عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے(تيسری جلد)
 

سبا اور سبائی کے معنی ميں تحریف
ان السبئية دلت علی الانتساب الی الفرقة المذهبية بعد قرون
سبئےہ جو ایک قبيلہ کا نام تها ، کئی صدیوں کے بعد تحریف ہوکے ایک نئے افسانوی مذہب
ميں تبدیل ہوگےا ہے
. مؤلف

سبئی قبيلے
جيساکہ ہم نے گزشتہ فصل ميں اشارہ کيا کہ گہری تحقيق اورجانچ پڑتال سے معلوم
ہوتا ہے کہ لفظ “سبئی ” حقيقت ميں قحطان کے قبيلوں کاانتساب ہے کہ یہ قبيلے یمن ميں
سکونت کرتے تهے ليکن بعد ميں بعض علل و عوامل کی وجہ سے جن کی تفصيل ہم اگلے
صفحات ميں پيش کریں گے یہ لفط تحریف ہوکر ایک نئے مذہب سے منسوب ہوا اور اسی تحریف
اور نئے استعمال کے نيتجہ ميں اسلام ميں ایک نيااور افسانوی مذہب پيدا ہوا ہے کہ حقيقت
ميں اس قسم کا کوئی مذہب مسلمانوںميں وجود نہيں رکهتا تها ۔
اس سلسلہ ميں بيشتر تحقيق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تغير و تحول اور یہ تحریف اور
الفاظ کا ناجائز فائدہ ان ادوار سے مربوط ہے جس ميں سبئی قبيلے یعنی قحطانيوں نے--- جو
شيعان علی عليہ السلام کہے جائے تهے -- کوفہ ميں اجتماع کرکے جنگ جمل و صفين اور
دوسری جنگوں ميں حضرت علی عليہ السلام کی نصرت کی ،جن کے سردار حسب ذیل تهے:

١۔ عمار بن یاسر قبيلہٴ عنس سبائی سے تهے ۔

٢۔ مالک اشتر اور کميل بن زیاد اور ان کے قبيلہ کے افراد دونوںہی قبيلہٴ نخ و سبائی
سے تهے

٣۔ حجر بن عدی کندی اورا ن کے قبيلہ کے افراد اورا ن کے دوست و احباب جوان کے
ساته تهے سبائی تهے۔

۴۔ عدی بن حاتم طائی اورا ن کے قبيلہکے ا فراد سبائی تهے۔

۵۔ قيس بن سعد بن عبادہ خزرجی کہ قبائل سبائی کے خاندانوں ميں سے تهے اور
دوسرے لوگ جو قبيلہٴ خزرج سے ان کے ساته تهے سبائی تهے۔

۶۔ خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتين اور حنيف کے بيڻے سہل و عثمان سب سبائيوں ميں
سے تهے اسی طرح قبيلہ اوس کے افراد جوان کے ساته تهے سبائی تهے۔

٧۔ عبدالله بدیل ، عمرو بن حمق ، سليمان بن صرد اور انکے قبيلہ کے افراد وہ سب
خزاعی سبائی تهے ۔
جی ہاں، یہ لوگ اور ان کے قبيلوں کے دوسرے دسيوں ہزار افراد قبيلہ سبائی سے
منسوب ہيں ، یہ لوگ خاندان اميہ کے سخت مخالف تهے عثمان کے دوران سے لےکر اميوں
کی حکومت کے آخری دن تک یہ لوگ علی عليہ السلام اور ان کے خاندان کے دوستدار تهے ان
لوگوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک حضرت علی عليہ السلام اور ان کے خاندان کی
حمایت اور طرفداری کی ،اور اسی راہ ميں اپنی جان بهی نچهاور کرڈالی ۔

لفظ سبئی ميں تحریف کا آغاز
جيسا کہ ہم نے وضاحت کی کہ علی عليہ السلام کے اکثر چاہنے والے اور شيعہ،
قحطانی تهے اور یہ قحطانی “ سبا” سے منسوب تهے ۔ اسی نسب کی وجہ سے علی عليہ
السلام کے دشمن پہلے دن سے زیاد بن ابيہ کی کوفہ ميں حکومت کے زمانہ تک نسبت کو
ایک قسم کی برائی اور شرم ناک نسبت کے عنوان سے پيش کرتے تهے اور لفظ “ سبی” جو
اس نسبت کی دلالت کرتا تها سرزنش و ملامت کے وقت شيعہ علی کی جگہ پر حضرت علی
عليہ السلام تمام پيرو و شيعوں کو “ سبا” سے نسبت دیتے تهے ۔ اس طرح اس لفظ کو اپنے
اصلی معنی سے دور کرکے ایک دوسرے معنی ميں استعمال کرتے تهے ۔
مندرجہ ذیل خط ميں آپ ملاحظہ فرمائيں گے کہ زیاد بن ابيہ نے جو خط کوفہ سے
معاویہ کو لکها ہے ایسے افرادکے بارے ميں یہی لقب اورعنوان استعمال کيا ہے جو کبهی
سبئی نہيں تهے حقيقت ميں یہ پہلاموقع تها کہ لفظ“ سبئی” اپنے اصلی معنی ---جو یمن
ميںا یک قبيلہ کا نام تها ---سے تحریف ہوا اور علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے تمام
دوستداروں اور طرفداروں کيلئے استعمال ہونے لگا حقيقت ميں یہ روداد اس لفظ ميں تحریف کا
آغاز ہے ملاحظہ ہو اس خط کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
بندہٴ خدا معاویہ امير المؤمنين کے نام: اما بعد! خداوند عالم نے امير المؤمنين معاویہ پر
احسان فرمایا اورا س کے دشمنوں کو کچل کے رکه دیا اور جو اس کی مخالفت کرتے تهے
انهيں بدبخت اور مغلوب کردیا ،ان “ ترابيہ ” اور“ سبائيہ ” ميں سے چند باغی و سرکشی افراد
حجر بن عدی کی سردکردگی ميں امير المؤمنيں کی مخالف پر اتر آئے ہيں اور مسلمانوں کی
صف سے جدا ہوکر ہمارے خلاف جنگ و نبرد آزمائی کاپرچم بلند کردےا ،ليکن خداوند عالم نے
ہميں ان پر کامياب اور مسلط کردیا کوفہ کے اشراف و بزرگ اس سرزميں خير افراد اور متدین و
نيکو کار لوگ جنہوں نے ان کے فتنہ و بغاوت کو اپنی آنکهوں سے دیکها تها اور ان کی کفر آميز
باتوں کو سنا تها ، کو ميں نے بلاکر ان سے شہادت طلب کی ، انہوں نے ان کے خلاف شہادت
اور گواہی دی ۔ اب ميں اس گروہ کے افراد کو امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں بهيج
رہا ہوں شہر کے جس متدین اور قابل اعتماد گواہوں نے ان کے خلاف شہادت دی ہے ميں نے ان
کے دستخط کو اس خط کے آخر ميں ثبت کيا ہے“
ہم مشاہدہ کرتے ہيں کہ اس خط ميں زیاد نے حجر اور اُن اس کے ساتهيوں کو ترابيہ و
سبائيہ نام سے ےادکےا ہے اور ان کے ہمشہریوں سے انکے خلاف شہادت طلب کی ہے لهذا
اُن ميں سے کئی افراد نے شہادت دیکر زیاد کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کی ہے ان کی
اس شہادت کے مطابق ایک شہادت نامہ بهی مرتب کرکے معاویہ کے پاس بهيجا گيا ہے ۔

