عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے(تيسری جلد)
 

تيسری فصل

عبد الله بن سبا اور سبائی کون ہيں ؟
سبا اور سبئی کا اصلی معنی
لغت ميں تحریف
مغيرہ کے دوران حجر بن عدی کاقا یم
حجر ابن عدی کی گرفتاری
حجر اور اُن کے ساتهيوں کا قتل
حجر کے قتل ہوجانے کا دلوں پر اثر
حجر کی روداد کا خلاصہ
لفظ سبئی ميں تحریف کا محرک
لفظ سبئی ميں تحریف کا سلسلہ
افسانہ سيف ميں سبيئہ کا معنی
عبدالله بن سبا کون ہے ؟
ابن سودا کون ہے؟
اس حصہ کے مآخذ

سبا و سبئی کا اصلی معنی
سباٴ بن یشجب بن یعرب سليل قحطان قریع العرب
سبا بن یشجب بن یعرب نسل قحطان اور عرب کا منتخب شدہ ہے ۔انساب سمعانی

کتاب کے اس حصہ ميں بحث کے عناوین
ابن سبا اور سبئيہ کے بارے ميں جو تمام افسانے ہم نے گزشتہ فصلوں ميں نقل کئے
اورا س کے بارے ميں جو روایتيں حدیث اور رجال کی کتابوں ميں درج ہوئی ہيں وہ سب کی
سب درج ذیل تين ناموں کيلئے جعل کی گئی ہيں ۔
١۔ عبدالله بن سبا
2. عبدالله بن سودا
٣۔ سبيئہ و سبائيہ
حقيقت کو روشن کرنے کيلئے ہم مجبور ہيں کہ جہاں تک ہميں فرصت اجازت دے
مذکورہ عناوین ميں سے ہر ایک کے بارے ميں الگ الگ بحث و تحقيق کریں ۔

سبئی کا معنی:
” سبائيہ ” و “ سبيئہ ” دو لفظ ہيں کہ از لحاظ لفط و معنی “یمانيہ ”و “یمنيہ ”کے مانند
ہيں ۔
سمعانی ( وفات ۵۶٢ ئه ) اپنی انساب ميں مادہٴ “ السبئی ” ميں اس لفظ کی وضاحت
ميں کہتا ہے: “ سبئی ” سين مہملہ پر فتحہ اور باء نقطہ دار سے “سبا بن یشجب بن یعرب
بن قحطان ” سے منسوب ہے ۔
ا بو بکر حازمی ہمدانی ( وفات ۵٨۴ هء) کتاب “ عجالة المبتدی ” ميں مادہٴ “ سبئی ” ميں
کہتا ہے : “سبئی ” سبا سے منسوب ہے کہ اس کا نام عامر بن یشجب بن یعرب بن قحطان ہے
اس کتاب کے ایک نسخہ ميں آیا ہے کہ سبئی کے نسب کے بارے ميں درج ذیل اشعار
بهی کہے گئے ہيں:
لسباٴ بن یشجب بن یعرب
سليل قحطان قریع العرب
نسب خير مرسل نبينا
عشرة الازد الاشعرینا
و حميرا و مذحجا و کندہ
انما رسادسا لهم فی العدة
و قد تيامنوا من اشام لہ
غسان لخم جذام عاملہ ١
---------
١۔بہترین پيغمبروں کو عرب کے دس قبيلوں سے نسبت دی گئی ہے کہ ان ميں سے سبا بن یشجب بن یعرب ہے
جو قبيلہ قحطان سے ہے اور عربوں کا سردار ہے اور فرمایا ہے کہ ان ميں سے چه قبيلے دائيں طرف سفر پر چلے
گئے وہ عبارت ہيں ازد ، اشعری ، حمير مذحج ، کندہ ،ا نمار ، اور دوسرے چار قبيلے شام کی طرف چلے گئے کہ
عبارت ہيں غسان لخم ، جذام اور عاملہ ۔

