے عدی کو پيغام بهيجا اگر چاہتے ہو تو
مخفی گاہ سے باہر آجاؤ اور ميں تيری مدد کرنے کيلے حاضر ہوں ۔
عدی نے جواب ميں کہا: خدا کی قسم اگر تم ميرے پير وں کے نيچے بهی مخفی ہوگے
تو ميں قدم نہيں اڻهاؤں گا یہاں تک کہ تيرا تحفظ کروں گا خلاصہ یہ کہ ان قبائل کے سرداروں
کی سرگرمياں کے نتيجہ ميں زیاد عدی کوآزاد کرنے پر مجبور ہوگيا اسے زندان سے بلاکر کہا:
عدی ! ميں تجهے آزاد کرتا ہوں ليکن اس شرط پر کہ عبدالله بن خليفہ کو کوفہ سے جلا وطن
کرکے طی کے پہاڑوں ميں بهيج دےا جائے۔
عدی نے اس شرط کوقبول کيا اور عبدالله کو پيغام بهيج دیا تا کہ شہر کوفہ سے چلا
جائے جب ایک مدت کے بعد زیاد کا غصہ ڻهنڈا ہوجائے گا تو ميں اس سے تيرے بارے ميں گفتگو
کروں گا اور تيری مکمل آزادی کيلئے راہ ہموار کروں گا ۔ اس پيغام کے مطابق عبدلله باہر آئے اور
پهر سے اپنی آزادی حاصل کی۔
کریم بن عفيف کی گرفتاری
کریم بن عفيف ، قبلہٴ “ خشعم ” کا وہ شخص تها جسے زیاد بن ابيہ نے حجر بن عدی
سے تعاون کے الزام ميں گرفتار کيا زیاد نے پوچها : تيرا نام کيا ہے ؟ اس نے کہا: ميں کریم بن
عفيف ہوں ۔ زیاد نے کہا؛ افسوس ہے تم پر ! تيرا اور تيرے باپ کا نام کتنا اچها ہے ؟ ليکن تيرا
عمل و کردار کتنا بدنما ہے ؟! ابن عفيف نے کہا: زیاد ابهی زےادہ وقت نہيں گزرا ہے کہ تم
پہچان لئے گئے ،یہ کہنا اس کا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے زیاد بهی اس کی طرح
علی عليہ السلام کے دوستداروں ميں تها ۔
گرفتار کئے گئے لوگوںکی تعداد
زیاد بن ابيہ نے حجر کے ساتهيوں کو ہر طرف سے پکڑ کر جيل ميں بهيج دیا یہاں تک کہ
ان کی تعداد دو ہزار افراد تک پہنچ گئی ۔ اس کے بعد --جيساکہ ہم نے پہلے بهی اشارہ کيا
ہے ---قبائل کے سرداروں اور کوفہ کے محلوں کے بزرگوں کو جمع کيا ان کے ذریعہ حجر اور ان
کے ساتهيوں کے خلاف مقدمہ اور شہادت نامہ مرتب کرکے انهيں شام روانہ کيا ، ان کے
پيچهے مزید دو افراد کو روانہ کيا کہ مجموعاً چودہ افراد ہوگئے ۔
یہ چودہ افراد “ جبانہٴ عرزم ” نامی ایک قبرستان کے نزدیک پہنچے اس قبرستان کے
نزدیک “قبيصة بن ضبيعہ ” نامی ایک گرفتار شدہ شخص کا گهر تها ۔ قبيصہ نے اپنی بيڻيوں کو
دیکها جو مکان کی چهت سے اس کو دیکه رہيں تهےں اور سرد آہيں بهرتی اور دلخراش صورت
ميں آنسو بہاتی ہوئی اسے رخصت کررہيں تهيں۔
قبيصہ نے بهی اپنے گهر اور بچوں پر ایک نظر ڈالی اور ماٴمورین سے درخواست کی کہ
اسے اجازت دیدیں تا کہ اپنی بيڻيوں کو کچه وصيت کرے جب وہ بيڻيوں کے نزدیک پہنچا تو
انتہائی گریہ و زاری کی حالت ميں ایک دوسرے سے ملے چند لمحہ رکنے کے بعد بولا: ميری
بيڻيو ! ذرا سکون ميں آجاؤ۔ جب وہ کچه دےر کےلئے سکون ميں آگئيں قبيصہ نے کہا: ميری