طبری کی روایت کے مطابق شہادت نامہ کا متن
طبری نے زیاد کی طرف سے ریکارڈ اور شہادت نامہ مرتب کرنے کے بارے ميں یوں ذکر
کيا ہے:
زیاد بن ابيہ نے حجر اور ان کے ساتهيوں کو زیر نظر رکها ان ميں سے بارہ افرد کو گرفتار
کرکے جيل بهيج دیا اس کے بعد قبائل کے سرداروں اور قوم کے بزرگوں کو دعوت دی اور ان سے
کہا کہ جو کچه تم لوگوں نے حجرکے بارے ميں دیکها ان دنوں کوفہ ميںاہل مدینہ کا سردار “عمر
بن حریث” تمےم اور ہمدان کے سردار “ خالد بن عرفہ” اور “قيس بن وليد بن عبد بن شمس بن
سفےرہ ”ربيعہ اور کندہ کا سردار ابو بردة ابن ابی موسی اشعری تها وہ اس کے علاوہ قبيلہٴ “
مذحج و اسد ” کا بهی سردار تها ۔
ان چار افراد نے ابن زےاد کی درخواست پر حسب ذیل شہادت دی:
” ہم شہادت دیتے ہيں کہ حجر بن عدی کئی افراد کو اپنے گرد جمع کرکے خليفہ (-
معاویہ ) کے خلاف کهلم کهلا دشنام اور بد گوی کرتا ہے لوگوں کو اس کے خلاف جنگ کرنے
کی دعوت دیتا ہے نيزدعویٰ کرتا ہے کہ خاندان ابوطالب کے علاوہ کسی ميں خلافت کی
صلاحيت نہيں ہے اس نے شہر کوفہ ميں بغاوت کرکے امير المؤمنين (معاویہ ) کے گورنر کو وہاں
سے نکال باہر کيا ہے وہ ابو تراب ( علی عليہ السلام ) کی ستائش کرتا ہے اور کهلم کهلا اس
پر درود بهيجتا ہے اور اس کے مخالفوں اور دشمنوں سے بيزاری کا اظہار کرتا ہے وہ افرادجن کو
پکڑ کر جيل بهيج دےا گےا ہے وہ سب حجر کے اکابر اصحاب ميں ہيں اور اس کے ساته ہم فکر
وہم عقيدہ ہيں“
طبری کہتا ہے:
” زیاد نے شہادت نامہ او ر گواہوں کے نام پر ایک نظر ڈال کر کہا: ميں گمان نہيں کرتا ہوںکہ یہ
شہادت نامہ مير ی مرضی کے مطابق فيصلہ کن اور مؤثر ہوگا ميں چاہتا ہوں کہ گواہوں کی تعداد
ان چار افراد سے بيشتر ہو اور اس کےمتن ميںبهی کچه تبدیلياں کی جائيں ۔
اس کے بعد طبری ایک دوسرے شہادت نامہ کو نقل کرتا ہے جسے زیاد نے خود مرتب
کرکے دستخط کرنے کيلئے گواہوں کے ہاته ميں دیا تها اس کا متن حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم
ابو بردة ابن موسیٰ ، اس مطلب کی گواہی دیتا ہے اور اپنی گواہی پر خدا کو شاہد قراردےتا ہے
کہ حجر بن عدی نے خليفہ کی اطاعت و پيروی کرنے سے انکار کيا ہے اور اس نے مسلمانوں
کی جماعت سے دوری اختيار کی ہے وہ کهلم کهلا خليفہ پر لعنت بهيجتا ہے کئی لوگوں کو
اپنے گرد جمع کرکے کهلم کهلا معاویہ کے ساته عہد شکنی اور اس کو خلافت سے معزول
کرنے کيلئے دعوت دیتا ہے اور انهيں جنگ و بغاوت پر اکساتا ہے اس طرح خداوند عالم سے ایک
بڑے کفر کا مرتکب ہوا ہے ١
زیاد نے اس شہادت نامہ کو مرتب کرنے کے بعد کہا: تم سب کو اسی طرح شہادت
دینی چاہئے خدا کی قسم ميں کوشش کروں گا کہ اس احمق( حجر ) کا سر قلم کيا جائے ۔
اس لئے چار قبيلوں کے سرداروں نے اپنی شہادت بدل دی اور ابو بردة کے شہادت نامہ
کے مانند ایک دوسر اشہادت نامہ مرتب کيا۔ اس کے بعد زیاد نے لوگوںکو دعوت دی اور حکم دیا
کہ تم لوگوں کو بهی ان چار افردکی طرح شہادت دینا چاہئےاس کے بعد طبری کہتا ہے:
زیاد نے کہا ےہاں پر : پہلے قریش کے افراد سے شہادت لو ، اور پہلے ان لوگوں کا نام
لکهنا کہ ہمارے نزدیک ( معاویہ ) عقيدہ کے لحاظ سے سالم اور خاندان اميہ کے ساته دوستی
ميں مستحکم اور معرو ف ہيں ۔ زیاد کے حکم کے مطا بق ستر افراد کی گواہی کو حجر اور اُن
کے اصحاب کے خلاف ثبت کيا گيا۔
ا س کے بعد طبری چندگواہوں کے نام ذکر کرتا ہے جوعبارت ہيں : عمر بن سعد،شمربن
ذی الجو شن،ثبث بن ربعی اورزحر بن قيس۔
طبری مزید کہتا ہے : شداد ابن منذر بن حارث معروف بہ“ابن بزیعہ ” جسے اُس کی ماں
سے نسبت دیا جاتا تها،نے بهی اس شہادت نامہ پر دستخط کی ۔تو زیاد نے کہا :کيا اس کا کو
ئی باپ نہ تهاجس کی طرف اس کی نسبت دی جاتی؟
اسے گواہوں کی فہرست سے حذف کردو انہوں نے کہا: یا امير! اس کا ایک بهائی ہے
جس کا نام حضين بن منذر ہے اور باپ سے نسبت رکهتا ہے زیاد نے کہا : شداد کو بهی اس
کے باپ سے نسبت دو اور کہو شداد بن منذر تو پهرکےوں اسے ابن بزیعہ کہتے ہو؟ یہ روداد
جب ابن بزیعہ کے کانوں تک پہنچی تو وہ ناراض ہوا اوربے ساختہ بولا : امان ہو! زنا زادہ سے
افسوس ہو! اس پر کيا اس کی ماں سميہ اس کے باپ سے زیادہ معروف نہيں تهی ؟ خدا کی
قسم اسے اپنی ماں کی شہرت اور باپ سے نامعلوم ہونے کی وجہ سے ہميشہ اس کی ماں
سے نسبت دی جاتی تهی اوروہ ابن سميہ سے معروف تها ۔

شہادت نامہ کا جهڻلانا
پ هر سے طبری کہتا ہے:
” شہادت نامہ ميں موجود ناموں اور دستخطوں ميں ایک شریح بن حارث اور دوسرا شریح بن
هانی تها ليکن ان دونوں نے اپنے دستخط کو جهڻلایا ۔ شریح بن حارث کہتا ہے : زیاد نے حجر
کے بارے ميں مجه سے سوال کيا ميں نے اسے کہا: حجر ایسا شخص ہے جودن کو روزہ رکهتا
ہے اور راتوں کو پروردگار کی عبادت ميں مشغول رہتا ہے ۔
---------
١۔ ابو موسی کے بيڻے کے یہاں پر کفر سے مراد معاویہ کی بيعت کرنے سے انکار اور معاویة کو خلافت سے
معزول کرنا ہے اس کے مانند ، حجاج کا بيان ہے جو اس نے ابن زبير کے بارے ميں اس کے قتل کے بعد اپنے خطبہ
کے ضمن ميں کہا؛ لوگو ! عبد الله بن زبير پہلے اس امت کے نيک لوگوں ميں سے تها یہاں تک کہ خلافت کا
خواہشمند ہوا اور خلافت کے عہدہ داروں سے نبرد آزما ہوا اور حرم خدا ميں کفر و الحاد کا راستہ اختيار کيا خداوند
٣٣١ ) پهر حجاج نے ابن زبيرکی ماں سے / عالم نے بهی عذاب آتش کا مزہ اسے چکها دیا ( تاریخ ابن کثير ٨
١٣۶ ) یہ بالکل / مخاطب ہوکر کہا؛ تمہار ابيڻا خانہٴ خدا ميں کفر و الحاد کا مرتکب ہو اہے ( تاریخ اسلام ذہبی ٣
واضح ہے کہ حرم الہی سے ابن زبير کے کفر و الحاد سے حجاج کا مقصد اس کی بنی اميہ کی منحوس خلافت
سے مخالفت ہے۔