ت رمذی نے اپنی سنن ميں ، سورہٴ سبا کی تفسير ميں اورا سی طرح ابو داؤد نے اپنی
سنن ميںکتاب “الحروف ” ميں بيان کيا ہے کہ : ایک شخص نے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ
وسلم سے سوال کيا “ سبا ” کيا ہے ؟ کسی محلہ کا نام ہے ؟ یا کسی عورت کا نام ہے ؟
پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب ميں فرمایا : سبا، نہ کسی محلہ یا
مخصوص جگہ کا نام ہے اور نہ کسی عورت کا نام بلکہ سبا ایک شخص تها جس کی طرف سے
عربوں کے دس قبيلے منسوب ہيں ان ميں سے چه خاندان عبارت ہيں : اشعری ، ازد ، حمير ،
مذحج، انمار ،اور کندہ جنہوں نے دائيں طر ف سفر کيا ہے اور دوسرے چار خاندان جنہوں نے
شام کی طرف سفر کيا عبارت ہيں ؛ لخم ، جذام ، غسان اور عاملہ“
کتاب لساب العرب ميں لفظ سبا کے بارے ميں آیا ہے : “ سبا ’ ایک شخص کا نام ہے
جس سے یمن کے تمام قبائل منسوب ہيں“
یاقوت حموی نے “معجم البلدان ” ميں لغت “ سبا” کے بارے ميں کہا ہے :“ سبا ” س
اور ب پر فتح اور ہمزہ یا الف ممدودہ کے ساته یمن ميںایک علاقہ کا نام ہے کہ اس علاقہ کا
مرکزی شہر “ ماٴرب” ہے مزید اضافہ کرتا ہے : اس علاقے کو اس لئے سباکہا گيا ہے کہ وہاں پر
سبا بن یشجب کی اولاد سکونت کرتی تهی“
ابن حزم (- وفات ۴۵۶ ) اپنی کتاب “ جمہرة الانساب ” ميں جہاں پر یمانيہ کے نسب
کی تشریح کرتا ہے ، کہتا ہے : تمام یمانيوں کی نسل قحطان کی فرزندوں تک پہنچتی ہے اس
کے بعد “ سبا ” کے مختلف خاندانوں کا نام ليتا ہے اور ان خاندانوں ميں سے ایک کی تشریح
ميںکہتا ہے وہ سبائی ہيں اور سبائی کے علاوہ اس خاندان کيلئے کوئی دوسری نسبت نہيں
دی گئی ہے ۔
ابن خلدون ( وفات ٨٠٨ هء) اپنے مقدمہ ميںکہتا ہے : رہا اہل یمن، تو سبا کی اولاد اور
نسل سے ہيںا ورجب عربوں کے طبقہٴ دوم کی با ت آگئی تو مزید کہتا ہے : یہ طبقہ عربوں
ميں یمنی اور سبائی کے نام سے معروف ہے قبائل قحطان کے شام اور عراق کی طرف کوچ
کرنے کے بعد انہيں یاد کرتے ہيں اور کہتے ہيں جو کچه بيان ہوا وہ ان لوگوں کے حالات کی
تشریح تهی جو قبائل سبا سے تهے اور یمن سے ہجرت کرکے عراق ميں سکونت اختيار کرگئے
ہيں قبائل سبا کے چار گروہوں نے بهی شام ميں سکونت اختيار کی اور دوسرے چه گروہ اپنے
اصلی وطن یمن ہی ميں رہے“
ابن خلدون مزید کہتا ہے: انصار سبا کی نسل سے ہيںخزاعہ ، اوس اور خزرج بهی وہی
نسل ہيں،
ذہبی ( وفات ٧۴٨ هء) المشتبہ ميں سباکے بارے ميں کہتا ہے : سبائی مصر ميں
ایکہے ہيں ان ہی ميں سے کئی افراد ہيں جن کے نام حسب ذیل ہيں عبدالله بن هبيرہ معروف
بہ ابو ہبيرہ
ابن حجر ( وفات ٨۵٢ هء) اپنی کتاب “ تبصرة المتنبہ ” ميں لفظ سبا کے بارے ميں کہتا
“ سبا” ایک قبيلہ کا باپ ہے اور “ سبئی ” کی شرح ميںکہتا ہے : “ سبا” ایک قبيلہ کانام ہے
اس قبيلہ سے عبد الله بن هبيرہ سبائی معروف بہ ابو ہبيرہ ہے ۔ابن ماکولا ( وفات ۴٧۵ هء) ‘
الاکمال ” ١
ميں کہتا ہے : سبئی ایک قبيلہ سے منسوب ہے اسکے بہت سے افراد ہيں اور وہ مصر ميں
آبادہيں ۔