بيڻيو! خدا سے ڈرو اور صبر و شکيبائی کو اپنا طریقہ بنانا ميں جس راہ پر جارہا ہوں خداوند عالم
سے دو نيکيوں ميں سے ایک کی اميد رکهتا ہوں یا شہيد ہوجاؤں گا کہ ميرے لئے شہاد ت
خوشبختی ہے یا صحيح و سالم تمہارے درميان واپس آجاؤں گا بہر صورت تمہيں رزق دینے والا
اور سرپرست وہی خدا ہے جو ہميشہ زندہ ہے اور موت و زوال اس کيلئے نہيں ہے اميد رکهتا ہوں
کہ وہ تمہيں تنہا نہيں چهوڑے گا ۔
قبيصہ جب اپنی بيڻيوں سے آخری دیدار کرکے واپس آرہا تها اپنے رشتہ داروں سے ملا۔
وہ اسکے سلامتی کيلئے دعاکررہے تهے ليکن انہوںنے اس کی آزادی کيلئے کسی قسم کی
کوشش نہيں کی قبيصہ نے کہا؛ ميرے نزدیک گرفتاری کا خطرہ ہلاکت و بدبختی کے مساوی
ہے ميری قوم:مدد کرے یا نہ کرے ان کيلئے ہلاکت و بد بختی کا مشاہدہ کررہا ہوں ؟ قبيصہ ان
سے تعاون کی اميد رکهتا تها لےکن انہوں نے اس کام ميں پہلو تہی کی۔
گرفتار ہوئے افراد کی راستے ميں عبدالله بن جعفی سے ملاقات ہوئی ، عبدالله نے ان
کو دیکه کر کہا؛ کيا دس آدمی نہيں ہيں جو ميری مدد کرتے تا کہ ان چودہ افرادکو ان ظالموں
سے چهڻکارا دلاتا ؟ اس کے بعد کہا: کيا پانچ افراد بهی نہيں ہيں جو ميری مدد کرتے تا کہ ان
مظلوموں کو ان ظالموں سے نجات دلاتا ليکن کسی ایک نے بهی عبد الله کو مثبت جواب نہيں
دیا اور اس کی نصرت کيلئے نہيں اڻها اس کيلئے افسوس اور غم و اندوہ کے سوا کچه نہ رہا
تها۔
حجر او راسکے ساتهيوں کيلئے آخری حکم
ان چودہ افرادکو شہر دمشق سے بارہ ميل کی دوری پر “ مرج عذرا ” نامی ایک جگہ پر
پہنچادیا گيا اور وہيں پر انهيں جيل ميں ڈال دیا گيا ، جب زیاد کا نمائندہ دمشق ميں معاویہ سے
ملنے جارہا تها حجر بن عدی ---جو زنجيروں ميں جکڑا ہواتها --- اڻها اور بولا : یہ ہمارا پيغام بهی
معاویہ کو پہچانا کہ ہمارا خون بہانا مناسب اور جائز نہيں ہے کيونکہ معاویہ نے ہمارے ساته صلح
کی ہے ١
معاویہ سے کہدو: ہمارا خون بہانے ميںجلد بازی نہ کرے ۔ اس بارے ميں بيشتر غور و
فکر اور دقت سے کام لے جب معاویہ کی مجلس ميں ان چودہ افرادکی حالت بيان ہوئی ،حضار
ميں سے چند افراد نے کئی افراد کی شفاعت کی اور معاویہ نے ان ميں سے چه افرا د کی
آزادی کا حکم دیا اور باقی آڻه افراد کے قتل کا حکم دیا ۔
غروب کے وقت معاویہ کے ماٴمور حکم کو نافذ کرنے کيلئے “ مرج عذرا ” پہنچے ۔ حجر
کے ساتهيوں ميں سے خثعمی ماٴمورین کا مشاہدہ کررہا تها ان ميں سے ایک کو دیکها کہ ایک
آنکه سے کانا ہے خثعمی نے کہا: ميں ایسا فال دیکهتا ہوں کہ ہم ميں سے آدهے آزاد ہوں گے
اور آدهے قتل کئے جائيں گے ۔
اسيروں ميں سے ایک اور شخص سعد بن عمران نے اس حالت ميں کہا: پروردگارا !