ليکن ، شریح بن ہانی کہتا ہے : جب ميں نے سنا کہ حجر بن عدی کے خلاف ميرے
جعلی دستخط کئے گئے ہيں اور ميری شہادت بهی ثبت کی گئی ہے تو ميں نے اس شہادت
نامہ کو جهڻلایا اور اسے جعل کرنے والوں کی مذمت کی ،شریح بن ہانی نے معاویہ کے نام
ذاتی طور پر ایک خط بهی لکها اورا سے وائل بن حجر کے توسط سے اس کے پاس بهيجا اور
اس خط کا مضمون یہ تها:
” معاویہ ! مجهے __________اطلاع ملی ہے کہ زیاد نے حجرکے خلاف اپنے خط ميں ميرے دستخط بهی
ثبت کئے ہيں ، ليکن یہ شہادت اور دستخط جعلی ہيں ،حجر کے بارے ميں ميری صریح شہادت
یہ ہے کہ وہ نماز پڑهتا ہے امر بمعروف و نہی عن المنکرکرتا ہے ، اسکی جان و مال محترم اور
اسے قتل کرنا حرام ہے اب تم جانو چا ہے اسے قتل کرو ےا آزاد“
جب معاویہ نے شریح کے خط کو پڑها تو اس نے کہا: شریح نے اس خط کے ذریعہ اس
شہادت سے اپنے آپ کو الگ کيا ہے اس کے علاوہ ابن زیاد نے جن افراد کا نام شہادت نامہ
ميں لکها تها ان ميں سری بن وقاص حارثی بهی تها ، ليکن اس کو اس شہادت کے بارے ميں
علم نہيں تها۔

مغيرہ کے دوران حجر ابن عدی کا قيام
کان حجر من اعيان الصحابة یکثرالامر بالمعروف و النهی عن المنکر
حجر بن عدی پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے بزرگ صحابيوں ميں سے تهے وہ امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کثرت سے کرتے تهے ۔ مؤرخين
گزشتہ فصل ميں حجر اور ان کے ساتهيوں کی بات چلی ہم نے کہا کہ زیاد بن ابيہ کی
ان کے ساته گتهم گتها ہوئی ،زیاد نے انهيں گروہ کو ‘ ‘ترابيہ و سبيئہ ” کا نام دیااور ان کے خلاف
مقدمہ چلاےا ان کے خلاف کئی لوگوں سے شہادت لی اور آخرکار افسوسناک اور دلخراش
صورت ميںا نهيں قتل کرڈالا ۔
اب ہم اس فصل ميں حجر ابن عدی کا تعارف کرائيں گے کہ وہ کون ہيں؟ اور ان کے
سبئی ہونے کا سر چشمہ کہاں سے ہے؟ زیاد بن ابيہ انهيں کيوں اور کيسے سبئی بتاتا ہے ؟
حجر کون ہيں ؟
حجر بن عدی بن معاویہ ، قبائل سبا بن یشجب کے خاندان معاویة بن کندہ سے تعلق
رکهتے تهے رجال اور تشریح کی کتابوں ، جيسے : “ طبقات ابن سعد ” ، “ اسد الغابہ ” اور ‘ ‘
اصابہ ” ميں ان کے بارے ميں یوں آیا ہے : حجر اور اس کے بهائی هانی مدینہ ميں داخل ہوئے
اور پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حضور دین اسلام قبول کيا حجر نے جنگ “
قادسيہ ” ١ ميں شرکت کی اور “ مرج عذرا ” ٢ انہی کے ہاتهوں فتح ہوا۔
---------
١۔ قادسيہ مسلمانوں کی ایرانيوں کے ساته ایک جنگ ہے یہ جنگ خلافت عمر ميں سعد بن ابی وقاص کی سپہ
سالاری ميں عراق ميں واقع ہوئی ۔ ٢۔ مرج عذرا دمشق کے نزدیک ایک بڑی آبادی تهی ۔

ا بن سعد طبقات ميں کہتا ہے :
”حجر اُن لوگوں ميں سے ہيں جنهوں نے دوران جاہليت و اسلام دونوں دیکها ہے وہ ایک مؤثق
اور قابل اعتماد شخص تهے حضرت علی عليہ السلام کے علاوہ کسی اورسے حدیث نقل
نہيںکرتے تهے“
حاکم ، مستدرک ميںکہتا ہے:
”حجر ، پيغمبر اسلام کے اصحاب ميں سے ایک شائستہ صحابی تهے ، ان کا سالانہ
وظيفہ دو ہزار پانچ سو تها وہ اصحاب ميںایک عادل اور تارک دنيا شخص تهے ”۔
صاحب استيعاب کہتا ہے:
”حجر پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے اصحاب ميں سے تهے وہ ایک ایسا شخص
تها جس کی دعا بارگاہ الہی ميں قبول ہوتی تهی وہ اصحاب کے درميان “ مستجاب الدعوہ ”
کے نام سے مشہور ہوچکے تهے“
صاحب اسد الغابہ کہتا ہے :
”حجر اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے درميان معروف ، باشخصيت اور با
فضيلت اصحاب ميں سے تهے یہ جنگ صفين ميں امير المؤمنين علی عليہ السلام کی رکاب
ميں قبيلہٴ کندہ کا پرچم انہی کے ہاته ميںتها جنگ نہروان ميں بهی ميسرہ کی کمانڈ انہی
کے ہاته ميںتهی جنگ جمل ميں بهی انهوں نے شرکت کی ہے حجر، پيغمبر صلی الله عليہ و
آلہ وسلم کے بزرگ اصحاب ميں شمار ہوتے تهے ۔
اس کے بعد صاحب اسدا لغابہ اضافہ کرتا ہے:
” وہ حجر خير کے نام سے معروف و مشہور ہيں ۔
سير اعلام النبلاء ميں آیا ہے:
”حجر ، ایک انتہائی شریف اور بزرگوار شخص تهے اپنے قبيلہ ميں انتہائی بااثر اور قابل اطاعت
فردتهے امر بمعروف اور نہی عن المنکر کے موضوع کو کافی اہميت دیتے تهے اور اسے شجاعت
، شہامت اور کسی قسم کے خوف و ہراس کے بغير نافذ کرتے تهے ۔ نہی عن المنکر ميں تمام
مسلمانوں سے پيش قدم تهے علی عليہ السلام کے نيک اور جانثار شيعوں ميں شمار ہوتے
تهے جنگ صفين ميںعلی عليہ السلام کے کمانڈروں ميں سے ایک تهے اپنے زمانہ کے صالح
اور شائستہ اشخاص ميں شمار ہوتے تهے ۔
ذہبی کی ‘ تاریخ اسلام ” ميں آیا ہے:
حجر ، پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے صحابی اور “وفادت” ١ کے افتخار
سے سرفراز تهے وہ مدینہ آئے ، اپنی مرضی سے اسلام کی تعليمات کا نزدیک اور دقت سے
مشاہدہ کيا ، اپنی فکر و تشخيص سے اسے پسند کيا اور اسے رضاکارانہ طو پر قبول کيا وہ
پاک زاہد افراد ميں سے ایک تهے ہميشہ با طہارت اور با وضو رہا کرتے تهے امر بمعروف اور نہی
عن المنکر پر دوسروں سے زیادہ عمل پيرا تهے“
ابن کثير اپنی تاریخ ميں کہتا ہے:
” حجر بن عدی اسلام قبول کرنے کيلئے مدینہ ميں رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ
وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوئے۔ وہ زاہد اور پرہيز گار ترین بندگان خدا ميں سے تهے، اور براً
وبوالدتی کا مصداق اور شاہکار تهے ۔ وہ کثير الصلوٰة ا ور کثير الصوم تهے ان کا وضو کبهی باطل
نہيں ہوتا تها مگر یہ کہ وہ فوراً وضو کرتے تهے اورجب بهی وضو کرتے تهے اس کےبعد کوئی
نماز بجالاتے تهے“
ا صابہ ميں آیا ہے ؛
”حجر ، علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے اصحاب اور شيعوں ميں سے تهے، ان کا علی
عليہ السلام سے چولی دامن کا ساته تها ابوذر کی وفات کے وقت ربذہ ميں ان کے سراہنے
موجود تهے“
صاحب اصابہ نے کہا ہے:
”جس وقت حجر کو شام لے جاےا جارہاتها انهےں غسل جنابت کے لئے پانی کی
ضرورت پڑی اپنے ماٴمور سے کہا: ميرے پينے کے پانی کے کل کے حصہ کو مجهے اس وقت
دیدو تا کہطہارت کرلوں ( غسل کرلوں ) ماٴمور نے کہا: ڈرتا ہوں کل پياس سے مرجاؤ گے اور
معاویہ ہميں سرزنش کرکے سزادے گا ۔
صاحب اصابہ کا کہنا ہے : جب ماٴمور نے پانی دینے سے انکار کيا تو حجر نے بارگاہ
الہی ميں دعا کی اس کے بعد بادل کا ایک ڻکڑا سر پر نمودار ہوا اور اتنی بارش ہوئی کہ اس
سے ان کی حاجت پوری ہوگئی اس کے ساتهيوں نے جب یہ روداد دیکهی تو کہا: حجر ! تم تو “
مستجاب الدعوة’ ’ ہو ، تمهاری دعا اس طرح بارگاہ الہی ميں قبول ہوتی ہے لہذا خداوند عالم
سے دعا کرؤ تا کہ ہميں ظالموں سے نجات دے حجر نے کہا : “اَللّٰهم خر لنا” پروددگارا !جو کچه
ہمارے لئے مصلحت ہو وہی عطا کر، کيونکہ ہم تيری چاہت کے خواہاں ہيں ۔
ی ہ تهے حجر اور ان کی شخصيت نيز ان کے سبائی ہونی کی داستان