سبئی راوی:
قبيلہٴ سبا اور “ سبيئہ ” کے معنی کو بيشتر پہچانے کيلئے ہم یہاں پر راویوں کے ایک
گروہ کا ذکر کرتے ہيں جنہيں علمائے حدیث اور تاریخ نے سبا بن یشجب سے منسوب کيا ہے
اور اسی لئے انهيں سبئی کہتے ہيں:

١۔ عبدالله بن هبيرہ : یہ قبيلہٴ سبا کے راویوں ميں سے ایک معروف راوی ہے علمائے
حدیث اور رجال نے اس کے نسب کی اپنی کتابوں ميںنشان دہی کی ہے چنانچہ : ابن ماکولا و
سمعانی اپنی انساب ميں لفظ “ سبا” کی تشریح ميں سبا بن یشجب سے منسوب سبئی
نام کے بعض حدیث کے راویوں کا نام ليتے ہوئے کہتے ہيں : سبیء راویوں ميں سے من جملہ
عبدالله بن هبيرہ سبائی ہے ۔
ابن قيسرانی : محمد بن طاہر بن علی مقدسی ( وفات ۵٠٧ هء) نے بهی اسی ابو ہبيرہ
کے حالات کے بارے ميںا پنی کتاب “الجمع بےن رجال الصحيحين” ميں درج کيا اور جہاں پر “
صحيح مسلم “کے راویوں کے حالات پر روشنی ڈالتاہے عبدالله کے نام پر پہنچ کر اس کے بارے
ميںکہتا ہے : عبدالله ابن هبيرہ سبائی مصری نے ابو تميم سے حدیث نقل کی ہے ۔
”تہذیب التہذیب ” ميں بهی اسی عبد الله اورا س کے تمام اساتذہ اور شاگردوں کا
بهی مفصل طور پر ذکر کيا ہے ۔
ابن حجر اسی کتاب ميں کہتا ہے : علم حدیث کے علماء نے عبد الله بن هبيرہ کی
توثيق اور تائيد کی ہے تمام علماء اس موضوع پر اتفاق نطر رکهتے ہيں اور اس کے بعد کہتے ہيں
: ابن ہبيرہ کی پيدائش عام الجماعة یعنی ۴٠ هء ميںا ور وفات ١٢٠ ميں واقع ہوئی ہے ۔
ن ےز ابن حجر تقریب التہذیب ميں کہتا ہے عبدالله بن ہبيرہ بن اسد سبائی حضرمی مصر
کے لوگوں ميں سے تها وہ علمائے حدیث کی نظر ميں طبقہ سوم کے راویوں ميں باوثوق اور
قابل اعتماد شخص ہے اس نے ٨١ سال کی عمر ميں وفات پائی ہے ۔
ان دو کتابوں ميں “ تہذیب التہذیب ” اور “ تقریب التہذیب” ميں عبد الله بن ہبيرہ سبائی
ان راویوں ميں شمار ہوا ہے جن سے صحاح کے مولفين ، سنن مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ،
نسائی اور ابن ماجہ نے حدیث روایت کی ہے اور احمد حنبل نے اپنی مسند کے باب مسند ابو
نضرہٴ غفاری ميں اس سے حدیث نقل کيا ہے ۔
---------
١۔ کتاب اکمال ميں راویوں کو ہر قبيلہ کے لغت ميںتعارف کراتے ہيں۔