مجهے ان لوگوں ميں قرار دینا کہ جو ان کے ہاتهوں ذليل و خوار ہونے سے نجات پائيں گے یعنی
انکے ہاتهوں شربت شہادت پلادے اس حالت ميں کہ تم مجه سے راضی ہو اس کے بعد کہا:
ایک طویل مدت سے اپنے آپ کو شہادت کيلئے پيش کرتا تها ليکن آج تک خدا نہيں چاہتا تها ۔
حجر اور اس کے ساتهيوں کی آزادی کی شرط
معاویہ کے ماٴمورین نے حجر اور اس کے ساتهيوں سے کہا: ہميں حکم دیا گيا ہے کہ
تم لوگوں کو علی
-----------------------------------
١۔ حجر کی مراد امام حسن اور اہل کوفہ کی معاویہ کے ساته صلح تهی۔
عليہ السلام سے بيزاری کا اعلان کرنے اور ان پر لعنت بهيجنے کی تجویز پيش کریں اگر اس پر
عمل کرو گے تو تمہيں آزاد کردیں گے ورنہ تم لوگوں کو قتل کر ڈاليں گے ۔
اس کے علاوہ اضافہ کياکہ امير المؤمنين ( معاویہ ) کہتا ہے آپ لوگوں کے ہم وطنوں کی
شہادت اور گواہی پر آپ لوگوں کا خون بہانا حلال و جائز ہے اس کے باوجود وہ تمہيں عفو کرنے
اور تمہيں قتل کرنے سے منصرف ہونے کيلئے آمادہ ہے اس شرط پر کہ اس شخص ( علی ابن
ابيطالب ) سے بيزاری کا اعلان کرو گے تا کہ ہم تمہيں آزاد کردیں گے ۔
انہوں نے جواب ميں کہا: خدا کی قسم ہم یہ کام ہر گز نہيں کریں گے ۔
آخری حکم کا نفاذ اور المنا ک قتل
معاویہ کے جلادوں نے جب دیکها کہ علی عليہ السلام کے عاشق ان کی محبت کو
چهوڑنے پر آمادہ نہيں ہيں اور ان کی محبت ميں صادق اور پائيدار ہيں تو ان کيلئے قبر کهودنے
کا حکم دیدیا ۔ قبریں آمادہ ہوئيں اور کفن حاضر کئے گئے۔ ان لوگوں نے وہ رات، صبح تک نماز
ووعبارت ميں گزاری جب سورج چڑها ، معاویہ کے جلادوں نے حجر اور اس کے ساتهيوں سے
مخاطب ہوکر کہا: ہم نے گزشتہ رات دیکها کہ تم لوگوں نے نمازیں طولانی رکوع و سجود
بجالائے اور صبح تک عبادت اور راز و نياز ميں مشغول رہے، بتاوٴ ہم جاننا چاہتے ہيں کہ عثمان
کے بارے ميں تم لوگوں کا عقيدہ کيا ہے ؟
انہوں نے کہا: ہمارے عقيدہ کے مطابق عثمان پہلا شخص ہے جس نے مسلمانوں پر
ظلم کا دروازہ کهولا اور باطل راہ پر چل کے بے انصافی کا مظاہرہ کياہے۔
جلادوں نے کہا: امير المؤمنين ( معاویہ ) تمہيں اچهی طرح سے جانتا تها ، اس لئے اس
نے تم لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے اس کے بعد اپنی گزشتہ بات کی تکرار کی کہ کيا
علی عليہ السلام سے بيزاری کا اعلان کرتے ہو ۔
حجر اور اس کے ساتهيوں نے جواب دیا: ہم انهيں دوست رکهتے ہيںا ور ان لوگوں سے
بيزاری کا اعلان کرتے ہيں جو علی عليہ السلام سے بيزاری کرتے ہيں، ہاں پر ماٴمور نے ان افراد
ميں سے ایک ایک کا ہاته پکڑ ليا تا کہ نهيںقتل کرےں۔ قبيصہ کے ہاته کو “ ابو شریف بدّی ” نے
پکڑليا تا کہ اسے قتل کر ڈالے قبيصہ نے کہا: اے ابو شریف ! تيرے اور ميرے قبيلہ کے درميان
کسی قسم کی سابقہ دشمنی و عداوت نہيں ہے بلکہ ان دو قبيلوں کے درمياں ہميشہ امن و
مصالحت رہی اورہم ایک دوسرے کے شر و گزند سے محفوط تهے تمہيں ميرا قاتل نہيں ہونا
چاہئے اس ذمہ داری کوکسی دوسرے کے سپرد کردوتا کہ ان دو قبيلوں ميں فتنہ پيدا نہ ہو ابو
شریف نے کہا: “ صلہ رحم تيرے نامہ اعمال ميں ثبت ہو” اس کے بعد قبيصہ کو چهوڑ کر خضری
کو پکڑ ليا اور اسے قتل کر ڈالا قبيصہ بهی ایک شخص قضاعی کے ہاتهوں قتل ہوا ۔
حجر بن عدی کا قتل یا ایک بڑا تاریخی جرم!