مغيرہ کے خلاف حجر کا قيام
طبری ۵١ هء کے حوادث کی پہلی فصل اور حجر اور اُن کے ساتهيوں کی روداد کی فصل
ميں یوں نقل کرتا ہے:
---------
١۔ وفادت : پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے زمانے ميں اگر کوئی شخص اسلام قبول کرنے کيلئے مدینہ ميں
داخل ہوتا تها اور اپنی مرضی و تشخيص سے اسلام کو قبول کرتا تها سے “ وفادت ” کہتے تهے ۔ پيغمبر صلی الله
عليہ و آلہ وسلم کے زمانے ميں یہ عمل ایک ممتاز اور بلند افتخار مانا جاتا تها۔

جب ۴١ ئه کے ماہ جمادی ميں معاویہ نے مغيرہ بن شعبہ کو کوفہ کے گورنر کے طور پر
انتخاب کرنا چاہا تواسے اپنے پاس بلایا اورکہا: مغيرہ ! ميں چاہتا تها بہت سے مطالب کے بارے
ميں تجهے ےاددہانی کراؤں اور متعدد وصيتيں کروں ليکن اب ان باتوں کو نظر انداز کرتا ہوں
کيونکہ تيری بصيرت اور کارکردگی پر کافی اعتماد و اطمينان رکهتا ہوں اورمجهے توقع ہے کہ
جس ميں ہماری رضا مندی ہو اور جس چيز سے ہماری حکومت ترقی کرے گی اور رعيت کے
امور کی مصلحت وابستہ ہو، اسے ہی انجام دو گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے، ليکن اس
کے باوجود ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنے پر مجبور ہوں کہ جسے ہميشہ پيش نظر رکهنا اور
اسے ميری اہم ترین وصيت سمجه کر اس کی انجام دیہی ميںکسی قسم کی غفلت اور لا
پروائی سے کام نہ لينا اور وہ یہ ہے کہ کسی وقت علی کی بد گوئی کرنے اور انهےں برا بهلا
کہنے سے دست بردار نہ ہونا اور عثمان کی تعریف و توصيف ميں کوتاہی نہ کرنا، علی کے
ماننے والوں کی عيب جوئی کرنے اور ان پراعتراض کرنے، اس کے شيعوں کی باتوں پر توجہ نہ
دینے اور عثمان کے تابعےن سے پيار و محبت سے پيش آنے نيز ان کے تقاضوں اور مطالبا ت پر
توجہ دینے کو اپنے پروگرام کا حصہ قرار دینا ۔
مغيرہ نے معاویہ کے جواب ميں کہا: ميں اپنے کام ميں تجربہ کار اور تربيت یافتہ ہوں تم
سے پہلے دوسروں کی طرف سے بهی مختلف عہدوں پر فائز رہ چکا ہوں ميں نے ان کے لئے
بهی شائستہ خدمات انجام دی ہيںاور مجموعی طور پر گذشتگان ميں سے کسی نے بهی
ميرے کام کے سلسلہ ميں ميری سرزنش اور ملامت نہيں کی ہے کيونکہ جو بهی ذمہ داری
مجه پر ڈال دی جاتی ہے اس کو انجام دینے ميں توقع سے زیادہ تلاش اور کوشش کرتا ہوں ،اب
تم بهی ميرا امتحان لوگے اور دیکه لو گے کہ ميںا س امتحان ميں پاس ہوکر ستائش اور تجليل
کا مستحق بن جاتا ہوں یا فيل ہوکر سرزنش اور ملامت کا حقدار ۔
معاویہ : جانتا ہوں تيری سر گرمی اور کارکردگی ہماری خوشنودی کا باعث ہوگی ۔
اس کے بعد طبری کہتا ہے : “ مغيرہ ، معاویہ کی طرف سے سات سال سے زیادہ
عرصہ تک گورنری کے عہدہ پر فائز رہا ۔ اس مدت ميں اس نے ریاست اور حکمرانی کی بہترین
روش کو اپنایا لوگوں کی مصلحت ، بہبودی اور آسائشکا خےال رکهتا تها، ليکن اس مدت ميں
معاویہ کے حکم کے مطابق ہر چيز سے بيشتر اس نکتہ پر خاص توجہ دیتا تها اور ہر موضوع
سے بيشتر اس ميں سعی و کوشش کرتا تها کہ علی عليہ السلام کی مذمت کرنے اور ان کی
بد گوئی کرنے ميں کوتاہی نہ کرے عثمان کے قاتلوں پرلعنت بهيجنے ميںایک لمحہ بهی غفلت
نہ کرے عثمان کيلئے دعا کرنے ميں ان کيلئے طلب رحمت و مغفرت کرنے ميں ان کی اور ان کے
دوستوں کی تعریف و تمجيد کرنے ميںکسی قسم کا بخل نہ کرے ۔ جب حجر بن عدی مغيرہ
کی علی عليہ السلام کے بارے ميں اس سخت سرزنش اور لعنت و نفرین کو سنتے تهے تو
کہتے تهے۔ خداوند عالم تجه پر لعنت اور سرزنش کرے نہ کہ علی عليہ السلام اور اُن کے ماننے
والوں پر۔
ایک دن مغيرہ تقریر کررہا تها اور شعلہ بيانی کے ساته بولتے بولتے علی عليہ السلام
اور ان کے دوستداروں کی بد گوئی کرنے لگااور عثمان کی تعریف و تمجيد ميں مصروف ہوگيا
حجر بن عدی لوگوں کے درمےان سے اڻه کر کهڑے ہوگئے اور بلند آواز ميں بولے کہ خداحکم
دیتا ہے کہ انصاف کی رعایت کرو، سچی گواہی دو ، ميں شہادت دیتا ہوکہ جس کی تم
سرزنش او ر بدگوئی کررہے ہو وہ فضيلت کا مستحق ہے اور جس کی تم تعریف و تمجيد کرتے
ہو وہ مذمت اور سرزنش کيلئے سزاوار تر ہے ۔
مغيرہ نے جب حجر کا بيان سنا تو بولا: اے حجر ! جب تک ميں تيرا فرمانروا ہوں تم
آسائش ميں ہو اے حجر افسوس ہے تم پرحاکم ---معاویہ ---کے خشم سے ڈرو ، اس کی
طاقت اور غضب سے چشم پوشی نہ کرو کيونکہ سلطان کے خشم کی آگ کبهی تم جيسے
بہت سے لوگوں کو اپنی لپيٹ ميں لے کر نگل جاتی ہے ۔
ا س طرح مغيرہ بعض اوقات حجر کو ڈراتا اوردهمکاتا تها اور سختی اور سزا کے بارے ميں
انهےں تہدید کرتا تها اور کبهی کبهی اغماض اور چشم پوشی سے پيش آتا تها یہاں تک کہ
مغيرہ کی حکمرانی کے آخری ایام آپہنچے پهر سے ایک دن مغيرہ نے اپنی تقریر کے دوران
علی عليہ السلام اور عثمان کے بارے ميں زبان کهولی اور یوں کہا؛ خداوندا! عثمان بن عفان پر
اپنی رحمت نازل کرے اور اسے بخش دے اور اس کے نيک اعمال کی بہترین جزا دے کيونکہ اس
نے تيری کتاب پر عمل کيا اور پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی سنت کی پيروی کی اور
ہماری پراکندگی کو اتحاد وا تفاق ميں تبدےل کيا اور ہمارے خون کی حفاظت کی اور خود مظلوم
اور بے گناہ مارے گئے پروردگارا !تو اسے ، اس کے ماننے والوں ، دوستوں اور خونخواہوں کو
بخش دے ۔
مغيرہ نے اپنی تقریر کے اختتام پرعثمان کے قاتلوں پر لعنت بهيجی یہاں پر حجر اڻه
کهڑے ہوئے اور مغيرہ پر ایسی فریادبلند کی کہ مسجد کے اندر اور باہر موجود سب لوگوں نے
ان کی آواز سن لی ،انهوں نے مغيرہ سے مخاطب ہوکر چيختے پکارتے ہوئے کہا؛ تم اپنے
بوڑهاپے کی وجہ سے سے نہيں سمجهتے ہو کہ کس کے ساته الجه رہے ہواور جهگڑا کررہے
ہو؟ اے مرد ! حکم دے تا کہ بيت المال سے ميرا وظيفہ مجهے دیاجائے کيوںکہ تيرے حکم سے
ميرا حق مجه سے روکاگياہے ۔ جبکہ تجهے یہ اختيار نہيں ہے اورہمارے ساته تم نے ظلم کيا
ہے۔ سابق گورنر ایسا نہيں کرتے تهے اور اس قسم کی جرات و جسارت نہيں کرتے تهے ۔ تم
نے اب حد سے زیادہ تجاوز کيا ہے اور یہاں تک پہنچے ہو کہ امير المؤمنين علی عليہ السلام
کی مذمت اورسرزنش کرتے ہو اور ظالموں کی مدح و ثنا کرتے ہو!!