٢۔ عمارة بن شبيب سبئی :وہ سبئی راویوں ميں سے ایک اور راوی ہےجس کا نام
استيعاب ، اسدا لغابہ ، اور اصابہ ميں پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی فہرست
ميں ذکر ہوا ہے۔
استيعاب کا مولف کہتا ہے : عمارة بن شبيب سبائی اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ
وسلم ميں شمار کيا گيا ہے اور ابو عبدالرحمان جبلی نے اس سے حدیث نقل کيا ہے ۔
ا سد الغابہ ميں بهی عمارة بن شبيب کے بارے ميں یہی مطالب لکهے گئے ہيں اور اس
کے بعد اضافہ کيا گيا ہے : اس نے رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کيا ہے
۔ صاحب اسدالغابہ اس سلسلہ ميں بات کو اس بيان پر ختم کرتے ہيں کہ : سبیء جو “ س”
بدون نقطہ اور ایک نقطہ والے “ ب” سے لکها جاتا ہے ، اس کو کہتے ہيں جو سبا سے منسوب
ہو۔
صاحب “ الاصابہ” عمارة ابن شبيب کے حالات کی تشریح ميںکہتا ہے : وہ ۵٠ ئه ميں
فوت ہوا ہے ۔
معروف کتاب صحيح بخاری کے مؤلف امام بخاری نے بهی اس کے حالات کی تشریح اور
تفصيل اپنی رجال کی کتاب ‘ تاریخ الکبير ” ميں درج کی ہے اور اس کے بعد اس سے ایک روایت
نقل کرکے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس خصوصی حدیث کو ضعيف شمار کيا ہے ۔
ابن حجر بهی اسی عمارة بن شبيب سبئی کو کتاب “ تہذیب التہذیب ” اور “ تقریب
التہذیب ” ميں درج کرتے ہوئے کہتا ہے : ترمذی و نسائی نے اپنی سنن ميںا س سے حدیث
نقل کی ہے ۔

٣۔ ابو رشد بن حنش سبئی : یہ سبئی راویوں ميں سے ایک اور راوی ہے کہ مسلم نے
اپنی صحيح ميں اور نسائی و ترمذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے اپنی سنن ميںا س سے حدیث
نقل کی ہے چونکہ ابن حجر نے بهی اس کے نام کو کتاب “ تہذیب التہذیب ” ا ور “ تقریب
التہذیب ” ميںدرج کياہے اور اسکے بارے ميںاور ایک دوسرے سبئی راوی کے بارے ميںکہتا ہے
: عمرو بن حنظلہ سبئی و ابو رشد بن صنعانی صنعا ، یمن کے رہنے والے تهے اور باوثوق اور
قابل اعتماد ہيں ۔
ذہبی نے بهی انہيں مطالب کو اپنی تاریخ ميںدرج کرتے ہوئے اضافہ کيا ہے کہ اس نے
مغرب زمين کی جنگ ميں شرکت کی اور افریقہ ميں سکونت اختيار کی اور اسی وجہ سے اس
کے بيشتر دوست او ر شاگرد اہل مصر ہيں اس نے افریقہ ميں ١٠٠ هء ميں محاذ جنگ پر رحلت
کی ۔
ابن حکم اپنی کتاب “ فتوح افریقہ ” ميں کہتا ہے : جب مسلمانوں نے “ سردانيہ ” کو
اپنے قبضہ ميں ليا ، تو جنگی غنائم سے متعلق بہت ظلم کيا اور واپسی پر جب کشتی ميں
سوار ہوئے تو کشتی کے ڈوبنے کی وجہ سے سب دریا ميں غرق ہوگئے صرف ابو عبدالرحمان
جبلی اور حنش بن عبدا لله سبئی بچ گئے کيونکہ ان دو افراد نے غنائم جنگی سے متعلق ظلم
ميں شرکت نہيں کی تهی ۔

۴۔ ابو عثمان حبشانی : ١٢۶ ئه ميں فوت ہوا ہے ۔

۵۔ ازہر بن عبدا لله سبئی : ٢٠۵ ئه ميں مصر ميں فوت ہوا۔

۶۔ اسد بن عبدا لرحمان سبئی اندلسی : وہ علاقہ “ بيرہ” کا قاضی تها یہ شخص ۵٠ ا
هء کے بعد بهی زندہ تها ۔