جب حجر بن عدی کے قتل کی باری آئی تو انهوں نے کہا: مجهے اتنی فرصت دو تا کہ
وضو کرلوں انہوں نے کہا: تم وضو کرنے ميں آزاد ہو حجر نے وضو کرنے کے بعد کہا: اجازت دو
گے کہ دو رکعت نماز پڑه لوں ؟ کيوں کہ خدا کی قسم ميں نے زندگی بهر ميں جب کبهی وضو
کيا ہے اس کے بعد ضرور دو رکعت نماز پڑهی ہے انہوں نے کہا: نماز بهی پڑه لو ۔ حجر نے دو
رکعت نماز پڑهنے کے بعد کہا: خداکی قسم ميں نے زندگی بهر ميں اس دو رکعت نماز سے
مختصر کوئی نماز نہيں پڑهی ہے اگر یہ احتمال نہ دیتا کہ تم لوگ کہنے لگو گے کہ مو ت سے
ڈر کر طولانی نماز پڑه رہاہے تو ميں اس نماز کو طولانی تر بجالاتا ۔ اسکے بعد آسمان کی طرف
رخ کرکے بولے : پروردگارا ! ميں تيری بارگاہ ميں اپنی ملت و امت وا ہل کوفہ و شام کی
شکایت کر لے آیا ہوں کہ کوفيوں نے ہمارے خلاف جهوڻی گواہی دی ہے اور شامی ہميں قتل
کررہے ہيں اس کے بعد ماٴمورین کی طرف مخاطب ہوکر کہا: تم لوگ جو ہميںا س نقطہ پر قتل
کرنا چاہتے ہو خدا کی قسم ميں پہلا مسلمان تها جس نے اس نقطہ پر قدم رکها اور ميںپہلا
مسلمان تها ( جس نے مشاہدہ کيا کہ ) اس علاقہ کے مقامی کتوں نے اس پر بهونکا اور ميں
ہی تها جس نے اس علاقہ کو تم مسلمانوں کے فائدہ ميں فتح کرکے اسے عيسائيوں کے
چنگل سے آزاد کےا تها ۔
جب “ هدبة بن فياض” معروف بہ ‘ ‘ اعور ”نيام سے کهينچی ہوئی تلوا ر ہاته ميں لئے
آگے بڑهے تو اس منظر کو دیکه کو حجر لرزا ڻهے اعور نے کہا: تم فکر کرتے ہو کہ موت سے
نہيں ڈرتے ہو ؟ اگر موت سے نجات پانا چاہتے ہو اور آزاد ہونا چاہتے ہو تو ابهی ابهی علی عليہ
السلام سے بيزاری کا اعلان کرو!