حجر کے مقابل ميں مغيرہ کی سياست
طبری کہتا ہے:
جب حجر کی بات یہاں تک پہنچی تو مسجد ميںدو تہائی لوگ کهڑے ہوگئے اور ایک آواز ميں
کہا: جی ہاں ،صحيح ہے مغيرہ ! خداکی قسم حجر سچ کہتا ہے اور حق کا دفاع کررہا ہے تيری
یہ باتيں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہيں رکهتی ہيں ، حکم دو تا کہ ہمارے حصہ کو بيت المال سے
ادا کریںا ور یہيں پر همارا حق دیدیں لوگوں نے مغيرہ کو ایسی باتيں بہت سنائيں اور شور و غل
بر پا ہوگےا مغيرہ منبر سے نيچے اترا اور اپنے گهر چلا گيا اس کے طرفدار اجازت حاصل کرکے
اس کے پاس گئے اور اس سے کہا: مغيرہ ! تم کيوں اس شخص کو اجازت دیتے ہو کہ یہ تيرے
سامنے تيری حکومت کے بارے اس طرح گستاخانہ باتےں کرتاہے؟ تم نے اپنی اس روش کی
وجہ سے اپنے لئے مشکل مول لی ہے اول یہ کہ : اپنی فرمانروائی کو کمزور کردیا ہے دوسرے
یہ کہ معاویہ کی سرزنش اور غضب ميں اپنے آپ کو مبتلا کردےاہے ، کيونکہ اگر آج کی
روئدادکی رپورٹ معاویہ تک پہنچے تو تيرے لئے معاویہ کی طرف سے حجر کی بے احترامی
سے بد تر جسارت و سرزنش ہوگی“
طبری کہتا ہے :
مغيرہ نے ان کے جواب ميںکہا: ميں نے اپنی سياست اور نرم رویہ سے اسے موت کے
نزدیک پہنچادیا ہے کيونکہ عنقریب ہی اےک نيا گورنر اس شہر ميں آنے والا ہے ۔ حجر اس کے
ساته بهی ميرے جيسا سلوک کرے گا جس بے حيائی کا اس نے آج مظاہرہ کيا اور آپ نے بهی
دیکها ، اس گورنر کے سامنے بهی وہ اس کی تکرار کرے گا اور وہ پہلے ہی مرحلہ ميں حجر کو
گرفتار کرکے بد ترین صورت ميںا سے قتل کر ڈالے گا اور اب مير ی عمر آخر کو پہنچی رہی ہے
اور ضعف و سستی سے دوچار ہوں ميں نہيں چاہتا ہوں اس شہر ميں دہشت گردی کا آغاز
ميری وجہ سے ہوجائے اور ميرے ہاته اہل کوفہ کے نيک ترین اور متدین ترین شخصيتوں کے خون
سے رنگيں ہوجائيں اوران کا خون بہاےاجائے ا ور وہ اس طرح فيض سعادت کو پہنچيں اور ميرے
نصيب شقاوت و بدبختی ہوجائے اور معاویہ اس دنيا ميں زےادہ سے زےادہ ریاست و عزت کا
مالک بن جائے اور مغيرہ آخرت کی ذلت و بدبختی ميں مبتلا ہوجائے بطور کلی فی الحال ميری
روش یہ ہے کہ جو بهی ميرے ساته ہے مجه سے نيکی کرے ميں اس کی نيکی کا اجر اسے
دوں گا اور جو کوئی ميرے ساته مخالفت اوردشمنی کرے اسے معاف کرکے اُس کے حال پر
چهوڑ دوں گا ، برباد ، حليم اور خاموش طبع افرادکی ستائش کروں گا ۔ بے عقل ، نادان اورنکتہ
چينی کرنے والوںکو نصيحت کروں گا تا کہ جس دن موت ميرے اور ان کے درميان جدائی و
دوری ایجاد کرے ، اور اس صورت ميں جس دن کوفہ کے لوگ ميرے بعد نئے گورنر کی سخت
روش کا مشاہدہ کریں گے تو اس وقت ميرے طریقہ کار کی ستائش کریں گے اور مجهے نيکی
کے ساته یاد کریں گے ۔

زیاد بن ابيہ کے دوران حجر کاقيام
ویل امک یا حجر سقط العشاء بک علی سرحان
افسوس ہو تيری مال کی حالت پر اے حجر ! کہ تم بهيڑ یے کا لقمہ بن گئے . زیاد بن ابيہ