٧۔ جبلہ ابن زہير سبئی : یہ یمن کا رہنے والا تها ۔

٨۔ سليمان بن بکار سبئی : وہ بهی اہل یمن تها۔

٩۔ سعد سبئی : ابن حجر “ا صابہ” ميں اس کے حالات کی تشریح ميں کہتا ہے :
واقدی اسے ان لوگوںميں سے جانتا ہے جنہوں نے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے
زمانہ ميںا سلام قبول کيا ۔
یہ تهے راویوں اور حدیث کے ناقلوں کے چند افراد کہ جن کو سمعانی اور ابن ماکو نے
لفط “سبائی” کے بارے ميں چند دیگر سبئی کے ساته ان کے حالات لکهے ہيں اور ان کی
اساتذہ اور شاگردوں کا تعارف کراےاہے ۔ اگر کوئی شخص رجال اور حدیث کی کتابوں ميں بيشتر
تحقيق کرے تو مزید بہت سے راویوں کو پيدا کر ے گا جو قبلہٴ قحطان سے منسوب ہونے کی
وجہ سے سبئی کہے جاتے ہيں ۔
نتيجہ کے طور پر یہ راوی اور دسيوں دیگر راوی سبا بن یشجب بن یعرب قحطان سے
منسوب ہونے کی وجہ سے سبئی کہے جاتے ہيںا ور اسی نسب سے ،معروف ہوئے ہيں
علمائے حدیث و رجال نے ان کی روایتوں اور نام کو اسی عنوان او رنسبت سے اپنی کتابوں ميں
درج کرکے ان کے اساتذہ اور شاگرودوںکے بارے ميں مفصل تشریح لکهی ہے اور یہ سبئی
راوی دوسری صدی کے وسط تک اکثر اسلامی ملکوںا ور شہروں ميں موجود تهے اور وہيں پر
زندگی گذارتےتهے اور اسی عنوان اور نسبت سے پہچانے جاتے تهے یہ بذات خود لفط سبئی و
سبيئہ کے اصلی اور صحيح معنی کی علامت ہے اور یہ اس بات کی ایک اور دليل ہے کہ ےہ
لفظ تمام علماء اور مؤلفين کے نزدیک دوسری صدی ہجری کے وسط تک قبيلہ کی نسبت پر
دلالت کرتا تها نہ کسی مذہبی فرقہ کے وجود پر جو بعد ميں جعل کيا گيا ہے ۔
یہ سبئی راوی علمائے حدیث کی نظر ميںا یسے معروف و شناختہ شدہ اور قابل
اطمينان ہيں کہ حدیث کی صحاح ، سنن اور سند و دیگر صاحبان مآخذ و حدیث کے معتبر کتابوں
کے مؤلفين نے بغےرکسی شک شبہ، کے ان سے احادیث نقل کی ہيں جبکہ یہی علماء اس
زمانے ميں شيعہ راویوں کی روایتوں اور حدیثوں کو علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے شيعہ
ہونے کے جرم ميں سختی سے ردکيا کرتے تهے اور اس قسم کے راویوں کو ضعيف اور ناقابل
اعتبار جانتے تهے اور اپنی کتابوں ميں شيعہ راویوں سے ایک بهی حدےث نقل نہيںکرتے تهے
اس زمانے ميں اس سبئی راویوں سے بغےرکسی رکاوٹ کے روایتيں اور احادیث نقل کرکے
اپنی کتابوں ميں درج کرتے تهے اوریہ اس بات کی دليل ہے کہ سبئيہ ان کے زمانے اور نظر ميں
قبيلگی نسبت کے علاوہ کسی اور معنی و مفہوم کی ضمانت پيش نہيں کرتا تها اور یہ لفظ
کسی بهی فرقہ و مذہبی گروہ پر دلالت نہيں کرتا تهاکہ جس کی وجہ سے ان سے احادیث
قبول کرنے ميں کوئی رکاوٹ پيش آئے اور ان علماء کی نظر ميں ان سے نقل احادیث اعتبار کے
درجہ سے گرجائے بلکہ یہ مفہوم بعد والے زمانے ميں وجود ميں آیا ہے چنانچہ خدا کی مدد
سے ہم اگلے حصہ ميں ‘ ‘ تحریف سبيئہ ” کے عنوان سے اس حقيقت سے پردہ اڻهائيں گے ۔