حجر نے جواب دیا کيوں ناراض نہ ہوں او رموت سے نہ ڈروں ؟ کون ہے جو موت اور تلوار
سے نہ ڈرے ؟ اس وقت ميں اپنے سامنے آمادہ قبر، کفن حاضر اورنيام سے کهينچی ہوئی تلوار
دیکه رہا ہوں اور لرز رہا ہوں ليکن خدا کی قسم ان سب ناراضگےوں اور خوف و لرزش کے باوجود
اپنی آزادی اور نجات کيلئے ہرگز ایسا کوئی لفظ زبان پر جاری نہيںکروں گا جو خدا کو غضبناک
بنادے۔
جب حجر کی بات یہاں تک پہنچی تو اعور نے اس کا سر قلم کردیا اور دوسرے ماٴمورین
ميں سے ہر ایک نے حجر کے ساتهيوں ميں سے ایک کو قتل کر ڈالا اور مقتوليں کی تعداد چه
تک پہنچ گئی ۔
حجر کے دوا ور ساتهی
عبد الرحمان بن حسان عنزی اور کریم بن عفيف خثعمی نے معاویہ کے ماٴمورین سے
درخواست کی کہ : “ ہميں معاویہ کے پاس بهيجنا تا کہ اس کے سامنے علی عليہ السلام کے
بارے ميں جو وہ چاہتے ہيں زبان سے بيان کریں۔“
ماٴمورین نے ان دوا فرادکے پيغام کو معاویہ کے پاس پہنچادیا معاویہ نے حکم دیا کہ ان
دو افراد کو ميرے پاس بهيجدو جب عبدالرحمان اور کریم بن عفيف معاویہ کے محل ميں داخل
ہوئے اور اسکے روبرو قرار پائے تو خثعمی نے کہا: معاویہ ! خدا سے ڈرو کيونکہ تم بهی اس دار
فانی سے ایک نہ ایک دن جاؤ گے اور ابدی دنيا ميں منتقل ہوجاؤ گے اور عدالت الٰہی کی
کچہری ميں ہمارا بے گناہ خون بہانے کے جرم ميں مسٴول ہوگے اور تمہار مؤاخذہ ہو گا!
معاویہ نے پوچها: خثعمی ! علی عليہ السلام کے بارے ميں تيرا عقيدہ کيا ہے ؟
خثعمی نے جواب دیا : علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميںمير اعقيدہ وہی ہے
جس کے بارے ميں تم اعتقاد رکهتے ہو۔
معاویہ نے کہا: کيا تم علی عليہ السلام کے دین و مذہب سے بيزاری کا اعلان کرتے
ہو؟ خثعمی نے خاموشی اختيار کی او راس کے جواب دینے سے اجتناب کيا یہاں پر خثعمی
کے ایک چچيرا بهائی --- جو معاویہ کا صحابی تها ---نے فرصت سے فائدہ اڻهاتے ہوئے اڻه کر
معاویہ سے درخواست کی کہ خثعمی کو قتل کرنے سے معاف کرو معاویہ نے اس کی
درخواست منظور کی اور خثعمی کو ایک مہينہ قيد ميں رکهنے کے بعد اس شرط پر اسے آزاد
کيا کہ جب تک زندہ ہے شہر کوفہ ميں قدم نہيں رکهے گا ۔
اس کے بعد معاویہ نے عبد الرحمان عنزی کی طرف رخ کرکے کہا:خبر دار اے قبيلہٴ
ربيعہ کے بهائی ! تم علی عليہ السلام کے بارے ميںکيا کہتے ہو؟
عبد الرحمان نے جواب دیا : معاویہ ! اس مطلب کو چهوڑدو ، اگر اس بارے ميں مجه سے
کچه نہ پوچهو تو تيرے فائدے ميں ہے ۔
معاویہ نے کہا: خدا کی قسم تجهے اُس وقت تک آزاد نہيں کروں گا جب تک کہ تم اس
موضوع کے بارے ميںا پنے عقيدہ کا اظہار نہيں کروگے ۔
عبدالرحمان نے جواب دیا : عثمان وہ پہلا شخص ہے جس نے مسلمانوں پر ظلم و ستم
کے دروازہ کهولا اور حق کے دروازہ ان پر بند کردےا ۔
معاویہ نے کہا: عبدالرحمان ! یہ کہہ کر تم نے اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیا ہے ۔