حجر سے زیاد کی گفتگو
مغيرہ ۴١ هء سے ۵١ هء تک کوفہ کا گورنر تها ، اس نے ۵١ هء ميں وفات پائی، اس تاریخ
کے بعد بصرے اور کوفہ کی فرمانروائی زیاد بن ابی سفيان کو سونپی گئی زیاد کوفہ کی طرف
روانہ ہوا اور دار الامارہ ميں داخل ہوا ۔
ابن سعد کی “ طبقات” اور ذہبی کی “ سير اعلام النبلاء ”’ ميں آیا ہے:
”جب زیاد بن ابيہ گورنر کی حيثيت سے کوفہ ميں پہنچا اس نے حجر بن عدی کو اپنے پاس
بلایا اور ان سے کہا: حجر ! کيا تم جانتے ہو کہ ميں تجهے دوسروں سے بہتر پہچانتا ہوں جيسا
کہ تم جانتے ہو کہ ميں اور تم دونوں ایک دن علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے محب اور
دوستدار تهے ليکن آج حالات بدل گئے ہيں تجهے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کوئی ایسا کام
انجام نہ دینا کہ تيرے خون کا ایک قطرہ ميرے ہاته پر گر جائے ، چنانچہ اگر مسئلہ یہاں تک پہنچا
تو ميں تم سب کاخون بہادوں گا حجر ! اپنی زبان پر کنڻرول کرنا اور اپنے گهر کے ایک کونے ميں
بيڻهنا کہ اےسی صورت ميں تيری جگہ یہ تخت حکمرانی ہوگی اور تيری تمام ضروریات پوری ہوں
گی ۔
حجر ، تجهے تيری جان کيلئے خداکی قسم دیتاہوں کہ اپنا خيال رکهنا ميں تيری جلد
بازی سے باخبرہوں اے ابو عبدا لرحمان ١ ا ن ذليل ، بد معاش ، جاہل اور نادان لوگوں سے دور
رہنا ایسا نہ ہو کہ لوگ تيری فکر کو بدل ڈاليں اور تيرے عقيدہ کو منحرف کرڈالےںاگر تم اس کے
علاوہ کچه ثابت ہوئے اور بيوقوفوں کی راہ پرچلے تو تم نے ميری نظر ميں اپنے مقام کو پست و
حقير بنادیا اور اپنی حيثيت کو گرادیا ہے حجر ! جان لو کہ اس صورت ميں آسانی کے ساته تم
سے دست بردار نہيں ہوںگا اورتجهے سزا دینے ميں کسی بهی جسمانی اذیت سے دریغ
نہيں کروں گا ۔
حجر نے زیاد بن ابيہ کے جواب ميںا س مختصر جملہ پر اکتفا کيا : تيری بات کو ميں
سمجه گيا اور زیاد بن ابيہ کے خلاف حجر کی بغاوت
اس طرح شيعہ حجر کے گهر آمد و رفت کرتے تهے اور ان کی ہمت افزائی کرتے تهے کہ
تم ہمارے رئيس و سرپرست ہو ، دیگر لوگوں کی نسبت تمہيں زیاد کی اس ناشائستہ حرکتوں
اور طریقہ کار کا زےادہ انکارکرنا چاہئے اور علی عليہ السلام کے خلاف اس کے لعن کے مقابلہ
ميںکهڑا ہونا چاہئے جب حجر مسجد کی طرف جاتے تو شيعيان علی بهی ان کے ساته مسجد
جاتے تهے یہاں تک کہ زیاد بصرہ چلا گيا اور عمرو ابن حریث کو اپنی جگہ پر جانشين مقر رکيا
عمرو نے ایک شخص کو حجر کے پاس بهيجا تا کہ پوچهے کہ اس اجتماع کا سبب کيا تها؟ اور
کيوں یہ لوگ تيرے گرد جمع ہوئے تهے جبکہ تم نے اميرکے ساته عہد و پيمان باندها ہے اور اس
سے مدد کا وعدہ کےا ہے۔
حجر نے عمرو بن حریث کے قاصد کو کہا: کيا تم خود نہيں جانتے ہو کہ کيا کرتے ہو؟ دور
ہوجاؤ ! عمرو بن حریث نے حجر کی باتوںکے بارے ميں زیاد بن ابيہ کو من و عن رپورٹ دی اور یہ
جملہ بهی اضافہ کيا کہ : اگر کوفہ کی ضرورت رکهتے ہو تو فوراً خودکو کوفہ پہنچاوٴ ۔
زیاد عمرو کے خط کو پڑهنے کے بعد فوراً کوفہ کی طرف روانہ ہوا ور شہر ميں داخل
ہوگے
---------
١۔ عربی زبان ميں اگر کسی کا احترام کرنا چاہتے ہيں تو ا س کی کنيت سے خطاب کرتے ہيں ۔
تيرے پوشيدہ مقاصد سے بهی آگاہ ہوا اس کے بعد اپنے گهرچلے گئے گورنر کی طرف سے حجر کو بلانے کی
خبران کے دوستوں او رشيعيان امير المؤمنين عليہ السلام کو پہنچی ، وہ اسکے گهر گئے اور انهےں بلاےا اور
گفتگو کی علت پوچهی حجر نے زیاد کی باتوں سے انهيں آگاہ کيا ۔ اس کے دوستوں نے کہا: زیاد کی باتيں تيرے
لئے اصلاح و خير خواہی کا پہلو نہيں رکهتی ہيں ۔

طبری روایت کرتا ہے : زیاد پہلے دار الامارہ ميں داخل ہوا اس کے بعد ریشمی قبا زیب
تن کئے ہوئے سبز عبا شانوں پر رکه کر سر کے بالوں کو کنگهی کرکے مسجد کی طرف روانہ
ہوا اور منبر پر گيا،اس وقت حجر اپنے ساتهيوں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ مسجد کے ایک
کونے ميںبيڻهے ہوئے تهے ، زیاد نے حمد و ثنا کے بعد کہا؛ سر کشی اور گمراہی کا انجام
خطرناک ہے یہ چونکہ آرام وآسائش ميں زندگی کرتے تهے اس لئے سر کش ہوئے ہيں اور
اطمينان حاصل کرکے ميرے مقابلہ ميں جسارت کی ہے خداکی قسم ! اگر اپنی گمراہی سے
دست بردار نہيں ہو ئے اور سيدهے راستے پر نہ آئے توميں تمہارے درد کا علاج جانتا ہوں اگر
ميں کوفہ کے علاقہ کو حجر کے حملات سے محفوط نہ رکه سکا اور اسے عبرتناک سزا نہ دے
سکا تو ميری کوئی قدر و منزل نہيں ہے افسوس ہو تيری ماں کی حالت پر اے حجر ! کہ تم
بهيڑیہ کا لقمہ ہوگئے ۔
طبری مزید نقل کرتا ہے : زیاد بن ابيہ نے ایک دن ایک لمبی چوڑی تقریر کی اور نماز
ميں تاخير کی حجر بن عدی نے زبان کهولی اور کہا؛ زیاد ! نماز کا خيال رکهنا ، نماز کا وقت گزر
گيا ليکن زیاد بن ابيہ نے اس کی باتوں کی طرف توجہ نہيں کی اور اپنی تقریری جاری رکهی
پهر سے حجر نے بلند آواز نماز ! نماز! زیاد نے پهر بهی اپنی تقریر کو جاری رکها جب حجرکو
وقت نمازکے گزرجانے کا خوف ہوا تو اس نے مسجد ميں موجود کنکریوں سے دونوں مڻهياں
بهرکر پهينکا اور خود نماز کيلئے کهڑے ہوگئے لوگ بهی ان کے ساته نماز کيلئے اڻه کهڑے ہوئے
جب زیاد نے اس حالت کا مشاہد کيا تو فوراً منبر سے اتر کر نماز کيلئے کهڑا ہوگيا لوگوں نے
بهی اس کے ساته نماز ادا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن
ميں حجر کے حالات بهی منعکس کئے اور بہت سے دوسرے مطالب بهی اس کے خلاف لکهے۔
معاویہ نے زیاد کے خط کے جواب ميں لکها : اس کی گردن ميں ایک بهاری زنجير بانده
کر ميرے پاس بهيج دو ۔
استيعاب کا مؤلف اس داستان کو اس صورت ميںبيان کرتا ہے جب معاویہ نے زید کو
عراق اور اس کے نواحی علاقوں کی گورنری سوپنی تو زیادنے اس علاقہ ميں برے سلوک او
رسختی کا آغاز کيا اس وجہ سے حجر نے اس کی اطاعت کرنے سے انکار کيا ليکن معاویہ کی
حکمرانی کی نافرمانی نہيں کی علی عليہ السلام کے شيعوں اور ان کے پيروٴںميں سے بعض
لوگوں نے زیاد کو معزول کرنے کے سلسلہ ميںحجر کی حمایت کی اورا ن کی پيروی کی ایک
دن حجر نے زیاد کی طرف سے نماز ميں تاخير کرنے کی وجہ سے زیاد کی طرف پتهر پهينکے ۔
” اسد الغابہ ” اور ‘ الاصابہ ” کے مؤلفين نے بهی اس مطلب کی تائيد کی ہے ۔
طبری اس روداد کو ایک دوسری روایت ميں یوں نقل کرتاہے:
زیاد نے اپنی پوليس کو یہ آڈر جاری کيا کہ وہ حجر کو گرفتار کرکے اسکے پاس لے آئيں
،پوليس کے افراد جب حجر کے پاس پہنچے تو حجر کے ساتهيوں نے ان سے کہا : حجر ، کبهی
زیاد کے پاس نہيں جائےں گے ہم زیاد کيلئے کسی بهی قسم کے احترام کے قائل نہيں ہيں ۔
پوليس کے افسر نے دوسری بار چند ماٴمورین کو بهيج دیا تا کہ حجر کو پکڑ کر اس کے پاس لے
آئيں جب یہ ماٴمورین حجر کے نزدیک پہنچے تو حجر کے ساتهيوںنے گاليوں اور بدگوئی سے ان
کا جواب دیا ۔