عبدالرحمان نے کہا؛ معاویہ! ميں نے تجهے موت کے حوالہ کردیا ہے اس کے بعد اپنی
قوم کو پکار کر کہا: کہاں ہو قبيلہٴ ربيعہ ۔
معاویہ نے حکم دیا کہ عبدالرحمان کو کوفہ ميں زیاد کے پاس لے جائيں اور زیاد کے نام
اس مضمون کا ایک خط بهی لکها : یہ شخص عنزی بد ترین شخص ہے جسے تم نے ميرے
پاس بهيجا ہے تم اسے ایسی شدید سزا دینا جس کا وہ سزاوار ہے اور اسے عبرتناک حالت
ميں قتل کردینا ۔
جب اسے کوفہ ميں داخل کيا گيا زیاد نے اسے “ قس ناطف” بهيج دیا اور وہاں پر اس کو
زندہ در گور کردیاگيا ١
طبری کہتا ہے : جب عنزی اور خثعمی کو معاویہ کے پاس لے جارہے تهے تو عنزی نے
حجر سے مخاطب ہوکر کہا: اے حجر ! خدا تجهے رحمت کرے ، کيونکہ تم مسلمانوں کے بہترین
بهائی اور اسلام کے بہترین یاور ہو۔
خثعمی نے بهی خد احافظی کے وقت حجر کو یہ جملہ کہا: حجر ! رحمت خدا سے تم
دورو محروم نہيں رہ سکتے کيونکہ تم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہم فریضہ انجام
دیا ہے ۔
--------
١۔ جو کچه ہم نے یہاں تک حجر اور اُن کے ساتهيوں کے بارے ميں درج کيا ہے، طبری سے نقل کيا ہے اور
اس کے مآخذ کو براہ راست ذکر کيا ہے ۔
ا س کے بعد حجر نے اپنی نظروں سے ان دو ساتهيوںکو رخصت کرتے ہوئے کہا؛ یہ موت
ہے جو دوستوں کو ا یک دوسرے سے جدا کرتی ہے ۔
حجر کے قتل کا دلوں پر عميق اثر
یا معاویة ! اما خشيت الله فی قتل حجر و اصحابہ ؟!
اے معاویہ ! حجر اوران کے ساتهيوںکو قتل کرنے ميں خدا سے نہيں ڈرے ؟!.عائشہ
کتاب استيعاب ميں حجر کی زندگی کے حالات پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے : “جب
عائشہ ، حجر اور اس کے ساتهيوں کے بارے ميں زیاد کی سازشوں اور ان کے خلاف مقدمہ
مرتب کرنے کے بارے ميں مطلع ہوئيں تو عبدالرحمان حارث بن هشام کے ذریعہ معاویہ کو یہ
پيغام بهيجا:
معاویہ ! حجر اور اس کے ساتهيوں کے بارے ميں خدا سے ڈرنا!
عبدالرحمان جس وقت شام پہنچا حجر اور اسکے پانچ ساتهی قتل ہوچکے تهے عائشہ
کے ایلچی ، عبدالرحمان نے معاویہ سے کہا: معاویہ ! تم نے حجرا وراس کے ساتهيوں کے کام
ميںا بوسفيان کے حلم و بردباری کوکيسے بهلادیا ؟ کيوں ان کو جيل ميں نہ رکها تا کہ اپنی
طبيعی موت سے یا طاعون جيسی کسی بيماری سے مرجاتے، معاویہ نے کہا: جب تم جيسے
لوگ ميری قوم سے دور ہوگئے ! عبدالرحمان نے کہا: خدا کی قسم اس کے بعد عرب تجهے
صبور نہيں جانيں گے ۔ معاویہ نے کہا: ميں کيا کروں ؟ زیاد نے ان کے بارے ميںشدت اورسختی
کی اور لکها کہ اگر انهيں چهوڑ دوگے تو وہ فتنہ و فساد پهيلائيں گے اور ایک بهيانک اور ناقابل
تلافی بغاوت و افتراتفری پهيلادےں گے
مزید روایت کی ہے کہ عائشہ اس بارے ميں کہتی تهيں۔
اگر کوفہ کے لوگوںميں شجاع غيرتمند اور جان نثار افرادموجود ہوتے تو معاویہ اس قسم
کی جرات نہيں کرسکتا تهاکہ حجر اور اسکے ساتهيوں کو کوفہ کے لوگوں کے سامنے گرفتار
کراکے شام ميں قتل کر ڈالے ليکن جگر خوار ماں کا بيڻا جانتاتهاکہ شجاع اور غيرت مند مرد
چلے گئے ہيں اور ان کی جگہ پرکمزوردل اور بيکار لوگ بيڻهے ہيں ۔
خداکی قسم ! حجر اور اس کے ساتهی شجاعت ، اپنے عقيدہ کے تحفظ اور
دانشمندی کے لحاظ سے عرب کے سردار تهے اس کے بعد عائشہ نے لبيد کے دو شعر پڑهے
، جن کا مضمون حسب ذیل ہے : وہ چلے گئے جن کی حمایت کے سایہ ميں زندگی آرام بخش
تهی اور ميں ایسے پسماندگان کے درميان رہی ہوں جو خارش والے بيماروں کی کهال کے مانند
ہيں ---کہ ان سے دوری اختيار کرنی چاہئے --- نہ انکا کوئی فائدہ ہے اور نہ ان سے کسی
قسم کی خير و نيکی کی اميد ہے ۔ کہنے والے کی عيب جوئی کرتے ہيں اگر چہ اس نے ناروا
بات بهی نہ کہی گئی ہو؟
طبری کہتا ہے : معاویہ سفر حج پر مدینہ ميں داخل ہوا عائشہ سے اجازت چاہی تا کہ
ان کے گهرميں آئے عائشہ نے اجازت دی ۔ جب معاویہ گهر ميں داخل ہوکر بيڻها ، عائشہ نے
کہا: معاویہ ! کيا تم خود کو امان ميںمحسوس کرتے ہو؟ ! گمان نہيںکرتے ہو ميں نے کسی کو
مامور کيا ہوگا کہ ميرے بهائی محمد ابن بی بکر کے خون کا انتقام ميں تمہيں یہيں پر قتل
کردے ؟!
معاویہ نے کہا نہيں، ہرگز ایسا نہيں کرو گی کيوںکہ ميںا یک ایسے گهر ميں داخل ہوا
ہوں کہ جوامن وامان کا گهر ہے ۔
اس کے بعد عائشہ نے کہا: معاویہ ! کيا تم حجر اور اس کے ساتهيوں کو قتل کرنے ميں
خدا سے نہيں ڈرے ؟!
معاویہ نے جواب ميں کہا: انهيں ان افراد نے قتل کيا جنہوں نے ان کے خلاف شہادت
دی ہے.
مسند احمد حنبل ميں آیا ہے کہ معاویہ نے عائشہ کے جواب ميں کہا: ایسا نہيں کریں
گی کيونکہ ميں امن و امان کے گهر ميں ہوں او رميں نے رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم
سے سنا ہے کہ فرماتے تهے : ایمان دہشت گردی کيلئے رکاوٹ ہے ۔ اس کے بعد کہا: عائشہ !
ان چيزوں کو چهوڑیں ، مجهے اپنے مطالبات پورے کرنے ميں کيسا پاتی ہيں ؟!
عائشہ : اچهے ہو ۔
معاویہ نے کہا: اس لحاظ سے مقتولين کے بارے ميں ہميں چهوڑ دےں تا کہ خدا کے
پاس ان سے ملاقات کروں ۔
استيعاب ميں کہتا ہے : ربيع بن زیاد حارثی جو ایک فاضل و جليل القدر شخصيت اور
خراسان ميںمعاویہ کا گورنر تها نے جب حجر اور اس کے ساتهيوں کے قتل ہونے کی خبر
سنائی تووہ وہيں پر بارگاہ الٰہی ميںدعا کی اور کہا: خداوندا ! اگر ربيع تيری بارگاہ ميں کسی
قسم کی خير و نيکی کا سزاوار ہے تو فوری طور پر اسے اپنے پاس بلالے اس دعاکے بعد ربيع
اس مجلس سے نہ اڻها اور وہيں پر رحمت حق سے جاملا۔
معاویہ کی موت جب نزدیک آگئی تو وہ خفيف آواز ميں اس جملہ کی تکرار کررہا تها : “
اے حجر ! ميرا مستقبل کا دن تيرے سبب سے طولانی ہوگا“
یہ تهی حجر ابن عدی اور اس کے ساتهيوں کی داستان ، اور وہ تهی اسکے سبائی
ہونے کی داستان ، انشاء الله اگلی فصلوں ميں اسسلسلے ميںبيشتر وضاحت اور دقيق تر
بحث و تحقيق کریں گے ۔
|