حجر کے ساتهيوں کا متفرق ہونا:
زیادنے کوفہ کے بزرگوں اور اشراف کو اپنے پاس بلایا اور غضبناک حالت ميں ان سے
مخاطب ہوکر بولا : اے کوفہ کے لوگو ! ایک ہاته سے سر پهاڑتے ہو اوردوسرے ہاته سے مرہم
پڻی باندهتے ہو تمہارے جسم ميرے ساته اور دل حجر ،پاگل اور سراپا شر وفساد کے ساته ہيں
تم لوگ ميرے ساته ہو ليکن تمہارے بهائی ، بيڻے اور قبيلہ کے افراد حجر کے ساته ہيں یہ ميرے
ساته حيلہ اور فریب کے علاوہ کچه نہيں ہے ۔ خدا کی قسم یا تم لوگ فوراً اس سے دوری اور
بيزاری اختيار کروورنہ ایک ایسی قوم کو تمہارے شہر ميں بهيج دوں گا جو کہ تم کو سيدها
کرکے رکهدیں گے۔
جب زیاد کی بات یہاں تک پہنچی تو حضار مجلس اڻه کر کهڑے ہوئے اور کہا: ہم خداکی
پنا ہ چاہتے ہيں کہ آپکے احکام کی پيروی کرنے اور امير لمؤمنين (معاویہ ) اور قرآن کی اطاعت
کرنے کے علاوہ کوئی اور خيال نہيں رکهتے حجر کے بارے ميںجو بهی آپ کا حکم ہو ہم اطاعت
کرنے کے لئے حاضر ہيں آپ مطمئن رہيں ۔
زیاد نے کہا: پس تم ميں سے ہر ایک شخص اڻهے گا اور اپنے بهائی ، فرزندں و رشتہ
داروں اور قبيلہ کے لوگوں کو حجر کے گرد سے اپنی طرف بلائے اور تم ميں سے ہر شخص
حتیٰ الامکان یہ کوشش کرے کہ حجر کے ساتهی متفرق ہوجائيں ۔
کوفہ کے سرداروں نے زیاد کے حکم پر عمل کيا اور حجر کے گرد جمع ہوئے اکثر لوگوں
کو متفرق کردےاجب زیاد نے دیکهاکہ حجر کے اکثر ساتهی متفرق ہوگئے ہيں تو اس نے اپنے
پوليس افسر کو حکم دیا کہ حجر کے پاس جائے اگر اس نے بات مانی اور اطاعت کی تو اپنے
ساته ميرے پاس لے آوٴ ورنہ اپنے سپاہےوں کو حکم دے کہ بازار ميں موجود لکڑی کے کهمبوں
کو اکهاڑ کر ان پر حملہ کریں اور حجر کو ميرے پاس لائيںاورجو بهی اس راہ ميں رکاوٹ بنے اس
کی پڻائی کریں ۔
پوليس افسر نے اپنے افراد کو حکم دیا کہ بازار کے لکڑیوں کے کهمبوں کو اکهاڑ کر حملہ
کریں زیاد کی پوليس کے سپاہےوںنے ایساہی کيا اور ڈنڈوں کے ساته حجر کے ساتهيوں پر
حملہ آ ور ہوئے ۔
عمير بن یزدی کندی جو خاندان هند سے تعلق رکهتا تها اور “ ابو العمر طہ ” کے نام
سے مشہور تها ، نے کہا؛ اے حجر! تيرے ساتهيوں ميں ميرے سوا کسی کے پاس تلوار نہيں
ہے اور ایک شخص تو کچه کر ہی نہيں سکتا ہے حجر نے کہا:اب ميں کيا کروں مصلحت کيا ہے ؟
عمير نے کہا؛ تمہيں یہاں سے فوراً چلے جانا چاہئے اور اپنے قبيلہ کے افرادکے پاس پہنچنا
چاہئے تا کہ وہ تيری حمایت اور نصرت کریں ۔
اس وقت زیاد منبر پر چڑه کر کهڑا مشاہدہ کررہا تها کہ پوليس کے افراد ڈنڈوں سے حجر
کے افرد پر حملہ کررہے تهے حمراء ١ ميں سے بکر بن عبيہ عمودی نامی ایک شخص نے جو
---------------
١۔ حمراء ،ایک لقب تها خلافت کے دربار ميں موجود عربوںنے اس لقب کو ایرانيوں کيلئے رکها تها۔

حجر کے ساتهيوں ميں سے تها عمرو بن حمق ١ کے سر پر زور سے ایک ضرب لگائی وہ زمين
پر گر گيا ليکن قبيلہ ازد کے دو افراد نے اسے اڻها کر اس کے قبيلہ کے ایک شخص کے گهر لے
گئے عمر وکچه دن اس گهر ميں مخفی رہا اور ڻهيک ہونے کے بعد وہاں سے چلا گيا ۔
طبری کہتا ہے : اس حملہ کے بعد حجر کے ساتهی مسجد کے کندہ نامی دروازے کی
طر ف جمع ہوئے اس اثناء ميں ایک پوليس والے نے عبد الله بن خليفہ طائی پر ایک ڈنڈہ مارا وہ
زمين پر گرگيا اور پوليس والا یہ رجز پڑ ه رہاتها ۔
قد علمت یوم الهياج خلتی
انی اذا فئتی تولت
و کثرت عداتها او قلت
انی قتّال غداة بلت
ميرے دوست جانتے ہيں اگرميد ان کارزار ميں ميرا ہم رزم گروہ بهاگ جائے اور ہمارے دشمن
زیادہ ہوں ميں اس کمی کے باوجود ایساقتل عام کروں گا کہ دوسرے فرار کر جائيں گے۔
حجر مخفی ہوجا تے ہيں:
اس کے بعد حجر کے ساتهی مسجد کے ان دروازوں سے باہر نکلے جن کا نام کندہ تها
حجر گهوڑے پر سوارہو کر اپنے گهر کی طر ف چلے گئے پهر بهی اس کے بعض ساتهيو ںنے
اس کے گهر ميں اجتماع کيا، جو قبيلہٴ کندہ کے افراد کی نسبت کم تهے اسی جگہ پر حجر
کے سامنے زیاد کے ماٴمورین اور حجر کے ساتهيوں کے درميان ایک جنگ چهڑ گئی حجر نے
اپنے ساتهيوں سے مخاطب ہوکر کہا: افسوس ہے تم پر ! کيا کررہے ہو ؟ جنگ نہ کرو اور متفرق
ہوجاؤ ۔ ميں بعض کوچوں ميں سے گزر کر قبيلہ بنی حرب کی طرف جاتا ہوں اس کے بعد حجر
---------------
١۔ طبری عبدا لله بن عوف سے نقل کرتاہے کہ وہ کہتا ہے کہ مصعب کے قتل ہونے کے ایک سال بعد کو فہ ميں
داخل ہوا اتفاقاً راستہ ميں ایک احمری شخص کو دیکها جس دن عمر بن حمق زخمی ہوا تها اس دن سے اسے
نہيں دیکها تها اور تصور نہيں کرتا تها کہ اگر کبهی عمرو کے مارنے والے کو دیکه لوں تو اسے پہچان سکوں ليکن
چونکہ ميں نے اس کودیکهاتها تو احتمال دیا کہ یہ عمرو کا مارنے والا ہوناچاہئے ميں نے سوچا کہ اگر موضوع کو
سوال کی صورت ميں پيش کروں تو ممکن ہے بالکل انکار کرے۔ اس لئے ميں نے مسئلہ کو اس طرح پيش کيا : ميں
نے تمہيں اس روز کے بعد آج تک نہيں دیکها جب تم نے عمرو پر حملہ کرکے اس کے سر کو زخمی کردیا تها ، اس
نے جواب ميںکہا: تيری آنکهيں کتنی تيز بين اور تيری نظر کتنی رسا ہے ۔ جی ہاں جو کام اس دن مجه سے سرزد
ہوا ، اس کے بارے ميں آج تک پشيمان ہوں کيونکہ عمرو ایک لائق اور شائستہ شخص تهاجب ميرا گمان یقين ميں
بدل گيا تو ميں نے اس سے کہا: خدا کی قسم جب تک نہ تجه سے عمرو کا انتقام لے لوں تم سے دست بردار
نہيں ہوں گا ۔ اس نے مجه سے التماس اور درخواست کی کہ اسے معاف کردوں ليکن ميں نے اس کی بات کی
طرف توجہ نہيں کی ۔ ميرا ایک غلام جو ایرانی اور اصفہانی تها ، اس کے ہاته ميں ایک بهاری برچهی تهی ، اس
نے اس سے لے ليا اور پوری زور سے اس شخص کے سر پر دے مارا کہ وہ زمين پر گرگيا اور اسی حال ميں چهوڑ
کر ميں چلا گيا ۔ ليکن بعد ميں اس کا زخم ڻهيک ہوگيا تها کہ ایک بار پهر اس سے ملاقات ہوئی ہر بار جب وہ
مجهے دیکهتا تها تو کہتا تها : ميرے اور تيرے درميان خدا فيصلہ کرے گا۔ اور ميں بهی اس کے جواب ميں کہتا تها :
خداتيرے اور عمرو بن حمق کے درميان فيصلہ کرے ۔

اسی طرف روانہ ہو گئے ا ور سليم بن یزد نامی بنی حرب کے ایک شخص کے گهر ميں داخل
ہوئے زیاد کے ماٴمور اور پوليس جو حجر کا پيچها کررہے تهے نے اس گهر کو تحت نظر رکها اور
اسے اپنے محاصرہ ميں قرار دیا سليم نے جب اپنے گهر کو زیاد کے ماٴمورین کے محاصرہ ميں
پایاتو اس نے اپنی تلوارکهينچ لی تاکہ زیادکے ماٴمورین سے جنگ کرے اس کی بيڻيوں کے رونے
کی آواز بلند ہوئی حجر نے پوچها : سليم ! تم کيا کرنا چاہتے ہو ؟ اس نے جواب ميں کہا : ميں
ان لوگوں سے درخواست کرنا چاہتاہوں تاکہ آپ سے دست بردار ہوکرچلے جائيں ، اور اگر
انہوںنے ميری بات قبول نہ کی تو جب تک ميرے ہاته ميں یہ تلوار ہے ان سے لڑوں گا اورتمہارا
دفاع کروں گا حجر نے کہا: لا ابا لغيرک --- تيرے علاوہ بن باپ کا ہے ميں نے تيری بيڻيوںکيلئے
کيا مصيبت پےدا کی ہے ! سليم نے کہا: نہ ان کا رزق ميرے ہاته ميں ہے اور نہ ميں ان کا
محافظ ہوں ان کا رزق اور ان کی حفاظت اس خداکے ہاته ميں ہے جو ہميشہ زندہ ہے اورمرگ و
زوال اس کے لئے ہر گز نہيں ہے ميں کسی بهی قيمت پر اس ذلت کو برداشت نہيں کروں گا کہ
وہ ميرے گهر ميں داخل ہوکر ميرے مہمان اورجا گزےن شخصکو گرفتار کریں اور جب تک ميں
زندہ ہوں اور تلوار ميرے ہاته ميں ہے ہر گز اس کی اجازت نہيں دوں گا کہ تجهے ميرے گهر ميں
گرفتار کيا جائے اور تجهے اسيرکرکے زنجيروں ميں جکڑا جائے مگر یہ کہ مجهے تيرے سامنے
قتل کيا جائے اسکے بعد جو چاہيں کرےں حجر نے کہا: سليم ! تيرے اس گهر ميںکوئی سوراخ
یا کہيں پست دیوار نہيں ہے ؟ تا کہ ميں راستہ سے خود کو باہر پہنچا دوں ؟ شاےد خدا وند
عالم مجهے ان افراد کے شر سے اور تجهے جنگ و قتل سے نجات دے ؟ کيونکہ جب وہ مجهے
تيرے پاس نہ پائيں گے تو تجهے کوئی ضررر نہيں پہنچائيں گے سليم نے کہا؛ کيوں ، یہ ایک
سوراخ ہے یہاں سے نکل کر بنی عنبر اور دیگر قبيلوں کے ےہاں پہنچ سکتے ہو جو تيرے رشتہ
دار ہيں حجر سليم کے گهر سے چلے گئےاور کوچوں کے پيچ و خم سے گزر کر قبيلہٴ نخ کے
ےہاں پہنچ گئے اور اشتر کے بهائی عبدالله بن حارث کے گهر ميں داخل ہوئے حارث نے حجر کا
استقبال کيا اور ان کی مہماں نوازی اور حمایت کی ذمہ داری لے لی جو عبد الله کے گهرميں
تها ایک دن اسے اطلاع ملی کہ زیاد کی پوليس اسے قبيلہ نخ ميں ڈهونڈ رہی ہے اور اس کا
پيچها کررہی ہے اس کی سياہ فام کنيز نے پوليس والوں کو یہ اطلاع دی تهی حجر قبيلہٴ نخ
ميں ہے جب پوليس والے اس سے مطلع ہوئے تو حجر عبدالله کے گهر سے بهيس بدل کررات
کو نکل گئے اور خود عبد الله بهی سوار ہوکر اس کے ساته نکلا یہاں تک ربيعہ بن ناجد ازدی کے
گهرے ميں داخل ہوگئے ایک دن اور رات وہاں پر ڻهہرے اس طرح سپاہی کافی تلاش کے باوجود
حجر کو گرفتارنہ کرسکے اور نااميدی کے ساته زیاد کی طر ف واپس لوڻے پهر زیاد بن ابيہ نے
حجر کو گرفتار کرنے کيلئے ایک دوسری راہ کا انتخاب کيا اور اس طرح حجر بن عدی کو گرفتار
کيا گيا اگلی فصل ميں داستان کا باقی حصہ بيان کریں گے ۔